مع الأُستاذ فاروق | تیئسویں نشست

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمام تعریفیں، بلا شبہ اللہ ہی کے لیے ہیں۔وہ اللہ جو ہمارا ربّ ہے،ہمارا ہے،ہمارا اللہ ہے!اسی نے ہمیں پیدا کیا اور وہی ہمیں موت دیتا ہے اور بلا شبہ اس نے موت و حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ دیکھےکہ ہم میں سے کون ہے جو بہترین عمل کرتا ہے۔

مع الأستاذ فاروق، استاد احمد فاروق کے ساتھ چند ملاقاتیں، ان کی چند یادیں، ان کی قیمتی باتیں، ان کی بعض ایسی باتیں جو مجھے خاص طور پر اچھی لگیں۔ حضرتِ استاذ سے آج تک جتنی ملاقاتیں رہیں، سب کا احوال اور سب کی سب تو یاد نہیں، لیکن جتنی ذہن میں تازہ ہیں سب ہی لکھنے کا ارادہ ہے کہ یہ ان شاء اللہ توشۂ آخرت ہوں گی، مجھ سمیت حضرتِ استاذ کے محبّین کے لیے دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہوں گی۔اللہ تعالیٰ صحیح بات، صحیح نیت اور صحیح طریقے سے کہنے والوں میں شامل فرما لے۔نوٹ: اس سلسلہ ہائے مضامین میں جہاں بھی ’استاذ‘ کا لفظ آئے گا تو اس سے مراد شہید عالمِ ربّانی استاد احمد فاروق (رحمہ اللہ) ہوں گے۔

راقمِ تحریر نے زیرِ نظر تحریر کا کافی حصہ فتحِ کابل کے تین دن بعد لکھ لیا تھا، لیکن ناسازیٔ صحت کے سبب اس کی تکمیل نہ کرپایا، لہٰذا اب بہتریٔ صحت کے سفر کے ساتھ تکمیل کی گئی ہے، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ!قارئینِ کرام سے راقم کی مکمل صحت یابی کی دعا کی بھی التماس ہے۔

یہ تحریر ماہِ ربیع الاول ۱۴۴۳ ھ (اکتوبر ۲۰۲۱ء) کے مجلّہ نوائے غزوۂ ہند کے شمارے کے لیے حتمی کی گئی تھی، لیکن راقم کے مجلّے کی مجلسِ ادارت سے رابطے میں تعطل کے سبب ماہِ مذکورہ میں بھیجی نہ جا سکی، اب نذرِ قارئین ہے۔


إِذَا جَـــــاءَ نَصْـــــــرُ اللّٰـــــــــــــــــــــــــهِ وَالْفَتْـــــحُ!

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء.

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

مجھ بے بضاعت کے ساتھ ’مع الأُستاذ فاروق‘ لکھتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا ہے کہ جس زمانۂ حال میں جس زمانۂ ماضی کا لکھ رہا ہوتا ہوں، تو حال اور ماضی کے بیچ ایک عجیب سی نسبت اور مشابہت ہوتی ہے۔

ہمارا کہف بَس چکا تھا، اور استاذ ہی کے کمرے میں ان کی میز سے متصل میز پر مجھے بیٹھنے کا موقع میسر تھا۔ یوں مجھے استاذ کو مکانی اعتبار سے نہایت قربت سے دیکھنے کا موقع حاصل تھا۔ استاذ کے چہرے کا اتار چڑھاؤ، مسکراہٹ، غصہ، غم و خوشی کے جذبات وغیرہ دیکھنا اس مکانی قربت کے سبب بہت سہل تھا۔ کئی طرح کے منصوبوں پر ہم زیرِ فیض و سرپرستیٔ استاذ میں کام کر رہے تھے۔ ان منصوبوں کا ذکر کچھ آگے، کچھ تو اسی نشست میں آ جائے گا اور کچھ اگلی نشستوں میں ، بعون اللہ، ان شاء اللہ!

لیکن انہی ایامِ ماضیہ میں ایک دن کی یاد آج کے واقعات سے بڑی مناسبت رکھتی ہے، سو اسی کے بیان کی کچھ کوشش کرتا ہوں۔

ہم ایک دن بیٹھے تھے کہ کوئی ساتھی کچھ ’جہادی ڈیٹا‘ یعنی جہادی رسائل، کتب، صوتیات اور ویڈیوز لے آیا۔ میری یادداشت کے پردۂ سکرین پر اب دو ویڈیوز کی یاد موجود ہے۔ ایک تو مجاہدینِ جزیرۃ العرب کے اعلامی ادارے ’الملاحم میڈیا‘ کی پیش کش تھی اور دوسری ’الامارہ سٹوڈیو‘ کی۔ اول الذکر ویڈیو میرے پاس اب بھی موجود ہے اور میں اکثر دیکھتا رہتا ہوں، یہ بھی بڑی اہم ویڈیو ہے۔ لیکن مؤخر الذکر ویڈیو اہم تر ہے۔

یہ سال ۲۰۱۱ء کی آخری سہ ماہی کا زمانہ تھا، مجھے دقیق مہینہ اور تاریخ یاد نہیں ہے۔ استاذ نے اپنے زیرِ استعمال لیپ ٹاپ میں الامارہ سٹوڈیو کی ویڈیو چلائی۔

یہ ویڈیو افغانستان کے صوبۂ کنڑ میں (سابقہ)’افغان ملی اردو‘ کے ایک کیمپ کی فتح کی ویڈیو تھی اور میری ناقص معلومات کے مطابق شاید افغانستان کے کسی بھی کیمپ کی (مکمل و مستحکم امریکی قبضے کے بعد) پہلی ویڈیو تھی۔ ہم یہ ویڈیو دیکھنے میں مگن تھے، افغا ن فوجی اس مورچے کی فتح کی جنگ میں قتل ہوئے، بھاگے اور کئی تسلیم (سرینڈر) ہوئے۔ کثیر مالِ غنیمت مجاہدین کے ہاتھ لگا۔ یہ سب خوشی کے مناظر تھے۔ لیکن جس منظر کو سب ناظرینِ ویڈیو و منتظرینِ فتح نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور ظاہری آنکھیں جو منظر دیکھ کر ضبط نہ کر سکیں، کچھ اور تھا۔ ایک خدا مست مجاہد کلمۂ طیبہ سے مرصع ایک سفید جھنڈا لہراتا ہوا کیمپ کے سب سے اونچے مورچے کی طرف دوڑتا ہے اور جھنڈا اس پر نصب کر دیتا ہے۔ یہ کوئی ریشمی کپڑے کا جھنڈا نہیں تھا، نہ اس پر زری تار سے کاڑھ کر کلمہ لکھا گیا تھا، نہ جھنڈے کا بانس کوئی اچھا تھا۔ یہ خستہ کپڑا تھا، سادی سی روشنائی سے اس پر کلمہ درج تھا اور وہیں آس پاس سے کسی درخت کی شاخ توڑ کر اس پر جھنڈا چڑھا دیا گیا تھا۔

یہ جھنڈا نصب کرنا تھا اور گویا ہم سب ناظرینِ ویڈیو اس مجاہد کے ساتھ ہی تھے اور ناظرین میں سب سے آگے استاذ تھے۔ استاذ نے ہی سب سے پہلے ایک متین چہرے کے ساتھ تکبیر بلند کی۔ استاذ کے چہرے پر ایک گہرا تاثر تھا۔ متانت والا، سنجیدہ، فرحین اور شاید ایک غم بھی اس تاثر میں شامل تھا۔

متانت و سنجیدگی تو استاذ کے چہرے و دل کا مستقل خاصہ تھی۔ فرحانی منظرِ مذکورہ کے سبب تھی اور غم وہ غم تھا جسے شیخ احسن عزیز شہیدؒ نے کہا:

؏بہاروں سے پہلے جو آنکھوں پہ بیتی، وہ اتنی کٹھن تھی کہ مشکل بیاں ہے

لیکن غم اس کے ساتھ ایک اور بھی تھا۔ یقیناً پہلی چھوٹی سی فتح ، ایک صوبے کے ایک ضلع کے چھوٹے سے کیمپ کی فتح تازہ ہوا کا جھونکا تھی، لیکن اس کے بعد سارا ہی افغانستان ابھی مقبوضہ تھا۔ اور ابھی پوری امتِ مسلمہ کا جغرافیہ، تاریخ، حال اور مستقبل کا ایک حصہ مقبوضہ تھا۔ بس شاید یہی غم بھی تھا۔

غم کا بیان کچھ زیادہ ہو گیا، لیکن ایسے موقعوں پر غم و خوشی کے ملے جلے جذبات ہی ہوتے ہیں۔ سوچیے کسی کا گمشدہ بیٹا کئی سالوں بعد اس کو مل جائے تو اس کی حالت کیسی ہو گی؟ شاید پہلا جذبہ تو خوشی ہی کا ہو گا لیکن اس کے بعد ماضی کی یادوں کا ایک تانتا ہو گا، اس وقت کی یادیں جو اس بیٹے کے بنا گزریں اور آنکھوں سے ایک سیل جاری ہو گا۔

لیکن فتح مندی کے وقت بندۂ مومن کی آنکھوں سے جو آنسو جاری ہوتے ہیں وہ اللہ کی حمد و ثنا کی بجا آوری کے آنسو ہوتے ہیں۔ المختصر استاذ کی آنکھوں میں اس وقت جو پانی اترا وہ فتح مندی میں شکر کا بھی تھا اور مستقبل کے غم کا بھی۔

۲۰۱۱ء کی اس پہلی سی فتح سے لے کر آج ۲۰۲۱ء تک افغانستان کی مکمل فتح تک تقریباً دس سال کا زمانہ ہے۔ ہمیں استاذ سے بچھڑے ساڑھے چھ سال سے زائد ہو چکے ہیں(جب یہ تحریر زیورِ طباعت سے آراستہ ہو رہی ہے تو حضرت کو شہید ہوئے چھ سال اور گیارہ ماہ ہو چکے ہیں)۔استاذ اب فتح و شکست سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ ان کی فتح اسی وقت اتری تھی جب امریکی ڈرون سے ’پیامِ جنت‘ لیے ’ہیل فائر (Hellfire)میزائل چلا تھا۔

کتنی ہزاروں آنکھیں اور ہیں جو اس فتح کے انتظار میں اسی جنگ میں بند ہو گئیں۔ کتنی لاکھوں آنکھیں ہیں جو خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسی خلافت و امارت کے قیام کی محنتوں میں کھپیں اور فلپائن تا مراکش اور کاشغر تا دریائے نیل و کانگو اس صبح کو دیکھنے کے لیے جاگتی رہیں، لیکن پہلے ہی بند کر دی گئیں۔ ان سبھی آنکھوں کے خیال سے دل بھر آیا، لیکن پھر وہی خیال آیا کہ ان کا حال تو فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ ہے ، پھر غم کیسا۔

ہماری منزل کے زینے میں ابھی بہت سے قدم باقی ہیں۔ منزلیں بھی دو ہیں، ایک دنیوی فتح و کامرانی کی اور دوسری حصولِ جنت کی۔ یوں سمجھیے کہ یہ ایک عام زینہ ہے اور اسی کے ساتھ ایک لفٹ (elevator) بھی نصب ہے۔ من حیث المجموع امت کو اس زینے سے ہی چڑھنا ہے، لیکن جیسے ہی اس زینے پر چڑھنے کی محنت کرنے والے کی میعاد یا نذر پوری ہوتی ہے وہ یکایک ساتھ نصب لفٹ پر بیٹھتا ہے اور یک دم منزلِ اصلی کی جانب برق رفتاری سے چل پڑتا ہے۔ لیکن عمومی محنت کا راستہ یہی زینہ ہے۔ کبھی ہم اس زینے کی انتہا پر تھے، پھر آہستہ آہستہ کہیں خود اترے اور کہیں دشمن نے ہمیں دھکا دے کر اتارا۔

کہف کے انہی دنوں کی بات ہے کہ استاذ ہند تا روم کی فتح کی بات کرنے لگے۔ مجھے تھوڑا عجیب سا لگا۔ انہوں نے محسوس کر لیا اور کہنے لگے ’میں آپ کو اپنی بنجو میں بٹھا کر دہلی لے کر جاؤں گا‘۔ انہوں نے کچھ اس پختہ انداز میں یہ بات کہی کہ مجھے سنتے ہی یقین ہو گیا۔ اب وہ یہاں نہیں ہیں، دہلی و اسلام آباد سے بے نیاز، لیکن ان کے پختہ عزم کی حدت ہمارے پاس موجود ہے۔ یمن میں مجاہدین کے امیر شیخ ابو بصیر شہید نے شیخ ابو سفیان الاَزدی شہید کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کی ایمانی باتیں سن کر آدمی کو یقین ہو جاتا تھا کہ فتح بس صبح ہی آ جائے گی‘۔ استاذ رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھ کر بھی کئی بار ایسا ہی محسوس ہوتا۔ سپاہ کو جنگ میں ایسے ہی حوصلے اور یقین کی ضرورت ہوتی ہے کہ فتح ہماری ہی ہے اور بس آیا ہی چاہتی ہے۔

حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیے کہ سخت ترین عسر، احزاب کے زمانے میں دنیوی لحاظ سے اعلیٰ ترین یسر، محلّاتِ قیصر و کسریٰ کی فتح یابی کی نوید دے رہے ہیں۔

ہم تو بعون اللہ آج کھلی آنکھوں سے قلبِ آسیا (ایشیا کے دل) یعنی افغانستان میں اسلام کو غالب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ افغانستان محض قلبِ آسیا نہیں بلکہ یہ قلبِ دنیا ہے، یہ قلبِ عالَمِ اسلام ہے۔یہی وہ قلب ہے جو پوری دنیا کے مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کو گرم و تازہ لہو بخش رہا ہے، ہمارے ہی جسم کے باقی اعضا اس کو قبول نہ کریں تو کیسی بد نصیبی ہے۔ اہلِ افغانستان نے تو اپنا کام پورا کر دیا اور پوری امت پر حجت قائم کر دی کہ دیکھو اسلام یوں نافذ ہوتا ہے اور اس کے نفاذ کی محنت کا راستہ یہ ہے۔ اب ہم پر لازم ہے کہ امت کے باقی اعضا کی مرمت کریں تاکہ وہ اس گرم و تازہ خون سے پھر جی اٹھیں۔ جمہوریت و جدیدیت سے بیمار دماغ کی نہیں، ایمان و اسلام سے دھڑکتے دل کی بات مانیے، ایک بار مان لیں گے تو دماغ و ذہن بھی مان جائے گا اور امت کا یہ جسم اپنی پوری شان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو گا۔

محفلِ استاذ یہیں روکتا ہوں، لیکن یہ سطور جب لکھ رہا ہوں تو ربیع الاول کا مہینہ ہے۔ یاد آیا کہ اسی کہف میں، میں نے کسی کام کے دوران استاذ سے پوچھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کسی تحریر وغیرہ میں آئے تو کیا ہمیشہ ’صلی اللہ علیہ وسلم‘ پورا لکھا جائے یا صرف ’ؐ ‘ کا نشان کافی ہے؟

کہنے لگے کہ ’’ایک بار ’صلی اللہ علیہ وسلم‘ لکھ دیا تو اصلاً تو کافی ہے کہ ایک مجلس میں ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ساتھ درود پڑھنا لازمی ہے۔ لیکن جامعہ میں ہمارے ایک استاد تھے، وہ کہتے تھے کہ جو طالبِ علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ہر دفعہ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پورا لکھتے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ ان طالبِ علموں کے ساتھ برکت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہر بار پورا ہی لکھا جائے‘‘۔

یہی بات میں نے اپنے شہید مرشد حضرتِ اسامہ ابراہیم غوری سے کہی تو وہ کہنے لگے کہ ’یہ اچھی بات ہے۔ صادق بھائی (شیخ احسن عزیز شہید) بھی اسی پر زور دیتے تھے، لیکن ساتھ میں کہتے تھے کہ بعض دفعہ تحریر کا اسلوب کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہاں ہر بار مکمل ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھنا ممکن نہیں ہوتا، تو میں جہاں جہاں لکھ سکوں وہاں لکھتا ہوں لیکن جہاں ممکن نہ ہو تو وہاں’ؐ ‘ کا نشان لگا دیتا ہوں‘۔ مرشد سے یہ بات سننے کے بعد میں نے توجہ سے شیخ احسن عزیز کے شعر و نثر کو دیکھا تو یونہی پایا کہ اکثر وہ مکمل ’صلی اللہ علیہ وسلم‘ لکھتے ہیں، لیکن کہیں کہیں اسلوب میں مکمل لکھنا ممکن نہیں ہوتا خاص کر شعروں میں تو وہاں وہ نشان درج کر دیتے ہیں۔

مرشد کی نصیحت دراصل اعلامی حوالے سے تھی۔ یہ سب ہی سچے عاشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے (نحسبہ کذلك)۔ باقی صرف تکنیکی و مزاجی بات ہے۔

اللہ پاک ہمیں بھی ان عشاقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل فرما لیں جو آپ کی شریعت کے عائد کردہ فرائض پر عامل ہوں، سنتوں پر فدا ہوتے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری طریقۂ جہاد میں شہادت کے جام پیتے ہوں۔

وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.

وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Exit mobile version