تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

غزہ عالمِ انسانیت کے لیے ایک آزمائش کا نام ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لیے جنہوں نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے، جو صبح و شام ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ اور ’محمد رسول اللّٰہ‘ کے پاک ناموں کی مالا جپتے ہیں۔ غزہ میں جو کچھ ہوا اور تا دمِ تحریر ہر قسم کے سیز فائر کے بعد بھی جو کچھ جاری ہے، نیز ساری دنیا کے لوگوں نے اور خاص کر مسلمانوں نے جو جو کوششیں کر لیں اس کے بعد بھی غزہ میں جو قیامت برپا ہے، کہ اہلِ غزہ روزانہ اب بھی ساٹھ ساٹھ، ستّر ستّر شہیدوں کی نعشیں اٹھاتے ہیں، تو یہ صورتِ حال ہمیں اپنی کوششوں کا جائزہ لینے اور کچھ ایسا عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے جس سے ہم بطورِ امت پہلو تہی کر رہے ہیں۔

جلسے ہوئے، جلوس نکلے، مظاہرے ہوئے، ایوانوں میں قرار دادیں پیش و منظور ہوئیں، سوشل میڈیا ایکٹیوازم ہوا اور اس سب میں ایک بہت بڑی کوشش قافلۃ الصمود، فریڈم فلوٹیلا، صمود فلوٹیلا وغیرہ کے برّی و بحری کاروان و قافلے تھے۔ یہ سب کوششیں لائقِ تعریف ہیں لیکن ذرا دل کڑا کر کے یہ بھی جان لیجیے کہ یہ سب کوششیں سکتے کی حالت میں پڑے اس مریض کی ناک کے پاس شیشے پر جمی بھاپ کے مترادف ہیں، جس کی نبض بھی ڈوب چکی ہے، اب زندگی اس شیشے پر جمتی اور پگھلتی بھاپ سے ناپی جاتی ہے۔ کہنے کو یہ شخص زندہ ہے، لیکن یہ زندہ کیا زندہ ہے؟

یہ کہنا ظلم ہو گا کہ صمود فلوٹیلا وغیرہ میں جو لوگ شامل ہوئے، وہ شجاعت و فدا کاری سے عاری تھے۔ نہیں! شجاعت تو ان کے انگ انگ سے، ان کے قول قول سے، ان کے ہر ہر فعل سے ظاہر و باہِر تھی، ہفتوں پر محیط بے رحم سمندر میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سفر کرنا دل گردہ مانگتا ہے۔

ہم اس اداریے کی سطور میں دو نکات کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ پہلا نکتہ، ہماری صورتِ حال، اور دوسرا نکتہ، ہمارا فرض۔

غزہ میں جاری لڑائی کوئی آج کی لڑائی نہیں ہے۔ اس کا تعلق خطۂ فلسطین، اسرائیل کے قریب از اسّی سالہ قبضے، القدس کے سو سالہ سقوط سے بھی محض نہیں ہے۔ بلکہ اس قبضے کی داستان کم از کم چھ سو سال پرانی ہے۔ تب جبکہ غرناطہ و اشبیلیہ کا سقوط ہو رہا تھا، معرکۂ خیر و شر کا ایک نیا باب اس دنیا میں شروع ہو رہا تھا۔ یعنی جب مسلمان سر زمینوں پر کفار کا قبضہ ہوا۔ پھر اس صورتِ حال کو برِّ صغیر میں اسلامی سلطنتِ مغلیہ کے زوال، عالمِ عرب و افریقہ میں برطانوی و فرانسوی الغرض یورپی راج کے قیام ثم خلافتِ عثمانیہ کے سقوط، پورے اسلامی جغرافیہ پر اہلِ غرب کا قبضہ، ثم قومی وطنی ریاستوں یا جدید نیشن سٹیٹس کا قیام ، اسلامی نظامِ حکومت و شریعتِ محمدی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) کا دنیا بھر میں سقوط…… ان سب امور نے سقوطِ اندلس کے وقت برپا ہونے والی مصیبت کو صد چند کر دیا۔

پھر جو کچھ پچھلی نیم صدی میں نیو ورلڈ آرڈر نے امریکی بدمعاشی میں کابل تا غزہ کیا یہ ہمارے سامنے ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اہلِ درد اس سارے منظر نامے کو بیان کرتے کرتے ہلکان ہو گئے، لیکن ہماری آنکھ نہ کھلی، فإنّا للّٰہ وإنّا إلیہ راجعون!

ہماری امت نے ان سبھی مسائل کے حل کے لیے ہر ہر دروازا کھٹکھٹایا۔ ہر ہر کوشش کر کے دیکھ لی، لیکن کامیابی نہ ملی۔ لیکن مایوسی کی بات یہ ہے، کہ ہمارے لوگ کسی ایسے راستے اور کسی ایسی کوشش سے مایوس نہ ہوئے جو کل کے غرناطہ سے آج کے غزہ کو حقیقتاً آزاد کرواتی، بلکہ ہائے افسوس کہ مایوس رہے اور مایوس ہوئے تو اس راستے سے کہ جو امیدوں کا راستہ ہے، جس راستے کو مالک نے اپنا راستہ ’سبیلي‘بتایا، ’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘۔ہم بھاگتے رہے تو کبھی انگریز کی خادم و غلام فوجوں اور اس کے جرنیلوں کے پیچھے۔ ہم بھاگتے رہے تو جمہوری تماشوں کے پیچھے، ان جمہوری تماشوں کے پیچھے جنہوں نے ہم اہلِ دین کو کبھی ہمارا ’مینڈیٹ‘ نہیں حاصل ہونے دیا اور اگر کبھی ہم پاکستان کے سرحد اور عرب کے مصر میں حاکم ہو بھی گئےتو اس نظام نے ہمیں اسلام نافذ نہ کرنے دیا ، ہمارے شریعت بل اور حسبہ بل کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا اور کچھ کوشش کی تو مسجدِ رابعہ عدویہ میں ہمیں بکتر بند گاڑیوں سے کچل دیا۔ ہم بھاگ بھاگ کر گئے تو ان جلسوں میں جہاں ہم نے اپنے بہترین نوجوانوں کو سڑکوں پر سٹیج سجا سجا کر گرم جوش تقریریں کروائیں، اپنے نونہالوں کے ہاتھوں میں پستولیں اور کلاشن کوفیں مظاہروں میں لہروائیں اور ہمارا جذبۂ آزادیٔ غزہ، کراچی، استنبول اور کوالالمپور کی سڑکوں پر نیلام ہو گیا۔ ہم عاصم منیروں کے پالے محسن نقویوں کے سامنے بیٹھ کر سمجھے کہ یہ کچھ غزہ کی حمایت میں کریں گے۔ ہم نے صمود فلوٹیلا میں شرکت تو کی، دنیا بھر سے اہلِ ایمان اس کوشش میں گرفتار بھی ہوئے، ہم نے فدا کاری کی لیکن ’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘ کو نہ نکلے، یا شاید اپنے انہی اعمال کو ’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘ کہتے رہے۔ کسی اللّٰہ والے کی بات یاد آ رہی ہے کہ ’’بش سے جا کر پوچھیں گے تو وہ آپ کو ’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘ کا مطلب بتا دے گا……‘‘، یعنی ابلیس و بش کو معلوم ہے کہ ’جہاد‘ کسے کہتے ہیں لیکن یہ ہمارے جدید فقیہانِ حرم ہیں کہ نجانے کس کس کو کس کس کی خاطر ’جہاد‘ کہتے ہیں۔ ہماری ان سطور کو طعنہ نہ سمجھیے، حاشا وکلّا! کبھی اپنا بھی اپنے کو طعنہ دیتا ہے، یہ تو دلِ دریدہ کی آواز ہے، ایک سانجھا غم ہےجسے ہم اپنے اور آپ کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔

یقین جانیے، جہاد کی سو سو تاویلات جو ہم رکھتے ہیں تو اس کا سبب بس وہی ہے جو آقا (علیہ الصلاۃ والسلام)نے بتا دیا تھا کہ تم ’وَہَن‘ کا شکار ہو جاؤ گے۔ دیکھیے احادیث کس وضاحت سے کہتی ہیں کہ وہن تو زندگی کی محبت اور موت سے نفرت ہے، وہن تو دنیا سے محبت اور قتال سے نفرت ہے1’’…… قُلْنَا وَمَا الْوَهْنُ قَالَ حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ.‘‘ وفي رواية الآخر ’’حُبُّكُمُ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَتُكُمُ الْقِتَالَ.‘‘ (مسند أحمد)۔ الله كا قرآن، احادیثِ رسول (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)، فقہاء و محدثین و مفسرین و دیگر حضرات کی عبارتیں، عقل و دنیا کا قانون سبھی کہتے ہیں کہ کامیابی کا، فلاح کا حقوق حاصل کرنے کا واحد راستہ ’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘ ہے، ہم کن بھول بھلیوں میں پڑے ہیں؟

تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version