نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home علیکم بالشام

شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ سوم – پہلی قسط

ابو اسامہ عبد العزیز الحلاق by ابو اسامہ عبد العزیز الحلاق
4 نومبر 2025
in اکتوبر ۲۰۲۵ء, علیکم بالشام
0

بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد لله رب العالمين، ولا عدوان إلا على الظالمين، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين، وعلى آله وصحبه أجمعين، أما بعد.

النازعات: شام میں جہاد کے مستقبل کے بارے میں ہمارے مکالمے کے اس تیسرے اور آخری حصے میں، ہم اپنے استاذِ محترم ابو اسامہ عبدالعزیز الحلاق حفظہ اللہ کے ساتھ اپنی گفتگو جاری رکھیں گے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ہم ان اہم سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو اس کی خوشنودی کا باعث ہوں اور پورے خطۂ شام کی بابرکت سرزمین میں مجاہد مسلمان نوجوانوں کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنیں۔ اے ابو اسامہ! اللہ آپ کو سلامت رکھے، اس مکالمے کے انعقاد کے لیے آپ کی دلچسپی اور قبولیت کا شکریہ۔ ہم اپنی بحث کو اس آخری نکتے سے شروع کرتے ہوئے جاری رکھیں گے، جو ہم نے پچھلی قسط میں چھوڑا تھا، جس میں ہم نے جہاد کی عالمگیریت اور شام میں جہاد کے عالمی جہادی محاذ بننے کے امکان پر بحث کی تھی، باوجود اس کے کہ زیادہ تر مجاہدین میں اس نا پسندیدہ طرِ جہاد کو اپنانے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے ۔

میں آپ سے شام میں موجود مہاجر مجاہدین کے مستقبل اور موجودہ دور میں خطۂ شام سے جہاد کو عالمگیر بنانے کی ضرورت پر یقین رکھنے والوں کے غیر یقینی مستقبل کے بارے میں بھی کچھ سوالات پوچھوں گا، خاص طور پر اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کے قائدین کو (امریکہ کی طرف سے) مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے باوجود اس کے کہ نئی انتظامیہ کی رائے کے مطابق جہادی انقلاب کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ جماعتیں بھی تحلیل ہو چکی ہیں۔

اور ان حالات میں شام کی نئی انتظامیہ پر ان مہاجرین، یتیموں اور بیواؤں کے حق میں کون سے فرائض و واجبات عائد ہوتے ہیں جو شام کے عوام کی مدد و نصرت کے لیے اپنے ملکوں کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکلے تھے اور انہوں نے شامی انقلاب کی کامیابی کے لیے اپنا قیمتی خون اور مقدس جانیں قربان کر دیں۔

لہٰذا ہم، اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے، جہاد کی غرض سے ارضِ شام کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کے مستقبل کے بارے میں سوالات شروع کرتے ہیں۔ پس آپ کے خیال میں، اس مرحلے پر ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں، خاص طور پر جب انہیں ادلب اور شمالی شام کے دیہی علاقوں میں امریکی صلیبیوں کی طرف سے بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

استاذ عبدالعزیز الحلاق: وعلیکم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ، میرے پیارے بھائی! اللہ آپ کے امور میں برکت عطا فرمائے اور اپنے پسندیدہ کاموں کی طرف آپ کی رہنمائی فرمائے اور آپ کو اس مہمان نوازی اور حسنِ ظن کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ میں بھی آپ کو 1446ھ کے رمضان المبارک پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔1جس وقت یہ انٹرویو لیا گیا تب کی تاریخ ۔(ادارہ) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اس مہینے کو مجاہدین کے تمام محاذوں پر اسلام اور مسلمانوں کی فتح کا مہینہ بنائے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں، آپ کو اور قارئین کو ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھنے، قیام کرنے، عبادت کرنے اور اجر و ثواب حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ ہمیں اور آپ کو فائزین میں شامل فرمائے، آمین۔

آپ کے پہلے سوال کا جواب دینے سے قبل، میں آپ سے یہ درخواست کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ سوالات کا مرکزی نقطہ شام میں جہاد کے مستقبل پر ہو، کیونکہ پچھلی قسط میں اور اس سے پہلے والے سوالات میں سے کچھ سوالات اس عنوان سے ہٹ کر تھے۔ میری عاجزانہ رائے میں، مکالمے کا عنوان شام میں جہاد کے مستقبل کے بارے میں ہونا درست نہیں ہے، کیونکہ آپ کے بہت سے سوالات شام کے ماضی کے حالات سے متعلق تھے۔ لہذا، بہتر ہوگا کہ سوالات کا تعلق مکالمے کے عنوان سے زیادہ ہو۔

جہاں تک ان مہاجر مجاہدین کے مستقبل کے بارے میں آپ کا سوال ہے جو شام کی سرزمین میں جہاد اور اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے نکلے تھے، میری رائے میں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شام کے معزز عوام میں سے صالحین اور نیک لوگوں کے ساتھ اپنے تعلق کو گہرا کریں اور غیر اعلانیہ طور پر صحیح منہج کی طرف انفرادی دعوت دینے کی کوشش کریں، اور اپنے اردگرد کے صالحین کے ساتھ رابطہ اور میل جول بڑھائیں، جیسا کہ حبشہ اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ انہیں حمص، حلب، دمشق اور حماہ جیسے اہل سنت کے شہروں کا رخ کرنا چاہیے کیونکہ وہ ادلب اور شمالی شام کے دیہی علاقوں میں بے حد واضح ہو چکے ہیں۔ اس لیے انہیں ان شہروں کی طرف عبوری ہجرت کرنی چاہیے تاکہ صہیونی صلیبی دشمن کو ان کی شناخت اور معلومات سے الجھایا جائے جن کے ذریعے وہ ان کا سراغ لگاتا ہے اور انہیں نشانہ بناتا ہے اور اپنے لیے ان شہروں کے مسلمانوں میں سے ایسے لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے جو ان کی حمایت کریں اور ان کے لیے پردہ بنیں اور انہیں صہیونی صلیبی اتحاد کے ہدف سے بچائیں۔ یہ سب کچھ اس صحیح حدیث کے مطابق ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’لوگ میرے لیے کپڑے کے بیرونی حصہ کی طرح ہیں اور انصار میرے لیے کپڑے کے اندرونی حصہ کی طرح ہیں۔ اور انصار میرے خاص رازدار لوگ ہیں۔ اگر ہجرت اہم معاملہ نہ ہوتا تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا۔‘‘2مصنف ابن ابی شیبہ (32361)، احمد (13084)

اس مرحلے پر کفار و منافقین کو مطلوب جہادی قائدین کو بھی اسی طرح انتظار کرنا چاہیے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ تین دن تک غارِ ثور میں انتظار فرماتے رہے تھے۔ ان جہادی قائدین کو اس انتظار کے دوران ملامت، غضب یا بے حسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، خواہ یہ انتظار تین سال ہی کیوں نہ ہو جائے، کیونکہ یہ سب کچھ موجودہ دور میں اللہ کی راہ میں جہاد اور اس سے متعلقہ فرائض کے تقاضوں میں سے ہے۔ ان کا گھومنے پھرنے کے لیے نکلنا، گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کے درمیان گھل مل جانا، دشمن کو ان پر قابض ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور یہ کسی صورت جائز نہیں۔ انہیں سورۃ الکہف میں ذکر کیے گئے نوجوانوں کی معلوماتی امنیت (Information Security) کے فہم سے استفادہ کریں اور طاغوتی حکمران کے ہاتھوں سنگسار ہونے سے اپنے عقیدۂ توحید اور اپنی جانوں کو بچانے کے لیے کیے گئے ان کے اقدامات سے سبق حاصل کریں، اور انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب اصحابِ کہف نے معلوماتی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے حفاظتی اقدامات کیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں کیا فرمایا تھا:

فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖٓ اِلَى الْمَدِيْنَةِ فَلْيَنْظُرْ اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا؀ اِنَّهُمْ اِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوْكُمْ اَوْ يُعِيْدُوْكُمْ فِيْ مِلَّتِهِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا؀ (سورۃ الکہف: ۱۹، ۲۰)

’’ اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو، وہ جاکر دیکھ بھال کرے کہ اس کے کون سے علاقے میں زیادہ پاکیزہ کھانا (مل سکتا) ہے۔ پھر تمہارے پاس وہاں سے کچھ کھانے کو لے آئے، اور اسے چاہیے کہ ہوشیاری سے کام کرے، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔ کیونکہ اگر ان (شہر کے) لوگوں کو تمہاری خبر مل گئی تو یہ تمہیں پتھراؤ کر کے ہلاک کر ڈالیں گے، یا تمہیں اپنے دین میں واپس آنے کے لیے مجبور کریں گے، اور ایسا ہوا تو تمہیں کبھی فلاح نہیں مل سکے گی۔ ‘‘

لیکن ایک اور مسئلہ بھی ہے جس کی طرف بہت سے صالحین توجہ نہیں دیتے، وہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر بھائی اپنی مالی مجبوریوں کی وجہ سے ان حفاظتی اقدامات کو ترک کرنے پر اور اپنے گھر والوں کی کفالت کے لیے رزقِ حلال کمانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا صالح، متمول اور دولت مند مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان کی مالی امداد کریں اور سماجی طور پر ان کی مدد کریں تاکہ ہماری امت ان نوجوان مسلمانوں سے مزید محروم نہ ہو جو ان شاء اللہ آنے والے دنوں میں اسلام اور مسلمانوں کی نصرت بالخصوص غاصب یہودیوں اور صلیبیوں سے لڑنے میں بہت بڑا کردار ادا کریں گے۔ یہ بھائی ان پرانے مہاجرین میں سے ہیں جو انقلاب کے آغاز میں شام کی سرزمین پر فریضۂ جہاد کی ادائیگی کے لیے پہنچے تھے، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ معاشرتی یکجہتی کے ذریعے ان کی حفاظت کریں۔ ان کی مدد ضرور کی جانی چاہیے کیونکہ انہوں نے انقلاب کے سالوں میں جہادی تجربہ حاصل کیا ہے۔ صہیونی – صلیبی دشمن جانتا ہے کہ یہ نوجوان اور یہ قائدین وہ ہیں جن پر، مسلمانوں کے ممالک اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے، اللہ کے بعد، بھروسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس وسیع جنگی، دعوتی، معاشرتی اور تنظیمی تجربات ہیں۔ جو کچھ آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور ترکی کی قیادت میں اتحادی طیاروں کے ذریعے مجاہدین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کا مقصد، عظیم جنگوں کی سرزمین شام کو اسلامی ممالک کے قلب میں صہیونی – صلیبی سازشوں کو ناکام بنانے کے قابل نوجوان مجاہدین اور قائدین سے خالی کرنا ہے۔ وإلى ربنا المشتكى اور اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔

اسی طرح، شام کی نئی انتظامیہ کو اس خود غرضانہ متعصبانہ ذہنیت سے باہر نکلنا چاہیے کہ ’’ہم نے اس کا حکم نہیں دیا اور اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا‘‘ اور ان حملوں میں مجاہدین کو نشانہ بنائے جانے پر اپنی خاموشی کو توڑنا چاہیے، کیونکہ یہ خاموشی صہیونی – صلیبی مغرب کے مفادات کی خاطر اپنے بھائیوں کے خون اور سروں کی قربانی دینے کے مترادف ہے۔ انہیں اپنے اس نعرے کو سچا ثابت کرنے کے لیے عمل کرنا چاہیے جو وہ اس وقت ’’انقلاب اور گروہ بندی کے ذہن سے ریاست اور ذمہ داری کے ذہن کی طرف بڑھ کر ‘‘ لگا رہے ہیں۔ انہیں کم از کم اتنا ضرور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے مجاہد بھائیوں اور انقلاب میں شامل ساتھیوں پر ان صلیبی بمباریوں کی مذمت کریں اور شام کی خودمختاری پر حملوں کے سلسلے کو روکنے کی کوشش کریں۔ 8دسمبر 2024ء کے بعد شام کی سرزمین کے ساتھ اس سابقہ ذہنیت کے ساتھ معاملہ کرنا جائز نہیں ہے جس ذہنیت کے ساتھ انہوں نے اس سے قبل ’آزاد کرائے گئے شمالی شام‘ کے ساتھ معاملہ کیا تھا۔ اس سے قبل پاکستان میں صلیبی ڈرون حملوں پر پاکستانی حکومت کی شدید کھوکھلی مذمت اور اسی طرح گزشتہ صلیبی بمباری پر اسد حکومت کی شدید مذمت، شام کی نئی انتظامیہ سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ اہل اسلام کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ سے مخاطب فرمایا ہے:

وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا (سورۃ المائدۃ: ۳۲)

’’اور جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔‘‘

تو انہیں چاہیے کہ وہ کوشش کریں اور اپنے مجاہد بھائیوں کے خون کو سہارا دیں، ان کو پناہ دیں، ان کی کفالت کریں اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ ورنہ غفلت اور ناکامی کا نتیجہ ہر صاحب استطاعت کے لیے سخت سزا ہوگا۔ اور ہمارا پروردگار رحمٰن ہے، جو باتیں وہ بناتے ہیں ان کے مقابلے میں اسی سے مدد مانگی جاتی ہے۔

النازعات: لیکن اے ابو اسامہ! آپ جانتے ہیں کہ یہ نوجوان اور قائدین ’ہیئۃ تحریر الشام‘ کے رکن نہیں ہیں، بلکہ دوسرے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو ’ہیئۃ تحریر الشام‘ کے ذمہ داروں کو ان کی حفاظت کے لیے کس طرح کوشش کرنی چاہیے اور ان پر بمباری کی کیسے مذمت کرنی چاہیے؟

استاذ عبدالعزیز الحلاق: یہ ایک دینی اور سیاسی فریضہ ہے اور ایک انتظامی ذمہ داری ہے جو ہر ریاست اپنے عوام اور اپنی سرزمین کے لیے سرانجام دیتی ہے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ انہیں اپنے نعرے کے مطابق عمل کرنا چاہیے، یعنی ’’انقلاب کی سوچ سے ریاست کی سوچ تک‘‘۔ کوئی بھی جائز ریاست اپنے عوام، زمین اور خودمختاری کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی، تو ان کے انقلاب کے ساتھیوں اور ہتھیاروں سے لیس بھائیوں کا حق تو اس سے کہیں زیادہ ہوگا؟

سچ تو یہ ہے کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچھا نہیں ہے، چاہے وہ نئی انتظامیہ کی طرف سے ہو یا باقی انقلابیوں اور مجاہدین کی طرف سے۔ کیونکہ اس تاریک خاموشی کو صرف سر تسلیم خم کرنے، گھٹنے ٹیکنے اور صلیبیوں کے خوف کا اثر سمجھا جا سکتا ہے، جس کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر خذلان اور بے وفائی نظر آتی ہے اور یہ سب شام میں جہاد کے مستقبل پر بہت منفی اثر ڈالے گا۔ پس انہیں آگے بڑھنے دیں اس سے پہلے کہ ’’میں اسی دن کھایا گیا تھا جس دن سفید بیل کھایا گیا تھا‘‘3عربی کہاوت جس کا مطلب ہے کہ میں اسی دن مارا گیا تھا جب میں نے اپنے بھائی کا قتل ہوتے دیکھا اور خاموش رہا۔ کی کہانی دہرائی جائے۔ ولا حول ولا قوۃ الا بالله۔

میرے پیارے بھائی! جو شخص بھی، شام میں جہاد کے مستقبل کے بارے میں وارد ہونے والی صحیح احادیث پر غور کرے گا، وہ ان میں نظریاتی تعدد اور جہادی دھڑے بندی کے اشارے پائے گا اور ان احادیث میں اسے باہر کے مجاہدین کے خطۂ شام کی طرف ہجرت کی پیشن گوئی ملے گی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان احادیث میں مہاجر مجاہدین اور مقامی مجاہدین کے درمیان عالمی جہاد یا مقامی جہاد کو اپنانے میں اختلاف کے آثار بھی ملیں گے۔ تاہم ان تمام جہادی گروہوں میں خیر و صلاح اور راست بازی کے معیار کی ایک بہت اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان مجاہدین بھائیوں پر صلیبیوں کے اختیار کو قطعی طور پر قبول نہیں کرتے، باوجود اس کے کہ ان میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں حدیث بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ رومی فوجیں اعماق یا دابق کے مقام پر پڑاؤ ڈالیں گی، تو مدینہ سے اس وقت روئے زمین کے بہترین افراد پر مشتمل ایک لشکر ان کی طرف روانہ ہو گا، جب وہ صف بندی کر لیں گے تو رومی کہیں گے، تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان، جنہوں نے ہمارے افراد کو قیدی بنایا تھا، راستہ چھوڑ دو، ہم ان سے قتال کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمان کہیں گے، نہیں، اللہ کی قسم! ہم تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان راہ خالی نہیں چھوڑیں گے، وہ ان سے قتال کریں گے، تو ایک تہائی شکست کھا جائیں گے، اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک تہائی قتل کر دیے جائیں گے وہ اللہ کے ہاں اعلیٰ درجے کے شہداء ہیں، اور ایک تہائی فتح یاب ہوں گے، وہ کبھی آزمائے نہیں جائیں گے، وہ قسطنطنیہ فتح کریں گے۔‘‘ 4مسلم (2897)

شیخ ابو قتادہ فلسطینی حفظہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث ہمارے زمانے پر منطبق ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہمارے زمانے کے احوال پائے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شام کے اہلِ جہاد کو اس حدیث کا درس دینا چاہیے اور اسے یاد کر کے اس پر غور و فکر کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں عظیم اسباق پائے جاتے ہیں اور شام میں جہاد کے مستقبل کے متعلق پیشن گوئیاں ہیں۔ مثال کے طور پر، اس حدیث میں جہادی طبقات اور مجاہدین کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں۔ ایک گروہ صلیبی دشمن کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور اس کا ساتھ دیتا ہے کیونکہ وہ ان کی طاقت، برتری اور تہذیب سے مرعوب ہوتا ہے اور عالمی کفر کے سرغنے کے خلاف لڑائی کو بوجھل سمجھتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں حرمین شریفین کی سرزمین سے جہاد کے لیے شام کی طرف جانے والے ایک لشکر کی بھی تفصیل بتائی گئی ہے۔ اس میں مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر صلیبیوں سے قیدیوں کو لینے والے ایک جہادی گروپ کی بھی تفصیل موجود ہے۔ اور اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی شامل ہے کہ صلیبی، تمام مجاہدین کے مخالف نہیں ہیں۔ بلکہ اس میں صلیبیوں کی جانب سے مجاہدین کے باہمی تعلقات کو ختم کرنے کے لیے ایک خصوصی جہادی جماعت بنانے کی کوششوں کی بھی تفصیل دی گئی ہے جسے مغرب قبول کر سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور تعاقب میں اس جماعت کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔ درحقیقت، مغرب ایک مخصوص دہشت گرد گروہ پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو روایتی جہاد کی حمایت کرتا ہے اور جس کے دہشت گردانہ اقدامات بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے صلیبیوں نے ارضِ شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا اور پھر مجاہدین کے اس گروہ سے مذاکرات کرتے ہوئے ان سے کہا کہ ’’تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان، جنہوں نے ہمارے افراد کو قیدی بنایا تھا، راستہ چھوڑ دو، ہم ان سے قتال کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس حدیث مبارکہ میں موّحد مجاہدین کے ایک گروہ کی بھی تفصیل موجود ہے جو مغربی صلیبی پیشکش کو قبول کرنے سے انکاری ہے، چنانچہ یہ انکاری گروہ، اس دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے والے اپنے مجاہدین بھائیوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا اور وہ ان کی حمایت کرتے ہوئے صلیبیوں کو یہ جواب دیتا ہے کہ ’’نہیں، اللہ کی قسم! ہم تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان راہ خالی نہیں چھوڑیں گے، وہ صلیبیوں سے قتال کریں گے‘‘۔ اس حدیث شریف میں مجاہدین کے شدید قتال کا احوال بھی ذکر کیا گیا ہے، اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ فتح و نصرت محض جہاد شروع کرنے والوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے ہوگی جو اس میں مخلص ہیں اور سخت آزمائش کے باوجود اسے جاری رکھیں گے اور یہ بھی کہ یہ فتح و نصرت اس چھوٹے اور تعداد میں قلیل گروہ کے لیے ہوگی جو شام میں موجود تمام مجاہدین میں سے صرف 33 فیصد ہوں گے، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

النازعات: استاذِ محترم، جو حدیث ابھی آپ نے بیان فرمائی ہے، آپ کی رائے میں، اس کے مطابق وہ جہادی گروہ جو صلیبی مغرب کے سامنے سرتسلیم خم کرے گا، اس کی اہم ترین خصوصیات کیا ہیں؟ اور وہ کون سے طریقے اور اسباب ہیں جو ارضِ شام میں موجود مجاہدین کو اس خطرے میں پڑنے سے بچنے کے لیے اختیار کرنا ہوں گے جو حدیث میں مذکور ہے کہ: ’’ان میں سے ایک تہائی شکست کھا جائیں گے، اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا‘‘؟

استاذ عبدالعزیز الحلاق: شاید اس شکست خوردہ گروہ کی سب سے خطرناک خصوصیت، اللہ جن کی توبہ کبھی قبول نہیں کرے گا، یہ ہے کہ وہ اس انداز میں اپنے نوجوان مجاہدین کی تربیت کرتا ہے جو اسلامی شریعت کے مطابق قابل مذمت ہے، یعنی نصوص شرعیہ کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے اپنا مطلب نکالتا ہے، جیسے کہ اس مستند حدیث کے ایک ٹکڑے پر اپنے مجاہدین کی تربیت کرنا، جسے امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

’’عنقریب تم رومیوں سے ایک پر امن صلح کرو گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑو گے جو تمہارے پیچھے ہے، اس پر فتح پاؤ گے، اور غنیمت کا مال لے کر صحیح سالم واپس ہو گے۔‘‘ 5ابوداؤد (4292)

چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض علماء نے نوجوانوں کو صہیونی – صلیبی مغرب کے ساتھ صلح کی اہمیت پر اُبھارا ہے اور انہیں یہ باور کرایا ہے کہ مجاہدین، صلیبیوں کے ساتھ مل کر رافضیوں، نصیریوں، روس اور چین کے ساتھ لڑیں گے اور وہ ان پر فتح یاب ہوں گے، غنیمت حاصل کریں گے، اور محفوظ رہیں گے اور اس کے بعد صہیونی – صلیبی مغرب ہماری ریاست کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں اقتدار سنبھالنے اور ریاست چلانے کی اجازت دے گا اور پھر وہ ہمیں اقوام متحدہ میں نشست دینے کا احسان کرے گا تاکہ ہم بین الاقوامی برادری کے اندر فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا اپنا حق استعمال کر سکیں، وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب نصوص شرعیہ کی قابل مذمت تشریح ہے، کیونکہ مکمل حدیث شریف اس طرح ہے:

’’یہاں تک کہ ایک میدان میں اترو گے جو ٹیلوں والا ہو گا، پھر نصرانیوں میں سے ایک شخص صلیب اٹھائے گا اور کہے گا: صلیب غالب آئی، یہ سن کر مسلمانوں میں سے ایک شخص غصہ میں آئے گا اور اس کو مارے گا، اس وقت اہل روم عہد شکنی کریں گے اور لڑائی کے لیے اپنے لوگوں کو جمع کریں گے۔‘‘

اسی وجہ سے امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ذیل کے فقہی عنوان کے تحت ذکر کیا ہے: ’’باب: رومیوں سے ہونے والی عظیم جنگوں کا بیان‘‘۔

اس لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ ہماری امتِ مسلمہ صلیبیوں کے ساتھ مسلسل اور مستقل جنگ میں رہے گی۔ اگر صلح ہے تو وہ ’عارضی امن‘ کے معنی میں ہے۔ پس صلح ان دو پابندیوں (’عارضی امن‘) کے ساتھ ہے جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے۔ لہذا مذکورہ بالا انداز میں توڑ مروڑ کر اس حدیث کی تشریح کرنا اور اس قابل مذمت طریقے سے نوجوانوں کو اس کی تعلیم دینا، بہت بڑی غلطی ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شام کی سرزمین کے مجاہد کو اس خطرناک مصیبت میں نہ پڑنے کے لیے کیا راستے اور اسباب اختیار کرنے چاہییں، تو مجاہد کو سب سے پہلے اپنے رب کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے، اللہ رب العالمین کے لیے اپنے جہادی ارادوں کو خالص کرنا چاہیے، اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی کے تعلق سے پاک کرنا چاہیے اور اپنا قیمتی وقت دینی، شرعی اور سیاسی علم کی جستجو میں صرف کرنا چاہیے تاکہ وہ آسانی سے دھوکے میں نہ آ جائے اور محض ایک کرائے کا سپاہی بن کر چالاک لیڈروں کے لیے اپنی زندگی کو داؤ پر نہ لگا دے۔ پھر اسے چاہیے کہ وہ حقیقی اہلِ علم اور امت کے معتبر قائدین سے رابطہ کرے، ان سے مشورہ کرے اور ان سے فتویٰ طلب کرے اور تمام مراحل میں حالات کی تبدیلیوں اور ان کے دوران عائد ہونے والی ذمہ داریوں میں جب بھی اسے مشکل پیش آئے، ان کی رائے کے مطابق عمل کرے ۔ مجھے امید ہے کہ اس طرح عمل کرنے سے ایک مجاہد کو اللہ کی طرف سے توفیق اور ہدایت نصیب ہوگی۔

النازعات: آپ نے حال ہی میں اسرائیلی بیانات اور شام کی نئی حکومت کی طرف سے اس کی دشمنانہ دھمکیوں میں اضافہ دیکھا ہوگا۔ ان بیانات کی وجہ کیا ہے، حالانکہ دمشق نے اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا؟ کیا ہمیں دمشق کے خلاف ممکنہ حملوں اور صہیونی کشیدگی کا سامنا ہے اور شام میں مجاہدین کے خلاف اسرائیل کی اس جارحیت کا حل کیا ہے؟

استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرے پیارے بھائی! اسرائیل یقینی طور پر جانتا ہے کہ شام کے مجاہدین کے ساتھ اس کی لڑائی ناگزیر ہے، لیکن وہ خطے میں صہیونی – صلیبی منصوبے پر عمل درآمد کے ذریعے اسے ملتوی کرنے اور اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیز ان معاندانہ بیانات اور شامی فوج کے ٹھکانوں پر صہیونیوں کی بار بار بمباری کا ایک مقصد، اسد حکومت کے عناصر اور اس کے مواد کو بچانا اور شام میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانا ہے۔ اگر اسرائیل بشار الاسد کو ذاتی طور پر اقتدار سے ہٹانا چاہتا تھا، تب بھی وہ اس کی حکومت کے مواد اور صہیونی وجود کے وفادار عناصر کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا مقصد نئی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا بھی ہے کہ وہ اسے جنوبی شام کے نئے علاقوں کو ترک کرنے کے لیے مزید رعایتیں دینے پر مجبور کرے۔ اس سب کا مقصد اسرائیل کے لیے ایک نئی فعال حکومت کی تشکیل کے ذریعے اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنا ہے جسے دنیا میں صہیونی – صلیبی مفادات کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور پھر اسے تعلقات معمول پر لانے (نارملائزیشن) کی طرف دھکیلنا ہے، جیسا کہ نئی شامی حکومت کی برادر عرب حکومتوں نے نارملائزیشن کا عمل کیا ہے۔ اسرائیل کوشام کے نئے قائدین کی نفسیاتی اور ذہنی نوعیت کا بخوبی علم ہے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ ان جیسے لوگ تمام اسلام پسندوں میں سب سے زیادہ رنگ بدلنے، ہار ماننے اور بیرونی دباؤ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے قابل ہیں، بسبب اس انتہائی عملیت پسندی کے جو شام کی نئی قیادت نے پچھلے دو مہینوں میں دکھائی ہے، یہی وجہ ہے کہ صہیونی یہودی، نئی انتظامیہ پر مزید قابو پانے اور اقتدار میں آنے کے بعد اس کا قانونی، اخلاقی اور سیاسی اثاثہ ختم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

اور جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ شام کی حقیقت کو چاروں سمتوں سے اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کے لیے انجینئرنگ کر رہا ہے اور اپنی پوری محنت اور لگن کے ساتھ کوشش کر رہا ہے کہ شامی انقلاب کے انہی لیڈروں میں سے ردِ انقلاب کے لیے رہنما پیدا کیے جائیں اور انقلاب کے نام پر ردِ انقلاب کے نعرے اور جھنڈے بھی پیدا کیے جائیں۔ لہذا، شام کے خلاف سازش بہت بڑی ہے، اور کوئی بھی دھڑا، حتیٰ کہ شام کی کوئی حکومت بھی ان سازشوں اور اس نوشتۂ دیوار حقیقت کا مقابلہ نہیں کر سکے گی، سوائے ایک امت کے تصور کے جو مسلمانوں کو ملکِ شام میں، عظیم تر شام میں، ایک جامع جہادی تحریک کے ذریعے شام کی سرزمین سے تمام قابضین کو اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہمیں شام میں استحکام کے لیے کوشش کرنے اور اسرائیل کے خلاف ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کی طرح بے لگام تشدد کی ایک بلند لہر شروع کرنے کے لیے سنجیدہ تیاری کے درمیان توازن قائم کرنا چاہیے، چاہے اس میں کئی دہائیاں کیوں نہ لگ جائیں۔ یہاں پر، میں سمجھتا ہوں کہ اہلِ شام کو آنے والے سالوں کے لیے سنجیدگی سے تیاری کرنی چاہیے، اور انقلاب کی واپسی اور ادلب کی طرف ایک بار پھر پیچھے ہٹنے کے امکان کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ انہیں آج شمالی شام کو مضبوط کرنے اور اسے طاقت ور بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ یہ انقلاب کے لیے ایک مضبوط مرکز بن سکے اس صورت میں جب انقلابیوں کو، اللہ نہ کرے، شام اور اسرائیل کی جنگ کے آغاز میں اس کی طرف واپس آنے پر مجبور کیا جائے گا، جو کہ لامحالہ مستقبل میں ہونے والی ہے۔ شام میں موجود مجاہدین کو اس امکان کو رد نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل انہیں فضائی حملوں اور زمین پر جنوبی شام سے اپنے کرائے کے فوجیوں کی نقل و حرکت کے ساتھ اچانک پیش قدمی سے حیران کر دے گا،6حضرت الاستاذ کی پیشن گوئی کے مطابق – اس ترجمے کی اشاعت تک – حکمت ہجری کی ملیشیا کے ذریعے اسرائیل یہ کام کر چکا ہے – مترجم کیونکہ نظریاتی اسرائیل جہادی حقیقت کے بارے میں سب سے زیادہ باخبر ہے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں میں جہادی تحریک کے ذریعے حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ جہادی نصرت کا یہ عروج بیت المقدس کے دروازوں پر ہی جا کر رکے گا۔

آج اسرائیل، افغانستان سے امریکی و مغربی صلیبیوں کو نکالنے اور ظالموں کی جیلوں سے قیدیوں کو آزاد کرانے میں افغان مجاہدین کی کامیابی کو افسوس کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ شام کے مجاہدین کی دمشق کو آزاد کرانے اور نصیریوں کی جیلوں سے قیدیوں کی رہائی میں کامیابی کو قہر کے ساتھ دیکھتا ہے۔ وہ ذلت کے ساتھ دیکھتا ہے کہ کس طرح غزہ کے مجاہدین اس کی مرضی کے خلاف اپنے بھائیوں اور بہنوں کو جیلوں سے رہا کرانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ آج بھی نفرت سے دیکھتا ہے کہ مغربِ اسلامی اور صومالیہ کے مجاہدین اپنے علاقوں کے وسیع حصوں کو آزاد کرانے، قیدیوں کو رہا کرانے اور امریکی، فرانسیسی، روسی اور افریقی قابضین کو اپنے ملکوں سے نکالنے میں کس طرح کامیاب ہوئے۔

اور اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ ہر خطے کے مجاہدین دو لفظوں پر مشتمل ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں: ’’قادمون یا أقصیٰ!‘‘ (اے مسجدِ اقصیٰ! ہم آرہے ہیں)۔ تو اسرائیل عالمی منظر نامے میں ان تمام بڑی تبدیلیوں کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے؟ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ شام کے مجاہدین کو چاہیے کہ وہ اپنی خود اعتمادی کو مزید مضبوط کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ امتِ مسلمہ کے ہراول جہادی دستے نے اپنے وطنوں اور قیدیوں کو آزاد کرانے اور راہِ خدا میں جہاد کے ذریعے اپنا اعتماد بحال کرنے میں عظیم اور شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور حاصل کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ نتیجتاً، جہادی تحریک دنیا میں اپنی اور اپنی امتِ مسلمہ کی ایک بااثر قوت کے طور پر عالمی سطح پر پہچان حاصل کر رہی ہے، خواہ روئے زمین کے ظالم اور طواغیت اپنے بغض اور حسد کی بنا پر اس حقیقت کا اعلان نہ کریں۔ اسی طرح، جہادی تحریک نے اپنی تمام مختلف شکلوں میں، 11ستمبر سے 7 اکتوبر اور 8 دسمبر تک خطے میں خود کو ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ اس دن کے بعد سے، تمام بڑے علاقائی اور عالمی کھلاڑیوں کے باوجود، اسلامی اثر و رسوخ بتدریج اور آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے۔ امتِ مسلمہ اپنے ہراول جہادی دستے کے ساتھ، اب عالمِ اسلام میں ہندوستان، پاکستان اور افغانستان سے لے کر شام، صومالیہ اور اسلامی مغرب تک عسکری نقل و حرکت اور تدابیر کی بہت زیادہ گنجائش رکھتی ہے۔

آج، آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر کے بہت سے ممالک یہ دیکھنے اور یقین کرنے کے لیے آئے ہیں کہ امتِ مسلمہ کا ہراول جہادی دستہ، مستقبل کی وہ قوت ہے جس پر کسی کو بھروسہ کرنا چاہیے اور حال ہی میں 7 اکتوبر کے بعد سے بہت سی مغربی رپورٹیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خطے کے ممالک اس بات پر زیادہ قائل ہو گئے ہیں کہ جہادی قوتوں کو اپنا حلیف بنانا ہی مستقبل کا واحد حل ہے جو ان کے علاقائی اثر و رسوخ اور ان کے جغرافیائی سیاسی اور ذاتی مفادات کو محفوظ رکھے گا، چاہے صرف ایک مختصر مدت کے لیے ہو۔ حتیٰ کہ وہ ممالک جنہوں نے ہمارے عوام کے خلاف ردِ انقلاب کی قیادت کی اور گزشتہ ایک دہائی کے دوران جہادی فوائد کو محدود کرنے کے لیے اپنی انتہائی نظریاتی کوششیں اور عسکری توانائیاں بروئے کار لائے، وہ بھی آج بے چینی اور غیر یقینی کی کیفیت میں ہیں کہ سیاسی سطح پر ’’طوفان‘‘ اور ’’ ردع العدوان‘‘ کی لہروں سے مستقبل میں پیدا ہونے والے وسیع علاقائی اثر و رسوخ کے خدشات کے پیش نظر اور ان کے مختصر مستقبل کو درپیش ان تمام خطرات اور اسلام پسندوں اور جہادیوں پر ان کے مکمل اعتماد کے فقدان کے پیش نظر، نہ چاہتے ہوئے بھی، عالم اسلام میں ابھرتی ہوئی جہادی قوتوں سے اضطراری تعامل کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔

تاہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اس کے باوجود ہماری امتِ مسلمہ کی ماضی کی اقدار اور جہادی کامیابیوں کو تباہ کرنے کے لیے انتھک کوششیں کر رہے ہیں اور دور حاضر کے جہاد کو امتِ مسلمہ کی نظروں سے اوجھل کرنے اور اس کی عظمت کو چھپانے کے لیے جھوٹ کے تانے بانے بُن رہے ہیں۔ لیکن ہماری امت کے کامیاب اور ہدایت یافتہ نوجوان اس بات کا ادراک رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ 11ستمبر، 7 اکتوبر اور 8 دسمبر کا مطلب کیا ہے؟ اور وہ ان عظیم معانی اور اس عظیم جہاد کی گہرائی اور عظمت کو سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس مرحلے پر اللہ تعالی ان سے کیا چاہتا ہے۔ اس لیے آپ انہیں آج تک اپنے مال و جان کو خدا کی خاطر قربان کرتے ہوئے پائیں گے، وہ خطرے کی پرواہ کرنے والوں، خیانت کرنے والوں اور نافرمان لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے ایمان کے سائے میں اور اپنے رب کی شریعت کے تحت زندگی کی قدر کو سمجھتے ہیں، اور وہ کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) سے وابستہ ہونے کی قیمت کو جانتے ہیں۔ یہ عظیم قربانیاں اور فدائی جذبہ ہی ہمارے معاصر مسائل کا حل ہے اور یہی ہماری لوٹی ہوئی شان و شوکت کو بحال کرنے کا واحد راستہ ہے۔ میرے پیارے بھائی! یقین جانیں کہ آج اسلام کے تمام دشمن پورے یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ خطہ بالعموم اور شام بالخصوص بہت جلد بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے ایک لانچنگ پیڈ اور عالمی جہاد کا بنیادی ذریعہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اندھے پن میں ہچکچاتے ہیں اور اپنی غلطی میں الجھتے ہیں۔ پس وہ انتظار میں پڑے رہیں کیونکہ ہم بھی ان کے ساتھ منتظر ہیں۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

  • 1
    جس وقت یہ انٹرویو لیا گیا تب کی تاریخ ۔(ادارہ)
  • 2
    مصنف ابن ابی شیبہ (32361)، احمد (13084)
  • 3
    عربی کہاوت جس کا مطلب ہے کہ میں اسی دن مارا گیا تھا جب میں نے اپنے بھائی کا قتل ہوتے دیکھا اور خاموش رہا۔
  • 4
    مسلم (2897)
  • 5
    ابوداؤد (4292)
  • 6
    حضرت الاستاذ کی پیشن گوئی کے مطابق – اس ترجمے کی اشاعت تک – حکمت ہجری کی ملیشیا کے ذریعے اسرائیل یہ کام کر چکا ہے – مترجم
Previous Post

وقت قریب آ رہا ہے!

Related Posts

وقت قریب آ رہا ہے!
کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!

وقت قریب آ رہا ہے!

4 نومبر 2025
قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان: متحدہ عرب امارات
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان: متحدہ عرب امارات

4 نومبر 2025
ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں!
…ہند ہے سارا میرا!

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں!

4 نومبر 2025
جنگی اسٹریٹیجی کے ۳۳ رہنما اصول | پہلی قسط
فکر و منہج

جنگی اسٹریٹیجی کے ۳۳ رہنما اصول | پہلی قسط

4 نومبر 2025
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
اداریہ

تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

4 نومبر 2025
اکتوبر ۲۰۲۵ء

اکتوبر 2025ء

4 نومبر 2025

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اکتوبر ۲۰۲۵ء

اکتوبر 2025ء

by ادارہ
4 نومبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version