زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مذکورہ مجلّے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)
کعب بن اشرف اور ابو رافع کا قتل
امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں صحابیِ رسول حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت نقل کی ہے :
’’ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا :
’کعب بن اشرف یہودی کا کام کون تمام کرے گا؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رکھا ہے۔‘
محمد بن مسلمہ انصاری نے کھڑے ہو کر کہا :
’یا رسول اللہ ! اگر آپ ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں اس کام کو انجام دوں۔‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’اجازت ہے۔‘
محمد بن مسلمہ نے کہا:
’ مجھے یہ بھی اجازت دےدیجیے کہ جو مناسب سمجھوں وہ باتیں اس سے کہوں۔‘
آپ ﷺ نے اجازت دی، غرض محمد بن مسلمہ ، کعب بن اشرف کے پاس آئےاورکہا :
’یہ شخص محمد بن عبداللہ ہم سے زکوۃ مانگتا ہے اور ہمیں مشقت میں ڈال دیا ہے اور میں تمہارے پاس قرض مانگنے آیا ہوں۔‘
کعب نے کہا :
’(ابھی کیا دیکھا ہے )واللہ! یہ آگے چل کر تم کو بہت ستائے گا۔‘
محمد بن مسلمہ نے کہا:
’خیر! ابھی تو ہم نے اس کی پیروی کرلی ہے، فورا ًچھوڑنا بھی ٹھیک نہیں، دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے ،اس وقت تو میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ ایک یا دو وسق کھجوریں ہم کو قرض دے دو۔‘
کعب نے کہا :’قرض مل جائے گا ،کچھ رہن رکھ دو۔‘
انہوں نے کہا: ’کیا رہن رکھیں؟‘
کعب نے کہا: ’اپنی عورتوں کو رہن رکھ دو ۔‘
ان حضرات نے کہا: ’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم عورتوں کو کس طرح رہن کر دیں؟ سارے عرب میں تم خوبصورت ہو !‘
اس نے کہا:’ اپنے بیٹے رہن رکھ دو۔‘
انہوں نے کہا:’ تمہارے پاس بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں؟ آئندہ انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ وہ ایک یا دو وسق میں رہن رکھا گیا ہے اور اس کو ہم برا سمجھتے ہیں، البتہ ہم اپنے ہتھیار رکھ سکتے ہیں۔‘
محمد بن مسلمہ نے کعب سے دوبارہ ملنے کا وقت طے کیا اور چلے گئے۔ رات کو دوبارہ آئے اور ابو نائلہ کو ساتھ لائے جو کعب کا دودھ شریک بھائی تھا۔ کعب نے ان کو قلعہ میں بلا لیا اور پھر ان کے پاس نیچے آنے لگا۔
اس کی بیوی نے کہا :’اس وقت کہاں جاتے ہو ؟‘
کعب نے کہا:’ یہ محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ میرا بھائی ہے جو بلاتے ہیں۔‘ (سفیان کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار کے سوا اور لوگوں نے اس حدیث میں اتنا اور اضافہ کیا ہے کہ کعب کی بیوی نے یہ بھی کہا: ’اس کی آواز سے تو خون ٹپک رہا ہے‘)
کعب نے کہا :’کچھ نہیں میرا بھائی ابونائلہ اور محمد بن مسلمہ ہیں اور شریف آدمی کو تو رات کے وقت بھی اگر نیزہ مارنے کے لیے بلائیں تو جانا چاہیے۔‘
محمد بن مسلمہ اپنے ساتھ دو آدمیوں کو اور لائے تھے اور ان سے کہہ رکھا تھا کہ ’کعب جب آئے گا تو میں اس کے سر کے بال تھام کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے مضبوط تھام لیا ہے تو تم اپنا کام کر ڈالنا اور اس پر وار کرنا۔ ‘
غرض کعب چادر اوڑھے ہوئے اترا، اس کے جسم سے خوشبو مہک رہی تھی۔
محمد بن مسلمہ نے کہا :’میں نے آج تک ایسی خوشبو نہیں دیکھی۔‘
کعب نے جواب میں کہا : ’اس وقت میرے پاس ایسی عورت ہے جو سب عورتوں سے زیادہ معطر رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی بےنظیر ہے۔‘
محمد بن مسلمہ نے پوچھا: ’کیا سر سونگھنے کی اجازت ہے؟‘
اس نے کہا :’ہاں۔‘
محمد بن مسلمہ نے خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا پھر دوبارہ اجازت لے کر سونگھا اور زور سے تھام لیا اور ساتھیوں سے کہا ہاں اس کو لو! انہوں نے فوراً اس کا کام تمام کر دیا اور پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر قتلِ کعب کی خوشخبری سنائی ۔ ‘‘1
امام بخاری نے ہی اپنی صحیح بخاری میں ایک اور روایت حضرت براء بن عازب سے نقل کی ہے:
’’رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے قتل کے لیے بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع، رسول اللہ ﷺ کو [اپنی بد زبانی اور ریشہ دوانی سے] سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں سے کہا :
’ تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں۔‘
چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر آواز دی :
’اے اللہ کے بندے ! میں دروازہ بند کر رہا ہوں اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا۔‘
حضرت عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر (قلعے کے) اندر داخل ہوا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آ چکے تو دربان نے دروازہ بند کر کے چابیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے اٹھ کر چابیاں لیں اور قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ ادھر ابو رافع کے پاس رات کے وقت قصہ گوئی ہوا کرتی تھی اور وہ اپنے بالاخانہ میں رہتا تھا۔ جب داستان گو اس کے پاس سے چلے گئے تو میں اس کی طرف چلنے لگا۔ جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی طرف سے اسے بند کر لیتا تھا۔ میرا مقصد یہ تھا کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہو جائے تو مجھ تک ابو رافع کو قتل کرنے سے پہلے نہ آ سکیں۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بچوں کے درمیان سو رہا ہے۔ چونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ کس جگہ پر ہے اس لیے میں نے ابو رافع کہہ کر آواز دی۔
اس نے جواب دیا: ’تو کون ہے؟‘
میں آواز کی طرف جھکا اور اس پر تلوار سے زور دار وار کیا ،چونکہ میں اعصابی تناؤ کا شکار تھا اس لیے اس ضرب سے کچھ کام نہ بنا۔ وہ چلانے لگا تو میں کمرے سے باہر آگیا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر میں پھر اندر آیا اور میں نے کہا:
’اے ابو رافع ! یہ کیسی آواز تھی؟‘
اس نے کہا : ’تیری ماں پر مصیبت پڑے، ابھی ابھی کسی نے اس کمرے میں مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے۔‘
حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے پھر ایک اور بھرپور وار کیا مگر وہ بھی خالی گیا اگرچہ اس کو زخم لگ چکا تھا لیکن وہ اس سے مرا نہیں تھا، اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی، خوب زور دیا تو وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ سو مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے مار ڈالا ہے ، لہذا میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا سیڑھی تک پہنچ گیا۔ چاندنی رات تھی، یہ خیال کر کے کہ میں زمین پر پہنچ گیا ہوں نیچے پاؤں رکھا تو دھڑام سے نیچے آ گرا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی پگڑی سے اسے باندھا اور باہر نکل کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ اپنے دل میں کہا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک مجھے یقین نہ ہو جائے کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے، لہٰذا جب صبح کے وقت مرغ نے اذان دی تو موت کی خبر دینے والا دیوار پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا :
’لوگو! میں تمہیں حجاز کے سوداگر ابو رافع کے مرنے کی خبر دیتا ہوں۔‘
یہ سنتے ہی میں اپنے ساتھیوں کی طرف گیا اور ان سے کہا :
’یہاں سے جلدی بھاگو۔ اللہ تعالیٰ نے ابو رافع کو ہمارے ہاتھوں قتل کر دیا ہے۔ پھر وہاں سے نبی ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو تمام قصہ سنایا۔ آپ نے مجھے فرمایا :
’اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی پھیلاؤ! ‘
چنانچہ میں نے اپنی پنڈلی پھیلائی تو آپ نے اپنا دست مبارک اس پر پھیر دیا جس سے وہ ایسے ہو گئی گویا مجھے اس میں کبھی تکلیف ہی نہیں ہوئی ۔ ‘‘2
مشرکین کا ہدفی قتل
ان دونوں واقعات میں اس بات کے جواز کی دلیل موجود ہے کہ حربی مشرک تک اگر اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہے تو اس کو بغیر دعوت دیے [اور للکارے بغیر] نشانہ بنا کر قتل کرنا جائز ہے3، دورِ رسالت مآب ﷺ میں اس طرح کے ہدفی قتل کے اور بھی واقعات رونما ہوئے ہیں ۔
سو کفار کے ساتھ جنگ میں ہدفی قتل کوئی نیا طریقہ اور بدعت نہیں ،بلکہ رسول اللہ ﷺ کا آزمودہ و فعال حربہ ہے، بلکہ خود قرآن کریم میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے ،ارشادِ باری ہے:
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ (سورۃ التوبۃ: ۵)
’’ان مشرکین کو جہاں بھی پاؤ قتل کر ڈالو اور انہیں پکڑو اور انہیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ تاک لگا کر بیٹھو۔‘‘
امام قرطبی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی تم ایسی جگہ بیٹھ کر ان پر نظر رکھو کہ وہ تمہارے وجود اور ارادوں سے بے خبر رہیں ،سو یہ آیت مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ کافروں کو دعوت دیے بغیر چپکے سے قتل کر دینا جائز ہے۔4
البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ طریقہ کار بالعموم درجِ ذیل صفات کے حامل دشمنانِ دین کے خلاف استعمال کیا گیاہے:
ایسے سردار اور مال دار کفار جن کا معاشرے میں اثر و رسوخ تھا۔
ان کے جرائم سنگین اور ان کی دین دشمنی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔
انہوں نے محافظوں کے پہرے اور دیگر مادی رکاوٹوں سے خود تک رسائی کو مشکل بنا رکھا تھا۔
دورانِ جنگ ایسے افراد کو نشانہ بنانا انتہائی مؤثر ہوتا ہے ،بلکہ بعض اوقات اس سے پوری جنگ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے ،کیونکہ ایسی کارروائی کے درجِ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں :
مجرم کیفرِ کردار کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے کیے کا بدلہ پاتا ہے ۔
کبھی اس ایک مجرم قائد کے مرنے سے پورا نظام زمین بوس ہوجاتا ہے ،جیسے یمن میں مسلمانوں کے اسود عنسی ملعون کو قتل کرنے سے اس کے جتھےکا سارا زور ٹوٹ گیا۔
دیگر دشمنانِ اسلام جو اس کی دیکھا دیکھی ان جرائم کے ارتکاب کی تیاری یا منصوبہ بندی کررہے ہوتے ہیں ،وہ اس کا انجام دیکھ کر سبق سیکھ لیتے ہیں ،کیونکہ اللہ کے دین کی دشمنی میں انتہا کو پہنچے ہوئے نفوس بھی جب محسوس کرتے ہیں کہ اہلِ حق ان پر گرفت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو وہ زندگی سے محبت کی بنا پر ساری دشمنی بھول کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔
اسی لیے کعب بن اشرف کے قتل کی بعض روایات میں آتا ہے:
’’یہود دہشت زدہ ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ ہمارے سردار کو دھوکے سے قتل کیا گیا ہے [مقصد یہ تھا کہ یہ ایک جرم ہوا ہے ،سو اس کے کرنے والے کو کوئی سزا دی جائے] رسول اللہ ﷺ نے یہود کو اس کے کرتوت یاد دلائے کہ وہ میرے خلاف لوگوں کو بھڑکاتا تھا اور مسلمانوں کی ایذا رسانی کا باعث تھا، رسول اللہ ﷺ کی اس دو ٹوک بات کو سن کر یہود ڈر کر چپ ہو گئے ۔‘‘5
احادیث مبارکہ میں دونوں طرح کے واقعات موجود ہیں ،کبھی ایک فرد نے ہدفی قتل کی مہم سرانجام دی اور کبھی ایک گروہ نے یہ ذمے داری پوری کی ،سو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے افراد اور گروہ تیار کریں جو ہدفی قتل کے فریضے کو انجام دیں ،اس مسئلے کی بابت شیخ عبد الرحمان دَوسری لکھتے ہیں :
’’حسبِ استطاعت جنگ کی تیاری کرنا دینی فرائض میں سے ہے اور اقامتِ دین کے لیے ایک لابدی امر ہے، سو اللہ تعالیٰ کی صحیح عبادت کرنے والا فرد وہی ہے جو اس میں تاخیر نہ کرے، اس کے ترک یا اس میں سستی کا تو سوال ہی نہیں ،ایسے عابد اور پختہ مجاہد ہی الحاد و اباحیت کے داعیوں ،اللہ کے وحی پر اعتراض کرنے والوں اور دینِ حنیف کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے کفر کے لیڈروں کے خلاف ’ہدفی قتل‘ کا حربہ استعمال کرتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ایذا رسانی کا باعث ہیں، ایسے لوگ جس خطہ زمین میں بھی پائے جائیں مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ انہیں زندہ رہنے دیں، رسول اللہﷺ نے ابن الحقیق وغیرہ کے قتل پر مسلمانوں کو ابھارا تھا اور ان معاصر خبثاء کا ضرر تو ان سے کئی گنا زیادہ ہے ،پس انہیں قتل نہ کرنا رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی اور اللہ کی بندگی میں بہت بڑی کوتاہی ہے، جس سے دین ڈھانے والے عناصر کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے ،اس بے توفیقی کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ اللہ کے دین پر غیرت نہیں رہی اور اللہ جل جلالہ کی خاطر غضبناک ہونے کا جذبہ جاتا رہا! یہ طرزِ عمل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور تعظیم میں بہت بڑی کمی پر دلالت کرتا ہے،صحیح معنی اور مطلوب انداز میں عبادت کرنے والا بندہ مومن ان عیوب سے بری ہوتا ہے۔‘‘ 6
سنگین جرم کی سزا
امام ابن حجر فرماتے ہیں :
’’ابورافع کے قتل کے واقعے سے اخذ شدہ فوائد میں سے ایک ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کے خلاف اپنا ہاتھ ،مال یا زبان استعمال کرے اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘7
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’پس یہ سب احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جس کافر نے بھی رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی اور آپ ﷺ کو تکلیف پہنچائی تو آپ ﷺ نے ایسے تمام کفار کے قتل کا ارادہ وفیصلہ کیا اور مسلمانوں کو اس پر ابھارا ۔‘‘8
رسول اللہﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی ایک سنگین و گھناؤنا جرم ہے ،جس کی سزا قتل سے کم نہیں ،اور (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)یہ جرم اگر کسی مسلمان سے صادر ہو تو یہ رِدّتِ غلیظہ ہے یعنی اگر وہ توبہ کر بھی لے تو اس سے دنیا میں اس سے قتل کی سزا دور نہیں ہو گی ،کیونکہ اب اس کا تعلق رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک سے ہو گیا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بد زبانی کرنا، آپ کا یا آپ کی کسی مبارک سنت کا مذاق اڑانا اشارے کے ذریعے یا تصویر بنا کر یا اور کسی عمل سے، یہ سب صورتیں شانِ اقدس میں گستاخی کے زمرے میں آتی ہیں ۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کی گستاخی بدترین جرائم میں سے ہے ،سو ایسے بدبخت مجرم کا قتل بھی بہت بڑی نیکی ہے ،اور جو عاشقِ رسول اس کوشش میں خود قتل ہو گیا تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت اور اللہ کے دیدار کی نعمتیں ہیں ۔
رسول اللہﷺ کی خاطر غیرت میں آنا حبِ رسول اور تعظیمِ رسول کی واضح علامت ہے، کیونکہ جو کسی سے محبت کرتا ہے اور اسے بڑا مانتا ہے تو اس کی گستاخی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔
رسول اللہﷺ کی خاطر غیرت میں آنا دل کی زندگی کی یقینی علامت ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کی شان میں صلیبیوں کی دریدہ دہنی اور اس پر امت کے ردِ عمل نے یہ ثابت کیا ہے کہ ابھی اس امت کی نبضیں چل رہی ہیں اور یہ اپنے دین پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر آمادہ ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آ رہی ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے وہ کام کرواتا ہے جس سے دشمن ہلاک ہوتا ہے اور امت کے لیے اس میں خیر ہوتی ہے ،جیسے ابو جہل کا رسول اللہ ﷺ کو ایذا دینا حضرت حمزہ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا، انہوں نے ابو جہل سے کہا :تو میرے بھتیجے کو برا بھلا کہتا ہے ،جبکہ میں خود اس کے دین پر ہوں۔ پھر آپ نے اپنی تلوار ابو جہل کے سر پر مار کر اس کا سر پھاڑ دیا۔
وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ ۭوَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ (سورۃ الانفال: ۳۰)
’’وہ کفار اپنے منصوبے بنارہے تھے اور اللہ اپنا منصوبہ بنارہا تھا اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ بنانے والا ہے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی شان میں بدترین گستاخیوں کے اس سلسلے نے ثابت کر دکھایا ہے کہ کفار کے مقابلے میں مجاہدین اکیلے صف آرا نہیں ،بلکہ پوری امت مجاہدین کے ساتھ کھڑی ہے، یہ روح امت میں جتنی زیادہ بیدار ہو گی فتح و تمکین بھی اتنی جلدی حاصل ہو گی۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب کعب بن اشرف کا قتل۔ روایت میں راوی کے شکوک حذف کیے گئے ہیں۔
2 صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب ابو رافع عبد اللہ بن ابی الحقیق کا قتل
3 فتح الباری
4 تفسیر قرطبی،التوبہ؛آیت ۵
5 فتح الباری،کتاب المغازی،باب:کعب بن اشرف کاقتل
6 بحوالہ:العمدۃ فی اعداد العدۃ
7 فتح الباری،کتاب المغازی،باب:ابورافع کا قتل
8 الصارم المسلول