نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

یہ غزہ ہے! یہاں زندگی اور موت کی جنگ جاری ہے! | دوسری اور آخری قسط

سیف العدل by سیف العدل
5 جون 2025
in طوفان الأقصی, جون 2025
0

اہداف اور ان سے تعامل

انقلاب اور تبدیلی کے لیے کچھ اہداف ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر طویل المدتی حکمتِ عملیاں بنائی جاتی ہیں، اور ان پر عمل درآمد کے لیے ادارے، تنظیمیں اور ایسی جماعتیں کام کرتی ہیں جو اپنے کردار اور تبدیلی کے مراحل سے واقف ہوں۔ لیکن بڑے اہداف اُس وقت تک حاصل نہیں ہوتے جب تک چھوٹے اور درمیانے درجے کے اہداف پورے نہ ہوجائیں۔

دشمن کو اسلامی ممالک کی نعمتوں اور ذخائر سے محروم رکھنا از بس ضروری ہے، نہ ہم اُسے ایسی چیزیں فروخت کریں جو اس کی طاقت میں اضافہ کریں اور اس کے عسکری نظام کو مضبوط بنائیں، اور نہ ہی ان سے ایسی اشیاء خریدیں جو اس کی معیشت کو سہارا دیں۔

یہ وہ اہداف ہیں جن پر ہر غیرت مند مسلمان تاجر، کاروباری شخصیت، نوجوان اور با شعور جماعت اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق عمل کر سکتی ہے۔

ذہین و دانا لوگوں کے مضامین میں قلم کی روشنائی، اور فصیح و بلیغ خطباء، شعراء اور اہلِ زبان کی سخن گوئی، جو فاسدوں کو بے نقاب کرنے اور امت کا شعور بلند کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔

ایک طرف یہ دشمنوں کے حوصلے پست کرنے، ان کی طاقت توڑنے اور صفوں کو منتشر کرنے والی کاری ضرب ہے اور دوسری طرف یہ ہمارے حوصلوں کو بلند کرنے، ہماری صفوں کو مضبوط کرنے اور ہماری تحریک کو مضبوطی عطا کرنے والی توانائی ہے۔

اسی لیے فرمایا گیا:

سيِّدُ الشهداءِ حمزةُ بنُ عبدِ المطّلبِ، ورجلٌ قام إلى إمامٍ جائرٍ فأمره ونهاه فقتله۔

’’شہداء کے سردار حمزہ بن عبدالمطلب ہیں، اور وہ شخص جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہو، اُسے نیکی کا حکم دے، برائی سے روکے اور پھر وہ (ظالم) اُسے قتل کر دے۔‘‘

ہمارے چہروں کے تاثرات، احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں، اور اہم مقامات پر ہمارے دھرنے، یہ سب سول نافرمانی کے اہم اقدامات ہیں۔

اور ان کے لیے سب سے مؤثر جگہیں مساجد، جامعات، کارخانے، ریلوے سٹیشن ، پبلک ٹرانسپورٹ کے ادارے، کمپنیاں، دیہی علاقے اور کھیت و کھلیان وغیرہ ہیں۔

ان تمام طبقات کی فعال شرکت، کرپٹ نظاموں کو گرانے میں کسی زلزلے سے کم اثر نہیں رکھتی۔

تاجر حضرات اور ہماری عوام کے لیے کم از کم درجۂ ایمان یہ ہے کہ وہ مغربی مصنوعات اور صہیونی کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں، چاہے وہ کھانے پینے کی اشیاء ہوں، مٹھائیاں ہوں، مشروبات ہوں، کپڑے، ٹیکنالوجی، ایئرلائنز، گھریلو سامان، گاڑیاں، یا گھڑیاں وغیرہ ہوں۔

کسی بھی مسلمان کی کوشش کو چھوٹا یا بے وقعت نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ انفرادی کوششوں نے ہمیشہ سے سیاسی نقشے بدلے ہیں اور اندھیرے حالات کو روشنی میں بدلا ہے۔

انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی قوتِ ارادہ اور تبدیلی کی خواہش ہوتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ نے ایسے لوگوں کے ناموں کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا، انہیں نمونۂ عمل بنایا، اور لوگ آج تک ان کے راستے پر چلتے ہیں۔

ان کی اخلاقی سیرت، جہادی بہادری، فدائیت اور قربانیاں ایسی داستانیں بن چکی ہیں جو لوگوں کے حوصلے بلند کرتی ہیں۔

چاقو، ماچس کی تیلی، پستول، پٹرول بم (Molotov Cocktail)، یہاں تک کہ ایک پتھر، یہ سب ایسے مؤثر ہتھیار ہیں جو دشمن کے نظام کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ بشرطیکہ انہیں ایک بہادر دل اور مضبوط ہاتھ سنبھالے۔

۱۱ستمبر کو انیس مجاہدین نے اور ان کے پیچھے موجود تجارتی ذرائع نےعام وسائل کو مہلک ہتھیاروں میں بدل دیا۔ پرانی کہاوت ہے:

’’تلوار کی ضرب کا دارومدار اس کے تھامنے والے ہاتھ پر ہوتاہے۔‘‘

جہاں کہیں بھی صہیونی دشمن کے کسی مفاد پر حملہ ہوگا، وہ تبدیلی کی چنگاری بنے گا، آزادی کی طرف لے جائے گا اور دنیا بھر کے مظلوموں کو اس شمالی دنیا میں بیٹھے ظالم صہیونی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دے گا۔

ضروری ہے کہ ہم صہیونی معیشت سے جڑی ان تمام چیزوں کو نشانہ بنائیں جن تک رسائی ممکن ہو ــ چاہے وہ کمپنیاں ہوں، افراد ہوں یا ریاستیں، چاہے وہ مفادات یہودیوں کے ہوں، امریکیوں، برطانویوں، فرانسیسیوں یا پھر جن سے جرمن بھگوڑوں کے مفادات وابستہ ہوں۔

صہیونی مفادات اور کمپنیوں کو نشانہ بنانا ہمیں دشمن کے کمزور اتحادیوں پر حملہ کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ایسے مؤثر حملے ان کے یہود نواز تعاون کو محدود کرتے ہیں اور انہیں اپنے ممالک کے اندر جنگ کے مخالف عوام کے ساتھ اندرونی کشمکش میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ ایسے اہداف کو نشانہ بنایا جائے جو عوام کو حکومت گرانے پر متفق کر دیں۔

اور اس (ظلم و جارحیت) کے مقابلے میں سستی اور خاموشی اختیار کرنا اُن مسلمانوں اور مظلوموں کے حق میں ایک گناہ ہے جو (اس ظلم کو روکنے کی) قدرت اور استطاعت رکھتے ہیں، کیونکہ یہودیوں نے کسی چیز کو نہیں بخشا، انہوں نے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کیا، ہزاروں مساجد کو مسمار کیا، اور پورے علاقے کو تباہ و برباد کر دیا (مثلاً: ہسپتال، مکانات، سرکاری دفاتر وغیرہ) اس سب نے ہمارے ذہنوں سے حدود اور قیود کو ختم کر دیا ہے، اب کوئی سرخ لکیر باقی نہیں رہی جو ہمارے ردِعمل کو روک سکے۔

اب ان صہیونیوں سے متعلق ہر چیز ہمارے اہداف میں شامل ہے اور ہر وہ جگہ جہاں ایک غیرت مند مسلمان، جو اپنے رب، اپنے دین، مسلمانوں اور ان کے مال و جان سے محبت رکھتا ہو، پہنچ سکتا ہے، وہ نشانہ بن سکتی ہے۔ اور بدلے کے اصول کے تحت اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ؁ (سورۃ النحل: ۱۲۶)

’’ اور اگر تم کسی سے بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جس قدر تمہیں ستایا گیا اور اگر تم صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔‘‘

یہ قبیلہ (یہود) اللہ کی طرف سے تتر بتر ہونے کا شکار ہے، اور ان کا کوئی بھی اجتماع فنا کے مقدر سے بچ نہیں سکتا، چاہے وقت جتنا بھی طویل ہو یا مختصر۔ ہمیں اپنی جذباتیت کے ذریعے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ ان کا نسب اللہ کے نبی اور خلیل ابراہیم ﷤تک جاتا ہے، کیونکہ نبی اللہ ابراہیم ﷺ کے تیرہ بیٹے تھے، اور انہوں نے اپنی اولاد کے لیے دعا بھی کی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ ؀ (سورۃ البقرۃ: ۱۲۴)

’’ اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو اس نے انہیں پورا کر دکھایا۔ اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ ابراہیم نے کہا: اور میری اولاد میں سے بھی؟ اللہ نے فرمایا: میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچتا۔‘‘

اللہ کے نبی اسحاق ﷤کی اولاد میں سے یہود ہیں، اور یہ وہ گروہ ہے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا، اور اللہ نے ہمیں ان سے خبردار کیا۔ جیسا کہ فرمایا:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى ۭذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ؀ (سورۃ المآئدۃ: ۸۲)

’ یقینا تم ایمان والوں کے لئے سخت ترین دشمن یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور تم مومنوں کے لئے دوستی میں ان لوگوں کو قریب تر پاؤ گے جو کہتے ہیں ہم نصاری ہیں، یہ اس لئے ہے کہ ان میں کچھ علماء اور عابدین ہیں وہ تکبر نہیں کرتے۔ ‘‘

اللہ نے ان پر بحیثیتِ قبیلہ حکم کا اطلاق فرمایا ہے، اور آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ خود پتھروں اور درختوں کو ان کے خلاف اُبھارے گا تاکہ وہ ان کو اپنے پیچھے چھپنے نہ دیں (اور یہ قتل کیے جائیں) ۔ اللہ کے فیصلے سے ان کے لیے کوئی نجات نہیں، کیونکہ وہ دن ضرور آئے گا جب پتھر اور درخت بھی ان کے جرائم، ان کی سازشوں، ان کے مکر، ان کی اللہ اور انسانوں کے خلاف جرأت و مظالم اور زمین کو برباد کرنے والے فساد کے گواہ بنیں گے۔

صنعت سازی

پولیس ریاستوں(Police States:وہ ممالک یا ریاستیں جہاں پولیس یا خفیہ ایجنسیاں لوگوں کی زندگی پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں) میں اسلحہ، گولہ بارود، دھماکہ خیز مواد اور حتیٰ کہ ڈرونز خریدنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن جہاد کے مختلف آلات کی تیاری کے بارے میں معلومات حاصل کرنا آسان ہے، اور ذہین دماغ کچھ عام آلات کو جدید ہتھیاروں میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

اور الحمدللہ، ہماری امت کے بیشتر افراد جو بلند حوصلے والے ہیں وہ عذر تراشنے کے بجائے، محنت کرتے ہیں تاکہ عالمی فیصلہ سازی میں قیادت کو پھر سے حاصل کریں اور انسانیت کو صحیح راستے پر گامزن کر دیں۔ اس کے علاوہ، وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اگلی نسلوں کو متاثر کرتے ہیں، خاص طور پر جنگی صنعت کے شعبے میں۔ ان میں سب سے آگے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (الیاسین 105) راکٹ تیار کیے اور شدید محاصرے میں ہونے کے باوجود یہ راکٹ یہودی ٹینکوں پر گرائے۔ وہی یہود جنہیں ہمارے حکام کی طرف سے مدد اور خوشی کے پیغامات دیے جا رہے ہیں، جو جہل کا سہارا لیتے ہیں اور ہر عذر تلاش کرتے ہیں تاکہ اپنی قوم کو یہ باور کروا سکیں کہ وہ دشمن کے خلاف لڑنے اور فلسطین اور دیگر مقامات کے لوگوں کی مدد کرنے میں ناکام ہیں۔ اگر وہ اپنے وسائل کو جنگی صنعت کی تیاری میں صرف کرتے، بجائے اس کے کہ وہ انہیں تفریحی اور اخلاقی فساد پر خرچ کرتے، جیسا کہ ابنِ سلمان اور ترکی آلِ شیخ کی جوڑی، ان پراللہ کی لعنت ہو، تو امت زیادہ با ہدف اور طاقتور ہوتی ، امت دشمنوں کے دلوں میں زیادہ رعب و دبدبہ رکھتی، جو کچھ آپ کے بھائی غزہ کے علاقے میں جنگی صنعت کے حوالے سے کر رہے ہیں، وہ ہم سب کے لیے ایک تحریک و ترغیب ہے تاکہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں۔

اور آج امت کے تمام افراد کے لیے ہر ملک میں اسلحہ، آلات اور وسائل تیار کرنے اور ذخیرہ کرنے کا موقع دستیاب ہے تاکہ وقت آنے پر انہیں کام میں لایا جائے، اللہ تعالیٰ تعمیرات کے شعبے میں روشن ستارے مگر ناخواندہ محمد بن لادن، شیخ اسامہ ﷫ کے والد، کو جزائے خیر عطا فرمائے، جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے دس ملین ڈالر جمع کیے، اور جب افغانستان میں جہاد کی پکار دی گئی، تو یہ دس ملین سب سے پہلے مجاہدین کے لیے پیش کر دیے۔

اسلحے کا ذخیرہ

آج تک انفرادی سطح پر اسلحہ اور اس کی ذخیرہ اندوزی کے لیے وسیع مواقع موجود ہیں، اور یہ مواقع بغیر کسی تاخیر کے ہر مردِ حر شخص کو خریدنے چاہییں تاکہ وہ باغیوں کو روک سکے، چاہے وہ مجرم ہوں یا فاسد سکیورٹی اہلکار یا ظالم حکومتوں کے حکام۔ اور سب سے اہم یہ ہے کہ یہ ایک قدم ہے ایک مسلح امت کی جانب۔ اگر حکومتیں اپنے عوام کی واقعی دیکھ بھال کرتیں تو ان کا سب سے اہم کام اپنے عوام کو مسلح کرنا ہوتا۔ میری رائے میں، جو چیز دشمنوں کو اسلامی عقیدہ کے بعد سب سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے وہ ایسا اسلحہ ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو۔ اس لیے دشمنوں کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہمارے ہاتھوں سے اسلحہ چھین لیا جائے، ہمارے ممالک کو فوجی ساز و سامان کی تیاری سے روکا جائے، اور تکنیکی ترقی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جائے، ان کے دباؤ اور مطالبات کے ذریعے جو مسلمانوں کے حکام اپنے آقاؤں کے کہنے پر پورا کرتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کا عروج نہ ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ وقت تک کمزور رہیں۔

لہٰذا اسلحہ، گولہ بارود اور جنگی وسائل خریدنا اور انہیں استعمال کے وقت تک ذخیرہ کرنا ضروری ہے، اور جو لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر اسلحہ اور گولہ بارود کو ذخیرہ کرنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے بارے میں بہت ساری مفید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ہمارے پاس اپنی امت کے ایسے ہنر مند محنت کش افراد موجود ہیں جو مصنوعی دیواریں(false walls) ، خفیہ کمرے، اور زیرِ زمین چھپنے کی جگہیں بنانے میں ماہر ہیں۔ اور اگر یہ ذخیرہ زیرِ زمین ہو تو وہاں کچھ سادہ سے امور ہیں جو ذخیرہ کو نمی یا زیرِ زمین پانی سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں۔

یہ علوم اور مہارتیں امت کے تمام افراد کے لیے ضروری ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس شعبے میں محنت اور جتن کو تبدیلی کے لیے پیش خیمہ کی حیثیت حاصل ہے۔

یقیناً اسلحہ، گولہ بارود اور عسکری ساز و سامان کا مالک ہونا، ان کو ذخیرہ کرنا اور ان کے ذخائر کو محفوظ بنانا اور ان کی تیاری اور ترقی پر محنت کرنا، یہ تصادم کا بنیادی محور ہے۔ اور صہیونیت نے ہمارے مقابلے میں یہ فائدہ اٹھایا ہے کہ ان کے پاس لوہے، آگ اور ٹیکنالوجی کی طاقت ہے اور انہوں نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں فوجی اور سیاسی طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے کیونکہ مسلم اقوام کے ہاتھوں میں اسلحہ نہیں ہے۔

بزرگانِ دین فرماتے ہیں:

’’یہ تعجب کی بات نہیں کہ جو ہلاک ہوئے وہ کیونکر ہلاک ہوئے، بلکہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو بچ گئے وہ کس طرح بچ گئے۔‘‘

انہوں نے نجات کے تصور کو اس کے اصل جوہر میں نئے سرے سے ترتیب دیا۔کیونکہ جنت والے وہی ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنے رب کی رضا کے لیے محنت کی اور صرف وہی لوگ جہنم کے ہلاکت سے بچیں گے۔ چاہے دنیاوی زندگی طویل ہو یا مختصر، ہمارا انجام موت ہے، اور ہر دن جو گزرتا ہے وہ ہمیں اس کے قریب لے جارہا ہے۔ چاہے ہم چاہیں یا نہ چاہیں۔ اور اصل کامیاب وہ ہے جو دنیا کو آخرت کے لئے استعمال کرتا ہے۔

کامیابی کا مفہوم

’’اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے عمل کے ذریعے بچ جائیں یا اپنی جان بچا کر نکل جائیں۔‘‘

اسی مفہوم کے ذریعے انسان اور ا س کی عقل و فہم کو مسخ کیا گیا اور اس پر عار کی چادر اوڑھائی گئی۔ نجات کوئی مقصد نہیں ہے، حقیقی مقصد حق کا قیام ہے، اور اس کے قیام کے لیے قربانی اور فدائیت راستہ ہیں، اور عزت اس کا پھل اور انعام اللہ کی طرف سے ہے، اور اسی صداقت کی بدولت تمام لوگ نجات پائیں گے۔

مفاد پرستی جو دوسروں کی تکالیف کے بدلے میں حاصل کی جائے، وہ کسی بھی وائرس سے بدتر بیماری ہے اور یہ بزدلوں کا طریقہ کار ہے۔ کیونکہ اس طرح ہر ممکن طریقے سے اپنے بچاؤ کے لئے کوشش کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ دوسروں کی درد و آلام کو محسوس کیا جائے، ان کے لئے ذریعے و وسیلے کے بجائے مقصد اہم ہوتا ہے، اور وہ مقصد ان کے لیے نجات کے نام پر دھوکہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو، اپنی زبانوں کو، قلموں کو اور جسموں کو قابض اور ظالموں کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں، تاکہ وہ زندگی کی تکالیف سے بچ جائیں۔ وہ دنیا میں ذلت اور آخرت میں ہلاکت خریدتے ہیں۔ یہ خود پرستی ایک ایسا داغ ہے جو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا، اور اس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ اور جس پر یہ داغ لگ جائے، وہ خود ختم ہو جاتا ہے اور اس کی نسل ہی مٹ جاتی ہے، تو کیا یہ بات بزدل سمجھ سکتے ہیں؟

رد عمل

کسی بھی حملے یا زیادتی کا بدلہ کسی بھی طریقے سے لیا جا سکتا ہے، اس کی کوئی حد نہیں، اور ہر دشمن کے لیے کوئی نہ کوئی چیز ضرور ہوتی ہے جو اسے روک سکتی ہے۔

کسی دور میں، خنجر اور تلوار مؤثر ہتھیار تھے، جب ’’حشاشین‘‘ نے انہیں حکمرانوں اور امراء کی گردنوں پر رکھ کر استعمال کیا۔

ایک اور زمانے میں، ایٹم بم ایک ہولناک ذریعۂ دہشت ثابت ہوا، جب ان بموں سے اُس جاپان کے شہر تباہ کیے گئے جو آج ان حملہ آوروں کا اطاعت گزار اور ذلیل خادم ہے۔

ہر زمانے میں تمہیں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ملے گا جس سے تم دشمنوں کو ڈرا سکو، اسے جرأت سے استعمال کر کے ان کی طاقت کو ناکام بنا سکو، میدان پر قابو پا سکو، اور ان کی قوت کا خاتمہ کر سکو۔

جہاں تک دشمن کو نیست و نابود کرنے کی بات ہے تو یہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب دشمن کو روکنے والا اور زک پہنچانے والا اسلحہ کسی کی ملکیت میں ہو اور اسے استعمال کرنے کی جرأت بھی ہو۔

دشمن پر کنٹرول: یہ اپنی عوام کو تعلیم دینے، تربیت دینے اور اسلحہ فراہم کرنے سے حاصل ہوگا۔

اور دشمن کی فوج کا خاتمہ: یہ صرف حملہ کرنے سے ہی ممکن ہے، اور حملہ ہی واحد طریقہ ہے۔

ہم یہ سب کچھ اپنے دین، ثقافت، ورثے، اور اسلامی اقدار و روایات کی طرف واپس لوٹ کر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم ہر کھانے والے کے لیے تر نوالہ بنتے رہیں گے۔

مسلح قوم ہماری زمین پر، دشمن کی گہرائی میں الگ تھلگ بھیڑئیے، اور اس کی سرزمین پر آپریشنز کے سیلوں کا قیام، مجاہد گروہ اور تنظیمیں اور ان کی نوعیت کی کارروائیاں، سیاسی شخصیات کے ہدفی قتل کی کارروائیاں، اور عصر حاضر کی ٹیکنالوجیوں کو تباہ کن ہتھیاروں میں تبدیل کرنا، اور اسٹریٹجک اہداف پر خودکش آپریشنز، دھماکہ خیز مواد کی طاقت کا بہترین استعمال، یہ سب دفاعی ہتھیار ہیں جو دشمن کی مؤثر کارروائی کو محدود کرتے ہیں، اسے ڈراتے ہیں اور اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔

ہماری قوم جب تک مسلح رہے گی، جو پُرعزم ہے، نہ وہ ہتھیاروں کے سامنے ہارے ہیں اور جب تک وہ ہتھیار اٹھاتی رہے گی اور جب تک وہ ان ہتھیاروں کے ذریعے اللہ کی راہ میں ہر میدان میں جہاد کرتی رہے گی تو ان شاء اللہ، فتح ہمیشہ ہماری ہوگی۔

اگر قصاب (نیتن یاہو) جنگ کے خاتمے کے بعد کچلا گیا، تو بائیڈن، اس کے پیروکار اور اس کے کئی ڈیموکریٹ ساتھی ذلت کا شکار ہوں گے، ان کے اموال ضبط کر لیے جائیں گے، اور انہیں ٹرمپ کو للکارنے والوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ بائیڈن کے پاس آئندہ انتخابات سے پہلے ٹرمپ کو قتل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ 1

اس وقت ریاست ٹیکساس، جو آزادی کی خواہاں ہے،کو ہم خیال ریاستیں ملیں گی اور امریکی مغرب کا افسانہ ختم ہو جائے گا، اور ہم کبھی دوبارہ ’’امریکیوں‘‘ کا ذکر نہیں سنیں گے۔ جیسے کابل کی کٹھ پتلی حکومت امریکیوں کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی بھاگ گئی تھی، ویسے ہی صہیونی ریاست اسلامی یلغار کی بھٹی میں پگھل جائے گی اور اس وقت ہمیں امن و سلامتی نصیب ہوگی۔

یہ ایک تباہ کن جنگ ہے۔ اس میں وہی بچے گا جو دشمن کے حملے کو ناکام بنانے، اس کے زخم کو مزید گہرا کرنے، میدان پر قابو پانے اور آخرکار دشمن کی فوج کو ختم کرنے کی تیاری خوب کرے گا۔ اُس وقت، اور اُس سے پہلے اور بعد بھی، اسلام کی دعوت کے دروازے کھلے رہیں گے، اور دعوت کے میدان کو کسی حال میں بند نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ہم ایک ایسے زمانے میں ہیں جس کی پہچان ہی رابطے اور ہر ایک تک رسائی (دعوت) ہے۔

ہر دور کے دانا لوگ مناسب انداز میں پسپائی یا انخلا کی حکمتِ عملی تخلیق کرتے ہیں، لیکن یہودیوں کے ساتھ معاملہ اور فلسطین کی آزادی کے لیے بہترین حکمتِ عملی وہی ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے قبول کیا اور جس کی تائید فرمائی، جب حضرت سعد بن معاذ ﷜نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا:

تُقتل مقاتلتهم، وتُسبى ذراريهم، وتُقسم أموالهم‘‘ فقال النبيﷺ: ’’لقد حكمت فيهم بحكم الله من فوق سبعة أرقعة۔

’’ان کے جنگجو قتل کر دیے جائیں، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنائے جائیں، اور ان کے اموال تقسیم کیے جائیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم نے ان کے بارے میں وہی فیصلہ کیا جو اللہ کا فیصلہ ہے جو ساتوں آسمانوں سے اوپر سے آیا ہے۔‘‘

زندگیاں بچانے والوں اور موت بانٹنے والوں کے درمیان فرق بہت بڑا ہے۔

اہم نکات

صہیونی صلیبی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگی میں کسی بھی عسکری کاروائی کو روک دینا دراصل ایک طرح سے غیر مشروط طور پر شکست کھانے کا اعتراف ہے، کیونکہ طاقتور ہی غالب آتا ہے، اور ایک میان میں دو تلواریں جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ عقیدہ نہ صرف مسلمانوں کا ہے بلکہ مغرب بھی اسی پر یقین رکھتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مسلمان دوسروں کو سوچنے اور انتخاب کا موقع دیتے ہیں، جبکہ دوسرا فریق ، اس کی وابستگی کسی سے بھی ہو صرف اور صرف نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صرف نابودی ہی اس کا ہدف ہے۔ اس پر بے شمار تاریخی شواہد موجود ہیں اور مسلمانوں اور صہیونیت کے درمیان یہ جنگ جاری رہے گی، جب تک کہ اس سے نکلنے کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی نہ اپنائی جائے، جیسا کہ ہم آگے بیان کریں گے۔

اس تصادم میں پہلا قدم یہ ہے کہ مغرب کو ہماری ان دولتوں تک رسائی سے روک دیا جائے جن کی بنیاد پر وہ ہم پر شیر بن کر حملہ آور ہوتا ہے۔ چونکہ کٹھ پتلی حکومتیں کچھ نہیں کریں گی، لہٰذا عوام کو خود دولت کے سر چشموں، معدنیات کے مراکز اور تجارتی راستوں اور بحری گزر گاہوں پر قابو پانا ہو گا چاہے اس کے لیے کانیں اور کنویں بند کرنے پڑیں، یا سمندری راستے روکنے پڑیں۔

مسلمانوں اور مغربی ممالک میں بسنے والے کمزوروں پر ایک عظیم ذمے داری عائد ہوتی ہے، اور وہ ہے دشمن کے اسلحہ سازی کے کارخانوں کو بند کرنا۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے حملوں میں دشمن کے ان کارخانوں کو نشانہ بنائیں جو مغرب میں قائم ہیں اور جو ہماری لوٹی ہوئی معدنیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان میں سر فہرست فرانس کے وہ کارخانے ہیں جو ہمارے مغربِ اسلامی کے خطوں سے لوہا چوری کر رہے ہیں اور ان کے جوہری ری ایکٹرز کو بھی خطرے میں ڈالنا ضروری ہے، کیونکہ وہ بھی افریقہ میں مسلمانوں کی زمینوں سے لوٹے گئے یورینیم پر چلتے ہیں۔

غزہ کی جنگ سے جو اسباق حاصل ہوئے ہیں، ان میں ایک اہم سبق یہ ہے کہ دشمن کا زیادہ سے زیادہ خون بہایا جائے اور مستقبل میں دشمن افراد کو قیدی بنانا محدود کر دینا چاہیے۔ کیونکہ قیدی نہ تو کبھی دشمن کو باز رکھنے والا ہتھیار بنے ہیں اور نہ ہی بن سکتے ہیں۔ یہودیوں نے سب کچھ تباہ کر دیا اور انہیں یقین ہے کہ مسلمان ان کے قیدیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے، کیونکہ اسلام ہمیں اس سے روکتا ہے۔ لیکن اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ دشمن کا خوب خون بہانا قیدی بنانے سے زیادہ اہم ہے، کیونکہ قیدی تو فتح کے بعد مالِ غنیمت کے ساتھ حاصل کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ؀ (سورۃ الانفال: ۶۷)

’’ کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اُس کے پاس (جنگ میں) قیدی ہوں، جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی نہ کر لے۔ تم دنیا کا سامان چاہتے ہو، جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

اگر اگلے دن صبح کو صہیونی اتحاد (یعنی امریکہ، برطانیہ، یہود، فرانس، اور مسخ شدہ جرمن) نے اپنے مقاصد جنگ میں حاصل کر لیے، تو وہ ایک جنگی اجلاس منعقد کریں گے تاکہ دنیا پر مکمل کنٹرول کے لیے اپنی حکمتِ عملی نافذ کریں۔ اس میں ان کا پہلا ہدف عالمِ اسلام ہو گا اور اس کے بعد باقی غیر مسلم اقوام۔

لہٰذا ہم، ایک کمزور امت کے طور پر، یہ فیصلہ کریں کہ صہیونیت کے خلاف معرکہ اسی رات سے شروع کر دیا جائے، تاکہ اگلی صبح کا آغاز ہم تیاری سے کریں، اور پھر باقی پورا دن ہم اس جدوجہد کے ثمرات کی خوشی منا سکیں۔

تعزیت اور خوشخبری

الفاظ اس قابل نہیں کہ اس شدتِ غم کا اظہار کر سکیں جو ہمیں اپنے اہلِ غزہ و فلسطین کے لیے محسوس ہوتا ہے اور ان تمام لوگوں کے لیے جو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے غمزدہ ہیں۔

لیکن بعض اوقات بے بسی کی طاقت، طاقت کی بے بسی سے بھی زیادہ کاری ضرب لگاتی ہے۔

جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے ان شاء اللہ وہ محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ اس کے اثرات دنیا بھر پر مرتب ہوں گے، عالمی سطح پر، اُمّت مسلمہ اور تمام اقوام و معاشروں کی سطح پر بھی مرتب ہوں گے۔

وہ نوجوان نسل جو مغرب اور صہیونیت کے فاسد ہتھکنڈوں سے محفوظ رہ گئی ہے، وہ تبدیلی اور انقلاب کی ہواؤں میں لپٹی ہوئی آ رہی ہے، تاکہ ایک ایسا مستقبل تعمیر کریں جو انسانیت پر مبنی ہو، زیادہ با اخلاق ہو اور زیادہ جانثاری کے جذبات سے لبریز ہو۔

اے اہلِ غزہ و فلسطین! اور اے دنیا کے تمام مخلصو!

تمہاری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

تم تاریخ کی سب سے اہم جنگ میں کامیاب ہو چکے ہو اور وہ انسان و انسانیت کی تعمیرِ نو کی جنگ ہے۔

اور مجھے، ان شاء اللہ، یقین ہے کہ غزہ کے واقعات مغربی استعمار، صلیبیت اور صہیونیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے اور دنیا جلد ہی ان کے فساد اور گمراہی سے آزاد ہو جائے گی۔ مغرب اور صہیونیت نے گزشتہ کئی صدیوں میں انسانیت کی قیادت کرنے کا بھر پور موقع پایا، لیکن وہ اس میں مکمل طور پر ناکام ہوئے۔ انسانی فلاح اور ترقی کے بجائے، مغربی نمونہ ایک خود غرض اور موقع پرست انقلاب بن گیا، جس نے دنیا بھر میں انسانی اقدار اور اخلاقی اصولوں کو پامال کیا۔

مغرب اور صہیونیت نے تمام صحیح اور حقیقی انسانی ورثے کو ختم کر ڈالا اور انسانیت سے ان کا انتقام ابلیس اور اس کی نسل کی تمام کوششوں سے زیادہ سخت اور شدید تھا۔ حقیقت میں انہوں نے اپنے مظالم میں اس قدر تجاوز کیا کہ ابلیس جو کچھ نہ کر سکا، وہ انہوں نے کر دکھایا۔

پوری بشریت نے اللہ کی عظمت کو مانا، دین کی پابندی کی ، خاندان کی دیکھ بھال کی، اخلاقی اقدار کا تحفظ کیا اور قربانی و فدا کاری کی اہمیت کو سمجھا۔ لیکن مغرب، صہیونیت اور ہماری صہیونیت نواز حکومتوں نے یہ سب کچھ تباہ کر دیا اور انسانوں میں انفرادیت، خود غرضی اور موقع پرستی کی آگ بھڑکائی، جس سے انسانوں کے درمیان وہ اخلاقی قدریں اور اصول گر گئے جو بنی آدم کی پہچان تھے۔

اس مقالے میں اخلاقی انحطاط، سماجی تقسیم ، انفرادی فساد اور فطری انحراف کی حالت کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے، لیکن غزہ نے اپنے صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ دنیا بھر میں دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے کا احساس دوبارہ زندہ کیا اور اس نے راکھ میں دبے ہوئے اخلاق کے انگاروں کو پھر سے شعلے میں بدل دیا۔ کچھ لوگ اس نسل سے تبدیلی کی امید تقریباً ترک کر چکے تھے، مگر غزہ کی سرزمین، اللہ کی رضا اور تدبیر سے، وہ روح زندہ کر گئی جسے مغرب نے مٹانے کی کوشش کی تھی اور اس نے وہ چہرے دکھائے جنہیں صہیونیت نے چھپانے کی کوشش کی تھی۔ غزہ نے ان میں قربانی کا جذبہ دوبارہ زندہ کیا، جو قصۂ پارینہ بننے لگا تھا۔

آج دنیا میں پھیلنے والی نوجوانوں کی بیداری غزہ کی برکت سے ہے اور (مغربی ممالک میں فلسطین کے حق میں)طلباء کی تحریک کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ نوجوان ہی زندگی کے سازندے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس بیداری کا فائدہ اٹھانا ہوگا تاکہ انسانیت کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے اور ہمیں اللہ کی عظمت کو دوبارہ ماننا ہوگا، دین پر عمل کرنا ہوگا، اسلامی سرزمینوں سے محبت کرنا ہو گی، خاندان کی دیکھ بھال کرنی ہو گی، اقدار اور اخلاق کی قدر کرنی ہو گی، قربانی اور جانثاری کا جذبہ فروغ دینا ہو گا۔

اختتام

آخر میں اہلِ غزہ کی استقامت کی بات طرف لوٹتا ہوں، اور کبھی اس سے جدا نہیں ہوں گا، اس کے آثار میرے جذبات سے مل جاتے ہیں جب اس کی تصویر میری تخیلات سے گزرتی ہے، یہ منظر مختلف ٹکڑوں میں بکھرے ہوئے ہیں، جنہیں ہزاروں دلوں کی دُعائیں بڑھا رہی ہیں، تو میں دیکھتا ہوں: ایک بزرگ کا سایہ جو ایک ٹوٹی ہوئی دیوار کو اپنی کمر کے سہارے سنبھالے ہوئے ہے……اس دیوار سے متصل دیگر دیواریں دھماکوں کے اثر سے گِر رہی ہیں……اور ایک ماں کا سایہ جو اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے ہے……جس کا جسم لوہے کے پارچوں سے چھلنی ہو چکا ہے اور جس کے کپڑے خون سے لال رنگ ہیں……اس کا بچہ مسلسل رو رہا ہے، وہ اسے کھلانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے شفقت سے اپنے سینے سے لگاتی ہے۔ پھر ایک شیر خوار بچہ جو ابھی تک طاقت و قوت سے محروم ہے، آہ و فغاں کرتا ہے، اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہے، اور اس کا کمزور جسم رنگ بدل رہا ہے، وہ اپنی کٹی ہوئی اور خون میں لتھڑی ہوئی ٹانگ کو دیکھ کر اُٹھتا ہے اور گرد و نواح میں کسی کو پکار رہا ہے: ’’ابا، اماں، بہن، بھائی!‘‘ لیکن کوئی جواب نہیں آتا، اور وہ اپنی پکار میں ایسا مقام پا چکا ہے جہاں اس کی آواز انسان نہیں سن سکتے۔

اور اسے پیار کرنے والا، آنکھوں میں مزید آنسو اور درد کی شدت کے ساتھ بلند آواز سے رونے لگتا ہے، وہ ناتواں ہے، اپنے عزیزوں سے جدائی کے درد سے اس کا جسم ٹوٹ چکا ہے اور وہ اپنے باقی ماندہ ہاتھ کو اوپر نہیں اُٹھا سکتا، سر جھکائے، زمین کو دیکھتے ہوئے، ایسی جگہ پر پہنچا ہے جہاں وہ نہیں جانتا، اور آسمان کی طرف سر اُٹھا کر اپنے رب سے رحم کی دعا کر رہا ہے، وہ خاموش ہے، لیکن اس کی آنکھیں بزبانِ حال یہ دعا مانگ رہی ہیں: الٰہی، میری قوت کم ہو چکی ہے، میں لوگوں کے سامنے بے بس ہوں، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے، میری مدد فرما، میں اس مصیبت میں ہوں، میری دعا سن لے!

اس کی ثابت قدمی غزہ میں موجود دیگر استقامت کے حامل جانبازوں کے لیے ایک اور سنگ میل ہے۔ میرے لیے آنسو نہ بہاؤ بلکہ اپنی حالت پر آنسو بہاؤ! یہ دن گزر جائیں گے اور میں بڑا ہو جاؤں گا، مگر، وہ بچہ ہمیشہ میرے دل میں تمہارا مخالف رہے گا۔

یمنی شاعر اسامہ نے جو اشعار لکھے ہیں، وہ غزہ کے حالت زار کی بہترین عکاسی کرتے ہیں:

میں کون ہوں؟
رات کی دھندلی چھاؤں میری بصیرت میں جاں گزیں ہے،
اور سکوت کے بے زبان گھوڑے شب کی تاریکی میں ہنہناتے ہیں۔
سرد آہیں میرے دل کی گہرائیوں میں طوفان برپا کرتی ہیں،
اور ہر رنج، میرے درد کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
ایک سوال، پنجے نکالے، میری طرف لپکتا ہے،
پُرتشدد لہجے میں پکار اٹھتا ہے: ’’تو کون ہے؟‘‘
وہ مجھ سے گلہ کرتا ہے، مجھے بازوؤں میں لیتا ہے،
پھر بھی اصرار سے پوچھتا ہے: ’’تو کون ہے؟ کیوں ہے؟‘‘
وہ میری جان لینے کا آرزومند ہے، مجھے سولی پر چڑھانا چاہتا ہے،
اور میں بھاگ کر، آئینوں کی آغوش میں جا چھپتا ہوں۔
وہ پوچھتا ہے: ’’تو کون ہے؟‘‘
اور میں…… میں خود ایک سوال ہوں،
جسے بارود، بمباری اور شعلہ بار ٹکڑے مٹا دینا چاہتے ہیں۔
میں ایک بچہ ہوں، مگر میری روح صدیوں کی عمر رکھتی ہے،
میں کل کی امید کا نونہال ہوں، جو آج کی جوانی میں سانس لیتا ہے۔
میں اپنے باطن کی گہرائیوں میں خود کو تلاش کرتا ہوں،
اور پھر ماضی کی یادوں سے عشق کرنے لگتا ہوں،
جہاں خطاؤں کے دھبے نہ ہوں۔
میں وہ پلک ہوں، جس پر تھکاوٹ، اشکوں کا بوجھ بن کر ٹھہر گئی ہے۔
میں وہ طوفان ہوں،
جو میرے وجود کی رگ رگ میں بےقرار دوڑتا ہے۔

میں وہ معصوم آرزو ہوں،
جسے امن کی دہلیز پر ہی دفن کر دیا گیا۔

میں وہ خواب ہوں،

جسے موت نے بہلانے کی کوشش کی۔

میں ہوا کا بیٹا ہوں، بارش میری ماں ہے،

اور بادلوں کے پیچھے چھپی کہانیاں مجھے بارش کی مانند سیراب کرتی ہیں۔

میں وہ سرزمین ہوں،

جس پر آنسو گرتے ہیں تو زمین کو نم کرتے ہیں،
اور قحط زدہ مٹی میرے گریے سے سیراب ہوتی ہے۔
میں آسمان کا پختہ رنگ ہوں،
جو اسیر ہے مگر آزاد جینے سے انکاری۔

میں وہ ستارہ ہوں،
جسے شب کی تلخیاں بے نور کر چکی ہیں،
میں وہ زاویہ ہوں جہاں محبت قید ہے،
اور یادیں دیواروں سے سر ٹکراتی ہیں۔
کیا تم مجھے پہچان سکتے ہو؟
تاکہ میرے خاموش درد کو پڑھ سکو؟
کیا تم میرے لبوں پر مہر لگی چیخ کو سمجھ سکتے ہو؟
میں…… میں اپنے آپ کو کھو چکا ہوں،
اور اپنے ہی بازوؤں میں خود کو تھپکتا ہوں،
جیسے کوئی یتیم بچہ ہو۔

میں اپنے سینے میں اپنی قوم کا غم دفن کیے پھرتا ہوں،

اور اپنے کاندھوں پر اُن کی لاشیں اٹھائے چلتا ہوں،
جنہیں دنیا نے بھلا دیا۔
رات کی تاریکی کے درندے میرے اجالے کو چھین لیتے ہیں،
اور میرا سویرا، اندھیرے میں رو رو کر دم توڑ دیتا ہے۔
ہاں……
میرا سویرا غم سے مر چکا ہے۔

٭٭٭٭٭

1 شیخ سیف العدل نے یہ سطور ایک سال قبل تحریر کی تھیں۔(ادارہ)

Previous Post

اپنا اپنا اسماعیل پیش کرو!

Next Post

شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ اوّل – دوسری قسط

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post
شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ اوّل – دوسری قسط

شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ اوّل - دوسری قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version