حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخر میں وعظ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’لوگو تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیے ہیں اور اس کی رات کا قیام نفل ہے، جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دنوں میں فرض ادا کیا جائے، اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت اور درمیان مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب)
رمضان المبارک ہم مجاہدین لیے اپنی انفرادی اصلاح کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ چنانچہ چند گزارشات پیش خدمت ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق سے نوازے، آمین۔
تجدیدِ نیت
سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم اپنی نیت خالص کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عہد باندھیں کہ صرف رمضان ہی نہیں بلکہ بقیہ سال بھر بھی اللہ کی اطاعت سے انحراف نہیں کریں گے۔ رمضان شروع ہونے سے پہلے نیت نہیں کرسکے تب بھی کوئی بات نہیں۔ اس وقت ’ایمان اور احتساب‘ کے ساتھ بقیہ دن گزارنے کی نیت کرلینی چاہیے۔
تزکیۂ نفس کا درست اسلوب
تزکیۂ نفس کا صحیح اسلوب تو وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو۔ کیونکہ دین کی تکمیل ہوچکی ہے اور اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں تمام فلاح پوشیدہ ہے اور اس کا اچھا ذریعہ اہلُ اللہ کی صحبت ہے۔
اپنا محاسبہ کیجیے
اللہ تعالیٰ تو علیم وبصیر ہے۔ وہ ہر کھلے اور چھپے راز سے واقف ہے، تاہم دنیا میں انسان کا سب سے بڑا محرم خود اس کی اپنی ذات ہی ہے۔ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ …… لہٰذا اپنی خامیوں کی فہرست تیار کریں اور عزمِ مصمم کریں کہ ان شاء اللہ اسی رمضان کے اندر ان سے چھٹکارا پانا ہے۔ کیونکہ انسان کو گناہ پر مائل کرنے والی دو ہی چیزیں ہیں۔ ایک اس کا نفس امارہ اور دوسرا شیطان الرجیم۔ اور احادیث میں تصریح ہے کہ رمضان میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں لہٰذا اب صرف نفس کی تحریض ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اسے بھی روزہ اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر قوت نہیں رہتی۔
لہٰذا اگر آپ رمضان میں اپنی خامیوں سے جان نہیں چھڑا سکے تو پھر کبھی بھی نہیں چھڑا سکیں گے، الا ان یشاء اللّٰہ۔ چنانچہ ابھی سے عزم کریں کہ اپنی خامیوں کو دور کرنا اور خوبیوں کو مزید بڑھانا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص غیبت جیسی قبیح عادت میں مبتلا ہے تو اس کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی زبان کو قابو کر سکے۔ یاد رہے کہ غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نیز اسے زنا سے بدتر ٹھہرایا گیا ہے۔ لہٰذا غیبت کرنے والا فرد اس گناہ کے گھناؤنے پن کا تصور کرکے اس کو چھوڑنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
ہم غیبت کیوں کرتے ہیں؟ بالعموم محض اپنی زبان کا چسکا پورا کرنے کے لیے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ غیبت دراصل زبان کی شہوت ہے۔ بسا اوقات غیر ضروری اور لایعنی گفتگو کرتے رہنے کی عادت بھی غیبت میں ڈھل جاتی ہے۔ کیونکہ موضوعِ گفتگو تو بہرحال چلتے ہی رہناچاہیے نا……! بہتر یہ ہے کہ ہم رمضان میں اپنی یہ عادت بنائیں کہ کوئی لایعنی بات زبان سے نہیں نکالنی، دوسرے لفظوں میں ہمیں تقلیلِ کلام کو اپنانا ہوگا۔ غیبت دوسرے مسلمان کی غیر موجودگی میں اُس کا ایسا ذکر ہے جو اس کے سامنے کیا جائے تو اسے برا لگے۔ غیبت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر کیا ہی نہ جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری…… آزمائش شرط ہے۔
غیبت تو خیر بہت بڑا گناہ ہے، ہمیں تو بحیثیت مسلمان آفات اللسان کی ہر شکل سے خود کو بچانا چاہیے۔ اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ کم از کم رمضان کی حد تک تو یہ طے کر ہی لیں کہ کم سے کم گفتگو کرنی ہے اور ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالنی جو آخرت کی میزان میں حسنات کے پلڑے میں نہ ڈالی جاسکے۔
غیبت ہی کی طرح ایک دوسری خطرناک بیماری جس کی طرف آج کل کے معاشرے میں بہت کم دھیان دیا جاتا ہے، وہ ہے بدنظری۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس بری بلا سے بچائے۔ بدنظری چاہے دانستہ ہورہی ہو یا نادانستہ طور پر، بہرحال بعض اوقات نیک لوگ بھی یا یوں کہہ لیں کہ بظاہر متشرع وضع رکھنے والے بھی اس روگ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس سے بچنے کا حقیقی نسخہ تو یہی ہے کہ آدمی محض اتنا تصور کرلے کہ جب میں بدنظری کے گناہ سے اپنی آنکھیں گندی کررہا ہوں، تو کیا آخرت میں انہی آنکھوں سے دیدارِ الٰہی سے مشرف ہو سکوں گا۔ سبحان اللہ! کہاں یہ فانی حسن اور کہاں جمالِ الٰہی!
یہ بات تو شاید آپ نے کہیں پڑھی ہوگی کہ محرمات کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرنے والے کو عبادات میں حلاوت نصیب ہوتی ہے۔ کاش لوگ نگاہوں کی چوری کرتے ہوئے اتنا سوچ لیں کہ کیا وہ اپنے والدین کے سامنے ایسی حرکت کرسکتے ہیں؟ اور یقیناً کوئی حیادار آدمی ایسا نہیں کرسکتا۔ تو پھر اس رب کریم سے حیا کیوں نہیں آتی؟ بہرحال بدنظری سے بچا جاسکتا ہے، بازاروں میں اپنی آمدورفت کم سے کم کرکے اور (ہرقسم کے) غیر محرموں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اجتناب کرکے۔ کوشش کریں کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ اوقات مسجد میں گزاریں یا پھر اہلُ اللہ، بزرگ صالحین کی صحبت میں۔ اور چونکہ رمضان، شھرِ قرآن ہے، لہٰذا اسے قرآن مجید ہی کی معیت میں گزارا جائے۔
یاد رکھیں! اس وقت دنیا میں دینِ حق پر حقیقتاً عمل کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور حقیقی اہلِ ایمان ’غرباء‘ ہوچکے ہیں، ان میں سے بھی اَغْرَبُ الْغُرْبَاء وہ ہیں جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر راہ جہاد میں گامزن ہیں۔ اور ہم یہی چاہ رہے ہیں کہ ہمارا شمار بھی اسی طائفۂ منصورہ میں سے ہوجائے۔ بنا بریں ہمارے لیے اشد ضروری ہے کہ اپنے شب و روز قرآن کے سائے میں گزاریں۔ مسلمان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ اس لیے رمضان المبارک میں ہم اپنے معمولات کو بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ ایک ایسا مہینہ جب نوافل، فرض کے درجے میں اور فرائض کا اجر ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے تو پھر کون بدنصیب ہے جو رحمت باری سے محروم ہونا چاہے گا۔
؏یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
چنانچہ دن بھر کے معمولات کی ترتیب بناکر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ تفصیلی منصوبہ بندی تو ہر بھائی اور بہن اپنے حالات کی مناسبت سے کرسکتے ہیں لیکن ایک سرسری خاکہ پیش خدمت ہے:
قیام اللیل:
رمضان میں قیام اللیل عام دنوں سے زیادہ آسان بھی ہے اور زیادہ فضیلت والا بھی۔ اگر کوئی ہمت پاتا ہو تو رات کا تیسرا پہر افضل وقت ہے۔ لیکن کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ سحری سے کچھ دیر پہلے اٹھ کر آٹھ نوافل ادا کرلیے جائیں۔ قیام اللیل میں قرآن کی تلاوت کا لطف تو وہی جانتا ہے جسے اس کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ جتنی سورتیں زبانی یاد ہیں پڑھ ڈالیے۔ جتنا پڑھیں، تدبر کے ساتھ اور اس احساس کے ساتھ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی نصیب ہورہا ہے۔ کیا خبر کہ اس عمل کی برکت سے ہم بھی ’وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ‘ والوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں۔
لیکن قیام اللیل پر عامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تراویح سے فارغ ہونے کے بعد بلاتاخیر سوجائیں۔ اگر عام دنوں میں ہم عشاء کے بعد بھی تادیر جاگنے کے عادی ہیں، لیکن خدارا! کم از کم رمضان میں ہی اس ’خلافِ سنت‘ عادت کوترک کر دیا جائے۔ اور اس طرح فجر کے بعد سونے کی عادت کو بھی جبراً چھوڑ دیا جائے۔ اور آرام کرنا ضروری ہوبھی تو اشراق کے نوافل پڑھنے کے بعد کچھ دیر آرام کرلیا جائے۔
اذکارمسنونہ:
نمازِ فجر کے فوراً بعد اٹھ جانے کی بجائے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے صبح کے مسنون اذکار کا ورد کرلیا جائے۔ اس حوالے سے ’حِصنُ المسلم‘ اور ’علیکم بِسُّنَّتِی‘ میں موجود اذکار کی ترتیب مفید پائی گئی ہے۔ نیز اگر ’مناجات مقبول ‘ کو اپنے روزانہ کے معمولات میں شامل کرلیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہوگا۔
صبح کے اذکار کا وقت سورج نکلنے سے پہلے اور شام کے اذکار عصر کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک مسنون ہیں۔ اذکار مسنونہ کا ورد اپنی عادت بنالیں۔ نیز رمضان چونکہ شھرِ قرآن ہے لہٰذا کم از کم ایک پارے کی تلاوت ضرور کریں۔ ہوسکتا ہے کہ آغاز میں طبیعت کو آمادہ کرنے میں دشواری پیش آئے لیکن یاد رکھیں کہ ’اب نہیں تو کبھی نہیں‘۔ ہمارے اکابر اور اسلاف رمضان میں بہت زیادہ تلاوت فرماتے تھے۔ اگر ممکن ہوتو کیسٹ وغیرہ سے اچھے قراء کی تلاوت اور اللہ والوں کے بیانات سننے کا بھی اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
سنن رواتب:
سورج طلوع ہونے کے بعد کم از کم دو رکعت اشراق کے نوافل ادا کریں۔ اسی طرح کوشش کریں کہ وہ سنتیں جنہیں چھوٹے ایک مدت گزر گئی ہے، انہیں ازسرنو زندہ کیا جائے، مثلاً تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد اور نمازِ عصر کی چار سنتیں۔
(نوٹ: نمازعصر کی چار سنتوں کے حوالے سے ایک فضلیت والی حدیث نظر سے گزری ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ اس پر رحم فرمائے جو نمازِ عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھ لے ۔ اسی روایت کو ابوداود اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کے لیے رحم کی دعا کی ہے جو عصر سے پہلے چار رکعتیں ادا کرتا ہے۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی فرد کے لیے دعا کررہے ہیں تو وہ رد کیسے ہوسکتی ہے۔)
ذکرالٰہی:
ہماری سابقہ زندگی کی تعلیم وتربیت میں چونکہ ایک فرد میں خود اعتمادی پیدا کرنے پر بہت زور دیا جاتا رہا ہے لہٰذا اس کے اثرات یہ ہوئے ہیں کہ ہم دنیا بھر کے موضوعات پر بے تکان بولے چلے جاتے ہیں۔ تقلیل کلام کے ذریعے اس چیز پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن تقلیل کلام سے مقصود یہ نہیں کہ زبان پر تالا لگا کر بیٹھ جائیں بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہماری زبان ہمہ وقت، ذکرِ الٰہی سے تر رہے۔ جتنی مسنون دعائیں منقول ہیں ان کا ورد اٹھتے بیٹھتے جاری رکھیں۔ ممکن ہے شروع میں تصنع کا خیال آئے لیکن اس وسوسۂ شیطانی کو دل سے جھٹک کر اپنا معمول جاری رکھیں۔ اگر کچھ تصنع ہوا بھی تو ان شاء اللہ خود بخود دُھل جائے گا۔ البتہ یہ دھیان میں رہے کہ جہراً ذکر کی بجائے سراً ذکر بہتر ہے۔
سورہ کہف کی تلاوت:
جمعۃ المبارک کے دن سورہ کہف کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں اور جمعے کے دن عصر کے بعد کی گھڑیاں قبولیتِ دعا کے لیے بہت اہم ہیں، حدیث میں ان کی بہت فضیلت آئی ہے۔ لہٰذا ان اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ کے حضور خوب دعائیں کریں۔
مطالعہ سیرت النبی ﷺ:
تزکیۂ نفس کے حوالے سے بنیادی بات یہ ہے کہ اپنے انفرادی اوراجتماعی اعمال سیرت نبویﷺ کے سانچے میں ڈھل جائیں لہٰذا اس غرض کے لیے کتب سیرت، مثلاً زاد المعاد ، سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ شروع کردیں۔
حیاۃ الصحابہؓ سے استفادہ:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ مبارک اور خوش قسمت ہستیاں ہیں جن کی تربیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔اُن کی زندگیوں کو اپنی زندگی میں اپنانے کی نیت سے ’حیاۃ الصحابہؓ‘ کی تعلیم اگر گھروں اور مراکز میں ہوسکے تو اُس کے بہت مفید اثرات عملی زندگی میں سامنے آتے ہیں۔
محاسبۂ نفس:
حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا…… روزانہ سونے سے پہلے کچھ دیر کے لیے اپنے دن بھر کے معمولات کا محاسبہ کریں۔
کثرت دعا:
ان سارے معمولات کے باوجود، قبولیت اخلاص سے مشروط ہے، لہٰذا اخلاص کی دعا ضرور کریں۔ ہم اپنی تمام حاجات میں اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں۔ ان مبارک ساعتوں میں بار بار اس کا در کھٹکھٹائیں۔ بالخصوص رات کے پچھلے پہر اور بوقت افطار کی جانے والی دعائیں مقبول ہوں گی۔ (ان شاء اللہ)
اللہ تعالیٰ سے اپنی، اپنے والدین، عزیزواقارب اور امت مسلمہ کے لیے عفو و عافیت کا سوال کریں۔ سعادت مندی کی زندگی اور شہادت کی موت طلب کریں۔ مجاہدین اسلام کی نصرت اور کامیابی کے لیے خصوصی دعائیں کریں، یہ بھی ان کی مدد ہے۔ قنوت نازلہ پڑھیں اور بالخصوص اپنے قیدی بھائیوں اور بہنوں کی قید سے رہائی کے لیے نہایت الحاح و زاری سے دعائیں مانگیں۔ قیدیوں کو چھڑوانے میں تساہل کرکے ہم بحیثیت مجموعی جس گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں اس پہ رورو کر اللہ کے حضور معذرت پیش کریں۔ مجاہدین کی قیادت کے حق میں صبر و استقامت کی دعا کریں۔ امت مسلمہ کے سروں پر مسلط غاصب کفار اور طواغیت کی ہلاکت اوربربادی کی دعا کریں۔
انفاق فی سبیل اللّٰہ:
مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے اپنی ذاتی جیب سے ’نصرت فنڈ‘ قائم کریں۔ اس سلسلے میں ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپنے گھروں میں ایک ڈبہ رکھ لیں اور روزانہ اس میں کچھ نہ کچھ ڈالتے رہیں۔ اسی طرح دیگر ساتھیوں اور اہل خیر کو بھی ’انفاق فی سبیل اللہ ‘ پر ابھاریں۔ محاذوں پر موجود مجاہدین بھائیوں تک ضروری سامان پہنچانا ہمارا فرض ہے۔
ترک تعیش:
راہِ جہاد اور تعیش میں باہم ضد واقع ہوئی ہے۔ عیش کوشی اور سہولیات کے عادی افراد راہِ جہاد کے مسافر نہیں بن سکتے۔ وہاں تو ایسے رجال کی ضرورت ہے جو رھبان باللیل اور فرسان بالنھار ہوں۔ چنانچہ رمضان کو غنیمت جان کر اپنی زندگی میں سے ان چیزوں کو آہستہ آہستہ خارج کرتے جائیں جو اگرچہ مباح ہی کیوں نہ ہوں لیکن ان سے آرام طلبی اور عیش پسندی کی بو آتی ہو۔ اس حوالے سے دو حدیثیں یاد رکھیں۔
کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل
’’دنیا میں اس طرح رہو گویا تم پردیسی ہو یا مسافر۔‘‘
اور
الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر
’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔‘‘
آخری عشرے کا اعتکاف:
آخری عشرے میں اعتکاف کی کوشش کریں۔ وگرنہ کم از کم طاق راتیں ضرور قیام اللیل میں گزاریں۔
نصاب برائے حفظ:
قرآن مجید کی بعض سورتیں جو بھول چکی ہوں ازسرِ نو یاد کرنے کی کوشش کریں۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بے پایاں فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر رمضان کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع عنایت فرما دیا، چنانچہ اس کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جان کر عبادت الٰہی میں وقف ہوجائیں۔
افطاری کے وقت بہت زیادہ کھانے سے پرہیز کریں۔ نفس تو یہ چاہے گا کہ پورا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بدلے چٹخارے دار کھانے ملیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں یا قابو کرلیتے ہیں۔ افطار کے وقت انواع واقسام کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے وقت گوانتانامو کے پنجروں میں قید اپنے بھائیوں کو ضرور یاد رکھیے گا اور اگر ان کی یاد سے آپ کی آنکھیں بھر آئیں تو امید رکھیں کہ ان شاء اللہ ہمارے لیے راہِ جہاد میں چلنا آسان ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭