لیجیے! پورے ایک سال کے بعد مجھے آپ حضرات کی زیارت پھر نصیب ہورہی ہے۔ میں آپ کے لیے رمضان کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ وہ پیغام ہے تقویٰ کا اور صبر کا، رحمت کا اور مغفرت کا، تلاوت کا اور عبادت کا اور رضائے الٰہی کا۔ میں ایک ماہ تک آپ حضرات کی مہمانی میں رہوں گا اور دیکھوں گا کہ آپ کے روزےکیسے گزرتے ہیں؟ آپ کی عبادت و تلاوت کا کیا حال ہے؟ آپ کتنا وقت عبادت میں صَرف کرتے ہیں اور اپنے مالک کی یاد میں گزارتے ہیں؟ پھر میں آپ سے اجازت لے کر رخصت ہوں گا اور دوسرا چاند میری جگہ لے گا، عید کا مبارک اور نیا چاند، اورعید تو خود رمضان کاانعام ہے۔ اگر رمضان نہ ہوتا تو عید بھی نہ آتی، اگر مشقت نہ ہوتی تو راحت کا بھی لطف نہ آتا، شب بیداری نہ ہوتی تو نیند کا بھی پورا مزہ نہ آسکتا، اگر بھوک نہ ہوتی تو کھانا بھی اچھا معلوم نہ ہوتا۔ اس لیے عید اپنی تمام مسرتوں اور لذتوں کے باوجود رمضان کی رہینِ منت ہے اور اس طرح میں صرف رمضان ہی کا سفیر نہیں بلکہ عید کا بھی سفیر ہوں۔
زہد اورصبر کا مہینہ
ہاں! تو میں آپ کے لیے زہد، مجاہدہ اور صبر کاپیغام لایا ہوں۔ میں بھوک اور پیاس اور شب بیداری کا سفیر ہوں اور کھانے پینے اور دوسری دنیاوی لذتوں سے آپ کا ہاتھ روکنے کے لیے آیا ہوں۔ اس لیے اگر میری آمد سے آپ حضرات کو گرانی ہو اور آپ ’’واپس جاؤ‘‘ کے نعروں کے ساتھ میرا استقبال کریں اور مجھ کو ’’بھوک اور پیاس کا پیامبر‘‘ اور ’’مشقت و تکلیف کا قاصد‘‘ کے ناموں سے نوازیں تو مجھ کو مطلق تعجب نہ ہوگا۔ خاص کر اس صورت میں جب کہ انتہائی گرمی کے زمانے میں مَیں آپ کے یہاں آیا ہوں، لیکن اس کے باوجود میں نے دیکھا کہ آپ نے میرا بڑی گرم جوشی اور محبت کے ساتھ استقبال کیا۔ آدمی مسجدوں اور اپنے مکانوں کی چھتوں پر کھڑے ہوئے میری ایک جھلک دیکھ لینے کے لیے بے قرار تھے، اور گویا انہوں نے اس بیکراں نیلے آسمان میں مجھے شکار کرنے کے لیےاپنی نگاہوں کا ایک جال سا بچھا دیا تھا۔ جب انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے اور مسرت و خوشی کے الفاظ ان کی زبانوں سے بے ساختہ نکلنے لگے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ تھوڑی دیر کے لیے بھول گئے ہوں کہ میں کس ذمہ داری اور کن مطالبات کو لے کر آیا ہوں۔
میرے خیال میں تو ایسے آدمی کا اس زندہ دلی اور گرم جوشی سے استقبال کرنا جو ایک پُرمشقت کام یا ایک تلخ پیغام لے کرآیا ہو، بہت بڑی بات ہے۔ اورحقیقت میں یہ تو ایمان کا کرشمہ ہے اور یہ ایمان ہی کی طاقت ہے جو ایک شاق چیز کو آسان کردیتی ہے اور دشمن کو دوست بنا دیتی ہے۔
دس گنے سے سات سو گنے کا ثواب
آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی یا پڑھی ہوگی کہ
’’كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْع مِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي.‘‘ (مسلم: حدیث ۲۷۰۷)
’’انسان کے ہر اچھے عمل میں دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک اضافہ کیاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سوائے روزے کے، کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ اپنی خواہشات اور اپنا کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
’’اِنَّ فی الجَنَّۃِ بَابًا یُقَالُ لہ الرَّیَّانُ یَدخُلُ منہ الصَّائِمُونَ یوم القِیَامَۃِ لَا یَدخُلُ منہ اَحَدٌ غَیرُہُم یُقَالُ اَینَ الصَّائِمُونَ؟ فَیَدخُلُونَ مِنْہُ فاِذادَخَلُوااَغلِقَ فلم یَدخُل منہ اَحَدٌ.‘‘ (مسلم:حدیث۲۷۱۰)
’’جنت میں ایک دروازہ ہے، جس کا نام ’’ریان‘‘ ہے، قیامت کے دن اس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے اور جب وہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا اور پھر کوئی اس میں داخل نہ ہوسکے گا۔‘‘
اور فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه(بخاری: حدیث ۳۸)
’’جس نے اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اور اس کے اجروثواب کی امید میں رمضان کے روزے رکھے، اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
اگر یہ حدیثیں نہ ہوتیں جن پر آپ ایمان لائے ہیں، اگر یہ نعمتیں نہ ہوتیں جن کی طمع آپ اپنے اندر پاتے ہیں، یا مختصر الفاظ میں اگر ایمان آپ کے قلب میں پیوست نہ ہوتا تو بخدا یہ روزہ اس گرمی میں کبھی آپ کے لیے آسان نہ ہوتا۔ اس لیے کہ انسان چھوٹی لذت کسی بڑی لذت کی امید ہی میں چھوڑ سکتا ہے، اور مختصر راحت کسی طویل آرام کے یقین ہی کی وجہ سے ترک کرسکتا ہے۔ اور حقیقت میں روزے دار کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ روزہ خور کو کبھی نہیں حاصل ہوسکتی۔ بلکہ روزے دار کے لیے دو ایسی فرحتیں رکھی گئی ہیں کہ کسی دوسرے کے لیے نہیں ہیں۔ ہمارے اور آپ کے نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا؛ إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ (بخاری: حدیث ۱۹۰۴)
’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جو اس کو حاصل ہوں گی، جب افطار کرے گا اس وقت اس کو خوشی حاصل ہوگی، اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ پر خوش ہوگا۔‘‘
میری اپنی انفرادیت اورخصوصیت
میں یہ نہیں کہتا کہ نماز، زکوٰۃ کوئی بڑی چیز نہیں اور اس کا زندگی پر کوئی اثر نہیں۔ میں اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ محسن کی ناشکری کروں اور صاحبِ فضل کے فضل کا انکار کروں۔ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے اور ان احکاماتِ دینیہ میں کتنا برادرانہ اور مخلصانہ رشتہ ہے۔ لیکن اگر اجازت دیجیے تو میں یہ کہوں گا کہ میں دین کے ایک شعبے کی زیادہ واضح اور طاقت ور نمائندگی کرتا ہوں۔ اور وہ ہے اطاعت اور قربانی کا شعبہ۔ میں جس گھر کو بھی دیکھتا ہوں، یہی نظر آتا ہے کہ لوگوں نے اپنے منہ پر تالے لگا لیے ہیں اور گویا طلوعِ فجر سے لے کر آفتاب ڈوبنے تک انہوں نے کھانے پینے کی چیزوں پر ہاتھ لگانے تک کی قسم کھا رکھی ہے۔ طرح طرح کے لذیذ کھانے ان کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں اور گویا ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے منہ میں پانی آنے لگتا ہے، اور ہونٹ اس کے مزے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو آپ کے اور ان لذیذ کھانوں کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اور آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے؟ ٹھنڈاپانی آپ کے سامنے موجودہوتا ہے اور آپ لُو اور شدید تپش کے باوجود اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا سکتے اور اپنی پیاس نہیں بجھا سکتے۔ خدا کاحکم ہی تو ہے جو آپ کو اس سے باز رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ یہ اطاعت و قربانی کتنی بڑی ہے اور یہ فنائیت کا کیسا نمونہ ہے!
میں نے اقتداروجلال کے بہت سے نمونے دیکھے ہیں، اور اطاعت و فرماں برداری کے بہت سے مناظر کا مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن میں آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے بہت سے ایسے آدمیوں کو دیکھا جو دن کو جرائم سے دست کش ہوجاتے ہیں اور رات کو دوبارہ اس میں مشغول رہتے ہیں، اورظاہری طور پر اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور پولیس کی آنکھ میں بھی کالک ڈالتے ہیں، بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ لوگ خود اپنے ساتھ خیانت کرتے ہیں۔ لیکن اس موقع پر جس اطاعت و فرماں برداری اور وفاداری و جاں نثاری، جس اخلاص اور صبر اور ثابت قدمی کے نمونے دیکھے، وہ میں نے کسی دنیاوی اقتداروعزت کی وجہ سے نہیں دیکھے۔
ایک آدمی ہے جس کو پیاس نے بے تاب کررکھا ہے، پانی کے گلاس بھرے ہوئے سامنے رکھےہیں، لیکن مجال نہیں کہ اس کو وہ اپنے ہونٹوں سے لگا لے۔ ایک مسلمان باورچی ہے، جو روزہ رکھے ہوئے دن بھر طرح طرح کے کھانے تیار کرتا ہے اور گرمی و تپش برداشت کرتا ہے، وہ چاہتا تو اس میں سے کچھ لے کر کھا سکتا تھا، لیکن محض ایمان اس کو اس چیز سے باز رکھتا ہے کہ تھوڑے سے چٹخارے کے لیے اپنے رب کو ناراض کر بیٹھے۔
جب سورج ڈوب جاتا ہے اور روزے دار اللہ کا نام لے کر افطار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ’’پیاس دور ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں اور ان شاء اللہ اجر ثابت ہوگیا‘‘۔ اس وقت کوئی کھانے کے لیے ایک منٹ نہیں رکتا، بلکہ اس وقت نہ کھانا ایسی ہی معصیت اور گناہ ہے جیسے دن کو روزہ نہ رکھنا۔ معلوم ہوا کہ مومن حکم کا غلام ہے، حکم ہی سے وہ روزہ رکھتا ہے اور حکم ہی سے افطار کرتا ہے۔ اپنی طرف سے کچھ اضافہ یا ترمیم کرنے کا حق اس کو حاصل نہیں ہے۔
اسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ(بخاری: حدیث ۱۹۵۷)
’’جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے ،اس وقت تک وہ خیر میں رہیں گے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ عید و بقرعید میں روزہ رکھنا بہت بڑا گناہ بتایا گیا ہے، کیونکہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں، ان دنوں میں روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی تو نافرمانی کی گئی اور اپنے نفس کی فرماں برداری کی گئی۔
کھانے پینے میں اعتدال اور دوسروں کی مدد کرکے میرا ساتھ دیجیے
موجودہ دور میں لوگ کھانے پینے میں بہت اسراف سے کام لیتے ہیں، یہاں تک کہ کبھی کبھی اس پُرخوری کی وجہ سے اپنے لیے ہلاکت کا سامان بھی کرلیتے ہیں۔ ان کے دل پتھر ہوجاتے ہیں اور ان کے احساسات بالکل مردہ، ان کو نہ کسی کے فقر کا خیال رہتا ہے اور نہ کسی کی بھوک کا،کسی ایسے منظر کو دیکھ کر ان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، وہ اتنا سیر ہو کر کھاتے ہیں کہ وہ بھوک کا مطلب بھی بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں سکتے کہ بھوک سے انسان کو کیا تکلیف ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہی ہوتا اور وہ ہمیشہ سیر ہو کر کھاتے رہتے، تو ان کو بھوک کا تجربہ کیسے ہوتا؟ وہ بھوکوں اور فقیروں پر کیسے رحم کرتے؟ جو بھوک کا نام ہی نہ جانتا ہو، وہ بھوکے پر کیسے رحم کھا سکتا ہے؟
میں ہرسال آکر دولت مندوں اور خوش حال لوگوں کو بھوک کا تجربہ کرا جاتا ہوں،شاید وہ یہ سمجھیں کہ غریب لوگ کس بھوک اور فاقے کا شکار ہیں، شاید وہ ان کی مدد کے لیے آمادہ ہوں اور ان کے اندر رحم کا جذبہ پیدا ہو۔
اس سوسائٹی کا اصل مرض یہی کھانے کا مرض ہے نہ کہ بھوک، جیسا کہ بہت سے لوگ سمجھ بیٹھے ہیں۔کھانے کا یہ حد سے بڑھا ہوا شوق ہی تو ہے جس نے بہت سے اخلاقی و مادی امراض آپ کی سوسائٹی میں پید اکیے۔ یہ سب بے صبری، شدتِ حرص اور لالچ کا نتیجہ ہے۔
میں ہر سال اسی مقصد سے آتا ہوں کہ اس شدت اور بے صبری میں کچھ تخفیف کر سکوں اور لوگوں میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں اعتدال کا ذوق پیدا ہو۔ اس لیے کہ یہی وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ میری آمد کے ساتھ آپ لوگوں پر فرض کرتا ہے۔ جس نے ایک مہینے کے روزے رکھ لیے، اس کی خواہشات میں اور اس کی ذہنی بھوک میں ضرور تھوڑی سی کمی آنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف کھانے اور پینے ہی سے نہیں روکا گیا بلکہ ہر قسم کے فسق و فجور سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ غیبت، جھوٹ، چغل خوری، لڑائی، فساد اور تمام بری باتوں سے روکا گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی روزے سے ہوتو نہ وہ بری بات کہے اور نہ لڑے جھگڑے، اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے لڑنے پر آمادہ ہو تو اسے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِوَالْعَمَلَ بِهِ وَالْجَهْل فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ(بخاری:حدیث ۱۹۰۴)
’’جس نے جھوٹ اور بری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی بھی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔‘‘
جو شخص ان شرائط و آداب کے ساتھ روزہ رکھے گا، اور روزے کی روح کو اپنے اندر پیدا کرےگا وہ اعلیٰ اخلاق، پاکیزگیٔ نفس اور عفت و طہارت کا اعلیٰ نمونہ بناسکتا ہے۔
میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا اوراپنی بات ختم کرلی۔ اب رخصت ہونا چاہتا ہوں، اجازت دیجیے، خدا حافظ!