وہ دن گئے جب ہم مغرب سے کہتے تھے، تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی۔
اب معلوم ہوا کہ وہ ہمیں ساتھ لیے بغیر مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ہم ان کے بغیر جینے کے روادار نہیں!
یہ موت کب سے ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ ’کلچرل گلوبلائزیشن‘کی حالیہ رفتار سے اگر آپ واقف ہیں، تو ہرگز بعید مت جانتے کہ ہم جنس پرست سؤر اور بِجو کل آپ کی ان گلیوں میں پھٹی ہوئی جینوں کے ساتھ جلوس نکالتے پھریں اور بد فعلی پہ ناک چڑھانے پر آپ کو اور آپ کے آباؤ اجداد کو بدتہذیبی کے طعنے دیں، بلکہ ’’تہذیب‘‘ کا یہ آخری گھونٹ بھی زبردستی آپ کے حلق سے اتارنے کی کوشش کریں!
باؤلا جس کو کاٹ لے، باؤلا کر دے۔ ایک نہایت کالی، باؤلی آندهی اب ہر ملک کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ لبرلسٹ، سیکولر ماڈرنسٹ سب اپنا اپنا کام کریں گے اور تاریخ کے اس فساد عظیم کا راستہ صاف کرکے رخصت ہوں گے۔
پیکیج ایک ہے؛ اور ہر کسی کو یہ پورے کا پورا لینا ہو گا۔
اس پیکیج کے حصے کرنا ممکن نہیں!!!
’سرخ سویرا‘ بیت چکا، اب وہ سب بھاڑے کے لکھاری، ادیب، دانشور، اینکر، گویے، بھانڈ، ڈھولچی اس ’کالے سویرے‘ کے بگل بردار ہیں۔
حضرات! اس کالی آندھی کے مقابلے پر نہیں اٹھیں گے، تو بِجو اور سؤر آپ کے مال روڈ، لبرٹی اور آپ کے سوک سینٹرز کے آس پاس نکلا ہی چاہتے ہیں۔
اس جدید بدبودار مخلوق کی ذات کیا ہے ؟ سید قطب کے الفاظ میں ……. دن کے وقت مشین، رات کے وقت حیوان۔ اور حیوان بھی ایسا ویسا نہیں۔
آج ہم ایک سماجی جنگ کے گھمسان میں ہیں، جبکہ ہمارے صالحین اپنی نیکی کے نشے میں مست۔
آپ کی شریف زادیوں کے سر کی چادر تو کب کی فسانہ ہوئی، اور خدا بخشے وہ اپنے ساتھ نہ جانے اور کیا کچھ لے گئی…… بس یہ دیکھیے اتنا سا لباس بھی آپ کی اس آبرو کے تن پر کب تک سلامت رہتا ہے۔ ’تعلیم‘ کا عفریت اور ’ابلاغ‘ کا بھیڑیا کس فنکاری اور مشاقی کے ساتھ ہم نمازیوں، روزہ داروں، حاجیوں، عبادت گزاروں اور علماء وفضلاء ومبلغین کے زیرِ تماشا ہماری بچی کا (ستر نوچتا) چلا جارہا ہے1۔ کیا ہوا، ہماری بیٹی سربازار ہر سال ’لباس‘ اور ’روایات‘ کے بوجھ سے مسلسل ہلکی ہی تو کی جارہی ہے ……! ہر سال اس فیبرک کے کچھ ہی تند نکالے جاتے ہیں! ہوتے ہوتے بہت اترا پھر بھی ’مغرب جتنا‘نہیں! آپ خوامخواہ پریشان ہوتے ہیں؛ وہاں تو آپ کو پتہ ہے……
خاطر جمع رکھیے: سب ادھر ہی کو جارہے ہیں۔ ایک دم برہنہ تو نہیں ہوئی ہماری لخت جگر، جتنا ہمیں ہضم ہوا اتنا ہوئی! ہاں اب ہمارا ’ہاضمہ‘ تیز کرنے کی وہ زود اثر خوراکیں جو انفارمیشن ریوولیوشن کی پڑیوں میں ڈال کر ہمیں بیچی جارہی ہیں اپنا جادو دکھانے لگیں ……نہ جانے فری میسن اس بار اتنی مطمئن کیوں ہے…… اپنی شریف زادیوں کی ایک برہنگی ہی کیا اب تو ویلنٹائن، شوقیہ قحبہ گری، فریڈم آف چوائس، لزبینز اینڈ گیز، ناجائز اولاد، کنواری ماؤں کو قبول کروانے کی انسانی ہمدردی کی تحریکیں اور نہ جانے کیا کیا ہمیں ’’ہضم‘‘ ہوجانے والا ہے۔ فکر مت کیجیے؛ پیکیج ایک ہے۔ بس یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے صاحب! یہ سب متلی جو کنواری ماؤں کا لفظ سن کر فورا آپ کے حلق کو آپہنچتی ہے، پڑی کے اثر سے زائل ہو جانے والی ہے! آپ کوئی پہلے مریض تھوڑی ہیں، اس سے پہلے بڑی بڑی قوموں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے۔ معالج کی مہارت پر شک کرنے والا کوئی احمق جاہل ہی ہوسکتا ہے اور اس پر پردہ ڈالنے والا زنديق منافق…… بلکہ ابلیس!
حضرات خاموشی کب تک؟
اٹھیے!
بولیے!
چیخیے……
یہ چودہ (۱۴)فروری آپ کی تہذیب کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔
رونا اس بدکار میڈیا کا نہیں…… رونا اس بات کا ہے کہ آج ہماری محفلوں، بیٹھکوں ،مسجدوں، منبروں اور محرابوں کو سانپ سونگھ گیا ہے!
1 مجلہ نوائے غزوۂ ہند کی مجلسِ ادارت کو شیخ حامدکمال الدین صاحب کےاس مضمون کی بعض عبارتیں اور جملے مبہم انداز میں موصول ہوئی تھیں، لہٰذا بعض جملوں کو ہم نے اپنے فہم کے مطابق معمولی بدل دیا ہے۔ مجلسِ ادارت اس بلا اجازت تغییر پر شیخ سے معذرت خواہ ہے۔ (ادارہ)