’’سر نیچے جھکا لو، امریکی کانوائے گزرنے والا ہے!‘‘حبیب نور نے نثار احمد کو قمیص کے بازو سے کھینچ کر اس کو نیچے بٹھایا۔
نثار احمد بھی اس کے برابر میں ہی بیٹھ گیا۔وہ اور حبیب نور اس وقت مکئی کے کھیتوں میں چھپے بیٹھے تھے۔کھیتوں کے درمیان میں پکی سڑک گزر رہی تھی جس پر سے امریکی کانوائے گزرا کرتے تھے۔رات میں نثار احمد اور اس کے ساتھی مجاہدین نے دو مائنیں لگائی تھیں۔ان کے پاس مائنیں کم تھیں اس لیے صرف دوپر ہی گزارا کرنا پڑا تھا۔اب وہ امریکی کانوائے کے گزرنے کے منتظر تھے۔
’’وہ دیکھو! وہ ہموی گاڑی آرہی ہے!‘‘اچانک نثار احمد کے پہلو میں بیٹھے مجاہد نے سرگوشی میں کہا۔
ان سب نے کھیتوں میں سے ذرا سا سر اٹھا کر دیکھا۔سڑک پر دور، امریکی کانوائے کی گاڑیاں آتی نظر آرہی تھیں۔ عوامی گاڑیوں کی آمد و رفت تقریباً دو گھنٹے سے رکی ہوئی تھی۔ عوام امریکی کانوائے گزرنے کا انتظار کررہی تھی تاکہ وہ اپنے سفر جاری رکھ سکیں۔
چند لمحوں بعد ہی ہموی گاڑیاں ان کے سامنے سے گزنے لگیں۔
’’بسم اللہ پڑھو اور بٹن دبا دو!‘‘حبیب نور نے سرگوشی کی۔
نثار احمد کے ہاتھ میں ایک موبائل تھا۔جس پر چند مخصوص نمبر دبانے سے مائن پھٹ جاتی۔
’’بسم اللہ!…وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی!‘‘ نثار احمد نے سرگوشی میں کہا اور بٹن دبا دیا۔
فضا میں کان پھاڑ دینے والا دھماکہ گونجا اور امریکی بکتر بند ہموی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔
’’اللہ اکبر!‘‘
تینوں مجاہدین نے دبی دبی آواز میں نعرہ لگایا۔امریکی کانوائے رک گیا۔وہ ملبے میں سے اپنے زخمی اور مردے نکالنے لگے تھے۔
’’چلو! اب واپس چلیں! اب امریکی اس گاؤں کی تلاشی لیں گے!‘‘ حبیب نور آہستہ سے بولا۔
وہ تینوں کھیتوں کے اندررینگنے لگے۔ر ینگتے ہوئے ان کے جسم زخمی ہوگئے اور ہاتھوں میں سے خون رسنے لگا مگر وہ اٹھ کر نہیں چل سکتے تھے ۔اس صورت میں وہ امریکیوں کی نظروں میں آسکتے تھے۔ یوں ہی کہنیوں کے بل رینگتے وہ گاؤں میں موجود اپنے ایک ساتھی کے گھر پہنچ گئے۔
’’احمد گل! ہمارے موٹر سائیکل تیار ہیں؟‘‘حبیب نور نے میزبان سے پوچھا۔
’’ہاں! تم اندر ہی بیٹھو! باہر نہ نکلنا! میں نے تمہارے موٹر سائیکل گائے والے کمرے میں چھپا دئے تھے۔‘‘وہ بولا اور جلدی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
اچانک فضا میں دوبارہ امریکی جاسوسی طیاروں کی آواز گونجنے لگی۔
’’یہ خبیث پھر آگیا؟‘‘نثار احمد کو طیارے کی آواز سن کر غصہ آگیا۔ ’’کب تک یہ ہماری غیرت کو للکارتے رہیں گے؟ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ آسمان کو مسخر کرکے یہ ہمیں ڈرادیں گے؟ ہر گز نہیں! ہم نہ زمین پر ان کو چین لینے دیں گے نہ ہی آسمان پر!‘‘
اسی لمحے ان کا میزبان بیٹھک میں داخل ہوا۔
’’آجاؤ! میں نے تمہارے موٹر سائکل باہر کھڑے کردیے ہیں، مگر ذرا احتیاط سے جانا، اوپر جاسوسی طیارہ اور امریکی جیٹ پھر رہے ہیں! اپنا اسلحہ یہیں چھوڑ دو، میں اس کو دفن کردوں گا!‘‘
’’نہیں احمد گل! ہم بار بار اس علاقے میں نہیں آسکتے، تمہیں پتہ ہے کہ یہ امریکہ کی غلام حکومت کا علاقہ ہے، ہم یہاں دن کی روشنی میں نہیں آسکتے! تم ایسا کرو، اپنے کپڑے دے دو! ہم اپنے کپڑے یہیں چھوڑ دیں گے اور تمہارے کپڑے تبدیل کرکے نکلیں گے، دور سے ہمیں کسی نے بھی دیکھا تو وہ یہی سمجھے گا کہ تمہارے گھر کا کوئی فرد جارہا ہے!‘‘ حبیب نور نے کہا۔
احمد گل کو بھی اس کی رائے بہتر لگی۔ وہ جلدی سے ان کے لیے کپڑے لے آیا۔ تینوں نے لباس تبدیل کر کے احمد گل کی ہی پگڑیاں باندھ لیں۔ اپنے کپڑے اور عمامے وہیں چھوڑے اور موٹر سائیکلوں پر گھر سے باہر نکل آئے۔
امریکی ابھی تک تباہ ہموی کا ملبہ ہی اٹھا رہے تھے۔
’’اللہ افغانستان کو ان کے لیے دلدل بنادے گا!‘‘ نثار احمد نے امریکیوں کو دیکھ کر نفرت سے سوچا اور موٹر سائیکل حبیب نور کی موٹر سائکل کے پیچھے روانہ کردی۔
کسی نے بھی ان کی طرف توجہ نہ دی۔وہ گاؤں سے حفاظت سے باہر نکل آئے۔گاؤں سے نکلتے ہوئے ان کو جو آخری منظر نظر آیا تھا وہ امریکیوں کاتھا جو گھر وں کی تلاشی لینے کے لیے گھروں کے دروازوں پر ٹھوکریں مار ر ہے تھے۔
٭٭٭٭٭
وہ دو ہفتے محاذ پر گزار کر گھر واپس پہنچ چکا تھا۔ اس کی ماں اور بہنوں نے اس کی خوب بلائیں لیں۔ ماں نے خیریت سے واپس پہنچ جانے پر اس کی طرف سے صدقہ کیا۔
گل آغا البتہ اس کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ نثار احمد خیریت سے گھر لوٹ آیا تھا مگر ایک بات اس کو پریشان کیے دے رہی تھی اور وہ یہ کہ وہ محاذ سے واپس بھی آگیا مگر امریکی جاسوس طیارے نے ان کے علاقے پر پھرنا ابھی تک نہیں چھوڑا تھا۔
٭٭٭٭٭
دن یوں ہی گزرنے لگے۔دن ہفتوں میں بدلتے گئے اور ہفتے مہینوں میں۔ تین ماہ ہوگئے تھے نثار احمد کو طالبان مجاہدین سے وابستہ ہوئے۔ وہ اپنی جان و مال اللہ کے راستے میں وقف کرچکا تھا۔ اس کو اب دنیا کمانے کی فکر سے زیادہ اپنےدین کو سرخرو کرنے کی فکر لاحق ہو چکی تھی۔
حیرت انگیز طور پر گل آغا نے بھی اس سے کوئی شکوہ نہیں کیا کہ وہ جہادی کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے کھیتوں میں ان کے ساتھ مدد نہیں کروا پاتا۔ بلکہ وہ تو اپنے تمام جاننے والوں اور عزیز و اقارب کو بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ ان کا بیٹا اپنے بھائی کے خون کا قرض نہیں بھولا۔ وہ اس کا قرض ادا کرنے اللہ کے راستے پر نکل پڑا تھا۔
تین ماہ گزر گئے تھے مگر علاقے میں کوئی فضائی چھاپہ نہیں پڑا تھا۔ اس دوران نثار احمد حبیب نور کے ساتھ بہت سی جنگوں میں بھی شرکت کرچکا تھا۔ کئی مائنیں لگانے کے لیے بھی ان کے ساتھ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ علاقے میں مشہور ہوگیا کہ نثار احمد کا گھر طالبان کا مرکز ہے۔ یہاں اکثر طالبان مجاہدین مہمان آکر ٹھہرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
وہ ۲۱ دسمبر۲۰۱۶ء کی سرد اور تاریک رات تھی، ہر طرف اندھیرے اور سناٹے کا بسیرا تھا، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ علاقے میں کہیں کوئی ٹمٹماتی ہوئی روشنی بھی نہ دکھتی تھی۔
چونکہ امریکی چاند کی آخری تاریخوں میں فضائی چھاپہ مارنا پسند کرتے تھے اس لیے پورے افغانستان کی طرح آج صوبہ کابل میں موسہی نامی ایک گاؤں میں موجود ایک مسجد میں طالبان بھی چوکس بیٹھے تھے۔آج کی رات وہ سو کر نہیں گزارنا چاہتے تھے۔
’’نثار احمد! تم کان باہر لگا کر دیکھو کہ جاسوسی طیارہ چلا گیا کہ ابھی ادھر ہی ہے!‘‘ حبیب نور نے جیب سے پینسل ٹارچ نکال کر اس کو تھماتے ہوئے کہا۔
نثار احمد پچھلے ایک ہفتے سے تشکیل پر یہاں آیا ہوا تھا۔ وہ کئی کارروائیوں میں بھی حصہ لے چکا تھا، اور اب چند دن میں ان کی واپس لوگر کی طرف روانگی متوقع تھی۔
مسجد میں بھی گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔صرف چند ٹارچوں کی روشنی نے مسجد کو نیم روشن سا کردیا تھا۔ اس وقت مسجد میں دس مجاہدین موجود تھےاور ہر ایک بالکل چوکس پوزیشن میں تھا۔
نثار احمد ٹارچ لے کر چلا گیا۔ چند منٹ بعد وہ واپس آگیا۔
’’ڈرون نہیں گیا! امریکی جیٹ کے ساتھ ساتھ اب ہیلی کاپٹروں کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے!‘‘ نثار احمد نے کچھ پریشانی سے بتایا۔
’’ہیلی کاپٹروں کی آواز؟‘‘ حبیب نور اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ امریکی چھاپہ آگیا ہے۔ ساتھیو! اسلحہ تیار کرلو! اللہ سے ملنے کی تیاری کرلو! بے جگری سے لڑنا تاکہ ہمارا رب ہم سے راضی ہوجائے! اگر جنگ چھڑ گئی تو ہر گز پیٹھ نہ دکھانا! اللہ کی راہ میں شہید ہوجانا لاکھوں زندگیوں سے بہتر ہے!‘‘
وہ سب اپنا اپنا اسلحہ پہننے لگے۔حبیب نور کی ابھی بات مکمل ہوئی تھی کہ ہیلی کاپٹر کی گرج دار آواز ان کی مسجد کے اوپر پہنچ گئی ۔
’’سب پوزیشن سنبھال لو!‘‘ حبیب نور چلّایا۔
’’اللھم ثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین!‘‘ نثار احمد دھیرے سے بولا’’ربی انی لما انزلت الی من خیر فقیر!‘‘
امریکی ہیلی کاپٹر مسجد کے عقب میں کھلے میدان میں اتر گیا۔ اس میں سے امریکی فوجی نکل کر پوزیشنز سنبھالنے لگے۔
’’مسجد کے اندر جو بھی موجود ہے، وہ اسلحہ پھینک کر باہر نکل آئے، اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا!‘‘
’’ہرگز نہیں! ہم تسلیم نہیں ہوں گے!‘‘ نثار احمد تڑپ کر بولا۔
’’شہادت سامنے کھڑی ہے ساتھیو! کمزوری نہ دکھانا! جنت کی حوریں ہماری منتظر ہیں!‘‘ حبیب نور اپنی کلاشن کوف لوڈ کرتے ہوئے بولا۔
اسی لمحے امریکی فوجی درجنوں کی تعداد میں مسجد کے دروازے پر پہنچنے لگے۔
’’اللہ اکبر!‘‘ مجاہدین نے یک آواز ہو کر نعرہ بلند کیا اور فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونج اٹھی۔
٭٭٭٭٭
گل آغا کی کمر میں آج سخت تکلیف تھی۔ ان کی عمر اب کھیتوں میں کام کرنے کی نہیں رہی تھی اس لیے وہ اب جلد تھک جاتے تھے۔ ان کی مدد کروانے کو اب ان کی چھوٹی بچیاں بھی کھیت میں پانی لگانے آنے لگی تھیں۔
وہ اپنی کمر سیدھی کرتے کھیت کے کنارے بنی ایک پگڈنڈی پر بیٹھ کر سانس بحال کرنے لگے کہ اچانک مجاہدین کی ایک گاڑی ان کے قریب آکر رکی۔
’’بی بی رقیہ! بھاگ کر جاؤ، ایک تھرماس سبز چائے کی لے کر آؤ، لگتا ہے مسافر مجاہدین آئے ہیں!‘‘ گل آغا نے کھیتوں کو پانی لگاتی اپنی چھوٹی بیٹی کو آواز دی۔
بی بی رقیہ فوراً گھر کی طرف دوڑی۔
گل آغا دوبارہ گاڑی کی طرف متوجہ ہوگئے۔گاڑی میں سے اب مجاہدین اتر رہے تھے۔ گاڑی میں سے جو شخص اترا تھا اس کو دیکھ کر گل آغا ہکا بکا ہی رہ گئے اور جلدی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔
ملا حسیب کو دیکھ کر جہاں ان کو خوشی ہوئی تھی کیونکہ وہ علاقے کے کمانڈروں میں شمار کیے جاتے تھے وہیں ان کی اچانک آمد نے ان کو کچھ خوفزدہ بھی کردیا تھا۔ جوش کی کیفیت میں وہ اپنی کمر کے درد کو بھی فراموش کربیٹھے۔
’’السلام علیکم! ملا صاحب! خوش آمدید! کتنے دن بعد آپ کی شکل نظر آئی ہے!‘‘ گل آغا آگے بڑھ کر ملا صاحب کے گلے لگ گئے۔
’’آخری دفعہ جب آپ آئے تھے تو میرے لیے ظہیر احمد کی شہادت کی خوشخبری لائے تھے! آج کیا خوشخبری لائے ہیں؟‘‘ گل آغا نے مسکرا کر پوچھا۔
ملا صاحب کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور ان کی آنکھیں جھلملا گئیں۔ وہ اس بوڑھے باپ کو جس کی کمر کام کی زیادتی سے اب جھکی جارہی تھی کو جوان بیٹے کی شہادت کی خبر کیسے دیں؟
’’اس دفعہ میں آپ کے لیے نثار احمد کی خوشخبری لایا ہوں!‘‘ ملا حسیب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور دو آنسو ان کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔
’’یااللہ تیرا شکر! تو نے ظہیر کے بعد نثار کو بھی قبول کرلیا! اے اللہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں؟‘‘ گل آغا نے آنسو بہائے بغیر آسمان کی جانب سر اٹھا کر کہا تھا۔
ملّا صاحب اور ان کے ساتھ آئے مجاہدین بھی اس بوڑھے باپ کا حوصلہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
’’ہاں تو ملا صاحب! میرے بیٹے کی کوئی نشانی لائے ہیں؟‘‘ اگلے پل گل آغا نے ایسے پوچھا گویا عام سی بات کررہے ہوں۔
’’جی!‘‘ ملا صاحب جو محوِ حیرت ہوکر گل آغا کو دیکھ رہے تھے، ایک دم گڑ بڑا کر بولے۔
’’یہ اس کی کلاشن کوف ہے!‘‘ انہوں نے نثار احمد کی کلاشن ان کی طرف بڑھائی۔
گل آغا نے کلاشن ان سے لے لی۔ بندوق کی نال آگے سے مڑی ہوئی تھی، لکڑی کا بٹ جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔ جبکہ میگزین ٹیڑھا ہوچکا تھا۔ شاید یہ بمباری کی زد میں آئی تھی۔
’’گل آغا! آپ کے بیٹے نے بہت بہادری سے امریکیوں کا مقابلہ کیا بالآخر ہمارے تمام ساتھی، چار امریکیوں کو جہنم واصل کرکے شہید ہوگئے‘‘ ملاصاحب اب تفصیل بتانے لگے۔ ’’اگر ہمارا ہر مسلمان لڑکا ایسا ہی ہوجائے جیسے نثار احمد اور ظہیر احمد ہیں تو ان شاء اللہ فتح ہمارے دروازوں پر کھڑی ہوگی۔‘‘
گل آغا مسکرائے۔پھر عجیب سی نظروں سے نثار احمد کی کلاشن کوف کی جانب دیکھا جس کے کنارے پر نثار احمد کا خون لگا ہوا تھا۔ اس خون سے بھینی بھینی سی خوشبو اٹھ رہی تھی۔
’’ملا صاحب! اب میں اس کلاشن کوف کا کیا کروں گا؟ میرا تو کوئی اور بیٹا ہی نہیں!‘‘ گل آغا ان سے پوچھ نہیں رہے تھے بلکہ بتا رہے تھے۔ ’’اس لیے اب میں ان کے خون کا قرض چکاؤں گا، یہ میری غیرت برداشت نہیں کرسکتی کہ میں شہید کا اسلحہ اپنے گھر میں رکھ کر چھوڑ دوں، ورنہ قیامت والے دن یہ میرے خلاف حجت بنے گا!‘‘
گل آغا کی بات سن کر وہ سب ہکا بکا رہ گئے۔
’’گل آغا! آپ تو……‘‘ ملا صاحب نے کچھ کہنا چاہا!‘‘
اسی لمحے بی بی رقیہ چائے کی تھرماس اور پیالیاں لے آئی۔
’’ملا صاحب! کچھ نہیں ہوتا، گوکہ میں بوڑھا ہوں، مگر میں بس یہ چاہتا ہوں کہ مجھے بھی آپ جہاد میں حصہ ڈالنے دیں، پہلے تو میں مطمئن تھا کہ میرے گھر کا ایک فرد جہاد میں لگا ہوا ہے، مگر اب تو ایک ایک کرکے دونوں ہی چلے گئے، اس لیے اب یہ میرا فرض ہے کہ میں جہاد میں اپنا حصہ ڈالوں! ‘‘
گل آغا جوش ایمانی سے بولے جبکہ وہاں موجود تمام مجاہدین خوشی سے سرشار اس بوڑھے شیر کو دیکھ رہے تھے۔ جس نے اپنی عمر اور ضعف کے باوجود بھی پیچھے بیٹھے رہنے والوں میں شمار ہونا گوارا نہ کیا۔
٭٭٭٭٭