متحدہ عرب امارت(UAE) بطور ملک جب دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تب تک فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو چوتھائی کے قریب صدی گزر چکی تھی۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل مغربی کنارے، غزہ سمیت پورے فلسطین اور مصر کے جزیرہ نما سینا پر بھی قبضہ کر چکا تھا۔ اس لیے ۱۹۷۱ء میں برطانیہ سے آزاد ہو کر یہ ریاست وجود میں آئی تو اس کے حکمرانوں کے لیے فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ایک جغرافیائی حقیقت تھا بنسبت ان عرب حکومتوں کے جنہوں نے اپنے سامنے ایک مسلم عرب سرزمین کو اسرائیل کے قبضے میں جاتے دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ شروع سے ہی متحدہ عرب امارات کا مسئلۂ فلسطین کے ساتھ تعلق و تعامل بس رسمی حیثیت میں ہی رہا اور اگر فلسطین کے حق میں یا اسرائیل کے خلاف کچھ کہا بھی تو وہ بھی خالص اپنے سیاسی مفادات کے لیے۔ اور جب اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات شروع کیے تو اسرائیل سے اپنی محبت میں باقی سب عرب ریاستوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور آج متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ باقی تمام مسلم ریاستوں کی نسبت سب سے گہرے اور سب سے قریبی تعلقات ہیں ۔
قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان میں اس خائن ریاست کا کردار اگرچہ دیگر ریاستوں کی نسبت تاخیر سے شروع ہوا لیکن یہ اہل فلسطین کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ مستحکم کرنے میں دیگر خائن ریاستوں کے ساتھ پیش پیش ہی رہی ہے۔ آج جب متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات اپنی پوری بے شرمی کے ساتھ عروج پر ہیں، تو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ان کی قبلۂ اوّل سے خیانت کا آغاز ابراہیمی معاہدوں کے وقت سے شروع نہیں ہوتا بلکہ مال و جاہ کے پجاری اس کے حکمران خاندان اپنے معاشی مفادات کی خاطر خیانت کی بھی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔
پس منظر
متحدہ عرب امارات دراصل درج ذیل سات امارتوں ابو ظہبی، دبئی، شارجہ، راس الخیمہ، عجمان، ام القوین اور فجیرہ، پر مشتمل ایک اتحاد کا نام ہے۔
راس الخیمہ اور شارجہ کی امارتوں پر آل قاسمی خاندان کی حکومت ہے، ابو ظہبی پر بنی یاس کی ذیلی شاخ آل نہیان کی حکومت ہے، دبئی پر بنی یاس کی ایک اور ذیلی شاخ آل مکتوم کی حکومت ہے، عجمان پر آل نعیمی کی حکومت ہے، ام القوین پر آل معلّا کی حکومت ہے جبکہ فجیرہ پر آل شرفی کی حکومت ہے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں ان تمام خاندانوں کی معیشت کا دارومدار موتیوں کی تجارت اور ماہی گیری پر تھا ۔ آل قاسمی ان خاندانوں میں سب سے مضبوط تھا اور خلیج میں بحری راستے اور بحری تجارت پر زیادہ تر کنٹرول اسی خاندان کے ہاتھ میں تھا۔ بنی یاس کے دونوں ذیلی خاندان آل نہیان اور آل مکتوم آل قاسمی کے بعد معاشی طور پر مضبوط خاندان تھے لیکن آل قاسمی کی طاقت سے حسد کرتے تھے اور ان کے ساتھ ان کے تنازعات چلتے رہتے تھے۔ عجمان اور ام القوین کی امارتیں معاشی طور پر کمزور، رقبے، آبادی اور وسائل میں چھوٹی تھیں لیکن اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھتی تھیں اور انہیں باقی چاروں بڑی امارتوں سے ہمیشہ یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ ان میں سے کوئی انہیں ہڑپ کر جائے گا۔ فجیرہ کی امارت ان باقی امارتوں سے دور خلیج عمان کے ساحل پر ایک کمزور اور چھوٹی امارت تھی جس کا زیادہ تر علاقہ پہاڑی اور صحرائی تھا اور اس کی آبادی اور وسائل باقی امارتوں سے بھی کم تھے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں یہ امارت عمان کے زیر اثر تھی۔
انیسویں صدی کے آغاز میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا اور اس کے تجارتی جہاز خلیج کے سمندر میں بھی آنے جانے لگے تو آل قاسمی نے ان کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہازوں پر حملے شروع کیے۔ اس مزاحمت میں آل قاسمی تقریباً تنہا تھے باقی امارات ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں سوائے اس کے کہ جب کسی بحری جہاز پر حملہ کرنا ہوتا تو آل قاسمی کے تحت دیگر امارات کے لوگ بھی مال غنیمت کے حصول کے لیے حملے میں شریک ہو جاتے۔
متصالح ساحلی ریاستوں کا قیام
تجارتی جہازوں پر حملوں کے نتیجے میں برطانیہ نے ان امارات کے خلاف جنگ شروع کر دی، لیکن یہ جنگ بھی آل قاسمی کو اکیلے ہی لڑنی پڑی اور باقی کسی امارت نے آل قاسمی کا ساتھ نہیں دیا بلکہ برطانیہ کے ساتھ معاہدے کر لیے۔ تنہا رہ جانے کے سبب آل قاسمی جلد ہی شکست کھا گئے اور ۱۸۲۰ء میں ساتوں امارتوں نے برطانیہ کے ساتھ اپنی علیحدہ علیحدہ حیثیت میں معاہدہ کر لیا جسے عمومی بحری معاہدہ ۱۸۲۰ء (General Maritime Treaty of 1820) کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت یہ ’’متصالح ساحلی ریاستیں‘‘ (Trucial States) کہلائیں۔ اس معاہدے کے تحت یہ ریاستیں برطانیہ کے بحری تجارتی راستے کی حفاظت کرنے کی پابند تھیں اور بدلے میں برطانیہ ان امارتوں کی حفاظت کرے گا جس میں یہ بھی شامل ہے کہ ان امارات میں سے کوئی امارت کسی دوسری امارت پر حملہ آور نہیں ہو گی۔
باقاعدہ برطانوی تسلط
جب نہرِ سوئز کا راستہ کھلا اور برطانیہ کو اس پر کنٹرول حاصل ہوا تو خلیج کے تجارتی راستے کی اہمیت میں کمی آ گئی اور برطانیہ کو اپنے بحری راستے کی حفاظت کی ضرورت نہ رہی۔ اسی عرصے میں برطانیہ کو یہ خبریں بھی ملنا شروع ہوئیں کہ یہ امارتیں برطانیہ سے بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اس کے سد باب کے لیے برطانیہ نے ۱۸۹۲ء میں ان امارات کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا جس کے ذریعے یہ امارتیں براہ راست برطانوی تسلط میں آ گئیں۔ اس معاہدے میں تین نکات طے ہوئے کہ یہ امارتیں:
- برطانیہ کے سوا کسی بھی اور طاقت کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ نہیں کر سکتیں نہ ہی ان سے کوئی تعلق رکھ سکتی ہیں۔
- برطانوی حکومت کی اجازت کے بغیر کسی بھی اور حکومت کے نمائندے کو اپنی سرزمین پر رہنے کی اجازت نہیں دے سکیں۔
- برطانوی حکومت کے علاوہ اپنی سرزمین کا ایک انچ ٹکڑا بھی کسی بھی بیرونی عنصر کے قبضے میں کسی بھی ذریعے سے نہیں دے سکتیں، چاہے وہ بیچنے کے ذریعے سے ہو، رہن رکھنے کے ذریعے سے ہو یا کسی بھی اور ذریعے سے۔
جب تیل کی دریافت کا کام شروع ہوا تب برطانیہ نے معاہدے میں مزید اضافہ کروایا کہ یہ امارتیں برطانوی حکومت کی اجازت کے بغیر کسی باہر کی کمپنی کے ساتھ قدرتی وسائل نکالنے کے معاہدے نہیں کریں گی۔
برطانوی راج کا خاتمہ
۱۹۶۶ء تک برطانوی راج اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ وہ مزید ان امارات کا انتظام نہیں سنبھال سکتا تھا نہ ہی اس خطے میں برطانوی افواج کو رکھنے کا خرچہ برداشت کر سکتا تھا۔ اس لیے پہلے جنوری ۱۹۶۸ء میں اور پھر حتمی طور پر مارچ ۱۹۷۱ء میں برطانیہ نے ان امارات کے ساتھ اپنے معاہدے ختم کرنے اور ان کی ’’متصالح ساحلی ریاستوں‘‘ کی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے تحت یہ معاہدے دسمبر ۱۹۷۱ء میں ختم ہو جانے تھے۔
برطانیہ کی طرف سے اعلان کے چند دن بعد ابو ظہبی کے امیر شیخ زاید بن سلطان آل نہیان نے برطانویوں سے اپنے معاہدوں پر قائم رہنے کی درخواست کی اوربدلے میں پیش کش کی کہ برطانوی افواج کو امارات میں رکھنے کے تمام اخراجات یہ امارات خود اٹھائیں گی۔ لیکن برطانیہ نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ان تمام امارتوں اور قطر اور بحرین کے شیوخ (ان امارات میں امارت کے سربراہ کو شیخ کہاجاتا ہے) مل بیٹھے اورنو امارتوں (سات متصالح ساحلی ریاستیں، قطر ور بحرین) کا متحدہ نظم بنانے کی تجویز پر غور کیا جانے لگا۔ لیکن کئی ماہ گزر جانے کے باوجود ان کے درمیان اس اتحاد کی نوعیت اور طریقہ کار پر اتفاق نہ ہو سکا۔ بحرین نے اس سے علیحدہ ہو کر اگست ۱۹۷۱ء میں اپنی آزادی کا اعلان کر دیا جبکہ قطر نے ستمبر ۱۹۷۱ء میں اپنی آزادی کا اعلان کیا۔
باقی سات امارات کو خطرے کی سنگینی کا احساس تب ہوا جب معاہدہ ختم ہونے سے ایک روز قبل ایران نے آل قاسمی کے زیر تسلط جزائر پر حملہ کر دیا اور جزائر طنب پر قبضہ کر لیا۔ ایک برطانوی جنگی بحری جہاز وہیں قریب میں موجود تھا لیکن اس نے ایرانی بحریہ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے بعد ایرانی بحریہ جزیرہ ابو موسیٰ کی طرف بڑھ رہی تھی کہ شارجہ کے امیر شیخ خالد بن محمد القاسمی نے ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور جزیرہ ابو موسیٰ ایران کو تیس لاکھ ڈالر سالانہ کی لیز پر دے دیا۔ دوسری طرف سعودی عرب نے بھی ابو ظہبی کی حدود میں موجود علاقوں پر دعویٰ کر دیا۔
متحدہ عرب امارات کا قیام
معاہدے کے خاتمے کے ایک دن بعد ۲ دسمبر۱۹۷۱ء کو راس الخیمہ کی علاوہ باقی کی چھ ریاستوں نے متحد ہو کر ’’متحدہ عرب امارات‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا اور ابو ظہبی کے امیر شیخ زاید بن سلطان آل نہیان کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو راس الخیمہ بھی متحدہ عرب امارات کا حصہ بن گیا۔
اس سارے پس منظر کا براہ راست متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے ساتھ کوئی ربط نہیں لیکن اسے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر آج متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ اتنی پینگیں بڑھا رہی ہے او ر پوری ڈھٹائی سے مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنے داخلی مفادات کو اہمیت دے رہی ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، ان امارتوں میں غیرت کامادہ پہلے بھی کبھی نہیں رہا، اگر آل قاسمی میں کچھ تھا بھی تو وہ بھی دیگر امارتوں کی بے وفائی کے نتیجے میں ملنے والی شکست کے بعد ختم ہو گیا۔
شیخ زاید بن سلطان آل نہیان (۱۹۷۱ء تا ۲۰۰۴ء)
شیخ زاید کو دیگر عرب بادشاہوں کی نسبت ایک لبرل حکمران مانا جاتا تھا۔ اس نے آغاز ہی سے نجی میڈیا اداروں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دی۔ ان پر بس اتنی پابندی تھی کہ وہ شیخ زاید اور حکمران خاندان کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تمام مذاہب کو اپنے مذاہب پر کھل کر عبادت کرنے کی اجازت تھی اور جزیرۃ العرب کی حدود میں ہونے کے باوجود انہیں اپنی عبادت گاہیں بنانے کی بھی کھلی اجازت تھی۔ اس کے علاوہ عورتوں کے حوالے سے بھی وہ لبرل نظریات کا حامل تھا۔ اس نے اپنے اقتدار کی ابتدا ہی میں العین یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جہاں مخلوط تعلیم کا نظام تھا اور یہ پورے خطے میں اپنی نوعیت کی پہلی یونیورسٹی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے اقتدار میں آتے ہی سرکاری محکموں میں ملازمت کے دروازے بھی عورتوں کے لیے کھول دیے۔
چوتھی عرب اسرائیل جنگ اور تیل کی برآمدات پر پابندی
متحدہ عرب امارات کے قیام کے ساتھ ہی یہ عرب لیگ کا حصہ بھی بن گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ۱۹۷۳ء میں چوتھی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے وقت شیخ زاید نے اسرائیل کو عربوں کا دشمن ملک قرار دیا۔ اور سعودی عرب کے شاہ فیصل کی تجویز پر عرب پیٹرولیم کی تنظیم اوپیک (OPAIC) نے اس جنگ میں اسرائیل کی بھرپور مدد کرنے والے دونوں ممالک امریکہ اور نیدر لینڈ کو تیل کی برآمدات بند کر دیں اور باقی مغرب کے لیے بھی تیل کی قیمتوں میں چار گنا اضافہ کر دیا۔ شیخ زاید نے بھی اس پابندی کی حمایت کی اور اس موقع پر کہا کہ ’’عرب تیل عرب خون سے مہنگا نہیں‘‘۔ یہ پابندی پانچ ماہ تک جاری رہی اس کے بعد جب امریکی ثالثی میں مصر اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے اور جنگ بندی ہوئی تو اوپیک نے پابندی اٹھا لی۔
اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں نرمی کا آغاز
۱۹۷۹ء میں دو ایسے واقعات ہوئے جو آنے والے وقتوں میں متحدہ عرب امارات سمیت تمام عرب ممالک کے لیے اسرائیل کے حوالے سے اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کا باعث بنے۔
ان میں سے ۱یک مصر اسرائیل رسمی تعلقات کا قیام تھا جس کے نتیجے میں عرب لیگ سے مصر کی رکنیت معطل ہوئی لیکن ۸۰ کی دہائی کے آخر تک مصر نے نہ صرف عرب لیگ میں اپنی رکنیت بحال کروا لی بلکہ عرب ممالک کا اسرائیل کے حوالے سے سوچ کا زاویہ بھی بدل دیا۔
دوسری طرف ۱۹۷۹ء میں ہی ایران میں خمینی انقلاب آیا اور خمینی نے آنے والے سالوں میں کھل کر اپنے ارادوں کا اظہار کیا کہ ایران عرب ممالک میں بھی اسی طرح کا انقلاب چاہتا ہے اور عرب بادشاہتوں کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ اس دھمکی کی وجہ سے عرب حکمرانوں کو اپنے اقتدار اور عیاشیوں کی فکر لاحق ہو گئی اور چونکہ یہ عرب ریاستیں خلافت عثمانیہ سے الگ ہونے کے بعد مستقل عالمی طاقتوں کے غلام رہیں اور انہیں کی پیدا کردہ تھیں اس لے انہیں اپنی عافیت بھی امریکہ کے زیرِ سایہ نظر آئی، اور چونکہ امریکی خوشنودی کا راستہ اسرائیل سے ہو کر گزرتا ہے اس لیے بھی ان ممالک نے اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی۔
یہی وجہ تھی کہ ۸۰ کی دہائی میں اسرائیلی تاجر کسی تیسرے ملک کے پاسپورٹ کے ذریعے تجارت کے لیے دبئی کی ہیرے کی منڈی میں آنے لگےاور اس عمل میں انہیں متحدہ عرب امارات کی حکومت کی طرف سے تعاون حاصل ہوتا تھا۔ انہی تاجروں کے پس پردہ سفارتی و انٹیلی جنس اہلکار بھی آتے اور متحدہ عرب امارات کے حکام سے خفیہ ملاقاتیں کرتے۔ اس طرح ۸۰ء کی دہائی سے ہی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی حکومتوں اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان خفیہ روابط کا آغاز ہو گیا تھا۔
پہلی خلیج جنگ میں متحدہ عرب امارات کا کردار
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ عرب ریاستوں نے برطانیہ کے بعد امریکہ کو اپنا آقا بنا لیا تھا تو یہ معاملہ سارے ہی برطانیہ سے آزاد ہونے والے مسلم ممالک کے ساتھ رہا، فرق بس اتنا تھا کہ ترقی پذیر غیر عرب ریاستیں ، جیسے اگر پاکستان جیسی ریاستیں امریکہ کی غلامی کرتی ہیں، یا اس کی چاپلوسی کرتی ہیں یا امریکہ یا کسی اور کے کہنے پر اپنی فوجیں کسی خوشنما نعرے کے تحت کرایے پر دیتی ہیں تو اس کے بدلے انہیں کسی بخشش کی امید ہوتی ہے، لیکن ان عرب ریاستوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے، یہ صرف امریکہ کی غلام نہیں بنیں بلکہ انہوں نے امریکہ کو قریب قریب اپنا خدا ہی بنا لیا ہے، یہ امریکہ سے بخشش کی خواہشمند نہیں ہوتیں الٹا امریکہ پر اپنا مال بے دریغ لٹاتی ہیں۔
اس کی مثال ۱۹۹۰ء کی پہلی خلیج جنگ ہے ۔ پہلی خلیج جنگ میں امریکہ نے ۴۲ ممالک کی افواج پر مشتمل ایک اتحادی فوج بنائی جس نے جنگ میں شمولیت کی۔ اس اتحادی فوج میں متحدہ عرب امارات کی فوج بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ امارات نے ابو ظہبی کے قریب اپنی الظفرہ ائیر بیس مستقل طور پر امریکہ کے حوالے کر دی جو آج تک امریکہ کے پاس ہے جس پر ہر وقت ساڑھے تین ہزار امریکی فوجی ہر وقت تعینات رہتے ہیں۔
الظفرہ ائیر بیس کے علاوہ پہلی خلیج جنگ کے دوران امارات نے امریکہ کو ابو ظہبی کی مینا زاید بندرگاہ، فجیرہ کی نیول بیس، دبئی انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور شارجہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔ ان میں سے بھی مینا زاید بندرگاہ اور فجیرہ نیول بیس ۲۰۰۸ء میں مستقل امریکہ کے حوالے کر دی گئیں۔
یہیں پر بس نہیں بلکہ پہلی خلیج جنگ کا پورا کا پورا خرچہ جو کہ تقریباً اکسٹھ (۶۱) بلین ڈالر بنتا ہے تقریباً سارا کا سارا ہی عرب ممالک نے اٹھایا جس میں سے سولہ (۱۶) بلین ڈالر متحدہ عرب امارات نے ادا کیے۔
اوسلو مذاکرات کے پس پردہ خفیہ ملاقاتیں
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل اگرچہ اصل میں تو برطانیہ کی ناجائز اولاد ہے اور امریکہ کی لے پالک ہے مگر پھر بھی اس کی لاڈلی اور اکلوتی اولاد ہے، جس کی ہر خواہش پوری کرنا اور اس کے ناز نخرے اٹھانا امریکہ اپنا اوّلین فریضہ سمجھتا ہے چاہے اس کے لیے امریکہ کو اپنی ہی عوام کے منہ سے نوالا کیوں نہ چھیننا پڑ جائے۔ اس لیے ایسا ناممکن ہے کہ کوئی امریکہ کے آگے سجدہ ریز ہو، اس کا غلام ہو یا اس کی خوشنودی اور رضامندی کا خواہش مند ہو لیکن اسرائیل سے دشمنی رکھتا ہو، مسئلہ فلسطین کے ساتھ مخلص ہو یا کم از کم وقت آنے پر فلسطینی کاز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے اجتناب کرے۔
یہی وجہ ہے کہ جب خلیج جنگ کے بعد اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے لیے امریکہ نے سپین میں میڈرڈ کانفرنس منعقد کروائی، جس کے نتیجےمیں آنے والے سالوں میں اسرائیل اور فلسطینی تنظیم پی ایل او کے درمیان اوسلو معاہدے طے پائے، تو امریکی ایما پر تمام عر ب ریاستوں نے کسی نہ کسی درجے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا شروع کر دیے تھے۔
اوسلو معاہدوں کے مذاکرات کے دوران جب واشنگٹن میں اسرائیلی اور پی ایل او کے وفود کی ملاقاتیں ہوتی تھیں تو اسی کے پس پردہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی وفود کی بھی امریکی ثالثی میں ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں نہ صرف باہمی تجارت کو وسعت دینے پر اتفاق ہوا بلکہ یہیں سے مشترکہ دشمنوں بشمول ایران کے خلاف خفیہ روابط کا آغاز ہوا۔
F-16 طیاروں کی خریداری کے لیے ’اسرائیل کی اجازت‘
۱۹۹۴ء میں متحدہ عرب امارات امریکہ سے F-16 جیٹ طیارے خریدنا چاہتی تھی اور امریکہ اس پر رضامند بھی تھا لیکن دونوں ملکوں کو خدشہ تھا کہ ’’کہیں اسرائیل ناراض نہ ہو جائے‘‘۔ امریکی حکام نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کو اس کی اطلاع دی تو اس وقت وہاں موجود سفارتی اہلکار جیریمی اساکروف (اس وقت جرمنی میں اسرائیلی سفیر) نے جواب دیا کہ وہ اس معاملے پر اماراتی وفد سے براہ راست بات کرنا چاہتا ہے تاکہ جان سکے کہ ’’امارات یہ امریکی طیارے کس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد اماراتی وفت کی جیریمی اساکروف سے ملاقات ہوئی اور اماراتی وفد نے یقین دہانی کروائی کہ وہ یہ طیارے ایرانی خطرے کے سدباب کے لیے خریدنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے درمیان ایران کے خلاف تعاون پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس کے نتیجے میں پہلی بار باضابطہ طور پر متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا آغاز ہوا۔ اس ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن نے کلنٹن انتظامیہ کو مطلع کر دیا کہ اسے امریکہ کے امارات کو F-16 طیارے بیچنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
تھنک ٹینک ادارے کا قیام اور اس کے پس پردہ یہودی لابی کا امارات کا دورہ
۱۹۹۴ء ہی میں متحدہ عرب امارات کے موجودہ سربراہ اور اُس وقت اماراتی افواج کے چیف آف سٹاف محمد بن زاید نے ابوظہبی میں ایک تھنک ٹینک ادارے “Emirates Center for Strategic Studies and Research (ECSSR)” کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ رسمی طور پر اس ادارے کے قیام کا مقصد قومی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق تحقیق کرنا اور اسٹڑیٹیجک تجزیات پیش کرنا بتایا گیا جس کے ذریعے سے متحدہ عرب امارات اپنی پالیسی بنا سکے، لیکن اس ظاہری مقصد کے پیچھے بنیادی مقصد اس پلیٹ فارم کے پس پردہ اسرائیلی وفود کو امارات بلانا اور ان کے ساتھ بات چیت تھا۔
اسی ادارے کے پلیٹ فارم سے ادارے کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد محمد بن زاید نے امریکہ کی یہودی لابی کے بااثر افراد کو امارات مدعو کیا اور ان سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اس نے اپنی اس خواہش کا اعادہ کیا کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ اتحاد کا خواہاں ہے۔ اسی ملاقات میں محمد بن زاید نے کہا تھا :
’’میں تصور کر سکتا ہوں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف اکٹھے مورچوں میں لڑ رہے ہیں۔‘‘
نومبر۲۰۰۴ء میں شیخ زاید بن سلطان آل نہیان کے مرنے تک آنے والے سالوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی اور ان کے خفیہ تجارتی تعلقات، انٹیلی جنس شیئرنگ اور خفیہ ملاقاتیں اسی طرح سے چلتی رہیں۔
خلیفہ بن زاید آل نہیان (۲۰۰۴ء تا ۲۰۲۲ء)
۲۰۰۴ء میں زاید بن سلطان آل نہیان کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا خلیفہ بن زاید آل نہیان متحدہ عرب امارات کا سربراہ بنا جس کے بعد امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں نمایاں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔
دوسری لبنان جنگ ۲۰۰۶ء
۲۰۰۶ء میں جب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان دوسری لبنان جنگ ہوئی تو متحدہ عرب امارات نے حزب اللہ کی کھل کر مذمت کی اور اسے جنگ کا ذمہ دار قرار دیا۔ متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب، مصر، اردن، کویت، عراق، فلسطینی اتھارٹی اور بحرین کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں حزب اللہ کی کارروائیوں کو نا مناسب ، غیر ذمہ دارانہ اور عرب مفادات کے خلاف قرار دیا۔ اس کے علاوہ اس بیان میں حزب اللہ کو علاقائی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔ متحدہ عرب امارات نے بیان میں کہا کہ حزب اللہ کی کارروائیوں نے پورے عرب خطے کو غیر ضروری خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ اسرائیلی جارحیت کا بھی اصل ذمہ دار حزب اللہ ہی ہے۔
وکی لیکس دستاویزات: ۲۰۰۷ میں امریکی وفد سے محمد بن زاید کی ملاقات
وکی لیکس کی افشاء کردہ مشہور امریکی خفیہ کیبلز میں سے ایک امریکی حکام کی اس وقت کے ولی عہد محمد بن زاید سے خفیہ ملاقات کے حوالے سے ہے۔
یہ خفیہ ملاقات ۲۲ جنوری ۲۰۰۷ء کو ابو ظہبی میں ہوئی جس میں امریکی وفد میں امریکی انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور نیکولس برنز (Nicholas Burns) اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی سفیر جیمز جیفری (James Jeffrey) جبکہ امارات کی طرف سے اماراتی ولی عہد محمد بن زاید آل نہیان اور اماراتی وزیر خارجہ عبد اللہ بن زاید آل نہیان شامل تھے۔
ایران کے حوالے سے:
گفتگو کا آغاز محمد بن زاید نے اپنے دورۂ تہران کی رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ اسے ’’یہ بات انتہائی مضحکہ خیز لگی کہ ایران میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ ایران سے جنگ کا خواہاں ہے‘‘۔ ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے نیکولس برنز نے پوچھا کہ ’’کیا ایران کو درست پیغام مل گیا ہے، اور کیا وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے؟ ‘‘اس پر محمد بن زاید نے کہا کہ ’’کافی حد تک لیکن ابھی کام پورا نہیں ہوا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایران ابھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے‘‘۔ محمد بن زاید نے مزید کہا کہ اسے ’’بہت خوشی ہوئی کہ فرانس نے تہران کا دورہ منسوخ کر دیا ہے، پڑوس میں مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کے کسی وزیر کا دورہ کرنا ایک بات ہے اور کسی یورپی کا دورہ کرنا بالکل مختلف بات ہے‘‘۔ نیکولس برنز نےرائے دی کہ اگر ایران میں رفسنجانی کی حکومت آ جائے تو وہ نیوکلیئر معاہدہ کر سکتی ہے، اس کے جواب میں محمد بن زاید نے کہا کہ ’’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عوام اپنے ووٹوں سے کس کو ملک چلانے کے لیے منتخب کرتی ہے، ایران علاقائی سپر پاور بننا چاہتا ہے اور وہ ایٹمی ہتھیار چاہتا ہے اور وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کر لیتا‘‘۔ محمد بن زاید نے مزید کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ ’’ایران کے ساتھ جلد از جلد نمٹ لیا جائے اور اس میں تاخیر نہ کی جائے‘‘۔ پھر فوراً وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’’میرے کہنے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ فوجیں اتاری جائیں‘‘۔ محمد بن زاید کے بقول امریکہ ایران کو اتنا سخت پیغام نہیں بھیج رہا جتنا کہ بھیجنا چاہیے اور کہا کہ ایران کے خلاف ’’سخت اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری ہے، بہت سے ایرانی شمالی کوریا آ جا رہے ہیں اور بالآخر ہمیں خبر مل رہی ہو گی کہ ایران نے ایٹمی تجربات کر لیے ہیں‘‘۔ نیکولس برنز نے اس کے جواب میں کہا کہ اسرائیلی بھی اس معاملےمیں آپ سے اتفاق رکھتے ہیں، لیکن اگرچہ ہمیں ایران پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہےلیکن امریکہ جنگ نہیں چاہتا اگرچہ ہمیں ایران کو اپنی سوچ بدلنے کے لیے قائل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے جواب میں محمد بن زاید نے کہا کہ ’’مغرب تب ہی کوئی قدم اٹھائے گا جب شہاب میزائل لانچ ہو جائیں گے اور انہیں خطرہ محسوس ہو گا، لیکن خلیج ممالک ایران کو ایک مستقل خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ ایران آپ سے بات چیت کرے گا۔ آپ کو کسی ایسے فرد کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہ ہو‘‘۔
جمہوریت اور انتخابات کے حوالے سے
اس کے بعد موضوع متحدہ عرب امارات میں آزاد انتخابات کے انعقاد کی طرف چلا گیا۔ جس کے جواب میں محمد بن زاید نے کہا کہ امریکہ فلسطین میں آزاد انتخابات کے نتیجے میں حماس کے جیتنے کو دیکھ کر بھی مشرق وسطیٰ میں انتخابات کی حمایت کیوں کرتا ہے۔ اس کے بقول اگر ہم امن چاہتے ہیں تو وہ انتخابات کو ترویج دینے کا قائل نہیں۔اس نے کہا:
’’ مشرق وسطیٰ کیلیفورنیا نہیں ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد کی دنیا میں کسی بھی مسلم ملک میں آپ کو ملتے جلتے نتائج ہی نظر آئیں گے …… مشرق وسطیٰ کی عوام اپنے دل کی آواز کو سنے گی اور بڑے پیمانے پر اخوان المسلمون، حزب اللہ اور حماس جیسے جہادیوں کو ووٹ دے گی۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے۔اور اس عمل کو پچیس سے پچاس سال لگ سکتے ہیں تاکہ اس ثقافتی رجحان کو بدلا جا سکے۔ ابوظہبی کے مغربی حصے میں امارات کی حکومت نے ۲۶۲ نام نہاد ’طالبانی قرآنی مدارس‘ میں سے ۸۰ فیصد بند کر دیے ہیں۔ یہ وہ مدارس ہیں جن میں اپنے بیٹوں کو بھیجنے سے کوئی اماراتی انکار نہیں کرتا۔‘‘
اس کے جواب میں نیکولس برنز نے کہا کہ تمام امریکی حکومتیں جمہوریت کو ترویج دیتی ہیں لیکن مختلف ممالک میں اس کا طریقہ مختلف ہے۔ اس نے کہا کہ امریکہ ممالک کو تفصیلی بلیو پرنٹ نہیں دینا چاہتا بلکہ ان ممالک کو جمہوری مستقبل کی جانب اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے۔
اس کے جواب میں محمد بن زاید نے کہا:
’’مشرق وسطیٰ میں آزاد انتخابات کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ کو ایک کروڑ ستر لاکھ بیرل یومیہ تیل حاصل کرنے کے لیے کوئی اور علاقہ تلاش کرنا ہو گا۔ ‘‘
اس نے مزید کہا کہ عراق میں انتخابات کے نتائج تباہ کن تھے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی بنیاد پرستی کو اور ایرانی پشت پناہی میں جہادیوں کو فروغ ملا۔ اس نے مزید کہا کہ وہ ’’متحدہ عرب امارات کے حوالے سے فکر مند نہیں، ایرانیوں کے لیے یہاں قدم جمانا بہت مشکل ہے لیکن ہم لبنان اور فلسطین جیسے عرب ممالک ایران کے ہاتھ کھو بیٹھیں گے۔ شکر ہے مصر میں حسنی مبارک ہے، جو آل نہیان کا خاندانی دوست ہے۔ لیکن اگر مصر میں آزاد انتخابات کروائے جائیں تو وہ اخوان المسلمون کو ہی منتخب کریں گے۔‘‘ محمد بن زاید کے مطابق تین بڑے مسلم ممالک ہیں جہاں یہ خطرہ موجود ہے۔ مصر، سعودی عرب اور پاکستان۔
محمد بن زاید نے مزید کہا کہ ملک کو انتخابات کے قابل بنانے کے لیے مزید کم از کم بیس سال درکار ہوں گے۔ ملک کا حال یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج کے ساٹھ ہزار فوجیوں میں سے پچاس یا ۸۰ فیصد ایسے ہوں گے جو مکہ سے کسی مقدس آدمی کی پکار پر فوراً لبیک کہیں گے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر میں بعض موضوعات پر ابھی کھل کر بات کرنے لگوں تو مجھے میرے اپنے لوگ ہی سنگسار کر دیں گے۔ اس نے کہا کہ ہم اس مسئلے کے تعلیمی پہلو پر کام کر رہے ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں اور ہمارا ہدف یہ ہے کہ اگلے پانچ سال میں یہاں ’’طالبانی قرآنی مدارس‘‘ میں سے کوئی ایک بھی نہ بچے۔
حماس اور حزب اللہ کے حوالے سے
حماس کے حوالےسے بات کرتے ہوئے محمد بن زاید نے کہا کہ جب تک حماس موجود ہے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ حزب اللہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ بہت خطرناک ہے اور اس نے اسرائیل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جس پر نیکولس برنز نے کہا کہ اس موضوع کو خلیج تعاون تنظیم(GCC) کے اجلاس میں اٹھانا چاہیے تاکہ ایران اور حزب اللہ جیسے متشدد گروہوں کو لگام ڈالنے کے لیے مل کر کام کیا جائے۔ جواب میں محمد بن زاید نے کہا کہ متحدہ عرب امارات خلیج تعاون تنظیم کے تمام ارکان کے سامنے کھل کر بات نہیں کر سکتی بلکہ امارات صرف بحرینیوں، سعودیوں اور اردنیوں کے سامنے ہی کھل کر بات کر سکتی ہے۔
امریکی یہودی تنظیموں کے صدور کے ابو ظہبی کے دورے کے حوالے سے
نیکولس برنز نے آخر میں امریکہ کی بڑی یہودی تنظیموں کے صدور کے ایک وفد کے ابوظہبی دورے کے حوالے سے پوچھا تو محمد بن زاید کے مشیر یوسف العتیبہ نے کہا کہ یہ دورہ فی الحال مؤخر کر دینا چاہیے کیونکہ حال ہی میں مشہور امریکی یہودی ہفتہ وار اخبار ’’دی فارورڈ‘‘ میں مارک پیرل مین نے اس دورے کے حوالے سے لکھا ہے جس کی وجہ سے سکیورٹی خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ یوسف العتیبہ نے مزید کہا کہ یہ وفد اس اقدام سے متحدہ عرب امارات کے مشورے کے خلاف گیا ہے کہ اس دورے کو خفیہ رکھا جائے اور اس کی تشہیر نہ کی جائے۔ اس پر نیکولس برنز نے کہا کہ میں اسرائیل میں اس گروپ کے افراد سے ملا تھا اور وہ اس دورے کے حوالے سے بہت خوش تھےاور مزید کہا کہ اسے خوشی ہے کہ کہ یہ دورہ مؤخر ہی ہوا ہے منسوخ نہیں۔ جس پر محمد بن زاید نے متحدہ عرب امارات کی مذہبی رواداری کی پالیسیوں کی وضاحت کی اور آخر میں کہا:
’’متحدہ عرب امارات اسرائیل کو ایک دشمن کے طور پر نہیں دیکھتی۔‘‘
ممکنہ ایران امریکہ جوہری معاہدے کے خلاف مشترکہ مؤقف
جنوری ۲۰۰۹ء میں جب اوباما امریکی صدر بنا تو اس کے فوراً بعد اس نے ایران کو مذاکرات کی دعوت دی۔ اس کے بعد امریکہ میں اسرائیلی سفیر سیلائی میریڈور (Sellai Meridor) اور امریکہ میں موجوداماراتی سفیر یوسف العتیبہ نے امریکی حکومت کے مشرق وسطیٰ کے لیے مشیر ڈینس راس (Dennis Ross) سے ملاقات کی جہاں دونوں سفیروں نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا کہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام اور خطے (عراق، لبنان اور فلسطین) میں مداخلت کے خلاف سخت مؤقف اپنائے۔ اس ملاقات میں کہا گیا کہ ایران کی جوہری صلاحیت نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے خلیج کے استحکام کو خطرے میں ڈال دے گی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے یوں کھل کر مشترکہ طور پر ایک مؤقف اپنایا۔
اسرائیلی کھلاڑی کی دبئی ٹینس ٹورنامنٹ میں شرکت
۲۰۰۹ء میں دبئی ٹینس چیمپئن شپ کے دوران متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی ٹینس کھلاڑی اینڈی رام کو ٹورنامنٹ میں شرکت کی اجازت ایک خصوصی ویزا کی صورت میں دی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کوئی اسرائیلی کھلاڑی متحدہ عرب امارات میں کھیلنے کے لیے داخل ہوا۔
اسرائیلی وزیر کی سربراہی میں اسرائیلی وفد کی ابو ظہبی آمد
جنوری ۲۰۱۰ میں متحدہ عرب امارات نے ابو ظہبی میں انٹرنیشنل ری نیو ایبل اینرجی ایجنسی (IRENA) کے ہیڈ کوارٹر کے قیام کی کانفرنس منعقد کی۔ اور اس کانفرنس میں اسرائیلی وفد کو بھی مدعو کیا گیا۔ اسرائیلی وفد کی قیادت اسرائیلی وزیر برائے قومی انفراسٹرکچر اوزی لینڈاؤ (Uzi Landau) کر رہا تھاجبکہ اس وفد میں وزارت خارجہ اور توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افسران بھی شامل تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اسرائیلی حکومتی وفد، بالخصوص ایسا کہ جس کی قیادت ایک اسرائیلی وزیر کر رہا تھا، نے متحدہ عرب امارات کا سرکاری دورہ کیا۔
موساد کے ہاتھوں دبئی میں حماس کے رہنما کی شہادت
اس دورے کے تین دن بعد اسرائیلی موساد نے حماس کے ایک اہم رہنما اور قسام بریگیڈ کے بانی رکن محمود المبحوح کو دبئی کے ایک ہوٹل میں شہید کر دیا۔ رپورٹس کے مطابق اس کارروائی میں دبئی میں موساد کے ۲۹ ارکان نے شرکت کی جو برطانیہ، آئرلینڈ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا اور دیگر یورپی ممالک کے پاسپورٹس پر دبئی آئے تھے۔ اس کارروائی کی وجہ سے متحدہ عرب امارات ایک مشکل صورتحال کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات وقتی طور پر کشیدہ ہو گئے۔
لیکن ۲۰۱۱ء میں شروع ہونے والی عرب بہار نے دونوں ملکوں کو پھر سے قریب کر دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں مزید اضافہ ہوا۔
نیتن یاہو کی اماراتی وزیر خارجہ سے ملاقات
۲۰۱۲ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زاید آل نہیان سے خفیہ ملاقات کی۔ یہ ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہوئی جب دونوں رہنما نیو یارک میں موجود تھے۔ ملاقات کو اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ یہ ملاقات لوئر رجنسی ہوٹل میں نیتن یاہو کے سویٹ میں ہوئی اور ملاقات کے لیے اماراتی وزیر خارجہ عبد اللہ بن زاید اور امریکہ میں اماراتی سفیر یوسف العتیبہ ہوٹل کی زیر زمین پارکنگ میں داخل ہوئے اور وہاں سے خصوصی سروس لفٹ سے اوپر پہنچے۔ ملاقات میں نیتن یاہو کے ساتھ اس کا قومی سلامتی کا مشیر یعقوب امیدرور اور عسکری سیکریٹری میجر جنرل جوہانن لاکر بھی موجود تھا۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق کیا۔
اسرائیلی ڈرونز کو امارات کی فضائی حدود میں اڑنے کی اجازت
۲۰۱۳ء میں متحدہ عرب امارات نے خفیہ طور پر اسرائیلی فضائیہ کو اپنے ڈرونز امارات کی فضائی حدود میں اڑانے کی اجازت دے دی۔ تاکہ اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات، میزائل ٹیسٹنگ اور بحری جہازوں کی نگرانی کر سکے۔ اس سے اسرائیل براہ راست ایران کی حدود میں داخل ہوئے بغیر امارات کی حدود سے ہی محفوظ طریقے سے ایران کی جاسوسی کرنے کے قابل ہو گیا۔
محمد بن زاید آل نہیان (۲۰۱۴ء تا ۲۰۲۲ء – ۲۰۲۲ء تا حال)
جنوری ۲۰۱۴ء میں خلیفہ بن زائد آل نہیان کو دل کا دورہ پڑا جس کے بعد وہ ملکی معاملات سے علیحدہ ہو گیا ۔ اس کے بعد سے خلیفہ بن زاید کے مرنے تک ولی عہد محمد بن زاید متحدہ عرب امارات کا عملی طور پر حکمران رہا۔ محمد بن زاید کے حکومت سنبھالتے ہی متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہت تیزی آ گئی۔
محمد بن زاید کے دور کے اہم واقعات
محمد بن زاید کے حکومت سنبھالتے ہی اسرائیل امارات تعلقات اس قدر تیزی سے آگے بڑھے کہ جہاں سالوں میں کوئی پیش رفت ہوتی تھی تو اب سال میں متعدد بار اہم پیش رفت ہونے لگی جو ابراہام معاہدوں پر منتج ہوئی۔ اس عرصے کے اہم واقعات درج ذیل ہیں:
- ۲۰۱۴ء تک اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکا تھا، جس میں سے پچاس فیصد دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں تھا۔ یہ ساری تجارت امریکی اور یورپی ممالک کی مدد سے ہوتی تھی تاکہ براہِ راست تجارت کو خفیہ رکھا جا سکے۔
- ۲۰۱۴ء ہی میں ابو ظہبی کے حکام نے اسرائیلی زرعی مشیر اسحاق ایالون کو خفیہ طور پر ابوظہبی مدعو کیا تاکہ وہ اسرائیلی ٹیکنالوجی کے ذریعے سے سبزیوں کی کاشت کے لیے گرین ہاؤسز بنانے کی تربیت دے۔
- اس سال تل ابیب اور ابو ظہبی کے درمیان ایک پرائیوٹ جیٹ ہفتے میں دو بار پرواز کر رہا تھا۔ یہ پروازیں خفیہ تجارتی وفود اور اسرائیلی حکومتی وفود کی آمد و رفت کے لیے چلائی جا رہی تھیں۔
- اسی سال متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے ایران کی جاسوسی اور نگرانی کرنے کے لیے ڈرونز اور جاسوسی آلات خریدے ۔ ڈرونز میں ہیرون ٹی پی اور آربٹر تھری ڈرونز شامل تھے جبکہ جاسوسی کے آلات میں فالکن آئی سرویلنس سسٹم بھی شامل تھا جو ۲۰۱۵ء میں ابو ظہبی میں انسٹال کیا گیا۔ یہ ایک بڑے پیمانے پر نگرانی (Mass Surveillance) کا نظام ہے جو شہریوں کی نگرانی، چہرے کی شناخت (Facial Recognition) جیسی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹرانک وار فئیر اور انٹیلی جنس سسٹمز بھی خریدے جو ڈرونز کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں اور سگنلز انٹیلی جنس اور میزائل ٹریکنگ میں کام آتے ہیں۔
- اسی سال متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی کمپنی NSO Group سے پیگاسس (Pegasus) نامی سپائی ویئر بھی خریدا جو موبائل فونز کی جاسوسی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جسے متحدہ عرب امارات نے اپنے مخالفین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی نگرانی کے لیے استعمال کیا۔
- ۲۰۱۴ء ہی میں اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ پچاس روزہ جنگ کے بعد متحدہ عرب امارات سے پچاس ڈاکٹروں کی ایک ٹیم غزہ پہنچی جسے مصر نے جانے دیا حالانکہ اس سے پہلے کسی میڈیکل ٹیم کو مصر غزہ جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ یہ افراد غزہ میں ایک فیلڈ ہسپتال قائم کرنے کے نام پر آئے تھے لیکن اچانک ایک دن اپنا سب ساز و سامان چھوڑ کر غزہ سے چلے گئے۔غزہ میں موجود حماس کی سکیورٹی فورس کے مطابق یہ سب افراد جو ڈاکٹروں کے بھیس میں آئے تھے اصل میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کی غرض سے آئے تھے اور ان کا مقصد القسام بریگیڈ کے حوالے سے معلومات جمع کرنا اور ان کے راکٹ لانچنگ مقامات کا کھوج لگانا تھا۔ ان میں سے بعض ’ڈاکٹر‘ متحدہ عرب امارات کے مرکزی انٹیلی جنس ادارے کے اعلیٰ افسران بھی تھے۔
- ۲۰۱۵ء میں بھی اسرائیل اور امارات کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں اور ایران کے خلاف سکیورٹی تعاون کے کئی خفیہ معاہدے ہوئے۔
- متحدہ عرب امارات نے یمن میں حوثیوں کے خلاف سعودی اتحاد کی قیادت کی اور اس میں اسرائیلی ڈرونز اور سرویلنس ٹیکلنالوجی کا استعمال کیا گیا جبکہ اس کے علاوہ بھی اسرائیل نے خفیہ طور پر حوثیوں کے خلاف انٹیلی جنس تعاون فراہم کیا۔
- نومبر ۲۰۱۵ء میں اسرائیل نے ابوظہبی میں انٹرنیشنل ری نیو ایبل انرجی ایجنسی (IRENA) کے ہیڈ کوارٹر میں اپنا پہلا سفارتی دفتر کھولا۔ یہ دفتر خفیہ طور پر انسداد دہشت گردی اور ایران مخالف انٹیلی جنس شیئرنگ کا پلیٹ فارم بنا۔ یہ اسرائیل کی متحدہ عرب امارات میں باضابطہ موجودگی کا آغاز تھا۔
- اگست ۲۰۱۶ء میں امریکی ریاست نیواڈا میں اسرائیلی ائیر فورس اور متحدہ عرب امارات کی ائیر فورس نے مشترکہ ریڈ فلیگ مشقیں کیں۔ ان مشقوں میں سپین اور پاکستان سے بھی پائلٹس نے شرکت کی۔ یہ مشقیں خفیہ رکھی گئی تھیں۔
- ۲۰۱۷ء میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی فضائیہ نے یونان کی میزبانی میں Iniohos 2017 نامی مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ممالک کی فضائیہ ایک ہی مشق میں کھلے عام نظر آئی۔ ان مشقوں میں متحدہ عرب امارات، اسرائیل اور میزبان ملک یونان کے علاوہ امریکہ اور اٹلی نے بھی شرکت کی۔ یہ مشترکہ فوجی مشقیں بالواسطہ طور پر دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون کا اظہار تھیں۔
- مارچ ۲۰۱۸ ء میں امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ اور امریکہ میں بحرین کے سفیر سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد بھی ایران کے خلاف تینوں ملکوں کا باہمی تعاون بتایاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر ۲۰۱۸ء میں امریکہ میں امارات کے سفیر یوسف العتیبہ سے اسرائیلی سفیر رون دیمر نے بھی ملاقات کی۔ یہ ملاقات امریکی قومی سلامتی کے یہودی ادارے (Jewish Institute of National Security of America) کےسالانہ عشائیے میں ہوئی۔
- ستمبر ۲۰۱۸ء میں متحدہ عرب امارات نے ابو ظہبی میں اسرائیل اور ترکی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے حکام کی خفیہ ملاقات کا انتظام کروایا۔ اس ملاقات کا مقصد متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی تھا۔
- اکتوبر ۲۰۱۸ء میں ہی اسرائیل کی ثقافت اور کھیل کی خاتون وزیر میری راگو ْ نے ابوظہبی میں ہونے والے جوڈو مقابلوں کو دیکھنے کے لیے امارات کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران وہ شیخ زاید جامعہ مسجد بھی دیکھنے گئی۔ ان جوڈو مقابلوں کے بعد تاریخ میں پہلی بار متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کا قومی ترانہ چلایا گیا۔
- ۲۰۱۸ء میں ہی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات کا خفیہ دورہ کیا اور محمد بن زاید سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں نیتن یاہو کے ساتھ موساد کا سربراہ یوسی کوہان بھی موجود تھا۔
- جنوری ۲۰۱۹ء میں متحدہ عرب امارات نے فٹ بال کے ایشئن کپ کی میزبانی کی۔ اس ٹورنامنٹ کے دوران متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی میڈیا چینل کو براہ راست کوریج کرنے کی اجازت دی۔
- اپریل ۲۰۱۹ء میں متحدہ عرب امارات نے دبئی ایکسپو ۲۰۲۰ء کا انعقاد کیا اور اس میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر مدعو کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب سرکاری سطح پر اسرائیل کو کسی حیلے بہانے کے بغیر براہ راست متحدہ عرب امارات مدعو کیا گیا۔
- اسی سال امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زاید نے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون اور فوجی اتحاد کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔
- دسمبر ۲۰۱۹ء میں وائٹ ہاؤس میں امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے حکام کی ملاقات ہوئی جس میں ایران کے خلاف تینوں ملکوں کے درمیان تعاون کو بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ اس ملاقات میں اسرائیلی قومی سلامتی کے مشیر میر بین شبات اور متحدہ عرب امارات کے امریکہ مین سفیر یوسف العتیبہ نے شرکت کی۔
- ۱۳ اگست ۲۰۲۰ء کو امریکہ کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے تعلقات کی بحالی کے معاہدے کا اعلان کیا جسے ابراہام اکورڈز (ابراہیمی معاہدہ) کہا جاتا ہے۔
- ۱۵ ستمبر ۲۰۲۰ء کو اس معاہدے پر وائٹ ہاؤس میں دستخط ہوئے جس کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کرنے والا مصر اور اردن کے بعد تیسرا عرب ملک بن گیا۔
- اس کے بعد جنوری ۲۰۲۱ء میں اسرائیل نے ابو ظہبی میں اپنا سفارت خانہ کھولا جس کے افتتاح کے لیے اسرائیلی وزیر خارجہ ییئر لیپڈ نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جبکہ متحدہ عرب امارات نے تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ مئی ۲۰۲۱ء میں کھولا۔
- ابراہیمی معاہدوں کے بعد ابو ظہبی میں ایک ’’ابراہیمی خاندان کا گھر‘‘ (Abrahamic Family House) کھولا گیا جس میں ایک مسجد، ایک چرج اور ایک یہودی سیناگوگ ایک ساتھ تھے۔
- نومبر ۲۰۲۰ء میں دونوں ملکوں کے درمیان پروازوں کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ جو تجارتی معاہدے پہلے خفیہ طور پر چل رہے تھے ان سمیت نئے تجارتی معاہدوں کو رسمی شکل دے دی گئی اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان شہریوں کی آمد و رفت کے لیے ویزہ پالیسی میں نرمی لائی گئی۔ ان تجارتی معاہدوں کے نتیجے میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت ۲۰۲۳ء تک ۳ بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ جبکہ امارات نے اگلے دس سال میں اسرائیل میں دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا۔
- اس معاہدے کے بعد ایک سال میں دو لاکھ اسرائیلی شہری متحدہ عرب امارات سیاحت کے لیے آئے۔
- جو سکیورٹی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ برسوں سے خفیہ طور پر جاری تھی ۲۰۲۰ء میں انہیں بھی باضابطہ شکل دے دی گئی اور ان کا اعلان کر دیا گیا۔
- دسمبر ۲۰۲۱ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ کے متحدہ عرب امارات کا پہلا باضابطہ سرکاری دورہ کیا اور محمد بن زائد سے ملاقات کی۔
- ۱۳ مئی ۲۰۲۲ء کو خلیفہ بن زاید آل نہیان ۷۳ سال کی عمر میں مر گیا جس کے بعد محمد بن زاید آل نہیان ملک کا باضابطہ طور پر صدر منتخب ہو گیا۔
- ۳۱ مئی ۲۰۲۲ء کو اسرائیل اور امارات کے درمیان فری ٹریڈ معاہدہ طے پایا اور دونوں ملکوں کے درمیان چھیانوے فیصد مصنوعات کی تجارت پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔
- جنوری ۲۰۲۲ء میں اسرائیلی صدر آئیزک ہیرزوگ نے امارات کا پہلا سرکاری دورہ کی اور محمد بن زائد سے ملاقات کی۔
- فروری ۲۰۲۳ء میں ابوظہبی میں موسی بن میمون سائناگوگ کا افتتاح کیا گیا۔
غزہ کی حالیہ جنگ میں متحدہ عرب امارات کا کردار
لاجسٹک سپورٹ
غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد جب بحیرہ ٔ احمر میں حوثیوں نے اسرائیلی اور امریکی بحری جہازوں پر حملے شروع کیے تو متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی تجارت کو سہولت فراہم کرنے کے لیے زمینی راستہ فراہم کیا۔ انڈیا اور مشرقی بعید کے ممالک سے آنے والا تجارتی سامان پہلے دبئی کی بندرگاہ پر پہنچتا تھا جس کے بعد وہاں سے زمینی راستے پر ٹرکوں کے ذریعے سعودی عرب اور اردن سے گزر کر اسرائیل پہنچتا تھا۔ یہی طریقہ اسرائیلی تجارتی مواد کی برآمدات کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا۔ اس طریقے سے اسرائیل کےلیے ان ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی مال کی نقل و حمل کے اخراجات میں ۸۰ فیصد کمی آئی۔
زمینی راستے کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے اس جنگ کے دوران اسرائیل کو فضائی کارگو سپورٹ بھی فراہم کی اور اس جنگ کے دوران امارات اسرائیل کا اسٹریٹیجک فضائی مرکز رہی۔ جنوری ۲۰۲۴ء سے نومبر ۲۰۲۴ء تک تل ابیب اور دبئی کے درمیان ۲۳۳ کارگو فلائٹس نے سفر کیا جن میں سے ۱۴۹ فلائٹس دبئی سے تل ابیب جانے والی تھیں۔ یہ فلائٹس اسرائیل کی لاجسٹک اور عسکری ضروریات بشمول اسلحے کی ترسیل کے لیے چلائی جا رہی تھیں۔
دورانِ جنگ تجارت میں اضافہ
غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت نہ صرف معمول کے مطابق جاری رہی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۴ء میں ۲۰۲۳ء میں جنگ شروع ہونے سے قبل کی نسبت دونوں ملکوں کی باہمی تجارت میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا۔
حماس مخالف مسلح گروہوں کی فنڈنگ
سکائی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے دوران غزہ میں چار مسلح گروہ لانچ کیے گئے تاکہ حماس کے خلاف داخلی جنگ شروع کی جائے۔جہاں ان گروپوں کی عسکری تربیت اسرائیل نے کی وہیں ان گروپوں کے حوالے سے تمام مالی اخراجات متحدہ عرب امارات نے اٹھائے۔
مغربی کنارے کے حوالے سے اپنے مؤقف سے پسپائی
ابراہام معاہدہ کرتے وقت متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی یہ شرط رکھی تھی کہ اسرائیل مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ نہیں بنائے گا۔ جب اگست ۲۰۲۵ء میں اسرائیلی وزیر مالیات بیزالیل سموٹریچ نے ایک یہودی بستی بنانے کا اعلان کیا جو مغربی کنارے کو تقسیم کردے گی اور مشرقی بیت المقدس کو مکمل طور پر مغربی کنارے سے کاٹ دے گی جس کی وجہ سے فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ سموٹریچ نے یہ بھی کہا کہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے نقشے تیار کر لیے گئے ہیں۔ اس کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تنبیہ کی کہ مغربی کنارے کا الحاق ایک سرخ لکیر ہے اگر اسرائیل نے ایسا کیا تو اس سے نارملائزیشن معاہدے کو ’’شدید نقصان‘‘ پہنچے گا۔ لیکن اکتوبر ۲۰۲۵ء میں جب اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بنانے کی قرارداد منظور کی تو متحدہ عرب امارات نے انتہائی بے شرمی سے کہا کہ اگر اسرائیل ایسا کر بھی لے تو بھی ہمارے تعلقات اسرائیل کے ساتھ ختم نہیں ہوں گے۔
اختتامیہ
بالآخر قبلۂ اوّل سے خیانت کی اس داستان کا ایک اور کردار بے نقاب ہوا۔ جس بھی خائن کی داستان پڑھ لیں ایسا لگتاہے کہ اس سے بڑی خیانت کسی اور نے نہیں کی ہو گی، اپنے قبلۂ اوّل سے، اپنے تیسرے حرم سے، دنیا کے تیسرے مقدس ترین مقام سے، اپنے مسلمان بھائیوں کے خون سے، بے گناہ عورتوں اور بچوں سے کوئی اور اس قدر غداری کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک پر مسلط یہ خائن حکمران اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اور اپنے دو کوڑی کے ذاتی مفادات کے لیے کسی اور ملک میں موجود اپنے مسلمان بھائی کو تو کیا وہ اپنے ہی ملک کی عوام کو بے دریغ قتل کر سکتے ہیں اور کرتے آئے ہیں، ان کی نظر میں اپنے مفادات کے علاوہ اور کوئی چیز حرمت والی نہیں، نہ ہماری مقدسات، نہ خونِ مسلم کی حرمت نہ عفیفہ مسلمان بہنوں کی عصمت، ان کے لیے سب بے معنی ہے۔ اگر ان کے لیے کچھ معنی رکھتا ہے تو جاہ و اقتدار اور اس کو بچانے کی خاطر وہ ہر حد سے گزر سکتے ہیں۔
لیکن امتحان ان مسلط خائنین کے تحت رہنے والے ہم لوگوں کا ہے۔ ہم سب اپنی محدود سطح کے ذاتی مفادات کی خاطر چپ ہیں، کوئی اپنے کاروبار کے لیے، کوئی اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کے لیے، کوئی دینی مصلحت کے نام پر اپنے مدارس، اپنی جماعتوں اور تنظیموں کے لیے۔ کسی نے خود کو ’’اجتماعی مصلحت‘‘ یا ’’گریٹر گڈ‘‘ کا ڈھکوسلہ دے رکھا ہے، کبھی ضمیر کچھ زیادہ ملامت کر دیتا ہے تو کوئی اپنے سوشل میڈیا پر احتجاجی و مذمتی پوسٹ کر کے اپنے ضمیر کو لوری دے لیتا ہے کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا اس سے زیادہ ہمارے بس میں کچھ نہیں۔ لیکن کیا ہم نے یہ فیصلہ کرنے سے قبل کہ ہمارے بس میں کچھ نہیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے؟ خود سے سوال پوچھ کر دیکھا ہے کہ کیا ہم نے اپنی آخری حد تک سب کچھ آزما کر دیکھ لیا ہے؟ اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے جو کچھ ہم سے بن پڑا وہ کر کے دیکھ لیا اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کے بعد ہمارے بس میں کچھ نہیں؟ یا اس سے پہلے ہی اپنی بے حسی، خود غرضی اور مفاد پرستی کو چھپانے کے لیے یہ بہانہ تراش کر بیٹھ گئے ہیں؟
ہم سب کو خود سے سوال کرنا چاہیے! کیا ہم واقعی بے بس ہیں یا قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان کے کرداروں میں سے ایک اور خائن کردار؟
٭٭٭٭٭
