نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

ہندوستان…… تباہی کے راستے پر بگٹٹ گامزن

ابو انور الہندی by ابو انور الہندی
31 جولائی 2022
in فکر و منہج, مئی تا جولائی 2022
0

ہندوستان پر حاکم پارٹی بی جے پی کے اراکین کی جانب سے ہمارے محبوب رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کیا جانے والا قبیح و نفرت انگیز گستاخانہ حملہ، اب تک پوری دنیا کے علم میں آ چکا ہے۔ جب مسلمانوں نے اس ظلم و جہالت کے خلاف احتجاج کرنا چاہا تو بھارت سرکار کی جانب سے ان پر مزید ظلم و تشدد کا دروازہ کھول دیا گیا اور بھارتی پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں نے احتجاج کرنے والے غیر مسلّح مسلمانوں پر فائرنگ کی اور انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ریاستی مشینری بھی حرکت میں آئی، مگر اقلیت کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف……نہایت منظّم انداز میں بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا اور بلڈوزروں کی مدد سے انہیں منہدم کیا گیا۔ ایسے میں نام نہاد ’غیر جانبدار‘ و سیکولر عدلیہ نے ان ’آئینی حقوق‘ کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا جنہیں وہ مقدس گرداننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور اس سارے منظر نامے کے دوران، ’لبرل‘ ہندو ’طرفین‘ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے، ’دونوں‘ کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے اور ’دونوں ‘سے امن و آشتی کی استدعا کرتے رہے۔

یہ واقعات اور ان کے ردعمل بہت سے اہم و قطعی حقائق کو واضح کرتے ہیں۔

اوّل: رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر یہ قبیح حملہ کر کے ہندوستانی سرکار نے بالعموم اور ہندُتوا تحریک نے بالخصوص، اسلام اور پورے عالمِ اسلام کے خلاف کھلے بندوں اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ وہ من حیث المجموع امتِ مسلمہ کے خلاف جنگ میں اتر چکے ہیں۔اس معاملے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔مجاہدین کی جانب سے ہندُتوا تحریک اور بھارتی ریاست کو نشانہ بنانے کی دھمکی تو محض ان کے جرائم کا ایک مناسب جواب ہے، مزید بھی ابھی آئے گا ان شاء اللہ ، اور بلا شبہ (فساد) شروع کرنے والا ہی ظالم ہے۔

دوم: بھارتی ریاست ہندُتوا تحریک کی معاون اور رفیقِ جرم ہے۔ یہ حقیقت بھی وقتاً فوقتاً ثابت ہوتی رہی ہے۔ کئی دہائیوں سے بھارتی عدلیہ کا بنیادی کام ہندُتوا تحریک کی مخاصمانہ و مبنی بر جنگ و فساد کارروائیوں اور حرکتوں کو قانونی جواز فراہم کرنا بن گیا ہے، جبکہ اب تو یہ حال ہے کہ عدلیہ و انتظامیہ کا مقصدِ وجود ہی گویا ہندُتوا کے جرائم کو برحق ثابت کرنا ہے۔رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اس حملے سے پہلے بھی ہم نے دیکھا کہ کیسے ہندو دہشتگردوں نے رمضان کے مبارک مہینے میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے کیے۔ ہم نے دیکھا کہ کیسے ان مشرک وحشیوں نے مساجد پر اپنے جھنڈے لہرائے۔ ہم نے دیکھا کہ کیسے گائے اور بندر کے ان پجاریوں نے مسلم خواتین کے بارے میں غلیظ نعرے لگائے۔ ہم نے دیکھا کیسے ہر موقع پر پولیس نے ان کو مدد و تعاون فراہم کیا۔ اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کیسے انتظامیہ اور عدلیہ نے مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے اور ایک منظّم انداز میں انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے تاویلات گھڑیں۔ بھارتی ریاست کبھی مسلمانوں کا تحفظ نہیں کرے گی، اس کے برعکس وہ ہندُتوا دہشتگردوں کی ہر طرح نصرت و حمایت کرے گی۔ ایسے میں ظالم سے انصاف او ر حقوق کا مطالبہ کرنا دیوانگی نہیں تو کیا ہے؟

سوم: نام نہاد ’لبرل‘ ہندو مسلمانوں کے حلیف یا ساتھی و مددگار نہیں ہیں۔یہ امر حال ہی میں ملعونہ نپور شرما کے کیس میں صراحت سے واضح ہو گیا۔ ’طرفین ‘ اور ’جانبین‘ کو ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس دلا نے اور ان سے اپیلیں کر کے انہوں نے حملہ آور اور مدافعین کے مابین برابری کا ایک جھوٹا تاثر پیدا کر دیا، گویا ظالم و مظلوم کو برابر لا کھڑا کیا کہ دونوں قصوروار ہیں۔اور ساتھ ہی نپور شرما اور نوین جنڈال جیسوں کے جرائم کو ہلکا بھی ثابت کر گئے۔ یہ اسلوب نیا نہیں بلکہ بار بار اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ جب کبھی مسلمان ہندو دہشتگردوں کے ظلم و تعدّی کو ہٹانے یا روکنے کی کوشش کرتے ہیں، یکایک یہ لبرل اپنے بِلوں سے باہر نکل آتے ہیں اور امن و آشتی کا درس دینے لگتے ہیں۔ یہ ڈاکو اور لٹیرے کو اس وقت نہیں روکتے جب وہ حملہ کرتا ہے، ہاں اگر گھر کا مالک اپنا دفاع کرنا چاہے تو یہ ’جانبین‘ سے امن و سکون کی اپیلیں کرنے چلے آتے ہیں۔ حقیقت میں، یہ لبرل ہندو نہایت احتیاط اور دقیق غور و فکر کے بعد ایک ایسا بیانیہ تیار کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا اپنی بقا کے لیے اٹھایا گیا کوئی بھی قدم، غیر قانونی اور مجرمانہ قرار دیا جا سکے۔ ان ’لبرلوں‘ کا بنیادی کام مسلمانوں کو مدہوش رکھنا ہے تاوقتیکہ ہندُتوا کے غنڈے مسلمانوں کے گلے کاٹنے اور ان کے گھر جلانے کے لیے پہنچ سکیں۔

چہارم: ہندوستان کے مسلمان قائدین کا ان واقعات پر ردّعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ آج بھی دنیا اور عالمی سیاست کے بارے میں ایسے قدیم و دقیانوسی تصورات کے زیرِ اثر کام کر رہے ہیں جو عرصہ ہوا متروک ہو چکے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان کو آج اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے ، اور اس مسئلے سے نکلنے کا کوئی آئینی راستہ موجود نہیں! ایسی کوئی ’قومی یکجہتی‘ اور ’مرکب قومیت‘ وجود نہیں رکھتی جو اس خطرے سے نمٹ سکے۔ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خوابِ غفلت سے جاگیں اور اس حقیقت کا ادراک کریں۔

پنجم: مغرب کی جانب دیکھنے اور اس سے مدد و نصرت کی امیدیں قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نہ اس سے پہلے کبھی بوسنیا کے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچا، نہ روہنگیا مسلمان کی اذیت ہی کچھ کم ہوئی، نہ شام کے مسلمانوں کو کوئی فیض حاصل ہوا اور نہ ہی آج ایغور مسلمانوں کو ہو رہا ہے۔ اللہ تمام عالم کے مسلمانوں کی تکلیف و آزمائش آسان فرمائے اور ہماری کمزوری پر ہم سے درگزر فرمائے۔ نوّے کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا نے جو مختصر سا یک قطبی دور دیکھا……وہ گزر چکا ہے، اور دنیا کی قیادت لبرلوں کے ہاتھ میں دیکھنے کے خواب کو ایک بھیانک تعبیر مل چکی ہے۔ امریکہ و یورپ ہندوستان کے مسلمانوں کی مددکو نہیں آ رہے، بلکہ اس کے برعکس ہندوستان اور ہندُتوا تحریک امریکہ کے خیمے میں بیٹھی ہے۔ صلیبی، صہیونی اور ہندُتوا وادی……یہ سب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ جبکہ بھارت خطے میں امریکہ کا سب سے قیمتی حلیف ہے۔ انکل سام کو چین کو لگام ڈالنے کے لیے ،مسلمانانِ پاکستان کے اندر بھڑکتے اسلامی جذبے کو ٹھنڈارکھنے کے لیے، سرحد کے بہادر و غیور قبائل کو محدود کرنے کے لیے، بنگلہ دیش میں حاجی شریعت اللہ کے ناقابلِ تسخیر بیٹوں کو روکے رکھنے کے لیے اور امارتِ اسلامی افغانستان پر بند باندھنے کے لیے مودیوں اور یوگیوں کی ضرورت ہے۔ امریکہ کبھی بھارت کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کو لاحق سب سے بڑا اندیشہ مسلمانوں کی ایک مضبوط و مستحکم اور خود مختار سیاسی حیثیت کا وجود ہے۔اس لیے بھی امریکہ کبھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ برِ صغیر کے مسلمان برطانوی سامراجی دور کی سرحدی بندشوں سے خود کو آزاد کر لیں اور خود مختارانہ انداز میں سوچنا اور عمل کرنا شروع کر دیں۔ لہٰذا امریکہ ہندُتوا تحریک کا نسل کشی کی جانب بڑھتا ایجنڈا روکنے کے لیے کبھی کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھائے گا۔

ششم: یہی معاملہ عرب ریاستوں کا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمِ عرب کے مسلمان اپنے قلوب و عقائد کی بنیاد پر مسلمانانِ ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر ان ریاستوں پر قابض حکمران عالمی صلیبی صہیونی کَبَل کی کٹھ پتلیوں کے سوا کچھ نہیں۔ بالخصوص بن زید اور بن سلمان جیسے حکمران تو کھلے عام مودی کے حلیف و مددگار ہیں۔ لہٰذا، تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کے لیے کوئی بیرونی طاقت حرکت میں نہیں آئے گی۔ ہندُتوا تحریک نے نفرت اور جنگ و فساد کی جو لہریں بپا کی ہیں، ان کے تدارک کے لیے کوئی بیرونی امداد مسلمانانِ ہندوستان کو ملنے والی نہیں۔

ہندوستان اور پورے برصغیر کے مسلمانوں کو اب معاملات خود اپنے ہاتھوں میں لینا ہوں گے، اگر وہ اپنی بقا کو درپیش اس خطرے کا سامنا کرنا چاہتے ہیں جسے روز بروز ہندُتوا تحریک بڑھاوا دے رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی فہم ہے جس سے برصغیر و ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی کلام و گفتگو کو بڑھنا چاہیے۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہمیں……مسلمانانِ بر صغیر کو …… اپنی بقا کی حکمتِ عملی ترتیب دینا ہو گی جو ان شاء اللہ اور بعون اللہ بالآخر فتح و نصرت پر منتج ہو گی۔

تباہی کی طرف بڑھتے قدم

ہندوستان میں صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ہم پہلے بھی اس مجلّے کے مبارک صفحات میں بارہا اس امر کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ ہندوستان میں ہندُتوا کی تحریک بہت جلد اس نقطۂ عروج کو چھونے والی ہے کہ جہاں محض ایک چنگاری بھی ایسے بھڑکتے الاؤ کا سبب بن جائے گی جو ناقابلِ یقین حد تک بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی پھیلائے گا اور ظلم و تشدد کے ایک نہ رکنے والے سلسلے کو جنم دے گا۔ یہ محض برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت نہیں ہو گا بلکہ خطے میں بسنے والے عام ہندوؤں اور دیگر اقوام کے لیے بھی تباہی کا پیغام لائے گا۔ اس تنبیہہ کو مبالغہ نہ سمجھا جائے، بلکہ یہ حقائق اور تاریخی شواہد پر مبنی ، ایک حقیقت پسندانہ اگرچہ افسوسناک تجزیہ ہے۔بدقسمتی سے خطے کے مسلمان اور بالخصوص مسلمانانِ ہند اپنی جانب تیزی سے بڑھتی اس تباہ کن صورتحال کی شدت اور اہمیت کا ادراک کرنے سے ہنوز قاصر ہیں۔

ذرا تصور کیجیے ایک ایسی گاڑی کا جو پوری رفتار سے ایک اندھی کھائی کی سمت دوڑ رہی ہو۔ گاڑی میں نہ کوئی بریک ہے اور نہ رخ بدلنے کے لیے سٹئیرنگ ویل۔ وہ صرف ایک ہی سمت میں چل سکتی ہے……زوال کی اس اٹل کھائی کی جانب جس سے کوئی فرار نہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جو ہندُتوا تحریک نے بھارت میں مسلمانوں کے لیے پیدا کر دی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کی قیادت کی اکثریت اب بھی آئین و دستور اور شہری حقوق کی بیکار بحث میں الجھی ہوئی ہے۔ گاڑی تباہی کی جانب گامزن ہے……مگر یہ اب بھی گاڑی کے اندرونی ڈیزائن اور اس کے رنگ روپ کے بارے میں بحث مباحثہ میں مصروف ہیں۔

یہ مخصوص مثال میری اپنی ایجاد نہیں، بلکہ یہ آر ایس ایس کے سربراہ و قائد، موہن بھگوت کے الفاظ ہیں۔(گزشتہ مضامین میں ہم آر ایس ایس کی تاریخ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں)۔ اپریل ۲۰۲۲ء میں اپنی ایک تقریر میں موہن بھگوت نے کہا:

’’ہماری گاڑی چل پڑی ہے، بنا بریک کی گاڑی ہے، صرف ایکسلریٹر ہے۔ جو روکنے کی کوشش کریں گے، وہ مٹ جائیں گے۔ جو آنا چاہے وہ ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ جائے، گاڑی رکے گی نہیں……اگر ہم اسی رفتار سے چلتے رہے تو اگلے بیس پچیس سال میں اکھنڈ بھارت ایک حقیقت بن جائے گا، مگر اگر ہم ذرا اور محنت کریں……جو ہم ضرور کریں گے……تو یہ مدّت آدھی ہو جائے گی اور ہم دس پندرہ سال میں ہی یہ ہوتا دیکھ لیں گے……‘‘

بھگوت کے اس بیان پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اکھنڈ بھارت کے تصور کو سمجھا جائے۔ ہندُتوا تحریک کا دعویٰ ہے کہ اکھنڈ بھارت یا ’متحدہ ہندوستان ‘ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا تذکرہ پرا نہ میں ملتا ہے۔ پرانہ مشرکانہ قصّے کہانیوں اور داستانوں پر مشتمل ایک قدیم کتاب ہے جو ہندؤوں کے ہاں مقدس گردانی جاتی ہے۔ ہندُتوا کے ماہرینِ نظریات کے مطابق اکھنڈ بھارت میں آج کے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاقےبھی شامل ہیں۔ آر ایس ایس کے اراکین اپنے گھروں اور دفاتر میں اکھنڈ بھارت کا جو نقشہ رکھتے ہیں، اس کے مطابق مغرب میں افغانستان سے لے کر مشرق میں میانمار تک کا تمام علاقہ ہندؤوں کی اس افسانوی ریاست کا حصّہ ہے۔

پس تحریکِ ہندُتوا کے لیے ’اکھنڈ بھارت‘ محض کوئی تاریخی یا سیاسی ہدف نہیں، بلکہ مذہبی ہدف و فریضہ بھی ہے۔ بعض اعتبار سے یہ تصور صہیونیوں کے ’گریٹر اسرائیل‘(عظیم تر اسرائیل) کے نظریے سے مشابہت رکھتا ہے جس کی سرحدیں ان کے بقول ساحلِ نیل سے لے کر دریائے فرات تک پھیلی ہوئی ہیں۔ صہیونیت اور ہندُتوا میں اور بھی بہت سی دلچسپ مماثلتیں پائی جاتی ہیں، اسی طرح جیسے فلسطین و کشمیر کی صورتحال کے مابین پائی جاتی ہیں۔ بہر صورت، یہ ایک مختلف بحث ہے جو ابھی ہمارا موضوع نہیں۔ مگر یہ امر اہمیت سے خالی نہیں کہ بھارت کے قریبی ترین حلیفوں اور دوستوں میں، اور بالخصوص ہندُتوا کے حمایتیوں میں، عالمی صہیونی کَبَل سرِ فہرست ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا(سورۃ المائدۃ: ۸۲)

’’تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔‘‘

اکھنڈ بھارت کی تشکیل بی جے پی، آر ایس ایس اور اس قسم کی دیگر اکثر ہندُتوا تنظیموں کا حتمی ہدف ہے۔ لیکن ایسا ہر منصوبہ بھارت سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ افغانستان،پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار اور سری لنکا کے ممالک پر قبضہ کر لے۔ ظاہر ہے، ایک آدھ نہیں بلکہ کئی پڑوسی ممالک پر حملہ کرنے اور قابض ہونے کی خواہش کا اظہار تو درکنار، اس قسم کا ہلکا سا اشارہ بھی بھارت کے لیے بے تحاشا دشمنی کی فضا اور مشکلات پیدا کر دے گا۔لہٰذا بی جے پی اور آر ایس ایس اپنے موقف میں توازن پیدا کرنے اور اسے ذرا قابلِ قبول بنانے کے لیے فی الحال محض یہی کہنے پر اکتفا کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کی سربراہی میں ایک اتحاد (confederation) بنانا چاہتے ہیں جس میں یہ تمام ریاستیں شامل ہوں۔ لیکن ہندُتوا کی جارحانہ اور مکّاری و دغا بازی پر مشتمل تاریخ اس بات کا کافی و شافی ثبوت ہے، کہ یہ محض مخالفین کو پر امن رکھنےکا ایک بہانہ ہے۔

ہندُتوا کا ہدایت نامہ

مزاحمت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ہندُتوا کے مزاج کو سمجھیں کہ وہ آنے والے دنوں میں کس طرح اپنے ایجنڈے کو عملی قالب میں ڈھالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ہندُتوا کی تحریک ہمیشہ سے اطالوی فاشزم اور جرمن نازی تحریک کے سحر میں رہی ہے۔ یہ امر بہت سے مورخین و اصحابِ علم سے مخفی نہیں اور مرضیہ کاسولاری اور دیگر نے اس موضوع پر قلم بھی اٹھایا ہے۔ ہندُتوا کے اوّلین قائدین بینیتو مسولینی اور اڈولف ہٹلر جیسوں سے بے حد متاثر تھے۔ ہندُتوا کی فکر سازی کرنے والے ایک ابتدائی مفکر، ڈی وی تہمانکر نے ۱۹۲۷ء میں مسولینی اور فاشزم کے بارے میں کتاب لکھی اور شائع کی۔ اس کتاب میں اس اطالوی آمر کی سوانح حیات اور اس کے فاشسٹ نظریات پر تفصیلی بحث کی گئی تھی۔

لیکن فاشزم کے جس رخ سے ہندُتوا قائدین سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ معاشرے کو مسلّح کرنا اور انتہائی جارحانہ مزاج کے فاشسٹ نوجوانوں پر مبنی تنظیموں کی تشکیل دینا تھا۔ ہندُتوا کی ایک اور نمایاں فکری اورنظریاتی شخصیت ، بے پناہ اثرو رسوخ رکھنے والا لیڈر بی ایس موُنجے تھا، جو نہ صرف ہندو مہاسبھا کا سربراہ تھا بلکہ کے بی ہیڈگوار کا اتالیق و رہنما بھی تھا، وہی کےبی ہیڈگوار جس نے آر ایس ایس تشکیل دی۔ ۱۹۳۱ء میں موُنجے نے اٹلی کا سفر کیا، جہاں اس نے مسولینی سے ملاقات بھی کی اور اس سے بے حد متاثر ہوا۔ ہندوستان واپسی کے بعدمونجے پوری تندہی سے نوجوانوں کی مسلّح تنظیمیں تشکیل دینے کے کام میں جُت گیا جن کا نمونہ وہ اٹلی میں دیکھ کر آیا تھا۔ مرضیہ کاسولاری نے تو یہاں تک لکھا کہ ابتدائی مراحل میں آر ایس ایس کا طریقۂ بھرتی بعینہ اٹلی میں مسولینی کی فاشسٹ نوجوان تنظیموں کا عکس تھا۔

اسی طرح تحریکِ ہندُتوا جرمنی کے نازیوں سے بھی بے حد متاثر ہوئی۔ ۱۹۳۸ء کے بعد سے تو نازی جرمنی گویا ہندو مہاسبھا کا بنیادی مرجع بن گیا۔ہندُتوا نے یہودیوں کے حوالے سے نازی پالیسی کی نقل کرنے کی کوشش میں اس کا اطلاق ہندوستان کے حالات پر کیا، جس کے نتیجے میں ہندو آریَن جرمنوں کے مقام پر کھڑےتھے، جبکہ یہودیوں کی جگہ مسلمانوں نے لے لی ۔

ہندُتوا کی موجودہ ذہنیت اور طریقۂ کار کو سمجھنے اور بھارت میں اس کے آئندہ اقدامات کا بہترین اندازہ کرنے کے لیے ان عوامل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے ہندُتوا کی فکر تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اٹلی کے فاشسٹوں اور جرمنی کے نازیوں، دونوں نے ان مسلّح تنظیموں کو انتہائی موّثر طور پر استعمال کیا۔فی الواقع یہ ان مسلّح تنظیموں کے جارحانہ اور خونریز اقدامات ہی تھے جنہوں نے مسولینی اور ہٹلر کو مسندِ اقتدار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اٹلی میں مسولینی نے بلیک شرٹس نامی مسلّح تنظیم تشکیل دی (جو اپنی کالی قمیصوں سے پہچانے جاتے اور انہی سے موسوم ہوئے)۔ بلیک شرٹس نے ہر قسم کی سیاسی مخالفت کو بے رحمی سےکچلا اور مسولینی کی سیاسی حیثیت پیدا کرنے میں بے حد معین و مددگار ثابت ہوئی۔ اور بالآخر یہ بلیک شرٹس کی جارحیت ہی کے ذریعے ممکن ہو پایا کہ مسولینی اٹلی پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں مسولینی نے اپنی فاشسٹ پارٹی کے ساتھ روم کی جانب مارچ کیا، اس مارچ کا مقصد اطالوی بادشاہ کو زمامِ حکومت مسولینی کے حوالے کر دینے پر مجبور کرنا تھا۔ مسولینی کی بلیک شرٹس ملک کے تزویری (strategic) مقامات پر پہلے ہی قابض ہو گئی اور ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فاشسٹ پارٹی کے مظاہرین اور مسلّح بلیک شرٹس روم کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ ان سب کا مطالبہ یہ تھا کہ مسولینی کو وزیرِ اعظم قرار دیا جائے۔ وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے تشدد و جارحیت کے خوف نے اطالوی بادشاہ کو ان کے مطالبے منظور کرنے پر مجبور کر دیا۔

اسی طرح جرمنی میں سٹُرمَب ٹائلُنگ (Sturmabteilungen/SA) جس کا لغوی ترجمہ طوفانی دستے ہو گا، نے ہٹلر کو اقتدار تک پہنچانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۲۱ء میں تشکیل دی جانے والی یہ تنظیم، جو براؤن شرٹس (بھوری قمیصوں) کے نام سے بھی جانی جاتی تھی، کا مقصدِ تاسیس اور بنیادی ہدف نازی پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے قوت و طاقت اور جارحیت کا استعمال کرنا تھا۔ایس اے نے اپنے سیاسی مخالفین کی طاقت توڑنے اور ان لوگوں کی تعقیب کے لیے جنہیں وہ دشمن گردانتی تھی، مستقل اور مسلسل تشدد و جارحیت اور خوف و دہشت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ بالخصوص ایس اے نے سڑکوں اور گلی محلّوں میں سیاسی بنیادوں پر جھگڑوں اور غنڈہ گردی کے طریقوں کو فروغ دیا جس نے نازی پارٹی کو سڑکوں کا بادشاہ بنا دیا۔ ایس اے صحیح معنوں میں ایک ریاست در داخلِ ریاست بن گئی۔

۱۹۳۳ء میں نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ایس اے نے مخالفین پر حملوں کی اپنی روایت جاری رکھی، اور کئی مواقع پر انہیں عام جرمن عوام ؍ شہریوں کی حمایت و موافقت بھی حاصل ہوتی۔ بلکہ بہت سے لوگ کھلے عام ایس اے کی کوششوں اور کام کی حمایت کرتے۔ کرسٹوفر ایشرووڈ (Christopher Isherwood)، ایک برطانوی لکھاری جو اس وقت برلِن میں مقیم تھا، نے لکھا کہ عام جرمن شہری ایس اے کے غنڈوں کی جانب حوصلہ افزا مسکراہٹوں کے ساتھ دیکھتے تھے۔ ۱۹۳۳ء کی ابتدا میں ، جب بالآخر نازی پارٹی پورے جرمنی میں وزارتِ داخلہ اور پولیس ہیڈ کوارٹروں کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، تو ایس اے نے دہشت و جارحیت کی باقاعدہ مہم کا آغاز کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں نازیوں کے مخالفین گرفتار کیے گئے اور عارضی طور پہ بنائے گئے حراستی مراکز میں بند کیے گئے۔ سیاسی مخالفین پر ظلم و تشدد، ان کو مارنا پیٹنا، قتل کرنا، ان کے گھروں اور دفاتر میں لوٹ مار کرنا اور انہیں تباہ کرنا معمول کا حصّہ تھا۔ اور بیشتر موقعوں پر ایس اے اور ایس ایس جیسی تنظیموں کو پولیس اور حکومتی مشینری کی مدد اور حمایت حاصل ہوتی۔

آج ہم ہندوستان میں بعینہ انہی تکنیکوں اور تدابیر کی مماثلت دیکھ سکتے ہیں۔ بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر ہندُتوا تنظیمیں پوری دیانتداری سے ان تکنیکوں پر عمل پیرا ہیں۔

ذرا ہندُتواکی کسی کارروائی اور پھر اس پر بھارتی حکومت کے ردّعمل کا طریقہ دیکھیے۔ ذرا غور کیجیے کہ بابری مسجد کو شہید و تباہ کرنے کے لیے کس طرح منظم جارحیت کا استعمال کیا گیا اور اس میں مسلّح تنظیموں نے کیا کردار ادا کیا۔ بیس سال قبل گجرات میں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، اس میں بھی بجرنگ دَل اور آر ایس ایس جیسی مسلّح تنظیمیں شامل تھیں جنہوں نے مسلمانوں کے قتلِ عام، ان پر تشدد اور ان کی خواتین کی عصمت دری میں سب سے زیادہ فعال و بھرپور کردار ادا کیا۔ حتیٰ کہ ہیومَن رائٹس واچ اور ایمنسٹی جیسے عالمی ادارے جو مسلمانوں کے لیے کوئی خاص نرم گوشہ نہیں رکھتے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ گجرات کی مجرمانہ کارروائیوں کو مکمل حکومتی اور پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی، بشمول اس وقت بی جے پی کے گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے، جس نے حملوں کی منصوبہ بندی میں سَنگھ پریوار کے شانہ بشانہ کام کیا۔

گائے کے نام پہ قتل کے ان بے شمار واقعات پر نظر ڈالیے، جن میں ہندُتوا کے غنڈے مسلمانوں کو گھیر کر اور تشدد کر کے مار ڈالتے ہیں، محض اس الزام کی بنیاد پر کہ وہ گائے کا گوشت لے جا رہا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں جو کچھ دہلی میں ہوا، اس پر غور کیجیے، یہ ہندُتوا کے غنڈے ہی تھےجنہوں نے مسلمانوں پر انتہائی وحشت ناک حملے کیے، جبکہ پولیس اور حکومت ان کی پیٹھ ٹھونکتی رہی۔

آسام میں کئی سالوں سے جو کچھ جاری ہے، اس پر بھی نظر ڈالیے۔ گلی محلّے کےیہ غنڈے مسلمانوں پر حملے شروع کرتے ہیں، اور اگر کہیں مسلمان اپنا دفاع کرنا چاہیں تو ان غنڈوں کی مدد کے لیے پولیس پہنچ جاتی ہے۔ رواں سال رمضان میں ہونے والے فسادات ہی کو لے لیں، ہندو مسلّح تنظیمیں مساجد کے سامنے مظاہرے شروع کرتیں اور کئی جگہوں پر مساجد پر حملوں سے بھی گریز نہ کرتیں۔ ابھی حال ہی میں ملعونہ نپور شرما کا واقعہ لے لیجیے، جب کبھی مسلمان ایسی کسی زیادتی پر احتجاج کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو انہیں ہندوؤں کی ان مسلّح تنظیموں کے ساتھ ساتھ پولیس کی جارحیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بار بار ہم دیکھتے ہیں کہ ہندُتوا تحریک اطالوی بلیک شرٹس اور جرمن براؤن شرٹس ہی کی تکنیکوں پر عمل پیرا ہے۔یہ مماثلتیں یہیں ختم نہیں ہو جاتیں۔ ہندُتوا تحریک پروپیگنڈا کا استعمال کس طرح کرتی ہے، اس میں بھی بہت واضح مشابہت نظر آتی ہے۔ ہندؤوں میں عدم تحفظ کے تاثر کو بڑھانے کے لیے ایک بیانیہ تشکیل دینے کے لیے، مودی نے باقاعدہ ایک مہم کا آغاز کیا جس میں بار بار ہندو اکثریت کو مسلم اقلیت سے لاحق خطرات کا تذکرہ تھا۔ہندؤوں کو دیسی اور مسلمانوں کو بدیسی، یا بیرونی جارح قوت کے طور پر دکھا کر مودی نے مسلمانوں کو سب کا متفقہ ہدف بنا دیا ہے، جس کے خلاف پورا بھارت متحد ہے۔ ویسے ہی جیسے ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا۔

ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بی جے پی اور آر ایس ایس نے پوری بھارتی ریاست پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس اعتبار سے وہ بعینہ ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی کی قائم کردہ مثال کی تقلید کر رہے ہیں۔ نازی پارٹی مسندِ اقتدار تک جمہوری الیکشنز کے ذریعے پہنچی، بالکل بی جے پی کی طرح۔ایک بار ایوانِ اقتدار میں پہنچنے کے بعد انہوں نے منظّم انداز میں نازی فکر و نظریہ حکومتی مشینری میں متعارف کرایا اور مستحکم کیا، اور یہی وہ کام ہے جو بی جے پی کر رہی ہے۔ بی جے پی نے ہندُتوا کا ایجنڈا ثقافتی اور تعلیمی حلقوں میں نافذ کر دیا ہے (مثلاً تعلیمی نصابوں میں )۔ اور ۲۰۱۹ء میں بی جے پی اور مودی کا ۲۰۱۴ء سے بھی زیادہ بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہونا ثابت کرتا ہے کہ ہندؤوں کی اکثریت ہندُتوا کی حمایت کرتی ہے، اسی طرح جیسے جرمنوں کی اکثریت نازیوں کی حامی تھی۔ پھر بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنا، جس کے تحت جموں و کشمیر کو خاص حیثیت حاصل تھی، سی اے اے کو پاس کرنا ، مساجد پر منظّم حملے کرنا اور یہ دعوے کرنا کہ وہ درحقیقت مندر تھے، اور سڑکوں پر بڑھتا ہوا تشدد……یہ سب ہندُتوا کے خواب، اکھنڈ بھارت کی تشکیل ، کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم ہیں۔ اور یہ سلسلہ مستقبل میں مزید بڑھتا اور پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

آخر میں یہ بھی دیکھیے کہ اطالوی فاشسٹ اور جرمن نازی، دونوں توسیع پسندانہ نظریات کے حامل تھے۔ مسولینی ان علاقوں پر قابض ہونا چاہتا تھا جو اس کے بقول ’تاریخی اعتبار سے اطالوی قوم کا ورثہ تھے‘۔ ہٹلر دوسری اقوام سے منسوب علاقے فتح کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جرمن برترقوم کو رہنے اور جینے کے لیے مزید زمین کی ضرورت تھی۔ اکھنڈ بھارت کے ہندُتوائی خواب میں اس فکر کی پرچھائیاں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ مسولینی نے البانیہ، یونان، لیبیا، اریٹیریا اور صومالیہ میں فوجی مہمات شروع کیں اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی حصّہ لیا۔ جبکہ ہٹلر کے توسیع پسندانہ عزائم نے اسے جنگِ عظیم دوم چھیڑنے پر مجبور کر دیا۔ نجانے اکھنڈ بھارت کا یہ خواب کیسی جنگوں پر منتج ہو گا اور اپنے ساتھ کیسے مصائب و آلام لائے گا؟!

ایک بار پھر میں قارئین کو یہ یاد دلاتا چلوں، کہ ہمارا یہ تجزیہ کسی وہم، مبالغہ آمیزی یا حقیقت سے دور نظریات پر مشتمل نہیں، بلکہ یہ تاریخی شواہد پر مبنی ہے اور ان واضح و بیّن دلائل کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہےجن کا ہندُتوا تحریک کے افعال و کردار میں مشاہدہ کیا گیا۔

عزت و بقا کا سوال

سو ہندوستان میں مستقبل اپنے دامن میں مسلمانوں کے لیے کیا لیے ہوئے ہے؟ گزشتہ تمام بحث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانانِ ہند کو ابھی مزید جارحیت کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان کے دین، عزت اور زندگیوں پر حملے جاری رہیں گے۔ ہندُتوا تحریک میں ابھی وہ شدت و انتہا پسندی کی جانب مزید بڑھتا ہوا رجحان دیکھیں گے۔میڈیا مسلمانوں کی جانب مزید نفرت انگیز اور ہندُتوائی جارحیت کا مزید قدر دان ہو جائے گا۔ عدلیہ و انتظامیہ تحریکِ ہندُتوا کے ساتھ مزید یک جان ہو جائے گی۔ پولیس آر ایس ایس، بجرنگ دَل اور ویشو ہندو پرشاد کے غنڈوں کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھے گی اور مجموعی طور پر مسلمانوں پر تشدد و تعقیب کے سلسلے اور شدت میں اضافہ ہو گا۔ بالخصوص جیسے جیسے بھارت عالمی معاشی تنزل کے اثرات محسوس کرے گا، اس رجحان میں اضافہ ہو گا۔

لہٰذا اپنی عزت کی حفاظت اور اپنی بقا کے لیے ، مسلمانانِ ہند کو اس جارحیت سے خود نمٹنا ہو گا۔ انہیں چاہیے کہ وہ مقامی سطح پر اکٹھے اور متحد ہوں، اور قومی سطح پر ہندُتوا کی جارحیت سے اپنا تحفظ کریں۔ہندُتوا تحریک اپنی مسلّح تنظیموں کے ذریعے ان پر حملے کرے گی اور پولیس انہیں نہیں روکے گی، لہٰذا ہند کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے حملوں کو روکنے کے لیے کسی درجے میں اپنی دفاعی صلاحیت پیدا کریں۔

یہ اتنا ہی سادہ معاملہ ہے۔ ہر وہ دن جو آئین و دستور اور قومی ضمیر سے اپیلیں کرتا گزرتا ہے، وہ محض وقت کا ضیاع ثابت ہوتا ہے۔ ہر وہ لمحہ جو شہری حقوق اور آزادیٔ اظہارِ رائے طلب کرنے میں صرف ہوتا ہے، اس کا بہتر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ جسمانی طور پر اپنا، اپنی خواتین اور اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ہر وہ قائد اور تحریک جو اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتی یا اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہے، صاف بات یہ ہے کہ وہ قیادت کی اہل ہی نہیں۔

ظاہر ہے یہ وہ واحد رخ نہیں جس پر مسلمانوں کو محنت کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں عالمی سطح پر ہندوستان میں مسلمانوں کی صورتحال سے آگاہی پیدا کرنے اور پھیلانے کی بھی ضرورت ہے، بالخصوص مسلم دنیا میں۔ انہیں ایسی مضبوط معاشرتی تنظیمیں بنانے اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جو مسلمانوں میں وحدت پیدا کریں اور ان کی رہنمائی کریں۔ انہیں اسلام کی سچی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور سیکولرازم، لبرل ازم اور آئین و دستور جیسے بتوں کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے رخ اور راستے ہیں جن کو اپنانے پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ مگر اس مضمون میں ہمارا موضوع فوری کرنے والے، مختصر المیعاد اقدامات ہیں، کہ طویل المیعاد اقدامات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک علیحدہ مضمون درکار ہے۔ لیکن جسمانی طور پہ اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا وہ چیز ہے جو بالآخر بقا و فنا میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی، واللہ اعلم بالصواب۔

تتمہ

یہ ہندُتوا تحریک کے اپنے قائدین ہیں جو ہندوستان کی صورتحال کو بنا بریک کے ایک بگٹٹ بھاگتی ہوئی گاڑی سے تشبیہ دے رہے ہیں اور اکھنڈ بھارت کی خیالی و افسانوی ریاست کے قیام کے لیے اپنی انتھک کوششوں کا کھلے عام اقرار کر رہے ہیں۔ ہندُتوا تحریک ایک ایسی سٹریٹجی پر عمل پیرا ہے جو بہت باریک بینی سے اٹلی کی فاشسٹ تحریک اور جرمنی کے نازیوں کی قائم کردہ مثالوں کا عکس ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ یہ راستہ لا محالہ جنگ کے شعلوں کو بھڑکاتا ہے۔ ہندُتوا تحریک آج ایک ایسا الاؤ بھڑکا رہی ہے جسے کل وہ خود بھی قابو کرنے سے قاصر ہو گی۔ وہ جارحیت کا ایک طوفان بپا کرنا چاہتے ہیں، مسلمانوں کو ناقابلِ بیان اذیت و آلام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں، مگر جس تباہی و بربادی کا گڑھا وہ تیار کر رہے ہیں، خود بھی اس میں گرنے سے نہ بچ سکیں گے۔

آخر میں ، میں قارئین کو اللہ عز و جل کی دو آیات یاد کراؤں گا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ۝ (سورۃ الحج: ۳۹)

’ ’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے ( کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘

اور اللہ جلّ شانہ نے فرمایا:

لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُون۝ (سورۃ المجادلۃ: ۲۲)

’’ جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ان سے دوستی رکھتے ہوں، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا ہے، اور اپنی روح سے ان کی مدد کی ہے، اور انہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں۔ یہ اللہ کا گروہ ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔ ‘‘

٭٭٭٭٭

Previous Post

ہِندُتْوا کیا ہے ؟ | چوتھی قسط

Next Post

مولانا عبدالرشید غازی شہیؒد کا علمائے کرام کی مجلس میں خطاب

Related Posts

مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | ساتویں قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
Next Post

مولانا عبدالرشید غازی شہیؒد کا علمائے کرام کی مجلس میں خطاب

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version