اُس ملک کا نام تھا’’مردستان‘‘……! ارے کہیں غلط نہ سُن جانا۔ یہ لفظ میم کی زبر کے ساتھ ہے۔ وہاں مَردوں کا راج تھا۔ عورتیں بھی اس ملک میں رہتی تھیں اور اُن کے جو حقوق ہوتے ہیں وہ ان کو پوری طرح ملتے تھے۔
لیکن کیا ہوا کہ وہاں کے مرد رفتہ رفتہ خود فراموشی میں مبتلا ہونے لگے۔ کمزور ہونے لگے۔ ایسے میں ان کے دشمنوں نے تاک کر ان کے ملک پر قبضہ کر لیا۔ مردوں سے حکومت چھین لی۔ ان بے چاروں پر بہت ظلم کیا۔ اچھا اُس ملک کی ایک بڑی عجیب بات تھی، وہ یہ کہ اس ملک کی کچھ عورتیں بڑی چالاک تھیں۔ انہوں نے اُن دشمنوں کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ خیر دشمن نے کچھ عرصہ تو حکومت کرنی تھی……جب کر لی تو اس نے کہا کہ میں یہاں پر جمہوریت کے مطابق حکومت تقسیم کرنے لگا ہوں۔ یہ بات تو تمہیں معلوم ہی ہوگی کہ عورتوں کی تعداد اس دنیا میں مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان عورتوں کی خوشی کی تو کوئی انتہا نہ رہی۔ دشمنوں نے عورتوں کو جیت دِلوانی تھی …… دِلوا دی۔
ہائیں! تو کیا وہاں عورتیں حکمران بن گئیں……؟
جی بالکل !
اچھا وہ عورتیں بہت گندی تھیں۔ بالکل چڑیلیں لگتی تھیں۔ انہوں نے کیا کِیا۔ کہا کہ پہلے ہمیں حقوق پوری طرح نہیں ملتے تھے ہمیں حقوق زیادہ چاہییں۔ کچھ بے چارے مردوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ’بہنو‘اتنی جذباتی مت ہو…… مگر اُ ن کو تو جیسے دُھن سوار تھی۔ بولیں نہیں ان مردوں نے اپنے دورِ حکومت میں ہم پر بہت ظلم کیے تھے۔ ہر جگہ ہمیں مارتے تھے۔ ہماری کوئی عزت نہیں تھی۔ ہمیں دبایا جاتا تھا۔ ہمیں نیچا دکھایا جاتا تھا۔ خیر وہ مانے نہ دیتی تھیں۔ بالکل سٹھیائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے سب دفتروں سے مردوں کی چھٹی کروا د ی۔ حکومت سے مردوں کو نکال دیا۔ پولیس میں بھی عورتیں بھر دیں۔ فوج بھی عورتوں کی۔ غرض دفتر ہو یا سکول، کاروبار ہو یا ہسپتال ہر جگہ سے مردوں کا اخراج ہونے لگا۔ بے چارے مرد بھی کیا کرتے…… کمزور جو تھے …… چُپ چاپ پیچھے ہوتے گئے۔ کچھ عرصے بعد عورتوں نے جب یہ دیکھا کہ’ مَردوں‘ کے نام کی زبر پر پیش لگتی جارہی ہے تو کچھ چڑیل قسم کی عورتوں نے ایک نئی پارٹی بنا لی۔ انہوں نے سوچا کہ ابھی موقع ہے کہیں مَرد دوبارہ سے زندہ نہ ہوجائیں۔دراصل جب مردوں کا راج تھا اس زمانے میں ایک عورت تھی جوچوری چکاری میں بہت مشہور ہوگئی تھی۔ اس کا نام ’شیوانی جی‘ تھا۔ ان عورتوں نے کہا شیوانی جی ہماری پیشوا تھی۔ ہمیں بھی انہیں کی طرح جدوجہد کر کے ان مردوں کو نیست و نابود کرنا ہے۔ اس کے لیے ان عورتوں نے بڑی جذباتی تقریریں تو کیں، پر وہ صرف جذباتی ہوتی تھیں۔ عقل و فہم سے ان کا کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ کبھی کہتیں کہ مردوں کے دورِ حکومت میں عورتوں کو چُن چُن کر قتل کیا جاتا۔ ہماری آبادیاں ختم کردی جاتی تھیں۔
ہائیں ! آبادیاں ختم ……؟ تو وہ خود کیسے بچ گئیں……؟
بس پتہ نہیں ان کی باتیں کسی کو سمجھ بھی نہیں آتی تھیں۔ بس تم آرام سے کہانی سنو ابھی سوال مت کرو!
انہوں نے کہا کہ مردوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ ہے۔ لیکن مردوں کو ختم کردینا کوئی آسان بات بھی نہیں تھی۔ بالاخر تھیں تو وہ عورتیں۔ انہوں نے کہا کہ عورت ذات کو خطرہ ہے۔ سب عورتیں گھروں سے باہر نکلیں۔ ٹریننگ حاصل کریں۔ جوتی، بیلن، بال نوچنے اور ناخن چبھانے کے زمانے پُرانے ہوگئے اب ہمیں لاٹھی، چھریاں، تلواریں، کلہاڑیاں اور بندوقیں اٹھانی ہوں گی۔
جہاں مرد جمع ہوتے ہوں ان جگہوں کو تباہ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے انہوں نے مردستان کے مردوں کی ایک بہت بڑی اجتماع گاہ کو تباہ کردیا۔ مردوں کو غصہ تو بہت آیا مگر کیا کرتے ہر طرف عورتیں ہی عورتیں بھری ہوئی تھیں۔ مردوں کا غصہ بھی ان عورتوں سے برداشت نہ ہوا۔ وہ مردوں کے محلوں میں گھس کر انہیں کو مارنے لگیں۔ کسی مرد کو آگ لگا دی کسی کو لاٹھیاں مار مار کر مار دیا۔ پھر انہوں نے نعرہ لگایا کہ مرد ہماری طرح بناؤ سنگھار کیوں نہیں کرتے۔ جہاں کہیں کوئی مرد سرخی پاؤڈر کے بغیر نظر آئے اس کو نوچ ڈالو…… کاٹ دو !
آہستہ آہستہ ان شدت پسند عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی۔ کچھ ہی سالوں بعد شدت پسند عورتوں کی سردار ’مودانی جی‘ اقتدار پر براجمان ہوگئیں۔ مودانی جی نے سرخ اور کھٹے رنگ کا چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیا اور تلوار اٹھا کر خطاب کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ مردستان اصل میں پہلے عورتستان تھا۔ یہ مرد باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کو یہاں سے نکالا جائے۔ ہم عورتیں ہی اِدھر کی باشندہ ہیں۔ دائیں بائیں کے ممالک والوں کو بھی بڑی حیرت ہوئی کہ اگر پہلے عورتیں ہی عورتیں تھیں تو ان کی نسلیں زندہ کیسے بچ گئیں۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ ایک گھر میں دو عورتیں اکٹھی نہیں رہ پاتیں جس کی دوبیویاں ہوں اسے علیحدہ گھر بنانے پڑتے ہیں۔ اور کجا لاکھوں کروڑوں عورتیں۔ خیر میں نے تمہیں پہلے بتا دیا ناں کہ اُن کی باتیں ہماری محدود سمجھ سے بالا تر تھیں۔ پھر انہوں نے مہم چلائی کہ ہر اُس چوک چوراہے کا نام بدل دیا جائے جو زمانۂ مرداں سے منسوب ہو۔ بہت بڑے بڑے مظاہرے کیے …… پیلے اور کھٹے رنگ کے کپڑے پہن کر عورتوں نے پھر سے فساد دنگا مچایا۔
لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر کے مودانی جی نے کچھ عمارتیں بنوائیں کہ فلاں تاریخ کے بعد جو بھی مرد یہاں گھومتا نظر آئے گا اسے ان عمارتوں میں بند کر دیا جائےگا۔ پھر کہانیاں گھڑیں کہ مرد عورتوں کو متاثر کر کے مرد بنالیتےہیں۔ پھر مار بھی دیتے ہیں۔
ہائیں! عورت کو مرد بنالیتے ہیں ……؟
ہاں ناں بھئی !مردجو ہوئے۔
اچھا تو جب عورت مرد بن جاتی ہے تو پھر مار کیوں دیتے ہیں؟
بھئی کہا ناں بس سنتے جاؤ، چاہے سمجھ آئے یا نہ!
یہ کیسی کہانی ہے؟ اس کا تو سر پیر ہی بالکل ٹیڑھا ہے؟!
اچھا بھائی بتائے دیتا ہوں لیکن تھوڑے ریاضی کے انداز میں؛ دیکھو جہاں میں نے بولا تھا ’مرد ‘اس کا مطلب ہے ’مسلمان‘ اور جہاں میں نے بولا تھا ’عورت‘ اس کا مطلب ہے ’ہندو‘……!
اب کچھ سمجھ میں آئی!
اچھا تو یہ ساری کہانی ہندوستان کی تھی؟!
جی! لیکن یہ یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ہندو اور بھی سر پر چڑھتے آرہے ہیں۔
ابھی کچھ دنوں قبل ہی انہوں نےمسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی کی بات کی تو مسلمانوں کی عورت بھی ان کھٹے دوپٹے والے ہیجڑوں کے سامنے مرد ہوتی ہے۔ وہ شیر کی طرح دھاڑی؛ اللہ اکبر! یہ باؤلے جنونی چھٹ گئے!
پھر جانوروں سے بھی رذیل اس مخلوق کو لگام دینے کے لیے ہر طرف کے مسلمان اپنی اپنی کوششوں میں لگ گئے۔ ایسے میں ان درندوں نے ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گستاخی کردی۔
اب پوری دنیا کے مسلمانوں کو جوش آگیا ہے۔ ان شدت پسند ہندوؤں کے خلاف ان کی نفرت اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے۔اللہ کرے کہ مسلمان ہر طرف سے ان پر دھاوا بول دیں، آمین!
کشمیری مسلمان تو کافی عرصے سے ان کے خلاف ڈٹ چکے ہیں۔ اس لیے ان سے ہندو مشرک بہت خوف کھاتے ہیں۔ اللہ کرے کہ پاکستان کے نوجوان بھی بھارت کے خلاف جہاد کا آغاز کردیں۔مجھے لگتا ہے بنگلہ دیشی مسلمان بھی ان پر دھاوا بول دیں گے۔ باقی دائیں بائیں کہ مسلمان فقط ہمت بڑھاتے رہیں تو وہ بھی کافی ہے۔ اللہ کرے کہ جلد ہندوستان پھر سے آزاد ہوجائے۔ وہاں پر اسلام غالب آجائے۔
چلو! شاباش اب کہانی ختم ہوگئی ہے…… سو جاؤ!
نہیں! اس کہانی کو سننے کے بعد کون سو سکتا ہے!الحمد للہ اب میں جاگ گیا ہوں……! اور جاگتا رہوں گا! وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ! صدق الله العظيم!
٭٭٭٭٭