النازعات: محترم ابو اسامہ! آپ کے بیان کے مطابق شام میں جہادی قیادت سے جو انحرافات سرزد ہوئے ہیں، آپ کی رائے میں ان کے اسباب کیا ہیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرے خیال میں صحیح راستے سے اس طرح کے انحراف کی وجوہات، صہیونی صلیبی مغرب کی طرف سے اپنے قَطری اور تُرک پراکسی ایجنٹوں کے ذریعے شام میں مجاہدین کی قیادت کے ساتھ کمال مکاری اور دھوکا دہی میں پوشیدہ ہیں، جس کے نتیجے میں شام میں مجاہدین کی قیادت نے اپنے اکابر جہادی قائدین کے ساتھ فکری، منہجی اور تنظیمی تعلقات کو توڑ لیا حالانکہ یہ اس جہادی قافلے کے راہنما ہی تھے جو انہیں پہلے عراق اور پھر شام لے کر آئے تھے۔ بدقسمتی سے مغرب اپنی مکاری اور دھوکہ دہی کے ذریعے اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہو گیا جسے اس نے تنظیم القاعدہ سے ’’تعلق توڑنے‘‘ کا نام دیا، جو درحقیقت برادرانہ، فکری، منہجی اور تنظیمی تعلقات کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ صہیونی صلیبی مغرب ہمارے موجودہ دور میں شیطان کے مظاہر میں سے ایک ہے، جس کا سب سے بڑا مشن، شوہر اور بیوی میں جدائی ڈالنا، بھائی کو بھائی سے لڑانا، ماں باپ کے خلاف اولاد کو بھڑکانا اور کارکنوں کو اپنی مخلص جماعت اور اپنے اُن جاں نثار قائدین کی مخالفت پر ابھارنا ہے جو ان کے لیے ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان مقاصد اور امور کے حصول کے لیے شیطان کے پاس حیلے بہانوں اور بے جا اعذار کی کمی نہیں ہوگی، پس جو کچھ ہوا اس کا خلاصہ اس تاریخی مرحلے کے بہت سے مبصرین کو معلوم ہے۔
مغرب نے ترکی اور قطر میں اپنے ایجنٹوں کو یہ مشن تفویض کیا اور الجزیرہ ٹی وی چینل سے وابستہ کچھ میڈیا پروفیشنلز کو ذمہ داری سونپی۔ یہ افراد اس خطے میں پہنچنے والے جہادی قافلے کے رہنماؤں کے ساتھ ماضی میں انٹیلی جنس کا تجربہ رکھتے تھے اور انہیں نہ صرف شام میں بلکہ یمن، شمال مغربی افریقہ اور صومالیہ کے بھائیوں کے سامنے بھی مغرب کے تجویز کردہ اس منصوبے کو پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، جس میں بڑی مالی و مادی امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضمانت دی گئی تھی کہ ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں (ڈرون وغیرہ سے) نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے لیے خطے میں سلامتی کو برقرار رکھنے میں حصہ لینے کی جزوی قبولیت بھی شامل تھی ۔ پس شام کے بھائیوں نے اس پُرکشش پیشکش کو قبول کر لیا، لیکن یمن، شمال مغربی افریقہ اور صومالیہ کے بھائیوں نے اس کھیل کو جہاد کے مستقبل کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہوئے قبول نہیں کیا۔ اسی میں شامی قیادت کا انحراف پوشیدہ ہے۔
یہاں آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ’’تعلق توڑنے‘‘ یا ’’علیحدگی‘‘ کی تجویز سب سے پہلے القاعدہ کی قیادت کی جانب سے اس کے امیر ڈاکٹر ایمن الظواہری نے پیش کی تھی، لیکن دو شرائط کے ساتھ کہ شام کے مجاہدین کا اتحاد ہو اور شام میں ایک اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے ساتھ اہلِ شام اپنے لیے ایک امام یعنی امیر کا انتخاب کریں، اس کے بعد ہی، نہ کہ اس سے پہلے۔ القاعدہ اپنا تنظیمی تعلق ترک کرے گی، شام میں اپنے بھائیوں کو ان کی کامیابیوں پر مبارکباد دے گی اور اس کے بعد ہمارے درمیان اسلامی اور جہادی بھائی چارہ قائم رہے گا۔
اس وقت شام کی قیادت نے ان دونوں شرائط کو پورا کرنے سے پہلے ہی ’’علیحدگی اور تعلق توڑنے‘‘ کا فیصلہ کر لیا اور اس کا اعلان بھی کر دیا۔ تاہم، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اصل میں جو کچھ ہوا وہ صرف تنظیمی علیحدگی نہیں تھا، بلکہ ہر قسم کے برادرانہ، فکری، منہجی اور تنظیمی روابط کا خاتمہ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ شام کی قیادت نے اپنے چند مشہور ارکان کے ذریعے اپنے ان سابق قائدین اور ارکان کے طرزِ عمل پر، پُرتشدد حملے شروع کر دیے جو القاعدہ کے ساتھ اپنی سابقہ بیعت پر قائم تھے اور اپنے معروف ترجمانوں کے ذریعے واضح طور پر القاعدہ کی باقی شاخوں، خصوصاً یمن اور شمال مغربی افریقہ کی شاخوں سے بیعت توڑنے، عہد کو ترک کرنے اور سنگین غداری کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہاں سے وہ انحرافات جو قطر اور ترکی پوری قوت سے پال رہے تھے وسیع تر ہوتے گئے۔ اور ہم اللہ ہی سے شکایت کرتے ہیں۔
شام کی قیادت میں اس انحراف کی قبولیت، اطمینان اور تسلسل کی وجوہات میں سے ایک وہ نظریاتی اور منہجی دباؤ ہے جس کا سامنا ان میں سے بہت سوں نے کیا ہے، یہ ایک ایسا ماحول تھا جو صحیح اور معتدل نظریات کی نشوونما کے لیے موزوں نہ تھا، خاص طور پر وہ نظریات جو ’’بوکا سکول‘‘ (یعنی عراق میں امریکی قید خانے کیمپ بوکا) میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے اور وہ ان نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے جو ’’صیدنایا سکول‘‘ (یعنی شام میں بشاری قید خانے صیدنایا) میں تیار ہوئے۔ مجھے یقین ہے کہ اسیری میں ظلم و ستم کے دباؤ کے تحت اس منہج اور نظریاتی و فکری اختلاط نے ایک بڑا منہجی اور نظریاتی تصادم پیدا کیا، جس کی دھول شام کے انقلاب کے آغاز سے اٹھی اور گزشتہ برسوں میں بہت بلندی تک پہنچ گئی۔ عراق کی بوکا کی جیل سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد کی سوچ اور شام کی صیدنایا جیل سے سند حاصل کرکے نکلنے والے افراد کی فکر، مل کر ایک نئی ذہنیت کے ظہور کا باعث بنی جو منہج، فکر، نظریات اور تطبیقات میں انحراف کے ساتھ مطابقت کی صلاحیت رکھتی تھی۔ شام میں شدید ردعمل کی وجہ سے اہلِ شام کے شعور پر ان انحرافات کے اثرات میں اضافہ ہوا جس کے بعد عراق اور شام کے کچھ حصوں پر تنظیم داعش کو کنٹرول حاصل ہوا اور اسے بے گناہوں کا خون بہانے کی لت پڑ گئی۔ اس منظر نامے کے اہم ترین عوامل میں، عزیمت کا راستہ اپنانے سے دور ہونا، احکامِ الٰہی کی بجا آوری میں شرعی رعایتوں کا لحاظ نہ رکھنا اور ضروریات کے بہانے بہت سے ممنوعات کا ارتکاب شامل ہیں۔ ان میں سب سے بڑا جرم، اختلاف رائے رکھنے والوں کا خون بہانے کی جرأت ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ایسی ’بوکا – صیدنائی‘ ذہنیت اور اس کے حاملین کے قانونی، تنظیمی اور سماجی انتخاب پر اس کے اثرات، کائنات میں کسی بھی انسانی قوم کے لیے شان و شوکت پیدا نہیں کر سکتے، نہ ہی اس قوم کے لیے باعثِ فخر بن سکتے ہیں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ شام کی قیادت اپنا فکری و نظریاتی توازن، اور منہج پر استقامت دوبارہ حاصل نہیں کر سکے گی اور اس قیادت کے لیے اپنے قیدی شعور کو، ’’فکری گوانتاناموبے‘‘ اور ’’نظریاتی قید خانے‘‘ سے آزاد کرانا ممکن نہیں ہو گا، سوائے اس عظیم حادثے کے جو انہیں ’’دوستانہ‘‘ اور ’’برادرانہ‘‘ ممالک سے الگ کر دے جن میں وہ خود اعتمادی محسوس کر رہے ہیں اور جن کی آغوش میں وہ خود کو جھونک رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ناصحین کی نصیحت ان کے توازن اور استقامت کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی، اگرچہ نصیحت و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا بھی ضروری ہے، لیکن انسانوں کی اکثریت کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ ہلاکت کی صبح آنے تک نصیحت کو نہیں سمجھتے۔
النازعات: استاذِ محترم! شاید آپ جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شام کے عوام، تنظیم القاعدہ اور اس کے نظریاتی و تحریکی انتخاب کے بارے میں، بہت سے اور اہم تحفظات رکھتے ہیں۔ شام کے بہت سے انقلابی نوجوانوں میں یہ بات عام ہے کہ القاعدہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور جغرافیہ اور تاریخ کے حاشیے پر آگئی ہے۔ اور وہ اس کی وجہ ایک غیر منطقی اور غیر حقیقت پسندانہ نظریے سے وابستگی کو قرار دیتے ہیں، جو عالمی جہاد کا نظریہ ہے۔ جب کہ اہلِ شام نے مقامی جہاد سے وابستگی کے ذریعے گیارہ دنوں میں وہ حاصل کر لیا جو القاعدہ تیس سالوں میں اپنے عالمی جہاد کے ذریعے حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ تو محترم ابو اسامہ! کیا اہلِ شام کے اپنے مقامی، علاقائی جہاد کے ذریعے حاصل ہونے والی عظیم کامیابی دیکھنے کے بعد، عالمی جہاد سے القاعدہ کی وابستگی کی افادیت کے بارے میں آپ کا نظریہ بدل گیا ہے؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرے پیارے بھائی! میں آپ کو صاف صاف کہتا ہوں کہ دمشق کی آزادی کے بعد، کئی وجوہات کی بنا پر، میں عالمی جہاد کے نظریے کے ساتھ زیادہ پرعزم، زیادہ وابستہ اور زیادہ وفادار ہو گیا ہوں، جن کا ذکر میں آپ سے کسی اور موقع پر کر سکتا ہوں۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں نئے شام کو آگ لگانے کا مطالبہ کر رہا ہوں اور اسے صہیونی – صلیبی مغرب کے ساتھ عالمی جنگ کی بھٹی میں جھونک رہا ہوں، جب کہ یہ پہلے ہی اپنے زخموں سے چھلنی ہے اور اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ میرے بھائی! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے موجودہ دور میں عالمی جہاد کے علم برداروں (یعنی القاعدہ) نے شام کو عالمی جہاد کا گڑھ بنانے کی نہ تو کبھی خواہش کی اور نہ ہی اس کی ترغیب دی، سوائے اس کے کہ انہوں نے شریعتِ اسلامیہ کے تقاضے کے مطابق شام کی سرزمین کو مغربی، مشرقی اور صہیونی قبضے سے پاک کرنے اور نصیری حکومت کا تختہ الٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ القاعدہ کے قائدین نے تو سنہ 2012ء سے ہی شام کی قیادت، بالخصوص جولانی صاحب کو نصیحت کی تھی کہ وہ ان ظاہری علامات کو ترک کر دیں جن سے مبصرین کو یہ تاثر ملے کہ شام کا جہاد، عالمی جہاد کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔
اگر آپ شیخ ابو یحییٰ اللیبی کے اس خط کا جائزہ لیں جو انہوں نے شام کے انقلاب کے پہلے سال کے دوران جولانی صاحب کو بھیجا تھا تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جو شخص شام کی سرزمین پر عالمی جہاد کے منصوبے کے ساتھ آ رہا تھا وہ عراقی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے جولانی صاحب اور ان کے ساتھی تھے، جبکہ القاعدہ کی قیادت انہیں ایسا کرنے سے منع کر رہی تھی، حتیٰ کہ ان پر زور دے رہی تھی کہ وہ دشمنوں کو بے اثر ضرور کریں لیکن انہیں خوفزدہ یا مشتعل نہ کریں۔
بہر حال، مذکورہ بالا دلیل میں جو چیز میرے عزم و یقین کو پختہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں کی طرح، میں بھی بشار الاسد کی سابقہ حکومت کے زوال اور اس پر مسلمانوں کی فتح کو محسوس کرتا ہوں۔ تاہم، حقیقت میں ہم کسی انقلاب کی مکمل کامیابی اور فتح کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی یہ انقلاب اور فتح، تاریخ میں درج کسی انقلاب اور فتح کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ جب سے انقلابیوں نے دمشق میں داخل ہو کر اس کی آزادی کا اعلان کیا ہے، ہم نے جنوبی شام میں صہیونی قبضے کی مداخلت اور ایک بڑے علاقے پر اس کے قبضے کے اعلان کو بھی دیکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کا منتخب کردہ مقامی علاقائی جہاد کا نظریہ پورے شام کو آزاد کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی یہ دنیا میں کسی انقلاب کی فتح کے تقاضوں کو پورا کرتا تھا۔ مزید یہ کہ ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کے جہاد کو ’’مقامی علاقائی جہاد‘‘ کہنا بھی قابل اعتراض ہے۔ کیونکہ مقامی علاقائی جہاد وہ جہاد ہوتا ہے جس میں تمام غاصبوں سے لڑا جاتا ہے جنہوں نے مسلم ملک اور مسلم خطے پر حملہ کیا ہوتا ہے۔
معاصر مثالوں میں افغانستان، عراق، صومالیہ، شمالی افریقی ملک مالی کا جہاد اور دیگر جہاد شامل ہیں۔ ان سب نے ایک ہی وقت میں اپنے ملک پر قبضہ کرنے والے تمام قابضین کا مقابلہ کیا، ان میں سے بہت سے محاذوں نے صلیبی اتحادوں کا مقابلہ کیا، جن میں سے کچھ اتحاد چالیس سے زائد ممالک پر مشتمل ہو سکتے ہیں، جب کہ وہ مقامی مقبوضہ خطے میں اور علاقائی و ملکی دائرے میں رہ کر جہاد کر رہے تھے۔ تاہم، کسی ایک قابض یا اس کے مقامی ایجنٹ سے لڑنا اور پھر باقی بڑے قابضوں کے خلاف جہاد سے گریز کرنا، یا شام کے عوام کے خلاف ان کے قبضے اور جرائم کے باوجود ان کے ساتھ مشترکہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنا، میری محدود رائے میں، یہ مقامی، علاقائی جہاد کی صحیح شکل نہیں ہے، جو آپ بیان کر رہے ہیں۔
ہاں، شرعی و فقہی لحاظ سے یہ جائز ہو سکتا ہے کہ بعض سے لڑا جائے اور بعض کو اس وقت تک بے اثر کیا جائے جب تک کہ ہم انہیں اپنی سرزمین سے آہستہ آہستہ بے دخل نہ کر دیں۔ تاہم، ملک کو تمام قابضین سے پاک کرنے کے لیے اس قسم کے جہاد کو ایک مقامی، علاقائی جہاد کے طور پر بیان کرنا، ایک ایسی چیز ہے جو میرے خیال میں فی الواقع شام میں حاصل نہیں ہوئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کے کچھ عراقی ترجمانوں نے تو ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل ہی اعلان کر دیا تھا کہ جہاد ختم ہو گیا ہے، اور آج آپ دیکھتے ہیں کہ شام کے انقلاب کی علامتیں (یعنی قائدین) روسی اور امریکی قبضے کے ساتھ تطبیع (normalization) کر کے تعلقات کو معمول پر لا رہی ہیں، اور وہ اس سلسلے میں شام کے عوام اور امتِ مسلمہ کی طرف سے کیے جانے والے بہت سے پریشان کن سوالات کے جوابات، من مانے طریقے سے، تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب انہوں نے ماضی کے کسی تجربے اور لوگوں کی تشویش کم کرنے والے کسی راستے کی تلاش شروع کی، جسے حیلے بہانے کے طور پر استعمال کیا جا سکے، تو انہیں صہیونی – صلیبی مہم کے ساتھ اتحاد کے سعودی تجربے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ آلِ سعود نے امریکیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے ذریعے امان اور عسکری قوت حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ شام کے انقلاب کی علامتیں (یعنی قائدین) محمد بن سلمان کے وژن (2030) کو نقل کرنے اور ان ممالک کے پیچھے بھاگنے کا شوق رکھتی ہیں جنہوں نے ایسا کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا جس پر امت کو فخر ہو یا جس سے اقوامِ عالم میں اس امت کا مقام و مرتبہ بلند ہوا ہو۔ اگر وہ چینی یا جاپانی اقتصادی اور صنعتی تجربے کی طرف بڑھتے تو عقلی اور شرعی طور پر یہ زیادہ کامل اور خوبصورت ہوتا۔ اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اب میں جو دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ سوریہ کے انقلاب سے وابستہ ہمارے بھائی، عسکری و سیاسی معاہدوں کے ذریعے اپنی سرزمین پر قبضے کو قبول کرنے اور قابضین سے تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر گامزن ہیں جو بڑی قابض طاقتوں کی فوجوں کو، جو شام کے انقلاب سے خوفزدہ ہیں، شام کی سرزمین پر اپنے اڈوں اور کیمپوں میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ شاید وہ اس بات پر قائل ہو گئے ہیں کہ مملکتِ سعودی عرب کا تجربہ اس سلسلے میں سب سے اہم تجربہ ہے جس میں عسکری تحفظ کے معاہدوں کی آڑ میں حرمین شریفین کی سرزمین پر صہیونی – صلیبی موجودگی کو قانونی حیثیت دی گئی ہے۔ جبکہ حقیقت میں، یہ مسلم ممالک اور مسلمانوں کی سرزمین پر ایک واضح قبضہ ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شام کے انقلاب کے قائدین کے لیے اس ذلت آمیز انداز کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کے قائدین کی اکثریت ’’جالوتی کمپلیکس‘‘ سے دوچار ہے، جو ایک قدیم سیاسی نعرہ ہے:
لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ (سورۃالبقرة: ٢٤٩)
’’آج ہمارے پاس جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی کوئی طاقت نہیں۔‘‘
میں آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ یقیناً وقت، ان تمام لوگوں کو جو اسلام کی سربلندی کے لیے مخلصانہ طور پر کام کر رہے ہیں، القاعدہ کے پیغام اور منہج کو قبول کرنے پر مجبور کر دے گا، لیکن ضروری نہیں کہ وہ سب تنظیم القاعدہ میں ضم ہو جائیں یا اس کی شاخوں میں شامل ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ القاعدہ کا پیغام اور منہج، ایک مستند قرآنی منہج اور طریقہ کار ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت پر اور اس نقل (یعنی شریعت) پر ہے جو عقل سے موافقت رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسا منہج اور طرز عمل ہے جو دنیاوی زندگی میں قوموں کے عروج و زوال کے لیے مقرر کردہ کائناتی اصولوں اور اللہ کی سنت کو مدنظر رکھتا ہے۔ اور اللہ ہی صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنے والا ہے۔
النازعات: در حقیقت، محترم ابو اسامہ! آپ نے عالمی جہاد کے حوالے سے میرے بہت سے تصورات اور مقامی، علاقائی جہاد کے حوالے سے میرے ذہن میں جو تصورات راسخ تھے ان میں شدید خلل ڈال دیا ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ مجھے اور دیگر دلچسپی رکھنے والے بھائیوں کو، ایک سادہ اور قابل فہم انداز میں، القاعدہ کے منہج کے مطابق عالمی جہاد کے نظریے کی وضاحت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ یہ دوسرے جہادی گروہوں کے مقامی جہاد کے نظریہ سے کس حد تک مختلف ہے۔
استاذ عبدالعزیز الحلاق: اس سوال کا جواب بہت طویل ہے اور بہت سے اقتباسات پر مشتمل ہے، اور متکلم سے مزید وضاحت اور تفصیل چاہتا ہے اور شاید یہ اس انٹرویو کا بقیہ تمام وقت لے سکتا ہے۔ لہٰذا، چونکہ آپ نے مجھے اس موضوع سے متعارف کرایا ہے، اس لیے براہ ِکرم مجھے اجازت دیں کہ میں یہاں القاعدہ کے پیغام اور عالمی جہاد کے بارے میں اس کے نظریے اور امتِ مسلمہ کو درپیش بحران سے نمٹنے کے لیے اس نے جو حل تجویز کیے ہیں ان کی کچھ وضاحت کروں، جسے زیادہ تر لوگ نہیں سمجھتے۔
انیسویں صدی کے اوائل میں خلافتِ عثمانیہ کی طاقت اور وحدت کے خاتمے اور بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم ممالک کے لیے صلیبی جنگوں کی تقسیم اور مسلم سرزمین کے ٹکڑے ہونے کے بعد سے، استعماری صلیبی مہم کے خلاف مزاحمت کے لیے متعدد جہادی تحریکیں ابھریں۔ مجاہدین نے حملہ آور استعماری صلیبی افواج کو پے در پے شکستیں دیں۔ لیکن سفید فام قابض (بیرونی صلیبی استعمار) کے برائے نام اخراج اور اس کے متبادل کے طور پر بھورے قابض (اندرونی مرتد ایجنٹ) کو تیار کر کے نصب کیا گیا جس سے یہ جہادی بیداری تھم گئی اور اس کی رفتار پر قابو پا لیا گیا۔
اُس وقت، امت مسلمہ نے بے ساختہ اور سادگی سے اس فریب کارانہ کامیابی پر خوشی منائی، آزادی کا جشن منایا، ان کا خیال تھا کہ انہوں نے آزادی، خودمختاری اور انصاف حاصل کر لیا ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ قابلِ غور ہے کہ عیسائی اقوام کے صلیبی حملوں نے اپنی پوری تاریخ میں امتِ مسلمہ کے جہادی راستوں کا جائزہ لینے اور انہیں تیزی سے اپنانے کی اعلیٰ صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور عصری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ وہ سیاسی سفارت کاری (ڈپلومیسی) کے ذریعے اپنی فوجی شکستوں کا ازالہ کرنے اور پھر انہیں ایک بڑی اسٹریٹیجک فتح میں تبدیل کرنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں۔
مسلم ممالک میں یومِ آزادی کے جشن منانے کے بعد، مسلمان عوام کو احساس ہوا کہ انہوں نے حقیقت میں حریت، انصاف یا آزادی جیسی کوئی چیز حاصل نہیں کی ہے، بلکہ بھورے مقامی مرتد ایجنٹ، بیرونی صلیبی استعمار کے مقابلے میں زیادہ پُرتشدد، کینہ پرور اور مجرم ثابت ہوئے ہیں اور یہ کہ یہ مقامی حکومتیں، جنہیں وہ اسلامی سمجھتے تھے اور اب بھی اسلامی سمجھتے ہیں، اور یہ حکمران جو مسلم ممالک پر مسلط کیے گئے ہیں، یہ سب مسلم سرزمینوں پر محض صلیبی مہم کے ایجنٹ اور ان کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اُس وقت جہادی تحریکوں کا رخ مقامی حکومتوں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں سے لڑنے کی طرف ہوا اور ’’مقامی علاقائی جہاد‘‘ کا تصور ابھرا، جس میں ہر ملک کے لوگ اپنے ہی حکمرانوں اور مقامی ظالم حکومتوں سے لڑنے اور ان سے جنگ کرنے کے لیے پرعزم تھے ۔ تاہم، ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد، وہ ان حکومتوں کا تختہ الٹنے میں بری طرح ناکام ہو گئے، تب انہیں یقین ہو گیا کہ ان مقامی حکومتوں کو کفر کے سرغنہ، امریکہ اور صلیبی استعماری ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے جن سے انہوں نے اتحاد کر رکھا ہے۔
اُس وقت جہادی تحریکوں کے بہت سے ارکان کو شکوک و شبہات اور الجھن نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لہٰذا ان میں سے کچھ نے دعوتی اور تبلیغی کام کی طرف رجوع کیا، اور کچھ نے منہج پر نظرِ ثانی کی اور فکری و نظریاتی پسپائی اختیار کی اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے مسلح کارروائی کے ذریعے ان حکومتوں کا تختہ الٹناناممکن قرار دیا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے سیاسی راستوں کا انتخاب کیا، جمہوری انتخابات میں حصہ لیا، ایجنٹ حکومتوں اور کٹھ پتلی نظاموں کو شرعی لحاظ سے جائز قرار دے کر انہیں تسلیم کیا، اور پارلیمان میں حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کے لیے ان کی چھتری کے نیچے داخل ہوئے۔ دوسروں نے فوجی بغاوتوں یا عوامی انقلابات کو ہوا دینے کا انتخاب کیا، جب کہ کچھ نے پہلے نقطۂ نظر ہی کے درست ہونے پر اصرار کیا، یعنی ہتھیار اٹھانا، مقامی حکومتوں کے خلاف جہاد کرنا اور ان سے اس وقت تک لڑنا جب تک کہ ان کی حکومت کا تختہ نہ الٹ دیا جائے۔
امتِ مسلمہ کی کشتی جن فکری، سیاسی اور سماجی حالات میں ڈول رہی تھی، اس سنگین بحران کے سائے میں مسلم ممالک میں تنظیم القاعدہ کے قائدین پلے بڑھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مقدر میں لکھ دیا تھا کہ وہ شیخ عبداللہ عزام کی قیادت میں غیر متوقع طور پر افغان جہاد میں ملیں۔ افغان جہاد شروع میں افغانستان کے کمیونسٹ حکمرانوں کے خلاف تھا لیکن جب افغان مجاہدین کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کے قریب پہنچے تو سوویت یونین، اپنی اتحادی حکومت کی حمایت اور بقاء کے لیے دوڑ پڑا، چنانچہ وہ قابض بن کر افغانستان میں داخل ہوا۔ تب ان کے ساتھ ایک طویل جنگ ہوئی جو پوری ایک دہائی تک جاری رہی اور افغانستان کی فتح اور اُس وقت کے دوہرے عالمی نظام کے دو قطبوں میں سے سوویت یونین کے قطب کا تختہ الٹنے پر ختم ہوئی، اور مجاہد نوجوانوں میں اگلے ہدف کے لیے مناسب حکمت عملی کے بارے میں ذہن سازی اور غور و فکر کرنے کا باعث بنی۔
1995ء میں تنظیم القاعدہ کے اکثر قائدین، طویل بحث و مباحثے، غور و فکر اور سوچ و تدبر کے بعد اس بات پر متفق ہوئے کہ مسلمانوں کے مقدسات کو آزاد کرانے کا صحیح ترین اور قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ ان مرتد ایجنٹوں کی حمایت کرنے والے حقیقی آقاؤں کو نشانہ بنایا جائے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انہیں نصب کیا ہے اور انہیں ہم پر مسلط کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو اپنے فوجی اڈوں میں چُھپے رہتے ہیں اور ہمارے اپنے لوگوں اور ہم وطنوں کو ہم سے لڑنے کے لیے سامنے لے آتے ہیں، اس طرح وہ اپنے ہوٹلوں، ہوائی اڈوں اور سمندروں میں موجود فوجی اڈوں میں نہ صرف محفوظ رہتے ہیں بلکہ وہ وہاں سے ہم پر بمباری بھی کرتے ہیں اور ہمارے گھروں کو تباہ کرتے ہیں۔ یہاں سے ’’عالمی جہاد‘‘ کا تصور ابھرا، جس کے نظریہ، تصور اور اطلاق میں کئی ستون شامل ہیں۔ اس کا پہلا اعلان سنہ 1996ء میں ہوا جب شیخ اسامہ نے افغانستان سے ایک بیان جاری کیا جس کا عنوان تھا: ’’حرمین شریفین کی مقدس سرزمین پر قابض امریکیوں کے خلاف جہاد کا اعلان: جزیرۃ العرب سے مشرکین کو نکال دو‘‘۔ یہ یکم ربیع الثانی 1416ھ (15 اگست 1996ء) کا دن تھا۔ شیخ اسامہ نے اس میں واضح کیا کہ وہ دشمن جس پر ہمیں اپنی کوششیں مرکوز کرنی چاہییں اور جس کے خلاف ہم جہاد کا اعلان کرتے ہیں وہ صہیونی – صلیبی اتحاد ہے جو اس دور میں کفر کا سرغنہ ہے۔ اس بیان میں کہا گیا کہ:
’’سب نے اتفاق کیا ہے کہ ’جب چھڑی ٹیڑھی ہو تو سایہ سیدھا نہیں ہو سکتا‘۔ پس اس اہم ترین دشمن کو نشانہ بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جس نے کئی دہائیوں سے امتِ مسلمہ کو قومی ریاستوں اور چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کرنے کے بعد اسے بھنور اور بھول بھلیوں میں ڈال رکھا ہے۔ مسلم ممالک میں جب بھی کوئی اصلاحی دعوت سامنے آتی ہے تو یہ یہودی صلیبی اتحاد، خطے کے حکمرانوں میں سے اپنے ایجنٹوں کو، مختلف طریقوں سے، اس اصلاحی دعوت کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپ دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ اسے، وقت اور جگہ کی مناسبت سے، مسلح تصادم میں گھسیٹ کر اسے اپنے ابتدائی دور میں ہی ختم کر دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں تمام اہل اسلام کے لیے صحیح طریقہ کار وہی ہے جو علمائے کرام نے طے کیا ہے، یعنی اسلامی دنیا کے تمام ممالک پر غلبہ پانے والے کفر کے سرغنہ امریکہ کو دور کرنے کے لیے کام کیا جائے، اور چھوٹے نقصانات کو برداشت کرتے ہوئے بڑے نقصانات سے بچنے کی فکر کی جائے، یعنی سب سے بڑے کفر پر وار کیا جائے۔ پس اگر واجبات آپس میں متصادم ہوں تو ان میں اہم ترین کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس غاصب امریکی دشمن کو پسپا کرنا ایمان کے بعد اہم ترین فرض ہے اور اس پر کوئی چیز مقدم نہیں ہے۔‘‘
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ:
“اس حملہ آور دشمن کو پسپا کرنا مسلمانوں کے تمام طبقات کی شمولیت کے بغیر ناممکن ہے اور یہ ہر امیر و غریب، اعلیٰ و ادنیٰ پر واجب ہے، اور بعض متنازع مسائل اور اختلافی باتوں کو نظر انداز کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس مرحلے پر ان اختلافی مسائل کو نظر انداز کرنے کا نقصان، مسلم ممالک پر کفرِ اکبر امریکہ کے تسلط اور قبضے کے جاری رہنے کے نقصان سے بہت کم ہے۔
ایسی صورت میں، ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حملہ آور دشمن اور مسلم ممالک پر قابض کفرِ اکبر امریکہ کے خلاف امتِ مسلمہ کو ابھارنے اور متحرک کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے جو مسلمانوں کے دین و دنیا دونوں کو تباہ کر رہا ہے اور ایمان کے بعد اس دشمن کو پسپا کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ یہ وہ اسرائیلی امریکی اتحاد ہے جو حرمین شریفین اور بیت المقدس کی سرزمین پر قابض ہے۔ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے کہ وہ امتِ مسلمہ کے مختلف گروہوں اور قوموں کے درمیان اندرونی لڑائیوں میں شامل ہونے سے گریز کریں کیونکہ اس کے سنگین نتائج ہیں۔ امریکی قابض افواج کی موجودگی میں کوئی بھی اندرونی لڑائی، چاہے اس کا جواز کچھ بھی ہو، ایک سنگین غلطی ہے، کیونکہ یہ لڑائیاں جنگ کو عالمی کفر کے حق میں کرنے کے لیے کام کریں گی۔‘‘
مزید یہ بھی کہا گیا کہ:
’’یہ بات آپ سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ موجودہ حالات، ہماری باقاعدہ مسلح افواج اور دشمن افواج کے درمیان عدم توازن کو دیکھتے ہوئے، مناسب جنگی طریقوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس معرکے کے لیے ہلکی، سریع الحرکت افواج کی ضرورت ہے جو مکمل رازداری سے کام کرنے والی ہو۔ دوسرے لفظوں میں، ایک گوریلا جنگ کی ضرورت ہے جس میں مسلح افواج کے علاوہ دیگر عام مسلمان بھی حصہ لے سکیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس مرحلے پر ایک مسلح فوج کو صلیبی دشمن کی افواج کے ساتھ روایتی لڑائی میں شامل ہونے سے بچانا دانشمندی ہے۔ سوائے اس کے کہ مسلح افواج کے ارکان کی طرف سے انفرادی طور پر مضبوط اور جرأت مندانہ کارروائیاں کی جاتی رہیں۔
یعنی باقاعدہ افواج کو ان کی روایتی شکلوں میں متحرک کیے بغیر، تاکہ رد عمل کا فوج پر مضبوط اثر نہ ہو جب تک کہ کوئی بڑا، غالب مفاد اور دشمن کو بڑا تباہ کن دھچکا لگانا مقصود نہ ہو، جو اس کی بنیادوں کو توڑ کر، اس کے ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دے اور اسے شکست خوردہ کرنے میں مدد ملے۔ اور مسلمانوں کا خون بہانے کے حوالے سے انتہائی محتاط رہیں تاکہ ہمارے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے نہ ہوں، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ آج مسلم ممالک پر جو مصائب آ رہے ہیں اور مسلم عوام کو ذلیل و رسواء کیا جا رہا ہے اس کی پوری ذمہ داری ان حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، لیکن اس بیماری کی جڑ اور ان تمام مصائب و آلام کا اصل سرغنہ قابض امریکی دشمن ہے۔ لہٰذا ہماری کوششیں اس کو مارنے، اس سے لڑنے، اسے تباہ کرنے، اسے شکست دینے، اس کا تعاقب کرنے اور اس کے انتظار میں پڑے رہنے پر مرکوز ہونی چاہئیں جب تک کہ وہ اللہ کے حکم سے شکست نہ کھا جائے۔ اور ان شاء اللہ وہ مرحلہ بھی آئے گا جس میں آپ مسلمان معاملات کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند ہو اور کافروں کا غرور و اقتدار خاک میں مل جائے اور آپ جارحین پر آہنی ہاتھوں سے وار کریں گے، معاملات کو ان کے صحیح مقام پر بحال کریں گے، حقوق ان کے حق داروں کو لوٹائیں گے، اور اپنا حقیقی اسلامی فریضہ سرانجام دیں گے۔‘‘
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭