نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اداریہ

ہم تیرے ﷺدشمن ماریں گے!

مدیر by مدیر
31 جولائی 2022
in اداریہ, مئی تا جولائی 2022
0

زوالِ امت کا اگر نقطۂ آغاز جاننا چاہیں تو مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نقل کردہ کسی ادیب کی بات ذہن میں گردش کرتی ہے کہ قوموں کے زوال اورفرد کی نیند کا دقیق وقت معلوم نہیں ہے۔ پھر بھی شاید من حیث المجموع جس زوال پذیری کا امت ’ظاہراً‘شکار ہوئی، اس کا نقطۂ آغاز دیکھیں تو سقوطِ اندلس میں مل جائے۔ وہی سقوطِ اندلس جس کے شروع ہونے کے ساتھ ہی پوری امتِ مسلمہ پر جہاد فرضِ عین ہو گیا1، وہی جہاد فی سبیل اللّٰہ جو طریقِ عروج ہے، ذروۃ سنام الإسلام۔ ہم اپنے خطّۂ برِّ صغیر میں دیکھیں تو اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات کے بعد برِّ صغیر میں سلطنتِ اسلامیہ کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا، باقاعدہ شامت نواب سراج الدولہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مرشد آباد میں اور سلطان فتح علی ٹیپو رحمۃ اللّٰہ علیہ کی میسور میں شہادت کے بعد ظاہر ہوئی۔ زوال و غلامی کا ایک بلا واسطہ نتیجہ وہ ’بیانیہ‘ ہوتا ہے جسے اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یوں پیرایۂ شعر میں ڈھالا:

تھا جو ’ناخوب‘، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

غلامی کے نتیجے میں جو بہت سے ناخوب ، خوب بلکہ خوب تر ہوئے اور ہماری ’قوم‘ کاضمیر جو بدلا تو اس میں نہایت تکلیف دہ معاملہ ، اللّٰہ کے پیغمبر، محمدِ مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کی اہانت کے معاملے میں ایک خاص intelligentsia کا پیدا ہونا ہے، جو خود تو عزت، غیرت اور حمیت جیسے الفاظ، اصطلاحات و جذبات سے نا بلد ہے، لہٰذا دینُ اللّٰہ کو بھی اپنے جیسا ’بے حمیت‘ ظاہر کرنے پر مصر ہے۔ پھر انہی لادین و لا دانش وروں کی محنت کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں قائم نیو ورلڈ آرڈر2 کو ہر ہر خطّے میں دیسی کالے بھورے انگریز میسر آگئے، جنہوں نے اپنے اپنے خطّوں میں عالمی نظامِ کفر کے استحکام و استقلال کے لیے محنتیں کیں، بلکہ دوسروں کی جنگوں کو اپنی جنگ مانا، جانا ، بلکہ منوایا، تاحال منوا رہے ہیں اور پھر ان دوسروں ہی کے لیے فصیلِ جاں سے گزر گئے ۔ ان محنتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے متعلق جو ہمارا کما حقہ رویہ ہونا چاہیے تھا وہ مفقود سا ہو گیا۔ بہر کیف، زیرِ نظر سطور میں بیان کردہ بات ایک زاویۂ نظر ہے ، امت کے مخصوص طبقے کی طرف اشارہ ہے اور من حیث المجموع، امتِ محمدؐ، محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے جو حقیقی کما حقہ تعلق رکھتی ہے اس کا ذکر چند نثر پاروں کے بعد آئے گا۔

ہنومان اور ہنومان جیتی و گاؤ و گنیش جیسوں کی پوجا کرنے والے بھگوا کے پجاریوں نے اپنی ناپاک زبانیں کھولیں اور طاہر و مطہر، مصفّیٰ و مجلّیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ کی زوجۂ مطہرہ ؓکے بارے میں انتہائی خسیس انداز میں گستاخی کی۔ اس گستاخی پر ردِّ عمل بھی ظاہر ہوا مگر ردِّ عمل اسی نظام و حصار کے اندر اندر جس کی حدود و لکیریں دشمن کے نظام نے متعین کیں اور کھینچیں۔

کیش ان کیری سٹوروں سے بھارتی مصنوعات اور چند دیناروں، درہموں اور ریالوں کی چاکلیٹوں کا وقتی ہٹا دینا، درجن سوا درجن اسلامی ملکوں کا بھارت کے سفیر وغیرہ کو بلا کر احتجاج کرنا، معافی کا مطالبہ کرنا، پر زور الفاظ میں مذمت وغیرہ، اس کے بعد امارات کے ’شیخوں ‘کی مودی کے ساتھ وہی رنگ رلیاں، پھر انہی امن کی آشاؤں کی جپتی مالا۔ چند دن مزید گزریں گے، کچھ ٹھنڈ واقع ہو گی تو بڑے سٹوروں پر چاکلیٹیں اور ٹافیاں پھر واپس آ جائیں گی۔ جب کہ جس intelligentsia کا اوپر ذکر ہوا اس نے پورا زور لگا کر اہانتِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ایک نہایت معمولی شے باور کروایا، کسی مکھی کو مار دینے یا چیونٹی کو مسل دینے سے بھی کم۔ حالانکہ اسی بزعمِ خود intelligentsia سے اگر پوچھیں تو یہ جدید نظام کی ’بائبل‘ سے ریاست اور سربراہِ ریاست کے تقدس اور اس کے خلاف زبان درازی كو قابلِ گردن زدنی جرم قرار دیں۔

پھر نظامِ کفر کی محنت و غلبے کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض دیگر حلقہ جات بھی حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کی شان کے معاملے میں وہ موقف عملاً اختیار کرتے نہیں، زبانی بیان کرتے بھی نظر اب نہیں آتے جو ابو بکرِ صدیق، عمرِ فاروق اور محمد بن مسلمہ رضوان اللّٰہ علیہم أجمعین کا تھا۔ حتیٰ کہ بعض تو اس حد تک گزر چکے ہیں کہ حال میں ہندوستان میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اہانت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو ’حرام‘ قرار دیتے رہے۔

پچھلی سطور میں بیان کردہ ’بیانیہ‘ اور ’عمل‘، ایک خاص طبقے کا تھا، لیکن اصل ’بیانیہ‘ اور اصل ’عمل‘، جسے بعض انجان ’ردِّ عمل‘ سے تعبیر کریں گے وہی ہے جو اللّٰہ ﷻ نے رسولِ محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر وحی فرمایا، یہی آپ علیہ الصلاۃ والتسلیم کی رضا تھی، یہی صحابہؓ کا طریقہ تھا جو جھار کھنڈ کے رانچی سے یورپ کے ناروے تک رہا۔

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے تعلقِ عشق و اطاعت میں جھارکھنڈ کے صدر مقام رانچی میں جلوس نکلتا ہے اور رسولؐ اللّٰہ اور امتِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دشمن پولیس اس جلوس پر اندھا دھند گولیاں برساتی ہے۔ نتیجے میں ساحل اور مدثر نامی دو مسلمان لڑکے جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر ہی نے مدثر شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ماں کی ماتم کرتی وہ ویڈیو سنی اور دیکھی ہو گی۔ اگر وہ ویڈیو نہیں دیکھی تو امتِ غیور کے پاکباز مرد حضرات! نگاہیں نیچی کر لیجیے اور مدثر شہید کی ماں کی گفتگو سنیے۔ سبحان اللّٰہ…… اللّٰہ اکبر! ہم یہاں مدثر شہید کی ماں کی دو مواقع پر کی گئی گفتگو کے الفاظ نقل کرتے ہیں، گو کہ دنیا کا ہر قلم اس ماں کے جذبے اور حدتِ ایمانی کو تحریری صورت میں نقل کرنے سے عاری ہے۔ مکرر عرض ہے کہ یہ باتیں مدثر شہید کی ماں نے صفِ ماتم پر بیٹھ کر مسلمان عورتوں کے سامنے کیں:

’’میرا چھوٹا سا بچہ، اپنے اسلام کے لیے شہید ہوا ہے۔ اس ماں کو فخر ہے۔ اس ماں کو فخر ہے (کہ) حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خاطر وہ اپنی جان کو دیا ہے، اس نے شہیدی جگہ (مقامِ شہادت)کو پایا ہے۔ مجھے کوئی غم نہیں! ‘‘

’’ارے نہ(نہیں)! کیا وہ سمجھ رہے ہیں…… مسلمان کا بچہ کمزور ہے؟ [اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں]شیر ماں (نے) پیدا کیا ہے، شیر ماں (نے)! شیر بچہ پیدا کیا ہے! شیر بچہ کو شیرماں نے پیدا کیا!

اسلام زندہ باد تھا، اسلام زندہ باد ہے اور اسلام زندہ باد ہمیشہ رہے گا! اس (اسلام)کو کوئی نہیں روک سکتا! ایک مدثر، اسلام زندہ باد بولتے گیا، اس کے پیچھے دیکھو سیکڑوں مدثر کھڑا ہو گیا! ‘‘

یہ ملتِ احمدِ مرسلؐ ہے، اک شوقِ شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ بیٹوں کو سولی کے لیے تیار کیا

یہ رسولِ محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا عشق ہے کہ اس زمانے میں بھی اور اس زمانے میں بھی آج کے بھگوا بھارت میں جہاں بدترین ظلم و بھگویت (بربریت نہیں!) برپا ہے وہاں پر دو مسلمان اٹھتے ہیں اور گستاخہ نپور شرما کے حمایتی گستاخ درزی کو گوشت کاٹنے والی چھریوں سے جہنم واصل کر دیتے ہیں۔ کئی مسلمان جو بظاہر شریعت پر عامل بھی نہیں وہ بھی گستاخہ نپور شرما کے قاتلوں کے لیے بیش قیمت انعامات کا اعلان کرتے ہیں۔

یو پی میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حرمت کے دفاع اور نپور شرما و گستاخ ہندتوائی دہشت گرد بی جے پی کے خلاف مظاہروں کی قیادت کے جرم میں نوجوان سٹوڈنٹ لیڈر آفرین فاطمہ کا گھر بلڈوز کر دیا گیا اور ان کے والد جاوید محمد صاحب جو خود ایک سیاسی شخصیت ہیں پابندِ سلاسل ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں جب ایک گدی نشین صاحب نے حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کے گستاخ کو قتل کرنے والے کے لیے انعام کا اعلان کیا تو ان صاحب کو نا معلوم افراد شہید کر کے فرار ہو گئے۔

نہتا ہونے کے باوجود غیرت کی اعلیٰ مثال ناروے میں مقیم دو پاکستانی مسلمان بہنوں کے عمل میں بھی ہے، جنہوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر اتارے جانے والے قرآنِ مجید کی بے حرمتی کرنے والے گستاخ سے صنفِ نازک ہونے کے باوجود نمٹا۔ ناروے میں جولائی ۲۰۲۲ کے پہلے عشرے میں ایک ملعون گستاخ نے اپنے غنڈوں کے ٹولے کے ہمراہ قرآنِ مجید کو نذرِ آتش کیا۔ وہیں قریب میں دو مسلمان بہنیں بھی موجود تھیں، جیسے ہی ان کے علم میں یہ فعلِ بد آیا انہوں نے بلند آواز میں پوچھا ’اس نے قرآن جلایا ہے؟!‘، اثبات میں جواب ملتے ہی انہوں نے ایمانی غیرت کے سبب اس اس گستاخ کو برا بھلا کہا، پھر محض زبانی برا بھلا کہنے پر اکتفا نہیں کیا وہ اپنی گاڑی میں بیٹھیں اور اس گستاخ کی گاڑی کا پیچھا شروع کردیا اور اپنی جدید و نازک گاڑی سے اس کی فور بائی فور جیپ نما گاڑی کو ٹکر ماری، جس کا گاڑی پر کچھ اثر نہ ہوا اور گستاخ نے گاڑی بھگا لی۔ ان بہنوں نے بھی اپنی گاڑی کو اس کے تعاقب میں چھوڑ دیا اور پوری قوت سے اس کی گاڑی سے اپنی گاڑی پھر ٹکرائی اور نتیجتاً گستاخ کی بھاری بھرکم گاڑی الٹ گئی۔ اقبالؒ کا یہ مصرع ایسے ہی عالی ہمت و عالی بخت لوگوں کےلیے ہے کہ

؏مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی!

اس واقعے کے بعد یہ دونوں بہنیں گرفتار ہیں، فک اللّٰہ أسرہما! ایسی ہی بہنوں کے متعلق ایک مجاہد شاعر نے کہا تھا:

جب جوانوں میں مفقود تھیں غیرتیں
تم کو حاصل حمیت کی معراج تھی

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی گستاخی کا انتقام بلاشبہ مسلمانوں پر واجب ہے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا انتقام لینے کا بہترین طریقہ جہاد فی سبیل اللّٰہ اور شریعتِ محمدی علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام کے نفاذ کی مبارک محنت کرنا ہے۔

شریعتِ مطہرہ ہم سے نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرتی ہے، سیکولر آئین و قانون کا نہیں! اور بالفرض کسی مقبول یا غیر مقبول عذر کی بنا پر کوئی سیکولر آئین و قانون اور جمہوریت کی چھتری کے تحت ماضی میں پناہ لیتا بھی رہا ہو تو آج اس کے لیے ایسا کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا۔ ہندوستان کا سیکولر آئین و قانون لاکھ سیکولر سہی لیکن نپور شرما اور اس کی ویڈیو عام کرنے والے مسلمان صحافی محمد زبیر کے معاملے نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ قانون کی کتابیں اور ویدیں بے جان ہوتی ہیں، اصل قوت وہ دماغ، زبان اور ہاتھ ہوتے ہیں جو معاملات کو پرکھتے، فیصلہ سناتے اور معاملات پر فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں بابو بجرنگی کی باعزت رہائی، بابری مسجد کے رام مندر میں بدلنے سے لے کر آج کی بلڈوزر حکومت و عدلیہ اور نپور–زبیر کیس میں قانون کا دوغلا پن سب کے سامنے واضح ہے۔ بھارت کے سیکولر آئین کی دفعات 153A اور 295 کے تحت نپور شرما اور مسلمان صحافی محمد زبیر کے خلاف پرچے کاٹے گئے۔ نپور شرما آزاد گھومتی رہی۔ جبکہ محمد زبیر پر ۲۰۱۸ء میں کی گئی کسی ٹویٹ پر قانون چار سال بعد حرکت میں آیا اور انہی دفعات کے تحت محمد زبیر کو حوالات میں ڈال دیا گیا۔ اللّٰہ ﷻ کا نہایت احسان ہے کہ ہندوستان میں آج ’ہندو مسلم بھائی بھائی‘ کا غیر حقیقی، بلکہ ہماری صاف گوئی پر ہمیں عذر دیجیے کہ فریب پر مبنی نعرہ دم توڑ رہا ہے۔ سیکڑوں برسوں سے دین و تعلیماتِ دین کے نگہبان مدارسِ دینیہ سے جدید تعلیمی اداروں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی و جامعہ ملیہ اسلامیہ بلکہ جے این یو تک مسلم طلبہ و طالبات اپنی خودیٔ مسلمانی پہچان رہے ہیں۔ بلا شبہ ہندوستان میں طاری گھٹا ٹوپ اندھیری رات میں یہ ایک واضح روشنی کا چراغ ہے۔

لیکن خودیٔ مسلمانی کو پہچان کر محض کمیونٹی رائٹس اور بھارت کے ’سیکولر‘ آئین میں پناہ کسی کو نہیں ملنے والی۔ پس ہندوستان کے حالات مسلمانوں سے تیاری کے متقاضی ہیں۔ وہ تیاری جس کا حکم اللّٰہ ربّ العزت نے ہمیں دیا ہے اور ہمیں ہمارے دشمنوں کی پہچان بھی کروائی ہے اور ساتھ ہی ہم جو کچھ اللّٰہ کی راہ میں لگائیں گے تو یہ ضمانت بھی دی ہے کہ وہ ضائع نہیں ہو گا بلکہ اللّٰہ اس کا پورا پورا بدلہ بلکہ اس سے بھی بہتر ہمیں عطا فرمائیں گے۔ آج سے چھ ماہ قبل ہم نے چند نقاط اس ضمن میں عرض کیے تھے، انہی کو دوبارہ یہاں درج کیے دیتے ہیں:

  • اللّٰہ سبحانہ ٗ و تعالی کی طرف بحیثیت مجموعی رجوع ہو ، اللّٰہ ہمارا خالق و مالک ہے ، وہی ہمارا معبود اور حاکم ہے، لہٰذا اللّٰہ کی عظمت کے مقابل کسی مخلوق کی عظمت ہم قبول نہ کریں۔اُس رب عظیم کے مقابل کسی عدالت ،کسی ریاست، عوام یا خواص کے کسی حکم وفیصلے کی تقدیس ہم نہ کریں۔وطنیت اور جمہوریت ،یہ سب عصر حاضر کے تراشیدہ بت ہیں ، ان سب کا انکار جبکہ صرف للہیت اور اسلامیت کا ہم اقرار کریں ۔

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تُو مصطفوی ہے

صرف اللّٰہ کے سامنے ہم جھکیں ،اللّٰہ کے احکامات کی پیروی کریں اور اللّٰہ کےاحکامات کےمقابل کسی کے اصول واحکامات کو ہم خاطر میں نہ لائیں ۔ یہی ’لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘ کا تقاضہ ہے ۔

  • دوسرا، ’لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘کی یہ دعوت ہم عام کریں ،اس کلمے کا معنیٰ و مفہوم ، فرائض اور تقاضے خود بھی ہم سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں ،یہ کلمہ تمام معبودوں اور بادشاہوں سے انکار جبکہ صرف ایک اللّٰہ کی عبادت اور اطاعت کا اعلان ہے ۔ یہ دعوت ہم اپنوں کے سامنے بھی رکھیں اور پرایوں کے سامنے بھی ۔ سب کو ہم سمجھائیں کہ ہماری دنیا و آخرت کی تمام تر بھلائیاں بس اس کلمہ کو ماننے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ہیں ۔ہمارے اخلاق و کردار ، معاشرت و معاملات ، دعوت و خدمت خلق ، ،دوستی ودشمنی کا ڈھنگ سب شریعت کے مطابق اور کلمۂ توحید کی عملی تصدیق کرنے والے ہوں ۔ اسلام و شریعت پر عمل اور اس کی دعوت کے سبب اگر مشاکل و محرومی کا سامنا ہو ، تو سامنا کیا جائےاور اگر اس کی خاطر سب کچھ کی قربانی بھی دینی پڑےاس سے دریغ نہ ہو۔ہماری دعوت وتحریک اور فکرو سعی شرعی اصولوں کے گرد ہو ، نہ کہ قومی و شخصی مفادات کے گرد ۔ہمیں یقین ہونا چاہیےکہ اس طرز ِفکر و عمل کا فائدہ اسلام کو بھی ہوگا اوربطورِ قو م ہم مسلمانوں کو بھی ، لیکن قومی فوائد کے نام پراگر احکام ِ الٰہی کی خلاف ورزی ہم کریں ، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہماری قوم کے لیے بھی کبھی کوئی برگ وبار نہیں لائے گی ۔

  • ہندوستان میں اصول ہمارا یہی رہے کہ جو ہمیں نہ چھیڑے ہم بھی اس کو کچھ نہ کہیں اور جو ہمیں چھیڑے تو پھر ہم اس کو نہ چھوڑیں اور اس کے لیے منظم تیاری اور صف بندی کی جائے۔ جو چھوٹا بڑا ہتھیار جمع کیا جا سکے کیا جائے۔ بندوقیں اور پستولیں مہیا نہ ہوں تو چھوٹے بڑے چاقو، زنجیریں، ہتھوڑے اور ڈنڈے تیار رکھے جائیں۔ خود بھی اور خاص کر اپنی خواتین کو ذاتی دفاع (self defence) کی تربیت دی جائے۔

  • دلوں میں شہادت کا جذبہ پیداکیا جائے، ظاہر ہے شہادت سے بڑھ کرکوئی سعادت نہیں اور اپنے دین وایمان ، اہل و عیال اور مسلمانوں کے دفاع میں جان دینا افضل شہادت ہے ۔

  • دنیا بھر میں الحمدللہ جگہ جگہ میادین ِ جہاد گرم ہیں ،یہاں غلبۂ دین اور مظلوموں کی نصرت کے لیے مجاہدینِ اسلام برسر پیکار ہیں، دفاعِ امت کے اس ہر اول دستے ، ان ابطالِ اسلام سے آپ لاتعلق مت رہیے ۔ضروری ہے کہ ان میدانوں میں آپ بھی شریک ہوں اور تحریک ِ جہاد کی نصرت و تائید میں آپ کا بھی بھرپور حصہ ہو۔آپ کا قریب ترین میدان ، جہادِ کشمیر ہے ،اس جہاد میں آپ جان ومال سے شریک ہوں۔ تحریکِ جہاد میں آپ کی یہ شمولیت اور کسی بھی سطح پر آپ کی شرکت ہندوستان بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کا ان شاءاللّٰہ سبب بنے گا ۔

آج بھارت میں ہندوؤں کا بچہ بچہ، چھوٹی لڑکیاں اور نوجوان عورتیں تک اسلحے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں، تلواریں لہرا رہی ہیں اور رام و کرشن کے باغیوں کو کاٹ دینے کی قسمیں کھا رہی ہیں، حتیٰ کہ ایک بین الاقوامی ادارے کی بنائی گئی دستاویزی فلم کے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ہندو لڑکی دیسی ساختہ بارود سے بم بنانے اور مسلمانوں کو اڑانے کی باتیں کر رہی ہے۔ اسی دستاویزی فلم میں سکول کی بچیوں کے ایسے مناظر ہیں جن میں چھوٹی بچیوں کو بندوق کے حصوں؍ پرزوں کی پہچان کروائی جا رہی ہے کہ یہ بندوق کی نالی (barrel) ہے، یہ لبلبی (trigger) ہے، یہ کُندہ ہے۔ اس رائفل کے کُندے کو یوں کندھے سے ٹکانا ہے، یوں نشانہ باندھنا ہے اور چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ گولی چلانی ہے جس سے مخالف قتل ہو جائے گا۔ سکول کی بچیوں کو رائفل کی تربیت دینے والی استانی پوچھتی ہے کہ کیا ساری زندگی سبزیاں ہی کاٹتی رہو گی؟ یہ بچیاں اس کے بعد اپنی مسلح قوت کا مظاہرہ بھارت کی شاہراہوں پر کرتی ہیں جس میں نعرے لگاتی ہیں کہ’کشمیر ہمیں پکار رہا ہے! بھارت ماتا ہمیں پکار رہی ہے، اپنی پیشانی پر خون کا سِندور لگاؤ اور دشمن کا استقبال گولیوں سے کرو اور اگر اس دیش میں رہنا ہو گا، وندے ماترم پڑھنا ہو گا!‘۔

جارحیت اور جنگ کی اس قدر تیاری کو چند سیاسی و سفارتی حکمتِ عملیوں سے پچھاڑنا دیوانے کا خواب ہے۔ ہمیں اپنے بیٹوں کو ۱۸۵۷ء سے پہلے کے شاہی خاندان کی ’شہزادیاں‘نہیں بنانا کہ جنہوں نے انگریز کے حملے کے بعد جب قدم زمین پر رکھے اور بھاگیں تو ان کے ملائم پیر پھٹ گئے اور خون بہنے لگا۔ آج بھارت میں بھگوا دہشت گرد مسلمانوں کی بیٹیوں کا رقص دیکھنے اور ان کی عزتیں پامال کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جانیں کہ کشمیر نے کس کو پکارا ہے؟ ماتھے پر سرخ پٹی باندھ کر ایمان اور عزتوں کے دشمن کو خون میں نہلانا کس کی سنت ہے؟ لا الٰہ الا اللّٰہ کے کلمے کو پوری دنیا میں غالب کر کے بطورِ شعار پڑھنا پڑھانا کس دین کی تعلیم ہے؟

آج ہم اہلِ ایمان کو ایک چومکھی لڑائی لڑنا ہے۔ ایک طرف ہندتواوادی (ہندو دہشت گرد)ہیں جن سے مسلح دفاع و ٹکراؤ درکار ہے تو دوسری طرف وطنیت اور سیکولرازم کا بت ہے جسے فکری محاذ پر شکست سے دوچار کرنا ہے۔ ہمیں جہادِ ہند اور غزوۂ ہند کے اہم تر دروازے ، ’کشمیر‘ کی تحریکِ جہاد میں پورا عسکری زور ہندو بنیے پر رکھنا ہے تو ساتھ ہی رہبروں کے روپ میں رہزنوں کی چالوں سے بھی با خبر رہنا ہے۔ صفوفِ مجاہدین ہی کے دائیں بائیں اٹھنے والے خوارج سے بھی ہمیں اپنا دامن بچانا ہے، وہ خوارج جنہوں نے عراق و شام کے پُر بہار جہاد کو خزاں میں بدلا، جنہوں نے یمن تا مالی جہادی صفوں میں نقب لگائی اور جن کے ہاتھوں امتِ مسلمہ کے عوام کی نہ عزتیں محفوظ ہیں نہ جانیں۔ ان داعشیوں نے امرائے جہاد کو نا حق قتل کیا، اپنی مخالفت کرنے والے اہل السنۃ والجماعۃ کے ہر عالم کی تکفیر کی اور دمشق تا کابل عالی قدر علمائے کرام کو چھریوں سے ذبح کیا۔ ایسے خوارج کا اولاً فکری محاذ پر اور خدا نخواستہ یہ خوارج جنگ کو عسکری میدان تک لے جائیں اور مجاہدینِ امت پر وار کرنے لگیں تو عسکری میدان میں ان کے خلاف اپنا دفاع بہر حال اولیٰ و لازمی ہے، لیکن ہماری دانست میں اولاً ان خوارج سے آگے بڑھ کر اقدامی جنگ چھیڑنا دین و عقل کی بات نہیں۔

غزوۂ ہند کے لیے ارضِ نصرت و اعداد پاکستان میں بھی وطنیت، جمہوریت کا سراب اور آئین کی بالادستی ہی کا نظریہ ہے جس نے اسلام کو اس ملک میں نافذ نہیں ہونے دیا۔ پاکستان میں نفاذِ اسلام کا پہلا مرحلہ نظامِ باطل کی پہچان اور بطلان ہے اور اس کے بعد جمہوری تماشوں اور غیر اسلامی آئین کی لگائی باڑ میں میں نہیں شریعتِ مطہرہ کی حدود میں نفاذِ اسلام کی مبارک محنت ہے۔ محض سٹریٹ پاور، دھرنوں، جلسوں اور جلوسوں سے اسلام غالب ہونے والا نہیں، چند بلدیاتی انتخابات اور اس میں اگر اہلِ خیر غالب آ جائیں تو ندی نالوں کی صورت اختیار کی ہوئی سڑکوں کی درستگی اور لوڈ شیڈنگ سے نجات ہمارا بنیادی مسئلہ نہیں۔ آئین کی حدود میں پر امن تحریکات کبھی سود مند نہیں ہو سکتیں اور اگر یہ مظاہرے اور دھرنے اور پھر بیلٹ کا زور کسی اسلامی پارٹی کو غالب کر بھی دے تو یہ نظام اسی اسلامی پارٹی سے ہر غیر اسلامی فعل کرواتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد اس نظام کے حقیقی پاسداران یعنی اسٹیبلشمنٹ ان اسلامی پارٹیوں کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے حال ہی میں، مصر میں اخوان المسلمون اور تیونس میں حزب النہضۃ کی ’ناکام‘مثالیں ہیں۔ اور اب تو دنیوی اعتبار سے بھی ’کامیاب‘ مثال ہمارے پڑوس میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی ہے۔ دراصل ہم خون کے بہنے بہانے سے ڈر جاتے ہیں اور پر امن راستوں کی طرف تکنے لگتے ہیں، حالانکہ شریعت کے بتائے ہوئے نظامِ اسلام کے نفاذ کے طریقے ’دعوت و جہاد فی سبیل اللّٰہ ‘ میں جمہوریت کے مقابلے میں شاید دس فیصد بھی خون نہیں بہتا۔ دنیا میں آنے والا ہر انقلاب خون بہا کر آیا ہے، سافٹ ریوولیوشن (soft revolution) کوہ قاف یا یوٹوپیا کے جھوٹے قصے کہانیاں ہیں۔پہلی اور دوسری جنگِ جہانی سے آج تک دنیا میں جتنا خون بہا ہے اس کا نوّے فیصد سے زائد نام نہاد جمہوریت ہی کی دیوی کے نام پر بہایا گیا ہے۔اور وہ ’امن‘ جو ہم چاہتے ہیں، تو اس امن کو تو ربِّ ذوالجلال نے اتباعِ شریعت سے جوڑ دیا ہے۔ ماہِ جولائی ۲۰۲۲ء کے اوائل میں افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کے تحت ہونے والے علمائے کرام و اکابرینِ ملت کے جلسے میں عالی قدر امیر المومنین، شیخ الحدیث والتفسیر مولوی ہبۃ اللّٰہ اخوندزادہ (نصرہُ اللّٰہ وحفظہٗ) نے کیسے جامع انداز میں ایک ہی جملے میں امن اور خوشحالی کو بیان فرمایا:

’’جس قدر شریعت کا اتباع ہو گا……اس قدر امن ہو گا……پھر اقتصاد بھی بہتر ہو گا اور ترقی بھی ہو گی!‘‘

اتباعِ شریعت کیا ہے؟ ذاتی زندگی میں ہوائے نفس کو چھوڑ دینا۔ دسترخوان سے بستر تک۔ تربیتِ اولاد سے بازاروں تک ۔ سبھی امور میں شریعت کے طریق کی پابندی۔ ہر طاغوت کا انکار، وہ طاغوت قومی ہو یا بین الاقوامی، لسانیت، وطنیت، قومیت کے بتوں کو توڑ کر عدل و انصاف کو قائم کرنا۔ جب یہ ہو گا تو امن بھی ہو گا! اور اگر ہم شریعت کے بتائے طریق کو ذاتی زندگی سے بھی بے دخل کر دیں گے اور اجتماعی کوششیں بھی بیلٹ اور دھرنوں کی ہوں گی تو نتیجہ وہی ہو گا جو پچھلے ستّر برس سے زائد سے ہم دیکھ رہے ہیں۔

پس ڈھاکہ سے کلکتہ تک اور میسور سے دہلی تک، سری نگر تا مظفرآباد اور اسلام آباد تا کراچی، ہر مسئلے کا حل اپنی باگ شریعت کے حوالے کردینے میں ہے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کا دفاع و انتقام اتباعِ شریعت میں ہے کہ مختلف مواقع پر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے گستاخ کو قتل کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اسی پر علمائے حق کا اجماع ہے۔

زیرِ نظر اداریے کی آخری سطور کے طور پر ہم غیرت مند امتِ مسلمہ کو سپہ سالارِ امت، شہیدِ اسلام، امامِ عزیمت، فخر العرب والعجم، شیخ اسامہ بن محمد بن لادن رحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے مزکیٔ و فقیہ عالمِ دین، جماعت قاعدۃ الجہاد جزیرۃ العرب کے ایک مرکزی قائد شیخ حارث بن غازی النظاری شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک قول سے، حالاتِ حاضرہ اور امتِ مسلمہ کو بالعموم اور مجاہدینِ امتِ مسلمہ اور ان کے انصار و اعوان کو بالخصوص درپیش مشکلات و آزمائشوں میں تسلی اور نصیحت پیش کرتے ہیں۔ جہاں یہ قول امت کے لیے بشارت ہے وہیں یہ قول امریکہ اور اس کے سرغنے جو بائیڈن سے لے کر بھگوا بھارت اور اس کے مودی تک کے لیے وعید ہے کہ وہ اسامہؒ اور اسامہؒ جیسوں کی شہادت پر خوشیاں نہ منائیں کہ ان شہادتوں کے سبب ان ظالموں کا یومِ حساب اس دنیا میں بھی قریب نہیں اقرب ہو گیا ہے!

شیخ حارث بن غازی ؒنے فرمایا:

’’اے امریکیو ! جان رکھو کہ ہمارے ہتھیار کبھی ہمارے ہاتھوں سے نہیں چھوٹیں گے اور اگر تم دیکھو کہ ہمارے ہتھیار ہمارے ہاتھوں سے چھوٹے ہیں تو اس کی ایک ہی صورت ہو گی اور وہ صورت یہ ہو گی کہ ہم شہید ہو جائیں گے۔ لیکن یاد رکھو! ہمارے ہتھیار تب بھی گریں گے نہیں، بلکہ ہمارے بیٹے ہمارے ہتھیار اٹھالیں گے اور تم سے جنگ جاری رکھیں گے!‘‘

اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 جہاد فی سبیل اللّٰہ کی فرضیت کوسمجھنے کے لیے مجددِ جہاد شیخ عبد اللّٰہ عزام رحمہ اللّٰہ کی معرکۃ الآراء تالیف ’ایمان کے بعد اہم ترین فرضِ عین‘ دیکھی جا سکتی ہے۔

2 نیو ورلڈ آرڈر: دنیا میں نافذ سرمایہ دارانہ نظام جو اکثر سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے اور کہیں کہیں سرمایہ دارانہ بادشاہت و آمریت، الغرض دنیا میں حالاً قائم عالمی نظام۔

Previous Post

وَالَّذِين جَاہَدُوا فِينَا لَنَہْدِيَنَّہُمْ سُبُلَنَا

Next Post

مئی تا جولائی 2022ء

Related Posts

سب سے پہلے امریکہ!
اداریہ

سب سے پہلے امریکہ!

23 ستمبر 2025
جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے
اداریہ

جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے

12 اگست 2025
اداریہ

اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے!

10 جولائی 2025
اپنا اپنا اسماعیل پیش کرو!
اداریہ

اپنا اپنا اسماعیل پیش کرو!

4 جون 2025
گر جرأ ت ہو تو سر ڈالو!
اداریہ

گر جرأ ت ہو تو سر ڈالو!

23 مئی 2025
راہ روی کا سب کو دعویٰ، سب کو غرورِ عشق و وفا
اداریہ

راہ روی کا سب کو دعویٰ، سب کو غرورِ عشق و وفا

31 مارچ 2025
Next Post
مئی تا جولائی 2022ء

مئی تا جولائی 2022ء

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version