الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
بقائے باہمی قرآن کی صدا تو نہیں!
یہ لوگ ا ہلِ مغرب سے کہتے ہیں: ﯚتَعَالَوْااِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَاوَبَیْنَکُمْ۔۔۔ﯙ(اٰلِ عمران۳:۶۴) ’’آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے‘‘۔ لیکن اس کا کیاکیجیے کہ وہ مشترک بات جو (موجود ہ) فریقین کے ہاں اس مکالمے میں طے پائی ہے ، وہ توحید کا یہ کلمہ نہیں جس کی دعوت قرآن دیتا ہے: ﯚ ۔۔۔ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِﯙ(اٰلِ عمران۳:۶۴) ’’ کہ ہم ایک اللہ کے سواکسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں،اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو ربّ قرار نہ دے،اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر‘‘___ نہیں، بلکہ ان کے ہاں یہ مشترک بات ’’پرامن بقائے باہمی ‘‘ہے کہ تم ہمیں نہ چھیڑو اور ہم تمہیں نہیں چھیڑیں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر اہم سوال یہاں یہ ہے کہ اس مذکورہ بالا’’مکالمے‘‘ کو مبنی بر قرآن دعوت کیسے کہا جا سکتا ہے جب کہ ا س کی حیثیت’’ ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق کو دعوت‘‘ کی نہیں بلکہ ’’دونوں کے درمیان طے شدہ مشترکہ ہدف‘‘کی ہے۔ پس ’’حربی اقوام‘‘ کے ساتھ ’’امن‘‘ کے مذاکرات میں وہ الجھے ، لوحِ قرآنی کا فیصلہ جس کی نگاہوں سے اوجھل ہو:
وَلَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا (البقرہ۲:۲۱۷)
’’یہ لوگ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر د یں اگر ان کا بس چلے۔‘‘
کھلی آنکھوں سے یہود و نصاریٰ کے لگائے ہوئے زخم دیکھنے کے باوجود بقائے باہمی کے خواب وہ دیکھے، جس کے مقدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی مخالفت لکھی گئی ہو:
(( بُعِثْتُ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ بِالسَّیْفِ حَتّٰی یُعْبَدَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ جُعِلَ رِزْقِیْ تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِیْ وَ جُعِلَ الذُّلُّ وَالصَّغَارُ عَلٰی مَنْ خَالَفَ اَمْرِیْ وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ)) (احمد:مسند المکثرین )
’’مجھے قیامت تک کے لیے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے،یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے۔ اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھا گیا ہے ا ور جس نے بھی میرے امر کی مخالفت کی، اس کے لیے ذلت اور پستی رکھ دی گئی ہے۔ ا ور جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں (شمار) ہو گا۔‘ ‘
قیامت تلک یہ سفر نہ رکے گا
عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نُفَیْلٍ الْکِنْدِیِّ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَذَالَ النَّاسُ الْخَیْلَ وَ وَضَعُوا السِّلَاحَ وَ قَالُوْا لَا جِھَادَ قَدْ وَضَعَتِ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا فَاَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَجْھِہٖ وَ قَالَ:’’ کَذَبُوا الْآنَ اَ لْآنَ جَائَ الْقِتَالُ وَلَا یَزَالُ مِنْ اُمَّتِیْ اُمَّۃٌ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ وَ یُزِیْغُ اللّٰہُ لَھُمْ قُلُوْبَ اَقْوَامٍ وَ یَرْزُقُھُمْ مِنْھُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ وَحَتّٰی یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰہِ وَالْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِیْھَا الْخَیْرُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔۔۔۔)) (سنن النسائي کتاب الخیل والسبق والرّمي)
سلمہ بن نُفیل الکِندیؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بیٹھا تھا ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہؐ (بعض) لوگوں نے گھوڑوں کو معمولی چیز سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہے، اسلحہ رکھ دیا ہے اور کہتے ہیں کہ اب جہاد نہیں رہا، جنگ ختم ہوچکی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے کے ساتھ متو جہ ہوئے ا ور فرمایا: ’’غلط کہتے ہیں و ہ لوگ! اب ہی تو قتال کا وقت آیا ہے اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ ہی حق پر قائم ، اللہ کے راستے میں قتال کرتا رہے گا۔اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ٹیڑھ ڈال دے گا(تاکہ وہ اِن سے لڑیں) اور اللہ اُن (دشمنوں) سے ان کورزق(غنیمت) فراہم کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے اور یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا و عدہ پورا ہو جائے، اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت کے دن تک بھلائی رکھ دی گئی ہے۔‘‘
قرب ِقیامت کی علامات جتنی تیزی سے ظاہر ہورہی ہیں،اور کافر قومیں جس یکسوئی کے ساتھ مسلم امت پر ٹوٹ پڑی ہیں اور اس کے مقابلے میں دنیا بھر میں جہاد کا جودور شروع ہے اسے دیکھ کر لگتا یوں ہے کہ یہ سلسلہ اب رکنے کا نہیں۔ اورعجب کیا کہ حالات و واقعات کی یہ کڑیاں اُن ملاحم (اسلام و کفر کے بڑے معرکوں)سے جا کر مل جائیں جن کے آخر میں مہدی کا ظہور ہو گا اور عیسیٰ علیہ السلام کانزول ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی پیشین گوئیاں اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں:
((لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ،ظَاہِرِیْنَ عَلٰی مَنْ نَأَوَاہُمْحَتّٰی یُقَاتِلَ اٰخِرُہُمُ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالِ)) (ابو داود،کتاب الجہاد، فيدوام الجہاد)
’’میری ا مّت کا ایک گروہ برابر حق پر قتال کرتا رہے گا اور حق کے دشمنوں پر غلبہ پائے گا،حتیٰ کہ ان میں سے آخری شخص مسیح دجّال سے لڑے گا۔‘‘
صحیح مسلم کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
(( لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، قَالَ: فَیَنْزِلُ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَقُوْلُ اَمِیْرُھُمْ تَعَالِ صَلِّ لَنَا فَیَقُوْلُ لَآ اِنَّ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ اُمَرَآئٌ تَکْرِمَۃَ اللّٰہِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃ)) ( مسلم،کتاب الایمان)
’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا،قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا۔پھر عیسیٰ ا بن مریم ؑاتریں گے توان کے امیرکہیں گے آئیے ہمیں نماز پڑھائیے ، آپ ؑ فرمائیں گے نہیں،تم میں سے بعض بعضوں پر حاکم ہیں۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعالیٰ اس امت کو عنایت فرمائیں گے۔‘‘
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے یہ امیر امام مہدی ہوں گے،جن کی قیادت میں یہودو نصاریٰ کے خلاف جہاد جاری ہو گاتو عیسیٰ علیہ السلام تشریف لا کر اس جنگ کو اپنے انجام تک پہنچائیں گے،صلیب توڑ دی جائے گی ، خنزیر ہلاک کر دیا جائے گا،جزیہ موقوف ہو جائے گا، یہودی چن چن کر مارے جائیں گے اور نصاریٰ سے سوائے اسلام کے ___ کوئی اور چیز قبول نہیں کی جائے گی(جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے)،عیسیٰ علیہ السلام دجّال کو قتل کر دیں گے اور یوں دجّال کے اس فتنے سے امتِ مسلمہ کو پناہ مل جائے گی ،جس سے بڑا کوئی فتنہ اُس وقت تک دنیا میں نہ آیا ہو گا،وسائلِ قدرت پر جس کی گرفت اورفتنہ پروری دیکھ کر ایک شخص صبح کو مومن اور شام کو کافر اور شام کو مومن اور صبح کافر ہو چکا ہو گا ، اس کی جنت کو لے لینے والے جہنّم میں جا گریں گے اور اس کی آگ میں کودنے والے جنت میں چلے جائیں گے۔اس کا دجل (تلبیس اور دھوکہ) اتنا شدید ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں فرماتے ہیں :
((اِنَّ الدَّجَّالَ یَخْرُجُ وَ اِنَّ مَعَہٗ مَآئً وَّ نَارًا فَاَمَّاالَّذِیْ یَرَاہُ النَّاسُ مَائً فَنَارٌ تُحْرِقُ وَاَمَّا الَّذِیْ یَرَاہُ النَّاسُ نَارًا فَمَائٌ بَارِدٌ عَذْبٌ فَمَنْ اَدْرَکَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَلْیَقَعْ فِی الَّذِیْ یَرَاہُ نَارًا فَاِنَّہٗ مَائٌ عَذْبٌ طَیِّبٌ)) (مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ)
’’بے شک دجّال جب نکلے گا تو اس کے ساتھ پانی ہو گا اور آگ ہو گی۔تو جس کو لوگ پانی دیکھیں گے، وہ آگ ہو گی جلانے والی اور جس کو لوگ آگ دیکھیں گے وہ ٹھنڈا ا ور شیریں پانی ہو گا، پھر جو کوئی تم میں سے وہ موقع پائے اس کو چاہیے کہ جو آگ معلوم ہو اس میں گرپڑے، اس لیے کہ وہ شیریں پاکیزہ پانی ہے۔‘‘
اس قطعی حقیقت کے باوجود کہ دجّال باقاعد ہ ایک شخصیت کی صورت میں دنیا کے منظر پر آئے گا، اس کی آمد سے پہلے اس کے فتنے کے مظاہر ا ور اس کے لیے سازگار حالات کی فراہمی کی طرف فقہاء نے اشارے کیے ہیں۔دجّال جعلساز اور ملمع ساز کو کہتے ہیں،اس کو دجّال اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے فریب میں مبتلا کر دے گا۔ حق پر باطل کی تلبیس،اور مادہ پرستانہ فکرو نظر کا فروغ، وسائلِ قدرت پر بے انتہا غلبہ جو اس دجّالی تہذیب کا خا صہ ہے،اس کی حشر سامانیاں تو ہر مومن و مسلم کے سامنے ہیں۔دجّال کی آمد،امام مہدی کے ظہور اور عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے وقت کا صحیح علم صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ ہمارے ذمّے جو چیز آج واجب ہے، وہ شریعت کا اتبا ع ہے جس کی بنیاد پر ہم کل اس نجات پانے والے لشکر کے ساتھی بن سکتے ہیں۔وما التوفیق الا باللّٰہ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭