بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ وَاَمَّا السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (سورۃ الضحیٰ)
’’قسم ہے چڑھتے دن کی روشنی کی۔ اور رات کی جب اس کا اندھیرا بیٹھ جائے۔ کہ تمہارے پروردگار نے نہ تمہیں چھوڑا ہے اور نہ ناراض ہوا ہے۔ اور یقینا آگے آنے والے حالات تمہارے لیے پہلے حالات سے بہتر ہیں۔ اور یقین جانو کہ عنقریب تمہارا پروردگار تمہیں اتنا اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجاؤ گے۔ کیا اس نے تمہیں یتیم نہیں پایا تھا، پھر (تمہیں) ٹھکانا دیا ؟ اور تمہیں راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھایا ۔ اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا۔ اب جو یتیم ہے تم اس پر سختی مت کرنا۔ اور جو سوال کرنے والا ہو، اسے جھڑکنا نہیں۔ اور جو تمہارے پروردگار کی نعمت ہے اس کا تذکرہ کرتے رہنا۔ ‘‘
تمہید
2017ء کے موسم بہار میں، ایک نوجوان نے مجھے رابرٹ گرین کی کتاب “The 33 Strategies of War”کا ایک نسخہ دیا اور مجھے بتایا کہ آج کل اس کتاب کا بہت چرچا ہے، میں چاہوں گا کہ آپ اس کا مطالعہ کریں اور ہمیں اس سے متعلق آگاہ کریں۔
میں نے کتاب کا مقدمہ بغور پڑھا، پھر کتاب کا طائرانہ جائزہ لیا، لیکن ’گرین‘ نے کتاب میں جو کچھ بیان کیا ہے، چاہے اس کا مدعا حقائق و واقعات کی وضاحت ہو یا لوگوں کے درمیان دشمنی و نفرت کو بھڑکانا ہو، میں اس سے متاثر نہیں ہوا۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی معاشروں میں تضاد پایا جاتا ہے، مغربی معاشرے ایک طرف جمہوری اقدار (امن) کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان معاشروں میں باہمی رقابت (جنگ) پھیلی ہوئی ہے جو اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ایک تلخ تنازع دکھائی دیتا ہے جس نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہو۔ مغربی معاشرے میں جس انفرادی خود غرضی کو فروغ دیا جاتا ہے اس میں ہی وہ دعوت پنہاں ہے جو معاشرے کو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے۔
اسی تناظر میں، ہمیں مغربی معاشرے میں ایسی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں جو عام زندگی میں عوام الناس کے خلاف ان فوجی منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں جو اصل میں دشمنوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس طرح سے معاملہ کرنے میں نہ صرف دیانت اور اخلاص کا فقدان پایا جاتا ہے بلکہ یہ ظلم، منافقت، موقع پرستی، استحصال اور لالچ سے بھی بھرا ہوا نظر آتا ہے اور ایک ہی قوم کے افراد میں یہ صورت حال پیدا ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ ایسی بری تربیت اور ناقص پرورش، ان کی صفوں کو تقسیم کرتی ہے اور ان کی نسلوں کو ایسی مقابلہ بازی میں دھکیلتی ہے جس کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ نفسیاتی اور ذہنی تربیت میں اس کے برے اثرات اس سے کم نہیں ہیں جو ابن المقفع کی کتاب ’’کلیلۃ و دِمنۃ‘‘ یا میکاولی (Machiavelli) کی کتاب ’’دی پرنس‘‘ (The Prince) پیدا کرتی ہے۔
’گرین‘ جن باتوں کی دعوت دیتا ہے ان میں سے اکثر ہمارے اسلامی اصولوں اور عادات و روایات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس لیے ایک عرصے تک میں نے اس کتاب کو چھوڑے رکھا، پھر مجھ سے کتاب کے صرف عسکری پہلو کو بیان کرنے کی گزارش کی گئی۔ کیونکہ ’گرین‘ نے اس کتاب میں متعدد عسکری مہمات اور جنگی حکمت عملیوں کو اکٹھا کیا ہے جو ذہن کو کھولتی ہیں اور بہت سی قوموں کی ماضی اور حال کی عسکری تاریخ بیان کرتی ہیں جس سے عسکری سمجھ بوجھ اور تجربے میں اضافہ ہوتا ہے۔
پس اس طرح آغاز ہوا……
پھر میں وقتاً فوقتاً کتاب کے ساتھ مشغول رہا اور محتاط انداز میں اس کے مندرجات پر غور و خوض کرتا رہا اور اس میں سے جو باتیں قابلِ بیان ہوتیں انہیں مختصر اور جامع فقروں میں نزاکت کے ساتھ تحریر میں لے آتا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں نے اس احتیاط اور جھجک میں کچھ توسع اختیار کیا۔ اس کے باوجود اکثر مجھے یہ اپنے دل پر بھاری محسوس ہوتا اس لیے میں اسے طویل عرصے تک چھوڑ دیتا، یہی وجہ ہے کہ اسے مکمل کرنے میں مجھے کافی وقت لگا۔
اور ایک خوف یہ بھی تھا کہ عدم توجہی میں کہیں میں بھی ان امور میں پھسل نہ جاؤں جن میں ’گرین‘ پھسلا ہے۔ مثلاً یہاں میں چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا:
میں ہر اس چیز سے رجوع کرتا ہوں اور اس سے اعلانِ برأت کرتا ہوں جو ’گرین‘ کے بیان میں ہمارے اسلامی اصولوں، مبادیات اور اسلامی اقدار و ثقافت سے متصادم ہو اور جو شخص میری اس کتاب میں ایسی چیز پائے اس سے میری استدعا ہے کہ وہ اس کی نشاندہی کرے اور مجھے مطلع کرے تاکہ میں اسے حذف کر سکوں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمُؤْمِنُ مَرْآةُ أَخِيهِ، وَالْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ، يَكُفُّ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ، وَيَحُوطُهُ مِنْ وَرَائِهِ» الأدب المفرد،
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے اور مومن مومن کا بھائی ہے، وہ اسے نقصان سے بچاتا ہے اور اس کی پشت سے بھی اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘ (الادب المفرد)
وقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا»، وقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى» والحديثان في صحيح مسلم،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے جس کا ہر حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے‘‘۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مومنوں کی باہمی محبت، شفقت اور ہمدردی میں مثال ایک جسم کی سی ہے، جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو باقی جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
میں نے ’گرین‘ کی کتاب کی تہذیب و تلخیص کر کے اسے شرعی اصولوں اور اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور اسے ’’قراءة حرة في كتاب 33 استراتيجية للحرب‘‘ ( کتاب ’۳۳ جنگی حکمت عملیاں‘ کا ایک آزاد مطالعہ) کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے توفیق اور کامیابی کا طلب گار ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں اور سب مظلوموں کو فائدہ پہنچائے، آمین۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ رابرٹ گرین کی کتاب ’The 33 Strategies of War‘ سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے، بلکہ میری مراد یہ ہے کہ جو کوئی بھی اس کتاب کا یا ابن المقفع کی کتاب ’’کلیلۃ و دِمنۃ‘‘ کا بغور مطالعہ کرنا چاہے، اسے اقدار اور اصولوں کا پابند ہونا چاہیے اور اور اس کےپاس کوئی ایسا پیمانہ ہونا چاہیے جس سے وہ اخذ شدہ افکار کو جانچ سکے، تاکہ وہ موقع پرستی کی اس صفت سے متصف نہ ہو جائے جو ان کتابوں کے اندھیروں میں واضح طور پر بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ اسے ان مقامات کا خلاصہ نکالنا ہو گا اور پھر ان کی دوبارہ تشریح بھی کرنا ہو گی لیکن اخلاقی انداز میں، تاکہ وہ انسانوں کو، تمام انسانوں کو، فائدہ پہنچا سکے۔ البتہ انصاف کی بات یہ ہے کہ ’رابرٹ گرین‘ کی اس کتاب میں عسکری کارروائیوں کے بہت سے تاریخی شواہد اور مفید اور دلچسپ اسٹریٹیجک نظارے موجود ہیں جو اس لائق ہیں کہ ان پر گہرائی میں غور و خوض کیا جائے، بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ ان مصادر و مراجع کی طرف رجوع کیا جائے جہاں سے رابرٹ نے انہیں نقل کیا ہے تاکہ ان سے مکمل طور پر استفادہ کیا جا سکے۔ میں اس کتاب کے قاری کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ان مصادر و مراجع کو تلاش کر کے از خود مطالعہ کرنے کی بھر پور کوشش کرے اور محض رابرٹ کے خلاصوں پر اکتفا نہ کرے، اس سے قاری کے تجربے میں بہت اضافہ ہوگا۔
اس کتاب میں، خصوصاً اس کے عسکری پہلو کے تناظر میں، ایسے جملے اور فقرے پائے جاتے ہیں جن کے الفاظ کو گہرائی سے ترتیب دیا گیا ہے اور وہ تلخ تجربات پر مبنی ہیں، مثال کے طور پر: ’’علم، ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کشمکش اور تنازعات کا وقت آنے پر زیادہ عقلی اور اسٹریٹیجک سوچ اپنائیں اور اپنے جارحانہ رجحانات کی نفی کرنے یا انہیں دبانے کے بجائے انہیں صحیح رخ پر لگائیں‘‘، ’’اسٹریٹیجک جنگجو بہت مختلف انداز سے کام کرتے ہیں، وہ اپنے طویل المدتی اہداف کے بارے میں پہلے سے سوچتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں کن لڑائیوں سے بچنا چاہیے اور کن لڑائیوں میں اترنا ان کے لیے ناگزیر ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ انہیں اپنے جذبات کو کس طرح صحیح سمت میں موڑنا ہے اور ان پر قابو پانا ہے۔ جب وہ لڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تو وہ چالاکی، ہوشیاری اور بالواسطہ چالوں کے ذریعے لڑتے ہیں، جس سے ان کی چال بازیوں کے طور طریقوں کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے‘‘، ’’ایسے بھیڑیوں کے سامنے پُرامن رہنا، ایک نہ ختم ہونے والے المیے کا باعث ہے‘‘، اور بعض نقل شدہ عبارتیں ایک حکمت عملی کی دوسری حکمت عملی پر برتری ثابت کرتی ہیں۔ مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ سُن زُو(Sun Tzu) کی سمجھ، جو ’’خون کی ہولی کھیلے بغیر جنگ جیتنے‘‘ کی طرف لے جاتی ہے، وہ ’’عدم تشدد، جنگ کا ایک نیا انداز‘‘ کی سوچ سے کہیں زیادہ گہری اور حقیقت پسندانہ ہے جسے گاندھی نے فروغ دیا تھا لیکن خود اس سے محفوظ نہ رہ سکا (اور قتل ہوگیا)۔
ایسے ہی اقتباسات میں رابرٹ نے ایک جملہ ایسا بھی ذکر کیا جو استعمار کے تاریک چہرے کو کسی حد تک نمایاں کرتا ہے اور وہ استعمار کی طرف سے تمام مقبوضہ اقوام کو جاہل رکھنے (جہالت سازی)کی اسٹریٹجی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں رابرٹ لکھتا ہے:
’’فوجیوں کو حکمت عملی اور اسٹریٹجی نہیں سکھائی جاتی تھی، کیونکہ اس سے میدان جنگ میں ان کو کوئی مدد نہیں ملتی تھی۔ مزید برآں، ایک کمانڈر کے لیے اپنے سپاہیوں کو ایسے عملی علم سے مسلح کرنا غیر دانش مندانہ تھا جو انھیں بغاوت یا انقلاب کو منظم کرنے میں مدد دے سکے۔ استعماری دور نے اس اصول کو مزید آگے بڑھایا۔ یورپی کالونیوں کے مقامی باشندوں کو مغربی افواج میں بھرتی کیا گیا اور ان سے تھانے داری (پولیسنگ) کا بہت زیادہ کام لیا گیا، لیکن ان میں سے اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنے والوں کو بھی اسٹریٹجی کے علم سے انتہائی سختی سے لاعلم رکھا گیا، کیونکہ اس علم کا حاصل کرنا ان کے لیے بے حد خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ اور حکمت عملی، اسٹریٹجی اور فنونِ جنگ کو مجاز حکام کے ایک شعبے کے طور پر رکھنا صرف اس لیے تھا کہ یہ علوم محض اشرافیہ اور اُن جابر قوتوں کے ہاتھ میں رہیں جو تقسیم کرو اور حکومت کرو (Divide and Rule) کے اصول کو پسند کرتی ہیں۔‘‘
اسی باب میں، رابرٹ نے فریڈرک ڈگلس (Frederick Douglass) کی کتاب ’’My Bondage and My Freedom‘‘ (میری غلامی اور میری آزادی)سے نقل کیا ہے:
’’اور مسٹر ہیو اپنی بیوی کی سادگی پر حیران رہ گیا، تب اس نے اپنی بیوی پر شاید پہلی مرتبہ غلامی کا حقیقی فلسفہ واضح کیا، اور اس نے اسے وہ عجیب و غریب اصول سمجھائے جو آقاؤں کو اپنی انسانی املاک کو سنبھالنے کے لیے سمجھنا ضروری ہوتے ہیں…… اس کے ٹھنڈے، فولادی الفاظ نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا…… یہ ایک خاص اور نیا الہام تھا، جس نے مجھ پر ایک دردناک راز کھولا جسے سمجھنے کے لیے میں بہت لمبے عرصے سے بے کار کوششیں کرتا رہا اور وہ راز یہ تھا کہ: ’سیاہ فام آدمی کی غلامی کو دوام بخشنے کے لیے، سفید فام آدمی کی طاقت، سیاہ فام کو علم سے محروم رکھنے پر قائم ہے‘۔‘‘
لیکن کیا مغربی عوام بھی جہالت سازی کے عمل سے بچے رہے؟ نہیں، انہیں بھی مسخ کر دیا گیا۔ اس لیے آج ہماری جدوجہد تمام انسانوں کی جدوجہد ہے، ایک ایسی جدوجہد جو دنیا کے تمام انسانوں پر غلبہ پانے والے ظالم گروہ کے خلاف ہے، اس اقلیت کے خلاف جس نے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بھیانک اور تلخ بات یہ ہے کہ انہوں نے کورونا وائرس (COVID-19) کی وبا کے زمانے میں لوگوں کی باقی ماندہ جمع پونجی اور بچت بھی ہتھیا لی ہے، اور روس یوکرین جنگ کے دوران اور مصنوعی قحط پیدا کرکے وہ لوگوں کی املاک پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔ اور پھر آگے کیا ہوگا؟ مختصراً یہ کہ یہ جنگ تمام انسانوں کے خلاف ہے، جن کی آبادی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اس گروہ کے کنٹرول سے باہر ہے، لہٰذا، ان کے لیے ہر ممکن طریقے سے نصف انسانی آبادی کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ضروری ہو گیا ہے، لیکن اس انداز میں کہ ان کی خباثت اور بددیانتی کی طرف توجہ بھی نہ جانے پائے۔
یہودی مصنف مارک بلاسینی (Mark Blasini) نے کتاب ’’The Origin of Power‘‘ کا مواد جمع کرنے کے بعد رابرٹ گرین کے سامنے پیش کیا اور اسے نشر کرنے کی اجازت بھی دی۔ ڈاکٹر ابراہیم المالکی نے کتاب ’’The Origin of Power‘‘ کے ترجمے کے دوران اپنے مقدمے میں رابرٹ گرین کی شخصیت میں یہودیوں کی دلچسپی کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’یہودی ریاست کے اہم مراکز میں زعماء اور عہدیداروں کا ایک بڑا طبقہ رابرٹ گرین کی کتب اور نظریات کے بارے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ رابرٹ گرین کے جاننے والوں سے مجھے علم ہوا کہ نیتن یاہو نے رابرٹ کے لیے اپنے قریب ایک نیا منصب ایجاد کیا تھا اور گرین کو اسے قبول کرنے پر زور دیا تھا تاکہ وہ اقتدار پر غالب رہنے، مخالفین کو ختم کرنے اور مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے طریقوں کے بارے میں اس سے مشورے لیتا رہے، لیکن رابرٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی۔‘‘
شاید ڈاکٹر ابراہیم المالکی کے یہ الفاظ کم از کم یہودیوں کی امنگوں کو سمجھنے اور ان کے ارادوں کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیں رابرٹ گرین کی کتاب کے مطالعہ پر مزید ابھارتے ہیں۔
کتاب کا پہلا حصہ قیادت کی سطح پر تنازع کے لیے نفسیاتی تیاری اور تنازع کے مختلف مراحل اور صورتوں میں قیادت کی سپاہیوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کے گرد گھومتا ہے۔ دوسرا حصہ تنازع میں اجتماعی جذبے، اس کی نشوونما اور اس کے منفی پہلوؤں سے بچنے کا احاطہ کرتا ہے۔ تیسرا حصہ دفاعی جنگ اور معاشیات، مدافعت (Deterrence)، تنازعات کے خاتمے (Disengagement) اور جوابی حملے کی تیاری کے تصورات سے متعلق ہے۔ چوتھے حصے میں جارحانہ جنگ کا ذکر ہے اور کتاب کا ایک بڑا حصہ اس نظریے سے متعلق ہے کہ فتح صرف حملے کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ آخری اور پانچویں حصے میں رابرٹ گرین نے غیر روایتی چالوں پر بحث کی ہے جن کے بارے میں ہم اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں اور اتفاق بھی۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے میرے لیے وقت میں آسانی پیدا فرمائے تاکہ میں اُن بعض ابواب میں کچھ اضافے کر سکوں جن پر میں مطلوبہ حد تک کام نہ کر سکا۔ کیونکہ آغاز میں، میں نے اس بات کو ملحوظ رکھا تھا کہ اس تحریر کو میں خلاصے کی شکل میں پیش کروں گا اور قاری کے ذہن کے لیے اتنی گنجائش چھوڑوں گا جہاں سے وہ اپنے خیالات کو زبان پر لائے اور اپنی تخلیقی صلاحیت دکھائے، نہ یہ کہ میں خود ہی تفصیلات بھی بیان کرتا رہوں۔
میں چاہتا تھا کہ عربی میں کوئی ایسا لفظ یا اصطلاح استعمال کروں جو آج کل لفظ ’’اسٹریٹجی‘‘ سے لیے گئے مفہوم اور اس کے مشمولات کو واضح کر سکے۔ میرے گمان کے مطابق بعض عراقی مصادر نے اسٹریٹجی کے لیے عربی میں متبادل کے طور پر لفظ ’’السَّوق‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ لیکن اسے وسیع پیمانے پر رواج نہ مل سکا۔ شاید اس لیے کہ اس کے مفہوم میں سختی پائی جاتی ہے کیونکہ ’’السَّوق‘‘میں لوگوں پر مسلط ہونے اور انہیں مسخر کرنے کا استعارہ پایا جاتا ہے جیسے چرواہا بھیڑوں کو ہانکتا ہے۔ جبکہ اسٹریٹجی سے مراد اہداف کے حصول کا منصوبہ ہے یا مطلوبہ مقاصد کے حصول کی غرض سے کسی قوم کی قیادت کرنا ہے۔1ممکن ہے کہ لفظ السوق کو اختیار کرنے والے نے بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی اس حدیث کو پیش نظر رکھا ہو جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»، یعنی: ’’قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک قحطان میں سے ایک آدمی نہ نکلے جو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا۔‘‘ اس لفظ میں پیچھے رہ کر لوگوں کی قیادت کرنے کی دلالت پائی جاتی ہے اور آج کل اسٹریٹجی وضع کرنے والے بھی پیچھے رہ کر ہی یہ کام کرتے ہیں۔
دورِ جدید میں لفظ اسٹریٹجی کا مفہوم یونانی زبان کے اصل معنی ’’سپہ سالار‘‘ سے کہیں زیادہ وسیع اور جامع معنی اختیار کر چکا ہے،اسی طرح اس لفظ کا تعلق میدانِ جنگ سے بھی بہت آگے نکل چکا ہے۔ اس لیے جب تک اہلِ زبان یہ خاص مفہوم ادا کرنے کے لیے ہمارے لیے کوئی متبادل لفظ تلاش نہیں کر لیتے مجھے اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔
اسٹریٹجی
امتِ مسلمہ کی عمومی اسٹریٹجی وہ منصوبہ بندی ہے، جو اللہ رب العزت پر کامل توکل کرتے ہوئے اور اسی سے مدد مانگتے ہوئے اور پھر تمام شعبوں میں میسر وسائل اور دستیاب صلاحیتوں کو بڑھانے کی خاطر اسباب اختیار کرتے ہوئے، آسمانی پیغام کے مقاصد حاصل کرے۔2اسلامی نقطۂ نظر سے تنازع ایمانی و عقائدی (Ideological) بنیادوں پر برپا ہوتا ہے، نہ کہ طبقاتی یا استحصالی بنیادوں پر، نہ ہی ان وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے جو اللہ تعالی نے دوسروں کو عطا فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه (’’اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ یعنی کفر کا فساد باقی نہ رہے اور دین سب اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘) اور جہاں تک بات دین کی اشاعت کی ہے تو اسلام اپنے نظریہ کو پھیلانے کے لیے دعوت سے کام لیتا ہے۔ ایسی دعوت میں اگر رکاوٹیں پیش آتی ہیں تو جنگ انہیں ہٹانے کے لیے سامنے آتی ہے اور پھر دعوت، اسلامی منہج اور غیر مسلموں (یعنی کافروں) کے بارے میں تہذیبی نقطۂ نظر کے لیے میدان کھولنے کے بعد، جنگ دوبارہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ پس اسلام، اللہ کی مشیت کے مطابق ہی تنازع سے نمٹتا ہے۔
عمومی اسٹریٹجی (یا منصوبہ) کسی بھی ریاست یا تنظیم کی طاقت اور کمزوری اور اس کے مدِمقابل دشمن کی طاقت اور کمزوری کو جانچتے ہوئے ہر منصوبے کو کئی مراحل میں تقسیم کرتی ہے۔ ہر مرحلے کے اپنے اہداف ہوتے ہیں جو اگر حاصل ہو جائیں تو اگلے مرحلے میں منتقل ہونا ممکن ہوتا ہے یہاں تک کہ بالآخر ان اعلیٰ اہداف و مقاصد کو پا لیا جائے جو ریاست کو مطلوب تھے یا جن کی خاطر تنظیم بنائی گئی تھی۔ اس اعتبار سے عمومی حکمت عملی یا اسٹریٹجی ایک ایسا طویل المدتی منصوبہ ہے جس کے اندر کئی قلیل المدتی منصوبے پائے جاتے ہیں۔
یہ اسٹریٹجی کا ایک پہلو ہے جبکہ اسلام میں اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسٹریٹجی تیار کرنے کے لیے تحقیق، تنقید، مکالمہ اور منصوبہ بندی وغیرہ کو ایسے ربانی منہج کا پابند بنایا جاتا ہے جس کے تحت اعلیٰ اقدار اور بلند مقاصد کے حصول کے لیے تحقیق کرنے پر کوئی بندش نہیں ہوتی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسے حدود و قیود اور قوائد و ضوابط بھی متعین کیے گئے ہیں جو مفکرین کو خامیوں کی طرف مائل ہونے سے روکتے ہیں۔ ان خامیوں کی مثال یہ مقولہ ہے: ’’ہدف ذریعہ کو جواز فراہم کرتا ہے‘‘ (End justifies the means)۔ اس طرح سلطنت یا حکومت کو میسر انواع و اقسام کے وسائل، توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے تاکہ اللہ کی رضا کے حصول کی جانب قوم کا سفر جاری رہے۔
اسٹریٹجی وضع کرنے کے عمل کا تعلق ’’امت، ریاست یا تنظیم کی تحقیق اور سوچ بچار کی فکری صلاحیت سے ہے کہ وہ پیغامِ اسلام کے مقاصد کے حصول کے لیے بہترین ممکنہ ذرائع کا انتخاب کرے اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لائے، چاہے میدانِ جنگ گرم ہو یا نہ ہو‘‘۔ یعنی اپنے وسائل اور انسانی، اقتصادی، اعلامی، عسکری، دعوتی، نفسیاتی، سفارتی، جغرافیائی اور تاریخی عناصرِ قوت کو منظم کرنے کی منصوبہ بندی کرنا اور ساتھ ساتھ انہی میدانوں میں مخالفین کی کمزوری کے عناصر سے فائدہ اٹھانا:
- تاکہ اپنے مخالف کو اسلام کے پیغام اور دعوت سے آگاہ کرے۔
- یا ایسا ماحول پیدا کرے جس سے ایسے اندرونی یا بیرونی عوامل پیدا ہوں جو دشمن کی طاقت کے عناصر کو منتشر کرنے اور اسے تنازع و جنگ سے دستبردار ہونے کا باعث بنیں۔
- یا دشمن کو زیر کرتے ہوئے اسے انسانی عقل اور فیصلے پر اثر انداز ہونے کی دوڑ سے دور کرے۔
- یا پھر منہجِ الٰہی کو قبول کرے اور اس کے تابع ہو جائے۔
چاہے اس دوران جنگ برپا ہو یا نہ ہو۔
پیغامِ اسلام3الصراع ورياح التغيير (کشمکش اور تبدیلی کا آغاز) کے سلسلے کی کتاب الثورة (انقلاب) سے اختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ کے مقاصد
- خالق کی توحید کا عَلَم بلند ہو اور خالص اسی کی عبادت کی جائے۔
- تمام بنی آدم کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے اور ان کی کفالت کرنے کی غرض سے لوگوں کے سیاسی معاملات، رحمت پر مبنی اور منصفانہ آسمانی شریعت کے مطابق، سرانجام دینا۔ خواہ مسلمانوں کے لیے ہو یا اہل کتاب میں سے اپنے مذہب پر قائم رہنے والوں کے لیے، جب تک کہ وہ دارالاسلام میں رہتے ہیں۔
- مسلمانوں کے وجود کو تحفظ فراہم کرنا، ان کے اموال کو محفوظ بنانا اور انہیں اپنے عقیدے کی تبلیغ کے لیے پیش قدمی کرنے کو یقینی بنانا۔
- انسانی ذہن اور عقل پر ہر قسم کے دباؤ اور پردے ہٹا کر اسے آزاد کرنا تاکہ وہ خود انتخاب کرنے کے قابل ہو جائے۔ مسلمان ذہنوں کو تحفظ فراہم کرنا تاکہ انہیں نظریاتی یا مادی طور پر اغوا نہ کیا جا سکے اور ذہنوں کو ہر ایسی تاثیر سے بچانا جو انہیں الجھن میں ڈالتی ہو، نقصان پہنچاتی ہو یا ان کی بصیرت کو دھندلا کر دیتی ہو۔
- خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہوئے کرۂ ارض کی تعمیر و ترقی کرنا۔
پس اسلامی مقاصد4شریعت نے پانچ ضروریات کی حفاظت کے لیے اہداف وضع کیے ہیں جو کہ دین، جان، نسل، مال اور عقل ہیں۔ (امام شاطبی کی کتاب الموافقات) انسانیت کی بھلائی کے عمومی مقاصد ہی ہیں اور وہ اس قدر جنگ نہیں چاہتے جس قدر وہ دل و دماغ کو مخاطب کرنے، نفسِ انسانی کا تزکیہ کرتے ہوئے اسے دین میں داخل کرنے اور فیصلہ کن موڑ تک پہنچنے کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ جنگ ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ بغیر لڑے دشمن کو زیر کرنا ہی مہارت کی معراج ہے۔
تمہید سے اخذ کردہ امور
-
- اسلامی اسٹریٹجی کے مطلوبہ مقاصد زمین کے کسی باشندے نے متعین نہیں کیے، نیز وہ عقلِ انسانی کی قیود سے بھی آزاد ہیں، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے جاری کردہ احکام ہیں جن کے حصول کے لیے جد و جہد کرنا مخلوق پر لازم کیا گیا ہے۔ اور مخلوق پر لازم ہے کہ وہ ان کے حصول کے لیے دعوتی، جہادی اور دیگر ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے پوری کوشش صرف کرے۔ رہا اس سعی و عمل کے نتائج کا معاملہ، کہ کامیابی حاصل ہو گی یا نہیں، تو یہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
- اس میں ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ وہ ایسی اسٹریٹجی وضع کرنے کی کوشش کرے جو ان مقاصد کو حاصل کر سکے۔ اسٹریٹجی وضع کرنا، ایک ایسی حقیقت پر مبنی، ذہنی عمل ہے جو ہمیں وہ ذرائع اور صلاحیتیں فراہم کرتا ہے جن کے ذریعے ہم پیغام کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ زمینی حقائق اور امکانات کی معرفت اور اس کے لیے مناسب وسائل کو بروئے کار لانے کی بنیاد پر، اہداف و مقاصد تک پہنچنے کا عمومی سیاسی منصوبہ ہے۔ جس قدر وسائل زیادہ دستیاب ہوں گے، اسٹریٹجی اسی قدر مضبوط اور مؤثر ہوگی۔
- اسٹریٹجی کا میدان امت کو دستیاب تمام وسائل ہیں۔ ان میں اس کی دینی، انسانی، اقتصادی، اعلامی (میڈیا)، عسکری، امنیاتی (سکیورٹی)، دعوتی، نفسیاتی، سفارتی، جغرافیائی اور تاریخی طاقت کے عناصر شامل ہیں۔ یہ امت کے ان حقیقی قائدین کے لئے، دستیاب صلاحیتیں یا سیاسی وسائل ہیں، جو عالمی و علاقائی سیاست کو گہرائی تک سمجھتے ہیں، ان صلاحیتوں اور سیاسی وسائل کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ اس بات کی تصدیق اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ اقتصادی طاقت ہی عسکری طاقت کی تعمیر کی بنیاد ہے اور اس پر اور اس کے ساتھ آنے والے دوسرے اخراجات برداشت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتابِ عظیم میں مال اور جان کو تقریباً دس مقامات پر ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے جن میں سے صرف ایک موقع پر جان کو مال پر مقدم رکھا ہے جس سے تعمیر و ترقی اور جنگ میں مال کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ جس طرح عسکری اسٹریٹجی بنانا ضروری ہے، اسی طرح اقتصادی اسٹریٹجی، اعلامی اسٹریٹجی اور ہر میدان میں اسٹریٹجی تیار کرنا ضروری ہے۔ یہ سب اسٹریٹجیز اور حکمت عملیاں مل کر سلطنت کی عمومی اسٹریٹجی تشکیل دیتی ہیں۔
- اسٹریٹجی میں اس پہلو کو مدِنظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ ہم دشمنوں کا تعین اور درجہ بندی کریں اور پھر ہر مخالف گروہ کی صلاحیتوں کو جانچنے کے بعد کام کی ترجیحات مرتب کریں۔ تمام دشمنوں کا ایک ساتھ مقابلہ کرنا اور سب دشمنوں کے خلاف ایک ہی وقت میں محاذ کھول دینا دانش مندی نہیں۔ اور دشمنوں کی طاقت اور کمزوری کے عناصر کو محض جان لینا ہی کافی نہیں بلکہ ان عناصر کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ضروری ہے تاکہ ان پر برتری حاصل کی جا سکے اور پھر انہیں معرکہ میں قابلِ شکست بنایا جا سکے، چاہے یہ مقصد جنگی ذرائع سے ہو یا دیگر ذرائع سے۔ اور چاہے یہ کام ہم خود کریں یا ایسے بیرونی عوامل (پراکسی) کو استعمال کرتے ہوئے کریں جن کے ہم پشتی بان ہوں۔ حتیٰ کہ خود دشمن کے کیمپ کے اندر کے عوامل کو استعمال کرتے ہوئے، اس کے سماجی ڈھانچے سے چھیڑ چھاڑ کے ذریعے، اس کی اندرونی سیاسی وحدت کو متزلزل کر کے یا اس کے معاشی ڈھانچے کو کمزور کر کے یہ مقاصد حاصل کیے جائیں۔ ضروری نہیں کہ دشمن پر فتح عسکری ہی ہو، کیونکہ اندرونی انہدام سے بھی وہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے لیکن فوجی کارروائی کے اخراجات اور قربانیوں سے بہت کم قیمت پر۔ پھر اگر اس طریقے سے اسے شکست نہ بھی ہوئی ہو تو کم از کم اسے کمزور ضرور کر دیا جائے گا اور تنازع یا مقابلے کے میدان سے ہٹا دیا جائے گا تاکہ اگلے کسی مرحلے پر اس کی نرمی کی بنا پر اسے راہ راست پر لایا جا سکے یا پھر اس کی ضد کی بنیاد پر اس کا خاتمہ کیا جا سکے۔
- اسٹریٹجی وضع کرنے کا عمل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اہداف کو یکے بعد دیگرے مرحلہ وار اور نت نئے واقعات اور زمانے کے تغیرات کے اعتبار سے لچک دار تنفیذی صلاحیت کے ذریعے حاصل کرنے کے لیے بہترین ذرائع، طریقوں اور اوزار کو تلاش کیا جائے، جو ہر قسم کے دشمن کی مناسبت سے موزوں ہوں، کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ سب کے ساتھ ایک ہی اسٹریٹجی سے نبرد آزما ہوا جائے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تنازع کا انتظام صرف جنگ ہی کے ذریعے کیا جائے، البتہ یہ یقینی ہے کہ اگلے کسی مرحلے میں جنگ ناگزیر ہو گی۔ جو کام الفاظ سے کیا جا سکے وہاں چھڑی استعمال نہیں کی جاتی۔ تالیفِ قلب پر تھوڑی سی رقم خرچ کر کے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اسے مسلمانوں کے خون سے حاصل کرنا ناکامی ہے اور جنگ کی آگ کی بنسبت نرم طاقت(Soft Power) کی تاثیر لوگوں کو راضی رکھنے میں زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ تجارتی تعامل، اخلاق و آداب کو پھیلانے میں، ایک انقلابی عمل سمجھا جاتا ہے۔ اقتصادی پابندیوں اور معاشی ناکہ بندی کی تدبیروں سے مخالف فریق تھک جاتا ہے جو اسے توڑنے میں زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مخصوص اور غیر معمولی ہتھیاروں کے حصول سے پیدا ہونے والی دہشت، مخالف قیادت کو خام خیالی اور منصوبوں سے بھی روک دیتی ہے۔ گویا کہ جنگ یا مسلح جد و جہد ہی تنازع کا واحد ذریعہ نہیں ہے البتہ تنازع کا بنیادی اور ناگزیر حصہ ضرور ہے۔ لیکن اسلحہ کا استعمال کسی بھی دوا کی طرح مناسب حد تک اور مناسب وقت پر ہی کیا جاتا ہے۔ دشمن کو کمزور اور الگ تھلگ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے حربے بہت ہیں۔
اور سیاسی ذرائع5سیاست: تمام میدانوں میں تنازع کے انتظام کا علم و فن ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ ممکنات کا فن ہے اور اس کا مدار مفادات کے حصول پر ہے۔ طرح طرح کے ہیں، جن میں سے مناسب ذرائع، مناسب وقت اور مناسب جگہ پر استعمال ہوتے ہیں۔ یہ اچھی طرح سمجھتے ہوئے کہ استعمال شدہ ذریعہ سے مراد کیا ہے۔ مثلاً جزیہ جسے اسلام ان لوگوں پر فرض کرتا ہے جو ضد کرتے ہوئے اسلام میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہیں، اگرچہ ظاہری اعتبار سے اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ اسلامی ریاست میں ان کی سکونت کو تحفظ دیا جائے۔ لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مہلت ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ رہن سہن اختیار کریں، ان کے بارے میں اور ان کے دین کے اصولوں اور شرعی قوانین کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر پر نظر ثانی کریں، پس ممکن ہے کہ اس طرح وہ مسلمان ہو جائیں۔ گویا یہ ایک دعوتی منصوبے کے تحت زمانی مہلت ہے لیکن معمولی ادائیگی کے بدلے جو اسلام لانے پر ان سے مزید وصول نہیں کی جاتی۔ - یہ بات یقینی ہے کہ زبانی دعوت، تالیفِ قلب اور نرم قوت کے اثرات محدود ہی رہیں گے جب تک کہ انہیں عسکری قوت کی پشتی بانی حاصل نہ ہو جس کی ہیبت، ان کی حمایت اور ان کی تحریک کو تقویت پہنچانے اور تحفظ فراہم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس عسکری قوت کے بغیر اقوام کا احترام نہیں کیا جاتا اور وہ دوسروں کے غصب اور لوٹ مار کا نشانہ بنی رہتی ہیں۔ ان سب کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور کوئی بھی ذریعہ دوسرے کے بغیر اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔ تبدیلی کے عمل کے عوامل اتنے پیچیدہ ہیں کہ کسی بھی تحقیق کے لیے ان کا احاطہ کرنا اور ان کے درمیان باہمی ربط کی درجہ بندی کرنا ممکن نہیں۔
اس لیے ہم تاکید کرتے ہیں کہ جنگ سیاسی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جس کا سہارا ضرورت کے وقت ہی لیا جاتا ہے تاکہ سیاسی (دعوتی) عمل کے تسلسل کو بہتر ماحول فراہم ہو۔ یا زیادہ واضح الفاظ میں: ’’ ان رکاوٹوں کو دور کرنا جو پیغام کی پیش رفت کو روکتی ہیں‘‘اور یہ طاقت کی صورت میں ہوتا ہے۔ جبکہ کمزوری کی صورت میں جنگ، عموماً طاقت کے توازن کے پلٹنے یا برابر ہونے کے انتظار میں، ایک محدود ہدفسیاسی قیادت کو محدود و متعین ہدف کی اسٹریٹجی اپنانے پر جو بات ابھارتی ہے وہ طاقت کے توازن کے پلڑے میں تبدیلی آنے کا انتظار ہے، جسے حاصل کرنے کا ذریعہ دشمن کو تھکا دینا ہے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لگاتار سویاں چبھونا ان بڑے جھٹکوں سے زیادہ کمزور کرتا ہے جن کے نتائج فیصلہ کن نہ ہوں، بشرطیکہ اس چبھونے سے دشمن کا تھکنا خود ہماری قوت کو تھکا دینے سے زیادہ ہو۔ اس کی بہترین مثال گوریلا جنگ ہے۔6سیاسی قیادت کو محدود و متعین ہدف کی اسٹریٹجی اپنانے پر جو بات ابھارتی ہے وہ طاقت کے توازن کے پلڑے میں تبدیلی آنے کا انتظار ہے، جسے حاصل کرنے کا ذریعہ دشمن کو تھکا دینا ہے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لگاتار سویاں چبھونا ان بڑے جھٹکوں سے زیادہ کمزور کرتا ہے جن کے نتائج فیصلہ کن نہ ہوں، بشرطیکہ اس چبھونے سے دشمن کا تھکنا خود ہماری قوت کو تھکا دینے سے زیادہ ہو۔ اس کی بہترین مثال گوریلا جنگ ہے۔ کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت کم قیمت اور کم قربانیوں کے بدلے اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوئی دیگر دعوتی یا اقتصادی ذرائع استعمال کرتے ہوئے جنگ کو روک سکتی ہے، لیکن قیادت کسی بھی حالت میں اس جنگ کی تیاری کے عمل کو نہیں روکتی۔ - اسلام نہ صرف موجودہ صورتحال اور حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتا ہے بلکہ یہ بھی اندازہ لگاتا ہے کہ مستقبل کیسا ہونا چاہیے اور وہ جنگ کے بعد آنے والی حالتِ امن اور جنگ سے پیدا ہونے والے معاشروں اور نظاموں کی درجہ بندی پر ہی اکتفا نہیں کرتا، بلکہ وہ اس بات کا بھی تعین کرتا ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے اور ان کی زندگیوں کو کس رخ پر موڑا جائے۔
حالتِ جنگ کے بعد پیدا ہونی والی صورت حال ضروری نہیں کہ مکمل فتح یا اسلام کو اپنانا، یا جزیہ دینے کا اقرار ہو۔ بلکہ جنگ بندی کا مرحلہ بھی ہو سکتا ہے جس کے دوران سیاسی اہداف تک پہنچنے کے لیے دوسرے ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ جنگ کے بعد پیدا ہونے والی حالتِ امن یا حالتِ کشیدگی کا تعلق اس طاقت اور کمزوری کے درجے سے ہے جو جانبین کے کیمپوں کو حاصل ہوئی۔ جو بقائے باہمی کا ایک نیا نمونہ مسلط کر سکتا ہے جب تک کہ وہ نئی شرائط دستیاب نہ ہو جائیں جو نقشے کی شکل کو ایک بار پھر تبدیل کر دیں۔ یہاں لچک دار اسٹریٹیجک نقطۂ نظر کام آتا ہے جو خود کو جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمام امکانات میں کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔
حصہ اوّل: انسان کی تعمیر
انسان کی تعمیر (قیادت اور کارکن؍سپاہی)
اسلام نے انسان کا بہت خیال رکھا ہے اور اس کی تعمیر و تشکیل پر بہت توجہ دی ہے۔ چنانچہ اس نے توحید پر اس کی تربیت کا اہتمام کیا تاکہ وہ اپنی زندگی کے تمام فیصلوں میں اپنے رب سے جڑا رہے۔ پھر اللہ کے سوا کسی کی طرف اپنا فیصلہ نہ لے جائے، اللہ کے سوا کسی کی اطاعت نہ کرے، اللہ کی رضا کے بغیر کسی کی پیروی نہ کرے، اللہ کے سوا کسی سے ایسی محبت نہ کرے جس طرح وہ اللہ سے محبت کرتا ہے، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے اور عبادت کا کوئی ایک جز بھی غیر اللہ کے لیے مخصوص نہ کرے۔ اس طرح اسلام نے انسان کے لیے مکمل آزادی اور خود مختاری کو یقینی بنایا۔
پھر اسلام نے انسان کے ذہن، روح اور جسم کی تعمیر شروع کی۔ ان چیزوں کی طرف اس کی رہنمائی کی جو اس کے دین کو محفوظ رکھتی ہیں، اس پر ایسے اعمال فرض کیے جو اس کی روح کو پاکیزہ بناتے ہیں اور اس پر واضح کیا کہ خوراک و پوشاک میں کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے تاکہ اس کی عقل کی سلامتی اور بدن کی طہارت کو یقینی بنائے۔ اسے اچھے اخلاق اپنانے کو دیے اور برے اخلاق سے خبردار کیا تاکہ اس کے اور معاشرے کے درمیان باہمی ذمہ داری، ہم آہنگی اور تعلق کو قائم کرے، لوگوں کی جان، مال اور عزت کو درپیش خطرات کو ایسے شرعی قوانین کے ذریعے محفوظ بنایا جو دنیا میں لوگوں کے طرزِ عمل اور چال چلن کو پابند کریں گے، تاکہ ان کے درمیان امن، سلامتی اور یکجہتی حاصل کیا جا سکے۔ یہ سب اس لیے ضروری قرار دیا تاکہ یہ تعلیم و تربیت کسی شخص کے طرزِ عمل، حسنِ سلوک، بول چال، فیصلوں اور معاملات میں فائدہ مند ہو اور اس تربیت کے ایسے پاک اور خالص ثمرات حاصل ہوں جو نہ صرف اسے، معاشرے کو، امت کو، اور تمام لوگوں کو فائدہ پہنچائیں بلکہ پورے کرۂ ارض اور اس میں پائے جانے والی تمام اشیاء کے لیے مفید ثابت ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (سورۃ الاعراف: ۵۴)
’’ یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے مسخر ہیں۔ یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ (سورۃ المآئدۃ: ۴۸)
’’ اور ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لیے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ لہٰذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ ‘‘
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ ۚ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۚ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۚ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي ۚ وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (سورۃ الانعام: ۱۵۱–۱۵۳)
’’ (ان سے) کہو کہ : آؤ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے (درحقیقت) تم پر کونسی باتیں حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی۔ اور بےحیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بےحیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی، اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے اسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو ! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے۔ اور یتیم جب تک پختگی کی عمر کو نہ پہنچ جائے، اس وقت تک اس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو (اس کے حق میں) بہترین ہو، اور ناپ تول انصاف کے ساتھ وپرا پورا کیا کرو، (البتہ) اللہ کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا۔ اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو، چاہے معاملہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کا ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ اور (اے پیغمبر ! ان سے) یہ بھی کہو کہ : یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔ لوگو ! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو۔ ‘‘
اس طرح اسلام، انسان کو لوگوں کے ساتھ زندگی کے معاملات میں، کامل اخلاق سکھاتا ہے اور دین کے مخالفین کے ساتھ تعامل میں بھی مکمل اخلاق کی پابندی سکھاتا ہے چاہے ان کو دعوت دینے کا وقت ہو یا ان کے ساتھ تنازع و کشمکش کا موقع ہو۔ اسلام نے جنگ کے لیے بھی اقدار، اصول اور اخلاق مقرر کیے ہیں جو فرزندانِ اسلام کو جنگی اسٹریٹجی وضع کرنے کے دوران ایسی رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ فتح بھی حاصل ہو جائے اور ساتھ ہی ساتھ شکست خوردہ فریق کو اسلام کے سائے تلے زندگی گزرانے کے مواقع بھی یقینی بنائے جا سکیں، یہاں تک کہ جنگ ختم ہونے پر لوگوں کو ان کے فائدے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:
«إن ما جاء به محمد ﷺ لو لم يكن دينا لكان في خلق الناس حسنًا»
’’حضرت محمد ﷺ جو کچھ لے کر آئے ہیں، اگر وہ دین نہ ہوتا تب بھی انسانوں کے لیے اخلاق میں بہترین ہوتا۔‘‘
قال رسول الله ﷺ: «إِنَّمَا النَّاسُ كَالإِبِلِ المِائَةِ، لاَ تَكَادُ تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً» رواه البخاري.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کی سی ہے کہ تم ان میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہیں پاؤگے۔‘‘ (بخاری)۔
کسی بھی تنازع کے لیے پانچ بنیادی عناصر کی ضرورت ہوتی ہے: قیادت، معیشت، تنظیم، اسٹریٹجی اور (عسکری اور امنیاتی) کنٹرول۔ ہر تنازع کی سماجی، ثقافتی، اور اخلاقی جہتیں ہوتی ہیں اور ہر تنازع سے ایک نیا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام جنم لیتا ہے۔
تنازعات کا نایاب ترین عنصر اس کی قیادت ہے۔ وہ قیادت جو سوچ، اصولوں اور اقدار کی حامل ہو، وہ اخلاقی قیادت جو اپنی پوری محنت کرے، اپنا سب کچھ پیش کر دے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرے، لیکن بدلے میں کسی چیز کی طلب گار نہ ہو۔ وہ قیادت جو اپنی امت کی امیدوں اور امنگوں کو حقیقت کا روپ دیتی ہو، ایسی قیادت جو امت کو عزت، وقار اور اخلاق سے سر شار کرے اور انہیں الہٰی رشد و ہدایت اور بہترین انسانی رویے کے موافق متحرک کرے، ایک ایسی قیادت جو امت کو اپنی عظمت و شان بڑھانے کی ترغیب دینے کے قابل ہو۔ انسانی تاریخ میں عظیم رہنماؤں کی سوانحِ حیات سے جو مشاہدہ ہوا، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں، وہ یہ ہے کہ انہیں ذاتی مفادات حاصل کرنے کا شوق نہیں تھا، نہ ہی ان میں سے کوئی اپنے مستقبل، کرسی یا دولت کی جستجو میں تھا، بلکہ ان کی شان ہی اس چیز میں تھی جو انہوں نے اپنے دین و ملت کی خاطر قربان کر دی اور اسی وجہ سے قوم نے انہیں امر کر دیا۔
قیادت جہاں کی بھی ہو اسے ادراک ہوتا ہے کہ اس کا مشن بنیادی طور پر سیاسی ہے اور پیغمبروں کو بھی صرف اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح کریں اور اللہ کی مرضی کے موافق دنیا کی سیاست کریں۔ اسلام میں قائدین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پیغمبروں کے بعد عقائد کی حفاظت کریں اور دعوت و جہاد دونوں کے ذریعے، دین کو پھیلائیں اور دنیا کی سیاست کریں۔ جہاد سے یہاں ہماری مراد ’’جنگ اور قتال‘‘ ہے اور یہی ہمارا موضوع ہے۔ پس جنگ کے لیے اسٹریٹجی نا گزیر ہے اور اسٹریٹجی وضع کرنے کے لیے قائدین نا گزیر ہیں۔ اس حصے میں ہمارا ہدف وہ قائد ہے جو ذہنی و نفسیاتی سطح پر قیادت کرنے کے قابل ہو۔
قائدین کو ہم جو پہلی رہنمائی کرتے ہیں وہ علم و معرفت کا حصول ہے، یعنی اپنے آپ کو جاننا، اپنے سپاہیوں کو جاننا، اپنی صلاحیتوں کو جاننا، اپنی حدود کو جاننا، اپنے اتحادیوں کو جاننا، اور اپنے دشمن اور اس کے اتحادیوں کو ایسے جاننا جیسا خود اپنے آپ کو جانتے ہیں۔
دوم، اگر آپ نے علم کے حصول کی از حد کوشش کر لی ہے تو پھر آپ کو موجودہ حالات کے بارے میں بخوبی بصیرت حاصل کرنی چاہیے۔ اس لیے نہ تو ماضی میں غرق رہیں اور نہ اندھیرے میں آگے چھلانگ لگائیں۔ جتنی ہم میں صلاحیت ہو کہ ہم حاضر پر توجہ مرکوز رکھ سکیں اور اپنے تجربات اور خیالات کو وقوع پذیر تبدیلیوں کے ساتھ ڈھالتے رہیں اسی قدر ہمارا ردِعمل اور تعامل حقیقت پسندانہ ہوگا اور ہمارے اقدامات اتنے ہی متاثر کن ہوں گے۔
سوم، جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو ہم اس کے دباؤ میں آ جاتے ہیں اور اس کے واقعات سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ ’کیا ہم نے اپنی پوری کوشش کی؟‘ یہ سوال نفسیاتی دباؤ کا خوفناک دروازہ کھول دیتا ہے اور قیادت کو شک اور تردد کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے مزید علم اور ذہانت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہاں ثابت قدمی، استقامت اور قوت کی ضرورت ہے۔ یہ ہنر سکھایا نہیں جاتا، بلکہ یہ سب سے پہلے تو اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے ملتا ہے اور اس کے بعد پے در پے مشقوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
چہارم، کچھ فیصلوں کے لیے عزم و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لمحے (آج یا ہمیشہ کے لیے) حق کے قیام اور باطل کو مٹانے کے لمحات ہوتے ہیں۔ یہی امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ و السلام) کے جہادی اقدامات کا نقطۂ آغاز تھا۔
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ (سورۃ الانفال: ۷)
’’ اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تم سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا، اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمہیں ملے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے احکام سے حق کو حق کر دکھائے، اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے۔ ‘‘
عسکری ماہرین کے ہاں ’موت کی سرزمین‘ کا تصور ہماری امت کے اوّلین تجربات کی پیداوار ہے۔ جو بھی اس کے بعد ہوا، وہ اس سے کم درجے کا تھا۔
اور چونکہ لوگ ان سو اونٹوں کی طرح ہوتے ہیں جن میں سواری کے قابل کم ہی ملتا ہے اس لیے ہمارا پہلا موضوع بھی قائدین کی ذہنی و نفسیاتی سطح پر تربیت کے متعلق تھا تاکہ جہادی سفر میں جو کچھ پیش آنا ہے اس سے انہیں خبردار کیا جائے اور اس کے لیے انہیں تیار کیا جا سکے۔
آنے والے صفحات میں، ان شاء اللہ، ان نظریات اور منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا جو مجاہدین کو، مخالفین کے ساتھ تنازع کے دوران، خود پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں، ان کے سامنے ایسے تصورات، چالوں اور فریبوں کو کھولتے ہیں جو انہیں جنگ میں فتح حاصل کرنے میں مدد کریں، ساتھ ہی معرکوں اور جنگوں کی منصوبہ بندی کے دوران، لڑائی کے میدان میں اور جنگ کے بعد، اپنے جذبات کو قابو میں رکھ سکیں۔
٭٭٭٭٭
- 1ممکن ہے کہ لفظ السوق کو اختیار کرنے والے نے بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی اس حدیث کو پیش نظر رکھا ہو جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»، یعنی: ’’قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک قحطان میں سے ایک آدمی نہ نکلے جو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا۔‘‘ اس لفظ میں پیچھے رہ کر لوگوں کی قیادت کرنے کی دلالت پائی جاتی ہے اور آج کل اسٹریٹجی وضع کرنے والے بھی پیچھے رہ کر ہی یہ کام کرتے ہیں۔
- 2اسلامی نقطۂ نظر سے تنازع ایمانی و عقائدی (Ideological) بنیادوں پر برپا ہوتا ہے، نہ کہ طبقاتی یا استحصالی بنیادوں پر، نہ ہی ان وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے جو اللہ تعالی نے دوسروں کو عطا فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه (’’اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ یعنی کفر کا فساد باقی نہ رہے اور دین سب اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘) اور جہاں تک بات دین کی اشاعت کی ہے تو اسلام اپنے نظریہ کو پھیلانے کے لیے دعوت سے کام لیتا ہے۔ ایسی دعوت میں اگر رکاوٹیں پیش آتی ہیں تو جنگ انہیں ہٹانے کے لیے سامنے آتی ہے اور پھر دعوت، اسلامی منہج اور غیر مسلموں (یعنی کافروں) کے بارے میں تہذیبی نقطۂ نظر کے لیے میدان کھولنے کے بعد، جنگ دوبارہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ پس اسلام، اللہ کی مشیت کے مطابق ہی تنازع سے نمٹتا ہے۔
- 3الصراع ورياح التغيير (کشمکش اور تبدیلی کا آغاز) کے سلسلے کی کتاب الثورة (انقلاب) سے اختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔
- 4شریعت نے پانچ ضروریات کی حفاظت کے لیے اہداف وضع کیے ہیں جو کہ دین، جان، نسل، مال اور عقل ہیں۔ (امام شاطبی کی کتاب الموافقات)
- 5سیاست: تمام میدانوں میں تنازع کے انتظام کا علم و فن ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ ممکنات کا فن ہے اور اس کا مدار مفادات کے حصول پر ہے۔
- 6سیاسی قیادت کو محدود و متعین ہدف کی اسٹریٹجی اپنانے پر جو بات ابھارتی ہے وہ طاقت کے توازن کے پلڑے میں تبدیلی آنے کا انتظار ہے، جسے حاصل کرنے کا ذریعہ دشمن کو تھکا دینا ہے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لگاتار سویاں چبھونا ان بڑے جھٹکوں سے زیادہ کمزور کرتا ہے جن کے نتائج فیصلہ کن نہ ہوں، بشرطیکہ اس چبھونے سے دشمن کا تھکنا خود ہماری قوت کو تھکا دینے سے زیادہ ہو۔ اس کی بہترین مثال گوریلا جنگ ہے۔
