فاطمہ بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور سیکولر نظریات کی حامی ایک خاتون ہیں۔ لیکن جدید مغربی نظام اور اس کے ظلم کے خلاف ایک مستقل آواز بھی ہیں۔ ذیل میں فاطمہ بھٹو کا ایک میڈیا ادارے ’ Zeteo‘ پر چھپنے والے مضمون
‘Gaza Has Exposed the Shameful Hypocrisy of Western Feminism – From Hollywood actresses to Hillary Clinton, there are no tears to spare for Gaza’s mothers’
کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون میں فاطمہ بھٹو کے اکثر خیالات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ تحریر اپنے مواد و عنوان میں نہایت جان دار ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اہلِ عقل و شعور کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دے، حق کو غالب، باطل کو مغلوب فرمائے اور مظلومین کی مدد و نصرت فرمائے، آمین۔ (ادارہ)
تقریباً ایک ماہ قبل میں نے اپنے پہلے بچے کو جنم دیا۔ اگرچہ اس سے قبل میں ولادت سے متعلق تمام کتب کا مطالعہ کر چکی تھی ، ہر قسم کی ویڈیوز دیکھ چکی تھی اور ۹ ماہ میں نے اسی وقت کی تیاری کرنے میں گزارے تھے، مگر اس کے باوجود عملِ پیدائش کے جاں گسل مرحلے نے مجھے شکستہ حال کر دیا۔ خود کو میسر تمام سہولتوں…… ڈاکٹر، دائی (مڈ وائف)، انیستھیزیا، خیال رکھنے والا عملہ، ایک محفوظ ہسپتال، آرام کے لیے نرم بیڈ، مقوّی غذا ، گرم و آرام دہ ماحول اور میرے بچّے اور میرے لیے مناسب کپڑوں کے بندوبست وغیرہ کے باوجود، میں پیدائش کے عمل کی شدّت اور تکلیف کے سامنے خود کو بےبس محسوس کر رہی تھی۔ اور جب بھی مجھ پر شدّتِ تکلیف سے خوف غالب آنے لگتا، تو مجھے غزہ یاد آ جاتا اور یہ خیال مجھے شرمسار کر جاتا۔
قریباً چھ ماہ قبل غزہ پر شروع ہونے والی اسرائیلی نسل کش یلغار کے آغاز ہی سے مجھ پر غزہ کا غم طاری ہے۔ نوزائیدہ بچوں کے وارڈ میں ان ننھی منّی جانوں کے ضائع ہونے کا غم کہ جن کو بآٓسانی بچایا جا سکتا تھا، جن کو ہسپتالوں پر اسرائیل کے حد سے گزرے ہوئے ظالمانہ و وحشیانہ حملوں اور اس پر مستزاد بجلی و ایندھن کی عائد کردہ بندش کے سبب اپنی زندگی کے لیے لڑنے کا موقع نہ ملا۔رفح کے الاماراتی ہسپتال (جو کہ وہاں کا سب سے بڑا اور مرکزی زچہ و بچہ کا ہسپتال ہے) کے ڈاکٹروں نے اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کو بتایا کہ ۷ اکتوبر سے قبل ان کو انکُوبیٹر یونٹ (incubator unit)میں کسی بھی وقت ۱۰ بچوں کی گنجائش موجود رہتی تھی۔ جبکہ اب وہ ۷۰ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی نگہداشت کر رہے ہیں ، جس کے سبب ایک بستر کئی بچوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ پورے وارڈ میں فقط ایک وینٹِلیٹر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سانس کی تکلیف کے ساتھ پیدا ہونے والے ان پِری میچور (pre-mature)بچوں میں سے کسی ایک کو اس کی جان بچانے والی نگہداشت میسر آئے گی، یہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت آمیز فیصلہ بھی ڈاکٹر کو کرنا ہو گا۔ کیونکہ سب بچوں کو بچانا تو ممکن ہی نہیں۔
یونیسیف کے ایک ترجمان، جوَ انگلش (Joe English) نےمجھ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے پچھلے ہفتے کہا کہ’’کسی بھی خاندان کے لیے ایک بچے کے دنیا میں آنے کا وقت خوشی و مسرت کا وقت ہوتا ہے، لیکن اس وقت غزہ میں ایک صحتمند بچے کو جنم دینے اور پھر اس کے زندہ بچ جانے کی امید رکھنا اور دعا و تمنا کرنا بھی شدید خوف و حسرت کا سبب بن چکا ہے‘‘۔اس نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’…… شاید اس وقت زمین پر کوئی دوسرا خطہ ایسا نہیں کہ جہاں ایک حاملہ عورت ہونا اس قدر خطرناک اور باعثِ یاس ہے‘‘۔ مسٹر اِنگلش کے مطابق، اکتوبر سے جاری اس جنگ میں مارچ ۲۰۲۴ءکے اختتام تک ۳۱۰۰۰ بچے پیدا ہو چکے تھے۔غزہ کی ۵۲۰۰۰ حاملہ خواتین (کہ جن میں سے ۱۸۳ خواتین ہر روز ولادت کے عمل سے گزرتی ہیں) کے علاوہ ۱۰ لاکھ پانچ ہزار خواتین ایسی ہیں جو شیر خوار بچوں کو رضاعت کرواتی ہیں اور جو اسرائیل کے دیدۂ و دانستہ پیدا کیے گئے شدید غذائی قلّت کے حالات کے سبب فاقہ کشی سے نبرد آزما ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں انتہائی ضروری و بنیادی امداد کا داخلہ بھی روک رکھا ہے، اور مناسب خوراک اور پینے کا پانی تک میسر نہ ہونے کے سبب یہ خواتین اپنی گودوں میں موجود ان ننھی جانوں کو دودھ پلانے تک سے قاصر ہیں۔ صاف پانی کی عدم دستیابی کے سبب، یہ مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو فارمولا مِلک (formula milk)بھی گھول کر پلانے پر قادر نہیں۔
ڈاکٹرز وِداؤئٹ بارڈرز (Doctors Without Borders) سے وابستہ تانیہ حاج حسن کا کہنا ہے کہ غزہ میں تو ماں کے رحم میں پلنے والے جنین (fetus)کو بھی سزائے موت سنا دی گئی ہے۔دورانِ حمل ان کی مائیں جس قدر شدید فکر و پریشانی اور غم و اذیت سے گزر رہی ہیں، وہ غم ا ن کودنیا میں آنے سے پہلے، ماں کے پیٹ میں ہی گھلا دیتا ہے ۔ صحت و رفاہِ عامہ سے متعلقہ اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ۷ اکتوبر کے بعد سے فلسطینی خواتین کو حمل ضائع ہو جانے کے واقعات میں ۳۰۰ فیصد کے اضافے کا سامنا ہے اور اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں حاملہ خواتین کی نصف تعداد خون کی کمی کا شکار ہے، جو قبل ازوقت ولادت اور بوقتِ پیدائش بچوں کے انتہائی کم وزن کا بڑا سبب ہے۔ خواتین حفاظت سے بچوں کو جنم نہیں دے سکتیں اور اگر ان کا بچہ بحفاظت دنیا میں آ بھی جائے تو بھی ان کے یا ان کے بچے کے زندہ بچ جانے کی کوئی ضمانت نہیں۔
اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ غزہ عالمی فیمنسٹ تحریک کے لیے کسی مقیاس یا کسوٹی کی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کی بعض معروف ترین فیمنسٹ عورتیں تو اسے شاید سرے سے کوئی ’مسئلہ‘ سمجھتی ہی نہیں۔ رات گئے نشر ہونے والے ایک ٹاک شو میں ہیلری کلنٹن نے ان ووٹرز کو استہزائیہ انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’……انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر قابو پائیں……!‘، جو انتخابات کے لیے فقط ڈانلڈ ٹرمپ اور ایک ایسے صدر جس نے نسل کشی پر مبنی ایک مہم کی بڑی مستعدی سے حمایت کی اور اپنے تعاون سے اس میں حصّہ ڈالا(یعنی جو بائیڈن)، کے آپشنز کے باعث ووٹ ڈالنے کے تصور ہی سے مایوس اور غیر مطمئن ہیں۔ لڑاکا مزاج کلنٹن نے ووٹرز کو سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ (صدارتی انتخاب کے لیے) یہی دو آپشنز ہیں ، مزید اپنی بات جاری رکھتے ہوئے صدر جوَ بائیڈن کی ایک ’مؤثر و فعال، دردمند ،صاحبِ دل اور عوام الناس کی حقیقی پروا کرنے والے‘ شخص کے طور پر تعریف کی۔ بائیڈن کے منفی پہلوؤں کے بارے میں صرف اتنا اعتراف کرنے پر اکتفا کیا کہ وہ ’عمر رسیدہ‘ ہے۔ یہ کہنا کہ وہ ’عمر رسیدہ‘ہے، وہ خفیف ترین بات ہے جو ایک ایسے صدر کی مذمت میں کہی جا سکتی ہے جس نے انتہائی فراخدلی سے اس امر کو یقینی بنایا ہو کہ اسرائیل کے پاس غزہ پراپنی وحشیانہ کارپٹ بمباری جاری و ساری رکھنے کے لیے دو، دو ہزار پاؤنڈ کے بموں کا ذخیرہ کم نہ ہو جائے ، حتیٰ کہ جب انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس بھی یہ کہہ چکا تھا کہ اسرائیل کی غزہ کے خلاف اس مہم میں نسل کشی کے مساوی ہونے کا امکان موجود ہے۔
اگرچہ کلنٹن کا تعلق تو جنگجو مزاج فیمنسٹوں کی مخصوص نسل سے ہے …… وہ نسل جو ایران کے حجاب مخالف مظاہروں کی حمایت میں تقریریں کرتی ہے، مگر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے یا اسرائیل سے غزہ کی عورتوں و بچوں کا بے شرمی و بہیمانہ انداز سے قتلِ عام کرنے پر کوئی جواب طلب کرنے سے مستقل انکاری ہے……مگر ہم نے بہت سی دیگر مغربی فیمنسٹ عورتوں کو بھی فلسطینی عورت کے حقوق کے حوالے سے گنگ پایا ہے، گویا انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ برینی براؤن، لکھاری، ادیب اور پیشہ ور محرّض(corporate motivator)، نے فروری میں ’صرفِ نظر نہیں : اسرائیل حماس جنگ پر میرے خیالات‘ (Not Looking Away: Thoughts on the Israel-Hamas War)، کے عنوان سے ایک انتہائی مہمل و بے معنی ، منتشر الفاظ کا ایک ملغوبہ تحریر کیا۔ اسرائیل کی نسل کش مہم کے چار ماہ بعد، ایک ایسے وقت پر جبکہ ڈاکٹر اور امدادی تنظیمیں پہلے ہی سے خطرے کی یہ گھنٹی تواتر سے بجا رہے تھے کہ ہر پانچ میں سے ایک حاملہ خاتون غذائی قلّت کا شکار ہےاور اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کے ۵ لاکھ سے زیادہ افراد کو ’ہلاکت خیز حالات…… جن میں نمایاں ترین مسائل خوراک کی قلّت، فاقہ زدگی، اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا ہے ……کا سامنا تھا‘ براؤن نے قابلِ فہم زبان و بیان کا صبر آزماتے ہوئے ، انتہائی بزدلانہ و حماقت آمیز افکار تحریر کرتے ہوئے کہا کہ’’مجھے اس امر سے اتفاق ہے کہ لوگ اپنا دفاع کرنے کا حق رکھتے ہیں، اور مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ فلسطین پر موجودہ اسرائیلی قبضہ اور حماس کے حملوں کے جواب میں ہزاروں معصوم فلسطینیوں کا قتل ، انسانی حقوق کی ناقابلِ قبول خلاف ورزی ہے‘‘۔
باوجود کوشش کہ میں کیری بریڈشا 1کی آواز و انداز کا تاثر زائل نہیں کر پا رہی جو براؤن کوگہرے تفکر کے عالم میں اپنے لیپ ٹاپ پر جھکے، کسی رٹّو طوطے کی مانند حماس کا شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے جیسی اسرائیلی حجّتیں دہراتے اور ساتھ ہی ساتھ اس امر پر غور کرتے کہ اس سب صورتحال میں ایران کا کتنا اور کیا کردار ہے (ظاہر ہے کہ یہاں ایران کے ’زبردست‘ لوگ مراد نہیں)، کے تصور کے ساتھ میرے ذہن میں آتا ہے۔ کلِنٹن کے برعکس، مِس براؤن کو بہر حال فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پروا کا دعویٰ ہے۔ لیکن دیگر تمام سفید فام فیمنسٹ عورتوں کی طرح، براؤن بھی فلسطینیوں کے کرب و ابتلا کا تذکرہ، ان کے اپنے ہاتھوں کی بدقسمت کمائی کے سوا کسی بھی دوسری طرح کرنے سے قاصر ہے۔ اسرائیل نہ صرف یہ کہ ہر قسم کے الزام، دشنام اورجرم و ملامت سے بری کر دیا جاتا ہے بلکہ اسے نسلی و عنصری تفریق، عورتوں کے قتل اور نومولود بچوں کے قتل جیسے جرائم سے بھی معصوم اور پاک قرار دیا جاتا ہے۔ ہاں اس آخری بات میں براؤن کی تائید و توثیق کرنے کو گلوریہ سٹائینم جیسی فیمنسٹس اسرائیلی قبضے اور ظلم کی مکمل اور ہمہ نوع صورت کو گھٹانے کی خاطر اسے محض بنیامین نیتن یاہو کی اکیلی شخصیت تک محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ گویا کہ اس منطق کے مطابق اگر اس ایک شخص کو ووٹوں سے ہرایا جا سکے تو یہ شخص اسرائیل کی تمامتر قاتلانہ و ناپسندیدہ خُو اپنے ساتھ لے جائے گا۔
وہ پچاس فرانسیسی اداکارائیں اور نامور شخصیات جوایران میں حجاب کے حوالے سے نافذ قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں پولیس کی تحویل میں جاں بحق ہونے والی ۲۲ سالہ مہسا امینی کی ہلاکت پر اس قدر متاثر ہوئی تھیں کہ وہ سب اکٹھی ہوئیں اور ایرانی عورتوں سے اظہارِ یکجہتی کی خاطر انہوں نے اپنے بال کاٹنے کی ویڈیو بنائی ، غزہ کی بہنوں کی خاطر انہوں نے ایسی کوئی ویڈیو نہیں بنائی۔’#حرّیت کےلیے بال‘ جیسے خجالت آمیز ہیش ٹیگ کے ساتھ، کیمرے کی جانب افسردگی سے دیکھتے ہوئے جولیٹ بینوش، میرین کوٹیلارڈ اور دیگر نے اپنی زلفیں کاٹیں، اور اپنی ویڈیو کو ’اس وحشت ناک جبر کی بار بار مذمت نہ کرنا ناممکن ہے، مقتولین کی تعداد پہلے ہی درجنوں سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں بچے بھی شامل ہیں ‘ کا عنوان(کیپشن) دیا۔
اگرچہ بینوش جنگ بندی کی طرفدار بن کر سامنے آئی ہے مگر غزہ کی نو ہزار چھ سو اکہتر (۹،۶۷۱)مقتول عورتیں اور پندرہ ہزار تین سو ستّر (۱۵،۳۷۰) قتل کیے گئے بچے ، اپنے حق میں ان نامور و قد آور شخصیات کی جانب سے بہناپے ؍sisterhood(یعنی بھائی چارے)کے کسی عوامی مظاہرہ یا عمل کا باعث نہ بن سکے جنہوں نے حجاب کے خلاف ایرانی مظاہروں اور احتجاجوں کے دوران ویڈیوز بنائیں، ٹی شرٹس پہنیں، سوشل میڈیا پر پوسٹس کیں اور زن، زندگی، آزادی کا ایرانی نعرہ پوری قوّت سے لگایا۔
غزہ نے بہت وضاحت سے ہمیں یہ بھی دکھا دیا ہے کہ بڑی سکرین پر ایک فیمنسٹ کا کردار ادا کرنا، حقیقی زندگی میں خواتین کے لیے دل میں سچی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں۔اسرائیلی اداکارہ گیل گیڈوٹ جو کہ ’ونڈَر وومن‘ کا کردار ادا کرنے سے معروف ہوئی، نے اپنے چوتھے بچے کی پیدائش کے بعد ہسپتال کے بیڈ میں اپنی تصویر کھینچ کر پوسٹ کی، جس کے ساتھ اس نے لکھا کہ ’اس حمل کا عرصہ آسان نہیں تھا، مگر ہم نے اسے پار کر لیا……‘۔ ۲۰۰۶ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین ہونے والی جنگ میں اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والی اور ماضی میں بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری کی کھلے عام حمایت کرنے والی گیل گیڈوٹ کے بارے میں اگر بہت نرم کوئی بات کہی جائے تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شرمناک حد تک اپنے ملک کی جانب سے غزہ کی طبی سہولیات کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دینے کے حوالے سے بے نیاز ہے۔ اسرائیلی بمباری کے سبب غزہ کے ایک تہائی ہسپتال محدودفعالیت کر رہے ہیں جبکہ بنیادی طبی سہولیات کی دو تہائی تعداد مکمل طور پر بند ہو چکی ہے۔ اور حقیقت کے قریب تر بات یہ ہے کہ یہ پوسٹ ایک سنگدل، بلکہ ایک ایسی عورت کی ہے جس کے سینے میں شاید دل ہی نہیں۔ غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے سبب ہزاروں کے حساب سے حاملہ فلسطینی عورتیں سڑکوں کے کنارے اور خیموں کے اندر بچّے جننے پر مجبور ہیں۔ وہ خواتین جن کے بچے سیزیرین سیکشن کے ذریعے دنیا میں آتے ہیں، انہیں بچے کی ولادت کے محض تین گھنٹے بعد ہی ڈاکٹر ہسپتال سے رخصت کرنے پر مجبور ہیں، جس کے سبب ان کی اور نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں مسلسل خطرے میں ہیں۔چونکہ اسرائیل نے بجلی، ایندھن، طبی وسائل، دواؤں اور پانی…… سب ہی پر بندش لگا رکھی ہے، لہٰذا ڈاکٹروں نے ایسے واقعات بھی سنائے ہیں کہ جب وہ اپنے موبائل فونوں کی روشنی میں آپریشن کرنے پر مجبور ہوئے، انیستھیزیا کے بغیر خواتین کا سیزیرین آپریشن کیا اور نومولود بچوں کو گرم پانی کے کنستروں کے ذریعے گرم رکھنے کی سعی کی۔
مغربی فیمنسٹوں کی یہ منافقت کوئی نئی دریافت نہیں۔ آزادیٔ نسواں کا ان کا سطحی نظریہ صرف تبھی منظرِ عام پر آتا ہے جب خواتین کے حقوق کا مسئلہ مغربی سیاسی مفادات، جنگوں، اور ان کے ایجنڈوں سے میل کھاتا ہو…… یعنی آپ ایک مغربی فیمنسٹ کے افغانستان یا ایران میں خواتین کے مسائل پر پریشان و ہلکان اور غیض وغضب کا شکار ہونے پر تکیہ کر سکتے ہیں مگر محمد بن سلمان کے سعودی عرب یا نریندر مودی کے بھارت میں ، خواتین کی حیثیت کے حوالے سے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جن میں سے مودی کا بھارت وہ جگہ ہے جو تھامسن رائٹرز کے ۲۰۱۸ ء کے سروے کے مطابق جنسی جارحیت اور خواتین کو جبراً غلامی و مزدوری پر مجبور کرنے کے واقعات کی بلند شرح کے سبب خواتین کے لیے دنیا کاخطرناک ترین ملک ہے۔
فیمن ازم کے اس برینڈ کی والی وارث باربی ہے۔ پلاسٹک کی ایک گڑیا جو بَڑھیا بالوں اور انتہائی متناسب فِگر کی مالک ہے، جو ایک حویلی میں رہتی ہے اور ایک کَنورٹیبل گاڑی میں سفر کرتی ہے۔ اس کو دنیا کی بھاری اکثریت پر مشتمل ان خواتین سے کوئی دلچسپی نہیں جن کے عزائم اپنا ذاتی جیٹ حاصل کرنے کی نسبت قدرےعاجزانہ اور منکسر المزاج ہیں اور جو بے حد بنیادی خوابوں کی تکمیل کی خاطر محنت اور جدوجہد کرتی ہیں: یعنی زندہ رہنا اور ایک محفوظ ماحول میں کام کرنا، اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنا ،اپنے پیاروں کو صحت و سلامتی سے رکھنا اور خطرات سے بچا کر رکھنا۔ غزہ نے ہمیں دکھا دیا ہے کہ نظریۂ فیمن ازم کی حقیقت دراصل کس قدر کھوکھلی اور بے معنی ہے، جب وہ کپڑے کے ایک ٹکڑے کے خلاف تو اپنے عالمی جنود سمیت حرکت میں آ جاتا ہے مگر موبائل فونوں پر براہِ راست نشر ہوتی ایک نسل کش مہم جس کا اولین نشانہ خواتین ہیں ، کے خلاف جنبش تک نہیں کرتا۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے ستّر فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ بالآخر فیمن ازم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کردار نہ پدر شاہی نظام ادا کرے گا، نہ ڈانلڈ ٹرمپ یا رِشی سُنک، یا دائیں بازو کاا قتدار میں آنے والا کوئی مرد…… جن سب کی حیثیت یکساں ہونے کے سبب وہ سب ہی آپس میں ادل بدل کیے جا سکتے ہیں، بلکہ اس کا زوال لانے کا سبب اس کے اپنے سپاہی بنیں گے: وہ خواتین جو ان بد ترین جرائم پر خاموش رہیں جن کا مشاہدہ ہماری نسل نے اپنے پورے عرصۂ حیات میں کیا ہے۔
٭٭٭٭٭
1 کیری بریڈشا: ایک افسانوی کردار جس کی شخصیت کے نمایاں پہلو خود پسندی، نرگسیت اور خودغرضی جیسی منفی صفات ہیں۔