نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home …ہند ہے سارا میرا!

ہِندُتوا کیا ہے؟ | آٹھویں قسط

نعمان حجازی by نعمان حجازی
10 نومبر 2023
in …ہند ہے سارا میرا!, اکتوبر و نومبر 2023
0

ہندُتوا سے منسلک نظریات و تصورات (۲)

بھارت ماتا (Mother ‘Bharat’)

ہم گولوالکر کے افکار کی ذیل میں ذکر کر آئے ہیں کہ ہندو قوم پرست ہندو قوم کو ایک زندہ اور قابل پرستش وجود تصور کرتے ہیں۔ اس تصور کو وہ اَدْوِیت کے فلسفے سے ہی اخذ کرتے ہیں۔ لیکن اَدْوِیت کے فلسفے کے مطابق تو روح خدا کے وجود کا حصہ ہے اور اپنا علیحدہ وجود نہیں رکھتی۔ اس اعتبار سے تو سارے انسان ہی مقدس ٹھہرے۔ اس مشکل کے حل کے لیے ہندو قوم پرست ایک بودی توجیح پیش کرتے ہیں کہ انسان سے مراد ہندو قوم ہے ساری انسانیت نہیں۔ گویا یہ نظریہ’وحدت الوجود‘ کا نہیں بلکہ ’وحدت الہنود‘ کا ہوا۔ اس حوالے سے ہم گولوالکر کے افکار نقل کر آئے ہیں جنہیں یہاں دوبارہ نقل کر رہے ہیں۔ گولوالکر ایک زندہ و متحرک خدا کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’یہ بیان کہ خدا ’نِرکار‘ (بے پیکر) ہے، ’نرگون‘(بے صفت) ہے اور اس طرح کی سب باتیں ہمیں کہیں نہیں لے جاتیں۔ عبادت کے بہت سے طریقے تشکیل پائے۔ لوگ مندروں میں جاتے ہیں اور بتوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ خدا کی علامتیں ہیں۔ لیکن یہ سب ہم متحرک لوگوں کو مطمئن نہیں کرتا۔ ہمیں ایک ’زندہ‘ خدا چاہیے۔ ایسے خدا کا کیا کام جو صرف سن سکتا ہو لیکن ردّعمل نہیں دے سکتا ہو؟ یہ علامتیں نہ تو روتی ہیں نہ ہنستی ہیں نہ ہی کوئی ردّعمل ظاہر کرتی ہیں، سوائے بلاشبہ اُن لوگوں کے سامنے جو انتہائی اعلیٰ درجے کے سنیاسی ہوں۔ لیکن باقی سب عام لوگوں کے لیے وہ خدا کی ایسی علامتیں ہیں جو کچھ بھی محسوس نہیں کر سکتیں۔ اس لیے ہمیں ایک ’زندہ‘ خدا چاہیے جو ہم میں تحریک پیدا کرے اور ہمارے اند ر چھپی طاقتوں کو اجاگر کرے۔‘‘1

اگلے پیراگراف میں گولوالکر ثابت کرتا ہے کہ یہ ’زندہ‘ خدا خو د ہندو قوم ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’ہمارے آباواجداد کہتے تھے ’ہمارے لوگ ہمارا خدا ہیں‘۔ شری رام کرشن جو کہ انسانیت کے عظیم ترین استادوں میں سے ایک ہیں کہتے تھے ، ’انسان کی خدمت کرو‘۔ اس کے عظیم شاگرد سوامی وویکانند بھی یہی کہتے تھے۔ لیکن ’انسان‘ کو جب پوری انسانیت کے دائرے میں لیا جائے گا تو یہ ایک بہت وسیع اصطلاح ہے اور اس لیے اسے آسانی سے ایک اکائی کے طور پر دیکھنا اور محسوس کرنا بہت مشکل ہے۔ اسی لیے ایسا ہوا کہ بہت سے لوگ جو انسانیت کی خدمت کا خیال لے کر اٹھے وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔ اس لیے ہمارے آباواجدا د نے، انسانی دماغ اور ذہانت کی حدود کو سمجھتے ہوئےکہا، ’انسانیت اور یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن اس سے پہلے کہ کوئی اس سطح تک پہنچ پائے، خدا کا تصور کچھ حدود و قیود کے ساتھ رکھنا ضروری ہے، جسے کوئی سمجھ سکے، محسوس کر سکے اور اس کی خدمت کر سکے۔‘ انہوں نے کہا کہ ہندو قوم ’وِروت پُرش‘ ہیں (یعنی خدا کی تجلّی) ۔ اگرچہ انہوں نے ’ہندو‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن یہ خدا کی درج ذیل تعریف سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ’ سورج اور چاند اس کی آنکھیں ہیں، ستارے اور آسمان اس کی ناف سے پیدا کیے گئے ہیں اور براہمن اس کا سر، بادشاہ اس کے ہاتھ، ویش اس کی ٹانگیں اور شودر اس کے پاؤں ہیں‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ چوہری (چار سطح کی) خصوصیات رکھتے ہیں، یعنی ہندو قوم ، وہ ہمارا خدا ہے۔‘‘2

لیکن اگر پوری ہندو قوم ایک خدا ہے اور قابل پرستش زندہ وجود ہے تو یہ بھی تو کسی ایک اکائی کا نام نہیں؟ یہ تو کروڑوں انسانوں پر مشتمل ہے تو پھر اس قوم کی عبادت کیسے ہو؟ کیا ایک ہندو خود اپنی ہی عبادت شروع کر دے؟ یا اپنے سامنے نظر آنے والے پہلےہندو کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے اور اس سے اپنی آرزوئیں مانگے؟ ہندو قوم کو خدا کہنا اور اسے قابل پرستش کہنا ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔ اس مشکل کا حل نکالنے کے لیے ہندو قوم پرستوں نے ایک نیا بت کھڑا کر دیا، اور کہا کہ ہندو قوم کی الوہیت کا اظہار ’بھارت ماتا‘ سے ہوتا ہے جو محض ایک مورتی نہیں بلکہ ایک زندہ خدا ہے۔ یہ خدا کی بھی علامت ہے اور ہندو قوم کی بھی جو دونوں ایک ہی ہیں یعنی ایک ہی وجود کا حصہ ہیں۔ اس لیے مقدس ہیں۔

گولوالکر بھارت ماتا کی حدود کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’ہمالیہ کے ساتھ ہماری مادرِ ارضی نے اپنے دونوں بازو دو سمندروں میں ڈبو رکھے ہیں، آرین (ایران) اس کے مغرب میں ہے اور سرینگاپور (سنگاپور) اس کے مشرق میں، جبکہ سری لنکا (سیلون) جنوبی سمندر کی طرف سے ایک کنول کا پھول ہے جو کہ ماتا کے چرنوں میں نچھاور کیا گیا ہے۔ یہ وہ تصویر ہے جو کئی ہزار سال تک لوگوں کے ذہنوں میں تابندہ رہی۔‘‘3

لفظ ’بھارت‘ کی اصل

اس سے پہلے کہ ہم بھارت ماتا کی اصطلاح کی تفصیل میں جائیں پہلے یہ جاننا ضروریہ ہے کہ ہندوستان کی سرزمین جسے ’ماتا‘ کہا جا رہا ہے اس کے لیے بھارت کا لفظ کہاں سے آیا۔

ہندو مت کی دیگر اصطلاحات کی طرح اس لفظ کی اصل کے حوالے سے بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ بھارت کا لفظ ’بھرت‘ سے نکلا ہے جو کہ ’آریاورت‘4 کا مرکزی قبیلہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ دوسری ہزاروی قبل مسیح میں جنوبی افغانستان میں دریائے ’سرسوتی‘ کے کنارے آباد تھا۔اس قبیلے کا بادشاہ ’دیوداس‘ تھا ۔ دیوداس کے بیٹے سُداس کے ساتھ ایک اور بڑے قبیلے ’پورو‘ کے سربراہی میں دیگر تمام قبائل کے اتحاد نے جنگ کی جسے ’دس بادشاہوں کی جنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں ’بھرت‘ قبیلے کو فتح ہوئی ۔ اس کے بعد ’بھرت‘ اور ’پورو‘ قبائل کی اولادوں نے شمالی ہندوستان (ہریانہ اور اتر پردیش کے بعض علاقے) میں ’کورو سلطنت‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ ۱۲۰۰ سے ۹۰۰ قبل مسیح کا دور ہے اور یہ سلطنت ہندوستان کی تاریخ کی پہلی کسی درجے کی متحد حکومت تھی۔ اور چونکہ یہ سلطنت بالاصل ’بھرت‘ قبیلے کی کوششوں سے وجود میں آئی اسی لیے ہندو آج ہندوستان کو بھارت اسی قبیلے سے منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

ایک اور رائے یہ ہے کہ ’بھارت‘ ہندوؤں کی مقدس دیومالائی داستان ’مہابھارت‘ میں ذکر کیے گئے بادشاہ ’بھارت‘ سے منسوب ہے۔ یہ بادشاہ بھارت مہابھارت میں ذکر کیے گئے تمام قبائل بشمول دو مرکزی قبائل ’کورو‘ اور ’پانڈو‘ جن کے درمیان مہا بھارت میں ’کروکشیتر‘ کی جنگ ہوئی تھی اور اس کے علاوہ دیگر مذکورہ دو قبائل ‘، ’بریہادھرت‘ اور ’جرسندھ‘ کا جد امجد تھا۔ اس کا تعلق ’بھرت‘ قبیلے سے ہی تھا اور اس کی اولادوں کے یہ سب قبائل جن کا مہا بھارت میں ذکر ہے ’کورو سلطنت‘ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ اور اسی مہا بھارت کے قبائل کے جد امجد ’بھارت‘ کے نام سے ہی آج ہندوستان کا نام ’بھارت‘ منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہندو اسے ’بھارت ورش‘ بھی کہتے ہیں یعنی ’بھارت بادشاہ کی سرزمین‘۔ لیکن اگر ان قبائل کی تاریخ مہابھارت کے علاوہ دیکھی جائے تو ان کے پورے نسب میں کہیں بھی ’بھارت‘ نامی بادشاہ کا نام نہیں آتا۔ اور مہابھارت میں بھی یہ واضح نہیں کہ یہ قبائل کس نسل میں جا کر ’بھارت‘ بادشاہ سے جڑتے ہیں۔ خود مہابھارت کی آٹھ کتابوں میں سے پہلی کتاب میں اور بعض دیگر ’پورانوں‘ میں ذکر ہے کہ یہ بادشاہ بھارت جس کے باپ کا نام ’دشینت‘تھا ایک چکروتی تھا اور یہ مہابھارت میں ذکر تمام قبائل کا جد امجد تھا، لیکن مہابھارت میں ہی آگے جا کر ان قبائل کا جد امجد ’کورو‘ بادشاہ کو کہا گیا ہے اور اس کا پورا نسب بھی دیا گیا ہے اور اس پورے نسب میں کہیں بھی ’بھارت‘ بادشاہ‘ کا ذکر نہیں۔

ایک اور رائے میں بھارت کا لفظ ایک اور دیومالائی بادشاہ ’بھارت‘ کے نام سے منسوب ہے جس کے باپ کا نام ’رشابنتھ‘ تھا۔ جس طرح ’دشینت‘ کے بیٹے ’بھارت‘ کا ذکر بعض ’پورانوں‘ میں آتا ہے اسی طرح دیگر پورانوں میں ’رشابنتھ‘ کے بیٹے بھارت کا ذکر آتا ہے اور اسے بھی چکروتی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ اوّل الذکر بھارت سے زیادہ دیومالائی ہے کیونکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پوری دنیا فتح کر لی تھی اور پوری دنیا پر حکمرانی کی تھی۔ اور اس رائے کے مطابق اسی کے نام کی نسبت سے ہندوستان کو ’بھارت ورش‘ کہا جاتا ہے۔

اوّل الذکر بھارت بادشاہ والی رائے کو موجودہ ہندوؤں نے اپنایا ہے جب کہ مؤخر الذکر بادشاہ بھارت کے حوالے سے رائے کو موجودہ جین مت کے ماننے والوں نے اپنایا ہے لیکن قبل مسیح میں قبیلہ ’بھرت‘ کے وجود کے بارے میں اختلاف نظر نہیں آتا۔

ایک اور رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ’بھارت‘ اگنی دیوی (آگ کی دیوی) کا ایک لقب ہے۔ اور اگنی دیوی کی نسبت سے ہی ہندوستان کا نام بھارت رکھا گیا۔

بہرحال ان آراء میں سے جو بھی درست ہو ایک بات واضح ہے کہ ’بھارت‘ نام کی ہندو مذہب کے ساتھ نسبت ہے اور اس کے علاوہ کسی چیز سے اس کی نسبت نہیں۔ ہندوستان میں ۱۹۵۰ءمیں ’بھارت‘ کو ملک کے ایک اور نام کے طورپر آئین میں شامل کیا گیا۔ آئینِ ہند کے پہلے آرٹیکل میں درج ہے “India that is Bharat” یعنی ’انڈیا جو کہ بھارت ہے‘۔ آئین میں اس جملے سے دو چیزیں سمجھ آتی ہیں۔ ایک یہ کہ سرکاری سطح پر ’انڈیا‘ نام کو فوقیت دی جائے گی اور دوسرا یہ چاہے سرکاری طور پر اسے انڈیا کہا جائے لیکن اصل میں یہ ’بھارت‘ ہے۔ ۷۳ سال بعد آج سنگھ پریوار کی حکومت انڈیا کے لفظ کوملک کے نام سے مکمل طور پر ختم کرکے مستقل طور پر صرف ’بھارت‘ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔’ہندوستان‘ کا لفظ تو اب انڈیا سے ویسے ہی ناپید ہوتا جا رہا ہے آج انڈیا میں مسلمانوں کی بھی صرف ایک قلیل تعداد ہے جو ’ہندوستان‘ کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ یہ سنگھ پریوار کی ان کوششوں میں سے ایک ہے کہ ملک میں سے برطانوی راج اور مسلمانوں کی حکومت کے تمام آثار اور اثرات کو ختم کیا جائے اور ملک کو ہر اعتبار سے ایک ہندو ملک بنایا جائے۔

’بھارت ماتا‘ کے تصور کی ایجاد

بھارت ماتا کا تصور اصل میں مذہبی سے زیادہ ایک سیاسی تصور ہے۔ اور ہندُتوا اور اس سے جڑے دیگر زیادہ تر سیاسی تصورات کی طرح یہ تصور بھی زیادہ پرانا نہیں، اور بالاصل برطانوی راج سے آزادی کی تحریک سے منسلک ہے۔

بھارت ماتا کا تصور پہلی بار ۱۸۷۳ء میں کِرن چندر بینرجی نے اپنے ایک اسٹیج ڈرامہ ’بھارت ماتا‘ میں پیش کیا، جس میں اس نے بھارت ماتا کو ایک دیوی کے روپ میں دکھایا جو لوگوں کو برطانوی راج کے خلاف بغاوت پر ابھارتی تھی۔ اس ڈرامہ کے بعد بھارت ماتا کا یہ تصور شہرت پکڑ گیا اور پھر کئی عشروں تک یہ برطانوی راج سے آزادی کی تحریک کے ساتھ بطور علامت جڑا رہا۔ بھارت ماتا کے تصور کو پہلی بار مذہبی رنگ ۱۹۳۰ء میں دیا گیا۔ جب ہندوؤں کی دیوی ’دُرگا‘ کی شکل کی ایک دیوی بنائی گئی اور اسے بھارت ماتا کی دیوی کہا گیا اورکہا گیا کہ ہندوستانی تہذیب کی ساری کی ساری دیویاں اس ایک دیوی میں جمع ہیں اور ان میں غالب ’دُرگا‘ ہے۔

۱۹۳۶ء میں بھارت ماتا کا ایک مندر بنارس میں بنایا گیا جس کا افتتاح گاندھی نے کیا۔ لیکن اس مندر میں کوئی مورتی نہیں رکھی گئی تھی بلکہ صرف سنگ مرمر کا بنا ہوا ہندوستان کا نقشہ تھا۔ بعد میں اس نقشے کے ساتھ ’بھارت ماتا‘ کی سنگ مرمر کی ایک مورتی بھی رکھ دی گئی۔

۱۹۸۳ء میں سنگھ پریوار سے منسلک ہندو قوم پرست تنظیم وشوْ ہندو پریشد نے ہری دوار میں بھارت ماتا کا ایک مندر بنانے کا کام شروع کیا۔ جس کا افتتاح اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کیا۔ آٹھ منزلوں پر مشتمل مندر کی اس عمارت میں پہلی منزل بھارت ماتا کی مورتی کے لیے وقف ہے۔ دوسری منزل (شور مندر) آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے رہنماؤں کے لیے وقف ہے۔ تیسری منزل (ماترو مندر) بھارت کی تاریخ کی عظیم خواتین کے لیے ہے۔ چوتھی منزل سَنْت مندر ہے، جس میں جین مت، سکھ مت اور بدھ مت (دھارمک مذاہب) کے مذہبی رہنماؤں کی مورتیاں رکھی گئی ہیں۔ پانچویں منزل پر شکتی، دُرگا، پاروَتی، سَتی، رادھا، سرَسْوَتی اور کالی دیویوں کی مورتیاں ہیں۔ ساتویں منزل پر وشنو دیوتا کی مورتی ہے جبکہ آٹھویں منزل پر شِوْ مندر ہے۔ اس طرح کے مندر اب دیگر شہروں میں بھی بنائے جا رہے ہیں۔ان میں سے ایک کا افتتاح ۲۰۱۵ء میں کلکتہ میں ہوا جہاں بھارت ماتا کی علامت کے طور پر درگاہ دیوی کی مورتی رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۹ء میں ہریانہ میں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ہریانہ کے شہر کروکشیتر کے نزدیک جیوتیسر کے علاقے میں پانچ ایکڑ زمین بھارت ماتا کا مندر بنانے کے لیے مختص کی ہے۔

قوم پرستی اور ’ہندوستانی مذاہب‘ کے عقیدوں اور رسوم میں گڈ مڈ کا یہ علامتی اظہار ہندُتوا کے مخصوص فلسفہ ہندوستانیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں مختلف ’ہندوستانی مذاہب‘ ، ان کے شعائر ایک مشترک ورثے کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور اس مشترک ورثے کا ہندوستانی قوم سے ایک خاص تعلق نظر آتا ہے۔ جب کہ نام نہاد ’سامی مذاہب‘ اور ان کے مذہبی تصورات اور احساسات کی اس میں کوئی جگہ باقی نہیں رہتی اور وہ اس سب سے غیر متعلق اور اجنبی نظر آتے ہیں۔

’بھارت ماتا کی جے‘ ہندوستانی فوج کا شعار ہے اور یہ نعرہ لگانا بلا تفریق مذہب ہر ہندوستانی فوجی کے لیے لازم ہے۔ اسی طرح آر ایس ایس بھی اپنی شاکھوں کے اجلاس کا آغاز ایک ’پراتھنا‘ (دعا) سے کرتے ہیں جس کے ابتدائی الفاظ ہیں کہ ’’اے مادر ارضی، میں تیرے آگے ہمیشہ کے لیے سر خم کرتا ہوں‘‘۔

بھارت ماتا کا تصور ہندو قوم پرستوں کا اہم ترین سیاسی ہتھیار ہےجس کی بنیاد پر یہ ہندوستان کے تمام باسیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بھارت کی سرزمین اُن کی نظر میں اپنی دیگر تمام مقدسات سے زیادہ مقدس ہونی چاہیے۔

ہم ہندُتوا کے تعارف میں یہ ذکر کر آئے ہیں کہ ساورکر کے بقول کسی فرد کے لیے ہندوستانی قوم کا جز ہونے کے لیے شرط ہے کہ وہ اس سرزمین کو آبائی زمین اور مقدس سرزمین تسلیم کرے۔ مقدس دریا یہاں کے دریا ہوں، مقدس مقامات یہاں واقع ہوں ، جن شخصیات اور تاریخی کرداروں پر فخر ہو، ان کا تعلق اسی زمین سے ہو۔ اسی طرح گولوالکر بھی مسلمانوں کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’انہیں (مسلمانوں کو) یہ ادراک کرنا ہو گا کہ کبھی وہ بھی ہندو تھے، اور یہ اُن کا فرض ہے کہ وہ اس دھرتی کے ساتھ وفادار رہیں، اور پورے خلوص کے ساتھ اس کی خدمت کریں، اپنے ہم وطنوں کی خوشی اور غمی میں شریک ہوں اور اس دھرتی کے رسوم و رواج کا احترام کریں۔‘‘5

اٹل بہاری واجپائی کو ہندُتوا تحریک کا ایک معتدل چہرہ اور دماغ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے سب سے زیادہ وضاحت سے بات اُسی کی جانب سے ملتی ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ تین طرح کا سلوک ممکن ہے۔ ایک ہے تِرسکار، یعنی خود کو نہ بدلیں تو انہیں اکیلا چھوڑ دو، مسترد کر دو اور اپنا مخالف سمجھو۔ دوسرا ہے پرسکار، یعنی خوشامد کا رویہ یعنی انہیں درست رکھنے کے لیے رشوت دو، جو اس وقت کانگرس کر رہی ہے۔ تیسرا طریقہ ہے پرشکار، یعنی انہیں تبدیل کرو انہیں آداب سکھاؤ اور قومی دھارے میں شامل کرو۔ ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مذہب نہیں بدلا جائے گا۔ وہ اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں۔ مکہ ان کی مقدس جگہ رہ سکتا ہے، لیکن بھارت اس مقدس جگہ سے بھی مقدس تر ہونا چاہیے۔ آپ مسجد بنائیں، نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ لیکن اگر مکہ اور ہندوستان کے درمیان منتخب کرنے کی نوبت آئے تو آپ ہمیشہ ہندوستان کو ترجیح دیں۔ تمام مسلمانوں کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم ہندوستان کے لیے جئیں گے اور اسی کے لیے مریں گے۔‘‘6

وندے ماترم (Vande Mataram)

بھارت ماتا کی ہی ذیل میں ایک معاملہ ہندوستان کے قومی نغمے ’وندے ماترم‘7 کا ہے۔ جہاں ہندو قوم پرست بھارت ماتا کے تقدس کو سب کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں اور ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں کا ہر باسی بھارت ماتا کو مقدس تصور کرے اسی طرح ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ وندے ماترم کا نغمہ گانا سب کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔

’وندے ماترم‘ کا مطلب ہے ’میں تیرے آگے جھکتا ہوں، اے ماں‘۔ اور یہ نظم بنگالی زبان میں بھارت ماتا کو مخاطب ایک قصیدہ ہے، جسے بنکم چندر چترجی(Bankim Chandra Chatterjee) نے ۱۹۸۲ء میں اپنے ناول انندمتھ(Anandamath) میں شامل کیا۔ یہ ناول برطانوی راج سے بغاوت کے موضوع پر تھا اور بھارت ماتا کی دیوی کا ذکر اس ناول میں بھی آتا ہے۔ ۱۸۹۶ء میں رابندر ناتھ ٹیگور نے اس نظم کو نغمے کی شکل میں تشکیل دے کر کانگرس کے ایک اجلاس میں گایا جس کے بعد سے یہ نغمہ برطانوی راج سے آزادی کی تحریک سے جڑ گیا۔ برطانوی راج کے خلاف نکالے گئے جلوسوں اور مظاہروں میں ’وندے ماترم‘ ہندوؤں کا نعرہ بن گیا۔ لیکن مسلم لیگ اور دیگر مسلمان طبقات کی طرف سے اسے آزادی کی تحریک سے منسلک کرنے کی شدید مخالفت کی گئی، کیونکہ اس میں بھارت ماتا کی دیوی سے دعا مانگی گئی ہے اور اس کے علاوہ دُرگا، شکتی اور ہندوؤں کی دیگر دیویوں کا بھی ذکر ہے۔

کانگرس میں اس نغمے کو قومی نغمہ بنانے کی سفارش پیش کی گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی وجہ سے کانگرس نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں مولانا آزاد، جواہر لال نہرو، سبھاش بوس اور رابندرناتھ ٹیگور شامل تھے۔ اس کمیٹی کی سفارش پر اس نغمے کے پہلے دو بند ۱۹۳۷ء میں ہندوستان کے قومی نغمے کے طور پر منتخب کر لیے گئے۔

مولانا آزاد اور بعض دیگر مسلمانوں کی طرف سے اس نغمے کے پہلے دو بند قبول کرنے کی وجہ لفظ ’وندے‘ کے مطلب میں اختلاف ہے۔ اس کا مطلب بالعموم تعظیم و تحسین یا سلامی دینے کے معنوں میں آتا ہے لیکن اس کا مطلب جھکنا اور عبادت کرنا بھی ہے۔ اس لیے جن مسلمانوں نے اس نغمے کے پہلے دو بند اپنانے کی حمایت کی ان کی رائے یہی تھی کہ اس میں’بھارت ماتا‘ کی تعظیم کی گئی ہے اسے سلام پیش کیا گیا ہے اس کی عبادت کی یا اس کے سامنے جھکنے کی بات نہیں ہے۔

لیکن یہ رائے مقبول نہیں ہوئی۔ خود ہندو بھی اس کا ترجمہ بھارت ماتا کے آگے جھکنے کا ہی کرتے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگورنے سبھاش چندر بوس کو لکھے اپنے ایک خط میں اس رائے کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’وندے ماترم کا جوہر دُرگا دیوی کی حمد ہے۔ یہ بات اس نظم میں اتنی واضح ہے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف کیا ہی نہیں جا سکتا… کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ حب الوطنی کے جذبے سے اس دس بازوؤں والی دیوی کی بطور قوم یا وطن پوجا کرے۔‘‘8

آزادی کے بعد ’جن گن من‘ کو جمہوریہ ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا گیا۔ اور ۱۹۵۰ء میں ’وندے ماترم‘ کے پہلے دو بند کو قومی ترانے سے علیحدہ ایک ’قومہ نغمہ‘ کا درجہ دے دیا گیا۔

آزادی کے بعد سے ہی یہ نغمہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نزاع کا باعث رہا ہے۔ ہندو جہاں اس نغمے کو گانا حب الوطنی کے جذبے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں تو وہیں مسلمانوں کی طرف سے کئی علماء نے اس کے شرکیہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور اس کو گانے سے منع کیا ہے۔

۲۰۰۶ء میں کانگرس کی حکومت نے بی جے پی اور دیگر ہندو قوم پرستوں کے دباؤ میں آکر اس نغمے کی ۱۲۵ویں سالگرہ پر پورے ملک میں تمام سکولوں میں ایک دن ایک مقررہ وقت پر اس نغمے کو پڑھنا سب بچوں کے لیے لازم کیا۔ اور ۷ ستمبر ۲۰۰۶ء کو مقررہ وقت پر پورے ہندوستان کے سکولوں میں یہ نغمہ پڑھا گیا۔

لیکن مسلمانوں میں ایسے طبقے بھی موجود ہیں جو اس نغمے کے پہلے دو بند پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔ راجیو گاندھی کے دور حکومت میں وزیر رہنے والے عارف محمود خان نے اس نغمے کی اردو ترجمانی کی جس کے پہلے دو بند درج ذیل ہے:

تسلیمات، ماں تسلیمات
تُو بھری ہے میٹھے پانی سے
پھل پھولوں کی شادابی سے
دکھن کی ٹھنڈی ہواؤں سے
فصلوں کی سُہانی فضاؤں سے
تسلیمات، ماں تسلیمات

تیری راتیں روشن چاند سے
تیری رونق سبزِ فام سے
تیری پیار بھری مسکان ہے
تیری میٹھی بہت زُبان ہے
تیری باہوں میں میری راحت ہے
تیرے قدموں میں میری جنت ہے
تسلیمات، ماں تسلیمات

ہندوستانی جریدے ’ٓآؤٹ لک انڈیا‘ نے اس ترجمے پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا کہ یہ ترجمہ ’غیر ضروری‘ اور ’بے تکا‘ ہے9۔

۷ ستمبر ۲۰۰۶ء کو جب حکومت کی طرف سے سکولوں میں ایک دن کے لیے وندے ماترم پڑھنا لازمی قرار دیا گیا، اس سے ایک دن قبل ۶ ستمبر ۲۰۰۶ء کو ’آل انڈیا سنّی علماء بورڈ‘ نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مسلمان اس نغمے کے پہلے دو بند پڑھ سکتے ہیں۔ بورڈ کے صدر مفتی سید شاہ بدر الدین قادری جیلانی نے دلیل یہ پیش کی کہ:

’’ اگر آپ تعظیم کے ساتھ اپنی ماں کے قدموں میں جھکتے ہیں تو یہ شرک نہیں صرف تعظیم ہے۔‘‘10

لیکن وہ یہ دلیل دیتے ہوئے شاید بھول گئے کہ اس نغمے میں ماں اصلی ماں کو نہیں بلکہ ایک زمین کے ٹکڑے کو کہا جا رہا ہے۔

مودی کی حکومت آنے کے بعد سے سنگھ پریوار سے منسلک تنظیموں نے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں کہ اس نغمے کو سکولوں میں گانا لازمی قرار دیا جائے۔ ان تنظیموں کے غنڈے ہر کچھ عرصے بعد مختلف سکولوں میں، خاص طور پر مسلمانوں کے سکولوں میں جا کر زبردستی وہاں مسلمان بچوں کو وندے ماترم گانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ جولائی ۲۰۱۷ء میں مدراس ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا کہ تامل ناڈو کے تمام اسکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں وندے ماترم ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور گایا جانا چاہیے۔اس کے علاوہ تمام سرکاری دفاتر میں اور فیکٹریوں میں کم از کم مہینے میں ایک بار ضرور گایا جانا چاہیے۔

ہندو راشٹر (Hindu Rashtara)

ہندو راشٹر کی اصطلاح ہندتوا کے پیروکاروں کی طرف سے بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ سنگھ پریوار کی طرف سے بار بار اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنائیں گے۔

ہندو راشٹر کا مطلب ایک ایسی ریاست ہے جہاں ہندو مت غالب مذہب ہو، اور جہاں حکومت ہندو قوانین اور روایات کے مطابق چلائی جائے۔ ایسی ریاست جہاں کے معاشرے ، ثقافت، سیاست ہرچیز پر ہندو اقدار و روایات غالب ہوں۔ہندو راشٹر کی بنیاد ہندوؤں کی دو مقدس کتابوں پر ہے۔

  1. منوسمرتی(Manusmriti)

منوسمرتی ہندو مت کے بہت سے دھرم شاستروں میں سے ایک ہے۔ منو ْ سمرتی نسبتاً جدید نام ہے۔ قدیم نسخوں میں اس کتاب کا نام مانوْ دھرم شاستر ملتا ہے۔

دھرم شاستر ہندومت کی ضابطہ اخلاق اور قوانین کی کتابوں کو کہتے ہیں۔ ہندو مت میں کتنے دھرم شاستر ہیں اس حوالے سے بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کی تعداد ۱۸ سے ۱۰۰ کے درمیان ہے اور مختلف دھرم شاستروں میں لکھے گئے قوانین اور ضابطہ ٔ اخلاق میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ نا صرف یہ کہ مختلف دھرم شاستروں میں اختلاف موجود ہے بلکہ ہر دھرم شاستر کے بھی بہت سے نسخے موجود ہیں اور ان نسخوں کے مابین بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔

یہ سب دھرم شاستر تاریخ کے مختلف ادوار میں ناپید ہوگئے اور صرف مانوْ دھرم شاستر(منو سمرتی) باقی بچا۔ منوسمرتی کے آج پچاس کے قریب نسخے پائے جاتے ہیں۔ لیکن جس نسخے کا سب سے زیادہ ترجمہ ہوا اور جس پر اٹھارہویں صدی کے بعد سے سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے وہ کلکتہ کا نسخہ ہے۔

منوسمرتی ہندو مت میں ذات پات کے نظام کی تفصیلات وضع کرنے والی بنیاد کتاب ہے۔ اس کتاب میں ذاتوں کے اعتبار سے حقوق و فرائض ، قوانین، طرزِ عمل اور نیکی و بدی کے امور بتائے گئے ہیں۔ منوسمرتی میں ذاتوں کے اعتبار سے کاموں کو تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر ذات سے تعلق رکھنے والا فرد صرف اپنی حیثیت کے مطابق کام کر سکتا ہے اس سے ہٹ کر کام کرنے کی اسے اجازت نہیں۔ یہ تقسیم درج ذیل ہے:

  1. براہمن: پروہت، پنڈت، پجاری، گرو
  2. کشتری: بادشاہ، وزراء، انتظامی ذمہ داران، جنگجو
  3. ویش: ذمیندار، کسان، تاجر
  4. شودر: دستکار، مزدور ، غلام
  5. ارتھ شاستر(Arthashastra)

ارتھ شاستر سنسکرت میں ریاستی امور، سیاست، معیشت اور عسکری حکمت عملی کے موضوعات پر لکھے گئے عہدناموں کے مجموعے کا نام ہے۔اس کا مصنف ’’کوٹلیا چانکیا‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ جو کہ موریا سلطنت11 کے بانی بادشاہ ’چندر گپت موریا‘ کا گورو تھا۔ زیادہ تر محققین کی رائے میں یہ تمام عہد نامےکسی ایک شخص کی تصنیف نہیں ہیں بلکہ صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مصنفین نے ان میں اضافے کیے ہیں۔ دوسری صدی قبل مسیح سے تیسری صدی عیسوی تک ان کی تصنیف و تدوین ہوئی اور ان میں اضافے کیے گئے۔ بارہویں صدی عیسوی تک ان کے موضوعات حکومتی امور پر اثر انداز ہوتے رہے اس کے بعد یہ منظر سے غائب ہو گئے۔ پھر ۱۹۰۵ء میں سنسکرت کے ماہر ’ردر پٹن شام ساستری‘ (R. Shamasastry) نے انہیں دوبارہ دریافت کیا اور ۱۹۰۹ء میں کتابی شکل میں نشر کیا۔

اگرچہ ارتھ شاستر کے موضوعات بہت وسیع ہیں ۔ جہاں اس میں نظام بنانے کی اہمیت، معاشی حکمت عملی بنانے کی اہمیت، بادشاہ کے حقوق و فرائض، ولی عہد کی تربیت کا معیار، وزراء اور دیگر افسران کی ذمہ داریاں اور ان کو منتخب کرنے کا طریقہ کار، عدلیہ کا نظام، سماجی قوانین اور ٹیکس وصولیوں جیسے موضوعات کا تفصیل سے ذکر گیا ہے وہاں جن موضوعات نے ہند سے باہر اس کتاب کو عالمی شہرت دی وہ جنگ اور امن کے موضوعات، جاسوسی کا نظام اور خارجہ پالیسی سے متعلق ہیں۔

ارتھ شاستر میں جنگ کے حوالے سے سب سے بنیادی اصول یہ لکھا ہے کہ ہر حال میں جنگ سے اجتناب کیا جائے:

’’جتنی آسانی سے جنگ جیتی جاسکتی ہے اتنی ہی آسانی سے ہاری بھی جا سکتی ہے۔ جنگ فطری طور پر ہی ایک غیر یقینی چیز ہے، اس کے ساتھ ساتھ جنگ مہنگی بھی ہوتی ہے۔ اس لیے جنگ سے بچو۔ اپایا (Upaya) کا استعمال کرو، جنگ کے بغیر دشمن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرو، دشمن کو اپنی ذہانت سے مغلوب کرو، جب سب ناکام ہو جائے تب عسکری طاقت استعمال کرو۔‘‘

اپایا (Upaya) چار حکمت عملیوں کو کہتے ہیں:

  1. سما (Sama) یعنی مذاکرات، مصالحت یا معاہدہ کے ذریعے جنگ روکنا،
  2. دنا (Dana) یعنی ہرجانہ، تلافی یا کوئی مالی فائدہ پہنچا کر جنگ روکنا،
  3. بھیدا (Bheda) یعنی منطق یا چال چل کر ابہام پیدا کرنا۔ دشمن میں داخلی فساد اور اختلاف پیدا کرناتاکہ وہ جنگ سے باز آجائے،
  4. ڈنڈا (Danda) یعنی جب اوپر کے طریقے ناکام ہو جائیں تو طاقت کا استعمال۔

ارتھ شاستر میں کہا گیا ہے کہ اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو جنگ جیتنے کے لیے ہر ممکن حربے استعمال کرنے چاہئیں جن میں فوجوں کی براہ راست لڑائی کے علاوہ، دشمن کی قیادت کا خفیہ قتل، دشمن کی قیادت کے درمیان اختلافات پیدا کرنا، عسکری اہداف کے حصول کے لیے دشمن کی صفوں میں خفیہ طور پر اپنے مرد اور عورتیں داخل کرنا اور اپنے فوجیوں کے مورال بلند کرنے اور دشمن کے فوجیوں کے مورال گرانے کے لیے توہمات اور پراپیگنڈہ کا استعمال شامل ہے۔

ارتھ شاستر میں جاسوسی کے لیے عورتوں کے استعمال کا بھی ذکر ہے:

’’(دشمن کے) حکمران طبقے کو کمزور کرنے کے لیے، (دشمن کی) حکومتی کونسل کے سربراہوں کو خوبصورت اور نوجوان عورتوں سے مسحور کرنا چاہیے۔ جب ان کے جذبات جاگ اٹھیں، تو(یہ عورتیں) ایک کو اپنی محبت کا یقین دلانے کے بعد دوسرے کے پاس جا کر انہیں آپس میں لڑوا دیں۔‘‘

ارتھ شاستر میں یہ بھی ذکر ہے کہ چونکہ دشمن بھی معلومات حاصل کرنے اور پراپیگنڈہ پھیلانے کے لیے اپنے جاسوس ہمارے علاقوں میں بھیجتا ہے اس لیے خفیہ کاروائیوں کے لیے ڈبل ایجنٹوں کی تربیت کی جانی چاہیے اور انہیں مناسب انعامات سے بھی نوازا جانا چاہیے۔

جہاں ارتھ شاستر میں بیرونی دشمن کے خلاف جاسوسی کی تفصیلات ہیں وہیں داخلی جاسوسی کے نظام کو بھی تفصیل سے ذکرکیا گیا ہے۔ داخلی جاسوسی کا مقصد حکومتی عہدہ داران کی دیانت داری کو جانچنا، سیاسی جوڑ توڑ کی معلومات لینا ،عوام میں بغاوت کا سد باب کرنا اور مشکلات پیدا کرنے والے ایسے طاقتور لوگوں کو ختم کرنا ہے جن کا کھل کر مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔

جاسوسی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں ان اصولوں کی وجہ سے ہی ’چانکیا‘ کا لفظ مکاری اور عیاری کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 46

2 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 46, 47

3 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 81

4 ’آریاورت‘ کا مطلب ہے آریاؤں کی سرزمین۔ زمانہ قبل مسیح میں ’آریا‘ سے منسوب قومیں ہجرت کر کے ہندوستان آئیں اور شمالی ہندوستان کے علاقوں میں آباد ہوئیں ، اسی خطے کو تاریخی طور پر آریا ورت کہا جانے لگا۔ وسطی ایشیاء میں اس کا ہم معنی لفظ ’آریانا‘ پایا جاتا ہے جسے افغانستان کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جس کا مطلب بھی ’آریاؤں کی سرزمین‘ ہے۔ یہ نام اس نسبت سے دیا جاتا ہے کہ ہجرت سے پہلے ’آریا‘ قومیں وسطی ایشیا میں آباد تھیں۔

5 Bunch of Thoughts by M. S. Golwalkar p. 256

6 The Sangh is my Soul by Atal Bihari Vajpayee, in Organiser issue 16 August, 2020 (ترجمہ: ہندُتوا کی فکری اساسیت از سید سعادت اللہ حسینی، ماہنامہ زندگی نو، شمارہ جولائی ۲۰۲۱ء ، ص ۱۵)

7 بعض ہندوستانی لہجوں خصوصاً مشرقی ہند کے لہجوں میں اسے ’بندے ماترم‘ بھی کہتے ہیں۔

8 Selected Letters of Rabindranath Tagore by K. Datta and A. Robinson, Letter # 314

9 www.outlookindia.com/website/story/unnecessary-and-irrelevant/232420

10 Now a Fatwa to sing Vande Mataram, Md A Basith, (7 September 2006) The Times of India

11 موریا سلطنت کی بنیاد ’چندر گپت موریا‘ نے ۳۲۲ قبل مسیح میں رکھی۔ اس کا دارالحکومت ’پٹلی پتر‘ (موجودہ پٹنا) میں تھا۔ اس سلطنت کو عروج اشوک (جسے اشوکا بھی کہا جاتا ہے) کے دور (۲۶۸ قبل میسح سے ۲۳۲ قبل میسح) میں حاصل ہوا جنوبی ہند کے آخری حصوں کے علاوہ سارے برصغیر پر اشوک نے حکومت قائم کی۔ اشوک کے پچاس سال بعد اس سلطنت کا زوال ہو گیا اور ۱۸۵ قبل مسیح میں اس سلطنت کا خاتمہ ہوا۔

Previous Post

دو عالمی غنڈوں کی شہ پر…… | دوسری قسط

Next Post

غزوۂ سیدنا عمرفاروق﷜

Related Posts

حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی | دوسری قسط
…ہند ہے سارا میرا!

حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی | دوسری قسط

13 اگست 2025
حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی
…ہند ہے سارا میرا!

حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی

13 جولائی 2025
ثكلتنا أمهاتنا إن لم ننصر رسول اللہ…
…ہند ہے سارا میرا!

ثكلتنا أمهاتنا إن لم ننصر رسول اللہ…

7 جون 2025
!امتِ واحد بن جائیے
…ہند ہے سارا میرا!

!امتِ واحد بن جائیے

6 جون 2025
اس سیکولرزم اور سنودھان نے ہمیں کیا دیا؟
…ہند ہے سارا میرا!

اس سیکولرزم اور سنودھان نے ہمیں کیا دیا؟

27 مئی 2025
اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو بیدار کریں!
فکر و منہج

اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو بیدار کریں!

25 مئی 2025
Next Post
غزوۂ سیدنا عمرفاروق﷜

غزوۂ سیدنا عمرفاروق﷜

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version