نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اداریہ

جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے

مدیر by مدیر
12 اگست 2025
in اداریہ, اگست 2025
0

ایک عظیم بے حسی، ایک عظیم فراموشی اور ایک عظیم خیانت کا مظاہرہ ہم صبح و شام دیکھ رہے ہیں۔ نجانے کیا کیا باتیں ہیں جو دل میں آتی ہیں، لیکن زبان و قلم ان کو بیان کرنے کا یارا نہیں رکھتے۔ شیخ محمود حسنات کی بات یاد آتی ہے جو خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور یہ کہہ کر منبر سے اتر گئے کہ ’جس امت کو غزہ کے لوگوں کا قتلِ عام اور ان کی لاشیں بیدار نہیں کر سکیں ان پر میرے بیان و خطبے کا کیا اثر ہو گا؟‘ ۱۸ جولائی کی مجاہد قائد ابو عبیدہ کی خونچکاں پکار ذہن میں گردش کرتی ہے کہ ایک عالی شان امت ایسی حالت سے دو چار ہے کہ وہ غزہ میں بستے اپنے ہی لوگوں کو دوا، پینے کا پانی اور خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ ابو عبیدہ نے اس امت، اس امت کے عوام و اشرافیہ کو، اس امت کے علماء و حکام کو، اس امت کے فوجیوں اور مجاہد ہونے کے دعوے داروں کو، اس امت کے شاعروں، ادیبوں، صحافیوں کو، اس امت کے اہلِ خیر و مال دار افراد ، کاروباری شخصیات کو مخاطب کیا، لیکن ہائے افسوس کے سناٹا طویل سے طویل تر اور گہرے سے گہرا ہی ہوتا گیا۔

ہم میں سے کچھ لوگ اپنے دل کو یہ جھوٹی تسلیاں دیتے رہےکہ ہماری زندگی کے کچھ شغل ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچا لیں گے۔ لیکن غزہ کا ہر ہر فرد اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ جس محمد ؐرسول اللّٰہ کا کلمہ تم پڑھتے ہو، اب بروزِ قیامت ہم تم کو اسی محمدؐ رسول اللّٰہ کے سامنے گھسیٹیں گے، تم پر فردِ جرم ہم یہاں عائد کرتے ہیں اور روزِ قیامت تمہارے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر، ساقیٔ کوثر (علیٰ صاحبہ ألف صلاۃ وسلام) کے سامنے تم کو رسوا کریں گے۔

یہ سطور لکھتے ہوئے ہم نے کئی کئی بار سوچا کہ ہمارے قلم سے کوئی زیادہ سخت بات نہ نکل جائے۔ لیکن غزہ کے بچوں کی حالت، غزہ کی عورتوں کی حالت، وہاں کے بوڑھوں اور بے یار و مدد گار مردوں کی حالت دیکھ کر، یقین جانیے، یہ سخت الفاظ نرم ہی لگتے ہیں۔

ایک با شرف، پردہ دار قوم کی بیٹیاں جب بھیک مانگنے والیاں ہو جائیں، ان کی عزتیں لٹ جائیں، سہاگ اجڑ جائیں۔ نازوں میں پلنے والے بچے جب بھکاری بن کراس حالت کو پہنچ جائیں کہ وہ امداد پہنچانے والے غیر مسلموں کے ہاتھوں کو چوم کر شکریہ ادا کرنے والے ہوں۔ بھوک و پیاس سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے بزرگ قطاروں میں کھڑے ہو کر جب غش کھا کر زمین پر گریں اور وہیں مر رہیں۔ لیکن ہم اپنے آرام کمروں میں ہوں، زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ، روشنیوں اور شہنائیوں کے ساتھ رواں ہو، تو اہلِ غزہ کیا اس بہترین امت کو بد ترین امت قرار نہیں دیں گے؟

ہم نے سقوطِ غرناطہ کی تاریخ جب پڑھی، تو اس کے حکمرانوں کی لعنت و ملامت پر مبنی تاریخ کے ساتھ کئی کئی بار یہ بھی سوچا کہ اس وقت کے دیگر لوگ کیسے لوگ تھے، جنہوں نے اس سب بیتنے والے معاملے کو برداشت کر لیا تھا، کہنے کو تو تاریخ کے چند کردار شکست خوردہ یا فاتح ٹھہرتے ہیں۔ کہنے کو ایک ابو عبد اللّٰہ برا تھا، اور کہنے کو ایک صلاح الدین اچھا ہوا کرتا ہے، لیکن سنجیدہ مطالعہ بتاتا ہے کہ ابو عبد اللّٰہ اور صلاح الدین ایک ٹھاٹھیں مارتی قوم کے ضمیر کے عکاس ہوا کرتے ہیں۔ جہاں ضمیر مردہ اور ان کے دل غیرت و جہاد سے عاری ہوتے ہیں، تو ایسی قوم کے نمائندے ابو عبد اللّٰہ اور جس قوم کا ضمیر بیدار، دل غیرت و جہاد سے معمور و مزین ہو تو اس قوم کو صلاح الدین جیسے پادشاہ ملا کرتے ہیں۔ لازمی نہیں ہوتا کہ ہر با ضمیر و غیرت مند و مجاہد معاشرہ اور اس کے پادشاہ ہمیشہ کامیاب ہوں، وہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان بھی ہوتے ہیں، موت کو گلے لگاتے ہیں اور تاریخ میں ہارے ہوئے ’فاتحین‘ قرار پاتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ غزہ نے کل فتح یاب ہو جانا ہے، اللّٰہ کا کلمہ سر بلند ہونا ہے، لیکن جو نسل یہ کام کرے گی وہ نسل کل، ہمیں آج کی نسل کو ،لعنت ملامت کرے گی اور کہے گی کہ دو ارب کی امت تھی، یہاں علم و فن والے بھی تھے، مال و جلال والے بھی تھے، لیکن ہائے کیسے برے تھے ہمارے اسلاف کہ امت ان کے سامنے کٹتی رہی، لیکن یہ اپنے آرام کدوں میں محوِ عیش رہے۔ ہائے افسوس!

دل میں اگر کوئی غیرت کی چنگاری فروزاں ہو گئی ہو، تو آئیے چند اجمالی نکتوں میں اپنا فرض سمجھتے ہیں:

  • جہاد فی سبیل اللّٰہ، اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے، مظلومین کی حمایت کے لیے، اپنی سرزمینوں خصوصاً حرمِ اقصیٰ کو چھڑانے کے لیے، دامے، درمے، قدمے، سخنے اپنے گھرو ں سے آمادۂ جنگ ہو کر نکل آنا فرضِ عین ہے۔ امت کا کوئی شخص اس فرضِ عین سے بری نہیں ہے، سوائے اس شخص کے کہ جسے اللّٰہ کی شریعت نے معذور قرار دیا ہو۔ یاد رکھیے جہاد کے لیے گھروں سے نکلنے نہ نکلنے کی بحث صحابۂ کرام اور سلفِ امت علیہم الرضوان کے یہاں تھی ہی نہیں۔ جس امت کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی جہاد سے عبارت ہو، جو امت اس نبیؐ کے عشق کا دم بھرتی ہو جو پیرانہ سالی میں اور ریش مبارک میں اتری چاندی کے ساتھ بھی اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہوتے ہوں ، جو دو دو زرہیں پہن کر، لوہے کی ٹوپیاں سر پر رکھ کر، بتار و ذو الفقار و مہند کو ہاتھ میں تھامتے ہوں، اس نبی ؐ کے امتیوں کو جہاد کی فرضیت کے لیے فقہائے کرام کے فتاویٰ اور فقہ کی کتابوں سے عبارتیں دکھا کر قائل کرنا بڑی ہی عجیب بات ہے۔جان لیجیے یہ جہادی امت ہے، اس امت میں اگر کوئی جہاد نہیں کرتا تو وہ کیا ہے؟

’’فمن لم يجاهد فهو إما قاعد، أو منافق، أو خاذل، أو معذور، فما ثم غير.‘‘

’’پس کون ہے جو جہاد نہیں کرتا، تو جان لیجیے یا تو وہ پیچھے بیٹھ رہنے والا ہے، یا منافق ہے، یا بے توفیقا ہے یا وہ معذور شخص ہے جس کا مقبول عذر اللّٰہ کی شریعت میں بیان کیا گیا ہے ، پس اس کے علاوہ جہاد نہ کرنے والے کی اور کوئی قسم نہیں ہے!‘‘

پس کل نہیں آج نکلیے، تاریخی کارنامے رقم کرنے کے لیے نہیں، اس بلا کو اپنے سر سے ٹالنے کے لیے، جو اہلِ غزہ کی بد دعاؤں اور سسکیوں اور آہوں کے سبب عنقریب ہم پر مانندِ صاعقہ گرنے والی ہے۔

  • مغربی ممالک میں بستے اہلِ ایمان کے پاس بس دو میں سے ایک راستہ ہے۔ ہجرت یا جہاد۔ یا تو وہ اہلِ ایمان کی سرزمینوں کی طرف ہجرت کر جائیں (اور وہاں اعمالِ جہاد میں شریک ہو رہیں) یا مغربی ممالک میں رہتے ہوئے، اپنی گاڑیوں، اپنے ٹرکوں، اپنی چھریوں، گھر میں استعمال ہونے والے گیس سلنڈروں وغیرہ کو اسلحہ بنا کر صہیونی دشمنوں پر حملہ آور ہو جائیں۔1ان جہادی عملیات کو عملی شکل دینے کے لیے تنظیم قاعدۃ الجہاد فی جزیرۃ العرب کے نشر کردہ مجلّے ’انسپائر؍Inspire‘ کا مطالعہ نہایت مفید و معاون رہے گا۔ اس کے سوا اَب کوئی صورت ان کافر ممالک میں رہنے کی نہیں بچی۔2جیسا کہ شیخ انور العولقی شہید اپنے فتاویٰ میں واضح کر چکے ہیں۔
  • مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں بستے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نئے نئے جنگی طریقوں سے صہیونیوں کو نشانہ بنائیں، ان کے اقتصادی مراکز، سیاسی مراکز ، سفارت خانوں اور عسکری مراکز کو ہر ممکن طریقے سے ہدف بنائیں۔ صہیونیوں کے سرغنوں کے خلاف ہدفی کارروائیاں (target killing)کریں، خصوصاً جب امریکی سرزمین میں اسلحہ حاصل کرنا ایک نہایت آسان کام ہے، تو آپ کس کے منتظر ہیں؟ اگر ایک عام امریکی، ٹرمپ کو اپنی بندوق سے نشانہ بنا سکتا ہے تو آپ تو اس بندوق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کی بصیرت و فراست سے بھی بہرہ ور ہیں۔ اگر ایک عام عیسائی اسرائیلی سفارتی عملے کے لوگوں کو قتل کر سکتا ہے تو کیا ہے جو آپ کو روکے ہوئے ہے؟
  • ہر مردِ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مراکزِ جہاد سے اپنے آپ کو جوڑے، جو ہجرت کر سکے تو وہ میادینِ جہاد کی جانب لپکے، عسکری تربیت حاصل کرے، بارود کا فن سیکھے، اپنی فنی صلاحیتوں خاص کر عسکری مہارتوں، سائبر ہیکنگ، ہوا بازی وغیرہ میں مہارت حاصل کر کے امرائے جہاد کے سامنے اپنے آپ کو صہیونی دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے پیش کرے۔عالمی جہاد کے عالمی محاذ کسی ملک اور کسی برِّ اعظم میں محدود نہیں۔
  • عالمی صہیونی دشمن کے بعد اس صہیونی دشمن کے محافظ، مقامی غلاموں کے خلاف بغاوت و جہاد کی تحریکیں برپا کی جائیں۔ مقامی طواغیت کو تخت سے تختۂ دار پر چڑھایا جائے۔ ایک ایسے اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کی جائے کہ جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک میں ایسی صالح اور با تدبیر اسلامی حکومتیں قائم ہو سکیں، جو شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) نافذ کرنے والی، خفیہ و اعلانیہ طور پر صہیونیوں پر ضرب لگانے والی اور مجاہدین و فدائینِ اسلام کی پشت پناہ ہوں۔ یہ جنگ چند دن کی جنگ نہیں، یہ تو ایک طویل جنگ ہے اور میدانی سٹریٹیجی ایمان و غیرت کے ساتھ اس جنگ کا سب سے پہلا تقاضا ہے۔
  • علمائے امت، صوفیائے کرام اور داعیانِ دین، صحافیوں، شاعروں اور ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ قرآنی حکم ’وحرض المؤمنین‘ کی عملی تجسیم بن جائیں۔ مسجدوں کے میناروں اور منبروں سے ذات و اجتماع میں نفاذِ شریعت کی صدا بلند کریں۔ فرائضِ دینیہ، اخلاقِ حسنہ اور جہاد بالطواغیت کا فہم، حکمت و بصیرت کے ساتھ عوام وخواص مجلسوں میں عام کریں۔
  • امت کے اہلِ خیر و مال دار حضرات کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے اموال سے امت کے مجاہد بیٹوں کی اعانت کریں، اہلِ غزہ پر مسلط کردہ بھوک و ننگ کی جنگ میں اپنے اموال سے ان کی نصرت کریں۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ضد پر مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے والے کاروباروں کو منظم کریں۔ وقت کی اہم ترین ضرورت مسلمانوں کی ادویہ سازی میں ترقی و مہارت ہے تا کہ مسلمانوں کا کافروں کی کمپنیوں اور نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دوائیں بناتے اور دواؤں کو بطورِ اسلحہ استعمال کرتے اداروں کا سدِّ باب کیا جا سکے۔ امت کے اہلِ خیر پر یہ بھی لازمی ہے کہ وہ امت کے آزاد و مفتوحہ علاقوں، مثلاً قلبِ ایشیا تا سواحلِ افریقہ میں صنعتی فیکٹریوں کو قائم کریں، جو مسلمانوں کے کفری برانڈز پر انحصار کو ختم کرنے کا سبب بنیں۔ اسلحہ سازی کی صنعت میں بھی ریڑھ کی ہڈی سرمایہ ہی ہے، بے شک تیر بنانے والے کے لیے تیر چلانے والے جیسا اجر ہے۔
  • علم کے حلقہ جات ہوں یا تزکیے کے دائرے و زاویے۔ ہماری روشن تاریخ ہے کہ شاہ ولی اللّٰہ، شاہ عبد العزیز و شاہ اسماعیل شہید تا قاسم نانوتوی و شیخ الہند، ہمارے مدارس نے جہاد کی تربیت گاہوں اور چھاؤنیوں کا کردار ادا کیا ہے۔ ہماری خانقاہوں نے سیدّ احمد شہید اور امام شامل جیسے با صفا مجاہد کردار پیدا کیے ہیں۔ ہمارے علماء اہلِ قلم و افتاء بھی رہے ہیں اور جب ضرورت پڑی تو انہی نے شاملی کے میدان بھی سجائے ہیں۔ہمارے صوفیاء کو بقول سیّد احمد شہید جو روحانی ترقی خانقاہِ جہاد میں ملی وہ کہیں اور نصیب نہ ہوئی۔
  • ائمۂ مساجد اور دیگر جگہوں پر با جماعت نماز کا اہتمام کرنے والے حضرات، خطبائے جمعہ وغیرہ انتہائی خصوصیت سے قنوتِ نازلہ کا اہتمام کریں۔ مشکلوں اور مصیبتوں کے ایام میں قنوتِ نازلہ پڑھنا رسولِ محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خاص سنت ہے۔
  • امتِ مسلمہ کے معاشی بائیکاٹ نے صہیونیوں کی بہت سی بڑی بڑی کمپنیوں کی کئی اسلامی ممالک میں کمر توڑ دی ہے۔ اہلِ اسلام پر لازمی ہے کہ وہ اس معاشی بائیکاٹ کو پہلے سے بھی زیادہ شدت سے جاری رکھیں۔

جان لیجیے، جہاد تو اس امت کے کسی مخصوص گروہ یا جماعت کا کام نہیں۔ جہاد تو ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ جب ہم فرضِ عین جہاد کی پکار لگاتے ہیں تو اس کا معنیٰ یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ ہم ادائیگیٔ صلاۃ و زکاۃ کو، دعوت الی اللّٰہ اور تزکیہ و احسان کویا دین کی کسی اور خدمت کو ہیچ قرار دے رہے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ تبوک جیسا زمانہ ہے، نفیرِ عام ہے، جہاد فرضِ عین ہے، سبھی لوگ آئیں، میدانِ جہاد میں پیش ہوں، فرضِ عین جہاد کی ادائیگی باقی فرائضِ دینیہ اور واجبات کے معطل ہونے کا نام ہر گز نہیں ہے، بلکہ ایسے شبہات تو شیطان و نفس کی شرارتیں ہیں۔

آبروئے دینِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سوال ہے۔ امتِ محمدیہؐ کی بیٹیوں کی عزتوں کا سوال ہے۔ یتیموں، بیواؤں اور بھوک سے مرتے بوڑھوں کی پکار پر لبیک کہنے کا سوال ہے۔ اسرائیلی یہودی علی الاعلان رسالت پناہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کر رہے ہیں۔ وہ ہماری اور آپ کی غیرت کو للکار رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ اہلِ غزہ اگر امتِ محمدؐ سے ہیں تو محمدؐ اس دنیا میں ان کو بچانے کی خاطر موجود نہیں۔

کیا ہم محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور آپؐ کے عشق کا دم بھرنے والے ایسے طعنوں اور ایسی دریدہ دہنیوں کو برداشت کرتے رہیں گے؟

یہ اُنؐ کے ’دین‘ کی حرمت، ادھر یہ سر سلامت بھی!؟
جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے!

یاد رکھیے کہ اس وقت، وقت کا اولین اور اہم ترین تقاضا بہر صورت و بہر قیمت اہلِ غزہ کا قتلِ عام بند کروانا اور ان کی ناکہ بندی کوتڑوانا ہے۔ اس کے لیے مؤثر عسکری کارروائیاں، صہیونی ممالک کے سفارت خانوں کا گھیراؤ، دیگر سفارتی و سیاسی کوششیں اور بڑی سطح پر فریڈم فلوٹیلا اور قافلۃ الصمود جیسی کوششیں اور کاوشیں کی جائیں۔ان سب اعمال و افعال کو کرتے ہوئے یہ نکتہ ذہن نشین رکھا جائے کہ اہلِ غزہ کی نصرت عملاً تب تک نا ممکن ہے، جب تک ہم اپنی جانوں سے اس طرح پیار کرتے رہیں گے کہ جس طرح ’اہلِ دنیا‘ اس جان کو عزیز رکھتے ہیں۔ اہلِ غزہ کی حقیقی نصرت ویسے ہی ایمان اور شوقِ شہادت کے ذریعے ممکن ہے، جیسا ایمان اور شوقِ شہادت اہلِ غزہ کے سینوں میں موجزن ہے۔یہ نصرت ’’حب الدنیا وکراھیۃ الموت‘‘ کی جگہ ’’حب الموت وکراھیۃ الدنیا‘‘ کے ذریعے ہو گی۔ عسکری کارروائیاں تو خاص مجاہدین، فدائین و استشہادیین کا کام ہے۔ لیکن سفارت خانوں کے گھیراؤ سے لے کر فریڈم فلوٹیلا تک کے اقدامات بھی فدائیت اور شوقِ شہادت کے بنا ناممکن ہیں۔ مکرر! یاد رکھیے! اس وقت، وقت کا اولین اور اہم ترین تقاضا بہر صورت و بہر قیمت اہلِ غزہ کا قتلِ عام بند کروانا اور ان کی ناکہ بندی کوتڑوانا ہے۔

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭

  • 1
    ان جہادی عملیات کو عملی شکل دینے کے لیے تنظیم قاعدۃ الجہاد فی جزیرۃ العرب کے نشر کردہ مجلّے ’انسپائر؍Inspire‘ کا مطالعہ نہایت مفید و معاون رہے گا۔
  • 2
    جیسا کہ شیخ انور العولقی شہید اپنے فتاویٰ میں واضح کر چکے ہیں۔
Previous Post

اگست 2025

Next Post

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

Related Posts

فراستِ مومن
نقطۂ نظر

فراستِ مومن

17 اگست 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
اوطان کی جنگیں
نقطۂ نظر

اوطان کی جنگیں

17 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

سلطان ٹیپو کی وصیت

17 اگست 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | اکتیسویں نشست

17 اگست 2025
علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
Next Post

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان - مراکش

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version