قرآن مجید کی سب سے طویل سورت سورۃ البقرہ ہے جس میں بنی اسرائیل کے گائے ذبح کرنے کے واقعے کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ جب بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے گائے کی قربانی کا حکم دیا تو انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے سوال در سوال شروع کردیے۔ بالآخر کسمساتے ہوئے انہیں گائے کی قربانی کرنی ہی پڑی۔ اسی واقعے کا ذکر عیسائیوں کی بائیبل کی کتاب Book of Numbers میں بھی آیا ہے اور یہودیوں کی تورات وتلمود میں بھی تفصیلی ذکر موجود ہے۔
غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے ۱۰۰ دن پورے ہونے پر ۱۴ جنوری کو حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے ایک ویڈیو خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے ۷ اکتوبر کے محرکات ذکر کیے، جن میں سے ایک محرک مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کا پانچ ’سرخ بچھیاں ‘ (red heifer) لے کر آنا بھی تھا۔
اس بات کا ذکر کرنے کا مقصد امتِ مسلمہ کو متنبہ کرنا ہے کہ یہود اپنے شیطانی ارادوں کی تکمیل کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اور امتِ مسلمہ کو بھی قبلۂ اوّل کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہو جانا چاہیے۔
’سرخ گائے‘ کی قربانی سے متعلق سازشی نظریہ (conspiracy theory)
ابو عبیدہ حفظہ اللہ کے ’سرخ گائے‘ سے متعلق بیان کے بعد مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ موضوع زیر بحث آیا اور اب تک موضوع بحث ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہودیوں کی اس رسم کا قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ سے کیا تعلق؟ اس سوال کے جواب کے لیے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت سلیمان ؑ نے جنات کے ذریعے پہلا ہیکل تعمیر کروایا، حالانکہ قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا میں خانہ کعبہ کے بعد دوسری مسجد مسجد اقصیٰ بنی پھر حضرت سلیمانؑ نے اسی مقام پر مسجد کو دوبارہ تعمیر کروایا جسے یہودی ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ ۵۸۶ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اسے تباہ کر دیا۔ اس کے ۷۰ سال بعد یہودیوں نے اس مقام پر ہیکل تعمیر کیا، جسے رومیوں نے ۷۰ ء میں تباہ کر دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں مسجد تعمیر کروائی اور پھر مقامِ اسراء پر اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے قبۃ الصخرہ تعمیر کروایا۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ مسجد اور قبۃ الصخرہ یہودیوں کے ہیکل کے مقام پر تعمیر کیے گئے ہیں ۔ متشدد یہودیوں اور صہیونیوں1 کے منصوبوں میں سے اہم ترین منصوبہ تیسرے ہیکل کی تعمیر ہے، جس کے لیے یہودی صدیوں سے منصوبہ بندی اور کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔
۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مشرقی بیت المقدس (یروشلم) یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ جس کے بعد انتہا پسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور اس کی جگہ ہیکل تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی تیز کر دی اور ایسی تنظیمیں اور ادارے تشکیل دیے گئے جن کا واحد مقصد ہیکل کے منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔ ان میں ایک اہم ادارہ ’دی ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ‘ (The Temple Institute) ہے، جو نہ صرف اس منصوبے کو مرکزی دھارے میں لے کر آیا ہے بلکہ ہیکل کی تعمیر، تزئین و آرائش اور وہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے لوازمات تک تیار کر چکا ہے۔ جن پتھروں سے ہیکل تعمیر کیا جائے گا وہ پتھر، ہیکل میں رکھے جانے والے مقدس برتن و اشیاء، قربان گاہ، حتیٰ کہ وہاں کام کرنے والے یہودی ربیوں کے لباس تک تیار کیے جا چکے ہیں ایک ٹیمپل میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں یہ چیزیں نمائش کے لیے موجود ہیں۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جب تیسرا ہیکل تعمیر ہو جائے گا تو ان کے مسیح (مسیحِ دجال)کا ظہور ہو گا اور ساری دنیا پر یہودیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ لیکن یہودیوں کا ہیکل بنانے کا منصوبہ ان کی توہم پرستانہ روایات میں ’سرخ گائے‘ کی قربانی سے جڑا ہے۔
انجیل کی کتاب “Book of Numbers” اور تلمود کی تعلیمات کے مطابق یہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو:
’’بے عیب ہو، اس پر کوئی داغ نہ ہو، کنواری ہو، اسے جوتہ نہ گیا ہو، کھروں سمیت مکمل طور پر سرخ ہو، کوئی ایک بال بھی دوسرے رنگ کا نہ ہو اور قربانی کے وقت اس کی عمر ۳ سال کے لگ بھگ ہونی چاہیے۔‘‘
یہودیوں کی تاریخ میں حضرت موسیٰ ؑ سے لے کر دوسرے ہیکل کی تباہی تک ۹ گائیں ذبح کی جا چکی ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ جب دسویں گائے ذبح کی جائے گی تو وہ ان کے مسیح (دجال) کے ظہور کا پیش خیمہ ہو گا۔
بہت سی یہودی تنظیمیں دہائیوں سے ایسی سرخ گائے کی تلاش میں تھیں، لیکن مطلوبہ شرائط پر پوری نہ اترتی تھیں۔ ۲۰۲۲ء میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں ایسی پانچ سرخ بچھیائیں دریافت کی گئیں۔ انہیں پانچ لاکھ ڈالر کے عوض خرید کر اسرائیل لایا گیا اور ان کی حفاظت کے پیش نظر انہیں کیبوتز کے علاقے میں ایک خفیہ فارم میں رکھا گیا ہے۔
اپریل ۲۰۲۴ء میں یہ بچھیائیں تین سال کی ہو گئی ہیں اور اب شرائط کے مطابق ایک سال کے اندر اندر ان کی قربانی کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے دی ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ نے ایک قربان گاہ بھی بنائی ہے۔
گائے کی قربانی کے لیے مسجدِ اقصیٰ کے مشرق میں تقریبا ۸۰۰ میٹر کے فاصلے پر کوہِ زیتون (Mount of Olive) کو چنا کیا گیا ہے تاکہ قربان گاہ سے ہیکل بنانے کی جگہ (مسجد اقصیٰ) صاف نظر آئے۔ اس مقام سے مسجد اقصیٰ تک ایک پل تعمیر کیا جائے گا۔ قربانی کرنے والے شخص کے لیے لازمی ہے کہ وہ حضرت ہارونؑ کی نسل سے ہو۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کسی مردے کو چھوا ہو، یا قبرستان گیا ہو، یا کسی مردے کو دفنایا ہو وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کی سرزمین چونکہ ان کے لیے بہت زیادہ مقدس ہے اس لیے انہیں وہاں جانے کی بھی اس اعتبار سے اجازت نہیں۔ سرخ گائے کی قربانی کے بعد اس کے گوشت اور ہڈیوں کو جلا کر اس کی راکھ کو پانی میں ملا کر اپنے مذہبی رہنماؤں اور ربیوں کو اس کے ذریعے پاک کیا جائے گا اور پھر وہی لوگ ہیکل کی تعمیر کریں گے۔
کیامسجدِ اقصیٰ شہید کر دی جائے گی؟
سرخ گائے کے ملنے کے بعد سخت گیر یہودیوں اور نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کی کابینہ کے ارکان میں بہت جوش و خروش پایا جارہا ہے۔ ہیکل کی تعمیر کے لیے ان کے میڈیا پر بھی کھل کر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ان کا شیطانی ارادہ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے اس کی جگہ ہیکل تعمیر کرنا ہے لیکن انہیں اس بات کاخدشہ ہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جسے مسلمان برداشت نہیں کر سکتے اور یہ بہت بڑی جنگ کی وجہ بن سکتی ہے۔
لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کا کام شروع کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ ’آثار قدیمہ‘ کی کھوج میں کھدائی کی جا رہی ہے۔ لیکن یہی کھدائی ۲۰۲۳ء میں انتہائی خطرناک حد تک بڑھا دی گئی اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے بھی اس حوالے سے تنبیہ کی کہ یہ مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو کمزور اور کھوکھلا کر رہی ہے۔ اور اس عمل کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کی دیوار اور چھت میں دراڑیں بھی پڑ چکی ہیں۔
سرخ گائے کی پیشین گوئی مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر پھیل جانے کی وجہ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کی نظریں بیت المقدس پر مرکوز ہیں، اس لیے اسرائیلی حکومت نے اچانک اس سلسلے میں مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔ ۲۲ اپریل سے یہودیوں کے پاس اوور(Passover) کا تہوار شروع ہوچکا ہےجو آٹھ دن تک جاری رہے گا۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکن ہے سرخ گائے کی قربانی پاس اوور کے دنوں میں کر دی جائے، لیکن بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
۲۰۲۳ء میں پاس اوور کے موقع پر چند شرپسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جانور کی قربانی کی کوشش کی جس کے نیتجے میں پولیس اور مسجد میں موجود زائرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور یہودیوں کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ رواں سال بھی پاس اوور کے موقع پر حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے بیت المقدس میں آباد فلسطینی مسلمانوں کو خصوصی پیغام دیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے وہاں موجود رہیں اور پہرہ دیں۔
بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے حالات ناسازگار دیکھ کر قربانی مؤخر کر دی ہے اور وہ ایسے موقع کی تلاش میں ہیں جب خاموشی سے یہ رسم ادا کی جا سکے اور یہ سال کے کسی بھی وقت ممکن ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان گائیوں پر چند سفید یا سیاہ بال نمودار ہو جائیں اور پھر وہ قربانی کی شرط پر پوری نہ اترسکیں۔
مسلمانوں کے لیے کرنے کے کام
چونکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اور تیسری مقدس ترین جگہ ہے اس لیے اس کی حفاظت صرف فلسطینی مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام امت مسلمہ کا فرض ہے۔ جہاں تک بات سرخ بچھیا (red heifer)کو ذبح کرنے سے منسلک عقائد کی ہے تو مسلمان اس طرح کی توہمات پر یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے لیے آخری زمانے کی نشانیوں میں صرف وہی نشانیاں قابل یقین ہیں جو ہمارے نبی آخر الزماںﷺ نے ہمیں بتائی ہیں اور ان نشانیوں میں کہیں مسجد اقصیٰ کی شہادت کا ذکر نہیں ملتا،واللہ اعلم!
اور یہ نشانیاں یہودیوں کی آخری زمانے کی نشانیوں سے نہ صرف یکسر مختلف ہیں بلکہ متضاد بھی ہیں، کہ جس کو یہود اپنا ’مسیح‘ مانتے ہیں وہ دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ’دجال‘ ہے۔ اس لیے ان کی پیشین گوئیوں پر یقین کر کے مایوس ہونا اور مایوسی پھیلانا ہمیں زیب نہیں دیتا۔
لیکن اگر ہمیں نبی اکرم ﷺ کی احادیث سے مسجد اقصیٰ کی شہادت کی کوئی روایت نہیں ملتی تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ حتمی امر ہے کہ مسجد اقصیٰ شہید نہیں کی جائے گی۔ اس لیے ’دی ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ‘ جیسے اداروں اور سخت گیر یہودی و صیہونی تنظیموں کے منصوبوں اور حرکات و سکنات پر نظر رکھنا بھی ہمارے لیے ضروری ہے۔ ان کی سرخ گائے کی قربانی ہو بھی جائے تب بھی یہ ضروری نہیں کہ مسجد اقصیٰ شہید کر دی جائے گی اور نہ ہی ان کا ’مسیح ‘ فوراً ظاہر ہوجائے گا۔ لیکن غزہ میں جاری ان کا ظلم اور نہ ختم ہونے والی بمباری کو سات ماہ پورے ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی مقبوضہ فلسطین میں بھی یہودیوں کی غیر قانونی آباد کاریاں اور مسلمانوں پر حملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ وہاں کے مسلمان اپنے خون سے فلسطین کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ سب کچھ گنوا کر بھی عزیمت کا پہاڑ بنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ جبکہ مسلم ممالک کے خائن منافق حکمران سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اندھے بنے ہوئے ہیں۔
نیتن یاہو اور اس کی حکومت نے فلسطینیون کو عمالقہ (Amalek) سے تشبیہ دی ہے۔ عمالقہ یہود یوں کے عقیدے میں وہ قوم تھی جس کے متعلق ان کی کتابوں میں حکم ہے کہ اس قوم کے ہر مرد، عورت، بچے یہاں تک کہ ان کے جانوروں تک کو بھی قتل کر دیا جائے۔ یہ جنگ ان کے لیے ایسی ہی مقدس جنگ ہے جیسی مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی صلیبی جنگیں تھیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے مقابلہ کرنے اور قبلۂ اوّل کی حفاظت کے لیے پوری دنیا کے مسلمان علماء، دینی اور جہادی تنظیمیں متحد ہو کر ایسی تحریک برپا کر دیں کہ جس کے ذریعے یہود اور ان کے آلۂ کاروں اور امریکہ سمیت سب حریفوں کو سبق مل سکے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کا متحد ہو کر عملی اقدامات اٹھانا ہی فلسطینی بھائیوں اور قبلۂ اوّل کی آزادی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
1 صہیونی صرف یہودی نہیں ہوتے بلکہ ان میں یہودیوں کے حامی اوینجیلیکل (Evangelical) عیسائی اور ہر وہ شخص شامل ہے جو یہودیوں کے عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔