اخبار اٹھائیے، ٹی وی پر خبریں دیکھیے سنیئے، سوشل میڈیا دیکھیے۔ غزہ میں جاری جارحیت کی خبریں آج ہماری روٹین ہیں۔ جیسے دن بھر میں دیگر درجنوں نہیں، سیکڑوں خبروں اور معلومات پر سے ہم گزرتے ہیں، بالکل اسی طرح، بلکہ سچ یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ہم اب غزّہ کی خبروں پر سے جلدی سے گزر جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کیا نیا ہو گا؟ وہی کٹی پھٹی لاشیں، وہ بچوں کے چیتھڑے، ماؤں کی فریادیں، باپوں کا نوحہ، بوڑھوں کی آہ و بُکا۔ سچی بات یہ ہے کہ اعداد و شمار بیان کرنے کا وقت گزر چکا ہے، اعداد و شمار کیا ہوتے ہیں، سوائے گنتی کے۔ لیکن پھر بھی ایک نظر یہاں فرمائیے۔ اڑتالیس ہزار سے زیادہ لوگ غزہ میں قتل ہو چکے ہیں، جن میں دس ہزار سے زیادہ عورتیں اور سولہ ہزار سے زیادہ بچے ہیں، لیکن یہ اعداد و شمار ان لاشوں کے ہیں کہ جن کی شناخت ممکن ہے، وہ لاشے جو لاش کی ’تعریف (definition)‘ پر پورا اترتے ہیں یہ ان کی گنتی ہے۔ لیکن جو ٹنوں ملبے تلے دفن ہیں یا جو بارود کی نئی نئی اقسام کے سبب ہوا میں تحلیل ہو گئے، یا سر بریدہ لاشے، یا وہ جو چیتھڑے بن گئے، یہ سب اس میں شامل نہیں اور کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
آج مظلوم و مقتول و شہید و زخمی کو ہم بخوبی جانتے ہیں اور ظالم و قاتل سے بھی خوب واقف ہیں، اب بار بار ان کی نشاندہی کیا؟!
پھر بھی اگر ہمارا علم اس قدر ناقص ہے تو سنیے! پڑھیے! نکبہ میں پندرہ ہزار کلمہ گو فلسطینی قتل و شہید ہوئے تھے۔ پچھلے گیارہ ماہ میں ان کی رسمی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہے۔ یہ مقتولین نہتے فلسطینی ہیں۔اور ان کے قاتل، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، پورا عالمِ مغرب ہے، الاسکا تا نیوزی لینڈ۔ پھر ان قاتلوں کے سہولت کاراسرائیل کے پڑوس میں موجود اور باقی عالمِ اسلام پر قابض ابنِ ابی سلول کی وہ روحانی بلکہ مثلِ ذریتِ شیطانی اولادیں ہیں، وہ منافق کردار ہیں جو کہیں وردیوں میں ہیں تو کہیں جبّوں میں اور کہیں کوٹ ٹائی میں ملبوس ہیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر گھوما کرتے ہیں۔
کرنا کیا ہے؟ بس سن لیجیے کہ جہاد فرضِ عین ہے! دنیا بھر میں جہادی محاذ سجے ہوئے ہیں، جائیے وہاں سے فنِ حرب و ضرب سیکھیے اور کفار پر عذاب کا کوڑا بن کر برسییے۔ انٹرنیٹ عام دستیاب ہے، کچھ مشکل ہو تو وی پی این و پراکسیاں موجود ہیں، انٹرنیٹ پر بارود بنانا سیکھیے اور صلیبی صہیونی امریکیوں اور یورپیوں کو، بد فطرت یہودیوں کو کہ جن کا انگ انگ اہلِ غزہ کے خون سے لتھڑا ہوا ہے کو جہاں پائیے وہاں قتل کیجیے۔ اگر اس قتال فی سبیل اللّٰہ کا حصہ نہیں بن سکتے، تو اپنے اموال ان مجاہدوں پر لٹائیے جو عصرِ حاضر میں جہاد کو جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ مجاہدین جو اَبین و حضرموت میں اور غزہ و رفح میں پیٹ سے پتھر باندھے اقصیٰ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس کی بھی استطاعت نہیں تو زبان و قلم آپ کا ہتھیار ہیں، یہ بھی نہیں تو دل و جگر سے خوں بار اشک بہائیے اور دعاؤں میں ان سر بکفن، صف شکن، سرفروش مجاہدوں کو یاد رکھیے۔ اللّٰہ کے، اپنے اوران فی سبیل اللہ مجاہدوں کے دشمنوں پر قنوتِ نازلہ پڑھیے! نبی الملاحم رحمۃ للعالمین علیہ ألف صلاۃ وسلام کا ارشاد ہے:
’’جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ.‘‘ (رواه أبو داود والنسائي والدارمي)
’’حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ عنہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ’مشرکین یعنی دشمنانِ اسلام سے تم اپنی جان اپنے مال اور اپنی زبان کے ذریعہ جہاد کرو‘۔‘‘
جب فرضِ عین جہاد کی ادائیگی میں کچھ تردد ہو، اپنا وطن، خاندان، اہل و عیال، نوکریاں اور تجارتیں، آرام بستر اور اچھی گاڑیاں، علم و فن سیکھ کر کسی ان دیکھے مستقبل میں امت کی نصرت کے خواب نہیں یہ سرابوں کے خیال کچھ مانع ہونے لگیں تو یاد رکھیے کہ اہلِ غزہ اڑتالیس ہزار سے زیادہ کی تعداد میں شہید ہو کر اگلے جہاں جا چکے ہیں، اور ساتھ ہی وہ ہم سب کلمہ گوؤں پر وہاں ربّ العالمین، احکم الحاکمین، العدل کی عدالت میں مقدمہ بھی درج کروا چکے ہیں کہ ’مالک! ہم کٹتے رہے اور تیرے قرآن کی زبانی انہیں پکارتے رہے وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيراً1…… لیکن اے داورِ محشر! ان ایمان کے دعویداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی!‘۔
محشر کا دن ہو گا، شافعِ محشر (علیہ ألف صلاۃ وسلام) حوضِ کوثر کے پاس رونق افروز ہوں گے کہ اپنے امتیوں کو اس عالمِ سختی میں، اس دھوپ و شدت کی گرمی میں اپنے حوض سے پیالے بھر بھر کر عطا کریں، کچھ ہمارے دور کے ہم جیسے بھی وہاں جائیں گے، لیکن ابھی ہم جامِ کوثر طلب کریں گے ہی تو غزہ کے یہی چالیس ہزار شہید، یہی کٹے پھٹے لاشے حضورِ پر نور (صلاۃ اللّٰہ وسلام علیہ) کا دامنِ نورانی تھام لیں گے اور وہاں شفیعِ عالم نبیٔ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کہیں گے کہ یا رسول اللّٰہ! آپ کے یہی وہ امتی ہیں جنہوں نے ہمیں غزہ میں تنہا چھوڑ دیا تھا!
اس نظارے کی تاب رکھتے ہیں تو اپنی زندگیوں میں مگن رہیے! ورنہ داورِ محشر ﷻ کے غضب اور شافعِ محشرﷺ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے کل نہیں، آج!تھوڑی دیر بعد نہیں، ابھی نکلیں! جب سے اقصیٰ صلیب و صہیون کے پجاریوں کے قبضے میں ہےتب سے اب تک ہمارے ذمے وہ ’ایک صدی سے زائد کا قرض‘ انقلاب برپا کریں، جو تب تک نہ تھمے جب تک صلیب و صہیون کے بیٹوں اور بیٹیوں کو تل ابیب اور واشنگٹن میں انہی کے خون میں نہ نہلا دیا جائے، جیسے انہوں نے حرم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو خون میں نہلایا، انہیں یتیم و معذور کیا، ان کے سہاگ اجاڑے!
کوئی تو سود چکائے، کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!
اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
1 ’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللّٰہ کی راہ میں اور ضعیفوں کی خاطر جن میں مرد اور عورتیں اور بچے شامل ہیں جنگ نہیں کرتے،جو یوں کہہ رہے ہیں کہ ’اے ہمارے رب! نکال ہم کو اس بستی سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور بنا دے ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایت کرنے والا اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار!‘۔‘‘ (سورۃ النساء:۷۵)