زلمے خلیل زاد ایک افغان نژاد امریکی سیاست دان و سفارت کار ہے ، امارتِ اسلامیہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدۂ دوحہ میں امریکہ کی جانب سے سفیر تھا۔ خلیل زاد نے افغانستان میں مجاہدین کی فتح اور امریکی شکست (فتحِ کابل)کے تقریباً دو ماہ بعد بطورِ سفیر اپنے عہدے سے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ خلیل زاد کی امریکی انتظامیہ میں اہمیت اس بات سےبھی واضح ہوتی ہے کہ ’وار آن ٹیرر‘ کے گزشتہ بیس سالوں میں وہ امریکہ میں رپبلکن و ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کی حکومت میں کلیدی عہدوں پر فائز رہا (امریکی سفیر برائے افغانستان، امریکی سفیر برائے عراق، امریکی سفیر برائے اقوامِ متحدہ، امریکہ کی خصوصی مذاکراتی ٹیم برائے امارتِ اسلامیہ افغانستان کا سربراہ، وغیرہ)۔
ذیل میں ہم امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے چند ہفتے قبل سی بی ایس نیوز کے پروگرام فیس دی نیشن میں دیے گئے انٹرویو کے معتد بہ حصے کا خلاصہ و استفادہ پیش کر رہے ہیں۔ ذیل میں اکثر جگہوں پر میزبان صحافی کے سوالات درج کیے گئے ہیں اور بعض جگہوں پر ان کو درج نہیں کیا گیا۔ کوشش کی گئی ہے خلیل زاد کے اکثر الفاظ کو ان کی اصل ہئیت میں ہی برقرار رکھا جائے۔ اس انٹرویو میں جہاں امریکیوں کی شکست کا اعتراف ہے تو وہیں مجاہدین کی اعلیٰ صفات کا اعتراف بھی جا بجا موجود ہے۔ انٹرویو کا ترجمہ اور بعض جگہوں پر حاشیوں کا اضافہ اسلامی صحافی سیلاب خان (س خ) نے کیا ہے۔(ادارہ)
صحافی: امریکہ کے افغانستان جانے کے مقاصد کیا تھے؟
خلیل زاد: ہم افغانستان میں اس لیے گئے تھے کہ ہم چاہتے تھے کہ نائن الیون کے حملوں میں جو کوئی بھی ملوث ہے اس کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے (یہ پہلا مقصد تھا)۔ جہاں تک ایک ’جمہوری‘ افغانستان کی تعمیر کی بات ہے تو میرے خیال میں یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اور اس کوشش کو اب خود افغانوں کو آگے جاری رکھنا ہو گا۔ ہم افغانستان میں بہت سی تبدیلیاں لائے ہیں، میرا خیال ہے لاکھوں افغان آج تعلیم یافتہ ہیں، وہاں موبائل فون (جدید ٹیکنالوجی)استعمال کرنے والے بہت سے لوگ ہیں۔ لیکن ہمارا دوسرا ہدف یعنی افغانستان کو ایک متحدہ جمہوری ریاست میں تبدیل کرنا…… ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
صحافی: کیا آج کے طالبان ہمارے اتحادی ہیں؟
خلیل زاد: ہم نے طالبان سے بیس سال جنگ کی ہے۔ وہ ہمارے اتحادی نہیں ہیں۔ طالبان افغانستان کی حقیقت ہیں۔ وہ عسکری طور پر زمین پر جیت رہے تھے۔ اور یہی وہ سبب ہے کہ…… ہم چونکہ عسکری طور پر افغانستان میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے ……ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے بھی اسی لیے کہ ہم وہ نتائج حاصل نہیں کر پائے جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے اور سالانہ بنیادوں پر ہم سے علاقے چھنتے جا رہے تھے۔ حتیٰ کہ جب ہم ان سے مذاکرات کر رہے تھے تب بھی وہ میدان میں مستقل فتوحات حاصل کرتے جا رہے تھے۔
صحافی : کیا وہ جنگ جیت رہے تھے؟
خلیل زاد: [کچھ اٹکتے ہوئے اور تھوک حلق سے نیچے نگلتے ہوئے]آہستہ آہستہ…… ہاں…… وہ مستقل کامیاب ہوتے جا رہے تھے اور اس کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لیے ہمیں کہیں زیادہ کوششیں کرنا پڑتیں (جو ہم کر رہے تھے ان کی نسبت)۔ اور ہم نے کئی دفعہ ان کوششوں کو تیز کرنے کی کوشش بھی کی ، لیکن ہم ان کے مقابل پیش قدمی (progress)نہیں کر پا رہے تھے۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ مذاکرات کرنے چاہییں اور مذاکرات اس رائے (یعنی ہدف)اور اس رائے (حاصل ہوتے نتائج)کے نتیجے میں سوچ بچار اور غور و فکر کا نتیجہ تھے کہ…… ہم جنگ نہیں جیت رہے تھے اور وقت ہمارے ساتھ نہیں تھا اور بجائے مزید وقت ضائع کرنے کے جلدی کسی معاہدے پر پہنچنے کی ضرورت تھی۔
صحافی: اور اسی نتیجے پر صدر اوبامہ، صدر ٹرمپ اور صدر بائیڈن بھی پہنچے؟!
خلیل زاد: جی ہاں!
صحافی : پنٹاگان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بہت سے ایسے افغانی کمانڈوز بھی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں جو ہمارے فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑے، ہماری خاطر لڑے اور بہت سے ترجمان (جنگی کارروائیوں میں امریکی و افغانی زبانوں کے مترجمین)بھی وہاں پھنسے ہوئے ہیں جو امریکہ آنا چاہتے ہیں……کیا ہم ان کو وہاں سے نکالنے کی ذمہ داری کا مزید بوجھ اٹھانا چاہیں گے؟
خلیل زاد: سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہماری خاطر نہیں لڑے۔ وہ اپنے ملک کی خاطر لڑے۔ کبھی کبھی ہم ٹھیک سے اندازہ نہیں کر پاتے (اور کہتے ہیں کہ)جو کچھ افغانستان میں ہوا وہ ہماری کوشش تھی،دراصل افغان خود اپنے اندر بڑے پیمانے پر تقسیم ہیں۔ کچھ افغان ایک جمہوری ریاست میں یقین رکھتے ہیں، زیادہ مغربی انداز کی حکومت ۔ پھر اور افغان ہیں جو زیادہ اسلامی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں، طالبان کی طرح(یہ ایک بات ہو گئی)۔
جہاں تک وہاں پھنسے لوگوں کی بات ہے تو طالبان نے خود قومی ٹیلی وژن پر کہا ہے کہ جو افغانی امریکہ کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اگر وہ وہاں جانا چاہیں تو وہ (طالبان)ان کو نہیں روکیں گے ۔
صحافی: بعض رپورٹوں کے مطابق ان کو تلاش کیا جارہا ہے اور مارا بھی جا رہا ہے، طالبان کی طرف سے؟
خلیل زاد: میں نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں۔ اور جب میں خود حکومت میں تھا تو میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ کئی بار اس قسم کی رپورٹیں درست نہیں ہوتیں۔ کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو طالب ظاہر کیا اور کسی ذاتی مسئلے کے سبب دشمنی نکالی یا انتقام لیا۔
صحافی: (آپ جانتے ہیں)بچیوں کو سکول جانے سے روکا جا رہا ہے، عورتوں کو حقوق نہیں دیے گئے، غذائی قلت سےسے دس لاکھ بچوں کی ہلاکت کا خطرہ ہے!1
خلیل زاد: طالبان کا افغانستان کے لیے وژن ایک زیادہ اسلامی وژن ہے اور ظاہر ہے کہ اسلام کی تعبیر میں ایک اختلاف موجود ہے2 ۔ ایسے میں ہمیں ان کے پیسے منجمد رکھنے چاہییں اور جو جو چیزیں وہ دنیا سے چاہتے ہیں وہ روکے رکھنی چاہییں ۔
صحافی: جنرل ملی اور جنرل مک کنزی وغیرہ سے جب بھی افغانستان کی جنگ سے متعلق بات ہوتی ہے تو وہ ہر دفعہ بات کو واپس لوٹا تے ہیں ۲۰۲۰ء کے معاہدے کی طرف اور کہتے ہیں کہ یہ وہ لمحہ تھا جب افغان فوجیں حوصلہ ہار گئیں۔ جب بائیڈن کہتا ہے کہ Afghan forces melted away تو اس کا سبب یہ معاہدہ تھا؟!
خلیل زاد: میں اس کے بارے میں چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔
ایک تو یہ کہ ہم جو اس معاہدے کی طرف گئے تو اس کا سبب یہ تھا کہ صدر اوبامہ یہ چاہتے تھے، ٹرمپ نے یہ کر دیا اور بائیڈن نے بھی اسی کو جاری رکھا کیونکہ ہم عسکری طور پر پیش قدمی نہیں کر رہے تھے۔ ہم جنگ نہیں جیت رہے تھے۔ لہٰذا سوال یہ تھا کہ ہم وہی عمل جاری رکھیں جو ہم کئی سالوں سے کر رہے تھے، یعنی عملی میدان میں زمین سے پیچھے ہٹتے رہنا ، علاقوں سے شکست کھا کر نکلتے رہنا……سوال یہ تھا کہ ہم مزید کئی سال بغیر جیتے جنگ جاری رکھیں یا پھر ہم ایک متبادل کی طرف جائیں۔
دوئم، ایک بہت بڑا سوال جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ افغان فوج نے جنگ کیوں نہیں کی؟ کیا وہ خود اپنے نظریے پر یقین نہیں رکھتے تھے؟
صحافی : انہوں نے بیس سال جنگ کی ناں!
خلیل زاد: …… جب ہم وہاں تھے تب…… تو کیا وہ محض ہماری خاطر لڑ رہے تھے یا وہ کسی مقصد کی خاطر لڑ رہے تھے؟!
طالبان تو مقصد کی خاطر لڑ رہے تھے ، وہ اس پر یقین رکھتے تھے اور حکومتی فورسز یقین نہیں رکھتی تھیں؟ کیا یہ ان کی حکومت کی کرپشن کے سبب تھا؟ یا ان کا اعتماد اس حکومت پر ختم ہو گیا تھا؟ یا حکومت نے ان سے صحیح سلوک نہیں کیا؟ کیا حکومت تنخواہیں نہیں دے رہی تھی یا جن افغان فوجیوں نے اپنی جان اس جنگ میں ہاری ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی تھی؟
(پھر وہی بات دہراتا ہوں کہ )کیا یہ فوجی صرف امریکہ کے لیے لڑ رہے تھے کہ انہوں نے معاہدے کے بعد لڑائی نہیں کی؟
میرے خیال میں بہت سے اور عوامل بھی تھے جن کو دیکھا جانا چاہیے۔
صحافی: جنرل میک ماسٹر کا خیال ہے کہ آپ نے جو معاہدہ کیا وہ دراصل ایک ہتھیار ڈالنے؍ تسلیم ہونے کی ڈیل تھی۔
خلیل زاد: میرے دوست جنرل میک ماسٹر اور دوسروں کے لیے عرض ہے کہ اس لیے ہم نے یہ ڈیل کی کہ ہم جنگ جیت نہیں رہے تھے۔ جنرل میک ماسٹر کا کیا خیال ہے کہ کب تک یہ لڑائی جاری رکھنی چاہیے تھی، جب کہ ہم ہر سال علاقے کھوتے جا رہے تھے؟! آخر کیا وجہ تھی کہ ہم بیس سال مستقل یہ جنگ ہارتے رہے۔ایسے میں حل یہ تھا کہ یا ہم ڈیل کرتے یا پھر ہم یہ جنگ جو ہم ہار رہے تھے جاری رکھتے۔
(یہ فیصلہ میں نے نہیں کیا)، مجھ سے زیادہ بڑے عہدوں پر اور مجھ سے زیادہ تنخواہ لینے والوں نے یہ فیصلہ کیا۔
صحافی : آپ کی مراد وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور صدر ٹرمپ ہیں؟
خلیل زاد: جی ہاں، یہ دونوں بھی اور بعد میں بائیڈن انتظامیہ کے افراد نے بھی سوچ بچار کر کے یہ فیصلہ کیا۔ اور صورتِ حال وہی تھی جو تھی۔ بعض دفعہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے فیصلہ سازی کا سارا اختیار میرے (خلیل زاد کے) پاس تھا اور ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ میں نے کئی صدور کے ساتھ کام کیا اور میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد ، جو جو متبادل طریقے ہو سکتے تھے ان سب پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔
صحافی: اس لیے کہ امریکی عوام میں جنگ لڑنے کا ارادہ (will to fight)ختم ہو گئی تھی؟!
خلیل زاد: (اثبات میں اشارہ کر کے کہتا ہے )اور اس لیے (بھی)کہ بیس سال بعد جنگ ٹھیک سمت میں نہیں جا رہی تھی۔
صحافی : میں کچھ مخصوص سوال رکھنا چاہتی ہوں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے جو ڈیل کی اس میں دیا بہت کچھ اور لیا بہت کم…… آپ نے کیوں پانچ ہزار قیدیوں کو چھوڑنے کا مطالبہ تسلیم کیا؟3
خلیل زاد: افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے قبل طالبان کچھ یقین دہانیاں چاہتے تھے،Confidence Building Measures، دونوں طرف سے۔ وہ چاہتے تھے کہ دونوں طرف سے تمام قیدی رہا کر دیے جائیں، ایک اچھے شگون کے طور پر کہ وہ اب مذاکرات کے لیے بیٹھنے والے تھے۔
صحافی: آپ نے جنگ کے قابل (potential fighters)افراد کو رہا کر دیا؟
خلیل زاد: افغان حکومت کے پاس پندرہ ہزار قیدی تھے اور طالبان کے پاس ایک ہزار قیدی۔ طالبان کا مطالبہ دونوں طرف سے سب کو چھوڑ دینے کا تھے۔ اور جنگجوؤں کی کمی دونوں طرف نہیں تھی، ایک طرف تین لاکھ اور دوسری طرف ستّر ہزار سے زیادہ یا کم لڑنے والے تھے۔ اور یہ طے ہوا کہ رہا ہونے والے دونوں طرف کے قیدی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
صحافی: کیا طالبان اپنے اس قول پر قائم رہے؟
خلیل زاد : جی ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر ایسا ہی ہوا، طالبان کے رہا ہونے والے جنگجوؤں نے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ہاں بعض واقعات ہوئے، لیکن اس کے متعلق طالبان نے کہا کہ جب ان کے جنگجو دوبارہ اپنے علاقوں میں واپس گئے تو افغان حکومت نے ان کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی ، تب وہ جواباً لڑے۔
صحافی: اشرف غنی اور آپ کے درمیان تلخ کلامیاں بھی ہوتی رہیں اور وہ اس ڈیل سے خوش نہ تھے جو آپ نے کی؟
خلیل زاد: جی ہاں، ایسا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی حل نہیں چاہتے تھے، وہ سٹیٹس کو ؍status quo(موجودہ صورتِ حال)کو برقرار رکھنا چاہتے تھے، انہیں جو عہدے ملے ہوئے تھے وہ ان کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اور جو امریکی امداد اور سپورٹ ان کو مل رہی تھی وہ اس کو جاری رکھنا چاہتے تھے، وہ ’سٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ پھر جب ہمارے نکلنے وغیرہ کی چیزیں حتمی ہو گئیں تو انہوں نے اس سب کا اندازہ لگانے میں خطا کی، وہ سیاسی حل کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔
صحافی : کیا مائیک پومپیو اور ٹونی بلنکن ذمہ دار نہیں کہ انہوں نے اتنا زور نہیں ڈالا اشرف غنی پر جتنا ڈالنا چاہیے تھا؟
خلیل زاد: انہوں نے بہت کوشش کی اور دونوں نے اشرف غنی کے ساتھ بہت سا وقت گزارا لیکن وہ نہیں مانا۔ اب چونکہ آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو اب میرا خیال ہے کہ ہم نے اتنا پریشر اس پر نہیں ڈالا جتنا ڈالنا چاہیے تھا، ہم اس کے ساتھ نرم تھے، ہم سفارت کاری سے اور تحریض دلا کر اس کو قائل کرتے رہے۔ ہاں ایک دفعہ پومپیو نے کہا کہ ہم امداد میں سے ایک بلین ڈالر کی کٹوتی کریں گے تب…… جب عبد اللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے مسائل ہوئے…… اور آپ صورت حال ذرا دیکھیں۔
انتخابات بہت ہی مسائل سے پر ہوئے کہ صرف ایک اعشاریہ دو ملین لوگوں نے ووٹ ڈالا4 اور آپ صورتِ حال ذرا دیکھیں کہ یہ جنگ ہار رہے ہیں اور عبد اللہ عبد اللہ اور اشرف غنی(آپس میں لڑ رہے ہیں)…… دو دو تقریباتِ حلف برداری ہو رہی ہیں کابل میں، ذرا تصور کریں……لہٰذا ہمیں اشرف غنی کو پہلے سے ہی کہہ دینا چاہیے تھا کہ اگر تم مذاکرات سنجیدگی سے نہیں کرو گے تو تمہاری سپاہ کو ہم کسی قسم کی ملٹری سپورٹ نہیں دیں گے ۔ بس اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنے عہدے پر رہنا چاہتا تھا۔ پھر طالبان کابل میں داخل ہو گئے اور پھر انہوں (طالبان)نے (کابل سے)انخلا بھی کر دیا (اور وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار تھے)، ایسے میں اشرف غنی بھاگ گیا اور اسی سبب سے وہ سب کچھ ہوا جو ہوا۔
٭٭٭٭٭
1 صرف بارہ سال سے بڑی بچیوں کو افغانستان میں سکول جانے سے ابتداءً روکا گیا اور اس کا سبب بھی سکولوں وغیرہ کا غیر مناسب اخلاقی ماحول تھا۔ جن جن علاقوں میں امارتِ اسلامیہ یہ ماحول بہتر بنانے اور کنٹرول کرنے میں اب تک کامیاب ہو چکی ہے تو وہاں بارہ سال سے بڑی بچیوں کے سکول بھی کھولے جا چکے ہیں اور اس وقت افغانستان کے دس سے زائد صوبوں میں بڑی بچیاں بھی سکول جا رہی ہیں اور باقی صوبوں میں بھی اصلاحِ ماحول کے ساتھ یہ سکول کھول دیے جائیں گے (اس بات کا اظہار حکومتِ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے ترجمان اور نائب وزیرِ اطلاعات و ثقافت مولوی ذبیح اللہ مجاہد صاحب نے طلوع ٹی وی کو ایک انٹرویو میں کیا، نیز بعض معلومات ہمیں افغانستان میں موجود بعض صحافتی ذرائع سے حاصل ہوئیں)۔
یہی معاملہ عورتوں کے حقوق کا بھی ہے۔ عورتوں کو ہر وہ حق حاصل ہے جو اسلام: دینِ عدل ان کو دیتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں عورتیں تمام کاروبارِ زندگی میں شریک ہیں، گھروں میں سودا سلف لانے کے لیے بازار جانا، علاج معالجے کے لیے ہسپتال جانا، عورتیں اپنی ملازمتوں پر بھی جارہی ہیں، بلکہ کئی بازاروں میں عورتیں دکاندار بھی موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر افغان معاشرے میں عورتوں کو جو مال کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا اور صدیوں سے بیواؤں کے نکاح کی ’افغانی‘ رسمیں تھیں، جنہیں عورتوں کے حقوق کا چیمپئن امریکہ اور اس کے افغانی اتحادیوں نے بھی جاری رکھا تھا، کو عالی قدر امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ (نصرہ اللہ) کے فرمان سے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، یہ سب عورتوں کے حقوق نہیں تو اور کیا ہے؟
جہاں تک دس لاکھ بچوں کے غذائی قلت کا شکار ہونے کا خطرہ ہے تو اس کا براہِ راست ذمہ دار امریکہ خود ہے جس نے افغانستان کی عوام کے اربوں روپے اپنے بینکوں میں روک رکھے ہیں اور جس امریکہ نے افغانستان پر اپنے اتحادیوں کے ذریعے تجارتی و معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں اور بنیادی خوراکی مواد اور دوائیوں تک کی ترسیل مشکل بنا دی گئی ہے۔ (س خ)
2 اسلام کی تعبیر بنیادی طور پر تو ایک ہی ہے، لیکن جدید دنیا کے تناظر میں سمجھیں تو دو قسم کی ہے: ایک صحابۂ کرامؓ، سلفِ صالحین، ائمہ و فقہا و محدثینِ اسلام کی تعبیر اور دوسری امریکی برانڈڈ تعبیر ۔ طالبان خود اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کے ملک کا قانون و نظام فقہِ حنفی ہو گا جو عباسی و عثمانی خلفا کے زمانے میں قریباً ایک ہزار برس تک عالَمِ اسلام کا اور برِّ صغیر و افغانستان میں مغلوں اور دیگر بادشاہوں کے دور میں قریباً چھ سو برس تک قانون و نظام رہا! (س خ)
3 یہاں یہ نکتہ نہایت قابلِ غور ہے کہ اب تک تمام امریکی عہدے دار بھی اور خلیل زاد بھی زبان سے یہی کہتے رہے ہیں کہ افغانستان میں ایک خود مختار حکومت قائم تھی اور اصولاً و قانوناً دیکھا جائے تو یہ پانچ ہزار قیدی اسی حکومت کے تحت جیلوں میں بند تھے، جبکہ ان کو رہا کرنے کی یقین دہانی امریکہ نے کروائی اور عملاً رہا بھی امریکہ نے کیا؟! (س خ)
4 افغانستان کی کل آبادی قریباً چار کروڑ ہے یعنی چالیس ملین اور اس میں صرف ایک اعشاریہ دو ملین یعنی محض بارہ لاکھ افراد نے ان کے دعوے کے مطابق ووٹ ڈالا (ورنہ ہماری اطلاع کے مطابق ووٹروں کی اصلی تعداد صرف پانچ سے چھ لاکھ تھی)، یعنی کل آبادی کے چالیسویں حصے نے۔ مزید لطیف بات یہ ہے کہ صرف کابل شہر تقریباً آٹھ ملین یعنی اسّی لاکھ آبادی کا شہر ہے اور کابل ہی دراصل امریکہ اور اشرف غنی کی حکومت کا اصل علاقہ تھا اور اگر آج افغانوں میں کسی کو طالبان کی حکومت سے شکوہ ہے تو وہ چند ہزار لوگ کابل ہی کے ہیں اور اس الیکشن میں خلیل زاد ہی کے مطابق اندازاً کابل کی بھی اسّی فیصد آبادی نے حصہ نہیں لیا۔ کیا جمہوریت اسی کو کہتے ہیں؟ (س خ)