الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
فتح ہے جس کی منتظر،تمہی وہ کاروان ہو
سید ابوالحسن علی ندوی ؒنے ایک موقع پر بڑی دلچسپ بات فرمائی تھی، مفہوم جس کا یہ ہے کہ:
’’آج آپ کومغرب کی جو چکا چوند،ایجادات اورمادی ترقی نظر آتی ہے جسے اختیار کرکے وہ چاند تک پہنچ چکے ہیں تو بھلا یہ کیسے ممکن ہوئی؟ ظاہر ہے ایسے ہی کہ انہوں نے اپنے بہترین اذہان اس کام پر لگا دیے ہیں۔ تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بہترین اذہان صرف اسی کام پر لگائے ہوئے ہیں؟ نہیں ___بلکہ اس سے کہیں زیادہ ذہین لوگ انھوں نے آپ کے پیچھے اور آپ کے خلاف سازشوں کے لیے لگا دیے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی طرح کے لوگ نظر آتے ہیں جب کہ دوسرے پسِ پردہ ہیں۔‘‘
اور پھر اسی موضوع کا تسلسل کہیے کہ جسے امام عبداللہ عزام شہیدؒ نے بیان فرمایا___ خلاصہ جس کا کچھ یہ ہے کہ:
’’ اسلام کے خلاف کفار نے پچھلے ۱۴۰۰ سال میں جتنی سازشیں کی ہیں اگر ہمارے اس دینِ حق کی جگہ کوئی اور دین ہوتا تو کئی بار مٹ کر ختم ہوچکا ہوتا۔‘‘
ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں جہادِ افغانستان میں شریک ہونے والے عالمِ اسلام کے مجاہدین کو شیخ عبد اللہ عزام ؒ ہی نے ایک اہم نصیحت کی ، جس کا نچوڑ یہ ہے کہ:
’’ روس کو افغانستان سے نکال چکنے کے بعد بھی آپ افغا نستان کی سرزمین کو ہر گزنہ چھوڑیں الّایہ کہ یہاں کی قوم ہی آپ کو نکال دے___اوراگر جہاد اس خطے میں ختم بھی ہو گیا تو آپ کا یہاں (افغانستان میں)ٹھہرنارباط(جہادی پڑاؤ) ہو گا،اور پھر یہ اعداد(تیاری) ،فلسطین سمیت دیگر تمام اسلامی مقبوضات کی بازیابی اور ا متِ مسلمہ کی عالمگیر اٹھان،اور اسلامی خلافت کے احیاء کا ذریعہ بنے گا۔‘‘
آج اہلِ اسلام کو علمی،اقتصادی، عسکری لحاظ سے دشمن نے گھیر رکھا ہے ۔لیکن ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ کفار کی ساری منصوبہ بندیوں، منافقین کی سازشوں، اہلِ اسلام کی کمزوریوں کے باوجود بھی یہی امتِ مسلمہ ہے جو انسانیت کے لیے امید کی آخری کرن ہے۔ یہی امتِ وسط ہے، عدل کی میزان اسی کے ہاتھ میں ہے ،آسمانی شریعت کی وارث و امین یہی ہے،آسمان سے زمین والوں کا آخری حقیقی تعلق اسی امت کے دم سے ہے، یہ کبھی شر پر جمع نہ ہوگی۔دین کی سچی دعوت اسی کے پاس ہے اور اللہ اپنے اس نور کی حفاظت کرتا رہے گا چاہے مشرکین کو یہ بات کتنی ہی ناگوار ہو۔حکام چاہے جتنی بھی خیانتیں کرلیں، علمائے سُو حق کی لاکھ تلبیس کرلیں، ارتداد کی کیسی ہی آندھیاں چلیں ،کافروں اور مسلمانوں میں فاصلے مٹانے اور قربتیں بڑھانے والے جتنا بھی زور لگا لیں،حق ظاہر رہے گا اور حق والے موجود رہیں گے ۔اللہ کی طرف دعوت دی جاتی رہے گی اور جہاد کرنے والے جہاد کرتے رہیں گے ،یہاں تک کہ قیامت آ جائے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو جائے۔اور ظاہر ہے کہ جب مہدیؓ کا ظہور ہو گا،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا، تو وہ جہاد کے اسی عمل کو آگے بڑھائیں گے،مجاہدین نے جسے اُس دن تک زندہ رکھا ہو گا۔ جہاد کے تسلسل میں ہی دنیا بھرمیں خلافت علیٰ منہاج النّبوۃ قائم ہو گی،جس کے وعدے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک بشارتوں سے ثابت ہیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاء اَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَا فَۃٌ عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃِ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا فَیَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَّکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاء اَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً فَتَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاء اَنْ یَّرْفَعَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَا فَۃٌ عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ سَکَتَ))
(رواہ احمد،اوّل مسند کوفیین)
’’تمہارے درمیان نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے۔پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب وہ اسے اٹھانا چاہے گا۔پھر (اس کے بعد) خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہو گی تو وہ اس وقت تک چلے گی جب تک اللہ اسے چلانا چاہے گا، پھر اللہ اسے اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اُٹھالے۔ پھر(اس کے بعد) کاٹ کھانے والی حکومت ہو گی، پس وہ چلتی رہے گی جب تک کہ اللہ چاہے گا کہ وہ چلتی رہے،پھر وہ اسے اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اس کو اٹھا لے۔پھر جابرانہ اقتدار ہو گا،تو وہ اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ اس کو رکھنا چاہے گا۔پھر وہ اسے اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھالے پھر اس کے بعد خلافت علیٰ منہاج ا لنبوۃ ہو گی،پھر آپ خاموش ہو گئے! ‘‘
پس جس وقت یہ خلافت قائم ہو گی ،بین الاقوامی جاہلی نظام ٹوٹ پھوٹ جائے گا،ختم ہو جائے گا۔ جبر (شخصی ہو یا جمہوری ) کی بساط دنیا سے لپیٹ دی جائے گی ۔اور یہ بات تو ہمارے ایمان کا حصہ کہ اس جاہلی تہذیب نے مٹناہے،برخلاف انتہائے تاریخ (اینڈ آف ہسٹری )کے اس باطل نظریے کے ، جس میں اس تہذیب کو کرہ ٔ ارض کی آخری اور تاابد غالب رہنے والی تہذیب کہا گیا ہے۔اس خرافات کی حقیقت بھی محض ان کے منہ سے بکی ہوئی بات’’ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ ‘‘ کی ہے۔لیکن ان حقائق کے باوجود کچھ لوگ اس دجّالی تہذیب کے وجود اور بقا کو تسلیم کرتے ہیں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭