یہ مضمون آن لائن انگریزی جریدے The Quint میں نشر ہوا۔قارئین کے استفادہ کے لیے اس کا ترجمہ نشر کیا جا رہا ہے۔ ادارہ
۱۹۴۴ء میں ہنگری کے ماہر اقتصادیات کارل پولانی نے سیاسی معیشت پر ایک شاہکار لکھا جس نے معاشی نظریہ کے مطالعہ میں انقلاب برپا کردیا۔ اپنی کتاب ’’دی گریٹ ٹرانسفارمیشن‘‘ میں، پولانی نے یہ ظاہر کیا کہ ریاست اور مارکیٹ مخالف تصورات نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ ریاست ہی ہے جو منڈیاں بناتی ہے۔ ریاست یہ کام ایسے موزوں حالات پیدا کر کے کرتی ہے جو منڈیوں کے کام کو ممکن بنائیں۔ اس ’’گریٹ ٹرانسفارمیشن‘‘ نے ان سماجی اور سیاسی اتھل پتھل کا حوالہ دیا جو ۱۹ویں صدی میں انگلینڈ میں منڈی کی معیشت (Market Economy) کی پیدائش کے ساتھ ہوئے۔
ہندوستان خود اپنی ایک ’’عظیم تبدیلی‘‘ (Great Transformation) سے گزر رہا ہے۔ ہندو بلوائی روزمرّہ کے اور ہلکے درجے کے ایسے تشدد کے ذریعے سے، جو اب مضبوطی سے نچلی سطح تک سرائیت کر چکا ہے، ایک نئے ہندوستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
ہندُتوا موبلائزیشن(Mobilization) کا یہ مرحلہ، مظاہرے، نفرت انگیز تقریریں اور خطرناک حد تک تیزی سے پھیلتا تشدد، اس سب کو اوپر سے بالکل باریک بینی کے ساتھ نہیں چلایا جا رہا، جیسے کہ شطرنج میں، واضح طور پر متعین نتائج کے حصول کے لیے ہر چال کی پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس پر یقین کرنا اِن حکمران اسٹیبلشمنٹ کے سرکردہ افراد کے ساتھ ایسی معرفتِ کُل اور قدرتِ کاملہ منسوب کرنا ہے جو یہ بالکل بھی نہیں رکھتے۔
سادھوؤں اور سادھوِیوں، سیناؤں اور سنگھوں کا پھلتا پھولتا بازار
اس کی بجائے ہندُتوا موبلائزیشن بازار کے رجحان سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے ہندُتوا موبلائزیشن کی ایک بڑی منڈی کو فروغ دیا ہے، جس نے فرقہ وارانہ تشدد کی نوعیت کو عارضی سے نکال کر ایک سرائیت کرنے والی مقامی وبا میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ’ہندو راشٹر‘ کسی شعوری ارادے سے نہیں بلکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی عدم مرکزیت پر مبنی بلوائی کارروائیوں سے وجود میں آیا ہے۔ ملک کو صرف دہلی اور ناگپور میں بیٹھے بڑے لوگ ہی تبدیل نہیں کر رہے بلکہ قصبوں اور شہروں کے لاکھوں چھوٹے لوگ اسے تبدیل کر رہے ہیں، جو مسلمانوں کو ’ اوقات میں‘ رکھنے کے اپنے طریقے وضع کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے پیدا کیے گئے معاون حالات پر ردّعمل ظاہر کر رہے ہیں۔
ہندُتوا موبلائزیشن کے اس پھلتے پھولتے بازار میں، تعصب کے مقامی تاجر، سادھو اور سادھویاں، سینائیں اور سنگھ، حکومت کی طرف سے دی گئی مراعات کا پوری طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور اس منڈی سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرر ہے ہیں۔ کسی بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی منڈی کی طرح ، مستحکم تنظیموں، جیسے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) سے منسلک وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی)، بجرنگ دل اور ہندو جگرن منچ، کے تجربہ کار کارندوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ہندو ملیشیائیں بنا لی ہیں۔ اب تو ان سب کے ناموں تک کو نظر میں رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ مثلاً، حال ہی میں جس گروہ نے ’لَوْ جہاد‘ (love jihad) کے الزام پر آگرہ میں مسلمانوں کے گھر جلائے اس کا نام ’’دھرم جگرن سامانوے سنگھ‘‘ (Dharam Jagran Samanway Sangh) ہے۔ اِن نئے نئے پیدا ہوئے بلوائیوں کے جتھوں کی حیثیت غنڈوں کے ٹولوں سے کچھ ہی زیادہ ہوتی ہے، جو مقامی سیاست میں طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اور رسمی ذیلی تنظیموں سے کہیں زیادہ غیر منظم انداز میں آر ایس ایس سے منسلک ہیں۔
ان ملیشیاؤں کے رہنما عموماً مقامی مشہور یا بااثر شخصیات ہوتی ہیں اور اس طریقے سے وہ سیاسی اہمیت کی اُس سطح تک پہنچ جاتے ہیں جو بصورت دیگر رسمی سیاسی طریقہ کار سے حاصل کرنے میں انہیں ساری زندگی لگ جاتی۔
ان کے زیر اثر بے روزگار اور کم آمدنی والے نوجوانوں کی ایک فوج ہوتی ہے جنہیں تلواریں لہرانے سے اور فرقہ وارانہ گانوں پر رقص کرنے سے نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ بعض اوقات، جیسے ’گاؤ رکھشکوں‘ کے معاملے میں دیکھنے میں آیا، یہ ٹولے ریاستی سرپرستی اور تشدد کی کھلی چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھتہ خوری کا دھندہ شروع کر دیتے ہیں اور ٹرکوں کو ضبط کر کے پھر رشوت کے بدلے انہیں واپس کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے ہندتوا موبلائزیشن کی یہ منڈی کیسے تیار کی؟
ایک کھوکھلا اور مطیع ریاستی نظام
اولاً تو اس نے ملک میں ایک بے نظم آمریت کی بنیاد ڈال کر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا۔ اگرچہ بیرونی طور پر نظم و نسق کی شکل ویسی ہی ہے، لیکن سیاسی کلچر کو مکمل طور پر اس طرح زنگ آلود کر دیا گیا ہے کہ بیوروکریسی کے اہم عہدہ داران کو، بی جے پی کے سیاسی وژن کو تقویت دینے کے لیے ، قانون کی حکمرانی اور مساوی شہری حقوق کے اصولوں کو توڑنے پر ابھارا جاتا ہے۔
مشکل ہے کہ کوئی ایسا بیوروکریٹ یا پولیس والا موجود ہو جس نے قانونی کارروائی کے تمام طریقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گھروں کو بلڈوز کرنے سے انکار کر دیا ہو۔ اور ایسے جج بھی زیادہ نہیں جنہوں نے بودے الزامات پر اٹھائے گئے لوگوں کی ضمانت منظور کی ہو۔
ان حکومتی عہدےداران کو اپنے فہم کے مطابق حکومتی توقعات پر پورا اترنے کے لیے اپنے تمام اصول و ضوابط کو نظر انداز کرنے کی عادت ہو چکی ہے، جسے نازی تاریخ دان ایان کرشاوْ (Sir Ian Kershaw) نے ’’فہرر (Fuhrer)1 کی سمت میں کام کرنا‘‘ نام دیا ہے۔
دریں اثنا، ریاست نے ہندتوا تنظیموں کو صرف نفرت انگیز تقریریں کرنے، سوشل میڈیا پر کھل کر اپنی تنظیم سازی کرنے اور مظاہرے کرنے کی کھلی چھوٹ ہی نہیں دے رکھی، بلکہ عملاً تشدد پر ان کی اجارہ داری کو قانونی حیثیت دے رکھی ہے۔ اگر جاننا ہو کہ طاقت کا توازن اصل میں کس سمت جھکا ہوا ہے تو صرف یہ دیکھ لیں کہ پولیس افسران کسی مقامی ہندتوا رہنما سے بھی کس انداز میں بات کرتے ہیں، محتاط انداز میں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ، ایسا رویہ جو عموماً کسی منہ زور بڑے سیاسی رہنما کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے۔ آخر ہندتوا گروہوں نے جو رویہ اپنا رکھا ہے وہ کیوں نہ اپنائیں، جبکہ ان کا سامنا ایک کھوکھلے اور کمزور ریاستی نظام سے ہوتاہے؟
بلوائی بحران کیسے پیدا کرتے ہیں؟
ثانیاً، بی جے پی نے ہندتوا تنظیموں کو اپنی سیاسی حکومت میں ایک کلیدی جزو کی حیثیت دے رکھی ہے اور ان کے ذمے سیاسی نظام میں ایجنڈاترتیب دینے کاخاص کام ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں، ہندُتوا تنظیموں نے سیاسی گفتگو کو ’حجاب‘، ’حلال‘، اور ’اذان‘ جیسے موضوعات پر مرکوز رکھنے میں مدد دی ہے۔
ہندُتوا تنظیموں کا انتہا پسندانہ مؤقف ان متنازع موضوعات پر مباحث کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ اپنے ڈرامائی مظاہروں کے ذریعے سے یہ اکثریت کی توجہ ان موضوعات پر مرکوز کر لیتے ہیں، اور ایک بحران کا تاثر پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر اس بحران کو ابلنے کے لیے چھوڑا بھی جا سکتا ہے یا ریاستی مداخلت کے ذریعے سے اسے حل بھی کیا جا سکتا ہے، جس میں ریاست کھل کر ان ہندتوا گروہوں کی ہی طرفداری کر رہی ہوتی ہے۔
یہی حکمت عملی حجاب کے مسئلے میں اپنائی گئی، جہاں سڑکوں پر اٹھائے گئے مطالبات کا ریاست نے قانون سازی کے ذریعے سے احترام کیا۔ ہندتوا تنظیموں کی ایجنڈا ترتیب دینے کی طاقت نے انہیں چھوٹے موٹے گلی کے ٹھگوں کی حیثیت سے اٹھا کر باعزت سیاست دانوں کی حیثیت میں پہنچا دیا ہے۔
کیا یہ خود کار تشدد ’بیک فائر‘ کر سکتا ہے؟
لیکن زمین پر موجود ہندتوا تنظیمیں ہمیشہ حکمران بی جے پی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلتیں۔ وہ سب اپنے جدا جدا محرکات کے ساتھ اپنا سیاسی کردار رکھتے ہیں، اور اپنا اثر ورسوخ اور افادیت کو برقرار رکھنے کے لیے عموماً اپنے تئیں اقدامات کرتے ہیں۔ تمام سیاسی کردار رکھنے والوں کی طرح یہ بھی طاقت کے خودمختار مراکز بننے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ مستقبل میں بی جے پی کے لیے چیلنج یہ ہو گا کہ وہ افراتفری اور اُس تشدد کا ڈائل، جس کے بیج اس نے بوئے ہیں، اس سطح تک رکھے جو سیاسی طور پر اس کے لیے فائدہ مند بھی ہو اور قابل انتظام بھی۔
یہ چیلنج ہندتوا موبلائزیشن کے منڈی سے مشابہت کے فطری محرک کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ایک ایسا نظام جو ریاستی حمایت یا مقامی وسائل تک رسائی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنے والے نئے نئے گروہوں کو پیدا کرتا رہے گا، جو تشدد کے ایسے دور میں جو پہلے سے ہی اپنی رفتار پکڑ چکا ہے، مزید سے مزید ڈرامائی بلوائی کارروائیاں کریں گے۔ بی جے پی کو شاید ان گروپوں پر اپنی طاقت دوبارہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے، اس خدشے سے کہ کہیں یہ بالکل اس سے علیحدہ نہ ہو جائیں یا جو کچھ نہ کچھ کنٹرول ابھی یہ ان گروپوں پر رکھتی ہے وہ بالکل ہی ختم نہ ہو جائے۔ جب یہ تشدد عام ہندوؤں کی زندگیوں اور معاش پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہو گا، تب شاید بی جے پی کو یہ احساس ہو کہ ہندتوا موبلائزیشن کی منڈی کا غیر مرئی ہاتھ بہت اچھی طرح سے سیاسی قیمت بھی اینٹھ سکتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے، ہدف بنائے جانے کا مستقل خطرہ
تاہم فی الحال ان ہندتوا تنظیموں کا تشدد اور ایجنڈا ترتیب دینے کا کام بی جے پی کے لیے ایک مستقل ہندو سیاسی اکثریت گھڑنے کے منصوبے میں بہت اہم ہے۔ یہ چیز کہ اس منصوبے کو اتنے زیادہ بلوائی تشدد کی ضرورت ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ابھی تکمیل سے بہت دور ہے۔ جبکہ ہندو اکثریت مسلمانوں کو شیطان صفت دکھانے کے اس عمل کے بارے میں جزوی پرجوش اور کچھ لاتعلق ہے، اور ابھی بھی دیگر معاشی و سیاسی تمناؤں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے، فرقہ وارانہ کشیدگی کی یہ مستقل حالت ان کے لیے ایک نئی حقیقت ہے۔ انہوں نے پہلے بھی فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا کیا ہے، لیکن وہ ہمیشہ وقت اور جگہ تک محدود رہے جس کے بعد معمول کی زندگی، سکون اور امید پھر سے لوٹ آتی تھی۔لیکن انہیں اب ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے، اور وہ اپنا آپ مستقل نشانے پر ہونے کے پریشان کن احساس سے نمٹ رہے ہیں، جہاں بہت سے لوگوں کو یہ نشانہ لینے کے لیے ترغیب بھی حاصل ہے۔
٭٭٭٭٭
1 Fuhrer نازی جرمنی میں ہٹلر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جرمن زبان میں اس کا مطلب قائد ہے۔