ماما کور تہ به کلہ رازې؟
ماموں گھر کب آؤ گے؟……راہِ ہجرت و جہاد کی مشقتوں میں ایک مجاہد کی خود کلامی
جہاد جس کی قبولیت رب کے ہاتھ میں ہے، مگر انسان کا معاملہ رب کے ساتھ کبھی کبھی ’’وکھر ا ‘‘ہوجاتا ہے، راہ جہاد میں کبھی ایسا غم نصیب ہوتا ہے بندہ چاہتا ہے کہ غم کی یہ فصیل میرے اور میرے رب کے درمیان ہی رہے ،شاید کل اسی کے باعث بخشش کا ساماں ہوجائے ۔
چھوٹی بھانجی،ننھی جان اپنی توتلی زبان میں پوچھتی ہے :
’’ماموں گھر کب آؤگے ، ماں جو گھر کی جنت ہوا کرتی ہے، اس جنت کا حُسن ماموں کی ذات سے وابستہ ہوتاہے،شاید اس وجہ سے لوگ چاند کو چندا ماموں سے تشبیہ دیتے ہیں، کون کیا جانے!کب اس کانام چندا ماموں پڑا،شاید اس لیے اس کے گرد نور کا ہالہ ہوتا ہے، جو اپنے گرد ایک اپنی ہی کہکشاں رکھتا ہے ،یہ چاند بھی کتنا خوش نصیب ہے ،جو اپنےگرد تاروں کے جُھرمٹ کی دنیاآبادرکھتا ہے مگرمیری اس سے کیا نسبت ۔ اپنی کہانی عجیب سی ہے ،بچپن سے چندا ماموں کا نام سنا، مگر ماموں غائب معلوم نہیں وہ کہاں ہوتے ہیں ،جب بھی چندا ماموں(چاند) کو آسمان پر اپنے تاروں کے گرد چمکتے پایا، اس میں اپنے ماموں کا عکس پایا،سوچتی ہوں ،ماموں بھی اس طرح گردش ایام میں رہتے ہوں گے،مگر چاند کی گردش تو پلٹ کر واپس آجاتی ہے ،سب سے بڑھ کر چاند کی نور بھری کرنیں اس کے گرد تاروں کا جھرمٹ ،اس کی مٹھاس اور اس کے گرد نور کا ہالہ ،سوچتی ہوں ماموں بھی ایسے ہی ہوں گے، لیکن جب وہ اتنے اچھے تھے، تو دور کیوں چلے گئے ،خیال آیا کوئی ناراضگی ہوگی ،پَر چاند بھی اماوس کی رات کو چھپ جاتا ہے لیکن اپنی پاکیزگی اور نور بھری کرنوں کی وجہ سے لوٹ آتا ہے، اسکی وجہ سے ظلمت کی سیاہی چھٹ جاتی ہے،اس کو کوئی غم نہیں، نہ اپنی روشنی کے ماند پڑنے کا، اور نہ ہی ظلمت کے چھاجانے کا ،کیونکہ کام ہی اس کا نور بکھیرنا ہے ،ہاں تذکرہ چل رہا تھا ماموں کی ذات کا،جب نانی اماں، اپنی اماں ان کا اتنے محبت سے تذکرہ کرتی ہیں ،تو کیوں وہ اتنے دور چلے گئے ،سنا ہے جو چاند پہ جاتا ہے وہ بھی لوٹ آتا ہے مگر ماموں ایسے گئے پلٹے نہیں ،،جب ملیں گے غصہ کروں گی ، ناراض ہوجاؤں گی ، محبت کرتے ہیں نا مجھ سے ، اپنے حصے کے کچھ کھلونے دے کر راضی کرلوں گی، مان لیں گے اتنی ناراضگی اچھی نہیں ہوتی ، سنا ہے ماموں کی ذات نور کی برسات ہواکرتی ہے ،ان کا پیار سارے دُکھوں کا مداوا ہوا کرتا ہے ،عید کی رات ہو یا خوشیوں کی برسات ،ماموں غائب ،مگر ماموں کہتے ہیں سارے میرے گرد خوشبو کی مانند بستے ہیں ،اماں، بابا، بھیا ،خالہ جان سب سے بڑھ کے ننھی جان ، مگر ذہن میں یہ سوال کلبلاتا ہے وہ آتے کیوں نہیں ،آخر کیوں انہوں نے ایسی راہ چن لی جہاں سے پلٹنا ہی نہیں ؟کیا ’’تُک‘‘ تھی ایسی کانٹوں بھری راہ کے انتخاب کی،بھلا کوئی جانتے بوجھتے بھی اپنی راہوں میں کانٹے بچھاتا ہے،سوچتی ہوں زندگی بھی تو ان تکلفات سےقائم ہے،کھانا پینا، تھک ہار کے سوجانا،کون خیال رکھتا ہوگا ،دُھول سے اَٹےبال ،کون سنوارتاہوگا،،ایسے ہی سب کو چھوڑ کے چلے گئے کسی انجانے دیس،کسی انجانی بستی میں، ہاں یاد آیا شاید کسی دلربا کی آنکھوں کے سیاہ ڈورے نہ ان کو بھاگئے ہوں بھلا ماموں کو کون سمجھائے اجنبی دیس کی اجنبی پریوں کے پیچھے بھی بھاگا جاتا ہے؟وقت بھی بھلا کب رُکتا ہے چاند بھی نکلتا ہے اور اپنی نور کی کرنیں بکھیرتا رہتا ہےزندگی کے کسی موڑ پہ کسی انجانی راہوں میں مل ہی جائیں گے ،کہہ دوں گی بس کرو اتنی مسافتیں طے کرنےکا کیا حاصل ؟‘‘
چلتے چلتے تھک کر پوچھا پاؤں کے زخمی چھالوں نے
بستی کتنی دور بسا لی دل کے بسنے والوں نے
ننھی جان کیا جانے،آخر ننھی ہی ہےنا،مشاغل کیا ہیں کھاناپینا ،کھیلناکودنا،تھک ہار کےسوجانا، کتنا معصوم ہے یہ بچپن، جنکی کلکاریوں سے گھر کا صحن آباد ہے،اللہ ان کلیوں کو سدا کھلکھلاتا رکھے ، ماموں کے انتظار میں تڑپتی یہ ننھی جان کو کیا معلوم کہ جانے والے ہجرت کی راہوں پہ کیوں نکل جاتے ہیں ۔
ننھی جان کیا جانے،مسلم سرزمینوں پہ آئے کافر اپنے ساتھ گندی تہذیب لائے ہیں ،نئی تہذیب اورخوشخالی کےخوش نما رنگ کی آڑ میں بدنما جال ساتھ لائے ہیں ،اپنے ساتھ اک ایسی آگ لائے ہیں ،جس کی حدت سے میری اُمت کے یہ معصوم جل جائیں گے ،میرے پاکیزہ چمن کے یہ معصوم فطرت غنچے آن ہی آن میں اجڑجائیں گے ،ان کی معصومیت کسی دن مادیت کے سیلاب میں بہہ جائے گی ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کا فتنہ ان کے ایمان ہی کو نہ نگل جائے ،پل پل کی خبر کی جستجو میرے اسلاف کی حسیں اور درخشاں تاریخ سے ہی نہ رشتہ کاٹ دے ،یہ بھیڑیے اپنے نوکیلے دانتوں زہریلے لبوں میں میری ننھی جیسی کئی گڑیوں کی بربادی کاسامان لائے ہیں۔ ہاں مگر !!!ان کو خطرہ ہے ، ان ہاتھوں سے جو ننھی پر جھپٹنے سے پہلے ان کی آنکھیں پھوڑنے کے لیے مورچہ زن ہوچکے ہیں ،ان کی للچائی زبانیں ان مورچوں میں اپنی بربادی کا سامان دیکھتی ہیں، ان کو معلوم ہے جو مشروب ہم نے ان کے لیے تیار کیا کہیں اس کا زہریلا گھونٹ ہمیں نہ چکھنا پڑجائے، جس کی تلخی سے یہ بخوبی آگاہ ہیں ، ماموں کی ذات تو نور کی برسات ہوتی ہے۔ شمع تو تبھی جلتی ہے، اس کانور بھی تبھی لوگوں کو روشنی عطا کرتا ہے جب شمع جل جل کر خاکستر ہونا شروع ہوجاتی ہے ،پروانے کا کیا کام روشنی سے ؟؟روشنی تو بہانہ ہے ،اصل تو اس کا کام جل کرفنا ہوجانا ہے ،نئی تاریخ رقم کرنی ہے فنا ہوجانے کی ،شمع کو بھی جلتے رہنا ہے تاکہ گھروندوں کو روشنی میسر آتی رہے، چاہے اس کے لہو کو آنسوؤں کی صورت میں ہی کیوں نہ بہنا پڑے ،ماموں کے انتظار میں تڑپتی یہ ننھی جان کیا جانے ، ان بھول بھلیوں کو یہ کیا جانے، کیا جانے والوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا !کاش کوئی اپنے ہوں جن کی خاطر جیا جائے،سفر پہ گھومتے ان پردیسیوں کی خواہش کو کون جانے ،کون نہیں چاہتا کہ آخری دیدار ہی اپنے کرلیں، اپنے دیار، کوچۂ یار میں دوگز زمین کا ٹکڑا کون نہیں مانگتا مگر ؟؟؟کوچۂ یار میں یہ بھی سعادت ہے جسم ایسا کٹے کچھ نہ ملے !
میرے رفیق سفر اس مقام پر تھم جا
حساب الفت محبوب کچھ چکا کے چلیں
ادھر ادھر کئی لاشیں پڑی ہیں بکھری ہوئی
ہم ان کو چوم کے ان کو گلے لگا کے چلیں
یہ خاک جس نے پیا ہے لہو جیالوں کا
ہم اپنا خوں بھی کچھ اس خاک میں ملا کے چلیں
اس لیے جب تک ماؤں کے راج دلارے بہنوں کے بھائی پیارے گھروں سے نکل کر اک نئی تاریخ رقم کرتے رہیں گے، دشتوں صحراؤں میں تکبیر کے زمزمے گونجتے رہیں گے ، جب تلک ننھی کی یادیں دل میں بسائے ان کے چندا ماموں ان بھیڑیوں کے تعاقب میں رہیں گے، تب تلک میری امت کے یہ حسیں معصوم غنچے بھی کھلکھلاتے رہیں گے۔ میرے پاکیزہ گلشن کے یہ مکیں سدا سلامت رہیں تاقیامت رہیں ،آمین!
٭٭٭٭٭