اسلام کے خلاف جاری عالمی صہیونی جنگ کے تناظر میں اسلامی مقاطعہ کو سمجھنا، نافذ کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا
محمد ابراہیم لَڈوِک (زید مجدہ) ایک نو مسلم عالمِ دین ہیں جنہوں نے عالَمِ عرب کی کئی جامعات میں علم دین حاصل کیا۔ موصوف نے کفر کے نظام اور اس کی چالوں کو خود اسی کفری معاشرے اور نظام میں رہتے ہوئے دیکھا اور اسے باطل جانا، ثم ایمان سے مشرف ہوئے اور علمِ دین حاصل کیا اور حق کو علی وجہ البصیرۃ جانا، سمجھا اور قبول کیا، پھر اسی حق کے داعی بن گئے اور عالَمِ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے حامی اور بھرپور دفاع کرنے والے بھی بن گئے (نحسبہ کذلك واللہ حسیبہ ولا نزکي علی اللہ أحدا)۔ انہی کے الفاظ میں: ’میرا نام محمد ابراہیم لَڈوِک ہے ( پیدائشی طور پر الیگزانڈر نیکولئی لڈوک)۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں نے علومِ تاریخ، تنقیدی ادب، علمِ تہذیب، تقابلِ ادیان، فلسفۂ سیاست، فلسفۂ بعد از نو آبادیاتی نظام، اقتصادیات، اور سیاسی اقتصادیات امریکہ اور جرمنی میں پڑھے۔ یہ علوم پڑھنے کے دوران میں نے ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کی جو دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں اور اسی دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ایک سیاسی اور اقتصادی نظام ہے جو حقیقتاً اور بہترین انداز سے ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہے اور یوں میں رمضان ۱۴۳۳ ھ میں مسلمان ہو گیا‘، اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بھائی محمد ابراہیم لڈوک کو استقامت علی الحق عطا فرمائے، آمین۔جدید سرمایہ دارانہ نظام، سیکولر ازم، جمہوریت، اقامتِ دین و خلافت کی اہمیت و فرضیت اور دیگر موضوعات پر آپ کی تحریرات لائقِ استفادہ ہیں۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شیخ محمد ابراہیم لَڈوِک (حفظہ اللہ) کی انگریزی تالیف ’Islamic Boycotts in the Context of Modern War ‘ کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہے۔ (ادارہ)
سیاسی اور اخلاقی بالادستی
مسیحیت میں حکومت کے اختیار و اقتدار کو جواز دینے والا بنیادی تصور یہ تھا کہ یہی خدا کی منشاء ہے۔ لوگوں میں ایسا کوئی نظریہ نہیں پایا جاتا تھا کہ انہیں کسی بھی وقت یا موقع پر اپنے حاکم کو ہٹانے کا بھی اختیار حاصل ہے، مثلاً اگر انہیں اپنے حالاتِ زندگی یا معیارِ زندگی پسند نہ ہو یا حاکم کے فیصلوں سے متفق نہ ہوں تو اسے ہٹا کر کسی دوسرے کو اس کی جگہ تعینات کر دیں۔ عوام تنگی و فراخی ہر دو قسم کے حالات میں حاکم کی اطاعت کو خدا کی منشاء و مرضی سمجھا کرتے تھے۔
اس تصور کو سیکولرازم اور جدید نظریۂ جمہوریت نے تبدیل کیا۔ جدید عالمی نظریے کے مطابق، حاکم کے بر سرِ اقتدار رہنے کا جواز ہی اس کی اس صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ عوامی بہبود، روزگار کے مواقع اور معاشی بڑھوتری میں کتنا اضافہ کر سکتا ہے۔ اگر وہ خاطر خواہ معاشی ترقی بہم نہیں کر پاتا ، تو عوام اسے ہٹا دیتے ہیں۔
اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ لوگ اللہ عزّ و جل کے بجائے اپنی خواہشات کی پرستش کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشروں کو صہیونی اشرافیہ اور ان کے غلاموں اور حلیفوں نے سود و رِبا کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے، جس کے سبب ہمیں اپنی پیداوار یا محصول کو مسلسل بڑھانے کی ضرورت رہتی ہے تاکہ ہمہ وقت بڑھتے ہوئے سود کی رقم ادا کی جا سکے۔ دینِ مسیحیت میں آج کی جدید لبرل حکومت لگ بھگ اسی دور میں نمودار ہوئی کہ جب سود کو قانونی جواز دیا گیا۔ چنانچہ سیاسی و معاشی، دونوں انواع کے استحکام کا انحصار مستقل بڑھتی ہوئی معاشی پیداوار پر ہے۔ چونکہ ہمارے اقتصاد کی بنیاد ہی سود پر کھڑی ہے، تو اقتصادی بڑھوتری روکنے یا کم کرنے کا نتیجہ سودی قرضوں میں اضافوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
جدید لبرل سیکولرازم میں (حاکم کے اقتدارکا)اخلاقی جوازبھی معیشت کی ترقی سے منسلک ہے۔ لبرل ازم کے داعیوں کا اپنے نظریے اور موقف کے درست ہونے کے لیے استدلال یہ ہے ان نظریات و عقائد پر کھڑے بہت سے قانونی اور سیاسی نظام بہت سے لوگوں کے لیے زندگی کو مادّی اعتبار سے بہتر بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان نظاموں کے کھڑے کرنے میں اللہ سبحانہ و تعالی اور انسانیت کے خلاف بہت سے جرائم بھی شامل ہیں، نہ ہی اس سے کہ ان نظاموں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں، اور یہ بہت سے ماحولیاتی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کی جڑ اور سبب ہیں۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ ان نظاموں کے تحت زندگی گزارنے والے اپنے اصل مقصدِ زندگی سے دور سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کےتعلیمی نظاموں نے انہیں کامیابی کو بنیادی طور پر معیشت کی ترقی اور مادّی عیش و آرام میں اضافے سے ہی ماپنا سکھایا ہے۔
اپنی پوری تاریخ میں لبرلزم کا دارومدار ایک ایسی عالمی منڈی کی بڑھوتری پر ہی رہا ہے جس پر یہود و نصاریٰ غالب تھے۔ اس کا دار ومدار مقامی طور پر لوگوں کی کفایت کی صلاحیت ختم کر کے، اس کی جگہ ایسی اشیاء کی خصوصی پیداوار بڑھانے پر رہا ہے جن کی طلب عالمی منڈی کو تھی۔ یہ عالمی منڈی وہ منڈی ہے جو کہ لبرل اداروں کے زیرِ قبضہ و انتظام ہے، اور یہ لبرل ادارے یہود و نصاری کے قبضہ و انتظام میں ہیں۔ مغرب کی جانب سے صادر ہونے والے ہر عسکری اقدام کی شکل ،نوعیت اور شدت کا فیصلہ، مزید اقتصادی بڑھوتری کے حصول کی خاطر لبرل عالمی منڈی کے اثرو نفوذ کو بڑھانے اور وسعت دینے کے ایک نہایت جانچے پرکھے ہوئے اندازے کےمطابق کیا جاتا ہے۔
عالمی منڈی کی ان زنجیروں کو توڑنے کا مطلب مغربی ریاستوں کو براہِ راست ان کی سیاسی و اقتصادی اور اخلاقی قوّت و اختیار کے خاتمے کے خطرے سے دوچار کرنا ہے۔
جدید طریقِ جنگ اور غیر متوازن جنگ
کوئی بھی بڑی طاقت اقتصادی جنگ کے میدان میں اترے اور اس میں ماہرانہ حکمت عملی اپنائے بغیرتا دیر قوّت و طاقت کی حامل نہیں رہ سکتی۔ دوسری جنگِ عظیم پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس امر کے کافی و شافی ثبوت ملتے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم میں ہمیں جنگ کے اقتصادی پہلو کا بڑا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ جب جنگ میں شامل مختلف فریقوں نے اپنی اپنی ریاستوں کے شہریوں کو دشمن ریاستوں کے ساتھ تعامل سے باز رکھا۔ اس جنگ میں شامل گروہوں نے اپنے دشمنوں کے لیے عسکری صنعتوں کو درکار ضروری مواد تک رسائی کو بھی مشکل بنانے کی کوشش کی، محض اپنے باشندوں کو یہ سامان دشمن کے ہاتھ فروخت کرنے سے نہیں روکا، بلکہ ان غیر جانبدار ملکوں سے ضروری مواد کے ذخائر خریدنے کی بھی کوششیں کی گئیں، جو اس جنگ میں شامل ہی نہ تھے۔ اس سے مقصود یہی تھا کہ یہ مواد دشمن کے ہاتھوں میں نہ پہنچے۔
اگر اس کے بعد آپ کو اقتصادی جنگ کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مزید ثبوت کی ضرورت محسوس ہو، تو کفار کی ان کوششوں پر ذرا غور کیجیے اور دیکھیے کہ وہ عسکری اعتبار سے فعال اسلامی گروہوں اور ان کے کارکنوں کوعالمی اقتصادی و مالی نظام میں شرکت سے روکنے کے لیے کس حد تک جاتے ہیں۔ اس موضوع پر مزید تفصیل آگے آئے گی۔
آج مسلمانوں اور کفار کے مابین جنگ کی نوعیت بنیادی طور پر سیاسی اور اقتصادی ہے، نہ کہ عسکری۔ یہ ایک غیر متوازن جنگ ہے (جسے گوریلا جنگ بھی کہا جاتا ہے) جس میں چھوٹا اور کمزور فریق ایک لمبی مدت پر محیط جنگ لڑ کر اپنے بڑے دشمن کی جنگی صلاحیت کو کم یا ختم کر دیتا ہے۔ اس قسم کی جنگیں فیصلہ کن ضربیں لگا کر نہیں جیتی جاتیں، بلکہ ان میں جیت کا انحصار مستقل لڑتے رہنے اور دشمن کے گرنے کے بعد بھی کھڑا رہنے یعنی دشمن کو تھکا کر ہرانے پر ہوتا ہے۔ غیر متناسب جنگوں کے حوالے سے سی آئی اے کے ایک مینوئل میں درج ہے کہ:
’’گوریلا طرزِ جنگ اساسی طور پر ایک سیاسی جنگ ہے……عملاً،ایک سیاسی جنگ میں لازم ہے کہ انسان کو ترجیحی ہدف سمجھا جائے۔‘‘
مادی اعتبار سے، اس جنگ میں فتح کے دو بڑے فیصلہ کن اسباب ہیں۔ جنگ لڑنے کا سیاسی عزم، اور لڑنے کے لیے معاشی وسائل۔دشمن کا اقتصاد کمزور کرنے سے دشمن حکومت پر سیاسی پریشر پڑتا ہے، جس سے ایک ایسی حکومت کے اقتدار میں آنے کے امکانات بڑھتے ہیں جس میں مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑنے کی آمادگی اور جذبہ کم ہو۔امریکہ کے محنت کش طبقے (نچلے مزدور طبقے) کی جانب سے ڈانلڈ ٹرمپ کے بطور صدر چناؤ کے پیچھے یہی معاملہ کارفرما تھا، جس کی بنیاد ٹرمپ کا یہ وعدہ تھا کہ وہ ’دائمی جنگیں‘ ختم کرے گا۔
معاشی طور پر ہدف یہ ہوتا ہے کہ دشمن کو انتہائی حد تک تھکا دیا جائے۔ چونکہ بڑی قوّت کواپنی افواج کو میدان میں رکھنے کے لیے قیمت بھی بڑی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس قسم کی جنگ میں سب سے اہم چیز جس کا حساب رکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی عمل کی ہمیں کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی بنسبت اس کے کہ دشمن کو اس کا تدارک کرتے ہوئے کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ دشمن کو ہمارے کسی بھی عمل کی جس قدر زیادہ قیمت چکانی پڑے، بمقابلہ اس عمل کو کرنے کے لیے کیے گئے ہمارے خرچے اور نقصان کے، اسی قدر مفید اس عمل کو گردانا جائے گا۔ لوگوں کی نظر میں نا پسندیدہ اور مشہور و معروف جنگوں کے ساتھ بہت سے معاشی نقصانات نتھی ہوتے ہیں، جس کی نمایاں مثال حالیہ قابض صہیونیوں اور مسلمانانِ فلسطین کے مابین جاری جنگ ہے، ان نقصانات میں بائیکاٹ ، یالوگوں کی جانب سے اقتصادی مقاطعہ بھی شامل ہے۔
اگرچہ صہیونیوں سے مغلوب عالمی اقتصادی آرڈر بہت طاقتور معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ بے حد سینٹرلائزڈ (ایک مرکز کے گردجمع یا مرکوز) بھی ہے۔ ایسے متمرکز نظاموں کو غیر متمرکز نظاموں کی نسبت، زوال و انہدام کا خطرہ بھی زیادہ شدت سے لاحق ہوتا ہے۔ یہی حقیقت درجِ ذیل حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بیان کی گئی ہے:
’’مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ خَامَةِ الزَّرْعِ يَفِيءُ وَرَقُهُ مِنْ حَيْثُ أَتَتْهَا الرِّيحُ تُكَفِّئُهَا فَإِذَا سَكَنَتْ اعْتَدَلَتْ وَكَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ يُكَفَّأُ بِالْبَلَاءِ وَمَثَلُ الْكَافِرِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ صَمَّاءَ مُعْتَدِلَةً حَتَّى يَقْصِمَهَا اللَّهُ إِذَا شَاءَ.‘‘ (صحیح البخاری ۷۴۶۶)
’’مومن کی مثال کھیت کے نرم پودے کی سی ہے جدھر کو ہوا چلتی ہے اس کے پتے ادھر ہی جھک جاتے ہیں۔ جب ہوا رک جاتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے، یعنی ہوائیں اسے ادھر ادھر جھکاتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مومن بلاؤں اور مصیبتوں کی وجہ سے ادھر اُدھر جھکتا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے جو ایک حالت پر کھڑا رہتا ہے حتیٰ کہ جب اللہ چاہتا ہے اسےایک بار ہی اکھاڑ پھینکتا ہے۔‘‘
اگرچہ امام بخاری ؒ اس حدیث کی بنیادی طور پر ایک مومن کی تقدیر کے سامنے تسلیم و رضا کے مفہوم میں تشریح کرتے ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی گئی یہ مثال ہمیں سختی اور اکڑ کے بالمقابل نرمی اور لچک کی اہمیت بھی سمجھاتی ہے۔ درخت ایک چھوٹے اور نازک سے پودے کی نسبت بہت بڑا ہے اور کئی گنا مضبوط بھی نظر آتا ہے، مگر اس کے اندر سخت موسم کے تھپیڑے برداشت کرنے کی لچک موجود نہیں۔لچک کا یہ فقدان ایک مخصوص طرز کی اشیاء کی پیداوار(سپیشلائزڈ پروڈکشن) کے رجحان میں بھی نظر آتا ہے، جو کہ جدید اقتصادی نظام کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ہی قسم کی اشیاء کی پیداوار پر مکمل توجہ مرکوز رکھنے سے پیداوار میں بلا شبہ اضافہ ہوتا ہے، لیکن کسی بھی قسم کی افتاد سے نبٹنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔
اس کی بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہی لے لیتے ہیں، جدید زراعت کا روایتی طرزِ زراعت سے موازنہ کیجیے۔ جدید زراعت بہترین اور زیادہ پیداوار کے لیے جینیاتی تبدیلیاں، حشرات کش ادویہ، جڑی بوٹیوں اور کھمبیوں وغیرہ سے چھٹکارا دلانے والی ادویہ اور مصنوعی کھاد کا سہارا لیتی ہے، لیکن محض ایک ہی فصل پر کیا گیا انحصار اس فصل کا کسی بھی قسم کی وبا کا شکار ہو کر تباہ ہونے کا خدشہ بڑھا دیتا ہے۔ جبکہ روایتی زراعت کا انحصار کئی مختلف قسم کی فصلوں کی کاشت پر تھا، جس کے نتیجے میں پیداوار تو کم تھی لیکن یہی امر فصلوں کی مکمل اور تباہ کن ناکامی سے محفوظ رکھتا تھا، کیونکہ اس بات کا امکان بے حد کم ہے کہ بہت سی مختلف النوع فصلیں سب کی سب بیک وقت وباؤں سے متاثر ہو جائیں۔
یہی امر ہمیں ’کانٹیجین افیکٹ‘ (contagion effect)میں بھی نظر آتا ہے، جو ۱۴۱۸ ھ میں ایشیائی مالیاتی بحران میں پے در پے اور ایک دوسرے سے متصل زنجیری رد عمل کا سبب بنا۔ اور یہی کانٹیجین افیکٹ ۱۴۲۹ ھ میں امریکی سب پرائم مارگیج بحران میں پیش آنے والے واقعات کا محرک تھا۔ عالمی مالیاتی نظام میں موجود اعلیٰ درجے کا ربط و ضبط سرمایہ کی منتقلی اور اس میں تصرف میں تو بے حد مفید و مؤثر ہے، لیکن یہ اس پورے نظام کو بہت سے خطرات سے بھی دوچار کر دیتا ہے۔ کیونکہ قرض کی نا دہندگی بہت سے دیگر قرضوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی معاملہ پیدا وار کا ہے۔ خام مال کی قلّت اس مواد سے بننے والے سامان کے پروڈیوسروں (مصنوعات سازوں) کو کاروبار بند کرنے پر مجبور کر سکتی ہے، جس سے دیگر پروڈیوسر (جو ان مصنوعات کے ذریعے دیگر اشیاء تیار کرتے تھے) کے لیے اپنے سامانِ فروخت کی تیاری کا خرچہ بڑھ جاتا ہے، اور نتیجتاً وہ بھی کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی معاملہ روزگار اور صارفین کا بھی ہے۔ عام بے روزگاری کا نتیجہ صارفین کی طرف سے اشیائے ضروریہ کے مصرف میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے، جس کے نتیجے میں بےروزگاری مزید بڑھ جاتی ہے۔
طاقت و قوّت کے موجودہ عدم توازن پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے دشمن کی کوئی بھی ایسی حقیقی عسکری کمزوری نہیں، کہ جہاں مسلمان ظالموں کے خلاف کوئی فیصلہ کن ضرب لگانے کی امید کر سکتے ہوں۔ البتہ اقتصادی جہت دشمن کا ایک کمزور پہلو ضرور ہے۔ اس حیثیت سے یہ جہت خالصتاً عسکری جنگی اہداف جتنی، یا اس سے بھی زیادہ اہمیت و توجہ کی مستحق ہے۔
یہ کہہ دینے کے باوجود یہ امر یاد رہنا چاہیے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں درخت کو اکھاڑ پھینکنے والی قوّت ہوا کی تھی ۔ اسی طرح، ظالم کفار کا زوال بھی اللہ عز و جل کی طاقت و قوت سے آئے گا، نہ کہ ہماری طاقت سے۔ بہر کیف، اللہ نے ہمیں خود اپنے ہی نفوس کی خاطر اپنے جان و مال سے جدو جہد کا حکم دیا ہے۔ ہماری ان کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہے کہ فتح ہمارا مقدر بنے، باذن اللہ ، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ۠ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا ۭاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (سورۃ الانفال: ۱۷)
’’چنانچہ (مسلمانو ! حقیقت میں) تم نے ان (کافروں کو) قتل نہیں کیا تھا، بلکہ انہیں اللہ نے قتل کیا تھا، اور (اے پیغمبر) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نے نہیں، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی اور (تمہارے ہاتھوں یہ کام اس لیے کرایا تھا) تاکہ اس کے ذریعے اللہ مومنوں کو بہترین اجر عطا کرے۔ بیشک اللہ ہر بات کو سننے والا، ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ‘‘
فتح براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی آ سکتی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ دونوں صورتوں میں، ہم پر لازم ہے اور بلاشبہ ہمارے اپنے نفوس کے بھلے ہی کے لیے ہے کہ ہم اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ کھپائیں۔ اس میں ایسی حکمت عملیاں اختیار کرنا بھی شامل ہے جو دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی ہوں، جو کہ محبوب خدا ﷺکی سنت سے بھی ثابت ہے۔ اس بات کا امکان کہ معاشی حکمت عملیاں عسکری حکمت عملیوں کی نسبت محارب دشمن سے انتقام لینے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے، اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ ایسی حکمت عملیوں کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جدوجہد کا لازمی جزو ہے۔
وحدت اور ادلے کے بدلے کا اصول(القاعدۃ مقابلۃ بالمثل)
آج امریکہ جس سیاسی حربے کا کثرت سے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتا ہے وہ بین الاقوامی اقتصادی پابندیا ں ہیں۔اگر کوئی ملک اس کی مخالفت کرتا ہے، تو امریکہ اس ملک کی سب کمپنیوں پر بین الاقوامی سطح پر اپنی مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگا دیتا ہے۔ اگر اس پابندی کے باوجود وہ کسی کو ان کمپنیوں سے کچھ خریدتے ہوئے پائے تو اسے جرمانوں اور قید و بند کے ذریعے سزا دیتاہے۔ اسی طرح وہ امریکی کمپنیوں پر اس ملک میں کوئی بھی شئے بیچنے کی پابندی عائد کرتا ہے۔وہ مخالف ملک پر اس طرح اپنا پریشر قائم رکھتا ہے تآنکہ مخالف ملک امریکہ اور اس کے صہیونی آقاؤں کی مرضی و منشاء کے سامنے سرینڈر نہ ہو جائے۔
بعض اقتصادی پابندیوں کا ہدف مخصوص تنظیمیں یا ان سے منسلک افراد ہوتے ہیں۔ کسی بھی فرد پر پابندی عائد ہونے کا مطلب ہے کہ وہ امریکی کمپنیوں سے بیع و فروخت نہیں کر سکتا، اور بین الاقوامی مالیاتی نظام میں رہتے ہوئے کسی قسم کی تجارت نہیں کر سکتا۔ ان پابندیوں کے نفاذ کے لیے مغرب اکثر ایسے لوگوں کو سزا دیتا ہے جو پابندی زدہ افراد اور تنظیموں سے بیع و فروخت کرتے ہیں۔ مغرب کی جانب سے کسی نہ کسی قسم کی پابندی کا ہدف بننے والے مسلمان ممالک میں فلسطین، شام، یمن، صومالیہ ، سوڈان، مالی، لیبیا، لبنان، عراق اور افغانستان شامل ہیں۔ پابندیوں کا ہدف بننے والی تنظیموں اور افراد میں تمام ایسے افراد شامل ہیں جو مغربی استعمار کے خلاف کسی قسم کی عسکری مقاومت میں مشغول ہوں یا اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہو۔
جیسے ہی کفار کسی فرد، تنظیم یا حکومت پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، امریکہ فی الفور صہیونی تسلط زدہ اس مالیاتی نظام میں موجود ان کے تمام بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیتا ہے ۔ کئی دفعہ ان اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی ضبط کر لی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ پابندی زدہ افراد کے دیگر اثاثے، جیسے غیر منقولہ جائیداد (رئیل اسٹیٹ) اور سواریاں بھی ضبط کر سکتا ہے۔ اکثر اوقات ان اثاثوں کو نیلام کر دیا جاتا ہے اور حاصل ہونے والی رقم امریکی خزانے میں داخل کر دی جاتی ہے۔
عام مسلمان جو مغربی اور صہیونی تسلط کے خلاف کسی بھی قسم کی فعالیت میں مصروف نہیں ہوتے، انہیں بھی غیر منصفانہ تجارتی قوانین یا طور طریقوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی خرید و فروخت کو محدود کر دیتے ہیں۔ صہیونیوں کی پشت پناہی میں مغربی بین الاقوامی ادارے مسلمان ممالک کو مشروط قرضوں اور انفرا سٹرکچر کی تعمیر میں ’امداد‘ کی پیشکش کرتے ہیں، یہ امداد اکثر کسی نہ کسی قرضے کے ساتھ نتھی ہوتی ہے۔ پھر اس قرضے کو مسلمان ممالک کو مغربی مصنوعات کی درآمدکے لیے آمادہ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن مسلم ملکوں کی جانب سے مغربی مصنوعات کے داخلے کے راستے کھلنے کے باوجود مغربی ممالک کا ردعمل یکساں نہیں ہوتا۔ وہ عموماً درآمدات پر عائد ٹیرِف(ٹیکس) برقرار رکھتے ہیں جس سے ان کی اپنی زمینوں میں موجود کاروبار اور صنعتیں محفوظ رہتی ہیں۔ اس سے مسلم ممالک میں مسلمانوں کے کاروبار اور تجارت کی آزادی تو محدود ہوتی ہے، جبکہ کفار کو پہلے سے بڑھ کر آسانی ، سہولت اور آزادی میسر آتی ہے۔ اس سے کفار کو ایک غیر عادلانہ فضیلت اور مسلمانوں کی نسبت ایک برتر و غالب حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح مغربی ممالک اپنی مقامی صنعتوں کو ترقی و فروغ دیتے ہیں جبکہ مسلم ممالک کے بازاروں میں مغربی ساختہ سستی مصنوعات کا سیلاب موجزن رہتا ہےجن کے نتیجے میں مقامی صنعتیں متاثر ہوتی ہیں۔
یہ صورتحال معاملات میں برابری یا ادلے کے بدلے کے اصول کی سراسر ضد ہے۔ فقہِ اسلامی میں ، اس اصول (القاعدۃ مقابلۃ بالمثل) کے بین الاقوامی تجارت پر اطلاق کی اوّلین مثال جو نقل کی جاتی ہے وہ حضرت عمر ؓ بن الخطاب کی ہے۔
ابو مجلز لاحق بن حمید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ سے سوال کیا گیا کہ ہم اہل حرب (یعنی وہ کفار جو جزیہ نہ دیتے ہوں یا جو دارالاسلام میں نہ رہتے ہوں) سے، جب وہ ہمارے علاقوں میں داخل ہوں، تو کتنا پیسہ وصول کریں؟۔حضرت عمرؓ نے دریافت کیا:’’ جب تم ان کے علاقوں میں جاتے ہو تو وہ تم سے کتنا وصول کرتے ہیں؟‘‘۔ جواب دیا:’’ دس فیصد‘‘۔ فرمایا: ’’ پھر تم بھی ان سے اتنا ہی وصول کرو جتنا وہ تم سے کرتے ہیں‘‘۔
بہت سے علماء نے تجارت اور جنگ دونوں حالات میں اس اصول کا اعادہ کیا ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی ظالم مشرک ہم پر حملہ آور ہو، تو ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم بھی اس پر اسی طرح حملہ کریں جیسے اس نے ہم پر کیا ۔‘‘
امام شیبانی ؒ فرماتے ہیں:
’’ اگر وہ ہمارے تاجروں سے کچھ بھی وصول نہیں کرتے تو ہم بھی ان کے تاجروں سے کچھ وصول نہ کریں گے، کیونکہ یہ وصولی تاوان کے طور پر ہے…… لہٰذا اگر وہ اس شرط پر ہمارے مندوبین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ مسلمان ان سے خراج وصول نہیں کریں گے، اور پھر وہ ہمارے لوگوں کے ساتھ اپنے وعدے کے مطابق تعامل بھی کریں ، تو صحیح یہی ہے کہ مسلمان بھی ان پر یہی شرط عائد کریں اور اسے پورا کریں، کیونکہ یہ شریعت کے حکم کے مطابق ہے جس کا پورا ہونا ضروری ہے۔‘‘
السرخانی ؒ فرماتے ہیں:
’’جہاں تک اہلِ حرب کا معاملہ ہے، ان سے وصولی ہَرجانے کے طور پر ہے، جیسا کہ عمر ابن الخطاب ؓ نے واضح کیا۔ اس سے ہماری مراد یہ نہیں کہ، ہم ان سے اس کے بدلے میں وصول کرتے ہیں جو انہوں نے ہم سے لیا، کیونکہ انہوں نے جو لیا وہ غلط تھا جبکہ ہم نے جو لیا وہ صحیح تھا۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم ان سے ویسا ہی برتاؤ رکھتے ہیں جیسا وہ ہم سے رکھتے ہیں اور یہ سلامتی اور سیلِ تجارت کے آزادانہ بہاؤ کے اہداف کے حصول کے قریب تر ہے۔‘‘
’’جہاں تک اہلِ حرب کا تعلق ہے، تو ان سے عشر (تجارتی مال کا دسواں حصہ) لینے کا حکم ہے کیونکہ وہ ہم سے عشر وصول کرتے ہیں۔ تو جیسے وہ ہم سے دسواں حصہ وصول کرتے ہیں، ہم ان سے دسواں حصہ وصول کرتے ہیں، کیونکہ ہمارے اور ان کے بیچ تعلقات کی بنیاد برابری پرہے۔ اگر وہ ہم سے پانچواں حصہ وصول کریں تو ہم ان سے پانچواں حصہ وصول کریں گے، اور اگر وہ ہم سے بیسواں حصّہ لیں، تو ہم ان سے بیسواں حصّہ لیں گے اور اگر وہ ہم سے کچھ بھی نہ لیں تو ہم بھی ان سے کچھ نہ لیں گے۔‘‘
فلہٰذا شریعت میں تجارت و جنگ و جدال دونوں میں مقابلۃ بالمثل کا اصول راسخ ہے۔ اگر کفار مسلمانوں پر پابندیاں اور بندشیں عائد کرتے ہیں اور ہماری خرید و فروخت میں مانع ہوتے ہیں، جیسا کہ غزہ اور دیگر کئی مقامات جہاں مجاہدین حکمِ الٰہی کے نفاذ کی جدو جہد میں مصروف ہیں، کا معاملہ ہے، تو اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ ہم بھی ان پر اسی طریقے سے حملہ آور ہوں اور ان کی مصنوعات کی خرید و فروخت میں رکاوٹ بنیں۔
بعض جاہل لوگ یا منافقین اس کے خلاف یہ دلیل لاتے ہیں کہ اس قسم کے مقاطعے یا بندشیں محض چند علاقوں میں مؤثر ہوتی ہیں، جبکہ دیگر علاقوں میں آزاد تجارت جاری و ساری رہتی ہے۔ تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہمیں وحدت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا
’’اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو‘‘
رسول اللہ ﷺ نے امت کی مثال ایک جسدِ واحد کی دی:
المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى
’’اہل ایمان کو ایک دوسرے پر رحم کرنے آپس میں محبت کرنے اور ایک دوسرے سے شفقت کے ساتھ پیش آنے میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے جس کے ایک عضو کو اگر تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے قرار ہو جاتا ہے اس کی نیند اڑ جاتی ہے اور سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘
پہلی اسلامی ریاست کے ابتدائی ایام میں اہل ِیثرب کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں شامل تھا کہ:
’’اور مسلمانوں کی صلح ایک ہو گی۔ اگر اللہ کی راہ میں کوئی جنگ ہوتی ہے، تو کوئی مسلمان بھی دوسرے مسلمانوں کے علاوہ (دشمن کے ساتھ) امن سے نہ ہو گا، الّا یہ کہ وہ صلح ایک ہی ہو اور سب اس کے یکساں پابند ہوں۔‘‘
اگر ایک خطے کے مسلمانوں پر دشمن حملہ آور نہ بھی ہو تو بھی کسی دوسرے خطے کے مسلمانوں پر دشمن کا حملہ ، تمام مسلمانوں پر بحیثیت مجموعی حملہ تصور کیا جائے گا، اور ہمارے لیے یہی مناسب ہے کہ اتحاد و یکجہتی کے ساتھ اس کا جواب دیں۔ اگر مسلمانانِ غزہ چہار جانب سے بندشوں اور پابندیوں میں گھِرے ہوئے ہیں ، تو ہم پر لازم ہے کہ جیسے تیسے ممکن ہو ان بندشوں کا خاتمہ کریں۔ اس ہدف تک رسائی کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ محارب کفار پر مقابلۃ بالمثل کا اصول لاگو کیا جائے، اور ان کی پابندیوں کے جواب میں ہم بھی ان پر اپنی جانب سے پابندیاں اور بندشیں عائد کریں۔
کفار جس درجہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر غور کیجیے۔ اگر مسلمان کسی ایک امریکی ریاست، جیسے فلوریڈا، کی اقتصادی ناکہ بندی کر دیں تو کیا ہوگا؟ کیا نیو یارک میں موجود امریکی یہ کہیں گے کہ: ’’ہم اسے ناپسند کرتے ہیں، لیکن ہم جوابی کارروائی نہیں کریں گے کیونکہ ابھی تک یہاں نیویارک میں وہ ہمیں اپنے ساتھ تجارت کی اجازت دے رہے ہیں‘‘!؟ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو گا، بلکہ وہ اس کو اعلانِ جنگ تصور کریں گے اور تمام موجود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ناکہ بندی کے خلاف اقدامات کریں گے۔ نیویارک کے سپاہی فلوریڈا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف ایک اکائی بن کر لڑیں گے جنہوں نے فلوریڈاکی تجارت میں خلل ڈالا۔
حتی کہ مختلف عیسائی اور سیکولر قوموں کے مابین پایا جانے والا اتحادبھی اس اتحاد سے زیادہ ہے جو مسلم علاقوں پر مسلط تصوراتی قومی ریاستوں کے مابین ہے۔ مثلاً، ذرا تصور کریں اگر ترکی جنوبی قبرص پر دہشت گردی کا الزام لگائے اور تمام اشیاء کو ملک میں داخل ہونے اور باہر جانے سے روک دے۔ تو ترکی کے خلاف ایک وسیع البنیاد سیاسی اور فوجی ردعمل سامنے آئے گا، جس میں شدید پابندیاں، اوربندشیں عائد کرنے والی قوتوں پر حملے شامل ہوں گے۔
اس قسم کے اتحاد کو اب قومی ریاستوں کے اندر محدود کر دیا گیا ہے، تاکہ مراکشی رباط پر حملے کو تو اپنے اوپر حملہ تصور کریں، لیکن الجزائر پر حملے کی صورت میں ان کا ردعمل ویسا نہ ہو۔ اسی طرح الجزائر کے لوگ رباط پر حملے کی نسبت الجزائر پر حملے کا زیادہ شدید ردعمل دیں گے۔ کفار ہمیں یہ باور کرانے کے لیے محنت کرتے رہتے ہیں کہ مسلم سرزمین کوئی ۵۴ قومی ریاستوں پر مشتمل ہے، جبکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا اعلان ہے کہ ہم ایک امت ہیں:
اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
’’(لوگو) یقین رکھو کہ یہ (دین جس کی یہ تمام انبیاء دعوت دیتے رہے ہیں) تمہارا دین ہے جو ایک ہی دین ہے، اور میں تمہارا پروردگار ہوں۔ لہٰذا تم میری عبادت کرو۔‘‘
مسلمانوں کے مابین تقسیم اور ہماری کمزوری ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ ہر قومی ریاست کے حکمران کو اپنے اقتدار کا خوف ہے، اسی لیے وہ حکمران بھی جو اسلام سے کچھ لگاؤ رکھتے ہیں، کفار کی یورش تلے پِستے مسلمانوں کے دفاع سے ڈرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، باہمی نصرت و حمایت کی یہ کمی ہی دراصل ان کی کمزوری اور خوف کا سبب بھی ہے۔ اس سے ایک گھناؤنا چکر جنم لیتا ہے ؛ انتشار و نا اتفاقی کمزوری کو جنم دیتی ہیں اور کمزوری و ضعف مزید پھُوٹ اور انتشار کو۔ اس چکر سے نکلنے کے لیےضروری ہے کہ کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر حملے کو اپنے شہر یا خاندان پر حملہ تصور کیا جائے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ
’’حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘
اگر ہم دنیا کو دیکھنے اور برتنے کے اس نظریے کو قبول کرتے اور اپنی زندگیاں اس کے مطابق بسر کرتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب اوراپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے ہم پر نازل فرمایا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے دشمنوں کی طرف سے مسلط کردہ مصنوعی قومی ریاستوں کی تقسیم کی پروا کیے بغیر کفار پر ویسی ہی پابندیاں اسی درجے میں عائد کریں اور ویسی ہی عداوت رکھیں کہ جس کا اظہار وہ ہمارے لیے کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے نفاذِ اسلام کے لیے کوشاں مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور ان کی خرید و فروخت اور تجارت میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، اسی طرح ان کفار کو بھی جو ہم پر بائیکاٹ مسلط کرتے ہیں خرید و فروخت اور تجارت سے روکا جانا چاہیے۔ جس طرح کفار اپنے شہریوں کو پابندی زدگان سے خرید و فروخت سے روکتے ہیں، اسی طرح مسلمانوں کو بھی کفار کا بائیکاٹ کرنے کے لیے ایک متحد محاذ قائم کرنا چاہیے۔
یہ ہمارے اسلامی قانون کے اصولوں کے عین مطابق ہے،اور اگر اس کے نفاذ کے لیے کوئی امام موجود نہیں ہے، تو یہ ذمہ داری ہم پر انفرادی سطح پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس کا نفاذ کریں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)