برطانوی وزیراعظم گلاڈسٹون Gladstone نے ۱۸۸۶ء میں اپنے ہاؤس آف کامنز(ایوانِ زیریں) میں کھڑے ہوکر ایک بیان دیا ۔ یہ بیان اہم تھا، اس لیے کہ یہ امت مسلمہ کے خلاف جاری ان کی جنگ کی شرمناک حکمت عملی واضح کر رہاتھا ۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ عالم ِاسلام کے ایک بڑے حصے پر ابھی براہ راست قابض تھا اور خلافت ِعثمانیہ کے حصے بخرے کرنے اور اس کی جگہ مشرق وسطیٰ میں چھوٹی چھوٹی اپنی غلام بادشاہتیں تشکیل دینے اور عالم اسلام کے قلب قبلہ اول مسجد اقصی کی زمین پر اسرائیل کی یہودی ریاست قائم کرنے کی اپنی شیطانی مہم کابھی چند سال بعداس نے آغاز کرناتھا، گلاڈ سٹون نے مصحفِ قرآنی ہاتھ میں اٹھایا اور اراکین ِ پارلیمنٹ کے سامنے اسے لہراتے ہوئے کہا:
’’ جب تک یہ کتاب مسلمانوں کےپاس موجود ہو گی، نہ ہم ان پر حکومت کرسکتے ہیں اور نہ ہی خود ہم اپنے ممالک میں کبھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔یا تو یہ (قرآن) ہمیں ان سے چھیننا ہوگا اور اگر یہ مشکل ہو تو اس کے ساتھ ان کے تعلق کوہمیں ختم کرنا ہوگا۔‘‘1
قرآن عظیم الشان چونکہ وہ رسی ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے امتِ محمد ﷺ کی نجات کے لیے سات آسمان اوپر سے اتاری ہے اور یہ اللہ کی وہ محفوظ کتاب عظیم ہے جو انسانیت کو ہرشرک ، ہر بدی اور ہر ظلم کے خلاف صف بستہ کرتی ہے ، اس لیے یہ ہر دورمیں اُن بدفطرت لوگوں کے نشانے پر رہی ہے جو دین فطرت کے مقابل کھڑے نفس و شیطان کی بندگی کرتے ہیں۔ مگریہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس کتاب کو نہ تو امت مسلمہ سے چھینا جاسکتاہے اور نہ ہی کوئی مائی کالال اس میں تحریف کرسکتاہے، اس لیے کہ اس کی حفاظت کا وعدہ خود رب کائنات نے کیا ہے۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کااعلان ہے: ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴾2 رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو خوش خبری دی ہے کہ وقت کی کوئی آفت اس کتاب عظیم کو نقصان نہیں پہنچا پائے گی ۔فرمایا: اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کافرمان ہے’’وَأَنْزَلْتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لاَ يَغْسِلُهُ الْمَاءُ’’3۔ یہ اس کتابِ عظیم کا پوری دنیا کے سامنے چیلنج ہے جو پچھلے چودہ سو سال سے یہ دیتی آرہی ہےاور اللہ کے دشمنوں کی خود اپنی تاریخ بھی انہیں بتاتی ہے کہ اس کتاب کو امت مسلمہ سے چھیننےیا اس میں تحریف کرنے کا ہر منصوبہ اور ہر سازش ناکامی کا منہ دیکھ کر خود ان دشمنوں ہی کی رسوائی پر منتج ہوئی ہے۔
حقیقت جب یہ ہے تو پھر مخلوق ِ خدا کی گمراہی ، ان کے استحصال اور ان پر ظلم روا رکھنے میں ہی جن شیاطین کا مفاد چلا آرہاہے ، ان کے پاس اپنی سرکشی جاری رکھنےکا بس ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو ہی اتنا بگاڑ ڈالا جائے اور اس قدر دین بے زار بنا دیا جائے کہ ان کے دلوں میں قرآن کی محبت ا ور قدر باقی نہ رہے ، نہ وہ اس کے پیغام کوسمجھیں اور نہ ہی اس کے تقاضوں کو پورا کریں ، اوراس کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں فکر ِدنیا کےاسیر و غلام بناکر، اس حد تک کوتاہ نظر ، بلکہ اندھا اور بہرا بنایا جائےکہ پیٹ و شرم گاہ کے تقاضے پورے کرنے کے سوا ان کی زندگی کاکوئی مقصد ہی نہ رہے۔افسوس ہے کہ اس محاذ پر ہمارا دشمن ناکام نہیں رہا بلکہ اسے کامیابیوں پر کامیابیاں مل رہی ہیں۔ آج نوجوانان ِ امت کی ایک بہت بڑی اکثریت زندگی کا مقصد محض روپے پیسے اور لذت ِنفسانی کے حصول کو سمجھتی ہے ، ان کی قیمتی زندگی بے مول بن کر انتہائی فضول کاموں میں رُلتے ہوئے گزرتی چلی جاتی ہے اور یہ خیال انہیں چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ ان کے رب کے بھی ان سے کچھ مطالبے ہیں ، رسول اللہﷺ کی امت کے بھی ان پر کچھ حقوق ہیں اور آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے، پھر اس ایک ایک لمحہ اورایک ایک نعمت کا پوچھا جائے گا۔
۱۹۳۵ ء میں ’ القدس ‘کے نام سے صلیبی مبلغین کی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ کانفرنس کے سربراہ صموئیل زویمر نے عالم اسلام میں ’ تبلیغی مہمات(مشنری مہمات)‘ انجام دینے والوں کو مخاطب کرکے کہا :
’’میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ کی محنت سے اب عالم اسلام میں ایک ایسی نسل تیار ہوچکی ہے جس کا اللہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ اس تعلق کو پہچانتی ہے،بلکہ وہ چاہتی بھی نہیں ہے کہ اس تعلق کو پہچانے۔ آج آپ کی ان کوششوں کا ثمر اس صورت میں نظر آرہا ہے کہ ہم استعمار کو عالم اسلام میں جس پود کی ضرورت تھی وہ اب تیار ہے۔ یہ ایسی نسل ہے کہ جس کے دل و ذہن میں کوئی عظیم مقصد نہیں۔ اسے بس عیاشی اور کاہلی پسند ہے اور یہ دنیا میں اگر کوئی مشقت اٹھاتی بھی ہے تو اس کا مقصد محض شہوات کی تکمیل ہوتاہے۔ اسی کے لیے یہ تعلیم حاصل کرتی ہے اور اسی کے لیے یہ مال کماتی اور خرچ کرتی ہے۔‘‘4
صموئیل زویمر نے سو سال پہلے جس نسل کو تیار ہوتے دیکھ کر خوشی منائی تھی ، بعد میں اسی نسل کو عالم اسلام کی زمام کار سونپی گئی۔یہ حکمران بھی بنے ، جرنیل بھی ،بیوروکریٹ بھی، قانون دان بھی ، ماہرین تعلیم وتربیت بھی اور میڈیا کی ’انڈسٹری‘ تو ہے ہی ان کی ملکیتِ خاص۔ اس نے پھر اپنے آقاؤں کے اوامر و رہنمائی میں اس اسلام مخالف جنگ کو آگے بڑھایا ، مغربی تہذیب کو یہاں رائج کیااور اسی کے بدلے سندِ حکمرانی ، ترقی اور مراعات وصول کیں۔ مقصد اہل ایمان کو ایمان وحیاسے محروم کرنا تھااور ان کی فطر ت بگاڑکر ایسے ’وَھن‘ میں مبتلاکرنا تھا کہ ان کی نظر پست اور مقاصد بہت حقیر بن جائیں ۔ تعلیم و میڈیابھی استعمال ہوا ، منصب ، عہدہ اور پیسہ بھی اور ……بندوق ، بارود ،ڈنڈا اور جیل بھی ۔برَّصغیر سے عالم عرب اور افریقہ تک ہرجگہ کی یہی ایک کہانی ہے ، عالم اسلام کا کوئی ایک خطہ ایسا نہیں رہا جہاں اہل اسلام کے خلاف یہ جنگ نہیں لڑی گئی ہواور آج خال ہی ایسی کوئی زمین یا معاشرہ ہوگا جہاں اس جنگ کا کڑوا پھل امت ِ مسلمہ کی غلامی ورسوائی کی صورت میں چکھا نہیں جارہا ہو۔
یوں تو پورا عالم اسلام ہی کفارِ عالم کی بالواسطہ اور بلاواسطہ جنگ سے چُور چُور ہےمگر مشرق ِ وسطیٰ5 اس جنگ کا ایک طرح سے مرکز رہاہے ، یہاں چونکہ اسلام کا سورج طلوع ہوا ، امت ِ توحید کا یہ قلب ہے کہ یہاں اس کے دینی وروحانی مراکز ہیں اور یہاں ہی چونکہ بالآخر اس جنگ کی ہار جیت کا حتمی فیصلہ بھی ہونا ہے ، اس لیے ضروری تھا کہ یہاں پر عسکری ، سیاسی ، تہذیبی ا ور معاشرتی طورپر ان کا قبضہ مستحکم ہوجائے اوربالآخر اِدھر ہی پھر اسلام کی جڑ پرایسا کاری وار ہو کہ اس امت میں اسلام ہی (نعوذباللہ ) باقی نہ رہے۔
اس جنگ کا ایک مرحلہ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے اور مسجدِ اقصی کی سرزمین پر اسرائیل کے قیام کا تھا، یہ 1948ء میں کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ دوسرا مرحلہ جہاں اسرائیل کی تقویت، استحکام ، پھیلاؤ اور مکمل گرفت کا تھا ، وہاں ساتھ ہی اس کا اہم ترین ہدف عالم ِ عرب کومعاشرتی و اخلاقی طورپراندر سے کھوکھلا کرنا اور عوام کو کسی قسم کی سنجیدہ مزاحمت کے قابل نہ چھوڑنا تھا۔اس مقصد میں جہاں صہیونی اسرائیل اور صلیبی امریکہ و یورپ سو فیصد ساتھ بلکہ مکمل طورپرایک تھے اور عسکری ، سیاسی اور معاشی طورپر اس نقشے میں رنگ بھر رہے تھے ، وہاں ساتھ ہی عالم عرب پران کے مسلط کردہ حکمران (جنہیں ’صہیونی عرب ‘ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ) داخلی طورپر اس شیطانی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے …… بس اس مرحلے میں کردار کی نوعیت منفرد تھی، چہروں پر اسلام کا نقاب پہن کر غاصب یہود کی مخالفت کی جارہی تھی اور ارض ِ قدس کو آزادی دلانے جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے مگر حقیقت میں اہل اسلام سے اسلام چھیننے اور انہیں یہودیوں ہی کے تابع و غلام بنانے کی کوششیں ہورہی تھیں اور اس کردار پر ہی یہ اپنی بادشاہتوں کو قائم رہنے دینے کی سند حاصل کر رہے تھے۔ اب جب یہ مرحلہ بھی اپنے اہداف حاصل کرچکا ،فلسطین پر قبضۂ یہود مستحکم ہوچکا اور عالم عرب میں کسی بڑی ایسی سیاسی و عسکری قوت کے ابھرنے کا امکان نہیں رہا جو ان کو سنجیدہ طورپر چیلنج کرسکے تو اب تیسرے اور انتہائی حساس مرحلے میں یہ جنگ داخل ہوچکی ہے ، اس مرحلے میں ممکنہ ہر قسم کے خطرات کو بالکل بنیاد سے ختم کرنا اور پورے کے پورے عرب معاشرے کو اپنے صہیونی ایجنڈے میں مکمل طورپر سہولت کار و آلۂ کار بنانا اب ہدف بن گیاہے۔
اس مرحلے کا تقاضہ تھا کہ حکمران طبقہ اپنے نفاق کو بے نقاب کردے اور عوام سے کھلم کھلا ایسی حرکتیں کروائے کہ جن کے بعد پورے کا پورا معاشرہ باقاعدہ ننگا ہوکر ناچتے گاتے اسلامی شعائر، قرآنی تعلیمات اور اخلاقی قدغنوں سے آزادی کا مظاہرہ کرے اور علی الاعلان ہراُس عقیدے ، نظریے اور عمل کا باغی بن جائے جو انہیں شیطان کی نظر میں مبغوض اور رحمان کی نظر میں محبوب بناتاہو۔ آج بھی چونکہ عوام میں کسی درجے میں روایتی دین داری پائی جاتی ہے ، کتاب اللہ سے محبت، اسلامی شعائر کا تقدس ، صوم وصلاۃ کی پابندی اور بڑی حد تک عفت وحیا موجود ہے اوریہ حقیقت ہے کہ جب تک یہ چیزیں موجود ہوں تو دین کے ساتھ ایسا تعلق قائم رہتاہےجوکسی بھی وقت شعورِ دین کے حصول کا ذریعہ بن سکتاہے اور جو آگے اللہ کی خاطر دوستی و دشمنی کی صورت ڈھال سکتاہے اور اسی سے ہی پھر دین کی خاطر اٹھنے اور ٹکرانے کا جذبہ بھی پیداہوسکتاہے ،اس لیے اس تیسرے مرحلے میں معاشرے سے اس کی دین داری جڑوں سمیت اکھاڑ پھینکنا اب صلیبی صہیونی ہدف تھا اور خاص اسی کے لیے عرصۂ دراز تک ’خادمین حرمین شریفین ‘ کہلوانے والے صہیونی آج ایک ثقافتی ’انقلاب ‘ برپا کر رہے ہیں اور وژن ۲۰۳۰ کے نام سے جزیرۂ عرب کو ایمان و حیا سے عاری یورپ میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی پربغیر کسی خوف و حیا کے عمل ہورہا ہے……اس تیسرے مرحلے میں اگریہ کامیاب ہوجائیں تو پھر چوتھے اور آخری مرحلے کو شروع کرنے اور اپنے انجام تک پہنچانے میں ان کے نزدیک انہیں زمین پر کوئی ڈر اور خوف باقی نہیں رہے گا اور بڑے اطمینان سے یہ اُس آخری مرحلے کو بھی سر کر لیں گے ۔ یہ چوتھا وآخری مرحلہ کیاہے؟ یہ وہ منصوبہ ہے کہ جس میں (خاکم بدہن ) قبلۂ اول مسجد اقصیٰ کی عمارت مسمار کرکے اس کی جگہ اپنا ہیکل(صومعہ) کھڑا کرنا اور نیل سے فرات تک عظیم تر یہودی ریاست قائم کرنا ہے، عسکری و سیاسی طور پران کا تسلط تواگرچہ تیسرے مرحلے کے آغاز میں بھی قائم تھا، مگر ’ثقافتی انقلاب‘کے بعد چونکہ مقدسات دینیہ کی اہانت اور ان کی تباہی سے اسلام کی جڑوں پر کاری ضربیں (خاکم بدہن)لگ چکی ہوں گی ، اس لیے اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دلوں کے اندر اسلام کی عظمت اور اس کی خاطر کسی قسم کی غیرت اور قربانی کا جذبہ بھی باقی نہیں رہ چکا ہوگا ، یوں بالآخر پورے عالم پر ان کا یہودی دجالی نظام قائم ہوجائےگا اور کہیں بھی اس شیطانی نظام کو چیلنج کرنے والاموجود نہیں رہے گا……
یہ وہ شیطانی اور دجالی منصوبہ ہے جو اب اپنے تیسرے مرحلے میں داخل ہے جبکہ اس میں کامیاب ہونے اور پھر خطرناک ترین چوتھے مرحلے میں قدم رکھنے کے لیے جنودِ دجال بےتاب ہیں ۔ امریکہ، برطانیہ وفرانس کی خصوصی نگرانی میں عربی عباؤں میں چھپے یہ صہیونی شیاطین بڑی تیزی کے ساتھ اس منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں ……گویا گلاڈسٹون اور زویمر کے(مغربی ) جانشین پورے عالم عرب اور ساری کی ساری امت ِ مسلمہ کو اُس (غلام )نسل میں ضم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں جس کی بے حسی ، غداری اور آخری حد تک نفس پرستی کے باعث آج جزیرۂ عرب کی حرمت پامال ہورہی ہے اور یہود ونصاریٰ تک کو حرم پاک کی زمین پر دندناتے اور فساد پھیلاتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہورہاہے۔
مگر کیا یہ شیاطین کامیاب ہوجائیں گے؟ یہ اپنے اہداف حاصل کرلیں گے؟ حکومتی ایوانوں ، تجارتی مراکز، گلی کوچوں، تفریح گاہوں ، تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر ہرجگہ یہ بندگان ِ شیطان فتح کے جھنڈے گاڑے جارہے ہیں اور لگ رہاہے کہ مشرقِ وسطیٰ ،جزیرۂ عرب اور پھر پورے عالمِ اسلام میں نوجوانان ِامت، مردو زن بانہوں میں بانہیں ڈال کر خود ہی احکامات ِ الٰہی کے خلاف بغاوت کرنے نکلیں گے اور اسلام کے خلاف اعدائےاسلام کے سپاہی وغلام بن کر اللہ کے غضب کو دعوت دیں گے ،گویا تیسرا مرحلہ سر کرتے ہوئے اب کچھ زیادہ عرصہ نہیں لگے گا اور ……اس کے بعد کیاہوگا؟ اس بارے محض سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل حلق میں آجاتاہے۔
مگر کیا حقیقت یہی ہے؟ کیا واقعی ان شیاطین کو اب نہ قرآن کا خوف ہے اور نہ اس امتِ قرآن سے کوئی ڈر؟ کیا انہیں یقین ہے کہ قرآن اب بے اثر ہوگا، بے اثر رہے گا اور ان کے ظلم و طغیان کے خلاف اہلِ ایمان کی طرف سے کوئی مزاحمت اب کبھی کامیاب نہیں ہوپائے گی ؟ نہیں،ایسا نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے بگاڑنے کی ان کی ان تھک کوششوں اور جامع منصوبوں میں اگر چہ کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے ، اللہ نے انہیں ہر وسیلہ ،ہرقوت اور ہرہتھیار عطا کیا ہے مگر اس سب کے باوجود قرآن کی تاثیر ، اس کا زندہ پن اور مُردہ دلوں کو زندہ کرنے کی اس کی طاقت آج بھی کل کی طرح بالکل تازہ ہے اور انہیں کھلی آنکھوں سے نظر آرہاہے کہ انتہائی گیا گزرا ایسا معاشرہ جو مکمل بگاڑاور ایما ن وحیا کے لحاظ سے بالکل مردہ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرچکاہو ، وہاں تک سے بھی ایسے نوجوان اٹھ رہےہیں جو صرف اللہ کے سامنے جھکتے ہیں، اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے مرتے ہیں اور جو اس غلیظ تہذیب سے سراپا باغی بن کر عفت وپاک بازی کے داعی بن جاتے ہیں ، انہیں نظرآرہاہے کہ دنیا کو جس آگ میں انہوں نے دھکیلا ہے ، اسے بجھانے کے لیے اب بھی ایسے اہل ایمان پیدا ہو رہے ہیں جو دنیا وی زندگی کی چکاچوند پر آخرت کی اَن دیکھی نعمتوں کو ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی خاطر اپنی جان و مال اور اہل عیال کو قربان کرنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں ، وہ سراپا حیرت ہیں کہ تمام تر طاقت استعمال کرکے اور ہر طرح کا میٹھازہر کھلا کر بھی یہ امت مردہ نہیں ہوئی ، اس میں قرآن کی محبت ختم نہیں ہوسکی اوراس میں اپنے مبادی کے ساتھ چمٹنے ، ان پراٹھنے اور کھڑا رہنے کا شرارہ آج بھی کسی طرح نہیں بجھاہے ۔ وہ دیکھ بھی رہے ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں کہ ان کے خلاف آج بھی امتِ توحید کے کچھ لشکر اپنے جسموں سے بم باندھ کر جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ان کے جہاد ِ فی سبیل اللہ کا ہی ثمرہ ہے کہ افغانستان میں فتح و شکست کے ان کے مادی پیمانے بالکل ناکام ثابت ہوئے اور اگرچہ انہوں نے آخری حد تک اپنی جان لگالی ، ساری قوت و وسائل استعمال کیے مگر اس سب کے باوجود نہتے ، کمزور اور انتہائی قلیل التعداد فریق کے ہاتھوں دنیا نے اس طاقت ورترین فریق کے پِٹنے کا نظارہ کیا اور دنیا کی سپر پاور ،تمام تر اتحادیوں ، غلاموں اور اعلیٰ ترین ٹیکنا لوجی سمیت ذلیل و رسوا ہوئی اور آج افغانستان میں اُن مجاہدین کی ایک دفعہ پھر اسلامی حکومت قائم ہے جن کوبائیس سال پہلے امریکی صدر نے صرف چند گھنٹوں کےاندر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔
یہ وہ صورتِ حال ہے جو انہیں پریشان کرنے والی ہے اور اس کے باعث انہیں اپنے لمبے چوڑے منصوبوں پر یقین بے یقینی میں تبدیل ہونے لگتاہےاور جب یہ اس کے اسباب ڈھونڈنے جاتے ہیں تو انہیں نظر آتاہے کہ اسلام میں اس حیران کن کشش اور انتہائی عظیم طاقت کا سبب اوراہل اسلام کی طرف سے اس ساری مزاحمت اور نہ مٹنے اور نہ ختم ہونے والی تحریک کامحرک و محرض ……قرآن ِ عظیم الشان اور رسول اللہﷺ کی ذات اقدس ہے …… تواس کے بعد عدل وانصاف تو یہ تھا……حق تو یہ بنتا تھا کہ یہ قرآن کو ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ پڑھتے، سمجھتے اور اس کی عظمت اور قلب وذہن کو متاثر کرنے والی غیرمعمولی قوت کے قائل ہوکر اس کے سامنے جھک جاتے ، رسول اللہﷺ کی شان اقدس کو پہچانتے اور آپ ﷺ کے خیرالبشر ہونے کااعتراف کرتے … …مگر ظاہر ہے اس موقف کے لیے اخلاقی بلندی چاہیے ،یہ حیوانیت سے اٹھ کر مرتبہ انسانیت پر سرفراز ہونے کا تقاضہ کرتاہے اور یہ وہ گوہر ہیں جو مغرب کی شہوات پر کھڑی تہذیب میں مشکل سے ملا کرتےہیں، اس لیے یہ حق کے سامنے جھکنے کی بجائے اس کا انکار کرکے ضد ، تکبر ا ور جہالت پر اترآتے ہیں اور ان میں سے بعض پھر اُن جرائمِ عظیمہ تک کا بھی ارتکاب کرجاتے ہیں کہ جن سے بڑھ کر قبیح ، ذلیل اورخطرناک جرم دنیا میں کوئی نہیں ہے۔قرآن عظیم الشان کی بے حرمتی اور رسول اقدس ﷺ کی شان میں گستاخی ایسے جرائم ہیں کہ کسی بھی قلب و عقل رکھنے والے انسان کے لیے ان کا ارتکاب تو بہت دور کی بات ہے، انہیں اپنے سامنے ہوتاہوا دیکھنا بھی ناممکن ہے6 ۔ اس لیے کہ یہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ، اپنے خالق ، اپنے رب اور اپنے مالک کی احسان فراموشی ہے، خود اپنے انسان ہونے کی ناقدری اور ناشناسی ہے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے مقابل ایسی خطرناک ڈھٹائی ہے کہ والعیاذ باللہ اس کے شر سے اللہ نہ کرے آسمان شق اور زمین پھٹ جائے۔
ان حرکتوں کا مقصد اسلام و مسلمانوں کے خلاف غصہ نکالنا اور اپنی شیطانی نفرت و حسد دکھانا بھی ہے مگر محض یہ مقصد ان کاقطعاً نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں ان حرکتوں کو چند غیرذمہ دار ، بےعقل اور شیطان صفت افراد کے ذاتی افعال سمجھنا چاہیے۔ اس لیے کہ جب بھی کوئی شیطان اس جرم کا مرتکب ہوا تو پورے کا پورا مغرب اس کی تائید و حمایت میں کھڑا ہوا،کیاحکمران اور کیاعوام ، سیاست دان ، دانش ور اور ’حقوق انسانی ‘ کی دعویٰ دار تنظیمیں ، سب نے اس فعل ِقبیح کو ’ آزادی ٔاظہار رائے ‘کا نام دےکر اُس جرم کو سراہااوراس بدطینت کو شاباش دی ، پارلیمنٹ سے اس کی تائید میں قراردادیں پاس ہوئیں ،اُس شیطان کی حفاظت کے لیے سکیورٹی اسے دی گئی اور حکومتی القابات واعلیٰ ایوارڈز سے اُسے نواز کر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔اگروہ شقی القلب کسی مسلمان ملک کا باشندہ تھا تو مغرب نے تمام تر قوت وذرائع لگاکر اس کو اس کی سزا سے بچایا، خصوصی اہتمام سے اُس ملک سے اُسے نکالا اور اپنے ممالک کی شہریت دےکر اسے انعام واکرام کے ساتھ اپنے ہاں بسایا ۔ 7
سچ تو یہ ہے کہ جس عمل کو یہ بدعقل ’آزادی ٔ اظہارِ رائے ‘بتا رہے ہیں ،وہ شیاطین کو شیطانیت کے اظہار بلکہ دوسروں پر مسلط کرنے کی آزادی ہے اور وہ بھی ایسی شیطانیت ہے کہ جس کو برداشت کرنا پوری انسانیت کی تذلیل، تحقیر اور تباہی ہے۔حالانکہ خود ان کا اصول ہے کہ جس آزادی سے دوسروں کے حقوق سلب ہوتے ہوں یا دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو وہ آزادی نہیں ، جارحیت ہے اور ایسے میں ان کے نام نہاد ’ حقوق انسانی ‘ ہی کا تقاضہ ہوتاہے کہ ایسی جارحیت کی کسی قیمت پر اجازت نہ دی جائے ،گویا اظہارِ رائے کو ان کے ہاں بھی مطلق آزادی حاصل نہیں، بلکہ کئی امور ایسے ہیں کہ ان پر زبان کھولنا قانوناً جرم ہے،یہودکے گھڑے گئے جھوٹ کو اگر کوئی جھوٹ کہے تو اس کی جان بخشی ممکن نہیں، جمہوریت ، پارلیمنٹ اور عدالت کے خلاف اگرکوئی کچھ بولے تو ان بتوں کی حرمت پامال کرنے کا وہ مجرم قرار پائے گا ۔ مگر جب اللہ کی کتاب ِ عظیم اور رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس کا معاملہ آتاہے تواس متعلق ان کے ہاں قول و عمل کی لامحدود آزادی ہے، چاہے اس’آزادی ‘ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی شان عظیم میں گستاخی ہو اور سوا ارب انسانوں کے دلوں پر اس سے خنجر چلیں اور ان کی روحیں تڑپیں 8۔
اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اللہ کے دین اور مسلمانوں کے ایمان پر رکیک حملوں کی آزادی ہے اور یوں یہ یہ حقیقت بھی بتاتاہے کہ ایسے جرائم کا ایک اہم مقصد مسلمانوں کے دلوں سے قرآن ِ عظیم الشان کی محبت و تقدس نکالنا ہے۔ان خام خیالوں ، بلکہ شیطان خیالوں کا خیال ہے کہ جس طرح ان کے ہاں دین کی قدر نہیں اور خواہشات نفس و شیطانی خیالات ہی بس ان کے ہاں قابل احترام ہیں ،اسی طرح یہ اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کے دلوں سے ان کی عزت وعظمت نکال باہر کریں گے اور یوں اس سے مسلمانوں کو قرآن عظیم الشان سے دور کرنے کا وہ دیرینہ مقصد بھی یہ پورا کرلیں گے جو ان کی صلیبی صہیونی جنگ کا روزِ اول سے اہم ترین مقصد رہاہے ۔ گویا یہ ایک جنگی حربہ ہے اور اگرچہ اللہ کے فضل سے ان کی یہ چالیں انہی کے اوپر پلٹتی ہیں اور جس کلمہ گو کے دل میں بھی تھوڑا ساایمان باقی ہو ، وہ اس عمل ِ قبیح پر خاموش نہیں رہتا اور اسے الٹا مقدسات ِ دینیہ کے دفاع اور ان کی خاطر اٹھنے اور ان بزدلوں سے ٹکرانے کی فکر ہونے لگتی ہے ،مگر یہ شیاطین سمجھتے ہیں کہ اس فعل کو باربار کرنے سے اہل ایمان کو ایمان سے محروم کرنے کا مقصد بالآخر یہ حاصل کرلیں گے،اب یہ مقصد کتنا وہ حاصل کرلیں گے؟ یہ الگ بات ہے مگر یہ حرکتیں اور مغرب میں ان حرکتوں کی تائید و دفاع دکھاتاہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں اہل کفر کس حد تک سنجیدہ ہیں،اس میں یہ کس بدترین اور نیچ ترین سطح تک جاسکتے ہیں اورکیسے اس جنگ میں کسی ایک بھی ایسے حربے و ہتھیار کو نہیں چھوڑ ا جارہاہے جس کے کارآمد ہونے کی انہیں اعشاریہ صفرصفر ایک فیصد بھی امید ہو۔
غرض قرآن عظیم الشان کی بے حرمتی جیسے جرائم کوان کے اس پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے اور جس صلیبی صہیونی جنگ میں بطورِ حربہ یہ استعمال ہورہے ہیں ،ضروری ہے کہ اس جنگ کا اس لحاظ سے صحیح فہم بھی ہمیں حاصل ہو کہ اس میں اسلام کاراستہ روکنے اور اہل ایمان سے ان کا ایمان چھیننے کے لیے اور کیا کیا ہتھیار استعمال ہورہے ہیں؟ پھر اہم یہ کہ اس میں کون اسلام و اہل اسلام کے دفاع میں کھڑا ہے اور ہمارے اپنوں ہی میں سے کون اسلام دشمنوں کے ساتھ صف میں کھڑا ان ہی کا کام آسان کررہاہے؟یہاں برصغیر میں یہ جنگ ،اس کا مقصد اور اس میں شامل کردار مشرق وسطی میں لڑی جانے والی جنگ سے بہت کم مختلف ہیں ، یہاں اس کی قیادت پہلے برطانیہ کے پاس تھی جبکہ اب صلیبی امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور مشرق وسطی میں بھی اسی طرح اس کی قیادت منتقل ہوئی ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ اہل اسلام کے خلاف ان کا صلیبی بغض ہے کہ جہاں بھی اسلام و مسلمانوں کے خلاف کوئی برسرجنگ ہو ، یہ ان کی تائیدو امداد اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، فرق اتنا ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کے یہود ہیں اور یہاں ہندوستان کے ہنود ، وہاں امریکہ غلام عرب حکمران ہیں جو اہل ایمان کے دلوں سے ایمان کھرچنا اور اس جنگ کے مقابل مزاحمت ختم کرنا اپنا ہدف ِاول سمجھتے ہیں جبکہ یہاں پاکستان میں یہاں مسلط جرنیلوں اور حکمرانوں کا طبقہ ہے جو اپنی خودغرضی اور نفس پرستی کے باعث روز اول سے اسلام کے خلاف کھڑا ہے اور ایک ایسی جنگ یہ لڑ رہاہے کہ جس کے نتیجے میں یہاں کفریہ نظام غالب ہو ، قوت و اختیار دین بیزار امت کے غداروں کے پاس ہو اور معاشرہ دینی واخلاقی لحاظ سے ایسا کھوکھلاہوکہ اسلام و مسلمانوں کے خلاف جو شب خون مارا جارہاہے اس کے خلاف اٹھنے کے لیے یہاں کوئی قوت ہی نہ بچے ۔ اس جنگ میں ابھی تک جس قدر پیش قدمی ہوچکی ہے اور آگے کا جو نقشہ نظر آرہاہے کوئی بہت سادہ نگاہ سے دیکھنے والا ہی اس حقیقت سے اختلاف کرسکتاہے کہ پاکستانی نظام کو چلانے والے اُسی نقشے میں رنگ بھر رہے ہیں جو عالمی شیاطین نے اہل ایمان کے خلاف بنایا ہے اورجس کا مقصد پوری دنیا میں اسلام کے دشمنوں اور اہل اسلام کے قاتلوں کو تحفظ فراہم کرکے شیطان کا عالمی نظام قائم کرنا ہے ۔
پس یہ صورتِ حال چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ ہم اجتماعی طورپربھی ہدف ہیں ، زمین ہمارے نیچے سے کھینچی جارہی ہے اور انفرادی طورپر بھی ہم نشانے پر ہیں ، ہمارا دین و ایمان ہم سے اور ہماری اولاد سے چھیننے کے لیے ہمارے گھروں اور بیڈروم تک میں بھی ہم محفوظ نہیں ہیں ، اور یہ واضح کرتا ہے کہ اپنے آپ کو اگر حالت ِ جنگ میں نہ سمجھا گیا اور اللہ کو مطلوب طرزِ عمل نہیں اپنایا گیا تو ہماری دنیا تو تباہ ہو ہی رہی ہے ،اللہ نہ کرے کہ آخرت کی بربادی کا بھی سامنا ہو۔ یقیناً ہماری ذلت و رسوائی کا باعث یہ ہے کہ آخرت پر دنیا کوہم نے ترجیح دی ہے اور د نیا اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ حاصل کرنے کی آرزو ہے کہ جس کی وجہ سے آخرت کا چھوٹنا خوشی خوشی تسلیم کیا گیاہے۔ اللہ کی کتاب اس کفر و فساد کے مقابل جس انداز میں اٹھنے اور لڑنے کا حکم دے رہی ہے ، اس کی بجائے اُن راستوں کو نجات و خلاصی کا ذریعہ ہم نے سمجھا ہےجس کی طرف اہل کفر نے ہمیں دھکیلاہے اور جن کے متعلق انہیں یقین ہے کہ ان دائروں میں گھوم کر یہ حق کی خاطر کھڑا ہونا تو دور کی بات حق ہی کے خلاف چلیں گے ، ہماری زبان بولیں گےاور ہماری تہذیب اپناکر وہی کچھ سوچیں گے اور کریں گے جو ہم ان سے امید رکھتے ہیں ۔مصیبت یہ نہیں ہے کہ خارجی دشمن کی تعریف میں کوئی اختلاف ہے، پریشانی یہ ہے کہ اس دشمن کاکام جن داخلی آستین کے سانپوں نے ابھی تک آسان کیا ہے ہم نے ان کو اپنے رہبر و رہنما بلکہ شرعی اولوالأمر کی حیثیت عطا کر رکھی ہے ، ان کی اطاعت کو قومی و دینی مصالح سے تعبیر کیا ہے اور منافقت کے اُن پلندوں کو تقدس فراہم کیاہے جن کا مقصد اللہ کے باغی نظام کو تحفظ فراہم کرنا اور امت ِ محمد ﷺ کے جان و مال اور عقیدے و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو قانونی جواز فراہم کرناہے۔ اللہ کا دین آج سے چودہ سو سال پہلے جن راہوں پر چل کر غالب ہوا تھا، آج اس دین کا ہم سے یہی تقاضہ ہے کہ ہم بس انہی راستوں پر چلیں ،اُن سب راستوں سے بچیں جو ان سے ہٹ کر ہیں اور صرف اس صورت میں ہی ہم دین پر عمل کرکے اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں۔ دین اسلام نے غالب ہونا ہے یا نہیں؟ کفر کے مکروفریب اور سازشیں ناکام ہوں گی یا کامیاب ، یہ ہمارا آپ کا دردِ سر نہیں ، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فرض کو پورا کریں، اللہ کی خاطر کھڑے ہونے والے بن جائیں اور خاص اُسی راستے پر قدم رکھ کر آگے بڑھیں جس پر چلنے اور بڑھنے کا اللہ کے نبی ﷺ کو حکم ہوا تھا۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:﴿ فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ﴾9 جب کفر و فساد کے علم بردار قوت و ہتھیار کے ساتھ اسلام و مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہوں ، تو جواب میں اللہ رب العزت بھی کھڑے ہونے اور اس فتنہ و فساد پر ضرب لگانے کا حکم عطا کرتاہے۔ اللہ امر دیتاہے کہ تمہارا کام اس ظلم وکفر کے خلاف لڑنا ہے اور اس لڑنے کی طرف اہل ایمان کو بلانا ہے، باقی اگر قوت کی کمی کا سامناہے، ان کی قوت و طاقت کے بے حساب ہونے کا تمہیں خدشہ ہے تو جان لو، کفر کی قوت ناکام کرنے اور اس کی جگہ حق کا عَلم بلند کر نے کاکام اللہ کا ہے ، وہ آپ کی سعی و عمل میں برکت ڈالے گا ، وہی آپ کی معمولی قوت کو دشمن پر ایسا بھاری کرے گا کہ باوجود ٹیکنالوجی کی قوت کے، عالمی اتحاد والے دُم دبا کر بھاگیں گے ،پھر یاد رکھیے!قوت و طاقت کا تفاوت ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے ، کفار کو اہل ایمان پر اکثر ہی عددی برتری حاصل رہی ہے اور اس سارے میں مقصود یہ ہوتاہے کہ کون اللہ پر توکل کرکے میدان میں اترتاہے اور کون لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ کہہ کر فرض سے بھاگتاہے،اللہ کی کتاب بتاتی ہے کہ کامیابی بس اُن کو ملتی ہے جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ ہی کی قوت پر بھروسہ کرکے میدان میں اترتے ہیں، ﴿ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾10 فتح و نصرت کا مدار تعداد کی کثرت و قلت اور قوت کی کمی و زیادتی پر نہیں ہے ، یہ خالصتاً اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اللہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ﴿ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴾ 11، مقصود امتحان ہےکہ تم قوت و طاقت سے ڈر کر اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہو ، یا قوت و طاقت دینے والے رب کی طرف متوجہ ہوکر ، اس کے احکامات پر عمل کے لیے تیار ہوجاتے ہو اور جتنی قوت جمع کرسکتے ہو اس کو لےکر دشمن کے آگے کھڑے ہوجاتے ہو، اصل یہ ہے کہ یہ نیت و ارادے کی آزمائش ہے ، مخلص وغیر مخلص ، اللہ سے ڈرنے والے اور مخلوق سے ڈرنے والے کواللہ نے الگ الگ کرنا ہے،ورنہ اللہ کسی کے جہاد کا محتاج نہیں ، وہ رب تنہا واکیلے سب طاقتوں کو زیر کرنے کے لیےکافی ہے۔﴿لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ ﴾12امتحان یہ ہے کہ ہم خالص اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں اور اپنی جان ، مال ، اہل و عیال کی قربانی اس کے دربار میں رکھ کر نصرت کی امید رکھتے ہیں یا کفر کے غلبے سے متاثر ہوکر اُنہی کھلونوں کو چوم کر اٹھاتے ہیں جو عالم ِ کفر نے ہمیں ورغلانے جمہوریت ، قانون اور آئین کے نام دےکر ہمیں تھمائے ہیں اور انہی سے بہلا کر وہ ہمارا دین وایمان ہم سے لے رہاہے اور ہمارے مقدسات تک بھی اپنے غلیظ ہاتھ بڑھا رہاہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو ایسا دانتوں سے پکڑا جائے اور ان پر ایسا عمل کیا جائے جس طرح کہ ان پر عمل کا حکم ہے، پھر کتاب اللہ کو قول و عمل کا محور وبنیاد بناکر اٹھاجائے اور ہر اُس محاذ پر کھڑا ہوا جائے جس پر دشمن بڑھنا چاہتاہے۔داخلی و خارجی ، ملکی و غیر ملکی اور وطنی و غیر وطنی تقسیم کوئی ایسی تقسیم نہیں جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، اصل تقسیم حزب اللہ اور حزب الشیطان کی ہے ، اللہ کی پارٹی اور شیطان کی پارٹی ۔ جو اللہ کے دین پر عمل کررہاہے ،جو اس دین کا عاشق اور علم بردار بن کر اس کے غلبہ کے لیے کھڑا ہے، وہ ہمارا بھائی ہے ، ہماری پارٹی کاہے ، چاہے وہ ہمارے وطن کا نہ ہو ، اس سے محبت ، اس کی تائید، اس کی مددو نصرت ہم اپنے اوپر لازم کرلیں اور جو خدا کے دین کا باغی ہو ، نظامِ کفر کاحامی اور اس کو قائم کرنے والا ہو ،وہ شیطان کا ولی ہے ، اپنے اوپر اس طاغوت کی کسی قسم کی اطاعت و وفاداری کاحق تسلیم نہ کریں ، بلکہ اس سے براءت کرنا اور اس کے ساتھ دشمنی رکھنا اپنے لیے لازم سمجھیں۔ باقی اس دور میں تلوار و ہتھیار سے قتال فرض ہے ، اسی کو فرض سمجھ کر لڑنے والوں کے ساتھ اللہ کی نصرت کے وعدے ہیں اور یہی اللہ کی خاطر لڑنے والے تاقیامت موجود رہیں گے ،آپ ﷺ نے خوش خبری دی ہے کہ یہ گروہ کبھی کوئی ختم نہیں کرسکے گا ، اس کو کوئی مغلوب نہیں کرپائے گا ،یہاں تک کہ عیسی ابن مریم کانزول ہوجائے ۔
لہٰذا کفرو فساد کی ان قوتوں کے خلاف قتال کے لیے میدان میں اترا جائے، داخلی دشمن کے خلاف پہلے لڑا جائے یا خارجی دشمن سے آغاز ہو اور اسی پر ترکیز رکھی جائے، علاقائی جہاد کے مواقع استعمال ہوں یا عالمی جہاد میں ائمۂ کفر پر ضربیں ہوں اور انہیں پہلے تھکایا جائے،دونوں میں تضاد نہیں ، مصالح و مفاسد ، فائدہ و نقصان کا موازنہ کرکے کسی ایک پر دوسرے کوترجیح دینے میں کوئی عیب نہیں ،یوں یہ دونوں طرز ایک دوسرے کو تقویت دیں گے ، ایک، دوسرے کی کمی پورا کرے گا، دشمن تھکے گا اور ایک، دوسرے کے لیے آسانی پیدا کرے گا، اس سے اللہ رب العزت وہ لشکر تشکیل دیں گے اور انہیں زمین پر تمکین ملے گی جنہوں نے کل سب طواغیت کو زیر کرناہے، قبلۂ اول پر اسلام کا پرچم لہرانا ہے اور پوری د نیا میں اللہ کاکلمہ بلند کرنا ہے۔مگراس کے برعکس خارجی دشمن کو برا بھلا کہہ کر اگر داخلی دشمن کے ہاتھ میں اپنی باگ ڈور تھمائی جائے، اس کو اسلام کا حکمران تسلیم کیا جائے ، اسی کی کھینچی گئی لکیروں پر حرکت کی جائے، پھر وہ جس درجہ میں ’اجازت ‘عطا کرے ، اس کا ڈھنڈورا پیٹ کر اسے شرعی اولوالامر بتایاجائے ……تو یہ رویہ غیر شرعی ، غیر منطقی اور غیر عقلی تو ہے ہی، ایک مومن کی شان کے بھی بالکل خلاف ہے،مومن فراستِ ایمانی سے دیکھتاہے ، اس کے دوست و دشمن کا فیصلہ اللہ کا دین کرتاہے اور وہ کبھی ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا۔ پچھلے ستّر اسّی سالوں سے ہم جن سوراخوں سے ڈسے چلے آرہے ہیں ، ضروری ہے کہ ان کے متعلق اب ایک ہی موقف اور ایک طرزِ عمل اپنایا جائے اور اُس سفر کے لیے آگے بڑھا جائے، جس کا تقاضہ اللہ کی شریعت ہم سے کررہی ہے اور جس کا انجام اس امت کی فتح ونصرت ہوگا۔
آخر میں اس سوال کاجواب دینا ضروری ہے کہ اگر چہ یہ ایک طویل جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی مگر اس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ امر ، کتاب اللہ کی بے حرمتی اور شان ِ رسول ﷺ میں گستاخی ہے اور ان جیسےجرائم کی روک تھام بہرحال ضروری ہے۔ایسا کیا کیا جائے کہ شیطان کے یہ بندے ان جرائم سے باز آئیں اور انہیں کبھی ان حربوں کے استعمال کی جرأت نہ ہو؟ اس کا علاج محض احتجاج ، قراردادوں ، مذمتوں میں نہیں ، یہ اقدامات اپنی جگہ بالکل بے فائدہ بھی نہیں، بلکہ مفید ہیں، اس لیے کہ ان جرائم پر پوری امت محمدﷺ کی طرف سے غم وغصہ اور احتجاج و ردعمل کا اظہار ضروری ہے ، اور جو کلمہ گو بھی اس پر کسی بھی انداز میں(دائرۂ شریعت کے اندر ) احتجاج ریکارڈ کراتاہے ، ہمیں اس کا مشکورہونا چاہیے اور ہم ان کے لیے دعا گو ہوں ، اللہ سے امید ہے کہ اس کا کسی سطح پر فائدہ بھی ہوگا،مگر محض ان اقدامات پر تکیہ کرنا کسی بھی طورپر کافی نہیں۔یہ جرائم دیگر تمام جرائم کی نسبت زیادہ قبیح اورزیادہ خطرناک ہیں ، مسلمانوں کا قتل ، اسلامی سرزمین پر قبضہ اور کفر کی دیگر جارحیتیں سب ناقابل برداشت ہیں اور سب کے خلاف کھڑا ہونا ہم پر فرض ہے ،مگر ان جرائم کا درجہ دیگر تمام سے زیادہ بڑا،زیادہ شدید اور زیادہ غلیظ اس لیے ہے کہ یہ سیدھا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی کبریائی اور خدائی کو چیلنج کرنا ہے، یہ براہ راست اہل ایمان کے ایمان پر جارحیت اور ایک صاحب ِ ایمان اور اللہ کے بیچ تعلق پر دست درازی ہے ، اس لیے ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اس جرم کے مقابل کم سے کم درجہ کے ردعمل کا نہ سوچے ، بلکہ اس کا عزم شدید ترین ردعمل کاہو، اور وہ یہ کہ وہ ایسے مجرمین کو اپنے ہاتھ سے قتل کردے، ان کا شیطانی خون اپنے ہاتھ سے بہائے اور دشمنان دین کو یہ پیغام دے کہ ان جرائم کے بعد مجرمین کے لیے اس زمین پر زندہ چلنے کا کوئی جواز نہیں ۔اور اس کا اگر موقع نہ ہو تو پھر جوحکومتیں اورقومیں ان جرائم کی حمایت و تائید کرتی ہیں ، ان کے خلاف کارروائی کا عزم ہو ، کیوں کہ صرف بارود ، خون اور موت کی زبان ہی ان شیاطین کوسمجھ آتی ہے، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں ماناکرتے ہیں اور شہوات کے علاج کے لیے اللہ نے کتاب کے ساتھ تلوار بھی بھیجی ہے۔ یہ تحریر ایک عالم ربانی اور جہادی قائد کے قول پر ختم کرتاہوں جو انہوں نے ایک یورپی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ہے، شیخ ابوعبداللہ الشافعی فک اللہ أسرہ ٗ سےشان رسول ﷺ میں گستاخی کرنے والے ایک مجرم کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ زریں الفاظ ادا کیے ، یہ الفاظ ایمان افروز ہیں، ان کے سننے سے ایمانی سرور ملتاہے،اور اللہ ہمیں توفیق دے ، مواقع دے کہ ہم اس پر حقیقت میں بھی عمل کرسکیں ۔ آپ نے فرمایا:
’’نحن ندافع عن ديننا بدماءِنا وحدودُنا حدودُ الدم حدودُ متفجراتٍ. الذي يهينُ دينَنا يجب أن يعرف أن واحدًا منا سيموت. هذا أو غيره الذي يفعل إهانةً بديننا وكرامتنا يجب أن يفهم أن هذا صراع حياة أو موت. نموت لأجل ديننا و نعيش لأجل ديننا لا شيء مقدس أكثر من ديننا فقط! ومن يصطدم بديننا يجب أن يعرف سنصطدم بهم بمتفجراتنا. لاينبغي أن يكون هناك أيَّ تساهل أيَّ تفاهم أيَّ مساومة على هذا الأمر. نحن لانعيشُ لحياتنا لانعيش لبطوننا و فروجنا، نحن نعيش لديننا وحده!‘‘
’’ہم اپنے دین کا دفاع اپنے خون سے کرتے ہیں اور ہماری سرحدات ،خون اور بارود کی سرحدات ہیں،جو بھی ہمارے دین کی اہانت کرے گا ،اُسے جان لینا چاہیے کہ ہم میں سے ضرور کوئی ایک مرےگا، یہ شخص یاکوئی اور ، جو بھی ہمارے دین کی توہین کرے گا اُسے سمجھنا چاہیے کہ اس نے زندگی اور موت کی کشمکش میں قدم رکھاہے، ہم اپنے دین کی خاطر مرتے ہیں اور دین ہی کی خاطر جیتے ہیں، ہمارے نزدیک ہمارے دین سے زیادہ کوئی چیز مقدس نہیں! جو بھی ہمارے دین کے ساتھ ٹکرائے گا، وہ جان لے کہ ہم اس سے بارود کے ساتھ ٹکرائیں گے، اس مسئلے میں کسی قسم کا تساہل ، کسی قسم کا تفاہم اور کسی قسم کی لے دے نہیں۔ہم زندگی کے لیے نہیں جیتے ہیں ، نہ ہی ہم پیٹ اور شرم گاہ کے لیے جیتے ہیں، ہم فقط اپنے دین کے لیے جیتے ہیں!!‘‘
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی حبیبنا ونبینا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین!
٭٭٭٭٭
1 الموسوعة الميسرة في الأديان
2ترجمہ: ’’ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ ( سورۃ الحجر : )۹
3 ’’اور ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کو پانی نہیں دھو پائے گا‘‘(مسند امام احمد)
4 طریق الدعوۃ للسید قطب
5 مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب، فلسطین،مصر، شام، لبنان،اردن وغیرہ عرب ممالک داخل سمجھے جاتے ہیں۔
6 ابھی جنوری ۲۰۲۳ء میں سویڈن میں ایک شیطان صفت شخص نے حکومتی سکیورٹی میں میڈیا کے سامنے قرآن عظیم الشان کا نسخہ جلایا ، اس کے دو دن بعد ڈنمارک میں بھی اس قسم کا جرم ہوا اور اس سے پہلے ناروے ، فرانس اور دیگر ممالک میں بھی اس قسم کی حرکات کی گئی ہیں ۔ اسی شیطان نے یکم رمضان المبارک (۱۴۴۴ھ) کو بھی قرآنِ عظیم الشان کا ایک نسخہ برطانیہ میں جلانے کے لیے مجلس کا انعقاد کیا تھا، اس مجلس کو برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے دباؤ کے سبب منعقد ہونے کی اجازت نہ دی۔
7 مثالیں بے شمار ہیں ، مگر یہاں دو کا ذکر کیا جارہاہے، ۱۹۸۸ء میں سلمان رشدی ملعون نے اپنی مشہور زمانہ شیطانی کتاب لکھی اور اس میں کتاب اللہ کی بے حرمتی کی اور شان رسول ﷺ کے حق میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا۔ پورے عالم اسلام میں اس ذلیل آدمی کے خلاف غم وغصہ پیدا ہوا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کااظہار ہوا۔ مغرب نے اس آدمی کی بھرپور تائید کی ، ۱۹۸۹ءبرطانیہ نے اس کی سکیورٹی کی ذمہ داری اٹھائی، جرمنی کے پارلیمنٹ نے اس کی تائید جبکہ مسلمانوں کی مذمت میں قرارداد پاس کی اور رشدی پر تنقید کو مغربی اقدار پر تنقید سے موسوم کیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ۳۴ اراکین نے ایک درخواست پر دستخط کرکے حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ رشدی قابل احترام ہے اور اس کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے، جنوری ۱۹۹۹ء میں فرانس نے اپنے ہاں لٹریچر کے بڑے لقب ’کمانڈر‘ سے اسے نوازا۔ جون ۲۰۰۷ءمیں ملکہ برطانیہ نے اسے knighthood ’عطا‘ کرتے ہوئے ’سر‘ کا خطاب دیا اور یہ اعزاز وصول کرتے ہوئے اس نے ملکہ برطانیہ اور برطانوی قوم کا یہ کہہ کر شکریہ ادا کیا کہ وہ مشکور ہے کہ اس کے ’کام ‘ کویہاں اس قدر زیادہ مقبولیت مل رہی ہے ۔ رشدی کو ابھی تک کوئی ۳۲ایوارڈمل چکے ہیں اور دینے والوں میں امریکہ ، برطانیہ ، اٹلی ، جرمنی ، سویڈن ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، یورپین یونین اور انڈیاشامل ہیں۔دوسری مثال تسلیمہ نسرین کی ہے، بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی اس ملعون عورت نے بھی ۱۹۹۳ءمیں ایک ناول لکھ کر قرآن عظیم الشان کی بے حرمتی کی اور رسول اللہ ﷺ کے حق میں گستاخی کی ۔ غیرت ِ دینی کے پیکر مسلمانان بنگلہ دیش جب اس کے خلاف سراپا احتجاج بن کرکھڑے ہوئے اور اس کو سزا دینے کے مطالبات ہونے لگے تو یورپ و امریکہ ایک دفعہ پھر حرکت میں آگئے ، برطانوی چینلوں سے اس کی حمایت میں خصوصی پروگرامات نشر ہونا شروع ہوئے۔ امریکہ ، برطانیہ اور سویڈن نے اس کو شہریت دینے کا اعلان کیا اور حکومتِ بنگلہ دیش کو مجبور کرکے اسے اولاً بھارت اور پھر یورپ منتقل کروایا۔ سوئٹزرلینڈ نے اپنے ہاں نوبیل انعام کے بعد دوسرا بڑا ایوارڈ اسے دیا اور ان سب نے اسے یورپ میں بیٹھ کر اسلام کی اہانت کرنے کے لیے سیاسی اور معاشی مددو تعاون فراہم کرنے کی تاحیات یقین دہانی کرائی۔
8۲۰۰۵ءمیں ڈنمارک کی ایک عدالت میں مسلمانوں کی ایک تنظیم نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کارٹونسٹ کے خلاف کیس دائر کیا کہ ڈنمارک کریمنل کوڈ کی دفعہ 140 اور دفعہ 266bکے تحت خاکہ کشوں نے جرم کیا ہے اور انہیں سزادی جائے۔ مذکورہ قانون کے مطابق کسی کو بھی اجازت نہیں کہ ڈنمارک میں قانونی طورپر رہنے والوں کے مذہب، عبادت یا عقیدہ کی توہین کرے اور اس ذریعہ اس مذہب والوں کو تکلیف دےکر ملکی انتظام کو نقصان دے۔یہ قانون ایک بار یہود مخالف گروپ (anti-Semitics) کے خلاف استعمال ہوا ہے اور ملزمان کو سزا بھی دی جا چکی ہے جبکہ عیسائیت کی توہین کے حوالے سے بھی اس کے تحت سماعت ہوئی ہے ۔ مسلمانوں کو توقع تھی کہ اس سے ان کی بھی شنوائی ہوجائے گی ،مگر شکایت سننے کے بعد جج نے یہ کہہ کر کیس کی سماعت سے انکار کیا کہ چونکہ اخبار نے عوامی دلچسپی کے موضوع پر بات کی ہے اور اخبارات کو ایسے موضوع پر بات کرنے کی آزادی حاصل ہے ، اس لیے کیس قابل سماعت نہیں!(بحوالہ: مجلہ ’’الحق المر‘‘ شمارہ۵……ازمحمد الغزالی اور وکی پیڈیا)
9 ’’ سو تُو لڑ اللہ کی راہ میں، تو ذمہ دار نہیں مگر اپنی جان کا ،اور اس کی تحریض دو مسلمانوں کو، قریب ہے کہ اللہ بند کردے لڑائی کافروں کی اور اللہ بہت سخت ہے لڑائی میں اور بہت سخت ہے سزا دینے والا۔‘‘ (سورۃ النساء )
10 ’’ کہا اُن لوگوں نے جن کو خیال تھا کہ ان کو اللہ سے ملنا ہے، بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے ،اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘ ( سورۃ البقرہ)
11 ’’ اور نصرت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو زبردست ہے حکمت والا ۔‘‘ (سورۃ الأنفال)
12 ’’ اور اگر اللہ چاہتا تو خودہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن چاہتاہے کہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعے امتحان لے۔‘‘ (سورۃ محمد)