نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

سحر ہونے کو ہے | قسط نمبر: ۱۴

بنتِ طبیب by بنتِ طبیب
23 اپریل 2022
in مارچ و اپریل 2022, ناول و افسانے
0

تین دن کے اندر اندر وہ سب پاکستان، افغانستان کے بارڈر کے قریب شفٹ ہوگئے تھے۔ یہ مجاہدین کا علاقہ تھا اور چھاپے کے لحاظ سے خطرات کم تھے۔ یہاں کی زندگی نور کے لیے کافی مختلف تھی۔ مٹی کے گھر تھے۔ باتھ روم، غسل خانے سب کچھ بہت مختلف تھے۔ کچن بھی کمروں کے اندر تھا۔ برتن اور کپڑے قریبی چشمے پر جا کر دھونے پڑتے تھے۔

جویریہ کی آنکھوں کے آپریشن کے حوالے سے اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں کچھ امید بندھی تھی مگر اب وہ لوگ وہاں سے بہت دور آگئے تھے۔ عبادہ کا خیال تھا کہ چھ سات ماہ گزرنے کے بعد وہ مجاہدین کے ہی کسی شہری علاقے میں کوشش کرکے دیکھیں گے۔

مصعب، ابوبکر اور علی بھی ان کے ساتھ ہی شفٹ ہوگئے تھے۔ اور سب سے حیرت انگیز بات یہ کہ ارمغان بھی اکثر و بیشتر یہاں کا چکر لگاتا رہتا تھا مگر زیادہ تر وہ اسلام آباد میں ہی رہتا تھا۔ عبادہ کے بقول وہ توبہ کرچکا تھا اور جہاد کررہا تھا۔

ابوبکر کی بھی نسبت طے ہوگئی تھی۔ علی کی شادی جلد متوقع تھی اور جلد ہی اس نے منال کو لے کر ادھر آجانا تھا۔ مصعب کی شادی کے لیے جویریہ کے آپریشن کا انتظار تھا۔

٭٭٭٭٭

’’اللہ!……بولو اللہ‘‘ نور مریم کو گود میں لیے بول رہی تھی مگر وہ مسلسل گود سے اترنے پر مصر تھی۔ آخر تنگ آکر نور نے اس کو نیچے اتار دیا۔ وہ گھٹنوں کے بل چلتی عبادہ کی طرف بڑھی۔ عبادہ بستر پر لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا، اس لیے اس کو دیکھ نہ پایا۔ وہ دھپ سے اس کے پیٹ پر آکر گر گئی۔

’’ال……ال……اللہ!‘‘ مریم عبادہ کے سینے پر چڑھ کر توتلی زبان میں ہکلائی۔

’’نور! یہ اللہ بولی ہے؟‘‘ عبادہ یک دم خوش ہوکر بولا۔ نور بھی مسکرا کر اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔

’’میلی بیتی اللہ بولی ہے؟‘‘ اس نے آگے بڑھ کر اس کے نرم و ملائم گال چوم لیے۔

مریم نو ماہ کی ہونے والی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، وہ مزید سے مزید پیاری ہوتی جارہی تھی۔ ہلکے ہلکے گھنگریالے بال کانوں سے نیچے تک آرہے تھے۔ بڑی بڑی خوبصورت گڑیا جیسی آنکھیں۔ چھوٹی سی نازک سی ناک اور بھرے بھرے سے ہونٹ۔ عبادہ نے خوش ہوکر بے اختیار اس کو ہوا میں اچھالا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

’’اور اچھالوں؟‘‘

’’اول اول‘‘ وہ اپنی توتلی زبان میں مزید کی فرمائش کرنے لگی۔

’’عبادہ! سنا؟‘‘ نور نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔

’’اور بولی ہے ناں؟‘‘ عبادہ نے بھی محبت بھری نظروں سے مریم کی جانب دیکھا۔

مریم اب عبادہ کے اوپر سے اتر کر پیچھے ہونے لگی، پھر زمین کے سہارے سے کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگی۔

’’ماشاءاللہ!‘‘ نور اور عبادہ دونوں نے اس کی ہمت بندھائی۔ مگر چند سیکنڈ کھڑے رہ کر وہ دھپ سے گر گئی۔

’’اب چار سیکنڈ کھڑی رہی ہے!‘‘ نور نے خوشی سے عبادہ کی طرف دیکھا۔ عبادہ نے آگے بڑھ کر اس کو گود میں لے لیا اور اس کے گال چوم کر اپنے سے چمٹا لیا۔

’’اللہ تعالیٰ میری بیٹی کو اپنا خاص بندہ بنائے!‘‘

نور مسکرا دی اور عبادہ کو مریم کو گدگدی کرتا دیکھنے لگی۔

٭٭٭٭٭

ماموں……!!!‘‘ مصعب کے گھر میں داخل ہوتے ہی مریم کی چلچلاتی ہوئی آواز نے اس کا استقبال کیا اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔

’’السلام علیکم! کیا حال ہے؟‘‘ اس نے فوراً اس کو گود میں اٹھا لیا۔ ’’اماں سے پوچھ کر آؤ کہ میں تمہیں سیر کروانے لے جاؤں؟‘‘ مصعب نے اس کو نیچے اتارتے ہوئے کہا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اندر چلی گئی۔ ایک منٹ بعد ہی نور بھی آگئی۔

’’السلام علیکم! تم کب آئے؟‘‘ نور نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔

’’میں ابھی ابھی آیا ہوں…… امینہ خالہ کہاں ہیں؟ مریم کو اپنے ساتھ لے جاؤں؟‘‘

’’لے جاؤ!…… امینہ خالہ اور جویریہ پڑوس میں انصار کی طرف گئی ہیں!‘‘ نور بولی تو مصعب خوشی خوشی مریم کو لے کر چلا گیا۔

آدھے گھنٹے بعد مریم لفافوں سے لدی پھندی روتی ہوئی آگئی۔ نور پریشان ہو کر باہر کو لپکی۔ مصعب غصے سے اس کو گود میں لیے چلا آرہا تھا۔

’’لو سنبھالو اپنی بیٹی کو! دنیا جہاں کی چیزیں لے دیں…… آخر میں کہنے لگی کہ گڑیا لینی ہے…… میں نے نہیں لے کر دی…… بیس منٹ سے رو رہی ہے۔‘‘

نور نے تنبیہی نگاہوں سے روتی ہوئی مریم کی طرف دیکھا۔

’’مریم! چپ ہوجاؤ!‘‘ اس نے مریم کو گھور کر دیکھا۔ ’’اللہ تعالیٰ کو گڑیا نہیں اچھی لگتی!…… ضد گندے بچے کرتے ہیں! اللہ تعالیٰ کو گندے بچے اچھے نہیں لگتے!‘‘ نور نے اس کے قریب پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے کہا تو یکایک اس کے رونے کو بریک لگ گئی اور وہ ٹکر ٹکر اس کو دیکھنے لگی۔

’’گندے بچے جنت میں نہیں جائیں گے!‘‘ وہ آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولی۔ مصعب بے ساختہ ہنس دیا اور اس کو گود میں لے کر زور سے بھینچ کر پیار کیا۔

’’ماموں! دمیۃ نہیں…… کرَۃ (گیند) چاہیے!‘‘ ماموں کا موڈ اچھا دیکھ کر اس نے فوراً اگلا مطالبہ کردیا۔ مصعب اور نور کھلکھلا کر ہنس دیے۔

٭٭٭٭٭

آج اسلام آباد میں جویریہ کا آپریشن تھا۔ نور اور امینہ خالہ ویٹنگ روم میں بیٹھی تھیں۔ عبادہ خطرے کی وجہ سے اپنے گھر میں ہی تھا البتہ مصعب امینہ خالہ اور نور کے ساتھ آیا ہوا تھا۔

تین گھنٹے کے بعد آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر صاحبان باہر نکلے۔ ان سب کے دل انجانے خدشے سے دھڑکنے لگے۔

’’الحمدللہ! کامیاب آپریشن ہوا ہے!…… کچھ دنوں کے اندر اندر مریضہ عینک کی مدد سے بالکل ٹھیک دیکھنے لگیں گی!‘‘

نور یہ سنتے ہی سجدے میں گر گئی۔ امینہ خالہ ڈاکٹر کو دعائیں دینے لگیں اور مصعب ڈاکٹر کی ہدایت کردہ دوائیں اور عینک کا بندوبست کرنے چلا گیا۔

٭٭٭٭٭

’’فرانس نے ایک بار پھر حضرت محمدﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے ہیں!‘‘

’’پوری مسلم دنیا میں احتجاج!‘‘

’’کارٹونسٹ مازکیجان کو لاحق خطرات کی بنا پر ان کے گھر پر سخت سیکیورٹی!‘‘

ریڈیو پر گونجنے والی آواز سے مرکز میں موجود تمام مجاہدین غصے سے بھپر گئے۔

’’یہ خبیث!…… مسلمانوں کی غیرت کو اور کتنا آزمانا چاہتے ہیں؟‘‘ ابوبکر غصے سے دھاڑا۔

’’ان کو جب تک کوئی مزہ نہیں چکھائے گا…… ان کو آرام نہیں آئے گا!‘‘ عبادہ بھی غصے سے بولا۔

سب کے کھانا کھاتے ہاتھ رک گئے تھے۔ بے دلی سے کسی کا بھی مزید کھانا کھانے کا دل نہ کیا اور ایک ساتھی دسترخوان سمیٹنے لگا۔

٭٭٭٭٭

حالات مجاہدین کے لیے بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے تھے اور پاکستان کے مزید سے مزید علاقے فوج کے ہاتھ سے نکل رہے تھے۔ اس لیے عبادہ اب پھر شہری علاقوں میں آگیا تھا۔ مصعب اور علی کی شادی ہو چکی تھی۔ ابوبکر کی شادی بھی جلد متوقع تھی۔

اللہ تعالیٰ نے نور کو ایک اور بیٹا عطا فرمایا تھا۔ مریم تین سال کی ہورہی تھی جبکہ مصطفیٰ ابھی سات ماہ کا ہی تھا۔

ابوبکر کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں مگر ابوبکر خود کسی اور ہی تیاری میں تھا۔ وہ اکثر اوقات عبادہ اور ارمغان کے ساتھ غائب رہتا تھا۔ نور اس کی سرگرمیوں سے بے خبر اس کی شادی کی تیاریوں میں خوشی خوشی مصروف تھی۔

٭٭٭٭٭

گھر میں ہر طرف خوشی ہی خوشی تھی۔ نور نے بھاری کامدار جوڑا پہنا ہوا تھا۔ گھر میں مہمان زیادہ تھے۔ موحد چچا، تائی جان وغیرہ اور عائشہ چچی کے ننھیال والے بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ سب کو سنبھالتی پھر رہی تھی۔ وہ ایک ہفتے سے مصعب اور ابوبکر کے گھر آئی ہوئی تھی۔

’’اماں! اماں!…… موسیٰ مجھے میرے لَعب (کھلونے) نہیں دے رہا!…… ارِیدَ لعْبَتِی! (مجھے میرے کھلونے چاہیے)‘‘ مریم نے اس کا پلو کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔

’’اچھا! اچھا! اِصبِرِی! (صبر کرو) میں ابھی دیکھتی ہوں…… دوپٹہ تو چھوڑ دو!‘‘ اس نے اپنا دوپٹہ صحیح کرتے ہوئے اس کو پیار کرکے ٹرخا دیا۔

اتنے میں اندر کے کمرے سے کسی بچے کی رونے کی آواز سنائی دی۔ کمرے کا دروازہ کھلا، مصعب نے گود میں مصطفیٰ کو اٹھایا ہوا تھا۔

نور نے فوراً آگے بڑھ کر روتا ہوا مصطفیٰ گود میں اٹھا لیا۔

’’جیا کہاں ہے؟‘‘ مصعب نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔ اس نے کچن کی طرف اشارہ کردیا۔ وہ کچن کی طرف بڑھ گیا۔

اچانک گھر میں اونچی آواز سے عبادہ کے سلام کرنے کی آواز گونجی۔

’’بابا آگئے! بابا آگئے!‘‘ مریم نجانے کس کونے سے نمودار ہوئی اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ علی کا موسیٰ اور بسام بھائی کی مناحل بھی اس کے پیچھے پیچھے عبادہ کے استقبال کو آگئے تھے۔

’’السلام علیکم! ملکہ عالیہ!‘‘ عبادہ نے بمشکل بچوں سے جان چھڑوا کر اس کی جانب دیکھا۔ مصطفیٰ بھی نور کی گود سے باہر کو گر رہا تھا۔ ’’اوہ ہاں! آپ بھی تو شہزادہ محترم!‘‘

اس نے ہنس کر مصطفیٰ کو گود میں اٹھا کر بھینچ کر پیار کیا۔

’’جلدی کریں!…… چچا وغیرہ آپ کا اور امینہ خالہ کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ نور اس کے سلام کا جواب دے کر تیزی سے بولی۔

عبادہ اور مصعب ابوبکر کو مردان خانے میں لے گئے۔

’’چل اندر گھس!…… لڑکیوں کی طرح شرما رہا ہے!‘‘ مصعب نے ابوبکر کو بیٹھک کے دروازے پر پہنچ کر اندر دھکیلا۔

نور اور جویریہ بھی اندر عورتوں کے پاس کمرے میں آگئیں۔

کمرے کے وسط میں گدے پر مؤمنہ دلہن کے روپ میں بیٹھی تھی۔ مریم، موسیٰ اور مناحل اس کے گرد طواف کر رہے تھے اور حیران ہو ہو کر اس کے سراپے کو دیکھ رہے تھے…… یہ آج ان کی خالہ کس حلیے میں تھیں۔ سمیہ منال سے باہر جانے کے لیے جھگڑ رہی تھی، اس کو اندر کی چیزوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ موسیٰ ابھی ابھی مردان خانے سے اپنے بابا کے پاس سے ہوکر آیا تھا اور اب مؤمنہ کے اوپر چڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ منال نے بمشکل اس کو قابو کیا ہوا تھا۔

تھوڑی دیر میں ہی ایجاب و قبول ہوا اور نور مؤمنہ سے لپٹ کر خوشی سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مؤمنہ نور کی بھابھی بن گئی تھی۔

٭٭٭٭٭

ماموں! ماموں!…… اماں ماموں آگئے!‘‘ مریم، موسیٰ اور سمیہ اچھلتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ اندر بیٹھی مؤمنہ بے ساختہ اکڑ گئی۔ نور نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔

’’مؤمنہ! ابوبکر آگیا ہے!……‘‘ اس نے مصطفیٰ کو اٹھایا اور باہر کو لپکی۔ اتنے میں ابوبکر اندر داخل ہوگیا۔ سب بچے ماموں سے لپٹ گئے۔

’’بچو! یہ کیا تماشہ ہے؟‘‘ وہ غصے سے بولی۔ ’’ابوبکر تم بیٹھو!…… مریم! چلو تمہارے سونے کا وقت ہوگیا ہے…… موسیٰ اور سمیہ! اماں تم لوگوں کو ڈھونڈ رہی ہیں، چلو میرے ساتھ!‘‘

وہ تینوں کو بمشکل دھکیلتے ہوئے باہر نکل آئی۔ منال کمرے کے پاس ہی کھڑی تھی۔ وہ اس کو یوں چاروں کے ساتھ دھینگا مشتی کرتا دیکھ کر ہنس دی اور آگے بڑھ کر سمیہ اور موسیٰ کو لے لیا۔

٭٭٭٭٭

نور نے تھک ہار کر بستر میں گھس کر رضائی اپنے اوپر کھینچی۔ مصطفیٰ اور مریم پہلے ہی گہری نیند سورہے تھے۔ اس نے پیار سے دونوں کے معصوم چہروں کی طرف دیکھا۔ دونوں کو ایک ایک بوسہ دیا اور لحاف ان کے اوپر کرکے خود لیٹ گئی۔ عبادہ نجانے الماری میں سے کیا تلاش کررہا تھا۔

پرسوں ہی وہ ابوبکر کے ولیمے سے فارغ ہوئے تھے۔ آج شام تک سب مہمان چلے گئے تھے مگر نور بہت تھک گئی تھی۔ امینہ خالہ اپنے کمرے میں تھیں۔ مصروفیت کی وجہ سے پچھلے دو دنوں میں وہ ان سے صحیح طرح مل بھی نہ سکی تھی۔ موحد چچا بمع اہل و عیال واپس چلے گئے تھے۔ علی اور منال بھی اپنے گھر چلے گئے تھے۔ ابوبکر اور مصعب تو اسی محلے میں رہتے تھے۔ مصعب بھی آج ہی اپنے کام کے سلسلے میں چلا گیا تھا۔

’’نور! ڈرون بہت زیادہ ہے! میں رات آج باہر گزاروں گا!‘‘ عبادہ الماری سے جیکٹ نکال کر پہنتے ہوئے بولا۔

’’اف! عبادہ! اتنی رات ہے اور ٹھنڈ بھی ہے!…… کہاں جائیں گے اس وقت؟ پورا شہر تو سورہا ہوگا! ڈرون کوئی اتنا زیادہ تو نہیں!‘‘ نور نے نیند سے بند ہوتی آنکھیں بمشکل کھولیں۔ عبادہ بھی ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ وہ صحیح کہہ رہی تھی، اتنی دیر سے وہ کس کے گھر جائے گا اور ٹھنڈ اتنی تھی کہ وہ کھلی فضا میں رات نہیں گزار سکتا تھا۔

’’ٹھہرو…… پہلے میں ڈرون دیکھ کر آؤں کہ ہے یا نہیں!‘‘ وہ بولا مگر نور نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سو چکی تھی۔ وہ خاموشی سے باہر نکل گیا۔ ڈرون واقعی جاچکا تھا۔ وہ مطمئن ہوکر کمرے میں آکر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔ پورے گھر میں گہری خاموشی چھاگئی۔

٭٭٭٭٭

ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ گھر ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ فضا میں ڈرون کی مکروہ آواز مسلسل گونج رہی تھی۔ لوگ چیختے چلاتے ملبہ کھودنے کی کوشش کررہے تھے۔

’’عبادہ!…… عبادہ!‘‘ نور مریم کو کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے چیخ رہی تھی۔ عبادہ دوڑ کر اس کی طرف آیا۔ گھر کے ایک حصے میں آگ لگ چکی تھی اور وہ دونوں ملبے کے نیچے دبی ہوئی تھیں۔

’’نور!…… نور!…… تم کہاں ہو؟‘‘ وہ دیوانوں کی طرح چلایا۔

نور مریم کو نکالنے کی کوشش کر رہی تھی مگر ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ ملبے کے ڈھیر میں سے مریم کا آدھا دھڑ نظر آرہا تھا۔ امینہ خالہ ایک سایڈ پر مصطفیٰ کو گود میں لیے چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

رات کے بارہ بجے کے قریب کہیں میزائل گرنے سے ان سب کی آنکھ کھلی۔

’’عبادہ! آپ ماما کو دیکھیں! میں بچوں کو لے کر آتی ہوں!‘‘ وہ مریم کو کمبل میں لپیٹتے ہوئے بولی۔ وہ اب تین سال کی ہوچکی تھی اور کمبل میں لپٹنے پر بالکل تیار نہ تھی۔ عبادہ نے فکرمندی سے اس کی جانب دیکھ کر کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ایک میزائل گھر کے قریب آکر پھٹا۔ فضا میں ڈرون اور ہیلی کاپٹر کی ملی جلی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

’’عبادہ! آپ مصطفیٰ کو لے کر بھاگیں!…… ماما کو سنبھالیں!‘‘ وہ کہتے ہوئے باہر کو بھاگی۔ عبادہ بھی مصطفیٰ کو اٹھا کر باہر بھاگا اور امینہ خالہ کو باہر نکالنے لگا۔

نور بھی اس کے پیچھے نکل ہی رہی تھی کہ شیلف پر پڑا مریم کا فیڈر اور مصطفیٰ کا پیمپر اٹھانے کے لیے رکی۔ اسی لمحے ایک میزائل گھر کے دروازے پر آگرا۔

دھم! دھم! گھر ملبے کا ڈھیر بن گیا اور ایک حصے میں آگ لگ گئی۔

عبادہ، امینہ خالہ اور مصطفیٰ جھٹکے کی شدت سے دور جاگرے۔ نور اور مریم ملبے تلے دب گئیں۔ مریم کے رونے کی آواز پر نور نے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کی تو آدھا دھڑ نکل آیا۔ مگر وہ بری طرح دبی ہوئی تھی۔ اندھیرا ہر سو چھایا ہوا تھا۔ آگ کی وجہ سے کچھ کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ آس پڑوس کے لوگ مدد کو آگئے اور بالٹیاں بھر بھر کر آگ بجھانے لگے۔ عبادہ بھی دیوانوں کی طرح ملبے پر کدال مار رہا تھا۔

’’عبادہ!……کیا ہوا ہے؟‘‘ دور سے ابوبکر کے چلانے کی آواز سنائی دی۔

’’ابوبکر! نور اور مریم…… اندر دب گئی ہیں!‘‘ عبادہ کی آواز میں لرزش تھی۔

’’نور! کہاں ہو؟ نور!‘‘ ابوبکر کے چلانے کی آواز سنائی دی۔

’’اس طرف ہوں!‘‘ نور چیخ کر بولی۔

’’عبادہ! تم جاؤ! ہم لوگ نکال لیں گے…… دیکھو ڈرون اور ہیلی کتنا ہے!‘‘ ابوبکر نے فکرمندی سے کہا مگر وہ کسی صورت یہاں سے ہٹنے پر تیار نہیں تھا۔

’’تو اچھا ہے ناں!…… اگر ان دونوں کو کچھ ہوگیا تو میں بھی ساتھ ہی شہید ہوجاؤں گا!‘‘ وہ اپنے حواس میں نہیں تھا۔ ’’نور!…… مریم؟…… مریم کی آواز نہیں آرہی نور!‘‘

نور بے بس تھی، کیا کر سکتی تھی۔ آخر مریم کا جسم باہر نکل آیا۔

’’عبادہ! اس کو مجھے دو! تم نور کو نکالو!‘‘ ابوبکر نے مریم کو عبادہ کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا اور ایمبولینس کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس کا سر سائڈ سے پچکا ہوا تھا اور خون سے تربتر تھا۔ اتنے میں نور بھی نکل آئی۔

’’مریم کہاں ہے؟‘‘ اس نے ملبے سے نکلتے ہی سوال کیا۔ اس کی ٹانگ پر چوٹ آئی تھی، اس لیے لڑکھڑا رہی تھی۔ عبادہ نے اس کو سہارا دیا۔

’’ٹو…نو…ٹو…نو…‘‘ اچانک فضا میں ایمبولینس کی آواز سنائی دی۔

چلو! ابوبکر مریم کو لے گیا ہے! ہم بھی چلتے ہیں!‘‘ اس نے نور کو سہارا دے کر ایمبولینس میں بٹھایا اور امینہ خالہ کی طرف بڑھ گیا۔

٭٭٭٭٭

مریم کی لرزا خیز چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ عبادہ، نور اور امینہ خالہ باہر کمرے میں بیٹھے تھے مگر ان کو اس کی چیخوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ نور نے عبادہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ امینہ خالہ مصلے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔

ڈاکٹر صاحب مریم کا سٹریچر باہر لے آئے۔ وہ ابھی بھی خون میں لت پت تھی۔ نور اور عبادہ فوراً اٹھ کر اس کی طرف بڑھے۔ عبادہ نے آگے بڑھ کر بے چینی سے اپنی بچی کا گال چوما۔ نور بھی اس کو چھو کر دیکھنے لگی۔ اس کی نبض چل رہی تھی۔

’’ڈاکٹر صاحب!…… مریم کیسی ہے؟‘‘ نور نے نم آنکھوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔

’’ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گی!…… کچھ پین کلرز اور اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب خود بھی پریشان لگ رہے تھے۔ ’’دعا کریں کہ مل جائیں…… ورنہ امریکہ کی طرف سے پابندی کی وجہ سے دوائیں بھی نہیں مل رہیں!‘‘

وہ سٹریچر کمرے میں لے آئے اور مریم کو ہاسپیٹل بیڈ پر ڈال دیا۔

اتنے میں ابو بکر منہ لٹکائے آگیا۔

’’ڈاکٹر صاحب!…… نہ دوائیں ملیں، نہ خون کا بندوبست ہوسکا!‘‘

’’آپ لوگوں میں سے کسی کا بلَڈ گروپ او پازیٹیو (O+) ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے پُرامید نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا۔

’’نہیں! ہم میں میرے بھائی مصعب کا ہے مگر وہ ابھی کہیں کام سے گیا ہوا ہے اور ہم سے رابطے میں نہیں ہے!‘‘ ابوبکر مایوسی سے بولا۔ ڈاکٹر صاحب نے نظریں جھکا لیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

’’اللہ تعالیٰ ان کم بختوں کو غارت کرے! اللہ کرے ان کے بچے بھی یوں ہی زخموں سے بے تاب اپنے والدین کے سامنے بے بسی کی موت مریں!‘‘ وہ غصے سے بڑبڑائے۔ ایک آنسو ان کی آنکھوں سے پھسل کر گال تک آگیا۔

ابوبکر بوجھل دل لیے وہاں سے ہٹ گیا اور مریم کے بیڈ کے پاس آگیا۔ وہ زخموں سے بھری ہوئی دو گھنٹے پہلے والی پری کہیں گم ہوگئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’ابوبکر! تم ماما کو لے کر گھر چلے جاؤ!‘‘ عبادہ نے ابوبکر کی طرف دیکھا۔ ’’میں اور نور ادھر ہی ہیں…… ماما! آپ مصطفیٰ کو بھی لے جائیں۔‘‘ ابوبکر سر ہلا کر کھڑا رہا۔ امینہ خالہ مصطفیٰ کو لے کر اٹھ گئیں۔

٭٭٭٭٭

مریم کے پاس صرف نور اور عبادہ رہ گئے تھے۔ مریم نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔ کبھی چیخیں مارنے لگتی، کبھی چپ ہوجاتی۔ کبھی ٹانگیں چلانے لگ جاتی۔ کبھی آنکھیں کھول کر ان دونوں کو دیکھتی رہتی۔ اس کے دونوں بازوؤں پر ڈرِپیں لگی ہوئی تھیں۔ سر پٹیوں سے جکڑا ہوا تھا۔

’’عبادہ!…… مریم بچ جائے گی؟‘‘ نور کی آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ عبادہ کے کندھے پر سر ٹکا کر بیٹھی تھی۔

’’اللہ سے دعا کرو!‘‘ عبادہ کی آواز بھاری ہوگئی۔ نور نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تو وہ ہلکا سا مسکرایا۔ دو آنسو اس کے گال پر بہہ گئے۔

’’ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ میری بھی تو اولاد ہے ناں!‘‘ نور نے فوراً چہرہ موڑ لیا۔

فجر کی اذان ہوچکی تھی۔ عبادہ اٹھ گیا اور ہسپتال کی مسجد میں نماز ادا کرنے چلا گیا۔ نور نے بھی وضو کرکے نیت باندھ لی۔ سلام پھیر کر وہ جائے نماز پر ہی بیٹھی تھی کہ مریم کے رونے کی آواز نے اس کو چونکا دیا۔ وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور مریم کے پاس آگئی۔ اب وہ پھر نڈھال ہوگئی تھی۔ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔ اس کو گڑبڑ سی محسوس ہوئی تو پاس کھڑی نرس کو آواز دی۔ نرس معاملے کی نزاکت سمجھ کر ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی۔ فوراً دو ڈاکٹر اور ان کا عملہ دوڑا آیا اور مریم پر جھک گیا۔ اس کا سانس کافی رک رک کر آرہا تھا۔ نور کونے میں کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی۔ اسی وقت وارڈ کے دروازے سے اس کو عبادہ آتا نظر آیا۔ وہ حیرت سے مریم ہی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر نور پر پڑی تو اس کی طرف بڑھا۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ وہ رو کر آیا ہے۔

’’نور! کیا ہوا ہے؟‘‘ نور آگے بڑھی مگر وہیں ڈھے گئی۔ عبادہ نے آگے بڑھ کر اس کو سہارا دیا۔ وہ اس کے سینے سے لگ کر رو پڑی۔ پھر چہرہ اٹھا کر مریم کی طرف دیکھا۔ عبادہ کی نظر بھی مریم کی طرف اٹھ گئی اور اسی لمحے مریم نے آخری سانس لیا اور اس کی آنکھیں ساکت ہوگئیں۔ نور اور عبادہ کو لگا کہ ان دونوں کی روحیں بھی ساتھ پرواز کر گئی ہوں۔

نور وہیں گر گئی اور ہسپتال کے فرش پر ہی بیٹھ گئی۔ عبادہ بھی اس کو سنبھال نہ سکا اور دیوار سے سر ٹکا کر کھڑا ہوگیا۔ پھر دیوار پر بے بسی سے دو مکے مارے اور اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔ اس نے اپنی آنکھیں رگڑیں مگر آنسوؤں نے تھمنے سے انکار کردیا۔ نجانے ڈاکٹر صاحب کیا کیا کہہ رہے تھے، مگر اس وقت تمام باتیں دونوں کی سمجھ سے بالاتر تھیں۔

’’نور؟‘‘ آخر کافی دیر کے بعد عبادہ کو ہوش آیا تو اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ زمین پر بیٹھی ہونقوں کی طرح مریم کے بیڈ کو دیکھ رہی تھی۔ ’’نور!‘‘ اس نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما اور زمین پر اس کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا۔ نور نے خالی خالی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا جنت کا پھول اپنی ازلی آرام گاہ کی طرف چلا گیا تھا۔

’’عبادہ! مریم ہمیں چھوڑ گئی! ہمیں اکیلا کر گئی!‘‘ وہ اس کی آغوش میں رونے لگی۔ عبادہ کی داڑھی اپنے آنسوؤں سے اور قمیص نور کے آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی۔ تھوڑی دیر وہ یوں ہی بیٹھے رہے۔ آخر وہ بمشکل نور کو سہارا دے کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’نور! چلو گھر چلیں! ابھی سب گھر والوں کو بھی ہم ہی نے حوصلہ دینا ہے!‘‘ عبادہ دھیرے سے آنسوؤں کے درمیان بولا تو نور نے مریم کی طرف دیکھا اور پھر دوڑ کر اس سے لپٹ گئی اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ عبادہ بھی اس کو بے بسی سے دیکھتا رہا۔ پھر وہ بیڈ کے دوسری جانب بیٹھ گیا اور مریم کے ننھے ننھے بے جان ہاتھوں کو اپنے چہرے سے لگا کر بلک بلک کر رونے لگا۔

ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، روح کا حصہ، جسم کا ٹکڑا…… ان سے جدا ہوگیا تھا۔

٭٭٭٭٭

گاڑی گھر کے سامنے رک گئی۔ ڈرائیور نے مڑ کر مصعب کی طرف دیکھا۔

’’بھائی صاحب! آپ کا گھر آگیا ہے۔‘‘ مصعب اچانک چونک کر اپنے خیالوں سے باہر آیا۔ وہ ہفتے کے بعد اپنے گھر واپس آرہا تھا اور بے چینی سے دوبارہ مریم اور مصطفیٰ سے ملنے کو منتظر تھا۔ پورا ہفتہ بھی بڑی مشکل سے گزرا تھا۔ اپنی اکلوتی بھانجی اور بھانجے میں اس کی جان تھی۔

مصعب نے اپنے گھر کا دروازہ کھولنا چاہا مگر وہ اندر سے بند تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

’’کون؟ اوہ تم؟ السلام علیکم!‘‘ ابوبکر کی شکل نظر آئی۔ مصعب نے آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگایا پھر اندر داخل ہوگیا۔ اندر تو میلے کا سماں تھا۔ پورے کا پورا خاندان ہی جمع تھا۔ عبادہ اور نور کو بھی اپنے گھر میں ہی دیکھ کر اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ ان دونوں نے بھی مسکراتے چہروں سے اس کا استقبال کیا۔ وہ دونوں مصعب کے کمرے میں ہی بیٹھے تھے۔ جیا کھانے کی ٹرے لے کر کمرے میں ہی آرہی تھی۔ وہ سب اکٹھے دسترخوان پر بیٹھ گئے۔

’’اور سناؤ! کام ہوگیا؟‘‘ عبادہ نے مسکرا کر پوچھا۔

’’الحمدللہ! ٹھیک ٹھاک! تم لوگ سناؤ! میں تو بمباری کا سن کر بہت پریشان ہوگیا تھا۔‘‘ وہ بے چینی سے پہلو بدل کر بولا۔ مصطفیٰ کو اس نے گود میں لے لیا تھا مگر مریم ابھی تک اس کو نظر نہیں آئی تھی۔ ’’نور! میں نے یہ ہفتہ بڑی مشکل سے گزارا ہے…… مریم کو لاؤ ناں! اس دفعہ اس کے لیے ڈھیر سارے چلغوزے لایا ہوں…… اس کو بہت پسند ہیں ناں!‘‘

نور اور عبادہ کے چہرے یک دم تاریک ہوگئے اور نور کی آنکھوں کی کنارے بھیگنے لگے۔ مصعب کا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بھول گیا۔ وہ خاموشی سے دونوں کو تکے گیا۔

’’ک…… کیا…… ہوا؟‘‘ اس نے ہکلا کر بمشکل جملہ ادا کیا۔ نورنے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ عبادہ نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے تھپتھپائے۔

’’مصعب! مریم بہت سکون سے ہے!…… وہ بہت پیارے سے گھر میں ہے!…… وہ اپنے نانا، نانی، دادا اور خالہ ماموں کے درمیان کھیل رہی ہوگی…… اور وہ سب اس کو دیکھ کر خوش ہورہے ہوں گے!‘‘ عبادہ دھیرے سے بولتا گیا۔ مصعب بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔

’’عبادہ؟…… نور؟……‘‘ وہ کبھی عبادہ کی طرف دیکھتا، کبھی نور کی طرف۔ نور اور جویریہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مصعب کی آنکھیں پتھرا گئیں اور وہ خالی خالی نگاہوں سے ان کو دیکھنے لگا۔ ’’مگر!…… نور…… میں تو اس کے لیے خاص چلغوزے لایا تھا…… تم مذاق کر رہی ہو ناں؟…… پلیز کہہ دو کہ تم نے بہت بھیانک مذاق کیا ہے!……میں کچھ نہیں کہوں گا! پلیز کہہ دو یہ غلط ہے!‘‘ مصعب بولتے بولتے رو پڑا۔

’’بھائی! بھائی! میں سچ کہہ رہی ہوں!‘‘ نور یکدم سسکیاں لے کر رونے لگی۔ جویریہ نے اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور چپ کرانے لگی۔

’’بھائی! مجھے تمہاری ضرورت تھی!…… اس کو خون کی ضرورت تھی!‘‘ وہ بلک بلک کر رو پڑی۔

’’نور! بس کرو!‘‘ وہ بمشکل بول پایا۔ آنسوؤں کی لڑی اس کے گال پر پھسل گئی۔ ’’مجھے قصوروار مت ٹھہراؤ! پلیز!‘‘

نور نے اپنا چہرہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

’’اللھم اجرنی فی مصیبتی!‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔

’’ربنا تقبل منا!‘‘ مصعب بھی آہستہ آواز میں بولا اور آنسو پونچھ لیے۔ ’’جیا! پانی دینا!‘‘

جویریہ جگ میں سے پانی ڈالنے لگی۔

٭٭٭٭٭

دو سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ عبادہ امریکہ کے لیے مطلوب ترین شخص بن گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ انتہائی احتیاط سے رہتا تھا۔ مجموعی حالات پہلے سے بہتر تھے۔ وہ لوگ شہری علاقوں میں ہی رہ رہے تھے۔ مصعب، ابوبکر اور علی کے گھر قریب قریب ہی تھے۔ ارمغان بھی اکثروبیشتر جہادی کاموں کے سلسلے میں عبادہ سے ملاقات کرنے آتا رہتا تھا۔ نور کو اس کاآنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور اس کو ارمغان کا یوں عبادہ کا قریبی ساتھی اور یک دم سے ہمدرد بن جانا زیادہ پسند نہ تھا۔ وہ عبادہ کو کئی بار اس بات کا احساس دلا چکی تھی کہ اس پر اندھا اعتماد نہ کرے۔ مگر وہ ہمیشہ یہی جواب دیتا کہ وہ پکی توبہ کر چکا ہے!

٭٭٭٭٭

’’ابوبکر! سوچ لو!…… یہ کوئی چھوٹی بات نہیں…… یہ تقریباً فدائی ہی ہے!‘‘ عبادہ دھیمی آواز میں ابوبکر سے بات کر رہا تھا۔ ’’اب تم شادی شدہ ہو اور ایک بچی کے باپ بھی…… اس صورت میں بھی تم اس کارروائی میں حصہ لینا چاہتے ہو؟‘‘

’’عبادہ! تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟…… رسول اللہ ﷺ کی عزت پر آنچ آجائے اور میں اپنے بیوی بچوں کے بارے میں سوچتا رہوں!…… کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟‘‘ ابوبکر بھپر کر بولا۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا۔ ان دونوں نے چونک کر سر اٹھایا۔ اس وقت ان کی خفیہ میٹنگ میں خلل ڈالنے والا کون آگیا تھا۔

’’السلام علیکم!‘‘ وہ ارمغان تھا۔

’’وعلیکم السلام! ارمغان تمہارا ہی انتظار تھا!…… اچھا ہوا کہ آگئے!…… بتاؤ کیا بنا؟‘‘

’’فرانس جانے والی فلائٹ کے ٹکٹ مل گئے ہیں…… اگلے مہینے کی دس تاریخ کی فلائٹ ہے!‘‘ ارمغان بولا تو ابوبکر اچھل کر کھڑا ہوگیا۔

’’کیا واقعی؟‘‘ اس نے خوشی سے پوچھا۔ ارمغان کے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے اس کے ہاتھ چوم لیے۔

’’کیا مؤمنہ کو پتہ ہے؟‘‘ عبادہ نے پھر پوچھا۔

’’ہاں! پتہ ہے!…… اس نے بہت خوشی سے مجھے اجازت دی ہے…… اور کہا ہے کہ اگر میں اس کارروائی میں شہید ہوجاتا ہوں تو یہ اس کے لیے اعزاز کی بات ہے!‘‘

’’ہوں ٹھیک ہے!…… مگر اور کسی کو نہ پتہ چلے!…… مؤمنہ کو بھی منع کردو!…… نور کو بھی نہ پتہ چلے!‘‘

ابوبکر نے اثبات میں سر ہلادیا۔

٭٭٭٭٭

مصطفیٰ بول بول کر نور کا دماغ کھا رہا تھا۔ جبکہ نور تفسیر پڑھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ اتنے میں ننھی عائشہ جو اس وقت صرف پانچ ماہ کی تھی، کا بھی باجا بج گیا۔ مصطفیٰ اس کی نقل میں آوازیں نکالنے لگا۔ نور نے اپنا سر تھام لیا۔

’’مصطفیٰ! چپ کرو! تم تو چپ کرو!‘‘

مگر مصطفیٰ پر اثر نہ ہوا۔ جتنا زور سے عائشہ روتی اس سے زیادہ زور کی آواز مصطفیٰ نکالتا۔

’’چپ کرو! چپ کرو! مصطفیٰ! مصطفیٰ!‘‘ آخر کافی چیخ و پکار کر بعد کہیں جاکر مصطفیٰ خاموش ہوا۔ کمرے میں خاموشی ہوئی تو عبادہ کی ہنسی کی آواز سنائی دی جو دروازے پر کھڑا نور کو دونوں بچوں کے ساتھ لڑتا دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔ نور نے خفگی سے اس کی جانب دیکھا اور عائشہ کو چپ کرانے لگی۔

’’نور! میں کچھ دنوں کے لیے جارہا ہوں!…… شاید تین چار ماہ لگ جائیں!‘‘ وہ کچھ دیر کے بعد اچانک بولا۔ ’’ابھی ابھی نکلنا ہے! جلدی سے میرا بیگ پیک کردو!‘‘

نور کا دل ایک لمحے کو بیٹھا مگر اس نے اپنے چہرے سے ظاہر نہ ہونے دیا۔

’’اچھا! صحیح!‘‘

اور وہ جلدی جلدی اس کا بیگ پیک کرنے لگی۔ عبادہ مصطفیٰ کے ساتھ کھیلنے لگا۔

آدھے گھنٹے کے بعد عبادہ امینہ خالہ اور نور کو کسی کو بھی اس کی روانگی کے بارے میں بتانے سے منع کرکے گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی بڑا کام کرنے جارہا تھا۔

٭٭٭٭٭

’’ارمغان! عادل بھائی ابھی تک پہنچے کیوں نہیں؟ دن نکلتے جارہے ہیں! ان کو اب تک پہنچ جانا چاہیے!‘‘ عبادہ نے فکرمندی سے اس کی جانب دیکھا۔ ’’ان کے بغیر تو یہ کارروائی نہیں ہوسکتی!‘‘

’’پتہ نہیں انہوں نے کہا تھا کہ وہ بیس تاریخ تک پہنچ جائیں گے! مگر اب یکم ہوگئی ہے!‘‘ ارمغان نے بھی فکرمندی سے ہی جواب دیا۔

’’اچھا! تم جاکر دیکھو! کل میں دوبارہ آجاؤں گا!…… میں اسلام آباد میں زیادہ لمبا عرصہ رہ بھی نہیں سکتا!…… کسی کو میرے آنے کا پتہ تو نہیں چلا؟‘‘

’’نہیں ان شاء اللہ ابھی تک تو نہیں پتہ چلا!‘‘

’’ٹھیک ہے پھر کل ملیں گے ان شاء اللہ!‘‘

٭٭٭٭٭

ارمغان جنرل کے آفس میں باادب سا کھڑا تھا۔ جنرل کولن پارکر گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔

’’ہوں! تو وہ اس وقت کہاں ہوں گے؟‘‘

’’آج تو پتہ نہیں کہاں ہوں گے…… مگر کل انہوں نے سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایک گھر میں جمع ہونا ہے!‘‘

’’پکی بات ہے کہ کل وہ وہاں جمع ہوں گے؟‘‘ جنرل نے سوچتے ہوئے پوچھا تو ارمغان بے چینی سے پہلو بدلنے لگا۔

’’سر! وہ…… میں نے ان کو عادل خان کی گرفتاری کا بتا دیا ہے!…… شاید وہ بھاگنے کی کوشش کریں!‘‘

’’گدھے ہو تم!‘‘ جنرل چنگھاڑا۔ ارمغان سر سے پاؤں تک کانپ گیا۔ ’’کیوں بتا دیا؟‘‘

’’وہ…… منہ سے نکل گیا تھا!‘‘ اس کی آواز میں لرزش بر آئی۔ ’’وہ بار بار پوچھ رہا تھا…… اور اسی دن بھاگنے کا سوچ رہا تھا۔ اس کو پہلے ہی شک ہوگیا تھا…… اس لیے میں نے اس کو مزید روکے رکھنے کے لیے یہ بتا دیا…… اب وہ اپنے باقی ساتھیوں کو نکلوانے کی فکر میں لگ جائے گا!‘‘

’’ہوں! تو تمہیں کنفرم نہیں کہ وہ کل آئیں گے یا نہیں!‘‘

’’اسّی فیصد امید ہے کہ آئیں اور بیس فیصد کہ نہ آئیں!…… مگر سر ٹرائی کرنے میں حرج کیا ہے؟ آپ کوشش تو کریں…… ہو سکتا ہے آپ کی قسمت اچھی ہو!‘‘ ارمغان دھیرے سے بولا۔

جنرل سوچ میں گم ہوگیا۔

٭٭٭٭٭

’’کیوں نہیں آئے ابھی تک عادل بھائی!‘‘ عبادہ بے چینی سے ٹہلتے ہوئے بولا۔

’’عبادہ! وہ گرفتار ہوگئے ہیں!‘‘ ارمغان کی بات اس کے لیے دھماکے سے کم نہ تھی۔

’’کیا؟‘‘ وہ چونک کر بولا۔ ’’ارمغان! جلدی سے ابوبکر کو بلاؤ!‘‘

ارمغان کمرے سے نکل گیا اور کچھ ہی دیر میں ابوبکر کو بلالایا۔

’’ابوبکر! تیاری کرو!…… کارروائی اس دفعہ نہیں ہو سکتی!…… عادل بھائی گرفتار ہوگئے ہیں…… اور ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکلنا ہے!‘‘

عبادہ کی بات سن کر ابوبکر کے چہرے کی چمک ماند پڑگئی۔ ارمغان غور سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

’’مگر……‘‘ ابوبکر نے بولنا چاہا مگر عبادہ نے اس کی بات کاٹ دی۔

’’ابوبکر! اس وقت اس کارروائی کی کوشش کرنے کا نتیجہ سوائے گرفتاری کے اور کچھ نہیں!…… اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سمجھو اور تیاری کرو! ہم واپس جارہے ہیں!‘‘

’’عبادہ! مگر باقی ساتھیوں کا کیا بنے گا؟‘‘ ارمغان نے پہلی دفعہ گفتگو میں حصہ لیا۔

عبادہ سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر کافی دیر کی سوچ بچار کے بعد سر اٹھایا۔

’’ابوبکر! تم جاؤ…… خلیل بھائی، احمد بھائی اور عبد اللہ کو لے کر واپس جاؤ!……میں ایک دو دن میں باقی ساتھیوں کو نکلوا کر واپس آجاؤں گا! ارمغان! تم بے شک ادھر ہی رہو!…… عادل بھائی کو تمہاری پہچان تو نہیں ناں…… تم تو خالد بھائی کے ذریعے سے ملتے تھے ناں؟‘‘

ابوبکر اور ارمغان نے خاموشی سے سر ہلا دیا، اور دونوں کمرے سے نکل گئے۔ عبادہ پھر بے چینی سے ٹہلنے لگا۔

٭٭٭٭٭

دروازہ زور زور سے بج رہا تھا۔ نور مصطفیٰ کو سلانے کی کوشش کررہی تھی۔ عائشہ امینہ خالہ کے پاس تھی۔ مصطفیٰ کو سلا کر وہ دروازہ کھولنے کمرے سے باہر نکلی۔ دروازہ کھلتے ہی اس کو ایک خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا۔ دروازے پر عبادہ کھڑا تھا۔ وہ تو ایک ہفتے میں ہی آگیا تھا۔

’’السلام علیکم!‘‘ وہ اپنے مخصوص انداز میں مسکرایا۔

’’آپ؟‘‘ نور نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’اندر نہیں آنے دو گی؟‘‘ عبادہ بے ساختہ ہنس دیا تو نور نے خفت سے راستہ چھوڑ دیا۔

’’ابھی آگیا ہوں!…… کام نہیں ہوسکا!…… ماما کہاں ہیں، کمرے میں ہی ہیں؟‘‘ وہ امینہ خالہ سے سلام کرنے ان کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا کہ اچانک رک گیا۔ ’’کچھ کھانے کو ہے؟ بہت بھوک لگی ہے!‘‘

وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ نور نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔

’’مصعب اور ابوبکر ٹھیک ہیں…… علی وغیرہ کیسے ہیں؟‘‘

’’مصعب اور جویریہ تو خیریت سے ہیں!…… ابوبکر تو کافی دنوں کے بعد آیا ہے…… اس کے پیچھے خدیجہ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی، ملیریا ہوگیا تھا۔ ہم سب تو بہت پریشان ہوگئے تھے…… شکر ہے ابوبکر آگیا!…… اور آپ کے جانے کے اگلے دن علی اور منال آئے تھے!‘‘

’’ہوں!‘‘ عبادہ نے سوچتے ہوئے ہنکارا بھرا۔ نور کچن میں گھس گئی۔

اس کا مطلب تھا کہ نور کو اندازہ نہیں ہوا۔ شاید اللہ تعالیٰ نے خدیجہ کی خاطر ہی اس کو واپس بھیجا تھا۔

’’اسلام علیکم ماما!‘‘ ابوبکر دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا۔ امینہ خالہ بھی اس کو دیکھ کر خوش ہوگئیں اور اس کی بلائیں لینے لگیں۔

’’ماما! ہم نے اس گھر کو شفٹ کرنا ہے!‘‘ عبادہ کی بات سن کر کمرے میں داخل ہوتی نور رک گئی۔

’’کیوں بیٹے؟‘‘

’’وہ اصل میں ایک دو گرفتاریاں ہوئی ہیں…… پھر ہمارے پیچھے ایک مرکز پر چھاپہ بھی پڑا ہے، اس لیے گھر شفٹ کرنا ہے!‘‘

نور ٹرے اٹھائے کمرے کے اندر آگئی۔

’’اوہ!…… قیمہ بنا ہے؟‘‘ عبادہ نے ٹرے پر جھکتے ہوئے خوشی سے کہا۔ ’’ماما! آپ نے بنایا ہے؟‘‘

’’نہیں!…… جویریہ نے بھیجا ہے!‘‘ امینہ خالہ نے کہا۔

’’اچھا؟…… ماشاءاللہ میری بہن اتنی بڑی ہوگئی ہے!‘‘ عبادہ نے لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تو نور کو اس کی بات پر بے ساختہ ہنسی آگئی۔

٭٭٭٭٭

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

سلطانئ جمہور | قسط نمبر: ۱۸

Next Post

عالمی تحریکِ جہاد کے گرم محاذوں سے

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

14 جولائی 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
Next Post

عالمی تحریکِ جہاد کے گرم محاذوں سے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version