’’اللہ ہی زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے…… اگر ایک راہنما چلا جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔‘‘
یہ وہ آخری بات تھی جو شیخ اسماعیل ہنیہ نے اپنے آخری با ضابطہ خطاب میں کی تھی۔ اور اس کے چند ہی گھنٹوں بعد وہ خود شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو گئے۔ نحسبه كذالك والله حسيبه۔
وہ اپنی زندگی میں شیخ احمد یاسین کی اس بات کا حوالہ دیتے تھے کہ:
’’جب تک فلسطین غاصبوں کے قبضے میں ہے، کسی مسلمان کو اپنے بستر پر موت نہیں آنی چاہیے!‘‘
اور انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کی اس عظیم روایت کو قائم رکھا۔ ایسے حالات میں، جبکہ غزہ میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیلی جارحیت اپنی انتہا پر ہے اور باقی ماندہ فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی آباد کار بہت تیزی کے ساتھ بزور طاقت فلسطینیوں کے گھر، علاقے اور زمینوں پر قابض ہو رہے ہیں، ایک نہ تھمنے والا ظلم کا سیلاب ہے جسے فلسطینی مسلمان، خصوصاً بچے، خواتین اور بوڑھے سہہ رہے ہیں، فلسطین کے لیے اسماعیل ہنیہ عالمی سطح پر ایک مضبوط آواز تھے جو مسلسل یکے بعد دیگرے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے جھنجھوڑ رہے تھے لیکن سوائے زبانی بیان بازی کے کسی حکمران کو غیرت تک نہ آئی کہ کوئی عملی اقدام کرے۔ اسماعیل ہنیہ بیت المقدس کو ظالم صہیونیوں سے چھڑانے کے لیے ہر دم جاری تحریک کی ایک آواز تھے۔ اسرائیلی درندے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے اس تحریک کو ختم کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ فلسطین کی آزادی کی یہ تحریک جیسے پہلے رواں دواں تھی شہداء کے خون سے یہ مزید پھلے پھولے گی ۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر عالمی میڈیا کے ردّ عمل کے بہت سے پہلو ہیں۔ ذیل میں اس کے کچھ پہلو قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔
عالمی سیاسی مبصرین اسرائیل کے اس طرح اسماعیل ہنیہ کو ٹارگٹ کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک کو اس بات پر تشویش ہے کہ کہیں جنگ کا دائرہ وسیع نہ ہو جائے، کیونکہ اگر یہ دائرہ وسیع ہو گیا تو امریکہ اور اس جیسی طاقتیں جو اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں ان کے لیے یہ تباہ کن نتائج کا حامل ہو گا۔ بائیڈن انتظامیہ جہاں اسرائیل کے غزہ پر حملے کی حمایت اور اسلحے کی ترسیل کر رہی ہے، وہیں نیتن یاہو کو عام شہریوں کی ہلاکت سے متعلق ’’نرمی سے تنبیہ‘‘ بھی کر رہی ہے اور نیتن یاہو ایک بگڑے ہوئے ضدی بچے کی طرح اپنی من مانی کر رہا ہے۔
اس حوالے سے گارڈین کے ایک تجزیہ نگار کی تحریر سے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
Assassination again shows Netanyahu’s disregard for US-Israel relations | Patrick Wintour
’’مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ قتل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کس طرح امریکہ اکثر جونئیر پارٹنر کی طرح نظر آتا ہے۔ خارجہ پالیسی پر برنی سینڈرز کا سابق مشیر میٹ ڈُس کہتا ہے:
’یہ ایک اور دفعہ نیتن یاہو نے بائیڈن کو ایک طرح سے کہا ہے کہ ’’بھاڑ میں جاؤ‘‘ ۔ مہینوں پر مہینوں پر مہینے گزر گئے اور نیتن یاہو کی جانب سے یہ مکروہ تحقیر و تذلیل جاری رہی، جس کا اختتام گزشتہ ہفتے اس مضحکہ خیز لمحے پر ہوا، جب وہ آیا اور اس نے ایک بار پھر کانگریس کے سامنے تقریر کی، تاکہ بائیڈن کی جنگ بندی کی تجویز کو کمزور کر سکے۔ پھر بھی بائیڈن، جو ذاتی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، اپنا طریقہ کار بدلنے سے انکاری ہے۔‘
……یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے مشرقی وسطیٰ کے ماہر ہیو لوواٹ نے ان ہلاکتوں کو ایک حکمت عملی کی فتح، لیکن تزویراتی شکست قرار دیا۔ ہنیہ فلسطینی مفاہمت اور جنگ بندی کے حامی تھے۔ لہذا انہیں منظر سے باہر کر دینے سے گروپ کے اندر طاقت کے توازن پر اثر پڑے گا، جس سے کم از کم موجودہ ٹیم میں سخت گیر افراد کو تقویت ملے گی۔‘‘
[The Guardian]
دوسری طرف عرب منافق حکمران اور ان کے آلۂ کار ہیں جو فلسطین کی تحریکِ آزادی اور انتفاضہ کے خلاف ہیں اور اسرائیل سے تعلقات کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ فلسطینی کاز سے ان کی مخالفت دراصل اس لیے ہے کہ اگر حماس اور دیگر جہادی تنظیمیں بیت المقدس آزاد کروا لیتی ہیں یا مضبوط ہی ہو جاتی ہیں تو یہ ان کی آمرانہ حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس تحریک سے متاثر ہو کر اگر عرب نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے تو ان حکمرانوں کا بھی وہی حشر ہو گا جو ماضی میں آمروں کا ہوتا آیا ہے۔ اس لیے ان کے آلۂ کار میڈیا پر اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر بھی تحریک میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے مسلسل پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے العربیہ پر شائع ہونے والےایک مضمون سے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو جو عرب حکمرانوں اور ان کے آلۂ کاروں کی نیچ سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح لوگوں کے اذہان کو جھوٹ اور فریب سے زہر آلود کرتے ہیں:
Haniyeh is Sinwar’s victim | Abdul Rahman Al-Rashid
’’اسماعیل ہنیہ کو معلوم تھا کہ وہ موساد کی ہٹ لسٹ میں سر فہرست ہیں، حالانکہ اسرائیل جانتا تھا کہ ان کا ۷ اکتوبر کے حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہنیہ کا برسوں سے یحییٰ سنوار اور حماس کی موجودہ قیادت سے اختلاف تھا۔ انہیں اس تحریک کی قیادت سے بے دخل کر دیا گیا جس کی سربراہی وہ ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۷ء تک کر چکے تھے۔
سنوار نے، جو بیس سال اسرائیلی جیلوں میں قید گزار کر آئے تھے، تنظیم کے عسکری ونگ کا اعتماد حاصل کر لیا۔ ان کے ذریعے انہوں نے قیادت کا کنٹرول سنبھال لیا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ہنیہ اور ان کے ساتھیوں کو سائڈ لائن کرنے کی خاطر ان پر بزدلی، سیاسی حل کی حمایت، اور علاقائی دباؤ کے آگے جھکنے کے الزامات لگائے۔
اس سے ہنیہ کو کاز کی تاریخ میں امن کی فاختہ یا امن کے وکیل کے طور پر جگہ تو نہیں ملی، لیکن پھر بھی وہ مہم جو کم اور عملی زیادہ مانے جاتے تھے۔ حالیہ مہینوں میں غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے حل تلاش کرنے کے لیے دوحہ مذاکرات میں بھی، ہنیہ نے سنوار پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، جس نے ہنیہ کے مہینوں کے مذاکرات میں کیے گئے کام اور حاصل شدہ نتائج کو نقصان پہنچایا۔
تو پھر اسرائیلیوں نے ہنیہ کو قتل کیوں کیا؟
وہ اس لیے قتل ہوئے کیونکہ وہ حماس کے سربراہ اور سب سے مشہور راہنما تھے۔ اگر ہنیہ کچھ ماہ قبل تک اس معاہدے کے مطابق جنگ روکنے میں کامیاب ہو جاتے، جس کی کوشش مذاکرات کار کر رہے تھے، تو شاید وہ اپنے سمیت ہزاروں دیگر فلسطینیوں کی جان بچا لیتے۔
ان کے خاتمے سے حماس کے اندر انتہا پسندوں کو فائدہ پہنچا ہے اور بلاشبہ نیتن یاہو کی حکومت کو بھی پہنچا ہے، جس نے اپنا سب سے اہم وعدہ پورا کر دیا یعنی حماس کی قیادت کا خاتمہ، چاہے وہ سنوار کو پکڑ نہ بھی سکے۔‘‘
[Al-Arabiya English]
اس طرح کے جھوٹ پھیلانے کا مقصد لوگوں کو حماس کے خلاف شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا ہے۔ اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار ہمیشہ پچھلے تمام رہنماؤں، چاہے شیخ احمد یاسین شہید ہوں یا عبد العزیز رنتیشی شہید ، کی طرح اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد پر متفق اور یکسو رہے اور ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں رہا۔ان دونوں راہنماؤں کا پس منظر ایک ہی تھا۔ دونوں کے خاندان النکبہ کے نتیجے میں اپنے آبائی علاقے عسقلان سے بے گھر ہونے کے بعد غزہ میں مہاجر کیمپوں میں آباد ہوئے اور یہ دونوں راہنما انہیں مہاجر کیمپوں میں پلے بڑھے۔ دونوں نے ہی اسلامی یونیورسٹی غزہ سے عرب ادب میں گریجوئیشن کی۔ دونوں کے مزاجوں میں فرق ہونا ایک علیحدہ بات اور فطری امر ہے لیکن جن اختلافات کا دعویٰ اسرائیلی غلام عرب بکاؤ میڈیا کر رہا ہے اس کے کہیں کوئی شواہد موجود نہیں، بلکہ اس کے برعکس مشترکہ پس منظر کے باعث دونوں راہنماؤں کے آپس میں گہرے اور قریبی تعلقات ہی سننے میں آئے ہیں۔
۲۰۱۲ء میں رائٹرز کے ایک نمائندے نے اسماعیل ہنیہ سے سوال کیا کہ کیا حماس نے اپنی مسلح جدوجہد ترک کر دی ہے؟ اس کے جواب میں اسماعیل ہنیہ نے کہا:
’’ہرگز نہیں! مزاحمت ہر شکل میں جاری رہے گی، چاہے وہ سیاسی، سفارتی اور عوامی مزاحمت ہویا عسکری مزاحمت۔‘‘
حماس کا سیاسی شعبہ اور عسکری شعبہ مل کر تحریک مزاحمت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ معدودے چند منافقین اور پراپیگنڈہ کرنے والوں کے علاوہ ہر خاص و عام اپنے دل میں اسماعیل ہنیہ اور حماس کے لیے جو جذبات رکھتے ہیں اس کی عکاسی درج ذیل چند اقتباسات میں ملاحظہ کریں:
اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور غزہ کا جہاد | حافظ محمد ادریس
’’شہید اسماعیل ہنیہ حافظِ قرآن تھے، انہوں نے عربی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور ۲۰۰۹ء میں انہیں اسلامی یونیورسٹی غزہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی تھی۔ اسماعیل ہنیہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ فلسطینی نوجوان اور مجاہدین ہنیہ شہید کی کئی غزلیں جہاد کے میدانوں میں دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے گنگنا رہے ہوتے ہیں۔ اکثر فلسطینی خواتین و مرد اور بچے حافظِ قرآن ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ وقت تلاوتِ قرآن میں گزرتا ہے۔ اسی طرح رزمیہ شاعری جو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کو مہمیز دیتی ہے وہ بھی ان کی زبانوں پر سنائی دیتی ہے۔
اپنی ایک غزل میں اسماعیل ہنیہ فرماتے ہیں کہ میں زندگی کے ہر لمحے اور سفر کے ہر موڑ پر موت کو اپنے سامنے رقص کرتے دیکھتا ہوں۔ میری آنکھوں سے موت کبھی اوجھل نہیں ہوئی، ’ یہ تو ایک حقیقت ہے‘ اس سے کیا ڈرنا! ہم میں سے کوئی بھی قائد چلا جائے تو اس کی جگہ دوسرا قائد میدان میں آ جاتا ہے۔ یہ سفر لمبا ہے اس کے راہی تھکنے والے نہیں۔
شہید اسلام اسماعیل ہنیہ کی کئی رزمیہ غزلیں اور نظمیں حماس کے نوجوانوں اور القسام بریگیڈ کے مجاہدین کے لیے جنگی ترانوں کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں جو جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے قلب و جگر کو سرشار کر دیتی ہیں۔
میدان جہاد میں اسماعیل ہنیہ شہید کے خاندان کے اسّی سے زائد افراد شہادت کا تاج پہن کر اللہ کی جنتوں میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کے تین بیٹے، تین پوتیاں، ایک پوتا اور گھر کے دیگر افراد بھائی، بھتیجے، بہنیں اور بھانجے جب بھی شہید ہوئے تو اسماعیل ہنیہ نے پوری استقامت کے ساتھ فرمایا کہ میرے لیے کوئی نئی بات نہیں، فلسطین میں شہید ہونے والا ہر فرد میرا بھائی، بیٹا، پوتا، بھتیجا اور بھانجا ہے۔ شہادت پانے والی ہر خاتون میرے لیے ماں، بہن، بیٹی اور پوتی کا درجہ رکھتی ہے۔ جس شخص کا حوصلہ اتنا بلند ہو وہ موت سے کب ڈرتا ہے؟‘‘
[روزنامہ دنیا نیوز]
اسماعیل ہنیہ کو شہادت مبارک | عمر خان جوزوی
’’ مظلوم فلسطینیوں کے ایک عظیم لیڈر اور اسلام کے ایک نڈرمجاہد کی اس طرح شہادت یہ اقوام متحدہ کے اندھے ہاتھیوں اور امن امن کی رٹ لگانے والے دنیاکے نام نہادامن پسندوں کے منہ پرایک زوردارطمانچہ ہے۔ کیا مظلوموں کے ایک حقیقی وارث، امت کے ایک لیڈر اور اسلام کے ایک مجاہد کو نشانہ بنانے سے دنیا میں امن قائم ہوگا؟ سچ یہ ہے کہ اسرائیل جیسی جعلی ریاستوں اور نیتن یاہوجیسے بدقماشوں نے قبضے جمانے کے لئے دنیا کا امن داؤ پر لگا دیا ہے۔
ظلم،جبراورزبردستی کی کوکھ سے جنم لینے والی ایسی ریاستوں اورنیتن یاہوومودی جیسے امن کے دشمنوں کے ہاتھوں ایک طویل عرصے سے مسلمان اورمسلم ممالک نشانہ بن رہے ہیں مگرافسوس اس ظلم، جبر اورکفرکے بعدبھی باطل کے ہاں نیتن یاہواورمودی نہیں بلکہ وہی مظلوم مسلمان دہشت گرد، انتہا پسند اور امن کے دشمن ہیں۔ اسرائیل سے شام اورفلسطین سے کشمیر تک جنہوں نے دنیاکے امن کوتباہ وبرباد کیا، ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا، آباد بستیاں ویران اور پھولوں سے لدے چمن اجاڑ ڈالے، وہ شیطان کل بھی دنیاکے ہاں معززو معتبرتھے اوریہ شیطان آج بھی باطل دنیاکی آنکھوں کے تارے بنے ہوئے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے دنیا لرز گئی لیکن اقوام متحدہ، اوآئی سی اوردیگرپلیٹ فارم سے امن کے چورن بیچنے والے سانڈ پھر بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوسکے۔ اسماعیل ہنیہ کے شہید ہونے کی بجائے اگر نیتن یاہو جیسا باطل کاکوئی سانڈ مردار اور واصل جہنم ہوتا تو اقوام متحدہ کے انہی اندھے ہاتھیوں نے ابھی تک آسمان سر پر اٹھایا ہوتا۔ نہ جانے کتنے اسلامی ممالک پراب تک ڈرون اٹیک ہوچکے ہوتے لیکن اسماعیل ہنیہ کی شہادت پران ہاتھیوں کے ہاں امن ہی امن اورخاموشی ہی خاموشی ہے۔ ایسالگتاہے کہ جیسے دنیا میں امن مسلمانوں اورمظلوموں کوآگ وخون میں نہلانے سے ہی ہو۔
[روزنامہ نئی بات]
Ismail Haniyeh: Assassinated in Israel’s war on peace and quest for endless occupation | Nasim Ahmed
’’حماس نے بطور تنظیم ماضی میں اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ گروپ مسلسل دوبارہ منظم ہونے اور اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ عالمی قانون، خاص طور پر انٹرنیشنل ہیومینی ٹیرین لاء (International Humanitarian Law) اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون (International Human Rights Law) کے فریم ورک کے تحت لوگوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرتا ہے، جس میں قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق بھی شامل ہے۔ یہ اصول اقوام متحدہ کے چارٹر اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے سمیت مختلف بین الاقوامی دستاویزات میں درج ہے۔ قبضے کے خلاف مزاحمت کے حق میں پر امن اور مسلح دونوں مزاحمتیں شامل ہیں، بشرطیکہ مسلح مزاحمت جنیوا کنوینشن اور اس کے اضافی پروٹوکولز کے ذریعے طے کردہ مسلح تصادم کے قوانین کی پابندی کرے۔ رواں ماہ آئی سی جے کے فیصلے میں اس حق پر دوبارہ زور دیا گیا۔
ہنیہ کا قتل فلسطینیوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اگرچہ ان کی موت نے حماس کی قیادت سے ایک اہم کردار کو ہٹا دیا ہے، اہم امن مذاکرات اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو پٹڑی سے اتار دیا ہے، جس کے حوالے سے اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ غزہ میں جاری جارحیت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے، لیکن اس سے حماس اور وسیع پیمانے پر اسرائیلی غیر قانونی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی استقامت میں کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ۔ تنظیم کا مضبوط ڈھانچہ اسے قبضے کے خلاف اپنی جائز مزاحمت میں جدت لانے اور اسے جاری رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں ہوا، اسرائیل کی جانب سے اس طرح کے اقدامات حماس کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر حمایت کو تقویت دیتے ہیں۔‘‘
[Middle East Monitor]
اسماعیل ہنیہ کو ۳۱ جولائی ۲۰۲۴ء کی رات اس وقت ٹارگٹ کیا جب وہ تہران میں ایران کے نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری سے واپس آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے کمرے کو قریب سے مار کرنے والے گائیڈڈ میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جس میں وہ اور ان کے محافظ ساتھی شہید ہوئے۔ خطے کی سیاست میں اس حملے کا موقع و محل نہایت اہمیت کا حامل ہے، چونکہ اسماعیل ہنیہ بحیثیت سفارت کار ایران کے مہمان تھے، اس لیے ان کی حفاظت بھی ایران ہی کی ذمہ داری تھی اور اب جواباً ایران اسرائیل کے خلاف کیا اقدام اٹھائے گا یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ یوں تو ایرانی حکومت نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا، لیکن اس پر کس حد تک اور کس طرح عمل پیرا ہو گا، امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ مغربی دنیا اس حوالے سے فکر مند ہے۔
اس حوالے سے دو مثالیں ملاحظہ کریں:
Israel is not interested in peace | Belén Fernández
’’ایرانی سرزمین میں ہنیہ کے قتل سے ایران کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا کہ وہ کسی نہ کسی فوجی انداز میں اسرائیل کو جواب دے، جس حوالے سے وہ پہلے ہی دکھا چکا ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر اپریل میں ہونے والے مہلک اسرائیلی حملے کے بعد، ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں ڈرون اور میزائل داغے۔
جنگ بندی کے امکانات کو پٹڑی سے اتارنے اور غزہ میں قتل و غارت گری کو جاری رکھنے کے لیے، ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل مزید خطے میں خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرنے والا ہے۔
کیمبرج انگلش ڈکشنری ایک ’’بدمعاش ریاست‘‘ کی تعریف ایک ایسی قوم سے کرتی ہے جو کہ دیگر اقوام کے لیے خطرناک سمجھی جاتی ہو، اور آج کل کوئی اور قوم اتنی بدمعاش نہیں جتنی کہ اسرائیلی ریاست ہے۔‘‘
[Al Jazeera English]
اسماعیل ہنیہ بھی شہید | پروفیسر رفعت مظہر
’’ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے اسرائیل غزہ تنازع میں جنگ بندی اور امن مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاژ کر ڈالا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اہم ثالث قطرکے وزیرِاعظم محمدبِن عبدالرحمٰن آل ثانی نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے مذاکرات کی سنجیدگی سوالیہ نشان بن گئی، کیونکہ ہنیہ مذاکرات کے اہم رُکن تھے۔ ہنیہ کی شہادت پرایران کا رَدِعمل بھی بہت شدید تھا کیونکہ یہ اسرائیل کی طرف سے کی گئی فوجی کارروائی تھی۔……
……اُدھر امریکہ نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے لاتعلقی کا اظہار توکر دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ وہ بہرصورت اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ امریکی محکمۂ دفاع نے کہاکہ اسرائیل پرکسی بھی ایرانی حملے کے خطرے کے پیشِ نظر امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں اضافی بحری جہاز اور لڑاکا طیارے تعینات کررہا ہے اور وہ اسرائیل کے دفاع کے لیے پُرعزم ہے۔
……اب سوال یہ ہے کہ کہیں اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک ہمہ گیر جنگ کاباعث تو نہیں بنے گی؟ اسرائیل کی ہوس گیری کی مستقل پالیسی کے سامنے اقوامِ متحدہ بے بَس ہے کیونکہ اسرائیل عالمی قراردادوں اور تجاویز کوجوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی یہ ساری دہشت گردی امریکہ کی شہ پرہے جو کسی وقت بھی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر عالمِ اسلام کا رَدِعمل مذمتی بیانات تک محدود۔
رَبِ لم یزل کابھی یہ فرمان کہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلی جاتی جب تک کہ اُسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ سورۃ الرعد آیت 11میں فرما دیا گیا کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کونہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹَل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی ومددگار ہوسکتا ہے۔ عالمِ اسلام کے رَہنماؤں کو یہ سوچنا ہوگا کہ آخر تائید ونصرتِ ربّی اُن کے ساتھ کیوں نہیں؟ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب عالمِ اسلام متحد تھا تو اُن کی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن آج وہ گلی گلی میں رُسوا، کوئی اُن کا حامی نہ مددگار اور وہ طاغوتی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریز۔ اِس حالتِ ضعیفی میں بھی اُن کی کوئی بچت نہیں۔ طاغوت یکے بعد دیگرے اُنہیں نشانِ عبرت بناتا چلا جارہا ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، یمن اور شام کے علاوہ کشمیر اور فلسطین میں تباہیوں کی داستانیں اُن کے سامنے۔ پھر بھی وہ متحد ہوکر رَبِ لم یزل کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے گریزاں کیوں؟‘‘
[روزنامہ نئی بات]
ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ انتقامی کارروائی کا حق رکھتا ہے اور وہ اسرائیل پر جوابی حملہ ضرور کرے گا۔ ایک طرف امریکہ اور مغربی طاقتیں ایران کو اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے متعلق متنبہ کر رہی ہیں تو دوسری طرف عرب ممالک کے حکمرانوں نے یکے بعد دیگرے ایرانی وزیر خارجہ سے جوابی کارروائی نہ کرنے کی درخواست کی ہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اس طرح کی کارروائی سے جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا امکان ہے جو چار و ناچار انہیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو ایک مہینہ ہو چلا ہے اور ایران اپنے بلند و بانگ دعووں کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھاتا نظر نہیں آ رہا۔ ماضی میں بھی ایران نے اسرائیل کو کسی کارروائی میں کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچایا، اس لیے اب بھی ایران کی طرف سے کسی ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدام کی امید نظر نہیں آتی۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر پاکستانی حکومت کے دفتر خارجہ نے ایک تعزیتی بیان جاری کیا جس میں ’’اسرائیلی ایڈونچر ازم‘‘ کی مذمت کی گئی تھی لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد یہ بیان دوبارہ جاری کیا گیا اور اس میں سے اسرائیل کا نام ہٹا دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان کی اس مجرمانہ حرکت سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ یہی سوال حامد میر نے اپنے ایک کالم میں اٹھائے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کریں:
ریاست سے ایک سوال | حامد میر
’’ سوال یہ ہے کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی تہران میں شہادت کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں اسماعیل ہنیہ کے خاندان اور فلسطینی عوام کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے’’اسرائیلی ایڈونچر ازم‘‘ کی مذمت کی گئی ۔ دفتر خارجہ کا یہ بیان میڈیا کو جاری کر دیا گیا اور میڈیا میں رپورٹ بھی ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس بیان میں سے ’’اسرائیلی‘‘ کا لفظ ہٹا دیا گیا اور پاکستان کی مذمت کو کسی نامعلوم ’’ایڈونچر ازم‘‘ تک محدود کر دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں سے اسرائیل کا لفظ کیوں اور کس کے حکم پر نکالا گیا ؟ کیا ریاست پاکستان نے عوام کے منتخب ادارے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی ایسا فیصلہ کر لیا ہے جس کا اعلان کرنا مناسب نہیں؟
یہ سوال اس لیے اٹھا رہا ہوں کہ کچھ عرصے سے پاکستان کا دفتر خارجہ اور وزیر اعظم شہباز شریف بار بار مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولے کی حمایت کر رہے ہیں۔ دفتر خارجہ کے بیورو کریٹس کا کہنا ہے کہ دو ریاستی فارمولا دراصل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کو نسل کا تجویز کردہ ہے لہٰذا اس فارمولے پر عمل درآمد کے مطالبے کا مطلب سیکورٹی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کرانا ہے۔ جب ان بیورو کریٹس سے پوچھا جاتا ہے کہ سیکورٹی کونسل کی قرارداد کے مطابق مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کا قبضہ نا جائز ہے تو پھر آپ اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کرتے؟ تو ہمارے بابو صاحبان اور بیبیاں سرگوشی کے انداز میں کہتے ہیں کہ آپ تو جانتے ہیں کہ خارجہ پالیسی ہم نہیں بناتے ہمیں تو جو حکم آتا ہے ہم اُس پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ میرا سوال یہی ہے کہ وہ کون ہے جس نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر جاری ہونے والے بیان سے اسرائیل کا نام نکال دیا جائے؟
…… آج پاکستان میں دفتر خارجہ کے لیے اسرائیل کی مذمت مشکل ہو چکی ہے۔ پاکستان میں آئین توڑنا آسان ہے، منتخب وزرائے اعظم کو عدالتوں سے نااہل قرار دلوانا اور سیاسی اجتماعات پر فائرنگ کرنا آسان ہے لیکن اسرائیل کا نام لینے سے قومی مفاد پر ضرب پڑتی ہے۔ ریاست پاکستان سے سوال ہے کہ کیا پاکستان واقعی ایک ایٹمی طاقت ہے؟‘‘
[روزنامہ جنگ]
پاکستان سمیت تمام مسلم دنیا کے حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی حرکتیں اسرائیل کو سپورٹ اور فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام میں اسرائیل کو مہمیز فراہم کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ بھی فلسطینی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں اور جلد یا بدیر وہ بھی جوابدہ ہوں گے۔
رہ گئی بات فلسطینی مسلمانوں کی، تو انہوں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا، لاکھوں لوگوں کی قربانی دی، لیکن کوئی ظلم اور کوئی ظالم ان کے سر نہ جھکا سکا۔ایک راہنما شہید ہوئے تو دوسرے راہنما ابھر آئے۔ یہ قافلہ اسی طرح راہِ حق پر ڈٹا رہے گا اور آگے بڑھتا رہے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔
٭٭٭٭٭