الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ، وبعد
پچھلے کچھ عرصہ سے مجاہدین کی صفوں میں قومیت یا وطنیت کے دائرے میں اپنی جدوجہد کو منظم کرنے کا رجحان بڑھا ہے، اور خود جہادی حلقوں میں یہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بالخصوص افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کی فتح کے بعد اس موضوع نے مزید زور پکڑا ہے، اور امارتِ اسلامیہ کی مثال دیتے ہوئے بہت سے حضرات کی طرف سے مجاہدین کو اس رائے کی طرف دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کو وطنی یا قومی دھارے میں منظم کریں۔ اس جدید زیرِ بحث موضوع کے حوالے سے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ شرعی اور واقعاتی پہلوؤں سے اس کا جائزہ لیا جائے، اس کی افادیت یا عدمِ افادیت کے حوالے سے اہلِ علم اور اہلِ فکر ودانش کے سامنے کچھ عرض کیا جائے اور اس کے عواقب کے حوالے سے بات کی جائے۔
دینِ اسلام میں قوم ووطن کی حیثیت
اسلام یقیناً ایک ایسا دین ہے کہ جس نے انفرادیت اور اجتماعیت ، ہر دو کے مصالح کی پوری پوری رعایت کی ہے۔ یہ وہ واحد دین ہے جس میں دنیوی پیمانوں کے لحاظ سے بھی حقیقی فوائد وثمرات کو سمیٹا گیا ہے، اور حقیقی نقصانات اور مفاسد کی روک تھام بھی کی گئی ہے، اگرچہ ظاہر بینوں کے یہاں بعض پیمانوں سے فوائد ہوں۔ قوم اور وطن چونکہ انسانی زندگی میں زندہ حقیقتیں ہیں، اس لیے اسلام نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس سے کسی بھی مسلمان کی وابستگی کو تسلیم کیا ہے۔ البتہ ان دونوں کو اتنی ہی حیثیت اور اتنا ہی مقام دیا ہے جو ان کی حقیقت ہے۔ یہی دینِ اسلام کا حسن ہے۔ اس نے دنیوی اشیاء کی حیثیتیں ان کی اصل حقیقتوں کے موافق متعین کر دی ہیں، اور جو بے اعتدالی اس حوالے سے انسانوں میں پائی جاتی تھی، اسے اعتدال عطا کیا ہے۔
قوم کی حیثیت متعین کرتے ہوئے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا﴾ [سورۃ الحجرات:۱۳]
’’اور ہم نے تمہیں قوم اور قبیلوں میں بانٹ دیا، تاکہ تمہاری آپس میں پہچان اور شناخت ہو۔‘‘
اسلام نے قوم یا قبیلے انسانوں کی الگ الگ شناخت اور علیحدہ علیحدہ پہچان کے لیے بنائے۔ پھر اپنی قوم اور قبیلے کو باہم جوڑے رکھنے کا بھی طریقہ سکھلایا اور وہ ہے صلہ رحمی۔ شارع علیہ السلام نے صلہ رحمی پر بے انتہا زور دیا۔ امام ترمذی اور امام احمد کی روایت میں ہے:
تعلموا من أنسابكم ما تصلون به أرحامكم، فإن صلة الرحم محبة في الأهل.
’’اپنے نسب یاد رکھو، تاکہ تم صلہ رحمی کرسکو، بے شک صلہ رحمی خاندانوں میں محبت کا ذریعہ ہے۔‘‘
قطع رحمی کو اس قدر سخت گناہ قرار دیا کہ سخت ترین وعیدیں اس کے بارے میں نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو رحم کے رشتوں کو قطع کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے توڑ کر رکھ دیں گے۔ دنیا میں جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ سزا دے دیتے ہیں، ان میں سے ایک قطع رحمی ہے[کما رواھما أبو داود]۔
تاہم چونکہ انسانی جبلت میں خاندان اور قوم وقبیلے کی محبت وعصبیت کا مادہ از خود موجود تھا، اور جاہلیت میں یہی نہ صرف معیارِ حق، بلکہ معیارِ افضلیت تھا، تو اسلام نے اس بے اعتدالی کی روک تھام کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ﴾ [سورۃالحجرات:۱۳]
’’بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں سے معزز وہی ہے جو تم سب میں تقویٰ میں آگے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ’قومیت‘ کو اسلام کے تابع کر دیا۔ قوم اس وقت لائقِ ستائش قرار دی گئی جب اسلام سے چمٹ جائے۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ انسانو ں میں سے بہترین کون ہے؟ فرمایا: اللہ کے یہاں بہترین ان میں سب سے متقی ہے۔ دریافت کرنے والے کہنے لگے: اس کے بارے میں ہم نے سوال نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بہترین انسان اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام ہیں جو اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ کہنے لگے: ہم نے اس کے بارے میں بھی سوال نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: تو کیا تم عرب کے قبیلوں کے بارے میں پوچھتے ہو؟ کہنے لگے: جی ہاں! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فخياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فَقِهُوا.
’’جو جاہلیت کے دور میں بہترین تھے، وہی اسلام کے دور میں بہترین ہیں جبکہ اسلام کی سوجھ بوجھ حاصل کرلیں۔‘‘
یعنی اسلام سے قبل کے قومی یا قبائلی اوصاف بھی اسی وقت قابلِ اعتبار ٹھہرتے ہیں جب اسلام کی سوجھ بوجھ حاصل ہو جائے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں اور قبیلوں کو طبعی اور جبلی اعتبار سے مختلف خوبیوں سے نوازا ہے، مگر ان خوبیوں کی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلے میں فائز اسی وقت ہوسکتے ہیں جب اسلام ا ن میں رچ بس جائے، اسلامی معیارات ان کے یہاں رائج العمل ہوجائیں اور ان اوصافِ حمیدہ کے سبب وہ خدمتِ اسلام میں آگے بڑھ جائیں۔
مسئلۂ قومیت میں ’مذموم‘ کیا ہے؟
جب اسلام نے قوم کی حیثیت کو تسلیم کیا ہے، اور اسلام کے تابع اس کے مفاخر بھی مانے ہیں، تو اب مسئلۂ قومیت میں مذموم کیا ہے؟ قومیت کے ذیل میں کئی پہلو قابلِ توجہ ہوسکتے ہیں، مگر بنیادی قبائح جن کی روک تھام اسلام نے کی ہے، ان میں تین قابلِ قدر ہیں، اور شاید یہی مذموم ’قوم پرستی‘ کی علامتیں ہیں:
اول: حق وباطل میں قوم معیارِ حق بن جائے اور ہر حال میں اس کا ساتھ دیا جائے
جب قومیت اسلام کے تابع کر دی گئی تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ حق میں قوم کا ساتھ دیا جائے، جبکہ باطل میں قوم کا ساتھ نہ دیا جائے۔ قومیت اس وقت مذموم قوم پرستی میں تبدیل ہوتی ہے جب ہر حال میں قوم سے محبت کا اظہار کیا جائے، قوم کی تائید وحمایت کی جائے اور قوم کا نعرہ بلند کیا جائے، بغیر یہ دیکھے کہ کہاں قوم یا قبیلہ حق پر کھڑا ہے اور کہاں ظلم واثم میں کھڑا ہے، ناحق کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اب چاہے اپنی قوم ظلم کرے، ناانصافی کی مرتکب ہو، ناحق کر رہی ہو، اپنی قوم کا ساتھ دیا جائے اور اس کے مظالم پر پردے ڈالے جائیں۔ اسلام مسلمانوں میں اس شعور کو خاص طور پر پیدا کرتا ہے کہ صلہ رحمی اپنی جگہ، قوم سے محبت بھی اپنی جگہ، مگر ناحق اور ظلم میں قوم کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اسلام کی روح کے منافی ہے۔ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ارشادات میں اس کی طرف تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ اور اسی کو اندھی ’عصبیت‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سنن ابو داود میں سراقہ بن مالک کی روایت میں ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے میں ارشاد فرمایا:
خيركم المدافع عن عشيرته ما لم يأثم.
’’تم میں سے وہ بہترین ہے جو اپنے خاندان کا دفاع کرے، بشرطیکہ وہ (خاندان کا ناحق میں ساتھ دے کر) گناہ وظلم کا مرتکب نہ ہو۔‘‘
سنن ابو داود اور سنن ابن ماجہ میں سیدنا واثلہ بن أسقع سے مروی حدیث میں رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ عصبیت کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أن تعين قومك على الظلم.
’’یہ کہ تم ظلم میں اپنی قوم کی مدد کرو۔‘‘
سنن ابو داود اور مسند احمد میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے مروی حدیث میں ظلم وناحق میں اپنی قوم کا ساتھ دینے والے کی شناعت بیان کرنے کے لیے رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال بیان فرمائی:
من نصر قومه على غير الحق فهو كالبعير الذي ردي، فهو ينزع بذنبه.
’’جو کوئی ناحق میں اپنی قوم کا ساتھ دے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کھائی میں جا گرے، اور اسے دم سے پکڑ کر نکالنے کوشش کی جائے [گویا خود بھی گناہ اور ہلاکت میں شریک ہوا]۔‘‘
خود اس کی علت کی طرف بھی رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرما دیا۔ سنن ابو داود میں سیدنا ابو الدرداء کی روایت میں ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حبك الشيء يعمي ويصم.
’’کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔‘‘
یہ خاندان، قوم یا قبیلے کی محبت ہوتی ہے جس کے سبب انسان حق وناحق ہر حال میں اس کا ساتھ دیتا ہے، اور صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ خودمحض محبت تو محمود ہے، مگر اس کا یہ داعیہ کہ حق وناحق دیکھے بغیر قوم کا ساتھ دیا جائے، یہ جرم ہے۔ مسند احمد اور سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث میں ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عصبیت ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم سے محبت کرے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا، ولكن من العصبية أن ينصر الرجل قومه على الظلم.
’’نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ کوئی شخص ظلم میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔‘‘
یہ وہ بنیادی پہلو ہے جو قوم پرستی کی بنیاد ہے کہ حق وباطل میں قوم خود معیار بن جائے۔ اور ہر حال میں قوم کا ساتھ دیا جائے،اس کی ابتداء قوم سے محبت سے ہوتی ہے، اور بعد میں یہ سیاسی شعار بن جاتا ہے۔ قوم پرستی کے جتنے نعرے بھی ماضی بعید وقریب میں لگائے گئے، وہ اسی کی مختلف تصاویر تھیں۔ ایسے کسی بھی سیاسی نعرے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اس سے اسلامی سیاست کی بنیادیں ہی ہل جاتی ہیں۔ ہمیں الحمد للہ مجاہدین اور ہر اس طبقے سے اس حوالے سے اطمینان ہے جو غلبۂ دین کی سیاست کر رہا ہے کہ وہ ایسی کسی قوم پرستی کی دعوت نہ اپنے منشور میں شامل کرسکتا ہے اور نہ اس کی طرف دوسروں کو بلاسکتا ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہوا ہے کہ بعض جگہوں پر، بعض معاملات میں طبعی وسیاسی رجحانات کے زیرِ اثر جماعتی، گروہی یا قومی عصبیت کا مظاہرہ ہوجائے، تو ایسا دنیا کے کسی بھی نیک وصالح گروہ اور معاشرے میں ہوسکتا ہے۔ تاہم صالح گروہ یا معاشرہ خود فریضۂ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعے اس کی سرکوبی کردیتا ہے۔
دوم: کوئی مسلمان قوم کسی دوسری مسلمان قوم پر فوقیت اور برتری کا رویہ اپنالے
قومیت کا دوسرا مذمتی پہلو جو پہلے پہلو کی نسبت اگرچہ خفی ہے، مگر زیادہ خطرناک ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد اب اسلام کسی بھی قوم یا قبیلے کو دوسری قوم یا قبیلے پر فوقیت یا برتری نہیں دیتا اور نہ ایسے کسی دعوے کو قبول کرتا ہے۔ بلکہ اسے مذموم اورگناہ وجاہلیت وعصبیت قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اصل شرف وعزت کا معیار اسلام ہے، قوم یا قبیلہ نہیں ہے۔ لہٰذا سبھی مسلمان دنیوی اعتبار سے برابر ہیں۔ ٹھیک ہے کہ معاشرتی اعتبار سے کسی قوم کو دوسرے پر شرف حاصل ہو، جیسا کہ اہلِ بیت کو تمام دوسرے طبقات پر، لیکن اس کی بنیاد پر کوئی بھی دنیوی معاملہ اسلام نے روا نہیں رکھا ہے، کہ انھیں دنیا کے امور میں دوسرے طبقات پر فوقیت دی جائے اور حقوق کی تقسیم میں تفریق کی جائے۔ معاشرتی حقوق وفرائض میں اسلام سے وابستہ سبھی قومیں، قبیلے یا طبقات برابر ہیں1۔
مسند احمد میں سیدنا عقبہ بن عامر کی حدیث میں ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنسابكم هذه ليست بمسبة على أحد، ليس لأحد على أحد فضل إلا بدين وتقوى.
’’تمہارے یہ نسب کسی مسلمان کے لیے عار یا کمتری کا باعث نہیں ہیں۔ کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان پر برتری حاصل نہیں، ہاں کوئی برتری ہے تو وہ دین اور تقویٰ کی بنیاد پر۔‘‘
امام طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلمون إخوة، لا فضل لأحد على أحد إلا بالتقوى.
’’تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، کسی بھی مسلمان کو دوسرے مسلمان پر برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کی بنیاد پر۔‘‘
یہاں یہ بات ضرور یاد رکھنے کی ہے کہ تقویٰ یا دینداری کو تفوق اور برتری کا معیار اسلام نے ٹھہرایا ہے، لیکن یہ سب اللہ کے دربار میں ہے۔ دنیا میں اسلام نے مسلمانوں کو کوئی پیمانہ یا کسوٹی نہیں عطا کی ہے کہ جس کی بنیاد پر تقویٰ کا وزن یا سکیل معلوم کیا جاسکے۔ اس لیے دنیوی پیمانوں میں تمام مسلمان برابر ہیں۔ مسلمانوں کو دنیا میں ایک دوسرے پر تفوق ثابت کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، بلکہ تواضع کا حکم ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله أوحى إلي أن تواضعوا حتى لا يفخر أحد على أحد، ولا يبغي أحد على أحد.
’’بے شک اللہ نے میری طرف وحی فرمائی کہ (اے مسلمانو!) تم تواضع اختیار کرو، یہاں تک کہ کوئی مسلمان دوسرے کے مقابلے میں فخر نہ کرے، اور کوئی مسلمان دوسرے پر ظلم نہ کرے۔‘‘
سوم: مسلمانوں کے اجتماعی مصالح کے مقابلے میں قومی مصالح کو ترجیح دی جائے
قومیت کے ذیل میں تیسرا مذموم پہلو جو دوسرے پہلو پر مترتب ہوتا ہے، اور جس نے ہمارے دور میں وبائے عام کی صورت اختیار کرلی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے مصالح کو دوسری مسلمان قوم کے مصالح پر ترجیح دے، یا اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے اجتماعی مصالح پر ترجیح دے، یا دوسرے لفظوں میں امت کے مقابلے میں قومی مصالح کو ترجیح دی جائے۔ اسلام نے تمام مسلمانوں کو اخوت کے رشتے میں جوڑا ہے۔ اسلام معاشرتی حقوق وفرائض کے باب میں تمام مسلمانوں کو برابر سمجھتا ہے، اسی لیے تمام مسلمانوں کے مصالح کی رعایت کو لازم کرتا ہے۔ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی قوم اپنی مصلحت کی رعایت کرے، چاہے اس سے دوسری مسلمان قوم کی مصلحت پر زد پڑ رہی ہو۔ اسی کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان قوم قومیت کے لبادے میں ایسی لپٹ جائے کہ اس کا مطمحِ نظر اور منشور محض اپنے قومی مفادات کا تحفظ رہ جائے، اور وہ دیگر مسلم اقوام یا امت کے مفادات کے تحفظ سے صرفِ نظر کرلے۔ یہ نظریہ یا فکر بھی اسلام کی روح کے منافی ہے۔ رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جسے کتنے ہی محدثین نے روایت کیا ہےاور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:
ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد، إذا اشتكى عضوا تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى.
’’تم مومنین کو باہم رحمدلی، محبت اور ہمدردی میں ایک جسم کی ماننددیکھو گے، اگر کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم بےخوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
صحیحین کی دوسری حدیث میں ہے:
إن المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا.
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیےایک عمارت کی مانند ہے کہ جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو تقویت دیتا ہے۔‘‘
اس باب میں احادیث بے شمار ہیں، جنھیں یہاں بیان کیا جانا ممکن نہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں وارد ہے:
المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يخذله، ولا يحقره.
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ ظلم کی حالت میں اسے بے آسرا چھوڑتا ہے، اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔‘‘
یعنی ’خذلان المسلم‘ اسلام کی نگاہ میں خود ایک جرم ہے۔ اگر قومیت اس سطح پر آجائے کہ اپنی قوم کا دفاع اور تحفظ تو ناگزیر، لیکن دوسری مسلم اقوام پر ظلم کو خود اپنے پر ظلم تصور نہ کیا جائے اور اس کے دفاع کو اپنے دفاع کے برابر خیال نہ کیا جائے، تو یہ خذلان ہے۔ اسلام اسے مسلمانی شان ہی قرار نہیں دے رہا۔ امام حاکم اور امام طبرانی کی روایت کردہ حدیث میں وارد ہے:
من لم يهتم بأمر المسلمين فليس منهم.
’’جو کوئی مسلمان دوسرے مسلمانوں کی پریشانیوں میں فکر مند نہیں ہوتا تو وہ ان میں سے نہیں۔‘‘
یہاں فکر مندی سے مراد محض دکھ اور غم کا اظہار نہیں ہے، جیسا کہ آج کے زمانے میں عام رسم بن گئی ہے، بلکہ وہ فکر مندی ہے جو عمل پر ابھارتی ہو، جب کہ استطاعت ہو۔
ہم مجاہدین کو بالعموم اور ان کے اہلِ علم وفکر کو بالخصوص ان آخری دو پہلوؤں کے متعلق خبر دار کرنا چاہتے ہیں، کہ قومی یا وطنی دھارے میں تحریکِ جہاد کو منظم کرنے میں ان آخری دو پہلوؤں کا حل کیا نکالا جائے گا۔ موضوع زیرِ بحث سے متعلق موجودہ دور کی صورتِ واقعہ میں عالمِ کفر کی سازشوں اور جاری جہادپر بات کرنے سے قبل مسئلہ وطنیت پر بھی چند جملے پابندِ تحریر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
مسئلۂ وطنیت
وطنیت کا معاملہ بھی قومیت کے معاملے سے کچھ مختلف نہیں ہے، اور اسلام نے اس کی بھی حیثیت واقعاتی حقیقت کے مطابق متعین رکھی ہے۔ البتہ وطن کا معاملہ تو خود قوم سے بھی ہلکاہے۔ وطن تو اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان آباؤ اجداد کی نسبت سے توطّن اختیار کرے، یا جسے بعد میں خود جاکر رہائش کے لیے اختیار کرلے۔ وطن سے بھی انسانی محبت مسلم حقیقت ہے۔ کوئی بھی سلیم الفطرت، سلیم الطبع انسان اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔ خود رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے وطن مکہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے تو انتہائی جذباتی انداز میں یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے:
ما أطيبك من بلد، وأحبك إلي، ولولا أن قومي أخرجوني منك ما سكنت غيرك.
’’(اے مکہ!) تو سب سے بڑھ کر پاکیزہ اور سب سے بڑھ کر مجھے محبوب ہے۔ اور اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں کبھی تیرے علاوہ میں رہائش اختیار نہیں کرتا۔‘‘[رواہ الترمذي]
وطن سے محبت یقیناً انسانی فطرت کا حصہ ہے، جس طرح اپنی قوم سے محبت ہے۔ البتہ میں نے عرض کیا ہے کہ وطن کا معاملہ قوم سے ہلکا ہے، کیونکہ خود رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر اپنے وطن سے محبت تھی، مگر جب اسلام نے انھیں دوسرے وطن سے جوڑ دیا تو وہ اسی وطن کے ہو رہے، اور وہ تمام مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ چھوڑ گئے تو دوبارہ مکہ میں نہ لوٹے۔ اسلام نے تو رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبروں کو بھی اسلام کی خاطر ہجرت کروائی ہے، اور وطن کو چھڑوایا ہے۔ ’ہجرت‘ یعنی ترکِ وطن پیغمبرانہ سنت ہے، اور اسلام نے اسے ہمیشہ جاری رکھا ہے۔ لہٰذا اگر وطن اسلام کے لیے سازگار نہ ہو،تو اب اس وطن سے چمٹے رہنے کی دعوت اسلام نہیں دیتا، بلکہ اسلام ایسی جگہ کو وطن بنانے کی دعوت دیتا ہے جہاں اسلام ہو۔ لہٰذا وطن کی حیثیت تو قوم سے بھی کمتر ہے۔ ہاں! اپنے وطن سے محبت کے سبب مسلمان کے دل میں یہ داعیہ ضرور ہونا چاہیے کہ اس کا وطن اسلام کا گہوارہ بن جائے اور وہ اس کی کوشش کرے۔ یہی اس کی وطن سے محبت کا حق ہے۔ پھر جبکہ اس کا وطن وہ ہو جہاں صدیوں سے اسلام غالب رہا ہو، اور اب مغلوب ہو، تو اب از روئے اسلام اس وطن پر دوبارہ اسلام کو غالب کرنے کے لیے جہاد اس پر واجب ہے۔ معلوم ہوا کہ وطن خود کوئی معاشرتی حقوق رکھنے والی چیز نہیں ہے، جیسا کہ قوم ہے۔
رہ گئے موجودہ دور میں کھینچی گئی لکیروں کے ممالک، تو انھیں وطن کہا جائے، تو ظاہر ہے کہ اس معنی میں درست ہے کہ کسی مسلمان کا کسی خاص ملک میں پیدا ہونا یا رہائش رکھنے سے وہ ملک اس کا وطن کہلانے لگے، لیکن اس کی حدود کی بنیاد پر معاشرتی حقوق متعین ہونے لگیں تو یہ اسلام کی رو سے جائز نہیں ہے۔ موجودہ دور کی حقیقت اس کے برخلاف ہے کہ یہ لکیریں مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے کی غرض سے کفارِ عالم نے کھینچی ہیں، کہیں ریڈ کلف اور ڈیورنڈ نے، کہیں چرچل نے اور کہیں سائیکس اور پیکو نے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان ممالک کو ہی برا بھلا کہا جانے لگے اور اپنے پاسپورٹ وغیرہ جلا کر اسلام سے اپنی ولاء ووفاداری کو ثابت کیا جائے۔ یہ ممالک ایک واقعاتی حقیقت ہیں، اور اپنے وطن سے انسان کو محبت ہونی بھی چاہیے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کے حقوق کے معاملے میں رکاوٹ نہ بنیں اور ان ممالک میں غلبۂ اسلام کی صورت بنتی جائے۔ کوئی مسلمان کسی بھی ملک اور وطن سے تعلق رکھتا ہو، اس وطنیت کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی میں تفریق نہ کرے، اور اسلام کو ان ممالک کے اندر بند نہ کرے، کہ ہر ملک کا الگ اسلام ہو۔ اس معنی میں جدید ریاستوں نے یقیناً مسلمانوں میں تفریق پیدا کر دی ہے اور ہر ریاست کے مسلمان کی وفاداری اور بیزاری کا معیار اس کا ملک بن گیا ہے۔ اسی معنی میں اقبال مرحوم نے وطن کو تازہ خداؤں میں سے سب سے بڑا قرار دیا تھا اور اس کے پیرہن کو اسلام کا کفن قرار دیا تھا۔
موجودہ دور میں عالمِ کفر کی کوشش اور مجاہدین کے لیے چیلنجز
مذکورہ بالابحث اپنی جگہ،اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اور جس ماحول میں جی رہے ہیں، اس میں مسلمانوں کی سیاسی ومعاشرتی حالت کیا ہے، اور ان کے مقابلے میں کفار کی سیاسی حالت کیا ہے؟ اور اس حالت تک پہنچنے کے کیا مراحل ہوئے ہیں؟ تفصیل میں نہیں جاتے، اپنے موضوع سے متعلقہ امور پر بات کرتے ہیں۔
مسلمانوں نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی معاشرتی وسیاسی ہیئت کو ایک اکائی پر مرکوز رکھا، یعنی خلافت۔ اسلام نے چونکہ مسلمانوں کو ایک جان قرار دیا، یہ صرف نظریہ کی حد تک نہیں تھا، بلکہ اس کا عملی ظہور لازمی تھا۔ لہٰذا مسلمان سیاسی طور پر جہاں جہاں غالب ہوتے گئے، ایک مرکز سے جڑتے رہے اور جوڑتے گئے۔ اس خلافت میں بھی اسلام کی روح اتفاق ووحدت تھی، یہاں تک کہ حکمران کے ’انتخاب‘ کو بھی اسلام نے اسی اصول سے منسلک کیا۔ تاہم بدقسمتی سے اور بمشیتِ ایزدی یہ روش حکمران کے انتخاب کے معاملے میں زیادہ نہ چلی، اور بزور حکومت حاصل کرنے کی رسم چل نکلی، جسے ’ملوکیت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ بات پھر بھی مسلمہ رہی کہ ایک مرکزِ خلافت ضرور مسلمانوں نے ہر حال میں برقرار رکھا۔ تاکہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت ٹوٹنے نہ پائے۔ یہ سلسلہ انتہائی زوال کے حالات میں بھی بدستور رہا اور یہ سلسلہ خلافتِ عثمانیہ کے آخری دور تک چلتا رہا۔ اسی لیے اگر ایک حکمران خاندان ضعیف ہوجاتا تو دوسرا خاندان اس مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے آگے بڑھ جاتا۔ حتیٰ کہ اس تمام دور میں خلافت کی چھتری تلے بعض خاندانوں نے اپنی اپنی سلطنتیں بھی قائم کرلیں، تو وہ بھی اسلام کی سیاسی خدمت کو اپنی ترجیح میں رکھتیں، اور مرکزِ خلافت سے جڑنے کی رسم کو نہ چھوڑتیں، الا معدودے چند کے۔ یہی وجہ ہے کہ القدس کی بازیابی سے مرکزِ خلافت معذور ہوا تو مصر سے کُردی جوان ایوبی نے یہ خدمت اسلام کے لیے انجام دے دی، تاتاریوں کے فتنے کی سرکوبی مرکز کے بس سے باہر ہوئی، تو مملوکوں نے بڑھ کر یہ کام مرکز کو کردیا، یورپ میں سپین کے مسلمان عیسائی کفار کے سامنے بے بس ہوئے تو افریقہ سے یوسف بن تاشفین نے وہاں کا رخ کیا۔ اور جب مسلمانوں کی اکثر سلطنتیں مسلمانوں کی وحدت اور غلبے کو برقرار رکھنے سےعاجز ہوئیں تو ترک عثمانیوں نے جا علم اٹھایا؛ ایک طرف مختلف خطوں کے مسلمانوں کو متحد کیا اور دوسری طرف کفار کی شورشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سرحداتِ اسلام کو آگے بڑھایا۔ اموی ہوں، عباسی ہوں یا عثمانی ہوں، اسی وقت مسلمانوں کی نگاہ میں محترم ہوئے جب انھوں نے کسی قوم کی شناخت نہیں اپنائی، بلکہ نعرہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اپنایا اور مسلمانوں کے مقدسات کے تحفظ کو اپنا منشور بنایا۔ اسی طرح سلجوقی، زنگی، ایوبی، مملوک، مرابطین، مغل بھی اسی وقت مسلمانوں میں مقبول ہوئے جب ان کا شعار اسلام اور بلا تفریقِ قوم وملت مسلمانوں کا دفاع بنا۔
یہ مرکزیت کا سلسلہ اس وقت زوال پذیرہوا جب مسلمانوں میں قومیت کے نعرے بلند ہوئے۔ خلافتِ عثمانیہ کے باہر سے عرب قومیت کا نعرہ بلند ہواجس کی بنیاد پر خلافت کے خلاف شریف حسین اور فیصل نے بغاوت کی اور داخل سے طورانی قومیت کا نعرہ بلند ہوا جس کی بنیاد پر خلافتِ عثمانیہ کو توڑ کر ترکی کی قومی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سب حقائق ہیں، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ ان قومیتوں کے نعروں کے پیچھے مغربی طاقتوں کا ہاتھ تھا، اور انھوں نے مسلمانوں کی مرکزیت کو توڑنے کے لیے اولاً خفیہ اور آخراً اعلانیہ پشت پناہی کی۔ فارسی قومیت کے حامل صفویوں نے تو کچھ عرصہ پہلے سے ہی مسلمانوں کے مرکز سے ناطقہ توڑ رکھا تھا، اور بعد میں وہ بھی مغربی طاقتوں کے ساتھ اس گھناؤنے کھیل میں شریک ہوگئے، گو انھوں نے اہلِ سنت کے مقابلے میں شیعیت کا بھی سہارا لیا۔
پھر خلافت کے سقوط کے بعد مغرب نے عرب قومیت کے جن علمبرداروں کو اپنے مقصد میں استعمال کیا اور پورے عرب خطے کی بادشاہت کا خواب دکھلایا، ان کا خواب بھی پورا نہیں ہونے دیا اور عرب قومیت کے علاقوں کو کتنے ہی ممالک میں تقسیم کرکے الگ الگ کردیا۔ یہ وہ تاریخ ہے جو موجودہ مسلم نقشے کے وجودمیں آنے کا پتہ دیتی ہے۔ آج بھی عالمِ غرب کا مفاد اسی میں ہے کہ مسلمان مختلف قومیتوں میں بٹے رہیں اور مختلف علاقوں میں بند رہیں، کیونکہ انھوں نے جس محنتِ شاقہ سے موجودہ عالمی نظام کا تسلط قائم کیا ہے اور اپنی طاقتیں بنائی ہیں، وہ اس وقت تک ہی برقرار رہ سکتی ہیں جب تک مسلمانوں میں بہ حیثیت امت بیداری اور بہ حیثیت امت غلبے کی سوچ پیدا نہ ہو۔ موجودہ سیکولر نظام کی بقا اسی میں ہے کہ مسلمان اپنی جدوجہد کو اپنے اپنے علاقوں تک محدود رکھیں، افغانستان کے دفاع کے لیے حجاز سے کوئی مجاہد نہ آئے، کشمیر کے دفاع کی آواز افغانستان سے بلند نہ ہو، فلسطین کی بازیابی کے لیے کسی بھی مسلم ملک کا نوجوان نہ نکلے۔ انھوں نے دیکھا کہ روس کے حملے کے دوران جب تمام مسلم ملکوں کے مسلمان افغانستان کے جہادمیں شریک ہوئے تو اس کے نتیجے میں ساری دنیا میں جہاد کے محاذ کھل گئے اور مسلمانوں کو امریکہ ومغرب کے خلاف جہاد کرنے کا موقع مل گیا۔ وہ یہ غلطی دوبارہ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب ہر اس خطے میں جہاں جہاد کھڑا ہوگیا ہے، جہاد کو ’لوکلائیز‘ [مقامی] یا ’نیشنلائیز‘ [قومی] کرنا چاہتے ہیں، تاکہ باہر سے کوئی مسلمان اس کی مدد نہ کرسکے، اور وہاں کے مقامی یا قومی جہاد کے اثرات دوسرے خطوں میں نہ پہنچ سکیں۔ یوں عالمی طاقتوں کی عالمی اجارہ داری کو کوئی خطرہ نہ ہوسکے، اور وہ جب جس جگہ چاہیں وہاں کے مسلمانوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنائیں۔ پھر جہاد کو لوکلائیز یا نیشلائیز کرنے کے بعد ان کے پاس یہ سہولت ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہیں، رخ دے لیں۔ اگر کوئی مجاہد امارتِ اسلامیہ کی مثال کو سامنے رکھتا ہے تو اسے دوسری طرف شام کی مثال کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ جب تک شام تمام مسلمانوں کا قضیہ تھا اور ہر مسلم ملک کے نوجوان وہاں شریکِ جہاد ہو رہے تھے، شام میں مجاہدین دمشق کی فصیلوں تک پہنچ چکے تھے، لیکن جیسے ہی وہاں عالمی طاقتوں کی سازشوں اور ترکی اور سعودیہ کی حکومتوں کی دخل اندازی سے وہاں کے جہاد کا رشتہ دیگر خطوں کے جہاد سے کاٹ دیا گیا2 تو آج ایک ’ادلب‘ کے علاقے میں مجاہدین اور ان کے حامی عوام محصور ہیں، اور وہ بھی ترکی کی حکومت کی سیاست کے تابع بن چکے ہیں3۔ وہاں کی سب سے بڑی جہادی جماعت ہیئۃ تحریر الشام نے اپنے منشور کو کھلے لفظوں میں ’مقامی‘ کرلیا ہے، اور وہاں موجود کسی بھی مجاہد کو وہاں بیٹھ کر دیگر کسی مسلم خطے پر کفار کی جارحیت کے خلاف بولنے تک پر ’قریباً‘ پابندی ہے۔ کتنے ہی مخلص مجاہدین کو پابندِ سلاسل کردیا گیا ہے، بالخصوص مہاجر مجاہدین زیرِ عتاب ہیں۔
ہم مجاہدین کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ اسلام کی نگاہ میں جہاد لوکلائیز نہیں ہوسکتا۔ یہ تو آج تک کے تمام فقہائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ پوری دنیائے اسلام ایک ہی دار کی مانند ہے، اور اگر کسی ایک چھوٹے سے علاقے پر کفار قابض ہوجائیں تو ان کے قبضے سے وہ علاقہ بازیاب کرانا ……جبکہ مقامی مسلمان عاجز ہوجائیں…… پوری دنیا کے مسلمانوں پر واجب ہوجاتا ہے۔ اس میں ملک اور قوم کی کوئی تفریق نہیں۔
جہاد… …عالمی یا مقامی وقومی
مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اکثر خطوں کے مجاہدین کو اس وقت اس مشکل کا سامنا ہےکہ اگر وہ اپنے خطے سے باہر کے جہاد کی بات کریں، یا اپنے خطے سے باہر جہادی مہمات کی کوشش کریں تو مغربی طاقتیں انھیں جلد کچل دیں گی اور وہ اپنے جہاد کو ثمر آور نہیں بنا سکیں گے۔ ہمیں کھلے دل سے اعتراف ہے کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے۔ وجہ وہی ہے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ اس وقت عالمی طاقتوں کو اپنی موت اسی میں نظر آرہی ہے کہ امت بحیثیتِ امت جہاد شروع کر دے، ایک خطے کا جہاد دوسرے خطے کے جہاد کو تقویت دینے لگے اور یہ نظریہ اور فکر عام ہوجائے کہ جہاد اس وقت تک ہوگا جب تک عالمی طاقتوں…… امریکہ، یورپ، روس وچین…… کی شوکت نہ ٹوٹ جائے۔ اس لیے وہ مغرب جو پہلے سرے سے اسلامی حاکمیت کے نظریے کا مخالف تھا، اور کسی خطے میں بھی سیکولر نظام کی جگہ اسلامی حاکمیت کے قیام کو گنجائش دینے کو تیار نہیں تھا، آج بحمد اللہ جہاد ومجاہدین کی کامیابیوں سے اس معاملے میں تنازل پر مجبور ہوگیا ہے۔ تاہم اب وہ جہاد کے اگلے ہدف کی روک تھام چاہتا ہے، اور وہ یہ کہ اسلامی حاکمیت اور غلبے کا تصور عالمگیر نہ ہونے پائے، اور ایک خطے کا جہاد دوسرے خطوں کے جہاد کی تقویت کا باعث نہ بن جائے۔ کیونکہ مغرب اب بھی اپنے آپ کو اتنا تجربہ کار سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی خطے میں محصور جہاد کو یا تو منافق حکومتوں کے ذریعے کامیابی سے دوچار ہونے سے ہی روکے رکھے…… جیسا کہ شامی جہاد میں ہوا…… یا وہ اس خطے میں جہاد کی کامیابی کے بعد قائم ہونے والی اسلامی حاکمیت کی حامل ریاست کو اتنا مجبور رکھے کہ وہ بالآخر اسلامی حاکمیت سے تنازل کر بیٹھیں اور عالمی دھارے کے مطابق چلنے پر مجبور ہوجائیں۔ ہماری دانست میں مغربی طاقتیں اپنے اندر یہ اعتماد رکھتی ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے رب پر بھروسہ ہے اور اس سے بہت اچھی امید ہے، بشرطیکہ ہم بتوفیقِ الٰہی درست فیصلے کرسکیں۔
اللھم أحسن عاقبتنا في الأمور کلھا وأجرنا من خزي الدنیا وعذاب الآخرۃ، آمین۔
جہاد بقدرِ استطاعت
مجاہدین کے سامنے وہی عملی مشکل ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، اور مجاہدین اس کا حل چاہتے ہیں۔ اور اس مشکل سے نکلنے کے لیے مغرب کے یہاں جو حل مقبول ہے، وہ یہی ہے کہ جہاد اگر کسی خطے میں کھڑا ہوبھی جائے تو وہ وہاں قومی یا وطنی دھارے میں بند ہو۔ ایسے میں شاید کوئی تیسری طاقت بظاہر مدد کرنے کو بھی تیار ہو [تاکہ بباطن اس تحریکِ جہاد کو مغربی طاقتوں کی مرضی کے مطابق ڈھال دے]۔ مجاہدین کو کیا چیز مجبور کر رہی ہے کہ وہ بھی اسی حل کی طرف جاتے ہیں، وہ ان کی دانست میں ’استطاعت‘ کا مسئلہ ہے۔ یہی وہ ’عذر‘ ہے جس سے وہ اپنے لیے قومی جہاد کی گنجائش… …شریعت کے قواعد میں… … نکال سکتے ہیں۔
اگر کسی نے توجہ سے دیکھا ہو تو ہم نے اوپر حدیثِ رسولﷺ: ’’جو کوئی مسلمان دوسرے مسلمانوں کی پریشانیوں میں فکر مند نہیں ہوتا تو وہ ان میں سے نہیں‘‘ کے درج کرنے کے بعد لکھا تھا:
’یہاں فکر مندی سے مراد محض دکھ اور غم کا اظہار نہیں ہے، جیسا کہ آج کے زمانے میں عام رسم بن گئی ہے، بلکہ وہ فکر مندی ہے جو عمل پر ابھارتی ہو، جب کہ استطاعت ہو‘۔
شریعت کے احکامات سے واقف ہر فرد جانتا ہے کہ اسلام کے احکامات پر عمل، عملی ’استطاعت‘ پر موقوف ہے۔ اس سے کسی کو بحث نہیں۔ حتیٰ کہ شریعت کسی مسلمان کو اسی وقت کسی بھی عمل کا پابند[مکلف] بناتی ہے جب وہ اس عمل کی استطاعت رکھتا ہو۔ پھر استطاعت حقیقی بھی ہوتی ہے اور حکمی بھی، اور استطاعت ایک سے دوسرے فرد اور ایک عمل سے دوسرے عمل میں مختلف بھی ہوجاتی ہے، اور پھر کتنے ہی کاموں میں استطاعت کا حکم متعلقہ فرد کے اپنےفہم پرہوتا ہے اور اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے، کوئی دوسرا اس پر حکم عائد نہیں کرسکتا۔ ہمیں یہاں فقہاءکے بیان کردہ تفصیلی احکام سے کلام نہیں۔ ہم یہاں ایک فکری اور نظری موضوع کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اپنے دائرے کے اندر اس پر بات کرتے ہیں۔
بلاشبہ جہاد ایک ایسا عمل ہے جو استطاعت مانگتا ہے، اور استطاعت بھی اجتماعی۔ اس کےبغیر جہاد ہو نہیں سکتا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاد کی استطاعت پہلے سے موجود نہیں ہوتی، بلکہ تیاری اور تدبیر کرکے پیدا کی جاتی ہے۔ جہاد کی جو منزل طے کرلی جائے، اسی کے مطابق استطاعت کی فراہمی کی تدبیر کی جاتی ہے اور پھر اللہ پر توکل کرکے جہاد کیا جاتا ہے۔ نہ تدبیر میں کمی کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ توکل میں کمی کی۔ اگر آپ کا ہدف محض اپنے وطن کی آزادی ہے تو آپ اسی ہدف کو سامنے رکھ کر تیاری کریں گے اور پھر استطاعت فراہم کرکے جہاد کریں گے، اور اگر آپ کا ہدف اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسرے مقام… … مسلمانوں کے کسی مقدس مقام… … کی آزادی ہے تو آپ اسی کے مطابق تیاری کرکے اس کی استطاعت فراہم کریں گے اور پھر جہاد کریں گے۔ یہ استطاعت کی سیدھی سادی سی ترتیب ہے۔ دشمنانِ اسلام نہ تو آپ کو پہلے جہاد کی تیاری کی اجازت دیں گے اور نہ دوسرے جہاد کی تیاری کی، یہ تو آپ نے اپنے فہم اور نظریے کے مطابق کرنا ہے، اور دشمنانِ اسلام کے ساتھ ’الحرب خدعہ‘ کے مطابق عمل کرنا ہے۔
جہاد کی عملی ترتیب کیا ہو؟
یہ بات درست ہے کہ اپنے خطے میں قدم جمائے بغیر کسی دوسرے خطے یا عالم کے مسلمانوں کے لیے جہاد کے راستے نہیں کھل سکتے ہیں۔ لیکن اپنے خطے میں قدم جمانے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ اس سے باہر کے مسلمانوں کے دفاع کے نظریے سے تنازل اختیار کریں اور ان پر ظلم کرنے والے کو آپ دشمن تصور نہ کریں، اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو بھی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہ کردیا جائے۔ یہ فکر اور نظر یقیناً قومیت یا وطنیت کی جائز صورت نہیں ہے جسے کوئی بھی جہادی گروہ یا جماعت اپنے لیے روا سمجھے۔ یہی تو مسلمانوں کے اجتماعی مصالح اور امت کے مفادات کے مقابلے میں قومی مصالح ومفادات کو ترجیح دینا ہے، جس کے بارے میں شرعی اعتبار سے ابتداء میں بات کر آئے ہیں۔
تو پھر وہ مجاہدین کیا کریں کہ جو اپنے خطے میں جہاد کو مستحکم کرنے کے لیے امریکہ وعالمی طاقتوں کے دباؤ میں کمی لانا چاہتے ہیں اور اپنے جہاد کو اپنے خطے میں تمکین دلوانا چاہتے ہیں، ہمیں یہی حل سمجھ آتا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ دھوکہ دہی کا رویہ رکھیں، کہ دشمن کو دھوکہ ہی دیا جاتا ہے، مطمئن نہیں کیا جاتا۔ وہ یہ کہ محض سیاسی حکمتِ عملی یا سیاسی موقف کی حد تک اپنے جہاد کو قومی دھارے میں ظاہر کریں، لیکن اپنی فکر اور اپنے نظریات میں اسلام کے انھی مبادی کو زندہ رکھیں جو تمام مسلمانوں کے دفاع کو واجب ٹھہراتے ہیں، مسلمانوں پر جارحیت کرنے والے ہر کافر کو اپنا دشمن تصور کراتے ہیں، مسلمانوں کے مقدسات کے تحفظ کو اپنا فرض بتلاتے ہیں اور امت کی بالادستی اور مرکزی خلافت کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی نظریات قیادت میں بھی عام ہوں اور انھیں اپنے جنود میں بھی عام کیا جائے۔ تاکہ کل کلاں سیاسی مواقف یا حکمتِ عملی مبادی کی جگہ نہ لے لیں اور آج کے سیاسی مواقف کا رنگ داخلی رویوں میں نہ نظر آنے لگے، جیسا کہ بعض جہادی محاذوں پر مشاہدہ ہوا ہے۔
باقی مجاہدین کے وہ گروہ جو اپنے خطے میں بھی جہاد کو مستحکم کر رہے ہیں اور ساتھ عالمی طاقتوں کو ہدف بنانا ترجیحِ اول ٹھہراتے ہیں تو یقیناً یہ لوگ عزیمت پر عمل پیرا ہیں۔ چاہیے کہ دنیا کے ہر خطے میں جاری تحریکِ جہاد سے وابستہ مجاہدین دوسرے خطے کے مجاہدین کے ساتھ نہ صرف تعلقات استوار کریں، بلکہ اپنی عملی جدوجہد میں ایک دوسرے کے پشتیبان بنیں۔ یہ اسلامی تعلیمات کا بھی تقاضا ہے اور اسلامی اخوت کی بھی عملی تدبیر ہے۔
امارتِ اسلامیہ کے حوالے سےہمیں یہ اطمینان ہےکہ وہ سیاست کے میدان میں موجودہ دنیا کے اکثر جہادی گروہوں سے تجربے میں آگے ہیں بحمد اللہ۔ لیکن وہ خود ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں جس میں انھیں سیاسی میدان میں عالمی طاقتوں کا بھی سامنا ہے، اور خود مظلوم امت بھی ان کے معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں امت اور جملہ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے ہر کوتاہی سے محفوظ رکھیں، انھیں منافق حکومتوں کی سازشوں سے بچائیں، دنیا میں بھی مسلمانوں کی نظروں میں سرخرو فرمائیں اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں فائز وفائق فرمائیں، آمین۔
اللھم وفقھم لما یحب ویرضی من القول والعمل والنیۃ والھدي، إنك علی کل شيء قدیر. وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
وصلی اللہ تعالی علی نبینا الأمین، آمین.
٭٭٭٭٭
1 صرف ایک استثناء ہمیں ملتی ہے، اور وہ ہے کہ حکومت کے معاملے میں قریش کو مقدم کرنا۔ یہ خالص تعبدی معاملہ ہے، قیاسی معاملہ نہیں ہے، کہ اس پر قیاس کرکے ہر زمانے کے لحاظ سے کچھ گروہوں یا قبیلوں کو معاشرتی اعتبار سے مقدم کیا جانے لگے۔ حکومت کے معاملے میں قریش کی مخصوصیت ایک الگ موضوع ہے اور اس پر علمائے اسلام نے کئی پہلووں سے بات کی ہے، یہاں ہم تفصیل میں نہیں جا رہے۔
2 جبھۃ النصرۃ کے القاعدۃ سے علیحدہ ہونے کے اعلان کی طرف اشارہ ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں ہوا کہ امریکہ اورروس نے مشترکہ بڑے آپریشن کا اعلان کررکھا تھا اور یہ جھانسہ دیا گیا کہ اگر جبھۃ، القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کردے تو یہ آپریشن روک دیا جائے گا۔ اب شامی مسلمانوں کی مصلحت کو مقدم رکھتے ہوئے جبھۃ نے یہ اعلان کر دیا۔ یقیناً کسی بھی تنظیم سے تعلق کوئی اتنی بڑی مصلحت نہیں تھی کہ اسے شامی مسلمانوں کی مصلحت پر مقدم رکھا جائے۔ لیکن مسئلہ کسی تنظیم سے علیحدگی کا نہیں ہے، امریکہ یا کوئی بڑی طاقت اتنی بے وقوف نہیں ہے۔ مسئلہ اپنے ملک سے باہر کسی کفری جارحیت کے خلاف جہاد کرنے یا اس کی عملی حمایت کرنے کا ہے، جس کی روک تھام امریکہ اور دوسری بڑی طاقتیں چاہتی ہیں۔ اور جبھۃ نے بھی محض القاعدہ سے علیحدگی اختیار نہیں کی، بلکہ اسی شرعی حکم سے تنازل اختیار کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس تنازل کے بعد شامی مسلمانوں کی مصلحت حاصل ہوسکی؟ کیا شام پر روسی وامریکی جارحیت میں کمی آسکی؟ کیا شام میں مجاہدین کی قوت میں اضافہ ہوسکا؟ کیا بشار کی قوت میں کمی ہوسکی؟
3 ہم نےیہاں ایک بڑی وجہ ذکر کردی ہے جو ہمارے نزدیک اہم وجہ ہے۔ اگرچہ شامی جہاد کی ناکامی میں بہت بڑا کردار داعش نے ادا کیا ہے [خذلھم اللہ]۔ تاہم داعش کے فتنے کی سرکوبی ہوچکی تھی کہ مجاہدین وہاں پھر بھی مضبوط تھے، جو بعد میں داخلی جنگوں، پڑوسی منافق حکومتوں کی دخل اندازی اور مواقف کی تبدیلی سے ناکامی سے دوچار ہوئے۔ اور اسی مقامی جہاد کے موقف کے سبب مزید کمزور ہو رہے ہیں، لا قدر اللہ۔ ہم اللہ کے حضور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ شام کے مجاہدین کی مدد ونصرت فرمائیں جس طرح انھوں نے افغانستان کے مجاہدین کی مدد فرمائی، اور وہاں مجاہدین کی قیادت کو درست فہم اور درست فیصلوں کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ اللھم أعنھم وانصرھم فإنھم عبادك، آمین۔