نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأُستاذ فاروق | چوبیسویں نشست

معین الدین شامی by معین الدین شامی
2 مارچ 2022
in صحبتِ با اہلِ دِل!, فروری 2022
0

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمام تعریفیں، بلا شبہ اللہ ہی کے لیے ہیں۔وہ اللہ جو ہمارا ربّ ہے،ہمارا ہے،ہمارا اللہ ہے!اسی نے ہمیں پیدا کیا اور وہی ہمیں موت دیتا ہے اور بلا شبہ اس نے موت و حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ دیکھےکہ ہم میں سے کون ہے جو بہترین عمل کرتا ہے۔

مع الأستاذ فاروق، استاد احمد فاروق کے ساتھ چند ملاقاتیں، ان کی چند یادیں، ان کی قیمتی باتیں، ان کی بعض ایسی باتیں جو مجھے خاص طور پر اچھی لگیں۔ حضرتِ استاذ سے آج تک جتنی ملاقاتیں رہیں، سب کا احوال اور سب کی سب تو یاد نہیں، لیکن جتنی ذہن میں تازہ ہیں سب ہی لکھنے کا ارادہ ہے کہ یہ ان شاء اللہ توشۂ آخرت ہوں گی، مجھ سمیت حضرتِ استاذ کے محبّین کے لیے دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہوں گی۔اللہ تعالیٰ صحیح بات، صحیح نیت اور صحیح طریقے سے کہنے والوں میں شامل فرما لے۔نوٹ: اس سلسلہ ہائے مضامین میں جہاں بھی ’استاذ‘ کا لفظ آئے گا تو اس سے مراد شہید عالمِ ربّانی استاد احمد فاروق (رحمہ اللہ) ہوں گے۔


خدایا! ’اُن کا‘نورِ بصیرت عام کر دے!

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء.

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

یہ ۲۰۱۱ء کے اواخر کا زمانہ تھا۔ سردی تھی، بلکہ بہت سردی تھی ، زمین پر آسمان سے برف پڑ رہی تھی اور ہم زیرِ زمین رہتے تھے، اپنے کہف میں۔ استاذ کی اہلیہ جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ گئی ہوئی تھیں، لہٰذا استاذ ہمیں ہفتے کے ساتوں دن اور دن کے چوبیس گھنٹے دستیاب تھے، زیارت کو بھی اور کچھ کچھ ان سے سیکھنے کو بھی۔ میری میز استاذ کی میز سے بالکل متصل تھی اور ہم اس انداز سے بیٹھتے تھے جیسے مکاتب و مدارس میں طالبِ علم صفوں (rows) میں بیٹھتے ہیں۔ بیٹھنے کا انداز تو طالبِ علموں والا تھا لیکن ایک طرف استاذ تھے اور دوسری طرف ان کا نالائق ترین شاگرد، بہر کیف یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے، وللہ الحمد اور اصل بات تو یہ ہے کہ جنت میں مسندیں محض اللہ کے فضل سے یوں جڑ جائیں جیسے دنیا میں تھیں۔ سبھی کوشش کرتے تھے کہ استاذ کی میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظر نہ ہی پڑے کہ استاذ کا کمپیوٹر رازوں کا مرکز تھا۔ بہر حال کبھی کبھار نظر پڑ ہی جاتی تھی۔ ایک دن، کہف کے ہمارے اِگلُو نما کمرے میں داود بھائی داخل ہوئے تو ان کی بھی نظر پڑ گئی اور داود بھائی کے استاذ سے سوال کے بعد میری نظر بھی پڑ گئی۔ مائیکروسافٹ کمپنی کا ایک سافٹ وئیر ہوتا تھا خاکے (diagrams) بنانے کے لیے Microsoft Visio کی طرح کا جس کا نام اب مجھے بھول گیا ہے۔ اس پر استاذ اپنے مجموعے (جہادی گروپ) کے تنظیمی ڈھانچے کا خاکہ بنا رہے تھے اور عنوان تھا ’کتیبۂ سیّد احمد شہید‘ (’کتیبہ‘ جس کا ترجمہ ہم بٹالین کے طور پر کر سکتے ہیں)۔ یہ دیکھ کر داود بھائی نے سوال کیا کہ کیا ہمارے مجموعے کا نام ’کتیبۂ سیّد احمد شہید‘ ہے؟ جواباً استاذ نے کہا کہ یہ میری تجویز ہے، میں یہ نام شوریٰ کے سامنے پیش کروں گا، اگر شوریٰ نے منظور کر دیا تو ہو گا۔

استاذ کو سیّد احمد شہید سے بہت نسبت تھی۔ گاہے سیّد صاحب کی مثالیں بھی دیتے اور واقعات بھی سناتے۔ استاذ نے سیّد صاحب کے متعلق جو کتابی ذخیرہ تھا سبھی کنگھال رکھا تھا، بلکہ ان کی فکر کو ہضم کر رکھا تھا۔ ساتھیوں کو ان کی تاریخ ’سیرتِ سیّد احمد شہید‘ مؤلفہ مفکرِ اسلام مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ، جو بعداً تاریخِ دعوت و عزیمت کی چھٹی جلد قرار پائی، پڑھواتے تھے اور اس کے علاوہ کوئی ذوق و شوق کا مظاہرہ کرے تو وقائعِ احمدی اور مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ کی ’سیّد احمد شہید‘، ’سرگزشتِ مجاہدین‘ اور ’تحریکِ مجاہدین‘ بھی پڑھنے کو کہتے۔

ابھی کہف مکمل آباد نہیں ہوا تھا، تب کی بات ہے، میں یہ بات پہلے لکھنا بھول گیا۔ استاذ کے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ (keyboard) کا ڈبلیو ’W‘ والا بٹن صحیح سے دب نہیں رہا تھا۔ میں نے استادی دکھاتے ہوئے اس کو ٹھیک کرنا چاہا تو بٹن کے نیچے جو باریک سی دھاتی سیخ ہوتی ہے وہ خراب ہو گئی اور بٹن سرے سے ہی کی بورڈ سے جدا ہو گیا۔ اب اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کے روز و شب پڑھنے اور لکھنے کے لیے کمپیوٹر پر گزرتے ہوں۔ استاذ نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ پھر جب مجھے شرمندہ دیکھا اور میں نے جب کئی بار معافی مانگی تو انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، ابھی تو میں ناراض نہیں ہوں ، لیکن اس چھوٹے سے واقعے کا دوبارہ ذکر کیا تو ناراض ہو جاؤں گا بس یہ موضوع بند کریں۔ پھر وہ کہف سے اپنے گھر چلے گئے، ان دنوں ڈرون نہیں تھا۔ رات کو میں بہت ہی شرمندہ رہا۔ پھر صبح سویرے اٹھا اور اللہ سے دعا مانگی کہ یا اللہ استاذ تیرے قریبی بندے ہیں، میں پھر کوشش کرتا ہوں، تو یہ بٹن بالکل ٹھیک کروادے۔ پھر میں اٹھا، دوبارہ بٹن کے نیچے والی سیخ نکالی جو غالباً ٹوٹ چکی تھی۔ پھر ایک پلاس لیا اور اسی چھوٹے سیخ کے ٹکڑے کو کسی نہ کسی طرح موڑ تروڑ کے برابر کر دیا، بٹن کی بورڈ پر بٹھایا تو ٹَک کر کے بالکل ٹھیک بیٹھ گیا۔ اس بٹن کے جڑنے سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ پھر میں نے خاموشی سے استاذ کا لیپ ٹاپ وہیں رکھ دیا جہاں وہ چھوڑ کر رات کو گئے تھے۔ جب استاذ صبح آئے تو اس واقعے کا بالکل ان پر اثر نہ تھا۔ جب انہوں نے کمپیوٹر کھولا اور ڈبلیو کا بٹن دبایا تو مڑ کر گھور کے مجھے دیکھا اور وہی ان کا خاص انداز سر کو حرکت دینے والا جو میں کبھی حدودِ تحریر میں نہیں لا سکتا اور پھر ہاتھ کے اشارے سے پوچھا یہ کیا؟ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔ انہوں نے پاس بلایا، پیار کیا اور کہا کہ میں نے رات کو کہا تھا کہ بس اس معاملے کو چھوڑ دیں تو کیوں نہیں چھوڑا۔ بہر حال شاباش دی اور خوش ہوئے۔ بعد میں نجانے کتنا زمانہ یہی کمپیوٹر الحمد للہ چلتا رہا۔

دوبارہ انہی دنوں کی طرف جاتا ہوں جن سے محفلِ ہٰذا کا آغاز کیا تھا۔ ان دنوں ہمارے شعبے میں یہ تحریک شروع ہوئی کہ ہمیں کاموں کو منظم کرنا چاہیے۔ منصوبہ بندی ہو اور کاموں کے لیے وقت کا دورانیہ طے کیا جائے، اہداف مقرر کیے جائیں، شاید راقم ہی اس سب کا بڑھ چڑھ کر وکیل تھا۔ ان دنوں ایک اعلامی دستاویزی فلم کا منصوبہ میرے سپرد کیا گیا تھا۔ دستاویزی فلم بنانا ایک جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس پر اتنی ہی محنت لگتی ہے جتنی کتاب لکھنے پر، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔ بعض دفعہ تعلیق یعنی commentary کے ایک ایک لفظ پر ایک نیا منظر بٹھانا یا set کرنا ہوتا ہے۔ پھر یہ تھا بھی اس بڑے درجے پر میرا پہلا کام۔ اور اگر کوئی جہادی اعلام سے وابستہ ساتھیوں کے ’وسائل‘ جانتا ہو تو وہ خود ہی سوچ لے کہ یہ کس قدر مشکل کام ہے، جوئے شِیر لانا اسی کو کہتے ہیں۔ پھر اگر بندہ ہو بھی میری طرح ضعیف تو اس کا تو کباڑا ہو جاتا ہے۔ اب مجھ سے پوچھ کر ، جس منصوبے میں راقم لگا تھا کے لیے ایک ڈیڈ لائن طے کی گئی۔ ڈیڈ لائن آ گئی اور کام آدھے سے زیادہ رہتا تھا۔ میں نے استاذ سے کہا حضرت کام اتنا رہتا ہے اور ڈیڈ لائن سر پر ہے کیا کروں؟ حضرت نے مزاحاً سر ہلایا ہاتھ سے گردن کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ’ڈیڈ لائن!‘۔ اب جانتا تو میں تھا کہ یہ مذاق ہے لیکن میرا ’تراہ ‘نکل گیا کہ کام پورا نہ ہوا تو استاذ ناراض ہوں گے۔ پھر یہ ہوا کہ ٹپ ٹپ آنکھیں بہنے لگیں۔ استاذ نے کہا ’یہ کیا؟ کام کریں بھئی، اللہ مالک ہے! جتنا کام ہوتا ہے کریں، پوری محنت کریں۔ پوری محنت کے بعد بھی اگر یہ وقت پر پورا نہیں ہوتا تو پھر غم نہ کریں، اللہ خیر کرے گا‘۔ یوں تسلی ہوئی اور یہ کام ہو بھی گیا۔

اسی کام کے دوران ایک جگہ مسجدِ اقصیٰ کا ذکر تھا اور اس کے لیے میں منظر ڈھونڈ رہا تھا۔ استاذ نے ایک ویڈیو دی اور کہا کہ فلاں مقام پر اس میں مسجدِ اقصیٰ کا ایک منظر ہے وہ ڈال دیں۔ میں نے دیکھا تو مجھے مناسب لگا، لیکن بہت اچھا نہیں۔ اور اسی دوران ایک زیادہ اچھا منظر مجھے مل چکا تھا۔ اب میں اس سوچ میں تھا کہ کیا کروں؟ استاذ کو کہوں کہ نہ کہوں۔ پھر بحمد اللہ یہی فیصلہ کیا کہ بظاہر تکنیکی یا ہمارے ہشام بھائی شہید کی اکثر استعمال کردہ اصطلاح میں جمالیاتی حِس کے اعتبارسے شاید یہ منظر میری ناقص نظر میں اچھا نہ ہو لیکن امیر کی خواہش یہی ہے تو اسی کو ڈال دینا چاہیے۔ اگر میں نے کوئی خیر کا کام کیا تو اس میں میرا کوئی کمال نہیں اور نہ ہی اپنی تعریف یہاں مقصود ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ اس میں میرے لیے ایک سبق ہے اور وہ یہ کہ بڑوں کی بات کے سامنے جہاں مناسب ہو تو عرض بھی کر دینا چاہیے لیکن ہمیشہ اپنی ہی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، اس کا نقصان ہوتا ہے، چاہے ہماری اپنی رائے بہتر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کوئی آفاقی اصول نہیں ہے، ظاہر ہے۔ پھر وہی منظر ڈالا تو تب سے اب تک ایک دہائی سے زیادہ کے بعد یہ خیال ذہن میں پختہ ہے کہ اگر کوئی برکت اس کام میں ہوئی تو بس استاذ کی یہی بظاہر چھوٹی سی بات ماننے کے سبب ہوئی۔ اللہ پاک مجھے اور سبھی مامورین کو اپنے امرا کی بات ماننے والا بنائے!

انہی دنوں دیگر متوازی منصوبوں پر بھی کام چل رہا تھا اور یوں استاذ کبھی کبھی ان متعلقہ ویڈیوز کے لیے دیگر ویڈیوز کے مناظر کا انتخاب کر کے دیتے تھے۔ اس عنوان کے ذیل میں شاید چند باتیں مزید آ جائیں۔

پہلی بات۔ ایک دن میں نے استاذ سے کہا کہ جب آپ ان مناظر کا انتخاب کر کے وقت یعنی گھنٹہ، منٹ اور سیکنڈ کے حساب سے نوٹ کرتے ہیں تو ایسے سافٹ وئیر موجود ہیں جن پر آپ ویڈیو دیکھ بھی سکتے ہیں اور ساتھ میں چھوٹے چھوٹ مناظر (clips) کاٹ بھی سکتے ہیں۔ اس پر استاذ نے کہا کہ ’پھر آپ کیا کریں گے؟ اگر میں خود اس کام میں لگ جاؤں گا تو جو کام میرا ہے وہ کون کرے گا؟‘۔ بفیضِ استاذ یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ لکل فنٍ رجال، ہر کام کے لیے مخصوص افراد ہوتے ہیں۔ کام چھوٹے اور بڑے، حقیر اور اعلیٰ نہیں ہوتے بلکہ ہر ایک کا اپنا وظیفہ اور اپنی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ چھوٹا کام کرنے والے کا اجر بڑا کام کرنے والے سے زیادہ ہو۔ لیکن اگر نگرانی کرنے والا خود عملی کاموں میں اترے گا تو نگرانی کون کرے گا؟

اسی پر مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔ یہ وزیرستان میں ہمارے آخری سال کی بات ہے، امریکی ایما پر جب آپریشن ضربِ عضب شروع کیا گیا تو اس سے دو ایک ماہ پہلے کی بات ۔ ہمارے ایک افغانی بلوچ استاد تھے اور جن لوگوں نے ان سے پڑھا ہے اور جو ان کے ساتھ رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ بڑے ہی بلند استعداد والی علمی شخصیت ہیں۔ وہ وزیرستان تشریف لائے اور وہ کچھ عملی جہادی کام کرنا چاہتے تھے۔ عملی سے ابھی مراد ہے عسکری کام اور اس کے لیے شعبۂ بارود بنانا چاہتے تھے، ویسے وہ خود بارود کے استاد بھی تھے۔ اسی سلسلے میں ان کی القاعدہ کی مرکزی قیادت کے رکن اور القاعدہ کے مسئولِ عام برائے خراسان شیخ ابو دجانہ پاشا سے ملاقات ہوئی، بلوچ مفتی صاحب نے ان کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کیا اور کہا کہ میں خود یہ عملی عسکری کام کرنا چاہتا ہوں اوریہ واقعہ مجھے خود بلوچ مفتی صاحب نے سنایا۔ اس پر شیخ ابو دجانہ پاشارحمہ اللہ، جو امیرنا الکریم، حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری (مدّ ظلہ العالی) کے داماد بھی تھے اور بعد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں شہید ہوئے نے فرمایا کہ’میرے محترم شیخ! یہ (عملی)کام تو آپ کے بیٹوں یعنی نوجوان مجاہدین کے کرنے کا ہے، آپ تو ایک عالمِ دین ہیں اور میدانِ جہاد کے مسائل کی نزاکتوں سے واقف ہیں، آپ کا کام تو ان نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کرنا ہے (التربیة والترشيد)!‘۔

دوسری بات۔ استاذ کا ذکر چونکہ میں کر رہا ہوں اور میرا میدان دعوت و اعلام ہے، لہٰذا کوئی یہ نہ سمجھے کہ استاذ بس اعلام ؍میڈیا ہی سے وابستہ تھے اور اس بات کی وضاحت میں گاہے بگاہے کرتا رہتا ہوں۔ خیر دوسری بات یہ ہے کہ القاعدہ کے امرا و مشائخ خصوصاً اور ان کے مامورین عموماً اس بات کا اہتمام کرتے ہیں جب وہ اعلامی کام کریں تو نظر کو بے راہ نہ ہونے دیں کہ سامنے جو آئے اسے دیکھتے رہیں۔ مراد ہے کہ غیر محرم عورتوں کی تصویر کو دیکھنے کا مسئلہ۔ اعلام سے براہِ راست وابستہ دو مشائخ، ایک استاذ اور دوسرے میرے مرشد جنابِ اسامہ ابراہیم غوری اس معاملے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ اور یہ احتیاط خاص کر انہوں نے القاعدہ کی مرکزی قیادت کے ایک رکن شیخ ابو عبد الرحمٰن المغربی (حفظہ اللہ ورعاہ) جن کا ایک پچھلی نشست میں راقم شیخ مختار المغربی کے نام سے ذکر کر چکا ہے، سے سیکھی۔ شیخ ابو عبدالرحمٰن المغربی کو اگر کام کی غرض سے ایسی ویڈیوز دیکھنی پڑتیں جن میں غیر محرم عورتوں کی تصویر ہوتی تو اس کے لیے انہوں نے یہ اصول بنا رکھا تھا کہ ویڈیو کے اصل سائز سے اس کو نوّے فیصد کم کر کے یعنی صرف دس فیصد کر کے دیکھتے(یہ دس فیصد والا اصول 4K سائز کے لیے نہیں بلکہ 1K سے بھی کم کے لیے تھا)، مجھے مرشد نے جب شیخ ابو عبد الرحمٰن کی احتیاط کا بتایا تو اپنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے پوروں کو قریب کر کے بتایا کہ اتنے سائز میں اور انگلی اور انگوٹھے کے اس منظر کو جب میں یاد کرتا ہوں اور اپنی انگلی اور انگوٹھا اسی طرح رکھتا ہوں تو ان کے درمیان تقریباً اعشاریہ چھ (0.6) انچ کا فاصلہ تھا۔ یہ تو عمومی اصول ہوا اور مرشد نے بتایا کہ ’شیخ ابو عبد الرحمٰن ایسی ویڈیوز کو بوقتِ ضرورت جب خود دیکھتے تو عام ویڈیو پلیئر کے بجائے ویڈیو ایڈٹنگ کے ایک سافٹ وئیر ایڈوبی پریمیئر (Adobe Premiere ) میں دیکھتے ہیں‘، پھر مرشد نے اضافہ کیا کہ ’پریمیئر میں تو ویڈیو دیکھنے کا مزہ ویسے ہی خراب ہو جاتا ہے‘۔

اسی سے متصل آخری بات یہ ہے کہ اس طرح کی ویڈیوز دیکھنے کا اختیار بھی ہر کسی کو نہیں دیا جاتا۔ بلکہ اس کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں۔ ایک بار ہمارے ایک محبوب ساتھی جو اس وقت عالمی وار آن ٹیرر (جو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہنوز ہمارے خطے میں جاری ہے) کے کھاتے میں آئی ایس آئی کے زندان میں بند ہیں نے استاذ سے کہا کہ ’یہ عمومی ڈیٹا (جس میں نامحرم عورتیں اور موسیقی ہوتی اور ہمارے یہاں جسے خام مواد یا raw data کہا جاتا ہے) کو اعلام سے وابستہ ہر ساتھی کے لیے کیوں نہیں کھول دیتے تا کہ ساتھی اس سے آئیڈیاز لے سکیں اور دیگر تکنیکی امور وغیرہ میں استفادہ کر سکیں؟‘۔ اس پر استاذ نے فرمایا کہ’یہ دیگر ساتھی جو اعلام کا کام کر رہے ہیں، اس میں کیا حرام ہے؟‘۔ اس پر یہ ساتھی چونکے اور بولے ’حرام؟!‘۔ استاذ نے کہا ’جی…… حرام! نامحرم کی تصویر وغیرہ یہ حرام امور ہیں اور آپ جیسے بعض ساتھیوں کو جو یہ کام دیا گیا ہے کہ اس ڈیٹا کی چھانٹی کریں تو یہ یونہی ہے جیسے کانٹے دار جھاڑیوں سے مفید پھول چننا۔ اصل حکم تو اس کا حرام کا ہی ہے‘۔

پچھلی درج بات میں ایک اصول بیان ہو گیا۔ دوسرا اصول ہے کہ غیر شادی شدہ افراد ایسا ڈیٹا ہر گز نہ دیکھیں یعنی یہ کام ان کے حوالے نہ کیا جائےکہ مجردین کے قلب و نفس پر نامحرم کی تصویر کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

تیسرا ہمارے شیخِ مکرم استاد اسامہ محمود (حفظہ اللہ ورعاہ) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ساتھی ایک بار نا محرم کی تصویر دیکھ کر دوبارہ اس کو ریوائنڈ (rewind)کر کے دیکھے تو بس سمجھ جائیں کہ وہ اس کام کا اہل نہیں ہے۔

چوتھا میرے شہید مرشد جنابِ اسامہ ابراہیم غوری کہتے تھے کہ ’ایسا ڈیٹا کسی اور متعلقہ ساتھی کے ساتھ دیکھا جائے، کہ انسان دوسرے انسان کی موجودگی میں فطری طور پر زیادہ حیا کرتا ہے (گو کہ سب سے زیادہ حیا کرنے کے لیے حق دار ذات اللہ پاک کی ہے)‘۔

پانچواں ہمارے مرشد کہتے تھے کہ ’استغفار بہت کرنی چاہیے اور یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہر بار نا محرم کی تصویر دیکھ کر قلب پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے۔ جو استغفار کرے اور مزید نہ دیکھے تو یہ مٹ جاتا ہے اور جو دیکھتا جائے اور احتیاط نہ کرے تو یہ نقطہ پھیلتا جاتا ہے۔‘ اسی سے متصل شیخ اسامہ محمود حفظہ اللہ کی ایک اور بات یاد آ گئی ۔ ایک بار کچھ ساتھی امریکی فوج کے سوات میں جاری کچھ پراجیکٹس کی تصاویر صاف کر رہے تھے یعنی ان تصاویر میں عورتوں کی تصویریں تھیں تو ایسے میں شیخِ مکرم نے کہا کہ ’نامحرم عورت کی تصویر دیکھ کر نماز تین دن تک مزہ نہیں دیتی ‘۔1

ایک دن میں اسی انداز و ترتیب سے استاذ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ کوئی قاصد استاذ کے لیے کوئی پیغام کسی میموری کارڈ یا یو ایس بی فلیش میں لے کر آیا۔ استاذ نے خط کھولا، پھر ان کی طبیعت پر ایک بوجھ آ گیا اور حالت بدل گئی۔ پیچھے استاذ کے چھوٹے بھائی بیٹھے تھے، وہ بولے ’لگتا ہے کوئی بم پھٹ گیا ہے، خیریت ہے؟‘۔

استاذ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، لیکن انہوں نے بتایا کچھ نہیں۔ پھر یونہی کافی عرصہ گزر گیا، بلکہ دو تین ماہ گزر گئے اور میری استاذ کے پاس سے تشکیل بدل کر مرشد کے پاس ہو گئی، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہمارے ایک بڑے قیمتی ساتھی اور عسکری قائد فائز بھائی، جن کا اصل نام شاہد خان تھا کراچی میں ’راؤ انوار گینگ‘ کے ایک چھاپے میں شہید ہو گئے ہیں اور ان کی اہلیہ اندھیرے زندانوں میں دھکیل دی گئی ہیں۔ اس پر میرے ذہن میں وہ منظر چلنے لگا جب استاذ پریشان تھے اور شدتِ غم سے رو پڑے تھے۔

فائز بھائی سے راقم کی ایک ہی ملاقات ہے، لیکن ان کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا ہے۔ ارادہ ہے کہ کسی اور محفلِ استاذ میں اصحابِ استاذ کے ذکر میں ان پر بھی کچھ لکھوں کہ شہیدوں کا ذکر ایک بڑی سعادت ہے۔

ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ استاذ اپنی کرسی پر بیٹھے تھے اور میں ان کے پیچھے نیچے۔ کچھ پریشان تھا۔ استاذ نے دیکھا تو تو پوچھا کہ کیوں پریشان ہو۔ میں نے کہا کہ میری ایک بہن ہے مجھ سے بڑی۔ لیکن میری والدہ سے نہیں ہے۔ برطانیہ میں رہتی ہے، وہیں ساری زندگی اس نے گزاری ہے اور میرا کبھی اس سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ جب وہ مجھے دیکھے گی تو میری ہر بات مان لے گی۔ میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ اس سے رابطے کی کوئی سبیل پیدا کر سکوں۔بس اسی کا خیال کبھی کبھی پریشان کر دیتا ہے۔

یہ سن کر استاذ نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ ’میری بھی ایک بہن ہے‘۔ استاذ کو جو ساتھی جانتے ہیں وہ بخوبی واقف ہیں کہ استاذ چار بھائی ہیں، یعنی استاذ کے تین مزید بھائی ہیں۔ اس پر میں نے حیرت سے ان کو دیکھا۔ تو انہوں نے مسکرا کر سر ہلایا، ہونٹوں کو تھوڑا سا بھینچا پھر کہا کہ ’ہاں میری بھی ایک بہن ہے، لیکن وہ میری ہی بہن ہے باقی بھائیوں کی نہیں ہے ‘۔

میں نے پوچھا رضاعی بہن ہے؟

کہا ’ہاں رضاعی بہن ہے اور مجھے بہت محبوب ہے۔ شادی شدہ ہے (غالباً کہا) اور اس کے بچے ہیں، وہ اپنے گھر میں رہتی ہے، بہت عرصہ ہو گیا کہ اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے اور ہر بات مانتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ جب وہ مجھے ملے گی تو میں اس کے سامنے یہ ساری (جہاد کی) باتیں کروں گا اور وہ ساری مان جائے گی۔ لیکن رابطے کا کوئی وسیلہ نہیں‘۔

؏خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

اس مصرع کےظاہری الفاظ پر کوئی نہ جائے۔ پھر استاذ اور نالائق شاگرد کافی دیر تک بہن بھائیوں، بچپن، رشتے داروں وغیرہ کی باتیں کرتے رہے۔ استاذ نے گپ شپ کے آخر میں کہا کہ ’ایک کام ہم دونوں اپنی بہنوں کے لیے بہرحال و کیفیت کر سکتے ہیں اور وہ ہے دعا اور دعا کو کوئی چھوٹی چیز نہ سمجھے‘۔ غمگین تو میں تھا، استاذ کے دل کے تار بھی یوں چھیڑ دیے اور یوں کچھ ان کے دل کا حال معلوم ہو رہا اور ہم غریب الدیار، مہاجروں مسافروں ،بے چاروں و لاچاروں کے لیے حل بھی۔

انہی دنوں ایک شام استاذ نے مجھے ایک خاکی لفافہ اور کچھ دیگر خطوط و دستاویزات دیے کہ ان کو جلا دوں۔ استاذ اپنے خطوط وغیرہ یوں جلانے کو اپنے ساتھ موجود ساتھیوں کو دیتے رہتے تھے استاذ نے کبھی کوئی خاص ہدایت نہیں کی کہ ان کو کیسے جلانا ہے اور پڑھنا نہیں ہے۔ سبھی ساتھی پہلے سے اس امر کا خیال رکھتے تھے کہ یہ حکمِ شرعی ہے کہ کسی کے خطوط پڑھے نہ جائیں بلکہ بلا اجازت کسی کے خطوط پڑھنے کے بارے میں غالباً حدیث میں وعید آئی ہے کہ یوں کسی کے خط وغیرہ میں بلا اجازت جھانکنا ایسا ہے گویا جہنم کے کسی گڑھے میں جھانکنا، اللہ ہمیں ایسے گناہوں سے بچائے ۔ یہ بہر حال اصولی حکم ہے اور علمائے کرام سے سنا ہے کہ استثناءات یہاں بھی ہو سکتی ہیں ۔ ثانیاً یہ خطوط راز کی باتوں پر مبنی ہوتے ہیں لہٰذا ان کی حساسیت و حرمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ بہر کیف اس طرح کے کام میں یعنی خط تلف کرنے یا مراسل وغیرہ کی نا دانستہ نظر اگر خط وغیرہ پر پڑ جائے تو وہ تو خطا ہے اور معاف ہے لیکن قصداً آگے پڑھتے جانا یا پھر اگر کوئی راز ہو تو اس کو فاش کر دینا، بہرحال خیانت ہی ہو گی۔ میں نے سب کاغذات لکڑی جلانے کے لیے استعمال ہونے والے مٹی کے چولہے میں ڈال دیے، اب جب میں نے وہ خاکی لفافہ رکھا تو اس پر جو مخاطب کے لیے نام یا پتے وغیرہ کی جگہ ہوتی ہے وہاں لکھا تھا

أحمد سراقۃ

عضو مجلس الشوری

اس سے ظاہر ہوا کہ استاذ مرکزی القاعدہ کی شوریٰ کے رکن بھی تھے، عرب ساتھیوں کے یہاں استاذ کا رمزی نام سراقہ معروف تھا اور استاذ جب میدانِ جہاد میں پہنچے تو انہوں نے یہی نام اپنے لیے تجویز کیا تھا۔ بہر کیف میں نے جلدی سے سر جھٹکا اور اس خیال کو بھی ’تقریباً‘ اس لفافے کے ساتھ جلا دیا اور کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ پھر بہت عرصے بعد ایک دفعہ میں نے مرشد سے پوچھا کہ کیا فاروق بھائی القاعدہ کی مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں؟ مرشد نے جواباً کہا کہ ’ایک بار شیخ ابو یحییٰ (اللیبی) نے کہا تھا کہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فاروق بھائی کو بھی مرکزی جماعت کے بعض مشوروں میں شامل کیا جائے۔ فاروق بھائی شوریٰ کے رکن نہیں‘۔ اس پر میں خاموش ہو گیا اور پھر واقعتاً اس خیال کو میں نے جلا دیا، یہاں تک کے استاذ شہید ہو گئے۔ میرا خیال ہے کہ یا تو ہمارے مرشد کو بھی واقعتاً اس وقت استاذ کے رکنِ شوریٰ ہونے کی خبر نہیں تھی یا راز کی حفاظت میں انہوں نے بات پھیر دی۔ بہر کیف بعد میں تو بالیقین مرشد کو اس کا علم تھا۔ استاذ کی شہادت کے بعد میں نے اس واقعے کا ذکر مرشد سے کیا اور پوچھا کہ ’جماعت القاعدہ برِّ صغیر کی تشکیل کے بعد بھی کیا فاروق بھائی القاعدہ کی مرکزی شوریٰ کے رکن تھے؟‘، تو مرشد کا جواب خزانے سے پُر تھا۔ مرشد نے کہا ’القاعدہ برِّ صغیر کے قیام کے بعد ایک بار مشائخِ جماعت الأم (یعنی مرکزی القاعدہ) نے فاروق بھائی کو مجلسِ شوریٰ میں بلایا، لیکن فاروق بھائی نے جواب بھجوایا کہ میں آپ حضرات کا مامور تو ہوں ہی، لیکن اب میں آپ حضرات کا مامور مولانا عاصم عمر کے واسطے سے بھی ہوں، لہٰذا اچھا ہو گا کہ مولانا امیر صاحب کے واسطے سے بھی مجھے پیغام بھیج دیا جائے تا کہ مولانا امیر صاحب خدا نخواستہ اس بات کو محسوس نہ کریں، اور ہم میں سے کسی کے دل میں کوئی نامناسب خیال پیدا نہ ہو‘۔

اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ مرشد نے مزید کچھ بتایا یا نہیں۔ البتہ استاذ کے اس عمل میں جیسا کہ پہلے لکھا بہت سے خزانے چھپے ہیں۔ خزانے تلاشنے والے تو بہت سا کچھ تلاش اس سے کر لیں گے، لیکن مجھ جیسے ظاہر بین کے سامنے بھی ایک تو استاذ کی تواضع، قلب کا اجلا پن آتا ہے۔ پھر ساتھ ہی جاہ و منصب سے دوری اور اطاعتِ امیر کہ مولانا میرے امیر ہیں تو کوئی کام میں ان کے نظم سے باہر نہ کروں۔

ابھی کی محفلِ استاذ یہیں روکتا ہوں کہ وقت کا دامن تنگ ہے۔ اللہ پاک مجھے خیر کے کاموں کی توفیق عنایت فرمائیں، استاذ کا اجر تا قیامت جاری فرمائیں اور فیض و فکر اور نور و نظرِ استاذ عام فرمائیں۔

خدایا! آرزو میری یہی ہے
مِرا نورِ بصیرت عام کر دے

وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.

وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.

(جاری ہے، ان شاء اللہ)


1 یہاں سوات میں امریکی فوج کے منصوبے کا ذکر آیا ہے تو اس کی وضاحت لازمی ہے۔ راقم جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہے تو اس وقت بھی ہمارے پاس وہ تصاویر موجود ہیں جو اسی منصوبے کا جائزہ لیتے اس وقت کے امریکی فوجی چیف جنرل مائیک مولن کے دورۂ سوات کی جھلکیاں ہیں۔ یہ ڈیٹا ہمیں پاکستانی فوج اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ ساتھیوں نے بھیجا تھا۔ سوات میں امریکی ایما پر پاک فوج نے (کم از کم )دو ادارے قائم کیے ایک سباؤون کے نام سے جس میں نوجوان مجاہدین کی برین واشنگ کی جاتی تھی اور دوسرا ’اسلامک یونیورسٹی آف سوات‘۔ ان دونوں اداروں کو امریکی برانڈڈ، رینڈ کارپوریشن کے اسلام کی ترویج کے لیے قائم کیا گیا اور ان اداروں کا دورہ ذاتی طور پر امریکی افواج کا چیف مائیک مولن اور دیگر سہ ستارہ امریکی فوجی افسر، جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

Previous Post

امیر المومنین کا دورہ اور مسئولین و مجاہدین کو ہدایات

Next Post

نظریاتی جنگیں | گیارہویں قسط

Related Posts

مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | بتیسویں نشست

26 ستمبر 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | اکتیسویں نشست

17 اگست 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | تیسویں نشست

14 جولائی 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست

15 نومبر 2024
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | اٹھائیسویں نشست

28 ستمبر 2023
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | ستائیسویں نشست

23 مئی 2023
Next Post

نظریاتی جنگیں | گیارہویں قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version