رسول اللہ ﷺ کے بعد عرب کے سرداران اقرع بن حابس اور عیینۃ بن حصین وغیرہ، سیدنا ابوبکر صدیق کے پاس تشریف لائے۔ (یہ عرب کے وہ زعماء تھے کہ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ حنین کی غنیمت میں سے تالیفِ قلب کے لیے بہت مال دیا تھا۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ زکوٰۃ کے مصارف میں ’مؤلفۃ القلوب‘ کی مد میں اِن کا مستقل حصہ موجود ہے)۔ الغرض یہ زعماء آئے اور خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر سے زکوٰۃ میں اپنا حق مانگا۔ حضرت ابوبکر نے ان کو تحریر لکھ دی کہ ان کو اتنا اتنا مال دے دیا جائے۔ بیت المال کے ذمہ دار سیدنا فاروقِ اعظم تھے۔ یہ حضرات خلیفۂ رسولﷺ کی تحریر لے کر سیدنا عمر کے پاس پہنچے اور انہیں تحریر دکھائی۔ سیدنا عمر فاروق نے تحریر کو پڑھا اور اس کو پھاڑ کر پھینک دیا1۔ یہ حضرات سیدنا ابوبکر کی طرف لوٹے اور ان سے کہا کہ: أنت الخليفة أم عمر؟ ’’خلیفہ آپ ہیں یا عمر؟‘‘ سیدنا ابوبکر صدیق نے بے ساختہ فرمایا: هو إن شاء ’’وہی ہوں گے اگر وہ چاہیں‘‘۔ سلام ہو ان پر۔ آفرین! کیسے اخلاق ہیں، کیسا ادب ہے۔ ان لوگوں کی آپس میں محبت بڑی عجیب تھی۔ اللہ کی قسم وہ آپس میں ایک دوسرے کا بڑا عجیب احترام کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کی باہمی ایسی محبت اور اعتماد کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں کو فتح مل سکے۔ کیونکہ یہ محبت ہی تو وہی جذبہ ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے ایک انسان اپنے بھائی کے لیے اپنی جان قربان کردیتا ہے۔
میں نے آپ سے ’رکس معکرون‘ کا قصہ ذکر کیا تھا۔ یہ شخص ایک عیسائی سمگلر تھا۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے زمانے میں حکومت نے اس کو گرفتار کیا۔ ایک عیسائی سمگلر!…… پھر بھلا اس کو جیل میں کس کے ساتھ ڈالا؟ الاخوان المسلمون والوں کے بیچ میں اس کو ڈال دیا۔ کیونکہ وہ کسی مسلمان کو اخوانیوں کے قریب بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ البتہ یہودی یا عیسائی وغیرہ کو جیل میں اخوانیوں کے ساتھ رکھ لیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ اخوان والے ان پر اپنا اثر نہیں ڈال سکتے۔ الغرض معکرون کو اخوان کے ساتھ ایک ہی بیرک میں بند کیا گیا۔ پھر جیل میں مشہور ’واقعہ طرّہ‘ پیش آیا۔ اس سفاکانہ خون ریزی کے وقت معکرون بھی وہاں موجود تھا۔ یہ ایک خون ریز واقعہ تھا جس میں حکومت نے اخوان والوں پر جیل میں گولیاں چلا دیں۔ اس بیرک پر فائر کھول دیا کہ جس میں اخوان والے بند تھے۔ رکس معکرون کہتا ہے کہ ’’میں بھی اخوانیوں کے ساتھ ان کی بیرک میں ہی تھا۔ بیرک کا ایک دروازہ تھا جو کہ لوہے کی سلاخوں اور بڑے بڑے قبضوں پر مشتمل ہوتا ہے‘‘۔ جیل کے دروازے تو ہر جگہ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ معکرون کہتا ہے ’’میں ایک صندوق کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اچانک بیرک میں اندھیرا چھا گیا۔ تو میں نے صندوق کے پیچھے سے سر نکالا اور بیرک کا منظر دیکھنے کی کوشش کی۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ نوجوان اپنے بازوؤں کو کھولے اور اپنے سینوں کو آگے کر کے جیل کے دروازے کی سلاخوں سے چمٹے کھڑے ہیں اور اپنے شادی شدہ بھائیوں کے لیے ڈھال بن رہے ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں کہ ہم قربان ہوں گے اور تمہیں بچائیں گے تاکہ تم اپنے بال بچوں کے لیے باقی رہو‘‘۔ معکرون کہتا ہے ’’میں نے جب یہ مثالی لوگ دیکھے تو مجھے اپنا آپ حقیر لگنے لگا‘‘۔ معکرون یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ ان قربانیوں کو دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوا اور اس نے بعد میں ’میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں‘ کےعنوان سے ایک شاندار کتاب لکھی۔ وہ مسلمان نہیں ہوا اور عیسائی ہی رہا مگر ان مثالی انسانوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنی کتاب میں ان شہدا کا ایسے تذکرہ کرتا ہے کہ میرے فلاں فلاں بھائی کہ جو جرأت اور مردانگی کی حالت میں شہید ہوئے۔ یہ ایک وحشیانہ قتلِ عام تھا جس میں ۳۷ نوجوان شہید ہوئے۔ جن میں علماء، انجینئر اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات شامل تھے۔ ان کے گوشت کے چیتھڑے چھتوں سے لٹکے ہوئے تھے۔ جسم کے ٹکڑے اور ہڈیاں ہوا میں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں اور پھر دیواروں پر چپک جاتی تھیں۔ وحشی سپاہی مستقل ان پر گولیاں برساتے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قربانی دینے والے کی تعریف دشمن بھی کرتے ہیں اور دوست بھی۔ ایسے واقعات لوگوں کو حیران کرکے رکھ دیتے ہیں۔ جس کام کے لیے جتنی زیادہ قربانی دی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ وہ کام کرنے والے لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام بنتے ہیں۔ اور جس بھی کام کے لیے لوگ قربانی دینے سے پیچھے ہٹتے ہیں تو وہ خود بھی بالآخر اپنے اوپر ہنستے ہیں اور لوگ بھی ان کا لطیفہ بناتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی اسلامی جماعت اس طرح آپس میں جڑی ہوئی، باہم محبت کرنے والی، ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے اور اپنے بھائیوں کے دفاع کی خاطر خون بہانے والی بن جاتی ہے تب جا کر ہی اسے فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
1 سیدنا عمر کی رائے تھی کہ مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ میں سے فقط اُس زمانے میں ادا کیا جاتا ہے کہ جب اسلام کا ضعف اور کمزوری کا زمانہ ہو۔ اس وقت چونکہ اسلام کا شان و شوکت اور مضبوطی والا زمانہ تھا اس لیے حضرتِ فاروق کے مطابق اس مد میں زکوٰۃ کامال نہیں خرچ کرنا چاہیے تھا۔