انڈیا |
مسلمانوں کے خلاف گھناؤنا ہتھیار: بلڈوزر |
امسال رمضان المبارک ہندوستان کے مسلمانوں پر بہت بھاری رہا۔ رمضان کے مبارک مہینے میں مسلمانوں کو خصوصی نشانہ بنانے کے لیے وہی پرانا ہتھکنڈہ آزمایا گیا اور رام نومی اور ہنومان جینتی جیسے مذہبی جلوسوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف تصادم کے واقعات جہانگیر پوری (دہلی)، کرولی (راجستھان)، کھرگون (مدھیاپردیش)، ہولگنڈہ گاؤں (کرنول، آندھرا پردیش) اور لوئر دگا (جھاڑکھنڈ) میں رونما ہوئے۔ ان مذہبی جلوسوں میں یہ قدر مشترک رہی کہ مذہبی جلوسوں کو مسلمانوں کے علاقوں سے گزارا گیا، اور نہ صرف عین افطار کے وقت مسلمانوں کی مساجد کے سامنے اشتعال انگیز نعرہ بازی کی گئی بلکہ مساجد میں گھس کر میناروں پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی ناپاک جسارت بھی کی گئی۔
اس دوران کھرگون (مدھیاپردیش) میں بی جے پی کے لیڈر ’کپِل مِشرا‘ نے کھلے عام نعرے لگوائے ’نہ موسیٰ نہ برہان، صرف جے شری رام‘۔ پولیس جوکہ ہندوؤں کی طرف سے اشتعال دلائے جانے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی، تصادم شروع ہونے کے بعد اس نے سینکڑوں مسلمانوں کو یہ کہہ کر گرفتار کر لیا کہ پتھراؤ مسلمانوں نے شروع کیا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ مدھیا پردیش کے وزیر داخلہ نے دھمکی دی کہ جن گھروں سے پتھر پھینکے گئے ان گھروں کو پتھر کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جائے گا، جس پر بلا تاخیر عمل ہوا اور بڑے پیمانے پر ان تمام جگہوں پر مسلمانوں کے سینکڑوں گھروں اور دکانوں کو ناجائز تعمیرات قرار دے کر بغیر کسی نوٹس کے بلڈوز کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ ان تمام جگہوں پر غریب مسلمانوں کی بڑی آبادیاں ہیں۔ ان واقعات سے ہندوستان کے مسلمانوں میں بے چینی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی، جو پہلے ہی حالات سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس سلسلے میں مختلف کالم نویس کیا کہتے ہیں، اس کی جھلک ملاحظہ ہو:
ہم اسٹون ایج میں پہنچ گئے ہیں؟ | پرویز حفیظ
’’مدھیا پردیش سے مغربی بنگال تک، گوا سے گجرات تک اور راجستھان سے دلی تک، اس بار رام نومی اور ہنومان جینتی کے مقدس تہواروں کے موقع پر ملک کے آٹھ دس صوبوں میں جس طرح دن دہاڑے مسلم بستیوں پر چڑھائی کی گئی، مسجدوں اور مزاروں کاتقدس پامال کیا گیا، لاؤڈ اسپیکر پر زہریلے نعرے لگائے گئے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ جہاں جہاں تشدد بھڑکا، وہاں ایک بات مشترک تھی، جلوس مسجدوں کے سامنے نکالے گئے، بلکہ مسجدوں کے سامنے ان کو روک کر دیر تک طوفان برپا کیا گیا اور متعدد مقامات پر مسجدوں کے گنبدوں پر بھگوا جھنڈے بھی نصب کروائے گئے۔ کیا حکومت، پولیس، عدالت یا میڈیا نے کبھی رام نومی یا ہنومان جینتی کے جلوسوں کے منتظمین سے یہ پوچھنے کی زحمت کی کہ وہ مندروں کی بجائے ان جلوسوں کو مسجدوں کے سامنے لے جانے پر کیوں مصر رہتے ہیں؟……
……دو دہائی قبل گجرات کو ہندتوا کی لیبارٹری بنایا گیا تھا۔ اب اس لیبارٹری کی شاخیں آسام، اترپردیش، راجستھان، کرناٹک اور گوا جیسے صوبوں میں کھل گئی ہیں۔ آج پورا ملک ’گجرات ماڈل‘ کے جلوے دیکھ رہا ہے۔ کبھی حجاب تو کبھی حلال، کبھی اذان تو کبھی جمعہ کی نماز، کبھی رام نومی کا جلوس تو کبھی کشمیر فائلز۔ مذہبی منافرت اور تعصب کی ہانڈی کو مسلسل ابال پر رکھنے کے لیے ہر ہفتے نئے نئے ایندھن فراہم کیے جا رہے ہیں۔‘‘
[روزنامہ اعتماد | ۲۴ اپریل ۲۰۲۲ء]
دہلی حکومت اور شرپسندوں میں کیا فرق ہے؟ | ندیم عبد القدیر
’’ان بلڈوزروں کا پیغام تھا کہ جب بھگوا شر پسند مسلمانوں کے علاقے میں آئیں اور شر انگیزی کریں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فرمانبرداری کے ساتھ ان غنڈوں کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی گردنیں ان بھگوا شرپسندوں کے آگے پیش کر دیں، پھر وہ غنڈے جو چاہے کریں۔ اگر مسلمانوں نے شرپسندوں کو کسی طرح روکنے کی کوشش کی، خواہ وہ کوشش بات چیت کے ذریعے ہی روکنے کی کیوں نہ ہو، تو بھگوا شرپسندوں کا باقی کام دہلی میونسپل کارپوریشن اور دہلی پولیس پورا کریں گے۔ یعنی پہلے جو ظلم غیر قانونی طور پر ہو رہا تھا اگر اسے روکا گیا تو اس کے بعد اس سے ہزار گنا بڑا ظلم قانونی طور پر ہوگا۔ اس میں مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو بلاوجہ منہدم کر دینا اور مسلمانوں کو انتہائی خطرناک قانون کے تحت گرفتار کرنا شامل ہے۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۴اپریل ۲۰۲۲ء]
اس موقع پر جمعیت علمائے ہند نے بلڈوزروں کو رکوانے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضداشت کے ذریعے فوری طور پر انہدامی کاروائیوں کو رکوانے کا نوٹس حاصل کیا۔ جب وہ بلڈوزر مافیا کو دکھایا گیا تو اس کے بعد بھی انہدام کی کارروائی ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی۔ اور جب مندر کی ناجائز تجاوزات کو منہدم کرنے کی باری آئی تو بلڈوزر نے کارروائی روک دی۔
ان حالات میں مسلمان لکھاری حل کے متعلق کیا سوچتے ہیں، چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں | رشید الدین
’’کسی پرندے کے گھونسلے کو نقصان پہنچائیں یا اسے ہٹا دیا جائے تو پرندے جمع ہو کر آوازیں کرتے ہیں، گویا وہ احتجاج کر رہے ہوں۔ لیکن مدھیا پردیش میں مسلمان پرندوں سے بھی گئے گزرے ہو گئے۔ مزاحمت اور احتجاج تو درکنار، سو سے زائد خاندان نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ بزدلی کا لبادہ اوڑھ کر کہاں تک راہ فرار اختیار کرو گے؟ رہنا تو اسی ملک میں ہے، تو پھر مزاحمت کیوں نہیں؟ مرغی، بکری اور بلی جیسے جانور پر ظلم کیا جائے تو وہ اپنے دفاع میں حملہ کرتے ہیں، لیکن ہندوستان کے مسلمان ان سے بھی بدتر ہو چکے ہیں اور مزاحمت کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ ملک کےموجودہ حالات میں ہر مسلمان کے لیے حفاظتِ خود اختیاری اہم ضرورت ہے۔ سرمایہ دار ہو کہ غریب، ہر کسی پر یہ وقت آ سکتا ہے۔‘‘
[روزنامہ سیاست | ۱۷اپریل ۲۰۲۲ء]
پتھراؤ کے نام پر مسلمانوں کے گھر بار منہدم | ناظم الدین فاروقی
’’مسلمانوں کی اندرونی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہر مسلمان اپنے طور اپنے وجود، بقا اور ترقی کی لڑائی لڑے، (fight it out)۔ ہمارے جمہوری آزاد ملک میں ہماری اپنی بقا کے لیے مزاحمت اور مدافعت کی پوری قانونی گنجائش ہے۔ کسی پر ٹیکہ اور بھروسہ کرنا اور کسی کی امیری، صدارت و قیادت پر تکیہ کرنا، سراسر اپنے آپ کو دھوکا دینا اور خودکشی کے مترادف ہے…… مسلمانوں میں اپنے وجود و بقا کا شعور بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ دعوتی کاموں کا نعرہ دینے والے سر آنکھوں پر، لیکن اب تو امت کے تحفظ اور بقا کی لڑائی کا ہر سطح پر آغاز ہو چکا ہے۔ دیندار، سیکولر اور عام مسلمان طبقے کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی جماعتوں، گروہی اور مسلکی اختلافات سے اونچا اٹھ کر دستور کے دائرے میں امت کے تحفظ و بقا کی لڑائی میں شامل ہو جائیں۔ دستوری و آئینی حقوق کو پامال ہونے سے بچا لیں۔‘‘
[روزنامہ اعتماد | ۱۷اپریل ۲۰۲۲ء]
ان حالات میں بعض لکھاری مسلمانوں کو بے عملی اور فرار کا راستہ بھی دکھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
ایک نئے سفر کے لیے کمر باندھ لیجیے | ظفر آغا
’’اسلام نے تو ایسے حالات میں ہجرت کی تلقین کی ہے۔ خود رسول کریم ﷺ پر جب اپنے وطن مکہ میں عرصہ حیات تنگ ہو گیا تو انہوں نے مدینہ ہجرت کی۔ اس طرح نہ صرف انہوں نے اپنی جان بچائی بلکہ اشاعت ِ اسلام کا راستہ بھی نکال لیا۔ اس لیے ہندوستانی مسلمان کے پڑھے لکھے طبقہ کو ہجرت اختیار کرنی چاہیے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا اس وقت دو ایسے ملک ہیں جہاں بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کو پناہ مل سکتی ہے……
……الغرض ہندوستان کی ناگفتہ باہ بے بسی کے حالات میں ہجرت کا راستہ اختیار کرنے میں ہی عقل مندی ہے۔‘‘
[روزنامہ سیاست | ۱۷اپریل ۲۰۲۲ء]
بے جا گرفتاریوں سے مسلمانوں کو تباہ نہیں کر سکے تو اب بلڈوزر کا استعمال | فاروق انصاری
’’اس وقت ملک کے جو حالات بن چکے ہیں، تو سیدھا سیدھا ہندو مسلم ٹکراؤ کی بات سامنے آ رہی ہے۔ مسلمان تو ہرگز یہ نہیں چاہتا، کیونکہ وہ ہمیشہ سے پرامن زندگی گزارتا آیا ہے۔ اسی میں وہ بھلائی اور عافیت سمجھتا ہے۔ لیکن اگر پانی سر سے اونچا ہو جائے گا تو سر پر کفن باندھنے کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا۔ اس لیے ہندتوا کی علم بردار تنظیمیں یہ سمجھ لیں کہ بھارت ایک عظیم اور اٹوٹ ملک ہے۔ قومی یکجہتی، رواداری، آپسی ہم آہنگی اور بھائی چارہ اس ملک کی تہذیب و وراثت ہے۔ اس سے کھلواڑ کرنے کی کوشش نہ کی جائے……
……حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ وہ ان تمام سازشوں میں ناکام ہی رہیں گے، وقتی طور پر مسلمانوں کو تکلیف ضرور ہو گی، لیکن ہمیشہ یہ حالت نہیں رہے گی۔ کیونکہ آج بھی اس ملک کی اکثریت انصاف پسند، حق پرست اور مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو بھی صبر سے کام لینا ہے۔ ابھی سر پر کفن نہ باندھیں، بلکہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کریں۔ وہی ہم سب کا محافظ و نگہبان ہے۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۳اپریل ۲۰۲۲ء]
انڈیا |
مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں پر پابندی کا مطالبہ |
جس عرصے میں کرناٹک میں ’حجاب‘ اور ’حلال‘ پر پابندی لگانے کی مہم چل رہی تھی اُسی عرصے میں ریاست مہاراشٹر میں اور خاص طور پر ممبئی میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔ جس کا مطالبہ جلد ہی دیگر ریاستوں میں بھی ہونا شروع ہو گیا۔
مغربی ریاست مہاراشٹر کی اہم پارٹی ’مہاراشٹر نونرمان سنارتھی‘ (ایم این ایس) کے سربراہ راج ٹھاکرے نے یہ دھمکی دی کہ اگر لاؤڈ اسپیکر پر اذان بند نہ کی گئی تو ان کے کارکنان ۳ مئی کو مسجدوں کے باہر لاؤڈ اسپیکر پر زور زور سے ہنومان چالیسیا1 بجائیں گے۔ راج ٹھاکرے نے عین ماہ رمضان میں اس تنازع کو ہوا دی اور عملی طور پر کئی علاقوں میں مساجد کے سامنے ہنومان چالیسیا بجایا گیا، جبکہ پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔
اس دوران ناسک ڈویژن کے پولیس کمشنر ’دیپک پانڈے‘ نے ہنومان چالیسیا کے بارے میں ہدایات جاری کیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے لیے پولیس کی پیشگی اجازت ضروری ہے، اس کے علاوہ مسجد سے سو میٹر کے اندر اور اذان سے دس منٹ پہلے اور دس منٹ بعد تک ہنومان چالیسیا کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس اعلان کے چند دن بعد اس پولیس کمشنر کا تبادلہ کر دیا گیا۔
اس سلسلے میں بہت سی ریاستوں میں مسلمانوں پر سپریم کورٹ کے صوتی آلودگی کے فیصلے کو لاگو کیا گیا جس کے تحت ایک سے زیادہ لاؤڈ اسپیکر رکھنے پر پابندی اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز انتہائی مدھم رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس سلسلے میں مختلف کالم نویس کیا کہتے ہیں، اس کی جھلک ملاحظہ ہو:
کیا انہی مظالم کو رام راج کہتے ہیں؟ | رشید الدین
’’سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کو متحرک کرتے ہوئے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے۔ نماز کے اوقات کے وقت مساجد کے باہر ہنومان چالیسیا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ مساجد پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات منظرِ عام پر آئے لیکن نظم و نسق نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ لاؤڈ اسپیکرکے خلاف ۲۵۰ سے زائد مساجد کو نوٹس جاری کیا گیا اور آواز پر کنٹرول کرنے والے آلات نصب کیے جا رہے ہیں۔ صوتی آلودگی کے نام پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ عدالت کا فیصلہ صرف مساجد کے لاؤد اسپیکر تک محدود نہیں۔ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں سے بھی لاؤڈ اسپیکر کو اتارنا ہوگا۔ مذہبی جلوسوں اور تہواروں کے موقع پر شہروں اور دیہاتوں میں کئی دن تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر کرناٹک حکومت خاموش کیوں ہے؟‘‘
[روزنامہ سیاست | ۱۰ اپریل ۲۰۲۲ء]
عدم رواداری اس ملک کو کہاں تک لے جائے گی؟ | صفدر امام قادری
’’سیاسی میٹنگیں، بڑے بڑے جلسے جلوس اور مکھیا سے لے کر وزیر اعظم تک کی فتح یابی کے موقع پر جس طرح لاؤڈ اسپیکر، باجے گاجے اور ڈی جے، آرکیسٹرا کی دھوم مچائی جاتی ہے، ان مواقع کی صوتی آلودگی اگر جاری کر دی جائے تو ہماری آنکھیں کھل جائیں۔ ان سب کے ساتھ اگر ہندوستان بھر کی مسجدوں سے دی جانے والی پانچ وقت کی اذانوں سے جتنی صوتی آلودگی ہوتی ہے، اس کا مقابلہ کر لیا جائے تو شاید سب سے کم آلودگی کا ذریعہ اذان ہی ثابت ہو گی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کہیں ایک منٹ، کہیں دو منٹ، اور کہیں تین منٹ میں یہ اذان اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ لاکھوں مسجدوں میں اب بھی لاؤڈ اسپیکر نہیں ہیں۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۸ مئی ۲۰۲۲ء]
حجاب، حلال، اذان پر واویلا، سرکاری پشت پناہی جاری | جاوید جمال الدین
’’مسلمانوں کو صوتی آلودگی کے خلاف خود اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ایک اچھے شہری کی شناخت یہی ہے۔ مسجدوں میں بے دریغ لاؤڈاسپیکر کا استعمال عام ہے، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ مسلمانوں میں خود احتسابی کے سبب بیداری پیدا ہونا چاہیے۔ اس لیے اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو قبل از وقت ہو گا۔ اس سے پہلے کہ کسی کو موقع ملے اور سرکار کوئی قدم اٹھائے، اس لیے اس ضمن میں کوشش کرنی چاہیے۔ عام طور پر یہ ذہن نشین کرنا ہو گا کہ ملک کے ’اکثریتی فرقے‘ کو اعتماد میں لینا ہو گا، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ انتظامیہ اور پولیس تو غیر اعلانیہ طور پر سرگرم ہو چکے ہیں۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۱۰ اپریل ۲۰۲۲ء]
مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر کے تعلق سے جذباتی بیان سے گریز کریں | فاروق انصاری
’’لاؤڈ اسپیکر کا مسئلہ خالص سیاسی مسئلہ ہے اور کچھ نہیں۔ اس لیے کسی کو چیلنج کرنا اور اس عنوان پر جذباتی ہو جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اللہ ہے، جب تک وہ نہ چاہے ہمارا کوئی بال بھی بانکا نہیں کر سکتا۔ اس لیے چپ چاپ نماز پڑھیے اور اللہ سے دعا کیجیے، کیونکہ دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۲ اپریل ۲۰۲۲ء]
واضح رہے کہ ایک طرف مہاراشٹر کے مسلمانوں نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق فجر کی اذان لاؤڈ اسپیکر پر نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اور ہزاروں مساجد کے منتظمین نے اجازت نامے کے حصول کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ہزاروں مندروں میں صبح فجر کے وقت روزانہ ہنومان چالیسیا کا پاٹھ کیا جا رہا ہے۔
انڈیا |
مسلمانوں کے حق میں شاز ہندو آوازیں |
اگرچہ ہندو دانشوروں اور لکھاریوں کی اکثریت ہندتوا موقف کی حمایت میں ہی لکھ رہی ہے لیکن ان کے درمیان کچھ شاز ہندو لکھاری ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔
اس حوالے سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
فرقہ پرستی کے خلاف ’آواز‘ اٹھانے کی ضرورت | پروفیسر اپودوانند
’’آج تمام ہندوستانیوں کو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ مسلمانوں پر کیے جانے والے تشدد اور ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی مذمت کرنے میں ہچکچاتے ہیں، تو پھر آنے والے دنوں میں اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا ہو گا۔ مستقبل میں اس کے جو اثرات مرتب ہوں گے، اس کی زد میں جہاں تشدد برپا کرنے والے آئیں گے وہیں خاموشی اختیار کرنے والے بھی اس کا شکار بنیں گے۔ آج تمام ہندوستانیوں کو ضمیر کی آواز پر آگے بڑھتے ہوئے فرقہ پرستوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ ہندتوا کی سیاست یقیناً ہندوستانی مسلمانوں اور عیسائیوں کی بقا کے لیے تباہ کن ہے۔ جہاں تک ہندتوا کا سوال ہے، یہ ایک انتہائی قدیم نظریاتی پراجیکٹ ہے، جو مسلم دشمن اور عیسائی دشمن ہے۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو عام ہندوستانی ہندو اس کا نشانہ ہے……
……مسلمانوں کی تضحیک کرتے ہوئے، ان کا استحصال کرتے ہوئے یا انہیں قتل کرتے ہوئے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ ایک اچھا ہندو بنے گا تو وہ اس کی غلط فہمی ہے۔ مذہب کے نام پر ایک مسلمان یا عیسائی کی زندگی کو ختم کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ کیونکہ اس ملک کے دستور نے انہیں حقِ زندگی عطا کیا ہے اور وہ جس طرح چاہیں اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ بحیثیت شہری انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی ہندو کو حاصل ہیں۔‘‘
[روزنامہ سیاست | ۲۴ اپریل ۲۰۲۲ء]
فرقہ وارانہ سیاست کے سبب ہندوستان میں تیزی سے اسلامو فوبیا بڑھ رہا ہے | رام پنیانی
’’گزشتہ کئی دہائیوں سے مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر سے اذان دی جاتی رہی ہے، اب مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے نے اسے ایشو بنا لیا ہے۔ تری پورہ میں ایک بی جے پی لیڈر نے سرکاری گرانٹ سے چل رہے مدرسوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان کے مطابق مدرسوں سے دہشت گرد پڑھ کر نکلتے ہیں۔ گجرات حکومت درجہ ۶ سے۱۲ تک طلبہ کے لیے ’بھگوت گیتا‘ کو نصاب میں شامل کر رہی ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی ۲۰۲۱ء سے لے کر دسمبر ۲۰۲۱ء تک نفرت پھیلانے والی ۵۹ تقریریں کی گئیں، لنچنگ سمیت تشدد کی ۳۸ وارداتیں ہوئیں، ۲۱ مذہبی مقامات پر حملے ہوئے، ۲ اشخاص پولیس حراست میں مارے گئے اور پولیس کے ذریعے مظالم اور سماجی تفریق کے بالترتیب ۹ اور ۶ معاملات سامنے آئے۔ یہ سب اقلیتوں کے خلاف نفرت کے ماحول کا نتیجہ ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومتِ ہند کو اقوامِ متحدہ کے ۱۵ مارچ کو یومِ ’کامبیٹ اسلاموفوبیا‘ کی شکل میں منائے جانے پر اعتراض کیوں تھا۔‘‘
[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۱ اپریل ۲۰۲۲ء]
کشمیر |
مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش |
کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی سربراہی میں قائم کیے گئے حد بندی کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ اس حلقہ بندی کے تحت کُل ۷ نئی نشستوں کا جموں و کشمیر میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جس میں ہندو اکثریتی جموں میں چھ نشستوں کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مسلم اکثریتی کشمیر میں، جس کی آبادی جموں سے کہیں زیادہ ہے، صرف ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نئی نشستوں میں نہ صرف کشمیر کو چھوڑ کر جانے والے پنڈتوں کی نمائندگی کے لیے ۲ نشستیں مختص کی گئی ہیں بلکہ ۱۹۴۷ء میں کشمیر آنے والے ہندوستانی فوجیوں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔ اس طرح نئی حد بندیوں سے ۵۶ فیصد آبادی کے تناسب والے مسلم اکثریتی کشمیر کو قانون ساز اسمبلی میں ۵۲ فیصد نمائندگی ملے گی جبکہ ۴۴ فیصد آبادی کے تناسب والے ہندو اکثریتی جموں کو قانون ساز اسمبلی میں ۴۸ فیصد نمائندگی ملے گی۔ اس میں بھی کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے باوجود ہندو نمائندگی بڑھانے کے لیے جموں کے پونچھ اور راجوڑی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے ساتھ جوڑ کر پیر پنجال کا نیا حلقہ بنایا گیا ہے جسے کشمیر میں شامل کیا گیا ہے۔ بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد اب جلد انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے ہزاروں کی تعداد میں ہندوؤں کو انڈیا کے مختلف علاقوں سے یہاں آباد کر کے انہیں کشمیری شہریت دی گئی ہے۔ اس طرح سے بی جے پی کشمیر کو مسلم اکثریتی سے ہندو اکثریتی خطہ بنانے کے اپنے ایجنڈے پر تیزی کے ساتھ کارفرما ہے۔
کالم نگار رشید الدین نے اسے مسلمانوں کی سیاسی نسل کشی کہا ہے۔ روزنامہ سیاست میں اپنے کالم میں وہ لکھتے ہیں:
کشمیر…… نئی حد بندی، مسلم اکثریتی موقف خطرے میں | رشید الدین
’’کشمیر کی سیاسی اور عوامی قیادت کو کمزور کرنے کے بعد اسمبلی حلقوں کی ازسرنو حد بندی کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیشن قائم کیا گیا۔ کمیشن نے رہی سہی کثر ختم کرتے ہوئے کشمیر کے اسمبلی حلقہ جات کو مسلم کے بجائے ہندو اکثریتی حلقوں میں تبدیل کرتے ہوئے بی جے پی کی کامیابی کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔……
……دستور میں دی گئی مراعات کا مقصد کشمیر یوں کی دلجوئی اور ترقی کی راہ ہموار کرنا تھا لیکن مودی حکومت نے آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کیا۔ دفعہ۳۷۰ کی برخواستگی کے بعد اسمبلی حلقوں کی حد بندی دراصل کشمیریوں کی سیاسی مسلم کشی ہے۔ پہلے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور اب اسمبلی نشستوں پر غلبہ ختم کر دیا گیا۔ ۳۷۰ کی برخواستگی کو اگست میں تین سال مکمل ہو جائیں گے لیکن کشمیریوں کے حق کے لیے کوئی ٹھوس آواز نہیں اٹھی۔‘‘
[روزنامہ سیاست | ۸ مئی ۲۰۲۲ء]
پاکستانی انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے اداریے میں اسے بی جے پی کی طرف سے اپنی مرضی کے نئے ’زمینی حقائق‘ پیدا کرنے کی کوشش کہا ہے۔ روزنامہ ڈان کے اداریے سے ایک اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
IHK Constituencies | Editorial
’’بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے آبادیاتی نقشے کو تبدیل کرنے کے اقدامات جاری ہیں، نئی دہلی نے نئی حلقہ بندیوں میں متنازع خطے کے ہندو علاقوں کو زیادہ نشستیں دی ہیں۔ لیکن جیسا کہ اس اقدام کے ناقدین نے نشاندہی کی، اس طرح کے اقدامات غیر عادلانہ تقسیم پر مبنی ہیں، جس سے ہندوستان میں برسر اقتدار بی جے پی کو مقبوضہ خطے میں نئے ’زمینی حقائق‘ پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔……
……یہ واضح ہے کہ نئی دہلی کی حکومت کشمیر کی مسلم اکثریت کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، انتخابی حلقوں کی دوبارہ ترتیب سے ہندوستان کو مقامی انتخابات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملے گی، جس سے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مسلم اکثریت کم ہو گی۔ اپنی مرضی کی قانون ساز اسمبل سے ہندوستان کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی آہنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔……
……یہ ۲۰۱۹ء میں ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت کی منسوخی کا فطری نتیجہ لگ رہا ہے۔ اس تباہ کن اقدام کے شاخسانہ کے طور پر، ہندوستان نے تدریجی طور پر کشمیر کی منفرد ثقافت اور شناخت کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ سنگین اقدامات متنازعہ علاقے سے باہر کے لوگوں کو شہریت دینے کی اجازت دیتے ہیں، جس سے ان کے لیے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ کشمیریوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہوئے، ہزاروں نے تیزی سے شہریتیں حاصل کی ہیں۔
اس لیے حلقہ بندیوں میں کی گئی یہ گڑبڑ، ایک اور قابل مذمت اقدام ہے جس کا مقصد ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی خود سے گھڑنا ہے۔‘‘
[The Dawn | ۷مئی ۲۰۲۲ء]
کالم نگار حسیب احمد نے حد بندی کمیشن کے طریقہ کار کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔ انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں ان کے کالم سے ایک اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
Delimitation Commission fails people of J&K, hurts democracy | Haseeb A. Drabu
’’یہ واحد حد بندی کمیشن ہے جس نےانتخابی حلقہ بندیوں کی ترتیبِ نو کو حد بندی ایکٹ ۲۰۰۲ء کے مطابق نہیں کیا، جس کے تحت اسے تشکیل دیا گیا تھا۔ نشستوں کی کل تعداد اور ان کی تقسیم کا فیصلہ مردم شماری کے مطابق کرنے کے لیے اس ایکٹ کی شق ۸(بی) پر عمل کرنے کی بجائے، کمیشن نے جموں و کشمیر تنظیمِ نو ایکٹ ۲۰۱۹ء کے سیکشن ۶۳ پر عمل کیا ہے، جس کے تحت ناصرف ووٹروں کی تعداد کا تعین ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق کیا گیا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ نشستوں کی تعداد کو ۸۳ سے بڑھا کر ۹۰ کر دیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے، ۲۰۱۹ء میں اس کی آئینی اور قانونی یکسانیت کیے جانے کے باوجود، ایسا کرنے سے جموں و کشمیر کی حیثیت معمول سے ہٹی ہوئی ہی ہے۔……
……یہ ملک کی قانون سازی کی تاریخ کا پہلا حد بندی کا حکم نامہ ہوگا جو اُس ’یونین ٹیریٹری‘ کی قانون ساز اسمبلی کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا جس کی حد بندی کی گئی ہے۔
حد بندی کمیشن کی سفارشات میں، ان کی حیثیت ایک فرمان کی ہوتی ہے، پارلیمنٹ یا متعلقہ قانون ساز اسمبلی کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کر سکتی، لیکن اسے حکم نامہ کی شکل دینے سے انہیں جمہوری حق حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن جموں وکشمیر کے معاملے میں، جموں و کشمیر کے منتخب قانون دان کے پاس یہ موقع نہیں ہو گا کہ وہ اپنی نمائندگی کے قوانین کی منظوری دے سکیں۔‘‘
[The Indian Express | ۶ مئی ۲۰۲۲ء]
پاکستان |
سابق وزیر اعظم اور توشہ خانہ اسکینڈل |
پاکستان میں ماہِ رمضان المبارک سیاسی اتھل پتھل کا شکار ہوگیا۔ برسر اقتدار لوگ سڑکوں پر آگئے اور سڑکوں پر پھرنے والے صاحبِ اقتدار ہو گئے۔ ’مجھے کیوں نکالا‘ کا سیاسی بیانیہ ’مجھے یوں نکالا‘ میں تبدیل ہو گیا۔ لیکن خدا برا کرے ان سیاستدانوں کا کہ ماہِ رمضان کے تقدس کا بھی خیال نہیں کیا۔ جلسے، جلوسوں، سیاسی ہلڑ بازی اور ایک دوسرے پرکیچڑ اچھالنے میں سوشل میڈیا پر ہر وقت جتے ہوئے بے کار نوجوانوں کا ہجوم تو تھا ہی، ملک میں شہریوں کا بھی وقتِ عبادت غارت ہوا۔ عوام کے لیے آخری عشرہ بھی سیاسی افراتفری کی نذر ہو گیا۔ حالت یہ ہے کہ روضۂ رسول ﷺ کے احاطے میں مسجد نبوی کے اندر بھی ادب و تمیز کو بالائے طاق رکھ کر شدید ترین اخلاقی انحطاط کا ثبوت دیا گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دربار میں حاضر ہو کر بھی فحش گالیاں اور نعرے بازی کی گئی، جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ دیندار طبقہ تو ایک طرف، اس حرکت پر تو سیکولر طبقے تک کو غیرت آگئی اور انہوں نے بھی سخت مذمت کی۔
عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے قبل ہی ایک ایک کر کے اس کے مختلف اسکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان میں سر فہرست توشہ خانہ اسکینڈل ہے۔ توشہ خانہ مغلوں کے دور میں ہندوستان میں بنا تھا۔ اس میں بادشاہ کو ملنے والے تحائف رکھے جاتے تھے۔ یہ توشہ خانہ کی روایت ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہوتے ہوئے پاکستان میں بھی منتقل ہوگئی۔ پاکستان میں بھی شروع میں یہی روایت تھی۔ بیوروکریٹس سے لے کر صدور تک کو ملنے والے تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع ہو جاتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس اصول میں تبدلی آگئی اور توشہ خانہ کے اہلکار تحائف کی قیمت کا تخمینہ لگاتے اور پھر اس کی قیمت کا ۲۰ فیصد خزانے میں جمع کروا کر تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے ذاتی استعمال میں لے آتا۔ اس طرح پاکستانی حکمرانوں نے اس معاملے میں بھی بدنیتی اور سرکاری تحفوں کو اپنی جاگیر بنانا شروع کر دیا۔
عمران خان کی ’امانت داری‘ اور اخلاقی حیثیت پر بھی اُس وقت سوال اٹھا جب عمران خان کو ۲۰۱۸ء میں سعودی ولی عہد سے چار انتہائی بیش قیمت تحائف ملے۔ جن میں گراف (Groff)2 کی گھڑی، دو ہیرے جڑے کف لنکس، سونے کا پین اور ایک انگوٹھی تھی۔ چاروں تحائف کی کل مالیت کا تخمینہ دس کروڑ ۹۲ لاکھ روپے لگایا گیا۔ عمران خان نے ان تحائف کا کم تخمینہ لگوا کر انہیں دبئی مارکیٹ میں دگنی قیمت پر فروخت کروا دیا، جو کہ ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت تھی۔ چونکہ گراف کی گھڑی بازار میں بیچی نہیں جا سکتی اور اسے شاہی خاندان کے علاوہ کوئی اور نہیں خرید سکتا، اس لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس گھڑی کی دگنی قیمت ادا کر کے یہ گھڑی واپس خرید لی۔
ماضی میں مزید اس طرح کے واقعات بھی ہوئے کہ خاتونِ اوّل کو ملنے والے قیمتی تحائف بشریٰ بی بی نے اپنی ملکیت میں لے لیے۔ ماضی کی حکومتیں بھی اس طرح کی لوٹ مار کرتی آئی ہیں اور عمران خان جو اخلاقیات کے بلنگ و بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے، انہوں نے بھی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کی۔
توشہ خانہ گزشتہ ماہ پاکستانی اخباروں اور میڈیا میں کافی زیر بحث رہا۔ اس حوالے سے چند قلمکاروں کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
توشہ خانہ | جاوید چودھری
’’قائداعظم کے بعد عمران خان دوسرے لیڈر تھے جنہیں عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی اتنی سپورٹ ملی۔ لیکن افسوس انہوں نے ملک کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو انہوں نے گراف کی گھڑی کے ساتھ کیا۔ لہٰذا آج اگر ان سے گھڑی کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ مسکرا کر کہتے ہیں، گھڑی میری تھی، میں نے بیچ دی۔ اور ملک کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہوتا ہے۔ میرا ملک تھا، میں اسے عثمان بزدار کے حوالے کرتا یا محمود خان کے، آپ پوچھنے والے کون ہوتے ہیں؟ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا اس آرگومنٹ کا کوئی جواب ہو سکتا ہے؟ اگر ہاں تو یہ جواب کون دے گا؟ میرا خیال ہے قومِ یوتھ کے علاوہ اس منطق کو کوئی سمجھ سکتا ہے اور نہ بیان کر سکتا ہے۔‘‘
[۲۰ اپریل ۲۰۲۲ء]
ترک ہار سے گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف تک | خالد مسعود خان
’’جب غیر ملکی دوروں پر حسبِ روایت سربراہانِ مملکت اور ان کے ہمراہ جانے والے وفد کے ارکان کو ملنے والے تحفوں کا معاملہ پرویز مشرف، شوکت عزیز، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف سے متعلق تھا، تب عمران خان کا مؤقف تھا کہ غیر ملکی دوروں کے دوران پاکستانی حکمرانوں کو ملنے والے تحفے ریاستِ پاکستان کے نام پر ملتے ہیں اور ان کو ہر حال میں ریاست کی ملکیت توشہ خانہ میں جمع ہونا چاہیے۔ تب خان صاحب اور ان کے ترجمانوں کا فرمانا تھا کہ توشہ خانے میں جمع شدہ سرکاری تحائف کو خود طے کردہ قیمتوں پر اونے پونے خریدنا اخلاقیات اور ایمانداری کے تقاضوں کے بالکل منافی ہے اور کرپشن کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ لیکن یہ تب کا مؤقف تھا جب عمران خان خود اپوزیشن میں تھے اور پاکستان کے حکمرانوں پر کرپٹ ہونے کے کوڑے برسایا کرتے تھے۔ اب جب معاملہ ان پر آن پڑا ہے تو سارے پیمانے ہی بدل گئے ہیں۔‘‘
[۱۹ اپریل ۲۰۲۲ء]
توشہ خانہ میں اخلاقیات کا جنازہ | محمود شام
’’توشہ خانہ ہماری اخلاقیات کی ایک کسوٹی بن گیا ہے۔ کتنی دیانت ہے؟ یہ تحائف قوم کی امانت ہوتے ہیں، اس لیے قومی خزانے اور توشہ خانے میں جمع ہونے چاہئیں۔ جن لوگوں نے بھی سستے داموں یہ قیمتی قومی تحائف خرید کر اپنے پاس رکھے یا بیچے یا توشہ خانے میں جمع ہی نہیں کروائے، وہ خائن ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ انہیں فروخت کرکے کچھ بھی کروایا گیا ہو، یہ جواز نہیں بنتا۔ تحائف دینے والی متعلقہ قوموں تک ہمارے اخلاق کے بارے میں اچھا پیغام نہیں جاتا۔‘‘
[۲۴ اپریل ۲۰۲۲ء]
1 ہنومان چالیسیا ہندوؤں کے بھگوان ہنومان کی تعریف میں لکھا گیا چالیس مصرعوں کا ایک کلام ہے جسے مقدس پاٹھ یا منتر کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
2 گراف سوئزر لینڈ کی ایک کمپنی ہے جو صرف شاہی خاندانوں کے لیے ہیرے جواہرات جڑی خصوصی مصنوعات بناتی ہے۔ یہ مصنوعات صرف شاہی خاندانوں کے استعمال کے لیے بنتی ہیں اور انہیں مارکیٹ میں نہیں لایا جاتا۔