رام، رام جنم اور رام جنم بھومی کی حقیقت
رام مندر تو بن گیا اور اس سے ہندوؤں کو دیگر فوائد کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہوا کہ رام کی پیدائش کے حوالے سے پورے ہندوستان میں پایا جانے والا اختلاف کم از کم ہندوستان کی سطح پر تو ختم ہو گیا۔ ورنہ ہندو مذہب کے دیگر تمام معاملات کی طرح رام کا جنم اور اس کی جنم بھومی (جائے پیدائش) دونوں ہی مضحکہ خیز تضادات کا مجموعہ ہیں۔
رام کا تعارف
رام کا ذکر اور اس کی ساری کہانی ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن میں آئی ہے۔ رامائن در حقیقت ایک رزمیہ مثنوی ہے جس میں شاعری کے انداز میں رام کی زندگی کی داستان سنائی گئی ہے۔ ہندو رامائن کو اپنی تاریخ کے حوالے سے دو اہم ترین کتابوں میں سے ایک مانتے ہیں ،اس میں دوسری کتاب مہا بھارت ہے جبکہ درحقیقت یہ دونوں تاریخ کی کتابیں نہیں بلکہ دیو مالائی داستانیں ہیں۔
رام کے جنم کے حوالے سے ہندوؤں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ رام کا جنم کب ہوا اس کی آراء پر تو بعد میں آتے ہیں لیکن اس سے پہلے اس بات پر بھی تین آراء ہیں کہ رام کا جنم ہوا بھی یا نہیں۔
- ایک رائے ویدوں کو ماننے والے آریا سماج اور ان جیسا نظریہ رکھنے والے طبقے کی ہے۔ جن کی نظر میں اصل ہندو دھرم صرف ویدوں کی حد تک محدود ہے جب کہ اس کے بعد لکھی گئی کتابیں یعنی ’پرانے‘ اور سمرتیاں اور اتہاس وغیرہ ان کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندو دھرم میں جتنے بھی دیوی دیوتاؤں کا ذکر ہے ان کا ذکر ویدوں میں نہیں ملتا بلکہ ویدوں کے بعد کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اسی لیے آریا سماج اور ان کے ہم فکر طبقے رام کو ایک حقیقی شخص نہیں سمجھتے بلکہ رامائن کو بھی ایک دیومالائی داستان تصور کرتے ہیں۔ اس طرح اس طبقے کے نزدیک چونکہ رام کوئی حقیقی شخص نہیں تھا بلکہ ایک دیومالائی داستان کا کردار تھا اس لیے اس کا جنم تو درحقیقت ہوا ہی نہیں۔ ہندوؤں میں جدید تعلیم یافتہ طبقے کا بھی ایک بڑا حصہ اب اس طرف مائل ہو رہا ہے۔
- دوسری رائے ان قدامت پرست ہندوؤں کی ہے جو رام کو ایک حقیقی خدا کا درجہ دیتے ہیں اور اسے انسانی حدود و قیود سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رام زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے اس لیے اس کے جنم کو کسی خاص وقت اور دور میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
- تیسری رائے اکثریتی روایت پسند ہندو طبقے کی ہے جو رام کو ایک حقیقی شخص تصور کرتے ہیں جو ایک خاص دور میں ایک خاص مقام پر پیدا ہوا، جس کی ایک دنیاوی زندگی تھی جس میں اس کے ماں باپ تھے، خاندان تھا۔ اور پھر اس کی دنیاوی زندگی ختم بھی ہوئی۔
یہ تیسری رائے ہی ہندوستان میں رائج اور مقبول ہے جبکہ باقی دونوں آراء اقلیتی درجہ رکھتی ہیں۔ لیکن تضاد یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ رام کو ایک حقیقی شخص تصور کرنے والوں کے درمیان بھی رام کے حوالے سے بہت تضاد پایا جاتا ہے، جسے وقت کے ساتھ ساتھ قوم پرست ہندوؤں نے خالص سیاسی وجوہات کی بنا پر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
رام کا اوّلین ذکر
رام کا ذکر ہندوؤں کی بہت سی قدیم تحاریر میں ملتا ہے۔ خود رامائن کے بھی، جسے رام کے حوالے سے ایک مستند تحریر تصور کیا جاتا ہے، تین سو سے زائد نسخے ہیں اور رام کے حوالے سے سب میں تضاد پایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے رام کا ذکر ’دشرتھ جٹک‘ (Dasharatha Jataka)نامی کتاب میں ملتا ہے۔ یہ رام کا تعارف کروانے والی اوّلین کتاب مانی جاتی ہے۔ اس میں رام کا تعارف کچھ اس طرح کروایا جاتا ہے کہ رام دشرتھ کی پہلی بیوی کا بڑا بیٹا تھا۔ دشرتھ موجودہ ہندو عقائد کے برعکس ایودھیا کی بجائے ورانسی (بنارس) کا بادشاہ تھا۔ دشرتھ کی پہلی بیوی سےدو اور بچے بھی تھے۔ رام سے چھوٹا بیٹا ’لکھن کمار‘ (Lakhana Kumar) اور ان کی بہن ’سیتا دیوی‘ (Sita Devi) ۔ اس کہانی کے بقول دشرتھ کی دوسری بیوی رام و لکھن کی جان کی دشمن تھی کیونکہ وہ اپنے بیٹے بھارت کمار (Bharat Kumar) کو رام کی جگہ تخت کا وارث بنانا چاہتی تھی ۔ اس سے بچنے کے لیے دشرتھ نے رام اور لکھن کو بارہ سال کے لیے جلا وطن کر دیا، اور سیتا بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ چلی گئی۔ دشرتھ نو سال بعد مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد لکھن اور سیتا سلطنت میں واپس آگئے لیکن رام نے اپنی جلا وطنی کا وقت پورا کیا اور بارہ سال پورے ہونے پر ہی واپس سلطنت آیا۔ واپس پہنچ کر اس نے اپنی بہن سیتا سے شادی کر لی اور بنارس کا بادشاہ بن گیا۔1
والمکی رامائن میں رام کا ذکر
رام کاقصہ جسے سب سے زیادہ آج تسلیم کیا جاتا ہے وہ ایک ہندو شاعر والمکی (Valmiki) کی ایک رزمیہ مثنوی ’رامائن ‘ میں ملتا ہے۔ والمکی کے علاوہ بھی رامائن اور بہت سے شاعروں نے لکھی لیکن یہ بات حتمی طورپر نہیں کہی جا سکتی کہ کونسی رامائن سب سے پہلے لکھی گئی۔ لیکن آج اکثریت والمکی کی رامائن کو ہی مستند تسلیم کرتی ہے، بلکہ یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ والمکی رام کے دور میں موجود تھا اور اس کی رام سے ملاقات بھی ہوئی۔ والمکی رامائن کے بھی بہت سے نسخے مشہور ہیں اور اگرچہ بنیادی کہانی تو رامائن کے تمام نسخوں میں ایک ہی ہے لیکن کہانی کے مختلف پہلوؤں اور مختلف واقعات کے حوالے سے بہت تضاد پایا جاتا ہے۔
والمکی کے مطابق رام ’کوشالا‘(Kosala)سلطنت کے بادشاہ ’دشرتھ‘ اور اس کی ملکہ ’کوشلیا‘ (Kausalya) کے گھر میں سلطنت کے دارالحکومت ایودھیا میں پیدا ہوا۔رام کا ایک سگا بھائی’لکشمن‘ (Lakshmana) تھا۔ جب کہ دشرتھ کی دوسری بیوی ’سمیترا‘ (Sumitra) کے بھی دو بیٹے تھے بھارت (Bharata) اور شترنگھن (Shatrughna)۔ 2 بعض دیگر روایات کے مطابق سمیترا کا بیٹا شترنگھن تھا جبکہ بھارت دشرتھ کی تیسری بیوی کائی کیئی (Kaikeyi) کا بیٹا تھا۔
والمکی کے بقول ’سیتا‘ سلطنت ’متھلا‘ (Mithila) کے بادشاہ ’جنکا‘ (Janaka) کی بیٹی تھی۔ رام نے اس سلطنت میں تیر سے نشانہ بازی کے ایک مقابلے کے ذریعے سیتا کا ہاتھ جیت لیا اور شادی کر کے اسے واپس ایودھیا لے آیا۔
اسی دوران دشرتھ بادشاہ کی بیوی سمیترا یا کائی کیئی نے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ بادشاہ نے بہت پہلے وعدہ کیا تھا کہ کوئی ایک خواہش ضرور پوری کرے گا چاہے جو بھی ہو، اور اس کی خواہش ہے کہ رام کو دندکا(Dandaka) کے جنگلات میں چودہ سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔ دشرتھ کو یہ مطالبہ ماننا پڑا اور رام اپنی بیوی سیتا کے ساتھ کوشالا سلطنت چھوڑ کر چلا گیا اور اس کا بھائی لکشمن بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔
جب جنگل میں بھٹکتے ہوئے دس سال گزر گئے تو ایک دن سلطنت لنکا (موجودہ سری لنکا) کے بادشاہ ’راوَن‘ (Ravana) نے سیتا کو دیکھ لیا اور اس پر عاشق ہو گیا، اور اسے اغوا کر کے اپنی سلطنت لے گیا۔
یہاں اس کہانی میں بعض انتہائی مضحکہ خیز روایات بھی پائی جاتی ہیں۔ رامائن کے بعض نسخوں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ لنکا میں راون کے چھ ائیر پورٹ تھے۔ اور راون سیتا کو اغوا کر کے ہوائی جہاز پر لنکا لے کر گیا۔ ان ہوائی جہازوں یا اڑن کھٹولوں کو اترنے یا پرواز کرنے کے لیے رن وے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ اترتے وقت خود سکڑ جاتے تھے اور پرواز کے وقت خود پھیل جاتے تھے۔
رام اور لکشمن نے سیتا کو آزاد کروانے کے لیے جنوب کی جانب سفر شروع کیا اور راستے میں ان کے ساتھ بندروں کی ایک فوج شامل ہو گئی جس کا کمانڈر ’ہنومان‘ رام کا ساتھی بن گیا۔
رام جب راون سے لڑنے کے لیے ہندوستان اور لنکا کے کنارے پر پہنچا تو بندروں کی فوج نے گزرنے کے لیے وہاں سمندر میں پل بنایا، اس کو بنانے میں ایک کروڑ بندروں نے کام کیا۔ بندر بڑے بڑے پتھر لاتے تھے اس پر رام کا نام لکھتے تھے اور اسے سمندر میں ڈال دیتے تھے اور رام کے نام کی وجہ سے وہ پتھر ڈوبتے نہیں تھے بلکہ پانی میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ پل پانچ دن میں مکمل ہوا جس سے بندروں کی فوج گزر کر لنکا پہنچی۔
رام نے لنکا پہنچ کر بندروں کی فوج کے ذریعے راون سے مقابلہ کیا اور ایک لمبی جنگ کے بعد راون کو شکست دے دی اور پھر رام اور لکشمن سیتا کو لے کر واپس بھی ہوائی جہاز کے ذریعے گئے۔3،4
رام کی ایودھیا واپسی پر وہاں کے لوگوں نے جشن منایا اور اس کے استقبال میں چراغ جلائے ۔ ہندوؤں کا تہوار ’دیوالی‘ بھی رام کی ایودھیا واپسی کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس میں چراغ جلائے جاتے ہیں۔
واپسی کے بعد رام ایودھیا کا بادشاہ بن گیا اور اس دور کا آغاز ہوا جسے آج ’رام راج‘ کہا جاتا ہے۔ بادشاہ بننے کے بعد افواہ پھیلی کہ ’سیتا‘ راون کے ساتھ اپنی مرضی سے بھاگ گئی تھی۔ رام نے لوگوں کی افواہوں پر یقین کر لیا ، سیتا سے علیحدہ ہو گیا اور اس سے کہاکہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ اس کے بعد اس قصے میں مزید تضادات نظر آتے ہیں۔
بعض قصوں میں کہا جاتا ہے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اسے انگاروں پر چلنے کا کہا گیا۔ اگر وہ بنا جلے کامیابی سے انگاروں سے پار ہو جاتی ہے تو بے گناہ اور اگر جل جائے تو گناہ گار۔ سیتا نے انگارے پار کر لیے اور اس کی بے گناہی ثابت ہو گئی۔ اس کے بعد رام کے سیتا کے ساتھ کوشا اور لاوا نامی دو جڑواں بیٹے بھی ہوئے۔
بعض دیگر قصوں میں کہا جاتا ہے کہ سیتا کو اس بات کا شدید غم تھا کہ رام نے اس پر اعتماد نہیں کیا اور وہ اس غم میں مر گئی۔ اس قصے میں پھر تضاد ہے۔ بعض کہتے ہیں سیتا مر گئی اور رام لمبے عرصے تک حکومت کرتا رہا۔ جبکہ بعض دیگر قصوں میں آتا ہے کہ سیتا کے مرنے کے غم میں رام نے پانی میں ڈوب کر خود کشی کر لی۔
لیکن روایات میں اس تضاد کو تضاد نہیں کہا جاتا نہ ہی کسی ایک روایت کو غلط اور کسی ایک کو حقیقی کہا جاتا ہے۔ یہ روایات علاقوں میں تقسیم ہیں۔ جس علاقے کے مزاج کے مطابق جو روایت بیٹھتی ہے وہ اسے قبول کر لیتا ہے، لیکن دوسری روایت کو بھی جھوٹا نہیں کہتا ۔
رام جنم
جس طرح رام کے قصے کے دیگر تمام پہلو تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔ اسی طرح رام کا جنم (پیدائش) بھی تضادات کا مجموعہ ہے۔ لیکن ان تضادات کی نوعیت مختلف ہے۔ رام کا قصہ چونکہ ایک دیومالائی داستان ہے اس لیے ہر قصہ گو نے اس میں اپنے مزاج کے مطابق اضافے اور کمیاں کی ہیں۔ لیکن راج کا جنم کب ہوا اس میں تضاد کی وجہ ہندوؤں کی داستانوں کی مضحکہ خیزی کو کسی تاویل کے ذریعے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کرنا ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ ہم رام کے جنم کی تاریخ پر بات کریں، ہندومت میں وقت اور ادوار کو سمجھنا ضروری ہے۔
چتر یُگ(Chatur Yuga) : ہندو روایات میں تاریخ کے ادوار
یُگ ہندو روایات میں ایک دور کو کہا جاتا ہے۔ہندوروایات میں دنیا میں وقت چار ادوار میں تقسیم ایک چکر ہے جسے چتُر یُگ کہتے ہیں۔ ہر چکر تینتالیس لاکھ بیس ہزار (4,320,000) سال پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے چاروں ادوار میں پہلا دور سب سے لمبا ہوتا ہے جب کہ بعد میں آنے والا ہر دور پچھلے دور سے پچیس فیصد چھوٹا ہوتا ہے۔ ہر دور تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک اس دور کا طلوع، ایک بنیادی دور اور ایک اس دور کا غروب۔ دور کا طلوع اور غروب مکمل دور کے دس دس فیصد حصے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ چار ادوار درج ذیل ہیں:
- ستیا یُگ(Satya Yuga) یا کرِتایُگ (Krita Yuga)
ستیا یگ کا مطلب ہے سچائی یا اخلاص کا دور جبکہ کرِتا یُگ کا مطلب ہے نیکی کا دور۔ یہ دور ۱۷ لاکھ ۲۸ ہزار سال طویل ہے۔ مہابھارت میں ا س دور کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے لکھا ہے:
’’آدمی نہ بیچے جاتے تھے نہ خریدے جاتے تھے، نہ کوئی غریب تھا نہ امیر۔ کسی کو مشقت کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انسان کو جو چاہیے ہوتا تھا وہ اپنی قوت ارادی سے حاصل کر لیتا تھا۔ اہم ترین خوبی تمام دنیاوی خواہشات کا ناپید ہونا تھا۔ کِرتا یُگ میں کوئی مرض نہیں تھا…… تب نہ نفرت تھی نہ حسد یا کسی بھی قسم کے برے جذبات، نہ ہی غم تھا اور نہ ہی خوف۔‘‘5
ہندو مت کے مطابق اس کِرتا یُگ کا آغاز ۳۸ لاکھ ۹۱ ہزار ایک سو دو قبل مسیح میں ہوا ۔
- تریتا یُگ (Treta Yuga)
تریتا یُگ ہندو مت میں چتُر یُگ کا دوسرا دور ہے۔ یہ دور ۱۲ لاکھ ۹۶ ہزار سال طویل ہے۔ اس دور کا آغاز ۲۱ لاکھ ۶۳ ہزار ایک سو دو قبل مسیح میں ہوا۔سنسکرت میں ’تریتا‘ کا مطلب ہے تین کا مجموعہ۔ یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہندو مت کے مطابق اس دور میں ویشنو کے تین اوتار آئے جو کہ بالترتیب وامن(Vamana)، پَرَشُرام (Parashurama) اور رام تھے۔
- دواپرا یُگ (Dvapara Yuga)
دواپرا یُگ چتُر یُگ کا تیسرا دور ہے، اور یہ ۸ لاکھ ۶۴ ہزار سال طویل ہے۔ اس دور کا آغاز ۸ لاکھ ۶۷ ہزار ایک سو دو قبل مسیح میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے دو ادوار میں ’وید‘ ایک ہی تھی جبکہ اس دور میں یہ چار حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ رِگ وید (Rig Veda)، سام وید(Sama Veda)، یاجُر وید (Yajur Veda) اور آتھروْ وید(Atharva Veda) ۔
- کالی یُگ (Kali Yuga)
کالی یُگ، چتُر یُگ کا چوتھا، سب سے چھوٹا اور سب سے برا دور مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور کالی یُگ میں آتا ہے جو کہ تنازعات اور گناہوں سے اٹا ہوا ہے۔ یہ دور چار لاکھ بتیس ہزار (432,000) سال طویل ہے۔ اس کا آغاز ۳۱۰۲ قبل مسیح میں ہوا اور یہ اب تک جاری ہے اور ہندو مت کے مطابق اس کا اختتام ۴ لاکھ ۲۸ ہزار آٹھ سو ننانوے عیسوی میں ہو گا جس کے بعد چتُر یُگ پھر سے کرِتا یُگ سے شروع ہو جائے گا۔
رامائن کے مطابق رام کا جنم ’تریتا یُگ‘ میں بارہ لاکھ سال پہلے ہوا، اور اس نے گیارہ ہزار سال حکومت کی۔ صدیوں تک ہندوؤں کا نظریہ یہی رہا، لیکن پچھلی صدی میں جدید تعلیم یافتہ طبقے نے اس پر سوال اٹھانا شروع کر دیے اور اس کے خلاف منطقی دلائل لے کر آئے۔
اس کے جواب میں اگرچہ قدامت پرست ہندوؤں نے ،جن میں موجودہ حکمران جماعت بی جے پی اور اس کے رہنما بھی شامل ہیں، اس نظریے کا دفاع کیا اور کہا کہ جس طرح سامی مذاہب آدم ؑ کی پیدائش کے حوالے سے بات کرتے ہیں وہ بھی جدید سائنس سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن یہ ان کا مذہبی عقیدہ ہے تو یہ ہمارا مذہبی عقیدہ ہے۔ مزید اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سائنسدان مغرب کے حوالے سے جانبدار ہیں اس لیے وہ ہمارے عقائد کے بارے میں جانبدارانہ رائے دیتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ہندو دانشوروں نے ہندو مت کی ساکھ بچانے کے لیے نئی تاویلیں گھڑیں اور ان تاویلوں کو حکومتی سطح پر ترویج بھی دی گئی۔
ایک نظریہ جسے سب سے زیادہ پذیرائی ملی اور جسے آج سب سے زیادہ تسلیم بھی کیا جاتا ہے وہ۲۰۰۴ء میں پیش کیا گیا پشکر بھٹناگر (Pushkar Bhatnagar) کا نظریہ ہے جس نے اپنی پیچیدہ تاویلوں کے ذریعے سے یہ دعویٰ کیا کہ رام کی پیدائش ۱۰ جنوری ۵۱۱۴ قبل مسیح میں دن ساڑھے بارہ بجے ہوئی۔
رامائن میں رام کی پیدائش کے وقت کے حوالے سے سیاروں اور ستاروں کے ایک خاص مقام پر ہونے کا ذکر آیا ہے۔ رامائن میں ذکر ہے کہ رام کی پیدائش قمری مہینے ’چھیتر‘ کی ۹ تاریخ کو ہوئی جب چاند اور مشتری مشرق سے سرطان کی علامت میں ابھر رہے تھے، اس کے علاوہ سورج، مریخ، زحل اور زہرہ کے بھی اپنی علامات کے ساتھ مقام کا ذکر ہے۔ بھٹناگر نے ایک فلکیات سے متعلق کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ذریعے سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ سیاروں اور ستاروں کے جن مقامات کا ذکر کیا گیا ہے تاریخ میں یہ کب اس مقام پر اکٹھے تھے تو اس سافٹ ویئر کے ذریعے سے اس نے یہ تاریخ اخذ کی کہ ایسا ۱۰ جنوری ۵۱۱۴ قبل مسیح دن ساڑھے بارہ بجے ہوا۔
لیکن اگر یہ بات درست ہے تو پھر رامائن میں بیان کیے گئے چتُر یُگ غلط ہو جاتے ہیں اس لیے رام کی پیدائش کی یہ تاریخ ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ چتُر یُگ کے چاروں ادوار کی بھی کوئی تاویل پیش کی جائے۔ اس مقصد کے لیے بھٹناگر نے چتُر یُگ کے نئے اندازے پیش کیے جو درج ذیل ہیں:
- ایک مکمل چتُر یُگ : ۱۲۰۰۰ شمسی سال
- ستیا یُگ: ۴۸۰۰ شمسی سال
- تریتا یُگ: ۳۶۰۰ شمسی سال
- دواپرا یُگ: ۲۴۰۰ شمسی سال
- کالی یُگ: ۱۲۰۰ شمسی سال
بھٹناگر نے اپنا یہ نظریہ نشر کر دیا۔ لیکن نشر کے کچھ عرصہ بعد اسے احساس ہوا کہ اگر چتُر یُگ بارہ ہزار سال کا ہو تو پھر اس کا نظریہ کہ رام ۵۱۱۴ قبل مسیح میں پیدا ہوا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ایک چتُر یگ کو ۱۰،۰۰۰ سال کا ہونا چاہیے۔ اس لیے اس نے اپنی نئی رائے پیش کر دی کہ چتُر یُگ اصل میں دس ہزار سال کا ہوتا ہے۔
لیکن پھر بھی اس کے اس اندازے میں خامی رہ گئی ۔ درحقیقت رامائن میں چاروں ادوار کی جو خاصیتیں بیان کی گئی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی وقت کے اعتبار سے جو بھی تاویل کی جائے اس میں خامی رہنی ہی تھی۔ بھٹناگر کی پیش کردہ ادوار کی نئی تقسیم کو اگر درست مان لیا جائے تو اس کے مطابق اس وقت ستیا یُگ ہونا چاہیے لیکن ستیا یُگ کی تعریف میں جو زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اس وقت پورا نہیں ہوتا۔ اس لیے سب ہندوؤں کا ماننا ہے کہ اس وقت کالی یُگ چل رہا ہے۔
اس لیے ہندوؤں نے رام کے جنم کی نئی تاریخ یعنی ۵۱۱۴ قبل مسیح کو تو خوب پھیلایا لیکن اس سے جڑی ادوار کی تقسیم کو گول کر گئے۔
اس میں ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر انسانی تاریخ اور آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد پر دیکھا جائے تو جو قصہ رامائن میں آیا ہے اس طرح کسی بادشاہ کا وجود بارہ ہزار قبل مسیح میں بھی ناممکن ہے کجا یہ کہ وہ بارہ لاکھ سال قبل مسیح میں موجود ہوں۔
اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر رام جنم کی جدید تاریخ یعنی ۵۱۱۴ قبل مسیح کو قبول کر لیا جائے تو کسی بادشاہ اور سلطنت کے وجود کا مسئلہ تو حل ہو جاتا ہے لیکن ایک دوسرا مسئلہ پھر بھی رہ جاتا ہے کہ رام کے باپ دشرتھ کو ’دشرتھ‘ کہتے اس لیے تھے کہ اس کے پاس دس رتھ (chariot)تھے۔ اب دشرتھ کے پاس ’دس رتھ‘ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پہیہ ایجاد ہو چکا ہو۔ تاریخ اور آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی بار پہیے والی کسی سواری کا استعمال ۲۱۰۰ قبل مسیح میں ہوا۔ پہلی بار کسی کے گھوڑا گاڑی چلانے کے آثار بابل میں ۲۰۴۰ قبل مسیح میں ملتے ہیں۔ جبکہ جنگوں میں گھوڑوں کے ساتھ رتھ کے استعمال کے آثار ۱۵۰۰ قبل مسیح کے بعد ملتے ہیں۔ اس لیے منطقی طور پر دشرتھ کا دور اس کے بعد کا ہونا چاہیے۔
اب ۲۰۲۰ء میں ایک ہندو دانشور ’دیوْ دت پٹ نائک‘ (Devdutt Pattanaik) نے اپنی کتاب “The Book of Ram” میں دعویٰ کیا ہے کہ تاریخی شواہد سے لگتا ہے کہ رام کا دور ۱۲۵۰ قبل مسیح کے آس پاس تھا اور اس کے ایسا دعویٰ کرنے کی وجہ بھی مذکورہ بالا شبہات ہیں۔ 6لیکن اس بات کو تسلیم کرنے میں رامائن کی بہت سی چیزوں کو رد کرنا پڑے گا بلکہ نہ صرف رامائن کی بلکہ ہندوؤں کی اور بہت سی کتابوں میں جو چتُر یُگ کے چاروں ادوار کا ذکر آیا ہے ان سب کو رد کرنا پڑے گا۔ اور اگر ان کو رد کر دیا جائے تو رام کی کہانی بھی رد ہو جاتی ہے۔
لیکن اگر چتُر یُگ کے مسئلے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے یہی مان لیا جائے کہ رام واقعی کوئی حقیقی شخصیت تھی اوریہ کہانی کسی درجے میں سچ ہے اور رام کا دور ۱۲۵۰ قبل مسیح کے آس پاس ہی تھا، تب بھی اس کا موجودہ ایودھیا میں ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ موجودہ ایودھیا میں ۵۰۰ قبل مسیح سے قبل آبادی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
رام جنم بھومی کی حقیقت
بابری مسجد کو شہید کیے جانے سے قبل بلکہ اس کے بعد تک بھی ہندوؤں میں کبھی اس بات پر اتفاق رائے نہیں پایا گیا کہ رام کی اصل جائے پیدائش (جنم بھومی) کون سی ہے۔ اس اختلاف کو بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے ایک سیاسی مقصد کے حصول کے لیے طاقت اور پراپیگنڈہ کے زور پر دبا دیا گیا۔
رام کے حوالے سے اور پھر اس کے جنم کے حوالے سے اختلاف رائے ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ جہاں تک اس کی جنم بھومی (جائے پیدائش) کے بارے میں اختلاف کی بات ہے تو یہ دو طرح کا ہے:
- کیا رام ایودھیا میں ہی پیدا ہوا یا کہیں اور؟
- کیا موجودہ ایودھیا وہی ایودھیا ہے جس کا والمکی رامائن میں ذکر ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ اولین تحاریر جن میں رام کا ذکر آیا ان میں رام کی جنم بھومی (جائے پیدائش) کو ایودھیا کی بجائے ورانسی (بنارس) لکھا گیا ہے، لیکن یہ رائے آج مقبول نہیں۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ رام ایودھیا میں ہی پیدا ہوا اس میں بھی ایودھیا میں کس مقام پر پیدا ہوا اس پر اتفاق نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل ایودھیا شہر میں چھ دیگر مقامات تھے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ رام کی اصل جنم بھومی یہ ہے۔
خود بابری مسجد کو رام جنم بھومی ماننے والے بھی ایک بات پر ٹکے نہیں رہے۔ ۱۸۵۵ء میں جب تنازع کا آغاز ہوا تب ہندوؤں کا دعویٰ بابری مسجد کے صحن میں ایک مقام کے حوالے سے تھا کہ یہ مقام رام جنم بھومی ہے اور وہاں انہوں نے ایک چبوترہ بنایا اور اسے رام چبوترہ کا نام دیا۔
لیکن جب ۱۹۴۹ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کے اندر مورتیاں رکھ دیں اس کے بعد یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ رام کی جنم بھومی بابری مسجد کے اندر درمیانی گنبد کے عین نیچے ہے۔
لیکن رام جنم بھومی کو ایودھیا میں ماننے والوں میں یہ اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ آیا رامائن میں ذکر کیا گیا ایودھیا اور موجودہ ایودھیا ایک ہی ہیں؟
اس سوال کے پیچھے بڑی وجہ یہی ہے کہ جیسا پیچھے ذکرہو چکا ہے کہ رام کے دور کے حوالے سے جو قریب ترین اور جدید ترین دعویٰ کیا جاتا ہے وہ بھی ۱۲۵۰ قبل مسیح کا کیا جاتا ہے جبکہ موجودہ ایودھیا میں آبادی کے آثار ۵۰۰ قبل مسیح سے پہلے نہیں ملتے۔ اس لیے اصل ایودھیا کے حوالے سے بہت سے دعوے کیے گئے۔
۱۹۹۰ء سے لے کر اب تک رام جنم بھومی کے حوالے سے ۸ مختلف دعوے کیے جا چکے ہیں۔ جن میں سے ایک مصنف ایم وی رتنام نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا کہ رام اصل میں قدیم مصر کا فرعون رامسس دوم (Ramses II) تھا۔
ذیل میں ان دعووں کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے میڈیا میں شہرت پائی۔
ہرات، افغانستان
ان میں سے ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ رامائن میں ذکر کیا گیا ایودھیا افغانستان کے علاقے ہرات میں ایک شہر تھا اور یہی رام کی اصل جنم بھومی ہے۔ یہ رائے ہندو تاریخ دان شیام نارائن پانڈے نے ۱۹۹۲ء میں اپنی ایک کتاب میں ذکر کی ہے۔
۲۰۰۰ء میں ایک ہندو فزکس دان راجیش کوچھار نے بھی اپنی کتاب “The Vedic People: Their History and Geography” میں دعویٰ کیا کہ رام کی اصل جنم بھومی موجودہ مغربی افغانستان اور مشرقی ایرانی علاقوں میں تھی۔ اور ایودھیا شہر وہاں آباد تھا۔ اس کی رائے تھی کہ آریاؤں کی عادت تھی کہ جب نئی جگہ پر منتقل ہوتے تھے تو اپنے پرانے علاقوں کی یاد میں نئی جگہوں کے نام بھی بدل کر اپنی پرانی جگہوں جیسے رکھ لیتے تھے۔ اس لیے جب آریا قومیں وسطی ایشیاء سے برصغیر منتقل ہوئیں تو انہوں نے یہاں کے علاقے کا نام بھی بدل کر ایودھیا رکھ لیا۔
باناوالی، ہریانہ
۱۹۹۸ء میں ایک ہندو ماہر آثار قدیمہ ایم وی این کرشن راؤ نے وادیٔ سندھ کی تہذیب سے ملنے والے نوادرات کا مطالعہ کرنے کے بعد دعویٰ کیا کہ ہندوستان کی ریاست ہریانہ کا علاقہ باناوالی رام کی اصل جنم بھومی ہے۔ اس کے بقول یہ علاقہ پہلے ایودھیا تھا پھر بعد کی صدیوں میں اس کا نام بدل کر باناوالی رکھ دیا گیا۔ راؤ نے دعویٰ کیا کہ رام اصل میں سومیری(Sumerian) بادشاہ رِم سِن اوّل (Rim Sin I) تھا اور اس کا دشمن راون اصل میں بابلی (Babylonian) بادشاہ حمورابی(Hammurabi) تھا۔ راؤ کا دعویٰ بھی یہی تھا کہ اس حوالے سےابہام کی وجہ یہی ہے کہ آریائی قومیں جب مشرق کی جانب ہجرت کر رہی تھیں تو وہ اپنے قدیم علاقوں کے ناموں پر نئے علاقوں کے نام رکھ رہے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کے سابق افسر جسو رام نے اپنی تحقیق میں یہ دعویٰ کیا کہ رام کی اصل جنم بھومی پاکستان کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے رحمان ڈھیری میں ہے۔ اس دعوے کو ۲۰۱۵ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے اسسٹنٹ جنرل سیکریٹری اور ترجمان عبد الرحیم قریشی نے اپنی کتاب “Facts of Ayodhya Episode (Myth of Ram Janmabhoomi)” میں اٹھایا اور دعویٰ کیا کہ رحمان ڈھیری کا سابقہ نام ’رام ڈھیری‘ تھا۔
اس نے مزید کہا کہ رام کا باپ بادشاہ دشرتھ ’ساپتا سندھو‘ کا بادشاہ تھا جس کا علاقہ ہندوستان کے ہریانہ، ہندوستان اور پاکستان کے پنجاب اور افغانستان کے مشرقی علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور ویدوں اور ’پرانوں‘ میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ رام کی جنم بھومی وادیٔ گنگا میں ہے۔
ایودھیا پوری، تھوری، نیپال
ان تمام دعووں میں سب سے مضبوط دعویٰ نیپال کا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں نیپال کے وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ رام کی اصل جنم بھومی نیپال میں ہے۔ اس دعویٰ کے پیچھے بہت سے دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:
- رامائن میں جسے ایودھیا کہا گیا اسی جگہ کو مہابھارت میں ایودھیا پوری کہا گیا۔ لیکن انڈیا میں موجود ایودھیا کا نام کبھی ایودھیا پوری نہیں رہا جبکہ ایودھیا پوری نیپال میں موجود ہے۔
- سیتا کی پیدائش جنک پور، نیپال میں ہوئی۔ جنک پور سے ایودھیا پوری کا فاصلہ ۱۵۰ کلومیٹر ہے۔ رامائن میں آیا ہے کہ رام سیتا سے شادی کرنے کے لیے اپنی گھوڑا گاڑی پر جنک پور ایک دن میں پہنچا۔ یہ صرف نیپال کی ایودھیا پوری سے ممکن ہے کیونکہ انڈیا میں موجودہ ایودھیا سے جنک پوری تک کا فاصلہ پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
- رامائن میں ہے کہ جب سیتا پر الزام لگا کہ وہ اپنی مرضی سے راون کے ساتھ بھاگ گئی تھی تو رام نے اپنے بھائی کو کہا کہ سیتا کو والمکی آشرم چھوڑ آئے۔ لکشمن سیتا کو گھوڑا گاڑی پر والمکی آشرم چھوڑ کر اسی دن گھر واپس آگیا۔ والمکی آشرم ایودھیا پوری کے مغرب میں پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ انڈیا میں موجودہ ایودھیا سے والمکی آشرم کا راستہ ۶۰۰ کلومیٹر ہے۔اس لیے ایسا کرنا صرف ایودھیا پوری سے ہی ممکن تھا۔
- رامائن میں آیا ہے کہ ایودھیا سارایو دریا کے کنارے آباد تھا۔ سنسکرت میں سارا کا لفظ جھیل کے لیے آتا ہے، اس لیے سارایو ایسا دریا ہے جو کسی جھیل سے نکلتا ہو۔ اس دریا کا دوسرا نام سرسوتی ہے اور اسے پروَت اگھنی بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے وہ دریا جو پہاڑیوں میں گھستا، انہیں چیرتا اور کاٹتا ہوا گزرتا ہو۔ رامائن میں جس سارایو کا ذکر ہے وہ ایودھیا پوری کے نزدیک بہتا ہے اور بولنے کے انداز میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آنے کی وجہ سے دریا کا نام سارایو سے صرف ’رایو‘ رہ گیا۔ دوسرا دریا جس کا ذکر رامائن میں آتا ہے وہ دریائے تماسا ہے اور وہ بھی ایودھیا پوری کے نزدیک بہتا ہے۔
اختتامیہ
رام کے قصے کی حقیقت پڑھنے سے بابری مسجد تنازع میں ہندوؤں کے کردار کے بہت سے پہلوؤں کی سمجھ آجاتی ہے۔ اس قصے سے ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے کہ درحقیقت یہ ایک دیومالائی داستان ہے اور اس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ لیکن قصے میں بھی دروغ گوئی کا بے دریغ اور بے باکانہ استعمال اور پھر اسے ایک مذہبی کتاب کا درجہ دے کر یہ کہنا کہ یہ سو فیصد حقیقت ہے، اس نے ہندوؤں کا مزاج بنا دیا ہے کہ انہیں کسی بھی قسم کا جھوٹا دعویٰ کرنے میں ہلکی سی بھی عار محسوس نہیں ہوتی، اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال اور اپنے مذہب کے حوالے سے ہی جھوٹے دعوے کرنا ان کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
۱۹۴۹ء میں چھپ کر خود مورتیاں مسجد میں رکھنا اور پھر یہ اعلان کر دینا کہ ’چمتکار‘ (معجزہ) ہو گیا اور بھگوان خود اس جگہ پر نمودار ہو گئے، یہ بذات خود اپنے ہی دین کا مذاق اڑانا ہے لیکن انہیں اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے بڑے خود بھی اپنے مذہب کی حقیقت سے آگاہ ہیں اور وہ عام لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کے لیے مذہب کو بطور آلہ استعمال کرتے ہیں۔
اس سے ایک اور بات بھی سمجھ آتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت دلیل اور منطق کو نہیں سمجھتی بلکہ جذبات کی رو میں ہی بہتی ہے اور انہیں جذبات کے ذریعے ہی چلایا جاتا ہے ورنہ یہ سوال پوچھنے کے لیے کوئی بڑی دانشمندی تو درکار نہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جو بارہ لاکھ سال پہلے پیدا ہوا اس کی جائے پیدائش اتنی دقیق انداز میں معلوم ہے کہ وہ بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے عین نیچے پیدا ہوا۔
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عوام کا مجموعی حافظہ کمزور ہوتا ہے اور جب کسی بات کا پورے زور و شور سے پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے تو وہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے پہلے کیا تھا۔ اسی لیے جب ۱۹۴۹ء کے بعد یہ شور مچا کہ رام کی جنم بھومی عین درمیانی گنبد کے نیچے ہے تو کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ پچھلی تقریباً ایک صدی سے تو جنم بھومی مسجد کے صحن میں رام چبوترا تھا یہ اچانک درمیانی گنبد کے نیچے کیسے پہنچ گئی؟
ایک اور بات بھی واضح نظر آتی ہے کہ ہندو قوم پرستوں کے لیے مذہب ایک سیاسی آلے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جہاں ان کو اپنا مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے وہ مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے لوگوں کے جذبات بھڑکا کر ہر دلیل اور منطق کی آواز کو دبا دیتے ہیں۔ رام جنم بھومی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ بابری مسجد کے مقام کی رام جنم بھومی ہونے کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں، آثار قدیمہ والوں نے اتنا تو کہہ دیا کہ اس کے آثار ملے ہیں کہ یہاں شاید پہلے کوئی مندر تھا لیکن آثار قدیمہ کی یہ بات نظر انداز کر دی گئی کہ یہاں تو ۵۰۰ قبل مسیح سے پہلے کوئی آبادی نہیں تھی تو پھر بارہ لاکھ سال قبل یہاں کوئی بادشاہ کیسے حکومت کر سکتا تھا جس کا بیٹا رام یہاں پیدا ہوا؟ بس اسی بات پر فیصلہ کر دیا گیا کہ چونکہ اتنے سالوں سے ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد ایسا سمجھتی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہی رام جنم بھومی ہے۔
بات بابری مسجد پر ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ یہ تو پہلا قدم تھا یا خود ہندو قوم پرستوں کے بقول یہ تو صرف جھلکی تھی۔ ان کا ارادہ تو ہندوستان کی تمام مساجد کو ختم کرنا ہے۔ بابری مسجد کے معاملے میں حکومت اور عدلیہ کا کردار سب کے سامنے ہے۔ وہی عدالت جس نے بابری مسجد کو بلاجواز و دلیل رام جنم بھومی قرار دے دیا اسی نے اب گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں مندر بھی بنوا دیا ہے ۔کیا پھر بھی کسی کو ان عدالتوں سے امید ہے؟ قوم پرستوں نے بابری مسجد گرا کر کہا تھا، یہ تو ابھی جھاکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے۔ کاشی کی گیان واپی مسجد کی باری تو آچکی ، تہہ خانے میں مندر کھولنے کے بعد آدھی مسجد تو مندر میں تبدیل ہو چکی اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو باقی بھی کر لیں گے، مَتُھرا کی شاہی عید گاہ کو مندر بنانے کے لیے مہم بھی زور و شور سے جاری ہے، اِدھر اُدھر دیگر مساجد بھی منہدم کی جا رہی ہیں، تیس ہزارسے زائد مساجد کو مندر بنانے کی فہرستیں بھی جاری ہو چکیں۔ تو مسلمان کیا صرف نظارہ دیکھتے رہیں گے؟ اس امید پر کہ شاید اس چناؤ میں بھاجپا سرکار نہ بنا سکے اوران چیزوں سے جان خلاصی ہو جائے۔ پہلی بات تو یہ کہ اس کا کوئی امکان نہیں۔ کوئی اور پارٹی اتنی مضبوط نہیں لیکن فرض کریں ایسا ہو بھی جاتا ہے اور سرکار کوئی اور پارٹی بنا لیتی ہے پھر بھی پچھلے دس سالوں میں ہندتووادی جس قدر طاقتور ہو چکے ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی سرکار ان سے دشمنی کرنے کا خطرہ مول لے سکتی ہے تو اسے پھر اس خواب سے بیدار ہو جانا چاہیے۔ جب تک مسلمان غیرت کا مظاہرہ نہیں کرتے ، اللہ کے گھروں کو بچانے کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار نہیں ہو جاتے، کافروں پر تکیہ چھوڑ کر، اپنے درمیان دھڑے بندیاں ختم کر کے اپنے دین و دنیا کی حفاظت کے لیے متحد و متفق نہیں ہو جاتے، یہ مسجدیں اور عزتیں، یہ گھر اور دکانیں یونہی بے یار و مددگار دشمن کے ہاتھ میں کھلونا بنتی رہیں گے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الرعد: ۱۱)
’’یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔‘‘
٭٭٭٭٭
1 Historical Evolution of the Ram Legend by Suvira Jaiswal, Social Scientist, Vol. 21, (1993), p. 89
2 A History of Indian Literature by Moriz Winternitz Volume 1, (1981)
3 The Ramayana of Valmiki: An Epic of Ancient India by Robert P. Goldman, Vol 1 (1984)
4 Facts about the Ramayana you never knew – Artofliving.org
5 Vana Parva, Mahabharata
6 Was Ram born in Ayodhya? Devdutt Pattanaik, Mumbai Mirror, 6 August 2020