۱۹۶۲: فوجی انقلاب
۱۹۶۲ میں جنرل نے وِن (Ne Win) کمزور مرکزی حکومت اور مضبوط نسلی حکومتوں کو دیکھتے ہوئے فوجی انقلاب لے آیا اور ون پارٹی سوشلسٹ حکومت قائم کی۔ فوجی انقلاب سے پہلے تک تحریک مجاہدین کافی فعال تھی۔ جنرل نے ون جنگ عظیم دوم میں جاپانیوں کے لیے لڑا تھا اس لیے اقتدار میں آنے کے بعد اس نے حسب سابق روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن کیے جو کہ مزید دو دہائیوں تک جاری رہے۔ اس طرح ۱۹۶۰ کی دہائی میں ہی اس تحریک کی فعالیت کم ہوتی رہی اور بہت سے مجاہدین فوج کے سامنے تسلیم ہو گئے۔ اگرچہ تحریک مجاہدین کا زور ٹوٹ گیا لیکن روہنگیا مجاہدین اراکان کے دور دراز علاقوں میں فعال رہے۔
۱۹۷۲: RLP
سابقہ مجاہد لیڈر ظفر کوال نے مختلف مجاہدین گروہوں کو تحریض دلا کر روہنگیا لبریشن پارٹی (آر ایل پی)بنائی جو کہ ایک مسلح بغاوت کی تحریک تھی۔ ظفر خود اس تحریک کے چیئرمین تھے جبکہ انہوں نے عبد اللطیف کو وائس چیرمین اور عسکری امور کے ذمہ دار اور محمد جعفر حبیب کو جو کہ رنگون یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ ان کی تعداد دو سو (۲۰۰)جنگجوؤں سے بڑھ کر ۱۹۷۴ میں ڈھائی ہزار جنگجوؤں تک پہنچ گئی۔ ان کی اکثریت بوتھی ڈانگ Buthidaung کے جنگلات میں رہتی تھی۔ لیکن جولائی ۱۹۷۴ میں برمی فوج کی طرف سے وسیع آپریشن کے نتیجے میں ظفر اور اس کے اکثر ساتھی سرحد پار بنگلہ دیش چلے گئے۔
۱۹۷۴: RPF
۱۹۷۴ کی شکست کے بعد محمد جعفر حبیب نے روہنگیا پیٹریاٹک فرنٹ (آر پی ایف)تشکیل دیا۔ محمد جعفر حبیب کے ساتھ ۷۰ جنگجو تھے اور انہوں نے رنگون کے ایک تعلیم یافتہ وکیل نور الاسلام کو اپنا وائس چیرمین اور ڈاکٹر محمد یونس کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔
۱۹۷۸: پہلی جلا وطنی
۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے بعد بہت سے روہنگیا دوبارہ اراکان میں داخل ہوئے1 جس کے خلاف راکھینی راہبوں اور عام بُدھوں نے اراکان کے دار الحکومت سایٹوے میں بھوک ہڑتال کی اور اس دوران برمی حکومت روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن کرتی رہی۔ بالآخر جنرل نے وِن نے ۱۹۷۸ میں روہنگیا کے خلاف کنگ ڈریگن کے نام سے سب سے بڑا فوجی آپریشن کیا اور تقریبا ۲ لاکھ روہنگیا کو بنگلہ دیش دکھیل دیا اور اسی عرصے میں بہت سے روہنگیا کراچی بھی منتقل ہوئے2۔ بنگلہ دیشی حکومت نے اس آپریشن کے خلاف برمی حکومت سے احتجاج کیا چنانچہ مذاکرات اور اقوام متحدہ کی مداخلت کے بعد جنرل نے ون کی حکومت ۲ لاکھ روہنگیا کو کو دوبارہ اراکان میں بسانے پر راضی ہو گئی3۔ اور برما اور بنگلہ دیش نے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ روہنگیا برما کے قانونی شہری ہیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں روہنگیا پیٹریاٹک فرنٹ میں بھی کمزوری آئی اور ۱۹۸۰ کی دہائی کے اواخر میں اس کی سرگرمی ختم ہو گئی۔
۱۹۸۲: شہریت کا قانون
۱۹۸۲ میں فوجی حکومت نے برمی شہریت کا قانون جاری کیا جس میں روہنگیا مسلمانوں کی شہریت یہ کہتے ہوئے ختم کر دی گئی کہ یہ بنگالی ہیں نہ کہ اس ملک کے اصل باشندے ۔ اس طرح روہنگیا مسلمانوں کو (بغیر کسی ریاست) stateless کے چھوڑ دیا۔ حالانکہ روہنگیا کے علاوہ برما میں ۱۳۰ دیگر نسلی اقلیتوں کو رسمی قرار دیا گیا ہے۔ قانونی طور پہ برمی حکومت نے یہ شق نکالی کہ جو افراد یہ ثابت نہ کر سکیں کہ ان کے آبا ء وا جداد ۱۸۲۳ یعنی کہ برما پر برطانوی قبضے سے پہلے برما کے مکین تھے وہ بنگالی مہاجر ہیں۔ آنے والی حکومتوں نے جنگ عظیم دوم اور ۱۹۶۲ کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں نکالے جانے والے روہنگیا کو واپس آنے سے روکنے کے لیے سرحد کو مزید سخت کر دیا اور بارڈر گارڈ فورس تشکیل دی۔
۱۹۸۲: RSO
برمی فوج کی طرف سے ۱۹۸۲ میں دوبارہ ایک بڑے پیمانے کے ملٹری آپریشن کے نتیجے میں روہنگیا پیٹریاٹک فرنٹ کے اصول پرست عناصر نے ایک نئی عسکری تنظیم آر ایس او Rohingya Solidarity Organisation کے نام سے بنائی۔
۱۹۸۶ ARIF
۱۹۸۶ میں ایک اور تنظیم Arakan Rohingya Islamic Front یا ARIF کے نام سے بنی جو کہ اراکان کے شمال میں فعال رہی۔ اس کی بنیاد نور الاسلام نے رکھی کی جو کہ پہلے روہنگیا پیٹریاٹک فرنٹ کا وائس چیرمن تھا۔ اس تنظیم کو روہنگیا پیٹریاٹک فرنٹ کے باقی ماندہ اراکان اور آر ایس او سے چند نکلے ہوئے اراکان نے ملا کر بنایا۔
۱۹۹۰: عسکری وسیاسی تحریک
۱۹۸۸ میں جمہوریت کی خاطر مظاہرے ہوئے جنہیں کچل دیا گیا اور مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ ۱۹۹۰ میں پہلی دفعہ انتخابات ہوئے۔ اور آنگ سان کی بیٹی سو چی کی پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی۔ لیکن فوج نے حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری طرف ۱۹۹۰ کے آغاز میں آر ایس او کا مرکز بنگلہ دیش کے جنوبی ضلع کاکس Cox بازار میں واقع تھا اور ان کے پاس ہلکے اور بھاری اسلحے کی معتد بہ تعداد تھی۔ ۱۹۹۰ میں برمی فوج کے خلاف بڑا لڑنے والا گروپ یہی تھا اور بنیادی طور پہ یہ گروپ جنگجو ہی تھا۔ آر ایس او کی عسکری قوت کے پیش نظر برمی حکومت نے بڑے پیمانے پر ان کے خلاف آپریشن شروع کیا۔
لیکن اس عسکری تحریک کے ساتھ ساتھ ۱۹۹۰ کی دہائی سے ایک نئی سیاسی روہنگیا تحریک بھی شروع ہوئی ۔ یہ تحریک بین الاقوامی سطح پر لابی کرتی ہے اور شواہد پیش کرتی ہے کہ روہنگیا اراکان کے اصل باشندے ہیں نہ کہ بنگالی نسل کے۔ اور اراکان ایک زمانے میں مسلم ریاست رہی ہے۔ البتہ اراکان کی ایک اور مسلم (کمان) قوم کا یہ موقف ہے کہ شمالی اراکان کے روہنگیا مسلمان برما کے شہری ہیں لیکن وہ خود مختار اسلامی ریاست قائم کرنے کے مخالف ہیں۔ جبکہ غیر مسلم اراکانی روہنگیا کے وجود کے مخالف ہیں۔
۱۹۹۲: دوسری جلا وطنی
اراکان میں بڑھتی ہوئی عسکریت کے نتیجے میں روہنگیا کے خلاف مسلسل آپریشن جاری رہے۔ دسمبر ۱۹۹۱ میں برمی فوج روہنگیا مسلمانوں کو دکھیلتے ہوئے سرحد پار کر کے (کہنے کو غلطی سے) بنگلہ دیشی فوج کی پوسٹ پر بھی حملہ کیا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھ گیا۔اور رفتہ رفتہ اپریل ۱۹۹۲ تک ڈھائی لاکھ روہنگیا عوام کو زبردستی علاقے سے نکال دیا گیا۔
۱۹۹۴: بم دھماکے
۱۹۹۴ میں آر ایس او کے ایک سو بیس ( ۱۲۰) جوان بنگلہ دیش اور برما کے درمیان سرحدی دریائے ناف Naf کو پار کرتے ہوئے اراکان کے مرکزی شہر (مونگ ڈاؤ ) میں داخل ہوئے اور شہر کے مختلف علاقوں میں بارہ ( ۱۲) بم دھماکے کیے جس کے نتیجے میں حکومت کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن یہ ایک مختلف قسم کی کارروائی تھی۔
۱۹۹۸: ARNO
۱۹۹۸ میں RSO ،ARIF کے ساتھ ضم ہو گئی اور اراکان روہنگیا قومی تنظیم Arakan Rohingya National Organisation ARNO تشکیل دی۔ اور کاکس بازار سے ہی فعالیت جاری رکھی۔ جبکہ آر ایس او کا مسلح شعبے نئے نام روہنگیا نیشنل آرمی Rohingya National Army سے سامنے آیا۔ اور ایسے یہ ARNO تنظیم عسکری طور پہ غیر فعال ہو گئی۔ اور بعد میں لندن سے چلنے والی جمہوری سیاسی تنظیم بن گئی جو کہ روہنگیا نسل کی نمائندگی کرنے والی چند تنظیموں میں سے ایک ہے۔ جبکہ Rohingya National Army پہ بنگلہ دیش کے جنوب سے کام کرتی رہی۔ یہ گروپ ۲۰۰۰ تک فعال رہا۔ جس کا آخری حملہ مئی ۲۰۰۱ میں تھا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 مجھے مطالعہ کے دوران کہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ ۱۹۷۱ کی جنگ کے بعد کیوں روہنگیا بنگلہ دیش سے اراکان میں داخل ہوئے لیکن جیسا کہ تاریخ میں پاکستان کے حامی بہاریوں کا ملتا ہے کہ ان کے خلاف ۱۹۷۱ کے بعد بنگالی قوم پرستوں نے نشانہ بنایا اس لیے قرین قیاس ہے کہ روہنگیا بھی پاکستان کے حامی رہے ہوں اس لیے انہیں بنگالی قوم پرست اور حکومت کی طرف سے نشانہ بننے کا ڈر ہو اس لیے وہ بڑی تعداد میں واپس اراکان میں داخل ہوگئے۔
2 روہنگیا کا پاکستان منتقل ہونے کی یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ یہ بہاریوں کی طرح ۱۹۷۱ میں پاکستان کے حامی تھے اور بنگلہ دیش حکومت انہیں برضا و رغبت نہیں پناہ دینا چاہتی تھی۔
3 مطالعہ سے معلوم نہ ہو سکا کہ آیا برمی حکومت نے اپنے اس وعدے پر عمل کیا یا نہیں لیکن ان کے عمومی رویہ سے قرین قیاس یہی ہے کہ نہیں کیا ہو گا۔