تعارف
ٹیلی گرام مجاہدین اور محبین جہاد کے درمیان مقبول ترین پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مقبولیت کے عوامل میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ اسے ایک محفوظ رابطہ کاری کا پلیٹ فارم تصور کیا جاتا ہے جس کا ڈیٹا دشمن کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
ٹیلی گرام نے خود بھی برسوں سے ’پرائیویسی‘ اور ’آزادیٔ اظہارِ رائے‘ کے قلعے کے طور پر اور ایک ایسی ڈیجیٹل پناہ گاہ کے طور پر اپنی ساکھ بنانے کی کوشش کی ہے جہاں مین سٹریم رابطہ کاری کے پلیٹ فارمز کی حکومتوں اور خفیہ اداروں کو معلومات فراہم کرنے کی پالیسی سے تنگ لوگ پناہ لیتے ہیں۔ اس کا بانی پاوَل ڈوروّ (Pavel Durov) بھی اپنے صارفین کی حفاظت کا غیر متزلزل عزم رکھنے پر بارہا زور دیتا رہا ہے۔
لیکن سائبر سکیورٹی سے منسلک ماہرین برسوں سے ٹیلی گرام کے سکیورٹی اور پرائیویسی کے دعووں کو بے بنیاد کہتے ہوئے اس پلیٹ فارم کو غیر محفوظ قرار دیتے ہیں، جبکہ اس کے بانی کے ’اپنے صارفین کی حفاظت کا غیر متزلزل عزم رکھنے‘ کے دعوے بھی تب ہوا میں بکھر گئے جب اسے اگست ۲۰۲۴ء میں فرانس میں گرفتار کر لیا گیا جس کے نتیجے میں اس نے اپنے صارفین کی معلومات سرکاری اداروں کے ساتھ شریک کرنے کی حامی بھر لی۔
اگرچہ ٹیلی گرام نے بڑی احتیاط کے ساتھ سکیورٹی اور پرائیویسی کے محافظ کے طور پر اپنی ساکھ بنائی تھی لیکن گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد ایک پیچیدہ اور پریشان کن حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ ٹیلی گرام کا ایک ’پرائیوٹ‘، ’سکیور‘ اور ’انکرپٹڈ‘ میسنجر ہونے کا دعویٰ سراسر فریب ہے۔ اس میں نمایاں سکیورٹی کمزوریاں اور ایک ناقص انکرپشن نظام تو شروع سے ہی موجود تھا اب حکام کے ساتھ تعاون کرنے کی پالیسی تبدیلی نے باقی کی کسر بھی پوری کر دی ہے۔
اس فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہم سب سے پہلے اس کے انکرپشن نظام کا جائزہ لیں گے اور واضح کریں گے کہ کس طرح اس کے انکرپشن نظام کی ساخت کی وجہ سے صارفین کی اکثریت کا سارا ڈیٹا انکرپشن کے بغیر ہی رہتا ہے۔ اس کے بعد ہم ٹیلی گرام کی جانب سے اپنے صارفین کی معلومات خفیہ اداروں کے ساتھ شریک کرنے کے قطعی ثبوت بھی پیش کریں گے۔
ٹیلی گرام کی انکرپشن کا جائزہ
کسی بھی محفوظ (Secure) میسنجر کی بنیاد اس کی انکرپشن (Encryption) ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ ٹیلی گرام اپنے ’محفوظ‘ (Secure)فیچرز کی بہت تشہیر کرتا ہے، لیکن سائبر سکیورٹی اور کرپٹو گرافی کے ماہرین ایک طویل عرصے سے اس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تنقید انکرپشن میں موجود کسی پیچیدہ ریاضیاتی (Mathematical) خامی پر نہیں کی جاتی بلکہ یہ ٹیلی گرام کے انکرپشن نظام کی بنیادی ساخت کی خامیوں پر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے تمام صارفین کی پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔
ذیل میں ٹیلی گرام کے انکرپشن نظام کی چند نمایاں خامیاں بیان کی گئی ہیں:
ڈیزائن کی سنگین کمزوری: لازمی کی بجائے اختیاری (Optional) انکرپشن
ٹیلی گرام کی سکیورٹی میں سب سے بڑی کمزوری اس کا ’’اینڈ –ٹو–اینڈ انکرپشن (E2EE) کا نظام ہے۔ E2EE کی ٹیکنالوجی یہ یقینی بناتی ہے کہ پیغام صرف بھیجنے والا (Sender) اور وصول کرنے والا (Receiver) ہی پڑھ سکیں، اس کے علاوہ خود ایپلی کیشن کے سرور سمیت کسی کے لیے بھی یہ پیغام پڑھنا ناممکن ہو۔ لیکن ٹیلی گرام میں یہ E2EE لازمی چیز نہیں ہے بلکہ ایک اختیاری چیز ہے۔ اور اختیاری بھی اس طرح نہیں کہ پہلے سے انکرپشن لگی ہو اور آپ کے پاس اختیار ہو کہ آپ اسے بند کر لیں اور انکرپشن کے بغیر استعمال کریں۔ نہیں! بلکہ اختیاری اس اعتبار سے کہ اصل میں ٹیلی گرام کی کوئی چیز بھی انکرپٹڈ نہیں ہوتی نہ وہ چینلز جو آپ نے سبسکرائب کیے ہیں، نہ وہ گروپس جن میں آپ نے شمولیت اختیار کی ہے نہ ہی ان گروپس میں ہونے والی گفتگو اور نہ ہی آپ کی کسی اور کے ساتھ کی جانے والی انفرادی گفتگو۔ ان سب چیزوں میں آپ کی ساری گفتگو اور تمام سرگرمیاں انکرپٹ نہیں ہو رہی ہوتیں بلکہ آپ کی تمام سرگرمیاں اور باتیں بغیر کسی انکرپشن کے ٹیلی گرام کے سرور پر محفوظ ہو رہی ہوتی ہیں۔
اگر آپ انکرپٹڈ گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک علیحدہ سے سہولت ٹیلی گرام میں رکھی گئی ہے جسے ’’سیکریٹ چیٹ‘‘ (Secret Chat) کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کی بھی افادیت اور صلاحیت انتہائی محدود ہے۔ مثلاً:
یہ صرف انفرادی چیٹس کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ گروپس وغیرہ میں یہ انکرپشن نہیں لگائی جا سکتی۔
انفرادی چیٹس میں بھی ایس کوئی سہولت موجود نہیں کہ آپ اپنی تمام انفرادی چیٹس کو ’بائی ڈیفالٹ‘ انکرپٹڈ کر دیں بلکہ آپ کو جس جس رابطے کے ساتھ انکرپٹڈ گفتگو کرنی ہے اس کے ساتھ علیحدہ سے سیکریٹ چیٹ کھولنی پڑے گی اور یہ سیکریٹ چیٹ شروع کرنے سے قبل جس سے آپ رابطہ کر رہے ہیں اس کی رضامندی بھی درکار ہو گی۔
سیکریٹ چیٹ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اور جس سے آپ نے سیکریٹ چیٹ کرنی ہے وہ بیک وقت آن لائن ہوں۔ اگر جس سے آپ رابطہ کرنا چاہتے ہیں وہ آن لائن نہیں تو آپ اس کو انکرپٹڈ پیغام نہیں بھیج سکتے۔ واضح رہے کہ یہ پابندی صرف انکرپٹڈ چیٹ کے لیے ہے انکرپشن کے بغیر چیٹ کے لیے نہیں۔ اگر آپ کا رابطہ ٹیلی گرام میں آپ کی فہرست میں موجود ہے تو انکرپشن کے بغیر پیغام بھیجنے کے لیے نہ تو آپ کو اس کی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ایک ہی وقت میں آن لائن موجود ہو۔ اتنی پابندیاں صرف انکرپٹڈ گفتگو کے لیے ہی ہیں۔
یہ سہولت صرف موبائل پر ٹیلی گرام استعمال کرنے کے لیے ہے۔ اگر آپ کمپیوٹر پر ٹیلی گرام استعمال کرتے ہیں تو آپ کے لیے یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ اس طرح سے سیکریٹ چیٹ کے لیے ضروری ہے کہ رابطے میں موجود دونوں ہی صارفین موبائل پر ٹیلی گرام استعمال کر رہے ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کمپیوٹر پر ٹیلی گرام استعمال کر رہا ہے تو سیکریٹ چیٹ استعمال نہیں کی جا سکتی۔
ان پابندیوں کو دیکھتے ہوئے ایک چیز واضح ہو جاتی ہے کہ ٹیلی گرام اپنی جس سہولت کی سب سے زیادہ تشہیر کرتا ہے اور جس کی بنیاد پر خود کو ایک محفوظ (Secure) اور نجی (Private) اور انکرپٹڈ میسنجر قرار دیتا ہے وہ سہولیت نا صرف یہ کہ اختیاری ہے ، بائی ڈیفالٹ استعمال نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ٹیلی گرام اس کے استعمال کے راستے میں اس قدر رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے کہ کوئی اس کو استعمال کرنے کا سوچے بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی گرام کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ٹیلی گرام کے ۹۹ فیصد صارفین سیکریٹ چیٹ استعمال نہیں کرتے۔
داخلی طور پرتیار کردہ انکرپشن‘MTProto’ کا مسئلہ
جیسا کہ ہم نے کہا کہ ٹیلی گرام کے ۹۹ فیصد صارفین تو سرے سے انکرپشن استعمال ہی نہیں کرتے اس لیے ان کی تو ٹیلی گرام پر تمام سرگرمیاں اور باتیں ہوتی ہی غیر محفوظ ہیں، لیکن اگر آپ کا شمار ان ایک فیصد صارفین میں ہوتا ہے جو ٹیلی گرام پر واقعی سیکریٹ چیٹ استعمال کرتے ہیں، اور آپ کو پورا اعتماد ہے کہ آپ ٹیلی گرام پر سیکریٹ چیٹ کے علاوہ کسی قسم کی کوئی حساس گفتگو یا کوئی غیر قانونی سرگرمی نہیں کرتے تب بھی آپ کو خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ٹیلی گرام پر آپ محفوظ ہیں کیونکہ سیکریٹ چیٹ کے لیے ٹیلی گرام جو انکرپشن MTProto استعمال کرتا ہے وہ بھی کوئی اتنی طاقتور اور محفوظ انکرپشن نہیں۔
کرپٹو گرافی کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ’’کبھی اپنی انکرپشن خود نہ بنائیں‘‘۔ یہ اس لیے کہ کرپٹو گرافی ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے اور اس میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا خطرہ رہتا ہے، حتیٰ کہ کرپٹو گرافی کے بڑے بڑے ماہرین سے بھی غلطیاں سرزد ہو جایا کرتی ہیں۔ خود سے تیار کردہ انکرپشن نظاموں میں بالعموم ایسی کمزوریاں موجود ہوتی ہیں جن کا ادراک تب تک نہیں ہوتا جب تک کوئی ان کمزوریوں کا استحصال کرتے ہوئے آپ کے انکرپشن نظام کو توڑ نہیں لیتا۔ اس لیے ایسے انکرپشن نظام جو آزمائش کی بھٹیوں سے گزر چکے ہوں اور جو آزادانہ طور پر کرپٹو گرافی کے ماہرین کی جانچ پڑتال اور آڈٹ سے کامیاب ہو کر نکلے ہوں وہی آپ کی سکیورٹی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ اپنے لیے خود سے انکرپشن بنانا ایسا ہی ہے جیسے آپ گاڑی کا انجن بنانے لگ جائیں جبکہ آپ کے پاس گاڑیوں کے انجن کے حوالے سے ضروری مہارت موجود ہی نہیں اور نہ ہی آپ اس کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ انجن بنانے میں کامیاب ہو جائیں اور ہو سکتا ہے وہ کامیابی سے کام کرنا بھی شروع کر دے لیکن کسی سنگین صورتحال میں اس کے تباہ کن طور پر ناکام ہونے کے امکان زیادہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہ صرف خود ہی ناکام نہیں ہو گا بلکہ ساتھ میں سواریوں کو بھی لے ڈوبے گا۔
ٹیلی گرام اس بنیادی اصول کو نظر انداز کرتا ہے اور داخلی طور پر تیار کر دہ اپنا ملکیتی (Proprietary) انکرپشن پروٹوکول ‘MTProto’ استعمال کرتا ہے، جو کہ نہ تو بہت زیادہ آزمائش سے گزرا ہے کیونکہ ایک تو یہ صرف ٹیلی گرام میں استعمال ہوتا ہے دوسرا ٹیلی گرام میں بھی صرف ایک فیصد صارفین اسے استعمال کرتے ہیں، دوسرا اس کا آزادانہ طور پر کوئی جامع سکیورٹی آڈٹ نہیں ہوا، جس کے ذریعے کرپٹو گرافی کے ماہرین اس میں موجود خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کر کے اس کی اصلاح کروا سکیں۔
۲۰۲۱ء میں ’انفارمیشن سکیورٹی گروپ‘ (Information Security Group) اور ’اپلائڈ کرپٹو گرافی گروپ‘ (Applied Cryptography Group) سے تعلق رکھنے والے چار افراد کی ایک ٹیم نے ‘MTProto’ کا آڈٹ کیا اور اس میں موجود بہت سی کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی۔ اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا کہ چاہے ٹیلی گرام ان کمزوریوں کو دور بھی کر دے تب بھی یہ انکرپشن نظام رائج انڈسٹری سٹینڈرڈ انکرپشن نظاموں (مثلاً سگنل پروٹوکول)، حتیٰ کے ویب سائٹس کی https پروٹوکول کی سکیورٹی میں استعمال ہونے والی TLS انکرپشن سے بھی کمزور ہے۔
کلوزڈ سورس (Closed-Source) سرورزاور میٹا ڈیٹا کے خطرات
شفافیت (Transparency) سکیورٹی کا ایک بنیادی ستون ہے۔ سائبر سکیورٹی کا ایک اہم اصول ہے جسے کیرک ہافس اصول (Kerckhoff’s Principle) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کسی نظام (System) کو اس وقت بھی محفوظ (Secure) رہنا چاہیے جب اس کے ڈیزائن کے بارے میں تمام تر معلومات، سوائے خفیہ چابیوں (Secret Keys) کے، عوامی علم میں ہوں۔
اگرچہ ٹیلی گرام کی کلائنٹ سائڈ ایپس (آپ کے فون پر موجود سافٹ ویئر) اوپن سورس ہیں، یعنی ان کا کوڈ اور تمام تر معلومات عوامی طور پر دستیاب ہیں، اس کا سرور سائڈ کوڈ ایک ملکیتی (Proprietary) بلیک باکس ہے جس کے متعلق کسی کو کچھ علم نہیں۔ یہ بات کیرک ہافس پرنسپل کے دیرینہ سکیورٹی تصور کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ چونکہ ٹیلی گرام کے سرورز کا کوڈ بند اور خفیہ ہے، اس لیے آزاد محققین اس بات کی کسی بھی طرح تصدیق نہیں کر سکتے کہ ٹیلی گرام صارف کے ڈیٹا کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ یعنی چاہے ہم یہ تصور کر لیں کہ صارف صرف ’سیکریٹ چیٹ‘ ہی استعمال کرتا ہے اور ہم یہ بھی مان لیں کہ ٹیلی گرام نے کوئی ایسا چور دروازہ نہیں رکھا جس سے وہ اس ’سیکریٹ چیٹ‘ کی انکرپشن کو اپنے پاس کھول سکے، تب بھی میٹا ڈیٹا کے حوالے سے ٹیلی گرام سرورز کی یہ غیر شفافیت تشویش ناک ہے۔ میٹا ڈیٹا سے مراد یہ ہے کہ ٹیلی گرام کے سرور چاہے آپ ’سیکریٹ چیٹ‘ ہی کیوں نہ استعمال کر رہے ہوں یہ پھر بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں، آپ اور جس سے آپ بات کر رہے ہیں دونوں کہاں موجود ہیں یعنی Location Information اور آپ نے کس سے کتنی دیر بات کی۔ واضح رہے کہ یہ بات صرف ’سیکریٹ چیٹ‘ کے حوالے سے ہو رہی ہے جبکہ آپ نے کون سے چینل سبسکرائب کر رکھے ہیں، ان چینلز پر آپ کیا مواد دیکھتے اور ڈاؤنلوڈ کرتے ہیں، آپ نے کن گروپس میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے اور ان گروپس میں آپ کیا باتیں کرتے ہیں، اور آپ انفرادی طور پر ’سیکریٹ چیٹ‘ کے علاوہ کس سے کیا باتیں کرتے ہیں یہ ساری معلومات بھی سرور اپنے پاس محفوظ کر رہا ہوتا ہے۔ اب جبکہ سرور کا کوڈ خفیہ ہے تو آپ کے پاس ٹیلی گرام کے دعووں پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ ٹیلی گرام آپ کی معلومات بیچ نہیں کھاتا۔
ٹیلی گرام کی پالیسی میں تبدیلی: پرائیویسی کے علم بردار ہونے سے خفیہ اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرنے والے تک
برسوں تک ٹیلی گرام کا اپنے پلیٹ فارم کی سکیورٹی کمزوریوں پر تنقید کے مقابل دفاع اس کا سخت سیاسی مؤقف رہا ہے۔ یعنی یہ دعویٰ کہ چاہے صارفین کا ڈیٹا اس کے سرورز پر کھلا ہی کیوں نہ پڑا ہو، وہ ہر قیمت پر اپنے صارفین کے ڈیٹا تک حکومتی رسائی کے مطالبات کی مزاحمت کرے گا۔ تاہم اگست ۲۰۲۴ء میں ٹیلی گرام کے بانی کی فرانس میں گرفتاری کے بعد حالیہ پالیسی تبدیلیوں اور داخلی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ اب معاملہ ایسا نہیں رہا۔ وہ پلیٹ فارم جو خود کو کبھی پرائیویسی کا علم بردار کہا کرتا تھا اب باضابطہ طور پر سکیورٹی اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرنے والا آلہ بن چکا ہے۔ لیکن یہ پرائیویسی کے مؤقف سے انحراف بالکل پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا آغاز برسوں قبل ہو چکا تھا۔
مطلق پرائیویسی کے مؤقف سے رسمی پسپائی
۲۰۱۳ء میں اپنے قیام کے بعد ابتدائی سالوں میں ٹیلی گرام نے خود کو پرائیویسی کے سخت محافظ کے طور پر پیش کیا۔ اس عرصے میں کمپنی کا مؤقف تھا کہ وہ صارفین کا ڈیٹا کسی بھی حال میں حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کرے گی ، حتیٰ کہ قانونی مطالبات کے باوجود بھی۔
۲۰۱۸ء میں ٹیلی گرام نے اپنی پرائیویسی پالیسی میں پہلی بار ترمیم کی، جس میں کہا گیا کہ وہ عدالت کے حکم سے تصدیق شدہ دہشت گردی کے مقدمات میں صارفین کا ڈیٹا حکام کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے۔
ستمبر ۲۰۲۴ء میں ٹیلی گرام نے اپنی پالیسی کو مزید وسیع کیا اور اب معاملہ دہشت گردی کے کیسز تک محدود نہیں رہا بلکہ تمام قانونی مطالبات پر ٹیلی گرام حکام کے ساتھ ڈیٹا شریک کرے گا۔ ان حالیہ تبدیلیوں نے ٹیلی گرام کے پرائیویسی کے تحفظ کے تمام دعووں کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے پرائیویسی کے معاملے میں حساس صارفین ٹیلی گرام کا رخ کرتے تھے۔
ڈیٹا شیئرنگ کے دستاویزی کیسز
حکومتی اداروں کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کی پالیسی صرف ایک رسمی کاروائی نہیں تھی بلکہ ۲۰۲۵ء کے اوائل میں ٹیلی گرام کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا نے حکومتی مطالبات کی تعمیل میں ٹیلی گرام کی جانب سے ڈیٹا شیئرنگ میں ڈرامائی اضافہ ظاہر کیا۔ TechCrunch اور Forbes کی رپورٹس کے مطابق ٹیلی گرام کی جانب سے مختلف حکومتوں کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کے مطالبات میں تین ممالک کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں جن کے ساتھ اس عرصے میں سب سے زیادہ ڈیٹا شیئر کیا گیا۔
بھارت: ۱۴ ہزار چھ سو اکتالیس مطالبات کے جواب میں ۲۳ ہزار ۵۳۵ صارفین کا ڈیٹا بھارتی حکومت کے ساتھ شیئر کیا گیا۔
جرمنی: ۹۴۵ مطالبات کے جواب میں ۲ ہزار ۲۳۷ صارفین کا ڈیٹا جرمن حکومت کے ساتھ شیئر کیا گیا۔
امریکہ: ۹۰۰ مطالبات کے جواب میں ۲ ہزار ۲۵۳ صارفین کا ڈیٹا امریکی حکومت کے ساتھ شیئر کیا گیا۔
یہ ڈیٹا ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتا ہے کہ ٹیلی گرام اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطالبات کے آگے مزاحم نہیں رہا بلکہ اب ایک فعال بلکہ کثرت سے صارفین کا ڈیٹا فراہم کرنے والا شراکت دار بن چکا ہے۔
اختتامیہ
شواہد بالکل واضح اور ناقابلِ تردید ہیں۔ ٹیلی گرام کی ایک ’محفوظ‘ (Secure) اور ’نجی‘ (Private) میسنجر کے طور پر شہرت ایک خطرناک فریب پر مبنی ہے۔ جو صارفین یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیلی گرام پر ان کی گفتگو ’بائی ڈیفالٹ‘ پرائیویٹ اور محفوظ ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ اور اس غلطی کی وجہ سے وہ ٹیلی گرام پر مستقل طور پر غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اپنی اسی غلط فہمی کی بنیاد پر ٹیلی گرام پر حساس معلومات اور گفتگو شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ ٹیلی گرام کا ’سکیور‘ کا لیبل صرف مارکیٹنگ کے لیے ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
صارفین کے لیے عملی مشورہ
اگر ٹیلی گرام کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا عوامی چینلز کی پیروی کے لیے استعمال کیا جائے، جس طرح فیس بک یا ایکس کو استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ یہ آپ کے ذہن میں ہو کہ ان پلیٹ فارمز پر آپ کا ڈیٹا اور سرگرمیاں بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں اور آپ اس کے اعتبار سے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوں، تو اس طرح استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
کسی بھی قسم کی حساس یا نجی گفتگو کے لیے ٹیلی گرام کا استعمال کرنا ایک سنگین غلطی ہے، اس مقصد کے لیے دیگر قدرے محفوظ پلیٹ فارمز موجود ہیں (جیسے سگنل؍Signal) جنہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر کسی خاص معاملے میں یا کسی خاص وجہ سے آپ کے لیے ٹیلی گرام پر گفتگو کرنا ناگزیر ہو تو موبائل پر سیکریٹ چیٹ کے ذریعے سے ہی کیا جائے لیکن ساتھ میں اس حقیقت کا بھی ادراک رہے کہ سیکریٹ چیٹ سے چاہے آپ کی گفتگو محفوظ ہو رہی ہو لیکن آپ کی دیگر معلومات پھر بھی سرور پر محفوظ ہو رہی ہیں اور سرور کو یہ بھی پتہ چل رہا ہے کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں، اور ٹیلی گرام یہ ساری معلومات سکیورٹی اداروں کو فراہم کر سکتا ہے۔
ٹیلی گرام کی یہ کہانی ڈیجیٹل دنیا میں رہنے والوں کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ یہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ ہمیں ان تمام ٹولز اور سافٹ ویئرز کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرنی چاہیے جن پر ہم اپنے ڈیٹا کے حوالے سے اعتماد کرتے ہیں، اور ان کے دعووں کا تکنیکی حقائق کے ساتھ موازنہ ضرور کرنا چاہیے۔ ایک ایسے دور میں جب ہر طرح کے صارفین کی پرائیویسی پر حملے ہو رہے ہیں اور ڈیجیٹل دنیا میں اپنی معلومات کو چھپانا اور خود کو محفوظ رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے، اہل جہاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی ٹول یا سافٹ ویئر پر اس کے دعووں کی بنیاد پر اندھا اعتماد نہ کریں بلکہ استعمال سے قبل اس کی پوری طرح جانچ پڑتال کریں۔ ورنہ ہماری لاپرواہی ہمیں خدانخواسہ کسی اندھی کھائی میں بھی دھکیل سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭