نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

مدارس کے خلاف امریکی خوشنودی کے لیے جرنیلی عزائم

اریب اطہر by اریب اطہر
3 ستمبر 2024
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, اگست 2024
0

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کے بعد سے فوج اور اس کے خفیہ ادارے جس انداز میں اور جن راستوں سے مدارس پر حملہ آور ہوئے اور جس طرح سرکاری مشینری اور وسائل اور میڈیا پراپیگنڈوں کا سہارا لے کر عام مسلمانوں کو مدارس سے بدظن کرنے کی کوششیں کی گئیں یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حکومت نے عید الاضحیٰ پر مدارس کی جانب سے کھالیں وصول کرنے پر پابندی لگا دی۔ واضح رہے کہ اس سال فوجی فاؤنڈیشن کی گوشت کی کمپنی قربانی کی سروس فراہم کرنے کا آغاز کررہی تھی، جس کے لیے بڑے پیمانے پر مارکیٹنگ بھی کی گئی تھی۔ حکومتی پابندیوں اور مدارس کی جانب سے ان اعلانات کے باوجود کہ مدارس اس سال کھالیں نہیں جمع کریں گے لوگوں نے بہت سے مدارس میں زبردستی کھالیں لا کر جمع کروانی شروع کردیں۔ جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بہت سے مدارس کے مہتمم حضرات کو گرفتار بھی کیا۔ بہرحال اس حکومتی فیصلے اور مس مینجمنٹ کا یہ اثر ہوا کہ اس سال کھالیں مناسب طریقے سے جمع نہ ہوسکنے کے سبب ضائع ہوئیں اور فیکٹریوں میں لیدر گارمنٹس کے ایکسپورٹ آرڈرز بھی پورے نہ ہوسکے۔ 

کبھی یہ سہولیات دینے کے نام پر مدارس کے تعلیمی نظام میں نقب لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی بے تکے الزامات۔ مشرف جیسے صلیبی غلام نے بھی اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد ایک دفعہ علماء اور مشائخ کے اسّی رکنی وفد سے ملاقات میں کہا تھا کہ حکومت دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے لیکن ساتھ ہی کہا تھا کہ حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرے گی۔ مشرف نے علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عالمی سطح پر دینی مدارس کا بڑا حامی ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ مدارس سب سے بڑی این جی اوز (غیر سرکاری ادارے) ہیں جو اسّی لاکھ بچوں کو مفت تعلیم، رہائش اور خوراک مہیا کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ چرب زبانی صرف دکھاوے کے لیے ہی ہوتی ہے لہٰذا سب ہی نے دیکھا کہ مشرف نے اسلام آباد میں سکیورٹی کے نام پر مساجد و مدارس کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں لال مسجد کی تحریک شروع ہوئی۔ افغانستان میں جاری امریکی جنگ کے کے دوران دو دہائیوں تک تو فوج اپنی سی کوشش کرتی رہی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں آقاؤں کی شکست کے بعد پاکستان میں مدارس کو دباؤ میں لانے کے لیے امریکی اشاروں پر مدارس کے خلاف جنگ کو یہ اگلے مرحلے تک لے جانے کے خواہشمند ہیں جس کے لیے وہ ہر ہتھکنڈہ آزمانے کو تیار ہیں۔

2019ء میں وفاقی حکومت نے ایک نئے ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم کی بنیاد رکھی۔ بظاہر اس کا مقصد مدارس کی رجسٹریشن کے عمل میں مدد کرنا، ان کی سہولت کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرنا اور موجودہ تین الگ الگ تعلیمی نظاموں پبلک سکول، پرائیویٹ سکول اور مدارس کی ایک متفقہ نصاب کی طرف منتقلی تھا۔ اس اقدام کا مقصد ملک کے ہر قسم کے طلبہ کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا اور مذہبی اور جدید تعلیمات کے درمیان فرق کو ختم کرنا تھا۔ ایک تو یہ اہداف بالکل اسی طرح مضحکہ خیز ہیں جیسے انجینئرنگ کالج اور میڈیکل کالج کے نصاب کو ایک بنانے کی بات کی جائے۔ دوسری مضحکہ خیز بات اس ادارے کے ڈائریکٹر میجر جنرل ریٹائرڈ غلام قمر صاحب ہیں۔ جنکی مذہبی تعلیم کیا ہے اسکے متعلق تو کچھ کہنا ہی فضول ہے، لیکن موصوف اپنے انٹرویو میں خود ہی اقرار کرتے ہیں کہ وہ (عصری علوم میں بھی)ایک اوسط درجے کے طالب علم تھے اور ان کی زیادہ توجہ کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیوں کی طرف ہوتی تھی، لیکن وہ چاہتے تھے کہ ضرور کچھ بنیں۔ یہی وہ بنیادی نفسیات ہے جس کے حامل اشخاص کو فوج بھرتی کے دوران منتخب کرتی ہے یعنی زیادہ مطالعہ نہ ہو، ذہین نہ ہو اور اپنی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ ڈھونڈ رہا ہو۔ پاکستان میں اس وقت بہت سے ادارے ہیں جن کی سربراہی متعلقہ تعلیم کے حامل پروفیشنلز کے پاس ہونی چاہیے لیکن یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے اداروں کی سربراہی یا تو ریٹائرڈ فوجی افسران کے پاس ہے یا پھر سیاسی تعیناتیاں ہیں۔ میجر جنرل ریٹائرڈ غلام قمر اپنے کیرئیر کے متعلق جو تفصیلات بتاتے ہیں اسے جاننے کے بعد بخوبی سمجھ آجاتا ہےکہ جس مقصد کے لیے مدارس کی اصلاحات کے نام پر یہ ادارہ قائم کیا گیا ہے اس کا امریکی جنگ سے کیسا براہ راست تعلق ہے۔ موصوف یو این مشن میں رہتے ہوئے صومالیہ بھی تعینات رہے اور ان کی تعیناتی کے دوران پاکستانی فوجی وہاں ہلاک بھی ہوئے، غالب گمان ہے الشباب کے ہاتھوں۔ یہ بھی امریکہ کا ان پر احسان ہے کہ براہ راست امریکہ کے لیے کرائے کے فوجی کے طور پر لڑنا اور مرنا کس قدر شرمندگی کی بات ہوتا لیکن امریکہ نے پاکستانی فوجیوں کے لیے بذریعہ یو این مشن لڑنے کا ایک آسان راستہ فراہم کردیا ۔ اب پاکستانی فوجی سینہ تان کر کہتا ہے کہ ہم وہاں امن قائم کرنے کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔

موصوف سوات اور وزیرستان میں ہونے والی جنگ بھی کمانڈ کرتے رہے اس دوران وہاں جن عام شہریوں کو قیدی بنایا جاتا ان کی برین واشنگ پر مبنی تربیتی پروگرام کے خالق رہے۔ اسی تربیتی پروگرام کو موصوف نے برطانیہ میں پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا۔ اس طرح جناب ڈاکٹر کا خطاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ موصوف کا جو سابقہ کیرئیر مجاہدین کے خلاف جنگ کرتے گزرا، مدارس کی اصلاحات کے نام پر اس ادارے کا قیام بھی اسی جنگ کا ایک حصہ ہے۔

سرکاری ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو میں یہ جرنیل اپنے ادارے کی کارکردگی بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم (ایک سال قبل) 14 ہزار 7 سو 54 مدارس رجسٹر کرچکے ہیں جس میں ہم ان کے مسلک، طلباء کی تعداد، مہتمم، وہاں کے نصاب اور دی جانے والی سہولیات کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ میزبان سوال پوچھتا ہے کہ پھر اس رجسٹریشن کے بعد انہیں کیا سہولیات ملیں گی تو موصوف بات گول کردیتے ہیں۔ پھر تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ رجسٹریشن کے بعد حکومت مدارس کو دو استاد دے گی جو وہاں انگریزی ریاضی اور سائنس پڑھائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم انہیں پہلی سے پانچویں کلاس تک اور پھر چھٹی سے آٹھویں کلاس تک کی قومی نصابی کتب فراہم کریں گے۔

موصوف نے چند دن قبل ایکسپریس اخبار میں لکھے گئے اپنے کالم میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ یہ الزامات ایسے جھوٹ اور دجل پر مبنی ہیں اور ایسی ڈھٹائی سے جناب نے تحریر کیے کہ بندہ ششدر رہ جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک دفعہ ایک امریکی جنرل افغانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ طالبان مجاہدین نہیں ہیں بلکہ مجاہدین تو ہم ہیں اور عاصم منیر بھی اپنے امریکی روحانی پیشواؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہتا ہے کہ پاک فوج اللہ کے حکم کے مطابق فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے جد وجہد کر رہی ہے۔ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے۔

موصوف نے اپنے کالم میں بظاہر یہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے کہ 2019ء میں وزارت تعلیم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق دینی مدارس رجسٹریشن سے انکاری ہیں، اور وہ گورے انگریز کے بنائے ہوئے 1860 ء کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہی مدارس کی رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں۔ مولانا محمد حنیف جالندھری نے ان کے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے اپنے کالم میں لکھا کہ:

’’یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ہم گورے انگریزوں کے ایکٹ کے تحت رجسٹریشن چاہتے ہیں۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ 2004ء میں طے ہونے والا سیکشن 21 خاص دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ہی ہے۔ ہم نے اس وقت یہ بات کہی تھی کہ اگر اس میں کسی بھی وقت ترمیم کی ضرورت ہو تو وہ بھی باہمی مشاورت سے کی جاسکتی ہے۔ یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ہم تو 1860ء کے سیکشن 21 کی بات کرتے ہیں جو ہم مسلمانوں نے باہمی مشاورت سے طے کیا، جبکہ آپ نے تو 1860ء کے سوسائٹی ایکٹ کو اس کی روح کے مطابق اور اس کی تمام دفعات کو من وعن قبول کیا ہوا ہے۔ کیا اب بھی اس ایکٹ کے تحت مختلف ادارے اور سوسائٹیاں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں؟ کیا آپ نے اس ایکٹ کو کبھی ختم کرنے کا سوچا بھی ہے؟ دوسری طرف ہمارا پورا عدالتی نظام برٹش لاء کے مطابق فیصلے کرتا ہے، جو گورے انگریز کا ہی وضع کردہ ہے، کیا کبھی اس سے پیچھا چھڑانے کا سوچا گیا؟ ایک پہلو اور بھی ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں رکاوٹ کون ہے؟ کہیں یہ دباؤ کسی انگریز، گورے یا کالےکافروں کی طرف سے تو نہیں؟ اندر کی بات تو کوئی بھی نہیں بتا رہا۔‘‘

مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مدارس کے خلاف الزامات اور پراپیگنڈہ کے جواب میں ایک پریس کانفرنس دیگر مسالک کے نمائندوں کے ہمراہ کی جس میں انہوں نے ریاستی اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈھائی کروڑ افراد ناخواندہ ہیں، الف ب ت پڑھنے کے بھی قابل نہیں مگر ریاستی اداروں کو پریشانی ہے تو مدارس کی کہ وہاں عصری علوم نہیں پڑھائے جاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مسودہ قانون پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے، اسمبلی سے بھی منظور ہو جاتا ہے اور پھر ایک فون آجاتا ہے کہ اسے روک دیا جائے۔ یہ سلوک جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے کب تک ہم یہ برداشت کریں گے؟ کب تک ان مدارس کو ذلیل کریں گے؟ کب تک ہم یہ ذلت برداشت کرتے رہیں گے؟ ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ہمیں مدارس کی آزادی اور خودمختاری کا ہرقیمت پر تحفظ کرنا ہے۔ اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس کام سے نہیں روک سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی ایجنڈے پر ہمارے ہاں بہت سے کام ہوتے ہیں۔ اور اب مغربی دنیا پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو یہ مدرسے ہیں۔ یہ (اہل مغرب) ایل جی بی ٹی کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو یہ اہل مدارس ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، یہ (اہل مغرب) سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرتے ہیں تو یہ لوگ (اہل مدارس) اس کی مخالفت کرتے ہیں، سود کی یہ لوگ مخالفت کرتے ہیں، ٹرانس جینڈر ایکٹ کی یہ لوگ مخالفت کرتے ہیں۔یہ سمجھ لیجیے کہ کسی شخص کو یا کسی ادارے کو ایک حد تک ہی دبایا جاسکتا ہے ایک حد ایسی آتی ہے جس کے بعد وہ دبنا قبول نہیں کرتا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ فوج اور حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے وہ حد نہ آجائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ تصادم ہو لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا اور ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ ہم بھی اپنا سر کھونے کے لیے میدان میں آجائیں۔

سچ تو یہ ہے کہ جس ملک میں مدارس و مساجد پر زمین تنگ کی جانے لگی ہے اسی ملک کے چپے چپے پر کھلے قحبہ خانوں کی سرپرستی بھی فوجی افسران اور خفیہ ادارے کررہے ہیں اور یہ سرپرستی کس سطح کی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بعض اوقات کوئی دیانت دار اور سر پھرا پولیس افسر ان مکروہ دھندوں کی روک تھام کی کوشش کرے تو یہی فوجی افسران اور خفیہ اہلکار ان قحبہ خانوں کے دفاع میں پولیس افسران کو دھمکانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ابھی کچھ مہینے قبل ایک پولیس اہلکار کو فقط اس جرم میں سزا سنائی گئی کہ اس نے قحبہ خانے پر چھاپہ مارا اور وہاں موجود خفیہ ادارے کے افسر پر بھی مقدمہ بنانے کی کوشش کی۔ تعلیمی اداروں کی حالت یہ ہے کہ کھلے عام ہر قسم کا نشہ فروخت ہوتا ہے۔ گرلز ہاسٹلوں کی بھرمار ہوچکی جہاں لڑکیاں اپنے گھر اور خاندان سے دور رہتی ہیں۔ شرم و حیا کے جنازے تو ان تعلیمی اداروں نے نکالے ہی لیکن ساتھ ساتھ منظم انداز میں اور منصوبہ بندی اور سرپرستی کے ساتھ ایسے ملحد اور سیکولر اساتذہ کو اہم عہدے دیے گئے ہیں جو نئی نسل کو الحاد کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ صورتحال مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے؟ ہرگز نہیں! فوج یہ تمام کام مکمل منصوبہ بندی اور عالمی طاقتوں کی ہدایات کے مطابق ہی کررہی ہے۔

حال ہی میں شمالی وزیرستان میں جامعہ دارالعلوم حسینہ نورک مدرسہ کو پاکستان آرمی نے خالی کرکے مقامی لوگوں کے حوالے کر دیا۔ ٹوٹی پھوٹی عمارت کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل رہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نورک مدرسہ پر آرمی نے آپریشن ضرب عضب کے بعد قبضہ کیا تھا، اب جب خالی کردیا تو پتہ چلا کہ اس میں ڈھیروں ٹارچر سیل بنائے گئے تھے۔ پاکستانی فوج کے خفیہ قیدخانوں کی حراست سے رہا ہونے والے بہت سے قیدیوں کی زبانی بھی یہ باتیں معلوم ہوئی ہیں کہ فوجی چھاؤنیوں میں لاتعداد چھوٹی بڑی جیلیں ہیں۔ چھوٹی جیلیں وہ ہیں جو سکولوں کو تبدیل کرکے بنائی گئی ہیں۔

بظاہر پاکستانی فوج کے یہ کارنامے امریکی جنگ میں کودنے کے بعد ظاہر ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اصلاً یہ اسی دشمنی کا تسلسل ہے جس کا مظاہرہ انگریز حکومت نے برصغیر پر قبضے کے دوران علماء اور دینی طبقے اور مذہبی قیادت کے خلاف شروع کیا۔ انگریز سرکار جانتی تھی کہ ان کے تسلط اور قبضے میں جو حقیقی رکاوٹ ہے وہ یہی مذہبی طبقہ ہے۔

’’ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء‘‘ کے مصنف مفتی انتظام اللہ شہابی1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد کا احوال کچھ یوں لکھتے ہیں:

’’دہلی، کلکتہ، لاہور، بمبئی، پٹنہ، انبالہ، الہ آباد، لکھنوٴ، سہارنپور، شاملی اور ملک کے چپے چپے میں مسلمان اور دیگر مظلوم ہندوستانیوں کی لاشیں نظر آرہی تھیں، علمائے کرام کو زندہ خنزیر کی کھالوں میں سی دیا جاتا پھر نذر آتش کردیا جاتا تھا، کبھی ان کے بدن پر خنزیر کی چربی مل دی جاتی پھر زندہ جلادیا جاتا تھا۔‘‘

ان مظالم کے باوجود تحریک ریشمی رومال، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت جیسی فیصلہ کن تحریکوں کی قیادت علماء کرتے رہے۔ یہی وہ تحریکیں تھیں جن کے بعد اقتدارِ دلی پر فرنگی سامراج کی گرفت کمزور پڑ گئی جس کے بعد انگریز نے اس امر کو یقینی بنایا کہ اقتدار اس دینی طبقے کی بجائے انہی لوگوں کے ہاتھ میں تھمایا جائے جو برطانیہ کیساتھ وفادار رہیں۔ آج انگریز کی جانشین پاکستانی فوج کو بھی خوف ہے تو علماء اور اہل مدارس سے۔

شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی ایک تحریر ان حالات کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

’’اصولی طور پر جو بات دیکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ جن حالات میں دین کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کانظام عمل میں آیا تھا، کیا ان حالات میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟ بادی النظر میں حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں، وہ غلامی کا دور تھا، اور یہ آزادی کا دور ہے، لیکن اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہی حالات جوں کے توں اب بھی باقی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

دینی مدارس کا نظام جب قائم ہوا اس وقت حالات یہ تھے کہ عصری تعلیم گاہوں میں دینی علوم اور دینی اقدار کے تحفظ کا کوئی احساس نہیں تھا، بلکہ ان کا نصابِ تعلیم، فلسفۂ تعلیم اور طرزِ تعلیم مغربیت کے محور پر گردش کرتا تھا، ان میں اگر دینی علوم پڑھائے جاتے تھے تو وہ بھی دین کی خاطر نہیں، بلکہ محض حصولِ دنیا کے لیے تھے، اس لیے ضرورت محسوس کی گئی کہ دینی علوم واقدار کے تحفظ کے لیے الگ قومی ادارے قائم کیے جائیں اور ان کا طرز ایسا رکھا جائے کہ دنیوی منصب وجاہ کے عشاق اس کوچے میں قدم نہ رکھ سکیں، بلکہ یہاں صرف وہی لوگ آئیں جنہوں نے دنیا کی ہر آسائش وآزمائش سے بالاتر ہوکر دینی علوم سے رشتہ جوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہو، اس جرم وفا میں ان کو گالیاں دی گئیں، طعن وتشنیع کے تیروں سے ان کے سینے چھلنی کیے گئے، ان کے حق میں ایسے ایسے فقرے چست کیے گئے کہ انہیں سن کر شیطان بھی پناہ مانگے، مگر آفرین ہے ان دلق پوش بوریہ نشین درویشوں کو کہ انہوں نے یہ سب کچھ دیکھنے سننے کے باوجود قال اللہ وقال الرسول کی چوکھٹ سے سراٹھانا گوارا نہ کیا کہ:

موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟

ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد بھی ہمارے یہاں دو متوازی نظامِ تعلیم چل رہے ہیں، ایک انگریزی دور کی یادگار جس کا منتہائے نظر کرسی وملازمت، جیب اور پیٹ کے سوا کچھ نہیں، دوسرا دینی نظام تعلیم جس کا مقصد وحید دینی علوم واقدار کا تحفظ ہے، اگر اوّل الذکر مدارس تعلیم کا رخ دنیا سے دین کی طرف پھر گیا ہوتا اور وہ مغربی طرزِ تعلیم کے محور پر گھومنے کے بجائے مدنی فلسفۂ تعلیم کے محور پر گردش کرنے لگتے تو ہم دینی مدارس کے ارباب حل وعقد کو پرخلوص اور پرزور مشورے دے سکتے تھے کہ وہ بھی اپنے دائرہ عمل میں تبدیلی پیدا کرلیں، تاکہ عصری تعلیم اور دینی تعلیم کو ہم آہنگ کیا جاسکے، لیکن جب ہماری عصری تعلیم گاہوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، نہ ان کی وضع قطع اسلامی، نہ ان کی نشست وبرخاست اسلامی، نہ ان کا طرزبودوباش اسلامی، نہ ان کے جذبات اسلامی، نہ ان کے مقاصد اسلامی، بلکہ اول سے آخر تک دنیا ہی دنیا مطمح نظر ہے، بلکہ برائے نام اسلامیات جو رکھی گئی ہے وہ بھی خالص دنیا کی خاطر ہے، جس سے نہ جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے، نہ فکر آخرت، نہ تعلق مع اللہ کی دولت نصیب ہوتی، نہ اصلاحِ معاد کی، تو یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آخر دینی مدارس کی کایا پلٹ کرنے پر کیوں زور دیا جاتا ہے؟ یہ معدودے چند درویش جو خدا تعالیٰ کے دین کے لیے وقف ہوگئے ہیں ان کو بھی دنیا ہی کا کلوروفام سنگھاکر آخر مدہوش وبیہوش کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟

اب اگرجنابِ صدر اور ان کے رفقاء عصری مدارس کی اصلاح کی طرف توجہ فرماتے، ان کے طرز تعلیم، نصاب تعلیم اور فلسفۂ تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتے تو مدارس عربیہ کی اصلاح خود بخود ہوجاتی، لیکن موجودہ حالات میں دینی مدارس کے ڈھانچہ کو تبدیل کردینا ہمارے نزدیک نہ ان مدارس کے حق میں بہتر ہوگا، نہ ملک و ملت کے حق میں۔ آج برصغیر میں دینی علوم کی پختگی، دینی فہم کی سلامتی اور دینی اقدار کے آثار ونشانات جو نظر آتے ہیں ان کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی، اور یہ انہی دینی مدارس کے طرز تعلیم اور ان بوریہ نشین طالب علموں کے اخلاص کی برکت ہے۔ اگر یہ نظام تعلیم بدل دیا گیا تو چند سال بعد یہاں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، دینی مدارس ضرور ہوں گے، مگر دین نہیں ہوگا۔

اس ضمن میں ہم ان علمائے کرام سے بھی گزارش کرنا چاہتے ہیں جن کی خیرخواہی کے لیے یہ سب کچھ ہوگا کہ یہ ان کے لیے شدید آزمائش ہے، انہیں اپنی خداداد بصیرت سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ ان حالات میں دین کے تحفظ کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ واللّٰہ الموفق لکل خیر وسعادۃ۔ ‘‘

(اربابِ اقتدار سے کھری کھری باتیں، ج:۲،ص:۲۸۹، ۲۹۰)

٭٭٭٭٭

Previous Post

توحید کے علمبردار

Next Post

گوانتانامو کا منظر ساہیوال میں

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post
گوانتانامو کا منظر ساہیوال میں

گوانتانامو کا منظر ساہیوال میں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version