فروری کے مہینے کی ۵ تاریخ کو یومِ یکجہتیٔ کشمیر منایا جاتا ہے۔ اس دن نعرے لگائے جاتے ہیں کشمیریوں کے حق میں جلسے ، جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں،نئےنغمے اور ترانے نشر ہوتے ہیں……اور اس سب کے بعد اس دن کی شام ہوتے ہی سب کچھ واپس معمول پہ آ جاتا ہے۔ زندگی واپس گھر اور دفتر، کاروبار اور تعلیم کے مدار کی طرف لوٹ جاتی ہےکیونکہ سال بھر کے لیے کشمیر اور اہلِ کشمیر سے محبت جتانے کا قرض اتارا جا چکا ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ دن منانے کا مقصد کشمیریوں کو یہ بتانا ہے کہ ’ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں‘، لیکن مجھےیہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہم اتنے عرصے سے کھڑے ہی کیوں ہیں؟آگے کیوں نہیں بڑھتے؟ اب تک تو کشمیری بھی ہمیں اپنے ساتھ کھڑے دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہوں گے۔
اس مضمون کا قلم سے ظاہر ہونے کی وجہ کملجیت سندھو کا مضمون ہے جو ۳۰ جنوری، ۲۰۲۲ء کو اِنڈیا ٹوڈے میں شائع ہوا۔ اس مضمون کے مطابق ہندوستانی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس وقت کشمیر میں مجاہدین کی تعداد دو سو سے کم ہے، اور آنے والے دنوں میں وہ اس کو مزید کم کر کے سو تک لے آئیں گے۔اگرچہ ہندو ایک جھوٹی قوم ہے، لیکن اگر یہ خبر سچی نہیں تو حقیقت سے بہت دور بھی نہیں کیونکہ گزشتہ چند برسوں میں کشمیری مجاہدین کی تعداد دن بدن کم سے کمتر ہوتی چلی گئی ہے۔
یہ خبر ہر اس شخص کے لیے تکلیف دہ ہے جو کشمیر اور جہادِ کشمیر سے محبت رکھتا ہے، کیونکہ آج سے پہلے کبھی کشمیر میں ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ پاکستانی صحافی سید سلیم شہزاد اپنی شہرۂ آفاق کتاب’Inside Al Qaeda and the Taliban‘ میں لکھتے ہیں کہ نو گیارہ کے وقت، کشمیر میں مجاہدین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد گھٹ کر سو دو سو تک محدود ہو جائے، اور ان میں بھی اکثریت ان کشمیری نوجوانوں کی ہے جو تازہ تازہ میدانِ عمل میں اترے ہیں اور جن کی تربیت کا یہ عالم ہے کہ بندوق چلانے کا طریقہ بھی ویڈیوز میں دیکھ کر سیکھتے ہیں اور اپنا قلیل اسلحہ لے کر بھارتی فوج کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔
جہادِ کشمیر کو اس حال تک پہنچانےکا ذمّہ دار کون ہے؟ شاید آپ کہیں کہ پاکستان کی حکومت و فوج، جو مسلمانانِ کشمیر کے نام پر سیاست تو کرتی ہے، لیکن خود ان کے دکھ درد کے مداوے کے لیے کبھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتی……وہ بے ڈھنگی پالیسیاں جن کا مقصد ہمیشہ جہادِ کشمیر کو کنٹرول کرنا، اپنے ذاتی مقاصد و مفادات کے لیے استعمال کرنا رہا ہے ناکہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی ظلم سے آزادی و نجات دلانا۔لیکن اگر مجھ سے پوچھیں تومیں کہوں گی کہ جہادِ کشمیر کی اس زبوں حالی اور کسمپرسی کی وجہ ہم خود ہیں۔ہم وہ لوگ ہیں جنہیں دین عبادات کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی ذاتی زندگی میں عابد و زاہد بن کر، ہم جنت کا ٹکٹ پکّا کر لیں گے۔ رہے ہمارے پڑوس میں مرتے سسکتے ہمارے مسلمان بہن اور بھائی……تو ان کے لیے ہم دعائیں تو کرتے ہیں ناں……اس سے زیادہ ہمارے بس میں ہے ہی کیا؟
اور اپنے آپ کو یہ تسلّیاں اور بہلاوے دیتے ہوئے ہم نبی پاکﷺ کا وہ فرمان بھول جاتے ہیں جب آپﷺ نے فرمایا کہ ’’مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں، جب جسم کا کوئی ایک عضو تکلیف کا شکار ہوتا ہے، تو ا سکی تکلیف پورا بدن محسوس کرتا ہے‘‘(مفہومِ حدیث) ۔ وہن کی بیماری ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے اور اس کی وجہ سے بزدلی اور کم ہمتی خون کی طرح ہماری رگوں میں دوڑتی ہے۔غم اور افسوس مجاہدین کے ختم ہو جانے پر نہیں ہے، کہ وہ تو شہادت پا کر ابدی حیات ، اور حیات بھی ایسی حسین و پر تعیش جو دنیا میں کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی ، کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ’’حی علی الجہاد‘‘ کی صدا لگانے والے نہیں رہے۔وہ علما، وہ داعی، امّت کے غم کا ادراک کرنے والے، اپنے دل میں اس مظلوم امّت کی تڑپ رکھنے والے، وہ خطیب، وہ مصلح، وہ ہمدرد و غمگسار نہیں رہے جن کی درد بھری پکار غافلوں کو جھنجوڑتی اور بیدار کرتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب جہاد اس امّت کی واحد لائف لائن(life line) کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، جہاد کی تلقین کرنے والا، اس کاحکم دینے والا کوئی نہیں رہا۔بقول اقبال
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
تیغ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر
تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر
مسلمان وہ امّت ہیں جس کے علما کو رسول اللہﷺ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کے مصداق فرمایا۔ ہر دور میں حق گو اور نڈر علمائے کرام نے اس امّت کی رہنمائی کا فریضہ بہترین طریقے سے انجام دیا ہے۔ ہمارے علما تو وہ تھے جن کے شاگرد و مریدین، معتقدین و محبّین لاکھوں کی تعداد میں ہوتے تھے، جن کے حلقۂ درس میں شامل ہونے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی کے بیٹھنے کی جگہ نہ ملتی۔ لیکن ان کے جنازے زندانوں سے نکلتے۔ ان پر کوڑوں کی بارش کر دی جاتی، اس بری طرح کہ ہاتھی کی پیٹھ پر کی جاتی تو وہ بلبلا اٹھتا اور بھاگ جاتا، مگر یہ اولیا حق کی خاطر ڈٹے رہتے۔ جو کسی سلطان یا امیر کے خوف سے مداہنت اختیار نہ کرتے۔ جن کے علم نے انہیں جہاں قلم لے کر کتابیں تصنیف کرنے پر لگایا، وہیں تلوار لے کر اس امّت اور دین کا دفاع کرنے والا بھی بنایا۔ ابنِ تیمیہؒ کے زمانے میں جبکہ آپؒ منگولوں کے خلاف اعلانِ جہاد کر چکے تھے، اس وقت کے بادشاہ ناصر الدین نے اپنے تخت و تاج کے چھن جانے کے خوف سے منگولوں کے ساتھ صلح و الحاق کر لیا۔ ابنِ تیمیہؒ نے اسے خبر دار کیا اور فرمایا کہ اگر تم ان منگولوں کا ساتھ دینے سے باز نہ آئے تو میں پہلے تمہارے خلاف جنگ کروں گا اور پھر منگولوں کے خلاف۔
یہ غلط فہمی ہمیں فراموش کر دینی چاہیے کہ ہماری مدد کے بغیر جہادِ کشمیر ختم ہو جائے گا یا مجاہدین فنا ہو جائیں گے۔ کشمیر دارالاسلام بن کر رہے گا،یہ بات اٹل ہے۔ اللہ کی رحمت اور فضل سے کشمیر میں مجاہدین سرگرم رہیں گے یہاں تک کہ بھارت کو مار بھگائیں گے۔ ہاں مگر……مجاہدین سے ہاتھ کھینچ لینے، ان کی نصرت کرنے سے خود کو اور دوسروں کو روکے رکھنے سے اگر کچھ ہو گا تو یہ کہ ہم اللہ کی رحمت و فضل کو اپنی ذات سے دور کر دیں گے۔ الٹا اس کے غیظ و غضب کو دعوت دینے والے بن جائیں گے۔ عجیب معاملہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد کو ہماری ضرورت ہے۔ اگر ہم جہاد کو اپنی جان و مال کی قربانیاں نہیں دیں گے تو جہاد جاری نہیں رہے گا۔ اور جان و مال کس کو پیارا نہیں ہوتا۔ حالانکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ جہاد کو ہماری نہیں، بلکہ ہمیں جہاد کی ضرورت ہے۔ تاکہ جہاد ہمارے دلوں پر لگے حبّ الدنیا اور کراہیۃ الموت کا زنگ اتار دے۔ ہمیں اس دنیا کی غلامی سے نکالے، ہمارے دل و ذہن کو آزاد کر کے وہ روشنی عطا کرے ، جس کی مدد سے ہم اپنا ماضی و مستقبل صاف دیکھنے، پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہو سکیں۔
تاکہ ہم جان سکیں کہ ہم وہ قوم ، وہ امّت ہیں جسے اللہ نے دنیا پر حکمرانی کے لیے پیدا کیا۔ اپنا خلیفہ بنایا اور انسانوں کی رہنمائی کا عظیم فریضہ ہمارے سپرد کیا۔ صرف تب ہی ہم یہود و ہنود کے کسے شکنجے سے نکل سکتے ہیں، صرف تب ہی ہم اپنی عظمتِ رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی سعی کر سکتے ہیں، جب پہلے ہم اپنے دل و دماغ کو آزاد کریں اور دنیا کی محبت سے پیدا ہونے والی بزدلانہ روش پر چلنا چھوڑ دیں۔
اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، و ارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ.