’’عثمان کے ابو!…عثمان نجانے ابھی تک کیوں نہیں پہنچا!‘‘ثمینہ پریشانی سے بولتی کمرے میں داخل ہوئی۔
ہارون نے بے اختیار گھڑی کی طرف دیکھا۔گھڑی رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔
’’کہاں گیا تھا ؟‘‘ہارون کے دل میں ہول اٹھنے لگے ۔وہ جھٹ سے بستر سے نکل کر کھڑا ہوگیا۔
’’دلہن کو بھی بتا کر نہیں گیا کہ کہاں جا رہا ہے!‘‘……
ہارون کا دل گھبرانے لگا۔وہ کپڑے تبدیل کرنے غسلخانے میں گھس گیا۔مگر خوش قسمتی سے جیسے ہی وہ غسل خانے سے باہر نکلا عثمان گھر پہنچ چکا تھا۔
’’السلام علیکم ابو جی! السلام علیکم امی جی!‘‘
حسب معمول وہ سب سے پہلے ان کے کمرے میں ہی آیا تھا۔اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ کر ان دونوں ماں باپ نے سکھ کا سانس لیا۔
’’کہاں چلا گیا تھا تو؟‘‘ہارون نے نہ چاہتے ہوئے بھی خفگی سےپوچھا،’’کب سے تیرے لیے پریشان بیٹھے ہیں! ‘‘۔
’’او معاف کردیں ابو جی! میں دراصل صالحہ کو بتا کر جانا بھول گیا!‘‘، عثمان شرمندگی سے بولتا ماں کے بستر پر ہی بیٹھ گیا۔
’’کہاں گئے تھے؟‘‘……
’’میرے چند مجاہد ساتھی آئے تھے!‘‘……
وہ دھیرے سے بولتا ثمینہ کا سر دبانے لگا۔یہ اس کا روز کا معمول تھا۔وہ ماں کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتا اور ان کا سر دباتا رہتا۔
ہارون اور ثمینہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
’’تو مجاہدین سے ملتا ہے؟ ابھی بھی جہادی کام کرتا ہے؟‘‘،ہارون نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی ابو جی…چند ساتھی مجاہدین کے پاس بھیجے ہیں…شاید افغانستان تشکیل گزار کر آئیں‘‘۔
’’جیتا رہ میرا بیٹا!‘‘،ہارون کو اپنے بیٹے پر اس لمحے ڈھیر سارا پیار آیا،’’بس احتیاط کیا کر…ایجنسیوں والے آج کل کسی کو نہیں چھوڑتے!…کسی کو بتایا نہ کر کہ تو کیا کرتا ہے!‘‘۔
’’جی ابو جی!‘‘،عثمان نے فرماں برداری سے سر ہلادیا۔
اس کا بوڑھا باپ جہاد کے معاملات کو کتنا سیدھاسادا سا سمجھتا تھا۔عثمان دھیرے سے مسکرایا اور ہارون کے پاؤں دبانے لگا۔
’’چل اٹھ یہاں سے!‘‘،ہارون نے پیر فوراً پیچھے کر لیے،’’دلہن بیچاری کب سے تیرا انتظار کر رہی ہے!‘‘۔
’’اس کو میں نے چائے بنانے کو کہا ہے ابو جی!…میں تھک گیا تھا اب چائے آپ کے پاس ہی پی کر جاؤں گا!‘‘،عثمان بولا اور پھر سے ہارون کے پیر دبانے لگا۔
دونوں ماں باپ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے ہونہار بچے کی نظر اتاری۔
٭٭٭٭٭
ہارون گھر میں داخل ہوا تو سب گھر والےبرآمدے میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔جبکہ عثمان وہیں اپنے دونوں بچوں کو کندھوں پر بٹھائے پورے صحن کے چکر لگا رہا تھا۔
’’اب جہاز کراچی پہنچ گیا ہے!…نیچے اتر جاؤ!‘‘،ہارون کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر عثمان نے دونوں بچوں کو نیچے اتار دیا۔
’’دادا ابو آگئے!‘‘، اس کے دونوں پوتے گرتے پڑتے اس کی طرف بھاگے۔
دونوں بچے اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ہارون نے ایک کو گود میں اٹھا لیا تو دوسرا ناراض ہونے لگا کہ اس کو کیوں نہیں اٹھایا۔
’’ہٹو دونوں! ابو جی کو اندر تو آنے دو!‘‘،عثمان نے ان دونوں کو ہارون کی گود سے لے لیا۔
چند سال کے اندر اندر ان کے گھر کی رونق میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ایک ایک سال کے وقفے سے عثمان اور صالحہ کے تین بچے ہوگئے تھے۔ عثمان اپنے تینوں بچوں سے بے حد محبت کرتا تھا۔
’’عثمان کے ابو! ہمارا عثمان بھی آپ کی طرح ہی ہے… اپنے بچوں سے کتنا پیار کرتا ہے!‘‘،ثمینہ اکثرعثمان کے بچوں سے لاڈ دیکھ کر کہتی تھی۔
’’ثمینہ !اپنی اولاد ہوتی ہی ایسی ہے!‘‘،وہ مسکراتا،’’مگر مجھے تو لگتا ہے عثمان بچوں سے لاڈ میں مجھ سے بھی آگے نکلا ہے!‘‘۔
وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ہارون کے خاندان میں مردوں کا بچوں سے لاڈ پیار کرنے کی روایت نہیں تھی۔مگر ہارون بہت مختلف تھا۔وہ اپنے بچوں پر اپنی جان چھڑکتا تھا مگر عثمان تو اس سے بھی آگے نکل گیا تھا۔وہ تو بچوں کے ساتھ ایسے کھیلتا گویا انہی کی طرح کا بچہ ہو۔کبھی گھوڑا بن کر ان کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیتا۔تو کبھی اپنے کندھے پر بٹھائے پورے گھر میں گھماتا رہتا۔ان کی زبان سے نکلی ہر خواہش پوری کرنے کو تیار رہتا۔
’’ابو جی! آجائیں بیٹھ جائیں!‘‘،عثمان جلدی سے بولا۔
ہارون بیٹھا گیا۔
’’آپ پھر اکیلے دور والے بازار چلے گئے تھے؟‘‘،عثمان کچھ خفا لگ رہا تھا۔اور ہارون جانتا تھا کہ کیوں!
’’عثمان ! میں سارا دن گھر میں نہیں گزار سکتا!‘‘۔
’’ابو جی! ڈاکٹر نے گرمی میں اور پیدل چلنے سے منع کیا ہے…آپ کا بلڈپریشر ہائی ہوجائے گا!‘‘۔
’’کچھ نہیں ہوتا عثمان! تم بلاوجہ اتنا پریشان ہوتے ہو…ذرا سا دل میں درد ہوا تھا میرے!…تم ڈاکٹر لوگوں کو فوراً وہم ہوجاتا ہے!‘‘،ہارون بولا۔
عثمان اس کی بات پرمزید خفا ہوگیا۔
’’ابو جی! دل کا دورہ دوبارہ پڑنا بہت خطرناک ہوتا ہے!…آپ ابھی تو کچھ بہتر ہوئے ہیں!‘‘۔
’’عثمان! ایک نہ ایک دن مرنا ہی ہے…پھر کاہے کا ڈرنا!‘‘۔
’’ابو جی! مرنے کی باتیں کیوں کرنے لگے ہیں؟‘‘،عثمان دھیرے سے بولا،’’اللہ آپ کو ہمارے سروں پر سلامت رکھے!‘‘۔
’’عثمان! الحمدللہ میری تمام ذمہ داریاں پوری ہوگئی ہیں اس لیے اب اللہ کے پاس جانے کی ہی تیاریاں کرنی ہیں نا!‘‘،وہ مسکرایا۔
اسی لمحے عثمان کا بڑا بیٹانجانے کہاں سے نکل آیا۔اس کے ہاتھ میں کیلا تھا جو وہ کھا کم رہا تھا اور مسل کر خراب زیادہ کر رہا تھا۔
وہ آتے ہی دھپ سے عثمان کی گود میں گر گیا اور اس کے سارے کپڑے گندے کردیے۔
’’ارے ! بابا کے کپڑے گندے کردیے!‘‘،صالحہ اس کو پکڑنے دوڑی۔
’’بابا! کیلا!……‘‘،بچہ ہر چیز سے بے نیاز عثمان کو کیلا کھلانا چاہ رہا تھا۔
’’کچھ نہیں ہوتاصالحہ!‘‘،عثمان مسکرایا اور بچے کے ہاتھ سے مسلا ہوا کیلا کھالیا،’’مم……! بڑے مزے کا کیلا کھلایا ہمارے بیٹے نے!‘‘۔
’’توبہ ہے! لگتا ہے آپ بچوں کو بگاڑ کر ہی چھوڑیں گے!‘‘،صالحہ بولی۔
وہ سب مسکرا کر باپ اور بیٹے کے لاڈ دیکھتے رہے۔
٭٭٭٭٭
رات کے دس بج رہے تھے۔بچے اپنے کمروں میں سونے لیٹ گئے تھے مگر بڑے ابھی تک جاگ رہے تھے۔موسیٰ اور عیسیٰ کے کمرے کی لائٹیں بھی بند تھیں مگر دونوں ابھی تک کسی اہم موضوع پر کھسر پھسر میں مصروف تھے۔
’’تصویر تو دکھاؤ!‘‘،عیسیٰ کی آواز میں بے چینی تھی۔
’’ٹھیک ہے ! میں دکھا دوں گا …مگر ابھی تم نےمنال کو نہیں بتانا! ٹھیک ہے؟‘‘،موسیٰ نے سرگوشی میں کہا۔
’’کیوں؟ منال کو کیوں نہیں؟‘‘……
’’دادا ابو نے منع کیا ہے!‘‘……
’’کیوں؟‘‘……
’’مجھے نہیں معلوم!‘‘،موسیٰ اس کے سوالوں سے تنگ آکر جھلا کر بولا۔
پھر اس سے پہلے کہ عیسیٰ مزید سوالات کرتا موسیٰ بستر سے باہر نکلا اور خاموشی سے چلتا اپنی الماری میں سے اپنے باپ کی تصویر نکال لایا۔
’’دکھاؤ!‘‘،عیسیٰ بے چینی کے مارے اچھل کر اس کے سر پر پہنچ گیا۔
’’ہٹو پیچھے!‘‘،موسیٰ نے اس کو پیچھے دھکیلا،’’یوں شور مچاؤ گے تو اماں کو پتہ چل جائے گا!‘‘۔
عیسیٰ نے فرماں برداری سے سر ہلایا اور ہاتھ اس کے سامنے کر دیا۔موسیٰ نے خاموشی سے وہ تصویر اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔عیسیٰ تصویر کو زیرو پاور کے بلب کی روشنی میں دیکھنے لگا۔اس کے چہرے پر بھی موسیٰ ہی کی طرح بڑے عجیب سے تاثرات ابھرے تھے۔
’’یہ بابا ہیں؟‘‘،وہ بڑبڑا یا۔
’’ہاں!‘‘۔
’’دادا ابو نے تمہیں کہا تھا کہ ان کو نہیں پتہ کہ بابا کہاں ہیں!‘‘،عیسیٰ نے تصویر پر سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔
’’لاؤ تصویر دے دو!‘‘،موسیٰ نے ہاتھ بڑھایا تو عیسیٰ نے اس تصویر کو چوما پھر اس کو واپس دے دی۔
’’پھر اب کیا ہوگا؟…کیا ہمارے بابا گم ہیں؟‘‘……
’’ہاں! ہمارے بابا گمشدہ ہیں!‘‘……
’’ہمارے بابا کو کسی نے اغوا کیا ہے؟‘‘،عیسیٰ نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
’’مجھے نہیں پتہ!‘‘،موسیٰ تصویر کو الماری میں واپس رکھ کر دوبارہ بستر کی طرف آگیا۔عیسیٰ پہلے ہی بستر پر لیٹ چکا تھا۔
’’موسیٰ! کیا ہم کبھی اپنے بابا کو دیکھ سکیں گے؟‘‘…
’’مجھے نہیں معلوم عیسیٰ!‘‘،موسیٰ کی آواز میں بے حد کرب تھا۔
’’اللہ کرے کہ ہمارے بابا مل جائیں!‘‘……
’’آمین!‘‘۔
٭٭٭٭٭
’’ابو جی! حریم آپا کا فون آیا تھا …وہ بہت پریشان تھیں…ان کے میاں پر قرض چڑھ گیا ہے!‘‘۔
ہسپتال سے واپسی پر آج عثمان بہت پریشان لگ رہا تھا۔
’’پھر تم نے اس کو کیا کہا؟ ذراتسلی کرادیتے!‘‘،ہارون نے غور سے اس کی جانب دیکھا۔
’’ابو جی! میں چاہ رہا تھا کہ حریم آپا کی کچھ مالی معاونت کردیتے ہیں!‘‘،عثمان کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
’’وہ لے لے گی؟‘‘……
’’میرے خیال میں تو لے ہی لے گی…اس کے میاں بیچارے کا کاروبار دیوالیہ ہوگیا ہے!‘‘،عثمان بہت ہی پریشانی سے بتا رہا تھا،’’میں نے اس سے کہا ہے کہ اگر کاروبار دوبارہ شروع کرنے کے لیے سرمایہ چاہیے تو میں اور ابو جی مدد کرسکتے ہیں!‘‘۔
’’یہ تو نے اچھا کیا…اب آخر کو تو ہی تو اس کا بھائی ہے…‘‘،ہارون نے مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
عثمان وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔ہارون ابھی ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچنے لگا۔اس کی بچیاں ہمیشہ سے ہی اس کی بہت لاڈلی رہی تھیں مگر اس کو یہ فکر بھی کھاتی رہتی تھی کہ اس کی زندگی کے بعد آخر کو اس کی بیٹیوں کا کون خیال رکھے گا۔آج عثمان کی اپنی بہن کے لیے فکر دیکھ کر وہ بہت مطمئن ہوگیا تھا۔اس کی بیٹیوں کا بھائی ان کا خیال رکھنے کو موجود تھا۔
اسی شام عثمان دوبارہ ان کے کمرے میں موجود تھا۔
’’امی جی! …عائشہ آپا کا بڑا بیٹا علی بہت سخت بیمار ہے…جلدی سے تیار ہوجائیں ان کو لے کر ہسپتال جانا ہے!‘‘،وہ آتے ہی بولا۔
’’اللہ خیر کرے!‘‘،ہارون اور ثمینہ دونوں ہی گھبرا گئے۔
’’اس کے سسرال والے کہاں ہیں؟‘‘……
’’امی جی! آپ کو پتہ ہی ہے آپا کے سسرال والے بیچارے پرائیوٹ ہسپتالوں کی فیسیں برداشت نہیں کرسکتے…پہلے ہی بچہ کئی دن سے بخار میں تپ رہا ہے…سرکاری ہسپتالوں میں تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہوتا!‘‘،عثمان جلدی جلدی بولا۔
’’مگر تو کیا اس وقت رات میں گاؤں جائے گا؟‘‘،ثمینہ نے پریشانی سے پوچھا۔
’’ہاں تو کیا ہوا؟…اپنی گاڑی گھر میں موجود ہے!…آپ بس جلدی سے تیار ہوجائیں …علی کی طبیعت بہت سخت خراب ہے…آپا تو بیچاری فون پر ہی روپڑی تھیں!‘‘،عثمان کی اپنی حالت بھی پریشانی کے مارے دیکھنے کے قابل تھی۔
’’اللہ آسانی فرمائے!‘‘،ہارون بھی اٹھ گیا،’’تو گاڑی نکال …میں بھی چلتا ہوں!‘‘۔
’’ٹھیک ہے!‘‘،عثمان کہتا کمرے سے نکلا گیا۔
’’یا اللہ تیرا شکر کہ تو نے جوان بیٹا دیا ہے!‘‘، ثمینہ نے عثمان کے کمرے سے نکلتے ہی بے ساختہ کہا ،’’عثمان کے ابو! اللہ نے نجانے ہماری کون سی نیکی قبول کر لی ہے جو اتنا ہونہار بچہ دے دیا ہے!…ہم تو اس قابل نہ تھے!‘‘۔
’’تو ٹھیک کہتی ہے ثمینہ! بس اللہ سے اس کی حفاظت کی اور نظر سے حفاظت کی دعا کیا کرو!…آج کل بہت کم ہی ایسے خیال کرنے والے بیٹے ہوتے ہیں!‘‘،ہارون نے دھیرے سے جواب دیا۔
٭٭٭٭٭
موسیٰ اور عیسیٰ کے سکول میں آج طلبہ کو اسناد تقسیم کرنے کی تقریب تھی۔سالانہ تقریب میں باقی طلبہ کی طرح ان کے گھر والے بھی مدعو تھے۔ان تینوں کے دادا دادی، نانا نانی ، پھپھو اور ماں سب ہی مہمانوں میں شامل تھے۔مگر باپ کی کمی حسبِ معمول ان تینوں کے اعصاب اور مزاجوں پر بری طرح اثر کر رہی تھی۔
سٹیج کے پیچھے تمام بچے کھڑے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔اچانک عیسیٰ دوڑتاہوا اس کی طرف آیا۔
’’موسیٰ! جلدی آؤ!‘‘……
’’کیا ہوا عیسیٰ؟‘‘،موسیٰ نے حیرت سے پوچھا۔وہ بیچارہ اپنی تقریر دہرانے میں مصروف تھا۔
’’منال کے نظم پڑھنے کی باری آگئی ہے!…سب بچیاں سٹیج پر چلی گئی ہیں مگر وہ سٹیج پر چڑھنے پر تیار ہی نہیں ہورہی! روئے چلے جارہی ہے!‘‘……
یہ سن کر موسیٰ پریشانی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور عیسیٰ کے ساتھ جلدی سے سٹیج کے اس حصے میں پہنچ گیا جہاں منال کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔سٹیج پر پہلی جماعت کی بچیاں کوئی نظم پڑھنا شروع کر چکی تھیں جبکہ منال ایک جانب کو کھڑی رو رہی تھی اور اس کی ٹیچر اس کو ڈانٹ رہی تھیں۔
’’منال ! کیا ہوا؟رو کیوں رہی ہو؟‘‘،موسیٰ نے اس کے سر پر پہنچ کر پوچھا۔
منال ان دونوں کو دیکھ کر اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔
’’کیا ہوا؟تم نے پورے مہینے کی ساری تیاری ضائع کردی!…اماں، دادا ابو اوردادی امی کو کتنا دکھ ہوگا!‘‘،عیسیٰ نے اس کو سرزنش کی۔
’’کچھ نہیں ہوگا!کوئی فائدہ نہیں !‘‘،منال اپنا سر زور زور سے ہلاتے ہوئے بولی،’’باقی سب بچوں کے باپ سامنے موجود ہیں …ان کو دیکھ رہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں!…مگر ہمارے بابا نہیں ہیں! ہمارے بابا ہمیں دیکھنے کو یہاں نہیں ہیں!‘‘۔
موسیٰ اور عیسیٰ دونوں کو سانپ سونگھ گیا۔منال ان سے چھوٹی تھی مگر شاید لڑکی ہونے کی وجہ سے اس کا ان دونوں سے زیادہ حساس ہونا فطری بات تھی۔
’’منال! تم ایسے کیوں سوچ رہی ہو؟‘‘……
’’موسیٰ بھائی! جن بچیوں نے نظمیں پڑھنی تھیں ان میں سے جو مروہ ہے نا…وہ سٹیج پر چڑھنے لگی تو مجھے کہنے لگی کہ تم کیوں سٹیج پر آرہی ہو؟ تمہارے لیے تالیاں کون بجائے گا؟تم تو یتیم ہو!‘‘،یہ کہہ کر وہ پھر آنسو بہانے لگی۔
’’تم یتیم نہیں ہو!‘‘،موسیٰ کا دماغ کھول گیا،’’ہمارے بابا زندہ ہیں!‘‘……
’’مگر پھر وہ کیوں نہیں آتے؟‘‘،آگے سے فطری سوال تھا۔
’’ہمیں نہیں پتہ!‘‘،موسیٰ دھیرے سے بولا۔
اچانک سٹیج پر موسیٰ کا نام پکارا جانے لگا۔وہ تینوں چونک گئے۔
’’منال آجاؤ… موسیٰ کی تقریر کی باری آگئی ہے!…تم میرے ساتھ آجاؤ!‘‘،عیسیٰ نے منال کا ہاتھ پکڑتے ہوئے نرمی سے کہا اورموسیٰ کو جانے کا اشارہ کیا۔
موسیٰ بوجھل دل لیے سٹیج پر چڑھنے لگا۔
٭٭٭٭٭
’’میرا یہ پوتا بڑا ہوگا تو اس کو انجنئیر بنائیں گے!‘‘، ہارون اپنے بڑے پوتے کو دیکھتے ہوئے بڑی لگاوٹ سے بولا۔
’’ابو جی! اس سے تو پوچھیں یہ بڑا ہوکر کیا بنے گا!‘‘،عثمان ہنسا۔
’’ہاں بولو! میرا شیر کیا بنے گا؟‘‘،ہارون مسکرایا۔
’’میں؟‘‘،وہ چار سال کا پیارا سا بچہ پرجوش ہوکر اپنے باپ اور دادا کو دیکھنے لگا۔
’’ہاں!‘‘……
’’میں مجاہد بنوں گا!‘‘،وہ جوش سے بولا،’’میں کافروں سے جہاد کروں گا!‘‘……
وہاں موجود سب افراد ہنس دیے۔
’’اس دوسرے سے بھی پوچھیں ابو جی!‘‘،صالحہ دوسرے بچے کو آگے کرتے ہوئے بولی،’’اس کو بھی دیکھیں عثمان نے کیا سکھایا ہے!‘‘۔
’’ہاں بھئی! تم بڑے ہوکر کیا کرو گے؟‘‘،ہارون نے تین سالہ اپنے پوتے کو گود میں اچھالتے ہوئے پوچھا۔
’’میں فدائی کروں گا!‘‘،وہ تتلا کر بولا۔
’’اور یہ فدائی کیسے ہوتا ہے؟‘‘،ہارون نے حیرت سے پوچھا۔
’’ایسے!‘‘،بچے نے صوفے سے چھلانگ لگا کر دکھایا۔
سب کا قہقہہ بہت بے ساختہ تھا۔
٭٭٭٭٭
سب گھر والے کہیں جانے کی تیاری میں تھے۔سب کے انداز سے بے چینی جھلک رہی تھی۔تینوں بچے ابھی تک بے خبر تھے کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔موسیٰ اور عیسیٰ کافی دیر تو یوں ہی سب بڑوں کو تیار ہوتا دیکھتے رہے پھر اپنے دادا کے کمرے میں پہنچ گئے۔
’’دادا ابو! ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘،موسیٰ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘،دادا ابو نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں!‘‘،دونوں اکٹھے بولے۔
’’ادھر آؤ! میں بتاتا ہوں… ‘‘،دادا ابو دھیرے سے بولے،’’ ہم مظاہرے کے لیے جارہے ہیں!‘‘۔
وہ دونوں ہونّق بنے ان کو دیکھ رہے تھے۔دادا جان نے اپنے کمرے کی الماری کھولی اور اس میں پڑے چند کاغذ کے بینر نکالے اور ان کے سامنے رکھ دیے۔
’’یہ دیکھو!…یہ تمہارے بابا ہیں! ہم ان کے لیے مظاہرہ کرنے جارہے ہیں!‘‘۔
دونوں دلچسپی سے ان بینرز کو دیکھنے لگے۔ان پر ان کے باپ کی بڑی پیاری سی تصویر لگی ہوئی تھی ۔شاید ان کے گریجوئیشن کی تصویر تھی۔اس کے نیچے ان کے باپ کے گم ہونے کی تاریخ لکھی ہوئی تھی اور سب سے نیچے اس کا نام لکھا تھا۔
’عثمان شریف‘……
’’مگر دادا ابو! ہمارے بابا کو کس نے اغوا کیا ہے؟‘‘…
’’ہماری فوج نے!‘‘۔
ان دونوں کے لیے یہ بات کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔کیا یہی وجہ تھی کہ ان سے یہ بات راز میں رکھی جاتی تھی۔
’’کیا؟‘‘……
’’مگر کیوں؟‘‘……
ان دونوں کے منہ سے دہشت اور بے یقینی سے ادا ہوا تھا۔
’’کیونکہ وہ مجاہد تھے!‘‘۔
یہ ایک اور عظیم انکشاف تھا!
’’کیا وہ جیل میں ہیں؟‘‘،موسیٰ نے بے چین ہو کر پوچھا۔
اس کے دادا کے جسم پر اب پھر لرزش سی طاری ہو نے لگی تھی۔
’’نہیں ! وہ کسی خفیہ عقوبت خانے میں ہیں!‘‘……
’’عقوبت خانہ؟‘‘،موسیٰ کے چہرے پر شدیدوحشت نظر آئی،’’کیا ان کو مارا پیٹا جاتاہے؟‘‘۔
’’بیٹے ! صرف مارا پیٹا ہی نہیں…ان کو بری طرح ٹارچر کیا جاتا ہے!‘‘،دادا ابو کی آنکھوں میں آنسو آگئے،’’ان کا یک مجاہد ساتھی چُھٹ کر آیا تو اس نے بتایا تھا کہ عثمان کو اتنا مارا جاتا تھا کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں…آنکھوں سے خون جاری ہوجاتا تھا!…اس کا سر پھاڑ دیا جاتا تھا!…اس کو کرنٹ لگایا جاتا تھا…اور…‘‘……
’’بس! دادا ابو اور مت بتائیں!‘‘،دادا ابو ابھی مزید بتا رہے تھے کہ موسیٰ کے منہ سے گھبرا کر نکلا۔ وہ مزید نہیں سن سکتا تھا۔
’’دادا بو! کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟‘‘، عیسیٰ نے بھی بے یقینی سے پوچھا۔
دادا ابو نے دکھ سے سر کو اثبات میں ہلایا۔دونوں بچوں کو اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آرہاتھا۔ان کے دل بہت بری طرح متاثر ہوئے تھا۔ایسے لگا تھا جیسے اپنے باپ کا ایک ایک زخم انہوں نے اپنے جسموں پر محسوس کیا ہو۔
’’چلو! اب تیار ہوجاؤ! آج ہم ایک ایسی جگہ جائیں گے جہاں تم لوگ اپنے جیسے ہی بہت سے لوگ دیکھو گے جو اپنے پیاروں کو دیکھنے کو سالوں سے تڑپ رہے ہیں!‘‘……
موسیٰ اور عیسیٰ کچھ نہ بولے اور خاموشی سے کمرے سے نکل گئے۔ان کے دماغ غم سے بوجھل ہوگئے تھے۔
٭٭٭٭٭
تینوں حیرت سے اس عجیب و غریب اجتماع کو دیکھ رہے تھے۔وہ زندگی میں پہلی دفعہ ایسی جگہ اور ایسے لوگوں میں آئے تھے۔یہاں تو ہر کوئی انہی کی طرح کے غم میں مبتلا لگ رہا تھا۔ہر کوئی اپنے کسی پیارے کی جبری گمشدگی پر احتجاج کر رہا تھا۔مائیں اپنے جوان بیٹوں کے لیے دہائیاں دے رہی تھیں۔بیویاں رو رہی تھیں ،بوڑھے باپ اور بچے بلک رہے تھے۔
موسیٰ بھی خاموشی سے سب کا جائزہ لے رہا تھا۔یہ کیمپ کافی دنوں سے یہاں لگا ہوا تھا۔وہ آج ہی اپنے شہر سے ٹرین کے ذریعے یہاں پہنچے تھے۔سب لوگوں نے پلے کارڈز اور اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں۔اخباری رپورٹر ان سے سوالات کر رہے تھے۔سیاسی پارٹیوں والے ان کو تسلیاں دے رہے تھے کہ ان کے پیارے جلد ہی بازیاب کر وائے جائیں گے!
’’دادا ابو !کیا آپ پہلے بھی یہاں آئے تھے؟‘‘۔
’’بیٹے! ہم پچھلے سات سال سے ایسے ہر کیمپ میں کئی کئی بار آچکے ہیں !‘‘،دادا ابو دھیرے سے بولے،’’مگر ہمارے ملک میں ظلم کا راج ہے!‘‘۔
موسیٰ اب پھر خاموش ہوکرسب کو دیکھنے لگا۔اس کا دل سب کو دیکھ کر کٹ رہا تھا۔
اچانک ایک صحافی ان کی طرف آیا۔
’’جی بابا جی! آپ کا نام؟ آپ کے بیٹے کا نام اور یہ کس جرم میں گرفتار ہے؟‘‘۔
’’بیٹا! میرا نام ہارون شریف ہے…یہ میرا بیٹا عثمان شریف ہے جو آج سے سات سال پہلے جنوری ۲۰۰۸ کی ایک شام کو مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو کبھی واپس نہ آیا!…یہ بچے میرے بیٹے کے بچے ہیں اور یہ اس وقت بالکل چھوٹے چھوٹے تھے!‘‘۔ہارون دھیرے دھیرے بولتا جارہا تھا،’’مجھے نہیں معلوم کہ میرا بیٹا کہاں ہے؟…سات سال سے میں نے ہر در کھٹکھٹایا ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا!…یہ بچے ہر روز ہم سے پوچھتے ہیں کہ ان کا باپ کہاں ہے؟ کدھر ہے؟گھر کیوں نہیں آتا؟ میرے پاس ان کو دینے کو کوئی جواب ہے نہ کوئی تسلی کے الفاظ!‘‘۔
رپورٹر تاسف سے ہارون کو دیکھتا رہا۔
’’مجھ سے میرے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا گیا ہے!…صرف اس جرم پر کہ وہ ایک اسلامی ملک میں اسلامی نظام چاہتا تھا!…کیا پاکستان میں ،جو خود بھی اسلام کے نام پر ہی بنا ہے ……میں اسلامی نظام کا مطالبہ کرنا ایسا بڑا جرم بن گیا ہے کہ ہمارے بچوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا ہے!…مجھے جواب چاہیے! ہر پاکستانی سے! ہر مسلمان سے! ہر فوجی سے ! ہر انسان سے!……‘‘۔
موسیٰ گہری نظروں سے اپنے دادا کی شکل دیکھتا رہا۔
٭٭٭٭٭
دن تیز رفتاری سے گزرتے گئے۔عثمان نے گھر نہ لوٹنا تھا۔وہ کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ہارون کے گھر کی خوشیاں لٹ گئیں،پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔موسیٰ، عیسیٰ اور منال یتیموں کی طرح پلتے جوانی کی دہلیز کو پہنچ گئے مگر ان کو اپنے باپ کی جھلک بھی دیکھنے کو نہ ملی۔نہ ہی وہ اس کی خوشبو تک سونگھ سکے۔وہ تو اتنا بھی نہ جانتے تھے کہ آیا وہ زندہ بھی تھا کہ نہیں۔اگر زندہ تھا تو کس حال میں ؟ اگر زندہ نہیں تھا تو کیا قبر کے نام پر زمین کا کوئی ٹکڑا بھی اسے نصیب ہوا یا نہیں؟
ہارون اور ثمینہ اپنے بڑھاپے کے سہارے کے منتظر اب مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہوچکے تھے۔ان کی ایک چھینک اور ایک کھانسی پر پریشان ہوجانے والا ان کا پیارا عثمان خود نجانے اس وقت کس حالت میں تھا۔اپنی بہنوں اور بچوں کا خیال کرنے والا ان کی ایک جھلک دیکھنے سے بھی مایوس ہوکر زمین دوز عقوبت خانے میں اپنی زندگی کا ایک ایک دن گن گن کر گزار رہا تھا۔
٭٭٭٭٭
۲۰۱۹ کی ایک گرم دوپہر کو ہارون کے گھر کا دروازہ کھٹکایا گیا تو موسیٰ نے باہر نکل کر دروازہ کھولا۔اس کے سامنے ان کا وکیل کھڑا تھا۔
’’آئیے درانی صاحب!‘‘،موسیٰ مسکرایا۔
’’نہیں! میں اندر آنے کے لیے نہیں آیا!‘‘،وکیل صاحب کے چہرے پر پریشانی کے بادل چھائے ہوئے تھے،’’آپ اپنے دادا کو بلائیں!‘‘۔
موسیٰ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئےسر کو اثبات میں ہلایا اور ہارون کو بلانے چلا گیا۔ہارون فوراً دروازے پر پہنچ گیا ۔موسیٰ اور عیسیٰ دونوں ہی اپنے دادا کے ساتھ لپکتے ہوئے آگئے تھے۔
’’السلام علیکم ! ہارون صاحب!‘‘، وکیل صاحب ان کو دیکھتے ہی بے چینی سے بولے،’’عثمان کا پتہ چل گیا ہے!‘‘۔
ان تینوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔نو سال گمشدہ رہنے والے عثمان کا آخر پتہ لگ ہی گیا تھا!
’’اندر آئیں درّانی صاحب!آرام سے بیٹھ کر بتائیں!‘‘،ہارون نےاپنے صحن میں رکھی کین کی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔وکیل صاحب ان کے ساتھ وہاں آکر بیٹھ گئے۔
’’آئی ایس آئی کے ایک ایجنٹ نے کل مجھے فون کیا تھا کہ عثمان شریف کو لینے آنا ہے تو ……‘‘، وکیل صاحب کہتے کہتے اچانک رک کر ان تینوں کے چہرے دیکھنے لگے۔
’’کیا ہوا درّانی صاحب! جلدی بتائیں ! ہمارے بابا کہاں ہیں؟‘‘،موسیٰ بے قابو ہو کر بولا۔
’’بیٹے! اللہ تعالی آپ سب کو صبر جمیل کی توفیق دے…‘‘، وکیل صاحب دھیرے سے بولے۔
وہ تینوں پریشانی سے ان کو دیکھنے لگے۔وکیل صاحب کافی پریشان لگ رہے تھے۔
’’کل پولیس کے جعلی مقابلے میں چند دہشگردوں کے مرنے کی خبر اخبار میں چھپی تھی…شام ہوتے ہی مجھے ایجنٹ کا فون آیا تھا کہ اگر اپنے مؤکل کو لینے آنا ہے تو تھانہ ۲۲ کے علاقے کے سردخانے میں آجاؤ!‘‘۔
’’کیا؟؟؟؟‘‘،ان تینوں کے منہ سے دہشت اور غم کے مارے چیخ ہی نکل گئی۔
’’میں آپ کو لینے آیا ہوں…میرے ساتھ چل کر میّت کو رسیو کرلیں!‘‘،وکیل صاحب بھی صدیوں کے بیمار لگنے لگے تھے۔
ان تینوں کو لگا تھا کہ ان کے سروں پر کسی نے بم گرا دیا ہو۔سینے میں عجیب سی ہلچل مچ گئی تھی۔زمین و آسمان گھومتے ہوئے محسوس ہونے لگے تھے۔
ہارون کو کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔وہ اپنا چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
’’دادا ابو! حوصلہ کریں!‘‘،موسیٰ نے جلدی سے اس کے بوڑھے کانپتے لرزتے وجود کو سہارا دیا اور ان کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
ہارون خزاں رسیدہ درخت کی خستہ شاخ سے لٹکے پتے کی طرح کپکپارہا تھا۔موسیٰ کی اپنی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔
’’داد ابو ! حوصلہ کریں!…آپ نے ہی تو بتایا تھا کہ بابا ہر نماز کے بعد اپنے لیے شہادت کی دعا مانگتے تھے!…اب دیکھیں ان کو شہادت مل گئی!‘‘،موسیٰ کی آواز بھرّا گئی۔ایسے لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے وہ رو پڑے گا۔
’’موسیٰ!‘‘،اچانک عیسیٰ بولا’’ہمیں دادا بو کو مردہ خانے نہیں لے کر جانا چاہیے!… درّانی صاحب کے ساتھ میں اور تم جائیں گے!‘‘۔
’’ن…ن…نہیں!‘‘،ہارون ایک دم آنسو صاف کرتے ہوئے بولا،’’میں ہی جاؤں گا!…میں ہی اپنے بیٹے کو لینے جاؤں گا!‘‘۔
’’ٹھیک ہے! مگر ہم بھی ساتھ جائیں گے!‘‘،موسیٰ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے۔
’’جیسے آپ لوگوں کی مرضی! جو بھی کرنا ہے جلدی کرلیں!‘‘،وکیل صاحب بولے۔
موسیٰ ہارون کو سہارے دیے ہوئےگھر کے اندرونی حصے میں لے آیا۔گھر میں جیسے ہی خبر پہنچی،ہر طرف کہرام مچ گیا۔ثمینہ، صالحہ اور منال کی حالت بھی غیر ہونے لگی۔ان تینوں کی بری حالت دیکھ کر اب موسیٰ کو لگنے لگا تھا کہ وہ ان تینوں کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جاسکتے تھے۔آخر فیصلہ یہ کیا گیا کہ عیسیٰ پیچھے گھر پر رکے۔رشتہ داروں کو اطلاع دے اور موسیٰ ہارون کے ساتھ سرد خانے چلا جائے۔
ہارون تیار ہوکر باہر نکلا تو موسیٰ اس کے انتظار میں بستر پر بیٹھا کل کا اخبار پڑھ رہا تھا۔اس میں واقعی جعلی پولیس مقابلے کی خبر چھپی ہوئی تھی۔اور خون میں لت پت پانچ تصویریں بھی تھیں مگر ناقابل شناخت لگ رہی تھیں۔
’’چلوموسیٰ!…تمہارے باپ کے پاس چلیں!‘‘،ہارون کمرے میں داخل ہوکر تھکے تھکے لہجے میں بولا۔
٭٭٭٭٭
وہ اس ٹھنڈے اور برفیلے کمرے میں داخل ہوا تو اس کو اپنے دل کی کیفیت خود بھی سمجھ نہ آرہی تھی۔ ایسے لگتا تھا گویا دل ہر قسم کے جذبات سے عاری ہوگیا ہو۔وہ زندہ لاش بنا اپنے سامنے موجود شخص کو دیکھ رہا تھا جو شاید اس جگہ کا منتظم تھا۔
’’آئیں بابا جی …آپ ہی ہارون شریف ہیں؟‘‘،وہ شخص سپاٹ سے انداز میں بولا۔
’’جی میرا نام ہی ہارون شریف ہے!‘‘۔
’’ٹھیک ہے …آجائیں!‘‘……
وہ اس کے پیچھے بڑھا تو اس کے قدم اس کا ساتھ نہ دیتے تھے۔اس کا پورا جسم کپکپاتے ہوئے بمشکل اپنے پیروں پر گھسٹ رہا تھا۔
’’آجائیں دادا ابو!‘‘،موسیٰ نے جلدی سے ہارون کا ہاتھ تھاما۔
اس کا ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا ہورہا تھا۔چہرے کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہورہا تھا۔
جیسے ہی وہ سرد خانے میں پہنچے ان کو لگا قیامت کا لمحہ آگیا ہو۔ہارون کو اپنے اردگرد سب کچھ گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا۔سینے پر بوجھ پڑنے لگا۔وہ ویران آنکھوں سے وہاں کے عملے کو دیکھ رہا تھا۔
’’ ۱۲ نمبر خانہ کھولو!…بابا جی اس کو وصول کرنے آئے ہیں!‘‘……
منتظم یہ کہہ کر واپس چلا گیا جبکہ وہاں موجود شخص کچھ دیر تاسف سے اپنے سامنے کھڑے سفید ریش بزرگ اور ان کے جوان پوتے کو دیکھتا رہا، پھر ایک لاکر کی طرف بڑھا اور اس کا دروازہ کھول دیا۔
دونوں دادا پوتے کا دل رک گیا۔ساتھ ہی زمین کی حرکت بھی رک گئی۔گھڑی کی سوئیاں تھم گئیں۔اگر کوئی حرکت تھی تو وہ لاکر سے باہر نکلتی اس میت کی تھی جس کو سرد خانے کا چوکیدار باہر نکال رہا تھا۔اس نے میت کو باہر نکالا اور کفن میں لپٹے اس جسد پر سے کپڑا ہٹادیا ۔
’’بابا جی! یہ ہی ہے!‘‘،وہ دھیرے سے بولا اور پیچھے ہٹ گیا۔
ہارون اس کی طرف لپکا۔
وہ بلا شک و شبہ واقعی عثمان ہی تھا!… اس کا عثمان!… اس کا دل!… اس کی جان! …اس کا جگر گوشہ!
’’اللہ اکبر!‘‘،اس نے لرزتی ہوئی زبان سے کہا اور عثمان کا چہرہ اور ماتھا چوم کر پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔
سب کچھ ختم ہوگیا تھا… ہر امید !… ہر توقع !…ہر خواہش! …ہر خواب …سب کچھ خاک میں مل گیا تھا!
وہ کافی دیر یوں ہی کھڑا عثمان کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لیے روتا رہا۔اس کو اندازہ نہ ہوسکا وہ کتنی دیر وہاں کھڑا روتا رہا تھا۔ ان نو سال میں جتنا اس نے اپنے جذبات کو سنبھالا تھا وہ آج سنبھلنے میں نہ آرہے تھے۔پچھلے نو سال کا دکھ، غم ، پریشانی سب کچھ اس لمحے باہر آرہا تھا۔پچھلےنو سال میں کتنی دفعہ اس نے اس کو چھوناچاہا تھا! کتنی دفعہ اس کا لمس محسوس کرنے کو وہ تڑپا تھا! کتنی ہی دفعہ وہ خوابوں میں اس سے مل کر مزید اداس ہوجاتا تھا!
اب آج اس کا بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا ……مگر بے جان لاش کی صورت میں !
اس کی زندگی ختم ہوگئی تھی! …ان کی خوشی چلی گئی تھی!… ان کا سکون ان سے چھین لیا گیا تھا!…ان کا عثمان ان سے دور کردیاگیا تھا!
موسیٰ بھی خاموشی سے اپنے باپ کے بے جان جسد کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جس کو وہ کبھی ہوش میں زندہ حالت میں نہ دیکھ سکا تھا ۔ اب اس کو مردہ حالت میں دیکھ کر اس کی بہت عجیب سی حالت ہورہی تھی۔اس بے جان لاش کو پکڑے اس کا دادا بچوں کی طرح رو رہا تھا۔اس نے اپنے دادا کو زندگی میں کبھی آنسو بہاتے نہیں دیکھا تھا۔وہ بہت حوصلے والے تھے اور کبھی کسی کے سامنے نہ روتے تھے۔مگر آج وہ جس طرح بے قابو ہوکر تڑپ تڑپ کر رو رہے تھے ،موسیٰ کا دل چاہا کہ وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر رودے۔
کاش وہ بھی چھوٹا سا بچہ ہوتا کہ رو دھو کر اپنا غم ہلکا کر لیتا!
’’موسیٰ! آجا ؤمیرے بیٹے! اپنے باپ کو دیکھ لو!‘‘،اچانک ہارون اپنے آنسو صاف کرکے اس کی طرف مڑا۔
موسیٰ جھجکتا ہوا آگے بڑھا۔عثمان کا جسم بالکل سرد پڑچکا تھا۔سینے اور سر پر گولی کا زخم تھا اور خون بہا ہوا تھا۔سر پر پوسٹ مارٹم کا نشان، جسے بعد میں عجلت میں لگائے چند ٹانکوں سے سی دیا گیا تھا۔
موسیٰ نے احتیاط سے اپنے باپ کے گال پر ہاتھ رکھا۔وہ سرد خانے میں رکھے جانے کی وجہ سے برف کی طرح ٹھنڈا تھا مگر بالکل نرم۔گویا ابھی بھی زندہ ہی ہو۔اس لمحے موسیٰ کے دل میں خواہش بہت شدت سے ابھری تھی کہ ’کاش وہ اپنے باپ کے قاتلوں سے ان کا بدلہ لے سکتا!‘
’’بابا!‘‘،آخر اس کے ضبط کے بندھن بھی ٹوٹ گئے اور وہ اس سے لپٹ کر بلک بلک کر روپڑا۔
٭٭٭٭٭
عثمان کے جنازے پر بڑی خلقت جمع تھی۔دو ر دور کے رشتہ دار ان کے غم میں شریک ہونے آئے تھے۔مگر گھر والے زندہ لاشوں کی طرح سب مہمانوں کے درمیان بیٹھے تھے۔اتنے سال جب وہ گمشدہ رہا وہ اس توقع پر ہی زندہ رہے کہ ایک نہ ایک دن وہ گھر ضرور آجائے گا ۔یہ تو انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ واپس اس کی لاش آئے گی۔ایسے لگتا تھا کہ عثمان کی روح کے ساتھ ان سب کی روحیں بھی رخصت ہوگئی ہوں!
اس صدمے کو سہہ جانا بہت آسان ہوتا اگر وہ کافروں کے ہاتھوں یا میدانِ قتال میں شہید ہوا ہوتا ۔مگر دکھ اس لیے دوگنا تھا کہ عثمان کے قاتل خود بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے! ان کے اپنے ہم وطن ہی تھے! اپنے ہم مذہب ہی کہلاتے تھے! اور ان کو اپنا دشمن کہنا جرم بن چکا تھا!
عثمان کی شہادت کو ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔گھر پر ایک عجیب سی خاموشی طاری تھی۔کسی کے چہرے پر مسکراہٹ کی رمق بھی نظر نہ آتی تھی۔ایسے میں ایک دن ہارون کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھٹکا اور موسیٰ دروازہ کھول کر اندر آگیا۔
’’دادا ابو!‘‘……اس نے آتے ہی سرگوشی میں ہارون کو پکارا ۔
’’آجاؤ دادا کی جان!‘‘،ہارون اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بولا۔
موسیٰ خاموشی سے اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔
’’داد ابو!…ہمارے بابا کو کیوں شہید کیا گیا ہے؟‘‘……
ہارون نے حیرت سے اس کو دیکھا۔موسیٰ اب اتنا چھوٹا تو نہیں تھا کہ یہ نہ جانتا ہو۔
’’تم جانتے تو ہو…صرف اور صرف جہا د اور اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے اس کو شہید کیا گیا ہے!اس کے علاوہ اس کا کوئی جرم نہیں تھا‘‘……
’’دادا ابو!…کیا یہ ناانصافی نہیں ہوگی کہ بابا اپنی ساری زندگی جس راستے پر گزار دیں اور آخر موت بھی اسی راستے میں ہی آجائے … ہم اپنی زندگیاں دوسرے راستے پر گزارتے رہیں!‘‘،موسیٰ آج نجانے کس قسم کی باتیں سوچ رہا تھا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘،ہارون نے خوفزدہ ہوکر پوچھا۔
’’دادا ابو! میرے بابا اور اس قوم کے دیگر بہت سے بچوں کے باپوں کے قاتل ابھی بھی آزاد پھر رہے ہیں…اور بغیر کسی خوف کے امریکہ کی خاطر اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کو کال کوٹھریوں میں اذیت کا نشانہ بنا کر شہید کرنے میں مصروف ہیں!‘‘،موسیٰ دھیرے سے بولا۔
ہارون یک ٹک اسے دیکھے گیا۔
’’تمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘……
’’بابا کا خون میرے اوپر ایک قرض ہے دادا ابو! میں بابا کا قرض چکانا چاہتا ہوں!‘‘،موسیٰ جذباتی ہوکر بولا،’’جس کام کے لیے بابا نکلے تھے میں اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں!‘‘……
ہارون خاموش رہا۔
’’داداا بو! اگر میں بھی بابا کے راستے پر چل پڑا تو…آپ لوگ مجھے روکیں گے تو نہیں؟‘‘،آخر تھوڑا جھجک کر موسیٰ نے اس کی جانب دیکھا۔
ہارون اتنے دنوں میں پہلی دفعہ مسکرا یا اور آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوم لیا۔
’’مجھے فخر ہے تمہاری سوچ پر!‘‘،وہ مسکرایا،’’یہ قربانی نسل در نسل چلتی رہے گی میرے بیٹے!…تیرے باپ نے اپنا فرض پورا کردیا!…اب یہ فرض تمہارے اور عیسیٰ کے کندھوں پر آپڑا ہے!‘‘۔
’’ہم یہ فرض پورا کریں گے ! ان شاء اللہ!‘‘،موسیٰ پر جوش ہوکر بولا،’’ ہم لاالہ الا اللہ کا حق ادا کریں گے!چاہے بابا کی طرح ہماری بھی اس میں جان چلی جائے!‘‘۔
’’ان شاء اللہ!‘‘ہارون نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔
عثمان کی نئی نسل اب اس کی امید وں اور توقعات کا مرکز تھی۔مگر وہ ان کی زندگیوں کے لیے ایسے فیصلے نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ دنیا کی حقیر لذتوں اور ان کے گھن چکر میں ہی پھنس کر رہ جاتے۔وہ تو اللہ کی خاطر ان کو اپنا آپ گھلانا سکھانا چاہتا تھا۔وہ عثمان کی نسل کو اپنے رسولﷺ کی امت کی خاطر اپنا خون جلانے والی نسل بنتا دیکھنا چاہتا تھا۔وہ ان کو پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے والی نسل بنتے دیکھنا چاہتا تھا!وہ دنیا پر دوبارہ اسلام کا جھنڈا لہرانے والی نسل دیکھنا چاہتا تھا!
کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عثمان بھی اپنے بچوں کے لیے یہی چاہتا تھا!