محمد راشد دہلوؔیتجھ پہ ظلمات کی گھنگھور گھٹا چھائی تھی
اور میں چپ تھا کہ روشن ہے میرے گھر کا چراغ
جاڑے کا موسم شروع ہوتے ہی ہم اپنے اور اپنے اہل و عیال کے حفاظتی انتظامات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔گرم کپڑوں، سویٹر، جیکٹوں کا فیشن شروع ہو جاتا ہے، ڈرائے فروٹس، چائے و کافی کے دور چلتے ہیں، گرم کمروں میں گرم گرم بستروں پر ہم سردی کے مزے لوٹتے ہیں۔لیکن ہم یہ شاید بھول جاتے ہیں کہ ہماری امت کبھی کشمیر میں، تو کبھی شام و عراق میں، تو کبھی برما و فلسطین میں سخت سردی کے موسم میں دشمنِ دیں کے ظلم و ستم سے دو چار ہے ، زمہریری ہوائیں ان کے جسموں کو سن کیے جاتی ہیں، کہرے میں چندھیائی آنکھیں کسی کی منتظرہیں، کپکپاتے ہونٹ اللہ تعالیٰ کےسامنے دعا گو ہیں، کہ شاید کوئی امت کابطل ہمیں ظالموں کے شکنجے سے چھڑا لے!!!
امت کو سرحدوں، قوموں، زبانوں میں تقسیم کرنا، کفار کا ایک اہم مقصد ہے تاکہ امت یکجا نہ ہو سکے، امت منتشر رہے اور امت کے مظلوموں کی حالت دیکھ کر غیرت کھانے والی آنکھیں تماشائی بن جائیں، برما میں ایسی مسلم قوم بستی ہے جس کا درد ہر مسلمان اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے ، جس کے غم میں ہر آنکھ نم ہوتی ہے، جس کے لیے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں۔ لیکن……
؏ خون جہاں بہنا ہو وہاں اشکوں کا کیسا بہنا؟!
برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والا ظلم دیکھ کر شاید پتھر بھی چیخ اٹھیں۔ امت پر ظلم کی ایسی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر دل دہل گئے اور ایسا محسوس ہوا جیسے یہ انسان نہیں ! جانور ہیں ! نہیں جانور بھی تو کچھ اصولوں کے پابند ہوتے ہیں، یہ کچھ اور ہیں؟!
روہنگیا مسلمانوں کی کھلم کھلا نسل کشی کی گئی ، ظلم کی اسی کڑوی داستان میں ایک اور ہولناک داستاں رقم کی گئی ، جب مسلمانوں پر ظلم کرنے والے ہاتھ کفار کےنہیں نام نہاد مسلمانوں کے تھے۔
اس بار ظالم کوئی اور نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جن کے نام مسلمانوں جیسے تو ہیں لیکن دل ان کے اسلام سے خالی ہیں، جو مسلمانوں کے وسائل کو تو لوٹتے کھسوٹتے ہیں لیکن گاتے بھارت کی ہیں۔ جو اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے جانی دشمن ہیں ، ایسے لوگوں سے آخر کیا توقع کی جا سکتی ہےکہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو قبول کریں؟ سردیوں کے آغاز میں آنے والی ان خبروں نے ہوش اڑا دیے جب یہ پتہ چلا کہ جان بچا کر برما سے بنگلا دیش میں آئے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلا دیشی حکومت نے بھاشان 4 نامی جزیرے میں دھکیل دیا ہے ، جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی چیخ اٹھیں ۔ اور یہ کہا گیا کہ یہ پچیس سو (۲۵۰۰)مسلمان اپنی مرضی سے وہاں جانے کے لیے تیار ہوئے ہیں، اب اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ ان مظلوموں کے لیے وہاں خوراک کے کیا انتظام ہیں، وہاں سردی سے بچنے اور رہائش کے کیا بندوبست ہیں؟ ظالم بنگلہ دیشی حکومت سے خیر کی کیا توقع کی جاسکتی ہے جس نے اس سخت وقت میں جب برمی اپنی جانیں بچا کر مسلمان حکومت سمجھتے ہوئے بنگلا دیش میں پناہ لینا چاہتے تھے تو ان کے ساتھ اس ظالم ، بھارتی ایجیٹ حکومت نے کیا کیا؟
برمی مسلمانوں پرظلم کے پہاڑ توڑے گئے ، ان کو دوبارہ خونخوار سمندر میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی اور حد تو اس وقت ہو گئی جب ان کی کشتیوں میں سوراخ کر کے ان پر سوار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی گئی۔ بنگلہ دیشی حکومت کے جرائم کی لسٹ بہت لمبی ہے۔ یہ بھارت کے وہ ایجنٹ ہیں اکھنڈ بھارت کے مشن کو پورا کرنے میں گامزن ہیں، اپنے ملک میں ہندو اسکون وغیرہ تنظیموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ اسلام کےدشمن ہیں اور مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کو کھرچ کھرچ کر نکالنا چاہتے ہیں۔
بربریت کی ان داستانوں میں ایک اور داستان اضافہ اس وقت ہوا جب بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کی پانچ سو (۵۰۰)جھگیوں پر مشتمل ایک بستی میں آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں پینتیس سو (۳۵۰۰)لوگ بے سرو سامان ہو گئے۔ آخر کب تک ، ان مظلوموں کو کبھی ادھر تو کبھی ادھر ستایا جائے گا؟آخر کب تک امت یوں ہی تماشائی بنی رہے گی؟
یہاں امت کے ایک ایسے بطل کا ذکر کرنا مناسب ہوگا جس نے اسی طرح ظلم کے ستائے مسلمانوں کی مدد کر کے کفار کے دانت کھٹے کر دیے۔
خیرالدین باربروسا، ایک ایسا نام ہے جس نے ساکت سمندروں میں طوفان برپا کر دیا، جس نے کفار کو یہ پیغام دیا کہ صرف خشکی پر نہیں بلکہ سمندروں میں بھی اللہ کے دین کا غلبہ ہوگا۔ اندلس میں مسلمانوں پر عیسائی ایسے ہی ظلم ڈھا رہے تھے جس سے آج برما کے مسلمان پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، اندلس کے مسلما ن اپنی جان و ایمان بچانے کےلیے شمالی افریقہ کی اسلامی سلطنت تک پہنچنا چاہتے تھے لیکن ان کی راہ میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، وہ مسلمان بے بس تھے لاچار تھے ، ان پر ظلموں کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، ایسے سخت وقت میں امت کے ابطال نے اس امت کے مظلوموں کا ہاتھ تھاما اور اندلس کے ان مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلوائی ، جس کے نتیجےمیں وہ نوجوان سلطان کی فوج میں شامل ہو گئے اور انہوں نے اسلام کی فتح کے لیے اندلس پر کیے جانے والے جہادی حملوں میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
آج ایسے ہی ابطال کی ضرورت ہے جو کمزور امت کو سہارے دے سکیں! موجودہ دور میں امارتِ اسلامیہ نے وہ مثال پھر سے زندہ کی ہے،جسے دیکھنے کے لیے یہ امت ترس گئی تھی۔ جس نے ایک شیخ کی حفاظت کی خاطر پوری دنیا کو للکارا اور انتہائی کمزوری و سختی کی حالت میں یہ ثابت کر دکھایا کہ حق و باطل کے رن میں فتح آخر حق کی ہوتی ہے ۔ بھارت کے اشاروں پر ناچنے والی چاہے بنگلہ دیشی حکومت ہو یا پھر برما کی ظالم حکومت ،یہ امت کا جینا اس وقت تک دوبھر کرتے رہے گے جب تک امت یکجا نہیں ہوتی اور اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر نہیں کھڑی ہوتی!
میرے دشمن نے یہ سوچا ہی نہیں تھا شاید
یہ دیا بادِ فنا سے بھڑک سکتا ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس امت کے غم کو اپنا غم سمجھیں۔ ہم مظلوم امت کو تھامنے والے بن جائیں۔ جس طرح ہم اپنی اور اپنے عیال کا غم کرتے ہیں ، اسی طرح اس امت کی فکر کو اپنے دلوں میں بسا لیں۔ ان کی حفاظت کے لیے دعائیں کریں، ان کی فلاح کے لیے حتی الامکان جدو جہد کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ امت ایک امت ہے ۔ کسی برمی کا دکھ میرا دکھ ہے، کسی کشمیری کا غم میرا ہی غم ہے، کسی فلسطینی کی بے بسی ، میری ہی بے بسی ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اس امت کی جیت میری ہی جیت ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست میں، میں بھی امارتِ اسلامیہ کے ساتھ ہوں۔ افغانستان میں کفر کی شکست اس امت کی فتح ہے!
اس نے اک مشعلِ تاباں کو بجھانا چاہا
اور فضا میں لپک اٹھےہیں کروڑوں بازو
بھائی محمد راشد دہلوی کا تعلق سیکڑوں برس تک برِّ صغیر کی مسلم سلطنت کے دار الحکومت رہنے والے شہر ’ دہلی ‘سے ہے جو آج بھارتی ریاست کا ایک مقبوضہ ہے!
٭٭٭٭٭