قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر!

امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سےشہید فدائی مجاہدین کی یاد میں ان کے عزیزواقارب کےلیے منعقد کی گئی ایک محفلِ خاص میں خلیفہ صاحب الحاج ملا سراج الدین حقانی حفظہ اللہ کی گفتگو


نحمده ونصلي على رسوله الكريم

فاعوذ باالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمٰن الرحيم

میرے دینِ اسلام کے پیروکار، غیرت مند معزز بزرگو! اساتذۂ کرام اور فدائی مجاہد ساتھیوں کے گھرانوں کے معزز بھائیو!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ تعالیٰ آپ سب کا ادھر آنا خیرو برکت کا ذریعہ بنائے۔ میں پہلے پہل آپ سب حضرات سے معذرت کرتا ہوں اور آپ سے معافی مانگتا ہوں، کیونکہ یہ بیس سالہ جہاد کا جو مرحلہ گزرا ، اس کا احاطہ عقل و تصور سے کرنا نہایت مشکل ہے۔ جو قربانیاں ان بیس سالوں میں پیش کی گئیں، تو چاہیے تو یہ تھا کہ ہم خود ہر شہید کے گھر تعزیت اور تسلی کے لیے چل کر جاتے۔ یقیناً آپ بھائیوں کے دلوں کو تکلیف پہنچی ہو گی ، آپ کو ہم سے شکوہ پیدا ہواہوگا اور ناراض ہوں گے، لہٰذا ہمیں معاف کر دیجیے ، اللہ تعالیٰ آپ سب کی قربانیاں قبول فرمائے،آمین!

یقین جانیے ہماری خواہش تھی کہ ہر استشہادی مجاہد کے گھر چل کر جاتے اور ان کے گھرانے کے ساتھ تعزیت کرتے،ان کو تسلی دیتے، لیکن حالات کی خرابی کی وجہ سے ہم یہ نہ کرسکے، اور مشکلات کی وجہ سے ہم نے اسی پر اکتفا کیا (اور سوچا تھا)کہ ایک وقت اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ لائے گا کہ ان قربانیوں کے نتیجے میں ہماری جو آرزوئیں ہیں، اسلامی نظام کے قیام کی خاطر، نفاذِ شریعت کی خاطر، کفا ر کو اپنی سرزمین سے بھگانے کی خاطر، تو ہم ایک ایسے مبارک دن کو مبارک محفل میں شریک ہوں گے، یہ ہمارا رب سے کیے گئے وعدے پر ایمان تھا، اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا وعدہ سچا کر دکھایا، آپ سب کو مبارک ہو۔

میں آتا ہوں کچھ مختصر باتوں کی طرف، یقیناً ہر گھرانے کی یہ خواہش ہو گی کہ ہم آپ کے ساتھ تنہائی میں مجلس کرتے، ہمارے بچوں اورپیاروں کی قبریں ہمیں معلوم ہوتیں یا جہاں وہ شہید ہوئے تھے وہ جگہیں آپ دیکھ لیتے اور اس سے آپ سب کو تسلی و اطمینان حاصل ہوجاتا۔ ہمارے دلوں میں بھی یہی خواہش ہے، ان شہدا کی جو یادیں ہمارے پاس رہ گئی ہیں، وہ صرف ہمارا رب جانتا ہے، ان فدائین کو ان کارروائیوں کے لیے منتخب کرنا ہمارے اختیار میں نہیں تھا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھا جس نے ان کو دینِ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے کے لیے منتخب کیا۔

سال ۲۰۰۱ء یا ۲۰۰۲ء میں ہم مدرسے کے طالب علم تھے، یہ خلیفہ احمد شاہ صاحب میرے استاد ہیں ،ان سے میں پڑھتا تھا، مجاہدین ہمارے پاس آتے تھے اور ہم سے کارروائی پہ جانے کے لیے ترتیب اور وسائل مانگتے تھے۔ اس وقت کئی لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے تھے کہ امریکہ کے مقابل اپنے آپ کو نہ تھکاؤ، اس ابرہہ اور فرعون کا مقابلہ کرنا پہاڑ سے ٹکرانے کے مترادف ہے اوران کے خلاف کامیابی ناممکن ہے۔ حتیٰ کہ یہاں تک یہ زہریلے پروپیگنڈے ہوا کرتے تھے کہ امریکی جہاں چاہیں بندے کو دیکھ سکتے ہیں اور جو ان کے خلاف اسلحہ اُٹھائے اس اسلحے کو لیزر کے ذریعے ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہم بھی اسی کوشش میں رہتے کہ ایسے اسباب و وسائل ڈھونڈیں جن کے ذریعے ان کا مقابلہ کرسکیں، حالانکہ ہمارے پاس اس وقت کوئی رسمی مسئولیت بھی نہیں تھی۔ لیکن ہمارے والدِ محترم فرماتے تھے کہ ہمارا کام اس فریضے کو ادا کرنا ہے،کامیابی و ناکامی کی مسئولیت ہمارے سر نہیں یہ اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے، بس ہم نے جہاد نہیں چھوڑنا کیونکہ یہ ہم سب پر فرضِ عین ہے۔ ہم اپنی طرف سے ہرممکن کوشش کریں گے اور ان شاء اللہ ایک وقت اللہ تعالیٰ لائے گاکہ مجاہدین اس دشمن کوشکست دے کر کامیاب ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہےکہ وہ ہماری نصرت فرمائیں گے۔

الغرض بات ہورہی تھی ہمارے مجاہد بھائیوں کی…… تو عرض یہ ہے کہ اگر ہم ان کفار کے مقابلے کے لیے، ان پر حملے کرنے کے لیے فدائی کارروائیاں نہ کرتے تو ان کا مقابلہ کرنا ناممکن تھا، لیکن اللہ رب العزت کی رضا ، ارادہ اور فیصلہ تھا وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ1… یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھا۔

آپ کے علم میں ہوگا پہلا حملہ پلِ چرخی روڈ پر جرمنی کی فوج پر ہوا، اس حملے کے لیے جس فدائی مجاہد کا انتخاب کیا گیا تھا، زیادہ غم کی وجہ سے ہم اس فدائی مجاہد سے ملاقات بھی نہیں کرسکے ، ہم بہت زیادہ غمگین تھے کہ یا اللہ آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ہم ان کفار کا مقابلہ مادی وسائل و اسباب سے کرنے سے قاصر ہیں، اور ان کفار کے مقابل ایسی حسین جوانیاں قربان کرنی پڑ رہی ہیں ، انہیں اپنے والدین، بہن بھائیوں سب کو چھوڑنا پڑ رہا ہے!

دوسرا حملہ یہاں دارالامان میں امریکیوں پر ہوا،چونکہ ابتدائی دن تھے، ہمارے پاس ان فدائی مجاہدین کی ترتیب نہیں تھی،ہمیں ایک ذریعے سے یہ فدائی ملے اورہم نے ہدف تک پہنچانے کے لیے صرف ان کی رہبری کا کام کیا، پھر اس کے بعد نوجوان جوق درجوق استشہادی مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوتے گئے، اس دور کے گواہ ہمارے پاس کافی ہوں گے، ہم نے جب ان نوجوانوں کا جذبۂ ایمانی دیکھا جو کفار کے مقابلے میں اپنی جانیں پیش کرنے کے لیے بے تاب تھے، اور ہم سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ ہمارے لیے فدائی کارروائی کی ترتیب بنادیں، تو ہم نے سوچا کہ یہ اللہ رب العزت کی نصرت ہے جس نے دینِ اسلام کے دفاع اور کفار کو شکست دینے کے لیے یہ اسلحہ، یہ طاقت ہمیں عطا کی ہے اور اگر یہ فدائی نوجوان خدانخواستہ غلط ہاتھوں میں چلے گئے تو روزِ محشر ہم اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے سامنے شرمندہ ہوں گے، لہٰذا ہم پر لازم تھا کہ ہم ان نوجوانوں کی تربیت کا انتظام کریں۔ ہم نے کافی سوچاکہ ان کے لیے کس عنوان و ترتیب کے تحت تربیت کا نظام بنا یا جائے،ہمارے لیے یہ بھی ایک امتحان تھا کیونکہ یہ ایک بہت بڑی امانت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مسئولیت ہمارے کندھوں پر ڈالی تھی۔ اگر ہم ان کی جانوں کو اپنی جانوں کے برابر نہ سمجھتے تو کل اللہ کے ہاں مجرم ہوتے۔ واللہ! اس وقت انتہائی مجبوری کے حالات تھے ، ہم پرمستقل چھاپے پڑتے تھے، مستقل دن اور رات دشمن ہمارے تعاقب میں رہتا تھا، لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ان نوجوانوں کی تربیت کے لیے اپنے گھر کے کسی فرد کا انتخاب کریں گے۔ یہی وہ موقع تھا کہ ہم نے حافظ بدرالدین (تقبلہ اللہ) کا انتخاب کیا،آپؒ نوجوان تھے اور یقین جانیے کہ اس بات کابھی دل میں ڈرتھا کہ ان فدائین کے معاملے میں کہیں حافظ بدر الدین سے غفلت نہ ہوجائے، لیکن اللہ رب العزت کی رہنمائی تھی وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حافظ صاحب کو ان امور میں ایسی فراست و بصیرت سے نوازا کہ آپ ؒ نے ہمیشہ ایسی حکمتِ عملی بنائی جس پر عمل کرنے سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچا۔

اکثر فدائی ساتھی ایک ایمانی غیرت اور جذبہ لے کر آتے تھے،حتیٰ کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ سے ملاقات کے شوق میں ایسے بے قرار تھے کہ ایک مقام آتا تھا جب ان کو کارروائی یاہدف سے کوئی سروکار نہیں رہتاتھا، بلکہ مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طریقے سے کارروائی کی ترتیب بن جائے اور وہ کارروائی ہماری شہادت کا ذریعہ بن جائے۔

ہم ان کے ساتھ اس معاملے میں چھوٹے بچوں کی طرح پیش آتے، ہم کوشش میں لگے رہتے اور ان کو کہتے کہ آج یا کل میں ترتیب بن جائے گی۔ اللہ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی ایسے ہدف کا انتخاب نہیں کیا جس میں ہمارا مقصد نام و نمود پیدا کرنا ،ناموری یا اپنی کوئی خواہش پورا کرنا ہو۔ بلکہ ہمیشہ ایسے اہداف پر کام کیا جن سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچے اور دینِ اسلام کو ترقی ملے۔جب بھی ان فدائین کو کسی ہدف پر کارروائی کرنے کے لیے بھیجتے تو اس سے قبل ہم اپنے آپ کو اور ان فدائین کو آخری مرحلے تک ہدف کے بارے میں مطمئن کرتے اور ان کو دشمن کے بارے میں پوری معلومات دیتے تھے۔

جیساکہ مجھ سے قبل اساتذۂ کرام اور ترانہ خوانوں نے ان استشہادی نوجوانوں کا تذکرۂ خیر کیا، یقین جانیے ان کی بہت سی یادیں اور کرامات ہمارے پاس ہیں،اور آج میں آپ سب کے سامنے شرمندہ ہوں، کیونکہ یہ آپ کی اولاد تھی جس کے فراق کے بعد آپ یقیناً دکھ اور درد سے گزرے ہیں۔ یہاں اکثر فدائین کے اقربا آئے ہوں گے، ہم کوشش کرتےتھے کہ وہ آپ سے ملاقات کرلیں، ان کو جب پتہ چلتا کہ میرے والد صاحب، بھائی یا رشتہ دار ملنے آئے ہیں، تو وہ ان سے چھپنے کی جگہ ڈھونڈتےتھے۔میرے پاس ایک مولوی صاحب آئے اور ا نہوں نے گزارش کی کہ میرے بیٹے کو کوئی ورغلا کر ادھر لایا ہے، مجھے جہاد سے انکار نہیں لیکن میرا بیٹا کم سن ہے ،مدرسے کا طالب علم ہے، آپ برائے مہربانی میرے بیٹے کو بلاکر لے آئیں۔ میں نے ایک ساتھی کو اس کو بلانے کے لیے بھیجا ،ان کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا، اور ساتھی کو تاکید کی کہ عبداللہ سے کہو کہ خلیفہ صاحب آپ سےملنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر ان کو ان کے والد صاحب کا بتاتے تو شاید وہ نہ آتے۔ ہمارے اور ان کے درمیان جو محبت والا تعلق تھاوہ صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس محبت کی وجہ سے وہ مجھ سے ملاقات کا بے قراری سےانتظار کرتے تھے۔ جب عبداللہ کمرے میں داخل ہوا اور اپنے والد کو دیکھا تو چیخیں مار مار کے رونے لگا، ایسے رویا جیسے ہم اس کو کسی دشمن کے حوالے کررہے ہوں، میں نے اس کو سینے سے لگا کر پیار کیا اور کہا کہ عبداللہ تم پریشان نہ ہو، تمہارے والد صاحب کے دل میں کافی شکوے ہیں ، یہ سارے شکوے ختم ہوجائیں گے، تم ان کے ساتھ چلے جاؤ اور اگلی بار اجازت لے کر آجانا۔ خیر وہ اپنے والدصاحب کے ساتھ چلا گیا۔ دس دن بعد عبداللہ اپنے والد صاحب کے ہمرا ہ دوبارہ آگیا، اور اس کے والد صاحب نے کہا کہ میری ساری عمرکے لیے توبہ ہے ……آئندہ میں اپنے بیٹے کے بارے میں آپ سے سوال نہیں کروں گا کیونکہ یہ محبتِ الٰہی جو اللہ نے اس کے دل میں ڈالی ہے اس کے سامنے میرے اختیار میں نہیں کہ میں اس کو روک سکوں، یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے، بس خلیفہ صاحب آپ سے ایک گزارش ہے کہ اس کو غلط جگہ استعمال نہ کیجیے گا، غلط ہاتھوں میں یہ استعمال نہ ہو۔

اکثر گھرانے مجھ سے ناراض ہوئے ہوں گے اس وجہ سے کہ ان کی ملاقات نہیں ہوسکی یا ہم نے ان کا حال نہیں پوچھا۔ اس کے باوجود آج بھی مجھے جن القابات، اوصاف اور مدح سے یاد کیا جاتا ہے،اس پر میں آپ سب کے سامنے شرمندہ ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے اور ہمارے ساتھیوں کو معاف کردے ۔

جب فدائین کارروائی کے لیے روانہ ہوتے تو ان سب کی خواہش ہوتی کہ خلیفہ صاحب سے ملاقات والوداع کیے بغیر نہ جائیں ۔کئی دفعہ بے تحاشا مصروفیت و تھکاوٹ کے باوجود میری کوشش ہوتی کہ ان کو رخصت کرنے کے لیے ضرور جاؤں۔ یقین جانیے ان کی آہیں و سسکیاں اور یادیں جو ہمارے پاس رہ گئی ہیں، آج ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اور آپ سب کے سامنے شرمندہ ہیں کہ کہیں خدانخواستہ ہم سے ان امور میں کوئی کوتاہی یا نقصان سرزدنہ ہوجائے۔ ان کی یادیں جو ہمارے پاس رہ گئی ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو ہم سب کی کامیابی کا ذریعہ بنائے اور اس سے ہمارے حق میں نیک نتیجہ نکالے، آمین!

یقین جانیے ہمارا اور آپ کا رشتہ قربانی اور دین کی وجہ سے ہے ، آج اگر یہ پورا کابل ایک مضبوط حصار بنا ہے تو یہ ان فدائین کی غیرت و حمیت کی وجہ سے بنا ہے۔ میں اس وزارت اور اس ریاست کے عہدے پرشرمندہ ہوں، ہم آج ان شہدا کے خون میں تیرتی کشتی میں بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں آزمائش میں نہ ڈالے۔ واللہ العظیم میری یہ سوچ کبھی نہیں رہی یا میرے ذہن میں یہ کبھی نہیں آیا کہ اس سرخ خون و گوشت کے ٹکڑوں کے بدلے ہم ان شہدا کو بھول جائیں اور حکومت و اقتدار ہمارے ہاتھوں میں آ جائے۔ میں اللہ تعالیٰ سے یہ توفیق مانگتا ہوں کہ آپ سب کے ساتھ یہ تعلق تاابد قائم و دائم رہے تاکہ اس تعلق کی برکت سے ہم ان شہدا کی قربانیوں اور یادوں کو بھلا نہ سکیں، یہ قربانیاں میں اپنے لیے، پوری قوم کے لیےاور امارت اسلامیہ کے لیے سعادت سمجھتا ہوں، کیونکہ یہ ایسی قربانیاں ہیں جو دینِ اسلام کی تقویت اور کامیابی کا ذریعہ بنیں۔

دیکھیے یہ انٹر کانٹیننٹل ہوٹل ہے، یہاں اس ہوٹل کا عملہ بھی موجود ہوگا۔ معذرت کے ساتھ کہ میں ان کے سامنے یہ ذکر مناسب نہیں سمجھتا لیکن مجبوراًعرض کر رہا ہوں۔ یہاں غیر ملکیوں یا امریکیوں کی اہم مجالس ہواکرتی تھیں اور ہم ان پر کارروائی کی ترتیب بنارہے تھے۔ اس ہدف کی تکمیل میں مشکلات اور رکاوٹیں بہت زیادہ تھیں جیسے فدائین کو کس طریقے سے اندر داخل کریں؟ اور اسی میں کئی مہینے گزر گئے۔ جیسا کہ خلیفہ احمد شاہ صاحب نے تذکرہ کیا کہ مختلف راستوں سے ہم نے اس ہدف کا ترصد کیا،ہوٹل کے اندر سے مخبروں کو ڈھونڈا،استخارے کیے۔ راستے میں رکاوٹیں زیادہ تھیں تو کس سمت سے داخل ہونا چاہیے؟ ……آخر ’باغ‘ والی سمت سے اندر داخل ہونے والا راستہ اللہ تعالیٰ نے سجھا دیا۔ اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ ہم جب کوئی ترتیب بناتے تھےتو ہمیں اپنے ترصد پر اعتماد و یقین نہیں ہوتا تھا، ہم کوشش کرتے کہ جو فدائی بھائی اس کارروائی میں حصہ لیں گے ان میں سےایک دو کو خود ہدف کے ترصد کے لیے بھجوایا جائے تاکہ وہ آنکھوں دیکھا حال بتاسکیں۔ اس کے بعد استخارہ کرتے اور استخارے کے بعد جو ممکن ہوتا اس کے مطابق ترتیب بنادیتے۔ جب اس کارروائی کی ساری ترتیب مکمل ہوئی،تو ان فدائین میں سےایک فدائی ساتھی…… غالباً شاہد نام تھا جوسفر پر گئے ہوئے تھے۔ وہ یہاں میدان وردگ آئے اور اس نے ہم سے رابطہ کیا اور حافظ بدر الدینؒ کو کہا کہ آپ تو ترتیب بنا چکے ہیں لیکن مجھے کل رات خواب میں رسو ل اللہﷺ نظر آئے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان فدائیوں تک اپنے آپ کو پہنچاؤ، اور جس سمت سے آپ نے حملہ کرنا ہے، اس جگہ کی نشانی ساتھیوں کو بتادو ،تم ان کے ساتھ اس جگہ پر جاکے مل جانا۔ میں نے جب یہ سنا تو حافظ صاحب سے کہا کہ اس میں تو کچھ کہا نہیں جاسکتا، اگر ہمارا راز اس حد تک استشہادی مجاہدین کو معلوم ہوتا ہے،تو پھر خواب دیکھنے والے بھائی کو اجازت دے دیجئے تاکہ وہ باقی فدائین تک پہنچ سکے۔

پھرجب کارروائی شروع ہوئی تو رحمٰن اللہ دروازے میں شہید ہوگئے، حافظ کلیم اللہ اور باقی ساتھیوں نے جنگ جاری رکھی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ اس وقت حافظ بدر الدین ؒ ان کے ساتھ فون پر رابطے میں تھے،حافظ صاحب میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ خلیفہ صاحب کارروائی کا آخری مرحلہ آں پہنچا ہےاور فدائین نے ایک بھاری مطالبہ کیا ہے جس کو پورا کرنا میرے لیے ممکن نہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ خلیفہ صاحب ہمارے ساتھ فون پر بات کریں۔ اس دور میں، میں (امنیاتی مشکلات کے سبب) فون پر بات نہیں کرتا تھا، میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ ان فدائین نےپانچ منٹ یا ایک گھنٹہ بعد شہید ہو جانا ہے، اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کرنے والوں کی آخری خواہش ہے ، چاہے جتنا بھی خطرہ ہو میں ضرور پوری کروں گا۔

پھر میں فون کی جگہ گیا اور ان کے ساتھ بات چیت کی۔ جب میں نے حافظ کلیم اللہ کو فون پر سلام کیا، تو کلیم اللہ نے مجھ سے کہا کہ ’’خلیفہ صاحب! ہم نے اپنے دل کی آرزو پوری کی ہے اور بہت سے کافروں کو مردار کیا ہے، اب ہم صرف شہادت کے انتظار میں ہیں……‘‘۔ اس کے بعد جب یہ بھائی شہید ہو گئے تو ہمارے ایک ساتھی نے خواب دیکھا کہ رسول اللہﷺ ایک مسجد کی چھت کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں، اور انٹر کانٹیننٹل ہوٹل کے فدائین کو سند دے رہے ہیں اور ان سے فرمارہے ہیں کہ میرے مومنین میں سے بہادر ترین تم لوگ ہو۔ یہ فدائی کسی کے تربیت یافتہ نہیں تھے، مبشرِ صادق رسول اللہﷺ ان کی رہنمائی کررہے تھے ۔

خوست کے سرہ باغ میں جو فدائی ساتھی شہید ہوئے، باقی پیچھے رہنے والے فدائی ساتھیوں کے مرکز میں، مَیں گیا تو وہ سارے ایسے بیٹھے تھے جیسے والدین سے یتیم ہو گئے ہوں اور رو رہے تھے کہ ہم کارروائی سے پیچھے رہ گئے اور میں ان کوحوصلہ دلارہاتھا ، خوش کر رہا تھا۔ اُس رات ایک بھائی نے خواب دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے روضۂ مبارک پر گئے ہیں، آپﷺ سب میں حلوہ تقسیم کررہے ہیں اور فرمارہے ہیں كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْۗئًۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَةِ 3اور ان کے مرکز کے اوپر لکھ رہے ہیں ’’اصحاب الجنۃ‘‘ ، میں کہتا ہوں کہ آپ سب اللہ تعالی کی حمد اور شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کےگھرانے میں ایسا انتخاب کیا ہے،اللہ تعالیٰ کی قربت میں آپ کے سفیر بیٹھے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کے وبال سے ہمیں بچانے کی خاطر ، ہماری شفاعت کی خاطر، اس اُمت کی نجات کی خاطر…ہم اللہ تعالیٰ کے حضور ان گھرانوں کی قربانیاں وسیلے کے طور پہ رکھتے ہیں، اللہ ان کی وجہ سے آنے والی آزمائشوں کو رفع کردے۔ ایک تڑپ میرے دل میں رہے گی اور وہ یہ کہ دنیا وی لحاظ سے میں آپ کے ساتھ وہ خیر خواہی نہیں کرسکا جس کے آپ سب لائق ہیں، آپ سب نے اس راستے میں جس صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے اس کے اجر کا سوالی ہوں، آپ سب بنی آدم میں اللہ تعالیٰ کے یہاں معزز ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کے دن بھی رسول اللہﷺ کے جھنڈے تلے اکٹھا فرمائے، آمین!

حافظ بدرالدینؒ کو میں کہتا تھا کہ حافظ صاحب آپ کے کندھوں پر کافی بھاری مسئولیت ہے، نوافل و وظائف کا اہتمام کیا کریں، خدانخواستہ کوئی کوتاہی نہ ہوجائے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہوجائیں، حافظ صاحب نے مجھے جواب دیا کہ ’’اےخلیفہ صاحب !آپ مجھ سے کیسا گمان کررہے ہیں ،آپ نے مجھے ایسے لوگوں پر امیر بنایا ہے جن کی وجہ سے میں تمام دنیاوی خواہشات بھول گیا ہوں، اس مسئولیت کی وجہ سے میں مجبور ہوں کہ نوافل و وظائف کا اہتمام کروں‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو حکمت و بصیرت سے نوازا تھا، شہادت سے قبل آپؒ پر ایک دو جگہ بمباری ہوئی تھی جس میں ساتھی شہید ہوگئے تھے، لیکن آپؒ نے عین بمباری کے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ پھر جب آپؒ پرآخری بمباری ہوئی تو میں نے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ جائیں اور وہاں جھاڑیوں میں حافظ صاحب کو تلاش کریں، شاید جھاڑیوں میں چھپےہوئے ہوں۔ پھر ساتھیوں نے ان کی میت ڈھونڈ نکالی لیکن مجھے صدمے سے محفوظ رکھنے کی خاطر خبر نہیں دی۔ بعد میں ایک بھائی نے مجھے بتایا کہ حافظ صاحب ؒ کا صرف سینہ سلامت رہ گیا تھا اور باقی جسم نہیں ملا۔ ہم نے ان کو ان کےسینے سے پہچانا کیونکہ وہ حافظ ِ قرآن تھے۔

اگرچہ ہمیں خود فدائی کارروائی کا موقع نہیں ملا لیکن میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن اپنے مامورین اور دین کےاِن پروانوں کی قربانیوں کے صدقے، ان کے جسم کے ٹکڑوں کے عوض اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے ساتھ اُٹھائے۔ میرے والد صاحبؒ جب فوت ہوگئے تو ہمارے گھرانے کے افراد میں سے کسی نے خواب میں دیکھا کہ آپ اور حافظ بدرالدین رحمہما اللہ قبرستانِ شہدا میں کھڑے ہیں اور والد صاحبؒ نے امارت اسلامیہ کا جھنڈا ہاتھ میں اُٹھایاہوا ہےاورفرماتے ہیں کہ جس طرح حافظ صاحب نے ان فدائین کو اللہ کے دین پر قربان کردیا، اسی طرح میں نے بھی اپنے بیٹے حافظ بدرالدین کو اللہ کے دین پر قربان کردیا۔

ابھی الحمدللہ اللہ تعالیٰ کی نصرت سے اسلامی نظام کا قیام ہوگیا، آپ سب مستجاب الدعوات ہیں، جس طرح آپ سب کے دلوں میں اپنی اولاد کا دکھ اور ان کی محبت رچی بسی ہے،اپنی اولادوں کی خاطر اس نظام کی ترقی اور کامیابی کے لیے دعائیں کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا استحکام شریعت کے سائے میں کرے، ہماری نیتوں کو اپنی رضا کے لیے خالص کردے، ہمیں مال ومتاع اور خواہشات کی طرف مائل ہونے سے بچائے رکھے، کیونکہ جہاد میں کامیابی احدی الحسنیین پر موقوف تھی، لیکن ادھرحکومت قائم ہونے میں شہرت ، مال، دنیاوی خواہشات بے حد زیادہ ہیں، ان سب مراحل میں اگر ایک فرد اس نیت سے نکلے کہ میں اللہ کے دین کا خادم بن کر خدمت کروں گا تو بھی اس راستے کے فتنوں کا شکارہوسکتا ہے، لہٰذا ہمارے لیے اپنی اولاد کی طرح دعائیں کیجیے گا کہ اللہ تعالیٰ ہماری باقی زندگی اللہ رب العزت کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے احیا میں گزارے، اور اس نظام کے قیام میں جو رکاوٹیں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب رکاوٹوں کو اپنے فضل سے رفع کردےاور اللہ تعالیٰ ہمیں مجبور نہ کرےکہ ماضی میں ہم جن حالات سے گزرے دوبارہ اس طرح کے حالات سے گزرنا پڑے۔

ہم پر اس راستے میں جب بھی ایسے حالات آئے جن میں ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں خدانخواستہ تنزل کا شکار نہ ہوجائ،یں تو ہماری نظریں شہدا کی طرف اٹھتی تھیں کہ ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے ہمیں گرنے نہیں دے گا، میری توخواہش ہے کہ ان شہداء کی ساری یادیں آپ کے ساتھ شریک کروں، لیکن آپ سب دور سے آئے ہیں اور وقت بھی کم ہے، اللہ تعالیٰ آپ سب کوہر ہر قدم پر اجرِ عظیم سے نوازے،آمین!

وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔اس نے تمہیں ( اپنے دین کے لیے) منتخب کرلیا ہے۔(سورة الحج:۷۸)

2 اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم لازماً ان کی رہنمائی کریں گے اپنے راستوں کی طرف اور یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(سورة العنکبوت:۶۹)

3 اپنے ان اعمال کے صلے میں مزے سے کھاؤ پیو، جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے تھے۔(سورۃ الحاقہ:۲۴)

Exit mobile version