ریاستی انتخابات میں ہندُتوا کی جیت |
رواں سال مارچ میں انڈیا کی پانچ اہم ریاستوں میں انتخابات اور اس کے نتائج سے نہ صرف سیاسی مبصرین بلکہ تمام سیاسی پارٹیاں بھی ششدر رہ گئی ہیں۔ ان پانچ ریاستوں میں سے چار ریاستوں، منی پور، گوا، اتراکھنڈ اور اترپردیش میں بی جے پی حکومت میں آگئی جبکہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کو شکست دے کر وہاں حکومت سنبھال لی۔
ان سب ریاستوں میں سب سے پریشان کن معاملہ اتر پردیش میں بی جے پی کی فتح کا ہے، کیونکہ وہاں کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کا رویہ انتہا پسندانہ اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رہا۔ مسلمانوں کی املاک کو تباہ کرنے اور اپنی تقاریر میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے اور ان کی املاک کو ’بلڈوز‘ کرنے کی بار بار دھمکیاں دینے کی وجہ سے اس کا نام ہی ’’بلڈوزر بابا‘‘ پڑ چکا ہے۔
اترپردیش کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بات مشہور ہے کہ ’جو اترپریش میں حکومت کرے گا وہی مرکز میں حکومت کرے گا‘۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اتر پردیش، جہاں ۸۰ فیصد ہندو اور ۲۰ فیصد مسلمان آباد ہیں، وہاں کی ہندو آبادی نے یوگی کی ناقص کارکردگی کے باوجود ، اپنے مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے ، مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے والے یوگی کو خالص مذہبی بنیاد پر ووٹ دیے۔
ان انتخابی نتائج کے بارے میں ندیم عبد القدیر اپنے کالم میں لکھتے ہیں:
بھگوا سیاست کا سورج نصف النہار پر | ندیم عبد القدیر
’’منی پور ایک عیسائی ریاست ہے اور یہاں کے لوگوں نے ہندتوا سیاست کو ووٹ دیا۔ گوا میں بھی عیسائی آبادی ۲۵فیصد ہے یہاں بھی بھگوا پارٹی اقتدار میں واپس آگئی اور یہ سب بھگوا تنظیموں کے ذریعے گرجا گھروں پر حملوں کے کئی واقعات کے باوجود ہو گیا۔ اترکھنڈ ریاست جب سے قیام میں آئی ہے تب سے یہاں ایک بار کانگرس اور ایک بار بی جے پی حکومت بناتے رہے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے جب یہاں کوئی پارٹی اپنی حکومت کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی، اور یہ پارٹی بی جے پی ہے۔
پنجاب میں ’شرومنی اکالی دل‘ سکھوں کی واحد سیاسی جماعت ہے۔ پارٹی سکھوں کے حقوق کی واحد علمبردار ہے اس کے باوجود اس الیکشن میں سکھوں نے اپنی آنکھوں پر مذہب کی پٹی باندھ کر ووٹ نہیں دیا بلکہ مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر انہوں نے عام آدمی پارٹی کو موقع دیا وہ بھی واضح اکثریت کے ساتھ۔ ان نتائج سے یہ ظاہر ہے کہ منی پور اور گوا کے عیسائی اور پنجاب کے سکھوں نے کسی بھی طرح سے مذہبی خطوط پر ووٹنگ نہیں کی، لیکن جب آپ ہندو ریاستوں کے نتائج دیکھتے ہیں تو یہاں صرف اور صرف مذہبی وابستگی پر ہی ووٹنگ دکھائی دیتی ہے پھر وہ اترکھنڈ ہو یا پھر اترپردیش۔
اتر پردیش کے انتخابی نتائج نے تو کئی ریکارڈ بنا دیے، کیونکہ ۱۹۹۶ء کے بعد سے یوپی میں پہلی بار کوئی پارٹی اپنی حکومت کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی ہے……بی جے پی کو تقریباً ۴۴ فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ یوپی میں اعلیٰ ذات ہندو آبادی محض ۲۰ فیصد ہے… …
……اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف بی جے پی ہی وہ پارٹی ہے جسے اس کے روایتی اعلیٰ ذات ہندو ووٹروں سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ووٹروں کے اس رجحان کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالو ں کی تمام تباہ کاریوں کے باوجود بی جے پی کو صرف اس کے روایتی اعلیٰ ذات ہندو ووٹروں نے ہی اقتدار میں واپس نہیں لایا ہے بلکہ اس کام میں دیگر ذاتوں نے برابری کا یا پھر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ انہیں پچھلے پانچ سال میں ریاست میں ہونے والی تاریخی بربادی کی کوئی پرواہ ہی نہیں رہی۔ عالم یہ ہے کہ ہندو ووٹر لاٹھیاں کھا کر، مہنگائی جھیل کر، ہسپتالوں کی خستہ حالی کے سبب اپنے رشتہ داروں کی لاشیں اٹھا کر اور اپنی ذات برادری پر ہونے والے تمام ظلم دیکھنے کے بعد بھی خوشی خوشی بی جے پی کو ووٹ دے رہا ہے۔ اس نےآخر یوگی حکومت میں ایسا کیا دیکھ لیا کہ وہ سب مصیبتیں جھیلنے پر بھی راضی ہے؟ اپنے دورِ اقتدار میں یوگی حکومت نے اگر کوئی کام سب سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کیا ہے تو وہ صرف اور صرف مسلمانوں کو ہراساں کرنا ہے۔ مسلم لیڈروں کے خلاف درجنوں معاملات درج کر کے انہیں جیل میں ڈالنا، مسلمانوں پر حکومت کے ذریعے کیے جانے والی ستم ظریفیوں کو اپنے کارنامے کے طور پر بتانا، لوْ جہاد کے نام پر مسلم نوجوان اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنا، گاؤ ہتیا کا الزام لگا کر مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا، مسلمانوں پر یو اے پی اے عائد کرنا، انہیں جیل میں ٹھونسنا، ان کے مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کردینا۔ یہی وہ سارے کام ہیں جو یوگی حکومت نے کیے ہیں اور اس کے بدلے بی جے پی کا واضح اکثریت کے ساتھ حکومت میں آنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اتر پردیش کا ووٹر مسلمانوں پر ظلم کو دیکھ کر اتنا خوش ہے کہ وہ اس کے لیے ہر طرح کی مصیبتوں کو جھیلنے کے لیے بھی تیار ہے۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۱۳ مارچ ۲۰۲۲ء]
بی جے پی کی اس کامیابی کا راز کیا ہے اور آخر وہ کیسے اپنے روایتی اعلیٰ ذات کے ہندو ووٹروں سے آگے نکل کر تمام ہندو ذاتوں کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اس حوالے سے رام پنیانی لکھتے ہیں:
اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی فتح کا مطلب سمجھیے | رام پنیانی
’’بی جے پی کے حق میں کئی اسباب کام کر رہے تھے۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن تو تھا ہی، آر ایس ایس کا انتہائی اثر دار نیٹ ورک بھی تھا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ بی جے پی ایک بڑے کنبے کا حصہ ہے، جس کی قیادت ہندو نیشنلزم کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ جب بھی کوئی انتخاب ہوتا ہے، آر ایس ایس کے ہزاروں پرچارک اور لاکھوں سوئم سیوک بی جے پی کی طرف سے محاذ سنبھال لیتے ہیں۔ اتر پردیش میں انتخاب سے پہلے آر ایس ایس کے سرکردہ لیڈر ’ارون کمار‘ نے آر ایس ایس سے منسلک تنظیموں کے لیڈروں کی ایک میٹنگ بلا کر انہیں یہ ہدایت دی تھی کہ انتخابی مہم میں وہ بی جے پی کی مدد کریں۔ اس بار تو آر ایس ایس کے مکھیا موہن بھاگوت نے بھی کھل کر کہا تھا کہ انتخابی مہم میں ہندوتوادی پروگراموں (رام مندر، کاشی وشواناتھ کاریڈور) اور نیشنلسٹ سرگرمیوں (بالاکوٹ) کا تذکرہ ترجیحی بنیاد پر کیا جائے……
…… جہاں تک ذات پر مبنی فارمولوں کا سوال ہے، انہیں اپنے حق میں کرنے کے لیے مذہبی پولرائزیشن کو مزید گہرا کیا گیا۔ سوشل انجنیئرنگ کے ذریعہ پارٹی نے پہلے ہی دلت طبقات کو اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ آر ایس ایس کے کنبے کے پاس پہلے سے ہی ایک مضبوط تشہیری نظام ہے جس کے ذریعہ وہ سماج کے ہر شخص تک اپنی بات پہنچا سکتا ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ آر ایس ایس نے کس طرح بڑھتی ہوئی قیمتوں، نوجوانوں میں بے روزگاری ، کسانوں کی بدحالی اور اقلیتوں کو دہشت زدہ کرنے کے کئی واقعات کے باوجود ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے میں کامیابی حاصل کی۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۰ مارچ ۲۰۲۲ء]
ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی فتح اور کانگریس کی بری طرح شکست یہ واضح کرتی ہے کہ ہندوستان میں سیکولرازم کا نظریہ اپنی کشش کھو چکا ہے۔ ہندواکثریت اس نظریے سے بیزار ہو چکی ہے اور اس کا ووٹ اب خالص مذہبی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے لیے بھی اس نظریے میں اب کشش نہیں رہی بلکہ ان کے لیے زیادہ ترجیحی چیز معاشی استحکام اور خوشحالی ہے۔ صرف مسلمان ہی واحد طبقہ رہ گیا ہے جو سیکولرازم کے نظریے میں اپنی بقا تلاش کر رہا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ مسلمان اب اس دھوکے سے باہر آجائیں اور سرابوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے مسائل کا عملی حل سوچنے کی جانب توجہ دیں۔ اور دوسروں پر بھروسہ کرنے اور دوسروں پر امیدیں لگانے کی بجائے اپنے دفاع کو مضبوط کرنے پر توجہ دیں۔
کرناٹک میں مسلم دشمن اقدامات |
حجاب کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ
گزشتہ چند مہینوں سے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی موضوعِ بحث بنی رہی ہے۔ کرناٹک کی ہائی کورٹ نے اپنے جاری کردہ فیصلے میں تمام ریاستی تعلیمی اداروں میں حجاب پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی ہے کہ اسلام میں حجاب فرض نہیں بلکہ اختیاری ہے، اس لیے یہ یونیفارم میں شامل نہیں ہو گا۔
یہ فیصلہ پوری ریاست میں لاگو کر دیا گیا اور مسلمان طالبات کو بھی صرف یونیفارم میں بغیر حجاب کے تعلیمی اداروں میں آنے کی ہدایت کر دی گئی۔ واضح رہے کہ سکھوں کی پگڑی یونیفارم کے اس فیصلے سے مستثنیٰ ہے۔طالبات نے اب کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
اس حوالے سے رشید الدین روزنامہ سیاست میں لکھتے ہیں:
ظلم سہتا ہوا انسان برا لگتا ہے | رشید الدین
’’حجاب پر تنازع کا مقصد طالبات کو اسلام کے ساتھ ساتھ تعلیم سے دور کرنا ہے۔ قابل مبارکباد ہیں وہ لڑکیاں جنہوں نے کلاسس اور امتحانات کے بائیکاٹ کو ترجیح دی لیکن شریعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ طالبات نے دنیاوی تعلیم پر حجاب کو ترجیح دیتے ہوئے اسلامی حمیت کا ثبوت دیا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ملک بھر میں حجاب کی تائید میں خواتین میدان میں ہیں لیکن خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کا دعویٰ کرنے والی تنظیمیں اور جہد کار خاموش ہیں۔ بے حیائی کو عام کرنے کا معاملہ آتا ہے تو یہ روشن خیال اور ترقی پسند جہد کار میدان میں آ جاتے ہیں۔ افسوس تو ان مسلم قیادتوں پر ہوتا ہے جو مسلمانوں کی نمائندگی کا دم تو بھرتے ہیں لیکن خواتین کی تائید میں میدان عمل میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ ‘‘
[روزنامہ سیاست | ۲۰ فروری۲۰۲۲ء]
لیکن مسلمانوں میں بعض دانشور ایسے بھی ہیں جن کی رائے یہ ہے کہ تعلیم کے حصول کے لیے مسلم طالبات کو حجاب چھوڑ دینا چاہیے۔ اسی طرح کے ایک دانشور خالد شیخ روزنامہ انقلاب میں لکھتے ہیں:
حجاب معاملے میں کرناٹک حکومت کی غلط بیانی | خالد شیخ
’’ہم نے چند ایک لڑکیوں اور خواتین کو نیوز چینلوں پر یہ کہتے سنا کہ تعلیم چھوڑ دیں گے لیکن حجاب نہیں چھوڑیں گے۔ ہم اس سے متفق نہیں ہیں۔ حجاب و نقاب اور پردے کی اہمیت مسلّم ہے لیکن جس مذہب کی وحی کا آغاز اقراء سے ہوا ہو، علم و تعلیم کے حصول کے تئیں اس طرح کا رویہ نامناسب ہے……
……جن طالبات کو حجاب کے سبب تعلیم میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اُن کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آئینی حق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں جس میں انہیں سماج کے مختلف طبقات اور دانشوروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی حصولِ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔ اگر انہوں نے سلسلۂ تعلیم منقطع کر دیا تو یہ مخالفین کی جیت ہو گی جو چاہتے ہی ہیں کہ مسلم بچیاں تعلیم سے دور ہو جائیں۔ ‘‘
[روزنامہ انقلاب | ۲۴ فروری۲۰۲۲ء]
کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے اور بعض مسلمان مذہبی رہنماؤں کی اس رائے، کہ حجاب ایک اختیاری معاملہ ہے، پر تنقید کرتے ہوئے ندیم عبد القدیر لکھتے ہیں:
کرناٹک ہائی کورٹ کے استدلال کی خامیاں | ندیم عبد القدیر
’’دراصل عدالت کی ’حجاب اسلام کا لازمی جز نہیں ہے‘ کی تھیوری کے پیچھے اُن جاہل مسلم دانشوروں کی دلیل ہے کہ ’’اسلام میں حجاب آپ کی پسند ناپسند کا معاملہ ہے۔ آپ پہننا چاہتے ہیں تو پہنیے ورنہ مت پہنیے‘‘۔ ان جاہل لوگوں نے ہی حجاب کو ’میٹر آف چوائس‘ Matter of Choice بنا دیا اور اس دلیل نے ہی سارا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ قرآن میں جابجا کہا گیا ہے کہ ’’سچ بولو‘‘، ’’جب بھی تولو، پورا پورا ناپ تولو‘‘، جو وعدہ کرو، اسے پورا کرو‘‘۔ اگر پسند نا پسند اور میٹر آف چوائس کی ہی تھیوری ان احکامات پر بھی نافذ کی جائے تو یہ ساری باتیں بھی اسلام کی لازمی جز نہیں رہ جائیں گی۔ پھر اسلام کی تشریح کچھ اس طرح ہوگی کہ سچ بولنا ہے تو بولو ورنہ مت بولو اسلام میں ضروری نہیں ہے۔ یہ میٹر آف چوائس ہے۔ ‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۰ مارچ۲۰۲۲ء]
رشید الدین حجاب کیس میں مسلم قیادت کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے اپنے ایک اور کالم میں لکھتے ہیں:
ہم تو پھول جیسے تھے آگ سا بنا ڈالا | رشید الدین
’’جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ کے لیے مسلم قیادت، جماعتوں اور تنظیموں کا موقف ناقابل فہم ہے۔ مسلسل حملوں کے باوجود مسلم قیادت صرف بیان بازی کے ذریعے زنانی احتجاج کو سب کچھ سمجھ رہی ہے۔ حالانکہ وقت کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی جائے……
…… ابھی تو تجربہ صرف ایک ریاست میں چل رہا ہے، لیکن اگر خاموش رہیں تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی حجاب کے خلاف آئے گا، اور اسے سارے ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی……
……مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم قیادتوں کو اپنے نجی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے متحدہ طور پر میدان عمل میں اترنا ہو گا کیونکہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ اگر موجودہ قیادتیں شریعت کے تحفظ میں ناکام ہو جائیں تو آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔‘‘
[روزنامہ سیاست | ۳ اپریل۲۰۲۲ء]
حلال پروڈکٹس کے خلاف مہم
ابھی حجاب معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ ہندُتوا غنڈوں نے حکومتی سرپرستی میں ایک نیا کھیل شروع کر دیا۔ کرناٹک میں مسلمان دکانداروں کے خلاف پمفلٹ بانٹے جا رہے ہیں، اور اس دفعہ وہ ’حلال گوشت‘ پر پابندی عائد کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ بھگوا غنڈوں نے ریاست میں بہت سے دکانداروں کو اور ریسٹورنٹ مالکان کو زدوکوب کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جنہوں نے اپنے پاس ’’یہاں حلال فوڈ دستیاب ہے‘‘ کے بورڈ لگا رکھے ہیں۔
بجرنگ دل کے غنڈے حلال پروڈکٹس کو ’’معاشی جہاد‘‘ کا نام دے کر اس کے خلاف سرگرم ہو چکے ہیںَ اس معاملے میں دکانداروں اور صارفین کو دھمکی آمیز پمفلٹ بانٹے جا رہے ہیں اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان گاہک بھی گوشت ہندو دکانداروں سے خریدیں۔
اس حوالے سے ندیم عبد القدیر اپنے کالم میں لکھتے ہیں:
کرناٹک ہندتوا کی نئی تجربہ گاہ | ندیم عبد القدیر
’’حلال گوشت کے خلاف مہم تو ناقابل یقین ہی محسوس ہوتی ہے۔ ہندوستان میں عموماً اور کرناٹک میں خصوصاً ہندتواوادیوں کے سر پر مسلمانوں سے دشمنی اس قدر حاوی ہو گئی ہے کہ حلال گوشت پر بھی اعتراض ہونے لگے ہیں۔ دنیا میں بڑے بڑے مسلم دشمن پیدا ہوئے ہیں لیکن آج تک کسی بھی مسلم دشمن کے دماغ میں ’’حلال گوشت‘‘ کی مخالفت کا آئیڈیا نہیں آیا۔ مسلمانوں کے خلاف خناس اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ ’حرام‘ کو ’حلال‘ سے بہتر سمجھنے لگے ہیں اور کھلے عام ’حرام‘ گوشت کو کھانے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ حلال گوشت کے خلاف مہم پوری شدومد کے ساتھ چل رہی ہے اور ہندوؤں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ حلال نہیں بلکہ حرام گوشت کھائیں۔
گزشتہ دنوں کرناٹک میں وشوْ ہندو پریشد کے کچھ غنڈوں نے ایک مسلمان کی چکن کی دکان پر پہنچ کر اس سے ’حرام‘ گوشت کی مانگ کر دی (حلال کی ضد حرام ہی ہوتی ہے)۔ جب دکاندار نے ان سے معذرت کی تو انہوں نے دکاندار کو پیٹنا شروع کر دیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم ممبئی کے کسی ’ویج ریسٹورنٹ‘ میں جاکر اس سے ’بڑے کے پائے‘ مانگیں اور جب وہ نہ دے تو اسے مارنا شروع کر دیں……
حجاب کی مخالفت، مسلم دکانداروں پر پابندی اور اب حلال گوشت کے خلاف مہم مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے نت نئے حربے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری طرف حکومت، پولیس اور عدالت کی حالت ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ جیسی ہے۔
وہ مسلم دانشور جو شرپسندوں کے ہر ظلم کا ٹھیکرا کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں ہی کے سر پھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، آخر اس معاملے میں کیا فرمائیں گے؟ حجاب کے معاملے میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا گیا کہ تعلیم ضروری ہے حجاب نہیں اور یہ کہہ کر ان مسلم دانشوروں نے شرپسندوں کے ظالمانہ مطالبے کو مان لینے کی نصیحت کی۔ حلال گوشت کے معاملے میں اب وہ کیا جواز پیش کریں گے؟ کیا وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیں گے کہ ’حلال گوشت‘ بھی کھانا اسلام میں ضروری نہیں؟……
……انسانی تاریخ میں ایسی نفرت کسی بھی قوم میں نہیں پائی گئی جو آج ملک کے ہندتوا وادیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف ہے۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۳ اپریل۲۰۲۲ء]
سکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم لازمی
کرناٹک میں حجاب اور حلال پروڈکٹس کے معاملے کے بعد اب تازہ معاملہ سکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم کو لازمی کرنے کا ہے۔ گجرات حکومت کی جانب سے سکولوں میں بھگوت گیتا پڑھائے جانے کے فیصلے کے بعد کرناٹک حکومت نے بھی اسکول کے نصاب میں بھگوت گیتا پڑھانے کا اعلان کیا ہے۔اس حوالے سے روزنامہ سیاست میں ایک ہندو کالم نگار ’’سبھاش گٹاڈے‘‘ لکھتے ہیں:
اسکولوں میں حجاب غیر سیکولر اور بھگوت گیتا سیکولر| سبھاش گٹاڈے
’’ حجاب کی جب بات آتی ہے تو بی جے پی اسے سیکولر اسکولوں میں دراندازی قرار دیتی ہے۔حجاب کرنے والی طالبات کو اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہونے سے روکنے کی تائید کرتی ہے، لیکن انہیں سیکولر تعلیمی اداروں میں جب بھگوت گیتا پڑھانے کی بات آتی ہے تو وہ اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔ اس طرح کے تضاد سے بی جے پی کی منافقت اور اس کی منفی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے……
……بی جے پی کے قائدین نے یہ کہتے ہوئے حجاب پر پابندی کو معقولیت پر مبنی قدم قرار دیا تھا کہ مذہبی علامتوں یا شعائر کے لیے اسکولوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان لوگوں نے حجاب پر پابندی کی پرجوش انداز میں تائید کی ۔ بھگوت گیتا کو پڑھانے کی تائید کرتے ہوئے پارٹی اور نہ ہی حکومت کو یہ یاد رہا کہ ان لوگوں نے ہی حجاب پر پابندی کی وکالت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اسکولوں میں تعلیم دی جاتی ہے، مذہبی درس نہیں دیا جاتا اور مذہبی علامتوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے……
……اسکولوں میں مذہبی تعلیم کی باتیں کرنے والے یہ جان لیں کہ مذہبی تعلیم کے لیے آر ایس ایس اور دیگر منفرد مذہبی رہنماؤں کے قائم کردہ لاکھوں ادارے موجود ہیں۔ صرف ایک کمیونٹی کو نشانہ بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مذہب اور مذہبی تعلیم کے نعرے لگا ئے جا رہے ہیں۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جس سے اخوت و بھائی چارگی اور انسانیت مستحکم ہو نہ کہ سماج مذہب کی بنیاد پر بٹ جائے۔‘‘
[روزنامہ سیاست | ۳ اپریل۲۰۲۲ء]
یکساں سول کوڈ کی کوششیں |
ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف یکے بعد دیگرے اقدامات میں ’یکساں سول کوڈ‘ کا نفاذ بھی بی جے پی کی فہرست میں شامل ہے۔ uniform civil code یا یکساں سول کوڈ سے مراد تمام شہریوں کے لیے یکساں قوانین کا نفاذ ہے۔ چاہے وہ شہری ہندو ہو، عیسائی ہو یا مسلمان۔ ہر شہری کے لیے شادی بیاہ، طلاق، وراثت اور دیگر معاملات میں یکساں قوانین ہوں گے اور پرسنل لا کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
ہندوستا ن کی تاریخ میں پہلے بھی کئی مرتبہ یکساں سول کوڈ کے اطلاق پر طویل قانونی بحثیں ہوئی ہیں۔ لیکن بی جے پی کے ’ہندو راشٹر‘ بنانے کے منصوبے کی تکمیل میں ترنگا پرچم کی جگہ بھگوا پرچم، اور یکساں سول کوڈ کا پورے ہندوستان میں اطلاق ابھی باقی ہے۔ اس کے لیے جن ریاستوں سے بی جے پی ابھی الیکشن جیتی ہے وہاں ان قوانین کے اطلاق کے لیے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔
اس حوالے سے رشید الدین روزنامہ اردو ٹائمز میں لکھتے ہیں:
دریچوں تک چلے آئے تمہارے دور کے خطرے | رشید الدین
’’رام مندر، کشمیر کی دفعہ ۳۷۰ اور یکساں سول کوڈ ہمیشہ بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل رہے ہیں۔ رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اور مرکز نے کشمیر کے خصوصی مؤقف سے متعلق دفعہ ۳۷۰ کو پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کیا۔ اب یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی باری ہے۔ اگرچہ یکساں سول کوڈ سے دیگر مذاہب بھی متاثر ہوں گے لیکن اصل نشانہ اسلامی شریعت ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے اور عدالتی فیصلوں کی آڑ میں شریعت میں مداخلت کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگر ملک میں سیکولر اور جمہوری طاقتوں کا کمزور مؤقف جاری رہا اور مسلم قیادتیں بے حسی کا شکار رہیں تو ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے بی جے پی کو کوئی طاقت نہیں روک پائے گی۔ ‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۳۰ مارچ۲۰۲۲ء]
اختتامیہ |
ہندوستان کے مسلمانوں کو موجودہ حالات میں جس سیاسی، معاشی اور سماجی ابتری کا سامنا ہے اور جس طرح انہیں بزور طاقت کچلا جا رہا ہے، مسلمان دانشور اور لکھاری طبقہ بھی الّا ما شاء اللہ اس کی وجہ سے ایک طرح کی مایوسی کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے حل کیا ہے اور انہیں کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے اس حوالے سے روزنامہ سیاست میں ایک کالم نگار ظفر آغا لکھتے ہیں:
کرناٹک کے مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ | ظفر آغا
’’ہندوستان میں اس وقت جو سیاسی حالات ہیں ان کے مد نظر مسلمانوں کے لیے محض وہی حکمت عملی کارگر ہو سکتی ہے جو رسول کریمﷺ نے اپنے مکی دور میں اختیار کی تھی۔ یعنی مکہ میں رسول کریم ﷺ نے دس برس تک اعلان نبوت کے بعد محض صبر سے کام لیا۔یہاں تک کہ رسول پر کوڑا بھی پھینکا گیا لیکن آپ نے اُف بھی نہیں کی۔ ہندوستان کے حالیہ سیاسی ماحول میں مسلمان کے پاس رسولﷺ کے مکی دور کی طرح سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ مشرقی ہندوستان کے مسلمان کو یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے، چنانچہ گروگرام میں پارکوں میں جمعہ کی نماز پر پابندی کے باوجود وہ سڑکوں پر نہیں نکلا اور نہ ہی اس نے بند وغیرہ کیا۔ کرناٹک کے مسلمان کو بھی حجاب کے معاملے میں صبر سے کام لینا ہو گا۔ شرعی یعنی علماء کی قیادت سے سخت گریز کرنا ہو گا۔ اس معاملے میں ایس این ڈی پی جو سیاست کر رہی ہے وہ وہی جذباتی سیاست ہے جو حیدر آباد میں اسد الدین اویسی کرتے ہیں۔ اس سے ایس این ڈی پی کو تو سیاسی فائدہ ہو گا لیکن کرناٹک کا مسلمان آخر میں مارا جائے گا۔ اس لیے کرناٹک سمیت سارے ہندوستان میں مسلمان کو جوش سے نہیں ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔‘‘
[روزنامہ سیاست | ۲۰ مارچ۲۰۲۲ء]
سوال یہ ہے کہ اس قدر ظلم کے سامنے صبر کب تک؟ روزانہ کی بنیاد پر مسلمان قتل ہو رہے ہیں۔ کبھی ہجوم زنی کی زد میں آکر ،کبھی گائے کے ذبیحہ کے الزام میں۔ روزانہ کی بنیاد پر مسلمان عورتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے، کبھی بُلی بائی، سُلی ایپ بنا کر ، کبھی حجاب پر پابندی لگا کر۔ روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کا معاشی استحصال ہو رہا ہے کبھی دکانداروں کو کاروبار سے روک کر، کبھی ان کا بائیکاٹ کر کے کبھی حلال گوشت پر پابندی کا مطالبہ کر کے۔
بی جے پی کی حکومت الیکشن کے بعد اب پہلے سے زیادہ تازہ دم ہو کر مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے اور ہندتوا کے ایجنڈے کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ دس سے زائد ریاستوں میں ’لوْ جہاد‘ کے نام پر تبدیلیٔ مذہب پر پابندی عائد کی گئی اور اب مساجد سے اذان کی آواز بھی انہیں گوارا نہیں ہو رہی اور صوتی آلودگی کے نام پر مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان کے خلاف مطالبے اٹھ رہے ہیں۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمان کب تک اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر تا رہے گا؟
یوں نہ بیٹھے ہوئے خالی ہاتھوں کو مل
گھر بچانا ہے اپنا تو گھر سے نکل
بِن طلب حال رب بھی بدلتا نہیں
بیچ قرآں کے یہ فیصلہ ہے اٹل
آنسوؤں سے بدلتے ہیں حالات کب
وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ پہ چل
٭٭٭٭٭