’ہندُ تْوا ‘کیا ہے؟ | پہلی قسط

کسی زمانے میں جنگیں صرف میادینِ جنگ میں اور اسلحے کے ساتھ لڑی جاتی تھیں۔ لیکن بُرا ہو اس جدید عالمی نظام کا کہ اس کے آنے کے بعد اب جنگوں کے میدان اور محاذ بہت وسیع ہو چکے ہیں۔ اب جنگیں عسکری میدانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی، سفارتی، معاشی، ابلاغی اور فکری سمیت کتنے ہی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں۔ ان میں شاید آج دشمن کے لیے سب سے مؤثر فکری و ابلاغی محاذ ہے۔ جس کی جنگ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے میدانوں میں لڑی جاتی ہے۔ اور اس کے ہتھیاروں میں سے ایک مؤثر ترین ہتھیار اصطلاحات ہیں۔ جب اپنے مخالف کی خوبیوں کو خامیاں بنا کر دکھانا ہو تو اس کے لیے منفی اصطلاحات گھڑ لی جاتی ہیں۔ جیسے دہشت گردی، شدت پسندی، انتہا پسندی، بنیاد پرستی وغیرہ۔ اور جب اپنی خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کرنا ہو تو اس کے لیے مثبت اصطلاحات اپنا لی جاتی ہیں جیسے جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری، تنوّع وغیرہ۔ اور یہ ایک ایسا کارگر ہتھیار ہے کہ کوئی کتنا ہی کیوں نہ سمجھتا ہو کہ یہ دشمن کا حربہ ہے، جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر کے دکھا رہا ہے، اچھے کو برا اور برے کو اچھا کر کے دکھا رہا ہے، فائدے کو نقصان اور نقصان کو فائدہ بنا کر دکھا رہا ہے ، لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس کے اثرات سے پوری طرح سے بچ نہیں پاتا، اور شعور کے کہیں خفیہ گوشوں میں ان اصطلاحات کے مثبت اور منفی اثرات اپنی کچھ نہ کچھ جگہ بنا ہی لیتے ہیں۔

آج غزوۂ ہند میں بھی یہی اصطلاحات مؤثر ترین ہتھیار ہیں۔ ان اصطلاحات میں سے ایک ہندُتوا بھی ہے۔اگرچہ اس اصطلاح کا کوئی مثبت تاثر مسلمانوں پر تو نہیں پڑا لیکن شاید مسلمانوں پر اس کا مثبت تاثر ڈالنا دشمن کا ہدف بھی نہیں تھا ۔ مثبت تاثر تو ہندو قوم کے لیے ہے کہ اس اصطلاح کو بنیاد بنا کر ذات پات اور ان گنت طبقات میں بٹی ہندو قوم کو مسلمانوں کے خلاف متحد کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ کچھ میٹھی تشریحات دنیا کے لیے بھی گھڑ رکھی ہیں کہ جب کوئی اس اصطلاح پر اعتراض کرے تو اس کے سامنے یہ میٹھی تشریحات رکھ دی جائیں کہ اصل میں تو یہ بہت نرم و ملائم ، ہمدردری، رحمدلی والا نظریہ ہے۔

ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کا اس اصطلاح کے ساتھ براہ راست واسطہ پڑتا ہے لیکن یہ پورے برِّصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور غزوۂ ہند سے جڑے مجاہدین کے لیے بالخصوص ضروری ہے کہ اس اصطلاح کو، اس کی فکری اساس کو، اور اس سے جڑی دیگر اصطلاحات کو ، ان کے نظریہ سازوں کے افکار کو، اور ان کو اپنانے والی تنظیموں کے افکار و کردار کو اچھی طرح سمجھیں تاکہ دشمن کے اہداف و مقاصد کا واضح ادراک حاصل ہو سکے۔کیونکہ عسکری میدان میں دشمن کو شکست دینے لیے ضروری ہے کہ فکری میدان میں بھی اس کے ہتھیاروں کا توڑ کر لیا جائے۔

اسی مقصد کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری تمام کاوشوں کو اپنی ذات کے لیے خالص کر دے اور اپنی بارگاہ میں قبول فرما لے، آمین۔

تعارف


ہندتوا‘ ہندوقوم پرستی کا نظریہ ہے۔ اس نظریے کو ۱۹۲۳ء میں ’ونائک دامودر ساورکر‘ نے ایک سیاسی نظریے کے طور پر متعارف کروایا۔ اس کے بعد ‘سَنگھ پریوار‘1 سے منسلک تنظیموں نے اس کا عَلم بلند کیا۔

ہندتوا کی اصطلاح سب سے پہلے بنگالی ادیب و مصنف ’چَندر ناتھ باسو‘ نے انیسویں صدی میں استعمال کی تھی اور بعد میں اسے ’بال گنگادھر تِلک‘ نے استعمال کیا۔ لیکن اس اصطلاح کا یہ استعمال صرف روایتی ہندو ثقافت کے لیے کیا گیا تھا، اس کے برعکس ’ساورکر‘ نے اس اصطلاح کو ایک سیاسی نظریے کے طور پر پیش کیا۔

لغوی اعتبار سے اس کا معنی ہے’ ہندوپن‘، یعنی کون کتنا ’ہندو‘ ہے۔ اور اگر جس انداز میں اس نظریے میں لفظ ’ہندو‘ کو استعمال کیا جاتا ہے اس کو سامنے رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ کون کتنا ’ہندوستانی‘ ہے۔

ساورکر ہندُتوا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’ہندُتوا ایک لفظ نہیں بلکہ ایک تاریخ ہے۔ نہ صرف ہمارے لوگوں کی روحانی اور مذہبی تاریخ جیسا کہ بعض اوقات غلط طور پر اسے سمجھا جاتا ہے اور اسے اور ہندو مت کو ایک ہی چیز کے دو نام تصور کیا جاتا ہے، بلکہ یہ ایک مکمل تاریخ ہے۔ ہندومت اصل میں ہندُتوا سے ماخوذ ہے، اس کا ایک ٹکڑا ہے اس کا ایک حصہ ہے۔ ہندُتوا کا تعلق ہندو نسل کی سوچ و عمل کے تمام شعبوں سے ہے‘‘۔

ساورکر کے نزدیک ہندُتوا کی تین بنیادیں ہیں۔

  1. راشٹر (مشترک قوم)

  2. جاتی (مشترک نسل)

  3. سَنْسکِرِتی (مشترک تہذیب و ثقافت)

ان تین بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے ساورکر نے لفظ ہندو کی بھی ایک نئی تعریف کی جو کہ ہندُتوا نظریے کی اساس بنی۔ ساورکر کے مطابق:

’’ہندو کا مطلب ہے وہ شخص جس کے لیے ’بھارت ورش‘ کی زمین، جو دریائے سندھ سے سمندروں تک ہے، اپنی آبائی زمین کے ساتھ ساتھ ایک مقدس سرزمین بھی ہو، وہ زمین جو اس کے مذہب کی جائے پیدائش ہے۔‘‘2

ہندُتوا نظریے کے مطابق دھارمک مذاہب (ہندو مت، جین مت، بدھ مت، سکھ مت) چونکہ قومی، تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے آپس میں کافی مماثلتیں رکھتے ہیں ، راشٹر، جاتی اور سنسکرتی میں بھی ایک ہیں ، اس لیے وہ اس ’ہندوپن‘ میں شریک ہیں اور ہندوستانی ہیں۔ جبکہ سامی مذاہب یا ابراہیمی مذاہب (اسلام، عیسائیت اور یہودیت) چونکہ باہر سے آنے والے مذاہب ہیں اور ان کی تاریخ و ثقافت جدا ہے اور یہ دھرتی ان کے مذہب کی جائے پیدائش بھی نہیں ہے اس لیے یہ ہندوستانی نہیں۔

اس طرح سے اس نظریے کے ماننے والے ہندوستان کے باسیوں کو تین درجوں میں تقسیم کرتے ہیں:

  1. سب سے اعلیٰ درجے کا ہندوستانی وہ ہے جو کہ ہندو مذہب کا پیروکار ہے۔

  2. دوسرے درجے کا ہندوستانی وہ ہے جو ہندومت کی بجائے دیگر ’مقامی مذاہب‘ یعنی جین مت، بدھ مت ، سکھ مذہب وغیرہ کا پیروکار ہو۔

  3. جو اسلام ، عیسائیت یا دیگر ’خارجی مذاہب‘ کا پیروکار ہو وہ ان دونوں درجوں میں نہیں آتا اور اسے ہندوستانی کہلانے کا کوئی حق نہیں۔

ہندُتوا کے مفکرین کے نزدیک وہ سامی مذاہب کے ماننے والے جن کی راشٹر اور جاتی ہندوستانی ہے وہ اصل ہندوستانی کہلائے جا سکتے ہیں اگر وہ دو شرطیں پوری کریں:

  1. وہ ہندوستانی سنسکرتی کو بھی اپنا لیں یعنی ہندوستانی رسوم و رواج اور تہواروں کو اپنا لیں اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت میں خود کو مکمل طور پر ضم کر لیں،

  2. اس سرزمین کو اپنے مقدس مقامات سے زیادہ مقدس تصور کریں۔

مقاصد

اس نظریے کو متعارف کروانے کے بنیادی مقاصد میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ چونکہ ہندو خود ذات پات اور طبقات میں بری طرح تقسیم ہیں، اس لیے ان میں اتحاد کا فقدان ہے،جس کے نتیجے میں دیگر مذاہب اور قومیں ان پر غالب آجاتی ہیں اور ان پر حکومت کرتی ہیں۔ اس لیے ایک ایسی مشترکہ شناخت فراہم کی جائے جو کہ ایک طرف ہندو اتحاد (ہندو سَنْگھَٹَن) کو فروغ دے اور ساتھ ہی ساتھ یہ ایک ایسی شناخت بھی ہو جس کی وجہ سے لفظ ’ہندو‘ صرف ہندو مت سے منسلک لوگوں تک محدود نہ رہے بلکہ ہندوستان کے دیگر مقامی(دھارمک) مذاہب ، یعنی بدھ مت، جین مت اور سکھ وغیرہ بھی ’ہندو‘ کہلائیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے یہ مقامی مذاہب بھی ’ہندومت‘ کا حصہ ہی کہلائیں۔ تاکہ ’ہندو‘ بیرونی مذاہب اور قوموں کے مقابلے میں زیادہ سیاسی برتری حاصل کر سکیں اور ان پر غالب آسکیں۔

اہداف

ہندُتوا کے درج ذیل تین بنیادی اہداف ہیں:

  1. ہندوؤں کو سیاسی طور پر متحرک ، مضبوط اور غالب کیا جائے۔

  2. ہندو شناخت کے حوالے سے پورے برصغیر میں آگاہی پیدا کی جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جو اس شناخت کو مضبوط سے مضبوط تر کر سکیں۔

  3. ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے وہ تمام افراد واپس اپنےپرانے مذہب پر لوٹ جائیں جو کہ ’خارجی‘ مذاہب قبول کر چکے ہیں۔

ہندُتوا کے اہم نظریہ ساز


کوئی بھی نظریہ اپنے نظریہ سازوں کے افکار کا عکّاس ہوتا ہے۔ اور ان نظریہ سازوں کے افکار پر ان کے پس منظر کی گہری چھاپ ہوا کرتی ہے۔ ہندُتوا کا موجودہ رائج نظریہ مختلف ادوار اور شخصیات کے نظریات سے متاثر ہوتا ہوا بتدریج اس شکل تک پہنچا ہے۔ اس لیے ہندُتوا کے نظریے اور اس کی اساس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نظریہ سازوں کے پس منظر اور ان کے افکار پر نظر ڈالی جائے۔ ذیل میں ہندُتوا کےاہم نظریہ سازوں کا اور ان کے افکار کا تعارف دیا گیا ہے۔

ونائک دامودر ساورکر

ونائک دامودر ساورکر‘ (Vinayak Damodar Savarkar) ہندُتوا کے نظریے کا بانی ہے اور ہندوتوا نظریے سے منسلک تمام تنظیمیں (سَنگھ پریوار) اسے اپنا بڑامانتی ہیں۔ انڈیا میں ساورکر کو ’وِیر‘ (ہیرو) کا خطاب دیا جاتا ہے۔

ساورکر ۲۸ مئی ۱۸۸۳ء کو مہاراشٹر کے گاؤں بھاگُر میں ایک مراٹھی چٹپاون براہمن3 گھرانے میں پیدا ہوا۔ بچپن سے ہی اس کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی اور اس کا ذکر وہ خود اپنی آپ بیتی میں بھی کرتا ہے۔ اس کے بقول اس نے ۱۲ سال کی عمر میں اپنے گاؤں میں مسلمانوں کے خلاف ایک بلوے کی قیادت کی اور وہاں ایک مسجد پر حملہ کیا۔ اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ ’’ہم نے جی بھر کے مسجد کو مسمار کیا۔‘‘

اپنے طالب علمی کے دور سے ہی ساورکر ہندو قوم پرست تحریکوں سے منسلک رہا۔ لندن میں تعلیم کے دوران اس کی رہائش ’انڈیا ہاؤس‘ میں تھی جو کہ ہندو قوم پرستوں کا گڑھ مانا جاتا تھا۔ یہاں رہتے ہوئے اس نے ابھیناوّ بھارت سوسائٹی اور فری انڈیا سوسائٹی جیسی ہندو طلبہ تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ اسی عرصے میں اس نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے حوالے سے کتاب The Indian War of Independence لکھی۔

۱۹۱۰ء میں ساورکر کو برطانیہ نے انڈیا ہاؤس کی انقلابی تحریکوں سے تعلق کی وجہ سے اور مہاراشٹر میں اس کے بھائی ’گنیش ساورکر‘ کی طرف سے شروع کی گئی مسلح بغاوت کی تحریک کا منصوبہ ساز ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا ۔ جیل منتقلی کے دوران اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام رہی ۔ اس کے نتیجے میں اس پر مقدمہ چلا اور ۱۹۱۱ء میں اسے پچاس سال کی سزا ہوئی اور اسے کالا پانی میں منتقل کر دیا گیا۔

وہ کالا پانی کی سختیاں برداشت نہ کر سکا اور وہاں منتقل ہونے کے پہلے ماہ کے اختتام پر ہی اس نے رحم کی اپیل دائر کر دی۔ لیکن وہ رد کر دی گئی۔

۱۹۱۳ء میں اس نے پھر رحم کی اپیل کی۔ اس میں اس نے اپنے کاموں پر معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ آئین کی پاسداری کرے گا، اوررہائی کے بعد اپنے جیسے دیگر گمراہ ہندوستانیوں کو واپس راہ راست پر لانے کا کام کرے گا۔ اور حکومتِ برطانیہ اس سے جس طرح کا بھی کام لینا چاہے وہ بخوشی کرنے کو تیار ہے۔ لیکن اس کی یہ اپیل بھی رد کر دی گئی۔

۱۹۱۷ء میں اس نے پھر سے رحم کی اپیل کی لیکن اس پر بھی کوئی عمل نہ ہوا۔

۱۹۲۰ء میں اس نے اپنی چوتھی رحم کی اپیل برطانوی حکومت کو پیش کی۔ اور ۱۹۱۳ء میں کی گئی رحم کی اپیل میں اپنی پیشکش کو دہرایا۔

۱۹۲۰ء میں کانگرس کے رہنماء گاندھی، وتھل بھائی پٹیل اور بال گنگادھر تلک نے ساورکر کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔ ساورکر نے اپنی آزادی کے بدلے میں ایک بیان پر دستخط کیا جس میں اس کے خلاف کی گئی عدالتی کارروائی، ، اس کو دی گئی سزا اور برطانوی قانون کی مکمل حمایت کی اور تشدد کی مخالفت کی ۔

۱۹۲۱ء میں ساورکر کو رتناگری جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس جیل میں ہی اُس نے ہندُتوا کے متعلق اپنی کتاب تحریر کی جو ہندُتوا نظریے کی بنیاد بنی۔ اسے ۱۹۲۴ء میں بعض پابندیوں کے ساتھ رہا کر دیا گیا۔ اس پر پابندی تھی کہ اگلے پانچ سال تک وہ ضلع رتناگری سے باہر نہیں جائے گا اور نہ ہی کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے گا۔

ساورکر نے حکومتِ برطانیہ سے ان پابندیوں کے بدلے میں ۱۰۰ روپے ماہوار کا مطالبہ کیا ، جس کے جواب میں برطانوی حکومت ساٹھ روپے ماہوار پر راضی ہو گئی۔ اُس پر سیاسی پابندیاں ۱۹۳۷ء تک قائم رہیں جس کے بعد انہیں اٹھا دیا گیا۔ رہائی کے بعد اُس نے برطانوی راج کی مخالفت ترک کر دی۔ اور اپنی پوری توجہ ہندو قوم پرستی پر مرکوز کر دی۔قید سے قبل وہ برطانوی سامراج سے ہندوستان کی آزادی کی بات کرتا تھا لیکن رہائی کے بعد اب مسلمان اور عیسائیوں سے ہندوؤں کی آزادی کی بات کرنے لگا۔

۱۹۲۴ء میں رہائی کے بعد ساورکر نے ایک تنظیم ’رتناگری ہندو سبھا‘ قائم کی۔ اس تنظیم کے مقاصد میں سب سے اہم مقصد ان افراد کو واپس ہندو بنانا تھا جو کہ مسلمان یا عیسائی بن چکے تھے۔ اس میں ایک مشہور واقعہ رتنا گری کے’ ڈھرکا‘ براہمن خاندان کے آٹھ افراد کا بھی ہے جو کہ عیسائی مذہب قبول کر چکے تھے۔ ساورکر نے ایک عوامی اجتماع میں اس خاندان کو واپس ہندو بنایا اور خاندان کی دو لڑکیوں کی شادی کا خرچ بھی اٹھانے کی ذمہ داری لی۔

۱۹۳۷ء میں جب ساورکر کی سیاسی پابندیاں ختم ہوئیں تو وہ بمبئی منتقل ہو گیا اور ہندو قوم پرست جماعت ’ہندو مہاسبھا‘ کا صدر منتخب ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے نعرہ لگایا کہ ’’ساری سیاست ہندوؤں کے تحت لاؤ اور سب ہندوؤں کو جنگجو بناؤ‘‘۔ اوراس مقصد کے لیے اس نے دوسری جنگ عظیم میں بھرتیوں کی برطانوی کوششوں کی مکمل حمایت کی، تاکہ ہندوؤں کو عسکری تربیت حاصل ہو سکے۔ جب کانگریس نے ۱۹۴۲ء میں ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک شروع کی تو ساورکر نے اس تحریک کی مخالفت کی اور ہندوؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ میں اپنی خدمات جاری رکھیں اور حکومت کی نافرمانی نہ کریں۔ بلکہ اس کے ساتھ وہ ہندوؤں کو مزید ابھارتا رہا کہ جنگ کے لیے مزید ہندو اپنے نام لکھوائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ہندو فنِ حرب سیکھ سکیں۔

جنوری ۱۹۴۸ء میں گاندھی کے قتل کے بعد پولیس نے گاندھی کے قاتل ’ناتھو رام گوڈسے‘ کو گرفتار کر لیا۔ گوڈسے ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کا رکن تھا۔ اور ساورکر کو اپنا گورو تصور کرتا تھا۔ فروری ۱۹۴۸ء کو ساورکر کو بھی گاندھی کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

قتل میں شریک ایک اور ملزم ’آپتے‘ کی گواہی کے مطابق گاندھی کا قتل کرنے سے قبل گوڈسے اپنے گورو ساورکر کا آخری دیدار کرنے کے لیے گیا۔آپتے بھی ساتھ تھا۔ ساورکر نے اسے دعا دی کہ ’’کامیاب ہو کر واپس لوٹو‘‘۔ لیکن عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر ساورکر کو رہا کر دیا۔ ناتھورام گوڈسے کو گاندھی کے قتل کے جرم میں ۱۹۴۹ء میں پھانسی دے دی گئی4۔

گاندھی کے قتل کے بعد مشتعل ہجوم نے ساورکر کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا۔ گاندھی قتل کیس میں رہائی کے بعد حکومت نے اسے ہندو قوم پرستانہ تقاریر کرنے پر پھر سے گرفتار کر لیا اور پھر اس وعدے پر رہا کیا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہے گا۔ اس کے بعد اگرچہ اس نے سیاسی سرگرمیاں تو ترک کر دیں لیکن اپنی تحاریر کے ذریعے سے ہندُتوا کی دعوت جاری رکھی۔

یکم فروری ۱۹۶۶ء کو ساورکر نے کھانا پینا اور دوائیں لینا چھوڑ دیں اور اسے ’’آتمارپن‘‘ (موت تک روزہ) کا نام دیا۔ موت سے قبل اس نے ایک تحریر ’’آتماہتھیا نہیں آتمارپن‘‘5 لکھی جس میں اس نے لکھا کہ ’’جب زندگی کا مقصد پورا ہو چکا ہو اور سماج کی سیوا کی طاقت باقی نہ رہے، تو بہتر ہے کہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے ختم کر لوبجائے اس کے کہ موت کا انتظار کرو‘‘۔ اس طرح سے ۲۶ فروری ۱۹۶۶ء کو ساورکر کی موت ہوئی۔

ساورکر کے افکار

اسلام دشمنی

ساورکر ہمیشہ ایک اسلام دشمن ہندو قوم پرستی کی دعوت دیتا رہا۔ اس کے نزدیک پولیس اور فوج میں موجود مسلمان ممکنہ غدار ہیں۔ وہ مطالبہ کرتا تھا کہ فوج، پولیس اور پبلک سروس سے مسلمانوں کی تعداد کو کم سے کم کیا جائے اور مسلمانوں پر اسلحہ ساز کارخانے لگانے یا ان میں کام کرنے پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ ۱۹۶۳ ء میں لکھی گئی اپنی کتاب ’’ہندوستانی تاریخ کے چھے درخشاں ادوار‘‘ میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پوری تاریخ میں مسلمان اور عیسائی ہندو مت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔

ساورکر نے ہندُتوا کا نظریہ بھی مسلمانوں کی ’تحریک ِ خلافت‘ کے ردّعمل میں گھڑا تھا۔ اس کو یہ بات بہت بری لگی کہ ہندوستان کے رہنے والے مسلمان استنبول میں موجود عثمانی خلافت کے ساتھ مدد و تعاون کا عہد کر رہے ہیں۔ اس کے بقول اصل دشمن برطانوی نہیں بلکہ مسلمان ہیں کیونکہ اسلامی نظریہ ہندو راشٹر کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

فسطائیت

اپنی بہت سی تحاریر و تقاریر میں ساورکر نے نازی نظریے کی بہت تعریف کی ہے۔ وہ عموماً جرمنی کی جرمن اکثریت اور یہودی اقلیت کا موازنہ ہندوستان کی ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت سے کیا کرتا تھا۔ وہ دونوں جرمن یہودیوں اور ہندوستانی مسلمانوں پر تنقید کرتا تھا کہ وہ معاشرے میں ضم ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ۱۹۳۸ء میں اس نے لکھا:

’’ اگر ہم ہندو زمانہ گزرنے کے ساتھ ہندوستان میں طاقتور ہو جاتے ہیں تو یہ لیگی قسم کے مسلم دوستوں کو جرمن یہودیوں کا کردار ادا کرنا ہو گا۔‘‘

لیکن جرمن یہودیوں کی مخالفت کے باوجود ساورکر اسرائیل کی ریاست کی مکمل حمایت کرتا تھا، اور اس کے قیام پر اس نے مبارکباد کا پیغام بھی بھیجا تھا، کیونکہ یہ ریاست مسلمان عرب دنیا کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھی۔

ہندو قوم پرستی

ساورکر اپنے آپ کوملحد کہتا تھا لیکن ہندو مت میں الحاد مغرب کے الحاد سے مختلف ہے اور ساورکر ہندومت کے الحاد کا ہی قائل تھا۔ ہندو مت میں ملحد ایک علیحدہ فرقہ ہے۔ جو کہ صرف خداؤں کا انکار کرتا ہے جبکہ مذہب کے رسوم و رواج ، اور بہت سے عقائد اور پیچیدہ فلسفوں پر یقین رکھتا ہے اور ان سب چیزوں کو بھی مقدس تصور کرتا ہے جسے ہندو مذہب میں مقدس مانا جاتا ہے۔ لیکن شاید ملحد ہونے کی وجہ سے ساورکرنے ہندو کو ہندومت کے پیروکار کے طور پر لینے کی بجائے بطور قوم لیا ہے۔ اور ہندُتوا کو ہندومت کا حصہ کہنے کی بجائے ہندومت کو ہندُتوا کا حصہ کہا۔

ساورکردھارمک مذاہب کے درمیان اتحاد کی دعوت دیتا تھا۔ اس نے جو ’ہندو‘ کی تعریف کی تھی اس کے اعتبار سے چونکہ تمام دھارمک مذاہب کے ماننے والے ’ہندو‘ کہلائیں گے اس لیے اس کے بقول یہ سب دھارمک مذاہب بھی بالاصل ہندو مت کا ہی حصہ ہیں۔

اس کےبرعکس سامی مذاہب ہندوستانی تہذیب کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے، اس لیے وہ کبھی بھی اس قوم کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس کا کہنا تھا کہ چونکہ سامی مذاہب کے ماننے والوں کے مقدس مقامات مشرقِ وسطیٰ میں ہیں، اس لیے ان کی وفاداریاں کبھی بھی مکمل طور پر ہندوستان کے ساتھ نہیں ہو سکتیں۔

ساورکر نے اگرچہ یہ کوشش کی کہ اس کی طرف سے وضع کی گئی’ہندو‘ کی نئی تعریف کے ذریعے سے سب دھارمک مذاہب کے لوگ ہندو کہلائیں ، لیکن یہ تعریف عملی طور پر رائج نہ ہو سکی اور آج تک ہندو وہی ہے جو ہندومت کا پیروکار ہو اور دیگر دھارمک مذاہب کے ماننے والے ہندو کہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ لیکن ساورکر کی لفظ ’ہندو‘ کی تعریف کو آج بھی سَنگھ پریوار اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 وہ تمام جماعتیں جو ہندو قوم پرست تنظیم ’آر ایس ایس‘ کی ذیلی جماعتیں ہیں یا اس کی حمایتی جماعتیں ہیں انہیں مجموعی طور پر سَنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔بی جے پی بھی سَنگھ پریوار کا حصہ ہے۔ ہندو مہاسبھا، شِوّ سِنا ، اکالی دَل اور اس طرح کی چند اور جماعتیں اگرچہ باقاعدہ طور پر سَنگھ پریوار میں شامل نہیں ہیں لیکن چونکہ ہندُتوا ہی ان کا بنیادی نظریہ ہے اور سَنگھ پریوار ہندُتوا نظریہ کا نمائندہ گروہ ہے اس لیے یہ جماعتیں بھی اس کے ساتھ منسلک ہی تصور کی جاتی ہیں۔

2 Hindutva by V.D. Savarkar

3مہاراشٹر کی ساحلی پٹی ’کونکن‘ پر بسنے والے کونکنی زبان کی قسم ’چٹپاونی‘ بولنے والے براہمن

4 یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا گوڈسے کے اس اقدام سے کلی لاتعلقی کا اظہار کرتی رہیں ۔ لیکن جب ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کی حکومت آئی تو ہندومہاسبھا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ناتھورام گوڈسے کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جائے اور اس کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا جائے۔ ۳۰ جنوری ۲۰۱۵ء کو گاندھی کی برسی کے موقع پر ہندو مہاسبھا نے ایک دستاویزی فلم ’’دیش بھگت ناتھورام گوڈسے‘‘ بھی جاری کی۔ ہندو مہاسبھا اب ان کوششوں میں ہے کہ ناتھورام گوڈسے کے نام کا ایک مندر تعمیر کیا جائے اور ۳۰جنوری کو گاندھی کی برسی کی بجائے شوریا دیواس (بہادری کا دن) منایا جائے۔

5 خودکشی نہیں موت تک روزہ

Exit mobile version