خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

مجاہد فی سبیل اللہ، لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز شہید ﷬

لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز شہید صاحب کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک!‘‘ کا دوسرا باب، جسے انہوں نے ’’دوسرا سفر‘‘ کا نام دیا ہے، ۱۹۷۱ء کی جنگ اور سقوطِ ڈھاکہ کے میں بارے ہے، جو اس جنگ میں حکمران اور فوج کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ ذیل میں اس باب کے منتخب اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، البتہ ان کے ساتھ ربط کے لیے بعض تبصرے ہمارے ساتھی ’قاضی ابو احمد‘ نے لکھ دیے ہیں جو ’جلی ‘ انداز میں موجود ہیں۔ (ادارہ)


ان دنوں مشرقی پاکستان میں آگ بھڑک رہی تھی، اور ہولناک خبریں آتی رہتیں۔ ہم ابھیPMA1 ہی میں تھے کہ ہنگامے شروع ہوچکے تھے۔ خود ہی ہم اپنا خون بہا رہے تھے۔ یہ کہہ دینا کہ کچھ باغیوں نے دشمن کے ساتھ مل کر سازش کی، جس کا یہ نتیجہ نکلا، جھوٹ کی چادر پر موہوم سے سچ کے پیوند سے زیادہ نہیں۔ان کو کبھی اپنے جیسا سمجھا ہی نہیں۔اگر ہم برابری کا سلوک کرتے تو یہاں تک نوبت ہی نہ آتی۔ ہم نے اپنے بھائیوں کو دھکیل کر اس مقام تک پہنچا دیا کہ انہوں نے دشمن کو اپنا غم گسار سمجھا۔ جو نفرتیں بوئی تھیں، کھِل گئیں۔پھر اتنا خون بہا کہ دونوں بھائی آج تک منہ چھپاتے ہیں۔

کیا فوجی حکمران، کیا سیاستدان، طاقتوروں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ہزاروں کا خون بہایا، ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔کسی کو کسی نے نہ پوچھا۔سب پردے میں رہے۔ سب محفوظ، فوجی حکومتیں بھی آئیں اور سیاسی بھی۔سب خاموش۔ سب سازش میں شامل۔ عوام پھر بھی اپنے بچوں کو پالتی رہی، اہلِ ہوس کی ترجیحات پر خون بہانے کو۔ہم نے آدھا ملک کھو کر بھی کچھ نہیں سیکھا۔ آج بھی اس ہی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ آج بھی آنکھیں بند کیے، کانوں میں انگلیاں ٹھونسے، آدھے سچ پر اپنا ہی خون بہا رہے ہیں۔

ہندوستان کے عزائم ۱۹۷۰ء میں مئی کے مہینے سے ہی دیکھنے والوں کو نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ جولائی کے مہینے تک ان کے تمام منصوبے تیار تھے۔ مگر ملک کی خفیہ ایجنسیاں، بجائے دشمن پر نظر رکھنےکے، حکمران کو مزید مستحکم کرنے کی ترکیبیں کر رہی تھیں۔دہلی میں بیٹھے غیر ملکی سفیروں نے بھی بھانپ لیا تھا، مگر ہمارے حکمران اپنی کوتاہیوں سے فارغ ہوتے تو سچ پر دھیان دیتے۔ان کا سچ آج بھی وہی ہے جو ان کے ذاتی عزائم پورے کرتا ہو۔باقی سب کچھ وہ قیاس آرائی کہہ کر پھینک دیتے ہیں۔آگاہ کرنے والے کو بھی شرمندہ کر چھوڑتے ہیں۔کہتے ہیں، ’کیا تم سازشی نظریے(conspiracy theories) جھاڑتے رہتے ہو‘۔

فوج کی حکمتِ عملی ان دنوں یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں ہے۔یعنی اگر وہاں حملہ ہو گاتو اُس کا جواب یہاں سے دیا جائے گا، اور ہندوستان کی افواج کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ مشرقی پاکستان سے پیچھے ہٹ جائیں۔اس مفروضے کی بنا پر وہاں صرف ایک ڈویژن فوج ہوتی تھی اور برائے نام ہوائی جہاز۔فوجی منصوبہ بھی باقی چیزوں کی طرح سوتیلے بھائیوں جیسا ہی تھا۔

جب ہنگامے شروع ہوئےتو مزید فوج وہاں بھجوائی گئی، اور جو مغربی پاکستان سے حملے کے منصوبے تھے اُن کے لیے سپاہ کافی نہ رہی۔جب یہاں سے حملے کے احکامات دیے گئے، اس وقت مشرقی پاکستان کی صورتحال بھی ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ یہاں کچھ بھی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا تھا۔ ویسے بھی نہ ہی اس سٹریٹجی(strategy) میں کوئی جان تھی، نہ ہی اس کا وقت رہ گیا تھا اور نہ ہی سپاہ۔ جب حکمران ہوش میں آئے، چھت گر رہی تھی،بوکھلاہٹ میں مغربی پاکستان سے بھی بے مقصد حملہ شروع کروا دیا۔

فوج کی تاریخ اگر کسی نے سچ لکھی ہوتی تو صحیح پتہ چلتا، لیکن جو سنا اور پڑھا عقل حیران ہے۔GHQ کی کارکردگی فوجی حکمران کی غفلت سے کافی حد تک متاثر ہو چکی تھی۔وہ سیاست ہی میں مشغول رہتا۔تاریخ لکھنے والے لکھتے ہیں:’نااہل لوگ صرف دکھلائی ہوئی وفاداریوں اور مبالغہ آمیز مظاہرۂ مردانگی (machismo) پر ترقی پا رہے تھے۔ اور چہیتوں کا ٹولہ(جو ہر فرعونی حکمران کے گرد جمع ہو جاتا ہے) راج کرتا تھا۔ صدر صاحب جس کو جی کرتا احکامات دیتے، یا شاید جو سامنے ہوتا۔جو شامیں اُن کے ساتھ گزارتے، مرضی کے احکامات حاصل کر لیتے۔ اہم مسائل پر غور و فکر کے بجائے، فیصلے یونہی متکبرانہ اور لاپروا (cavalier) انداز میں سنا دیے جاتے۔‘……بس کہہ دیا، کتابوں سے تو یہی ملا ہے۔

۱۶ دسمبر کی دوپہرمشرقی پاکستان میں لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے سپاہ کو حکم دیا کہ ہتھیار ڈال دیں۔اُسی شام جنرل یحییٰ نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ ایک محاذ پر نقصان اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ جنگ ختم ہو گئی، ہماری جنگ جاری رہے گی۔قوم کو خوب جوش دلایا، کہ آدھا ملک کھونے کا غم نہ ہو۔کوئی حاکم کو ہارا ہوا نہ سمجھے۔جانتے تھے کہ ہندوستان کی فوجیں اب بنگال سے بھی ادھر آنا شروع ہو جائیں گی۔اور جو کچھ یہاں جنوبی صحرا میں ہماری فوج کے ساتھ ہو چکا تھا، اس سے بھی واقف تھے، لیکن نجانے کیوں، جب دباؤ کے نیچے آتے ہیں تو ڈکٹیٹروں کے دماغ کسی اور ہی دنیا میں ہجرت کر جاتے ہیں۔

پھر اگلے دن، ۱۷ دسمبر کو ساڑھے تین بجے ریڈیو پرمغربی پاکستان میں بھی جنگ بندی کااعلان کر دیا گیا، جنگ جاری رکھنے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد۔ رات کو جنرل یحییٰ خان نے تقریر کی اور فرمایا کہ اب لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔گھر بیٹھ کر سر پیٹو، ماتم کرو۔جو تمہارے بچے میں نے آگ میں جھونک دیے وہ میرے غرور کی نذر ہوئے۔ فوجی تھے، اسی لیے انہیں پالا تھا کہ بادشاہوں کے کام آئیں۔یہ جنگ کی خوراک ہوتے ہیں۔بھلا بتاؤ، مردود بنگالی، دو ٹکے کا آدمی، مجھے آنکھیں دکھاتا تھا۔ حکومت کی رِٹ (writ)کو للکارتا تھا۔ کہتا تھا میں حکومت کروں گا!اُس کی یہ مجال؟! میں نے ہزاروں کو ذبح کر دیا۔ میں بادشاہ ہوں، میں نےکہا تھا۔

طاقت کی ہوس نے پاکستان کو دوٹکڑے کر دیا۔شیخ مجیب الرحمن کی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سازش کا ایک جال بُنا، اور ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘کا نعرہ لگایا۔مجیب نے دشمن کا سہارا لے کر نفرتوں کو سینچا، بھٹو نے ایک نااہل فوجی حکمران کے لالچ کو بھانپ کر ، اسے اپنی انگلیوں پر نچایا۔دونوں نے طاقتور ساتھی چنےاور لاکھوں انسانوں کو اپنی خود غرضی کے دیوتا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ملک کو دو لخت کر کے موروثی جائیداد کی طرح بانٹ لیا۔ظالم پر اللہ کی گرفت سخت ہوتی ہے، دنیا ہی میں بدلے چکا دیتا ہے۔ یحییٰ ذلیل ہو کر قید میں ہی مر گیا، بھٹو پھانسی پر لٹکا، مجیب قتل ہوا، اور اندرا اپنے محافظ کے ہاتھوں ماری گئی۔

آج نئے رنگوں میں یہی کھیل پھر کھیلا جا رہا ہے۔ پھر اپنی رِٹ (writ) کی آڑ لے کر خون بہایا جا رہا ہے۔ اور قوم کا غم صرف پیٹ ہے، بھائی کی موت نہیں۔نہ ہی اللہ کا خوف۔ صرف بھرے پیٹوں کی بھوک۔اور حکمران، ہمیشہ کی طرح، اپنی طاقت برقرار رکھنے کو سب کچھ جلانے پر آمادہ!

۱۹۷۱ء میں تقریباً سب کچھ کھو چکنے کے بعد جب مشرقی پاکستان کے نام نہاد دفاع کی خاطر مغربی پاکستان سے ہندوستان پر حملہ کیا گیا تو اس حملے میں شاہد عزیز صاحب کی پلٹن بھی شامل ہوئی۔ یکم دسمبر کو اس پلٹن کو گارڈ ڈیوٹیوں سے ہٹا کر محاذِ جنگ کی جانب بھیجا گیا۔ راولپنڈی سے گجرات تک ریل کا سفر کیا، جس کی روداد اور اپنے احساسات کچھ یوں لکھتے ہیں:

’’۱۹۶۵ء کی لڑائی میں بھی ایک ٹرین میں سفر کیا تھا۔ ان دنوں نور جہاں کے ترانے ہر جگہ سنائی دیتے اور لوگوں کا ابلتا ہوا جوش فضاؤں میں بلند نعروں کے ساتھ گونجتا۔ اب ہر طرف سناٹا تھا۔ راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر بھی کوئی ہمیں الوداع کہنے نہ آیا۔ جو لوگ وہاں موجود تھے انھوں نے بھی دیکھا اور نظریں پھیر لیں۔ راستے کے ہر سٹیشن پر بھی ویسا ہی سناٹا ۔ بے اعتنائی۔

جب حاکم سیاسی مفاد میں اپنے ہی بچوں کا خون بہانا شروع کردے تو عوام کس کا ساتھ دیں؟ آج پھر یہی ہورہا ہے۔ حکومت کا چیخ چیخ کر گلا سوکھ گیا کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ تمام ٹی وی چینلز بھی اسی ترانے میں شامل ہیں، بہت سے کرائے کے عالم دین بھی۔ فوج بھی امریکہ کے نام پر جان دینے والوں کے سینوں پر تمغے سجاتی رہی، خون بہاتی رہی، مگر قوم میں کوئی اس بات کو ماننے پر آمادہ نہیں کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ سچ پر کتنا ہی جھوٹ کا لبادہ اڑھاؤ، سچ سچ ہے، آخر کھل ہی جاتا ہے۔‘‘

لکھتے ہیں کہ گجرات پہنچنے تک جوانوں کے جذبے بلند تھے، چونکہ وہ جانتے ہی نہ تھے کہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ البتہ حکمرانوں اور قائدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’کیا کبھی کسی حکمران نے بھی سوچا کہ یہ جنگ کیوں اپنی عوام پر ٹھونس رہا ہوں؟ یہ سوچا کہ میرے حکم پر کتنے ہی جوان جان ہتھیلیوں پر لیے ، اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر، بغیر کسی مقصد کی آگ میں کود جائیں گے؟ نہیں۔ وہ تو گدھ کی طرح اِنھی کی لاشوں پر پلتے ہیں، آج بھی۔‘‘

حملے کی تفصیلات، عسکری مجموعات کا آپس میں ارتباط نہ ہونے، اپنی ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر جان چھڑانے اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث حملے کے کامیاب نہ ہونے کا ذکر کرنے کے بعدچھمب کی اصلی دفاعی لائن پر دشمن کے دفاع اور ان کی جانب سے حملے کی تیاریوں کی اطلاع ملنے اور فوج کے مورال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

’’ہم مورچوں میں ڈٹ گئے۔ مورچے کیا تھے، بس کچھ فاصلوں پر کمر کمر تک گڑھے کھودے ہوئے تھے۔ موت کے انتظار میں سب اپنی اپنی قبروں میں کھڑے ہوگئے۔ جب حملے میں گئے تھے تو یہ کیفیت نہ تھی۔ حملے میں جوش تھا، ولولہ تھا۔ وقت ہم نے چنا تھا، اور دشمن بھی… اب … سر پر لٹکتی تلوار کے گرنے کے منتظر۔ سہمے ہوئے۔

کیا پتا تھا کہ چالیس سال اور گزرنے کے بعد پوری قوم اسی مقام پر پہنچ جائے گی۔ اپنے اپنے خوف لیے، اپنے اپنے مورچوں میں بند۔ تنہا۔ ماؤف دماغ، منجمد جسم۔ موت کے منتظر۔ صرف اپنی سوچیں گے۔ پھر کراچی میں بہتا خون راولپنڈی کو نہیں چھوئے گا۔ جب جھوٹے دلاسے دیتا، جابر حکمران بھی دشمن کا ہی ساتھی ہوگا اور ہم اس کو پہچان کر بھی چپ رہیں گے۔ جب ہمیں غلامی راس آجائے گی اور صرف بھوک ہی ہمارا خدا ہوگی اور ہم خود کو بے بس سمجھیں گے۔ جب مسلمانوں کے قتلِ عام پر خراج ملے گا، مرنے پر شہادت کے فتوے دیے جائیں گے اور ہم چپ رہیں گے۔ پھر ہم اپنے بتوں کو پکاریں گے، ان کے آگے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں گے، اور اپنے بچے ان کے آستانوں پر بھینٹ چڑھا دیں گے۔‘‘

لکھتے ہیں کہ تَوی دریا تک کا علاقہ تو پاکستانی فوج نے قبضے میں لے لیا، اب دریا کے پار حملہ کرنا تھا۔ منصوبہ تو بنایا گیا مگر اس پر عمل جس انداز سے کیا گیا، اس کی تفصیل افسرانِ بالا کی غیر ذمہ داری بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہوا یوں کہ حملے کے لیے دو مختلف بریگیڈوں سے ایک ایک انفنٹری کی یونٹوں کا تعین کیا گیا، جن میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ نہ ہی انہوں نے اکٹھے تربیت کی تھی اور نہ ہی ایک دوسرے سے واقف تھے۔ مختلف چھاؤنیوں سے آئے تھے۔ پھر انہیں آرمڈ بریگیڈ کے زیرِ کمان کردیا گیا۔ کہا تم سنبھالو۔ آرمڈ بریگیڈ کئی میل پیچھے ایک رَکھ میں چھپا ہوا تھا۔ وہ وہیں رہا۔ اس کا ہیڈکوارٹر بھی اس ساری لڑائی کے دوران آگے نہ آیا۔ آرمڈ بریگیڈ نے، اپنی جان چھڑانے کو، ایک ایک پلٹن کو ایک ایک ٹینک یونٹ کے زیرِ کمان کردیا۔ حکم ہوا، ’’اب حملہ کرو‘‘۔ لڑائی کا یہ انوکھا انداز تھا، جو کتابوں میں کہیں نہیں ملتا۔ ڈویژن ہیڈ کوارٹر نے دونوں انفنٹری یونٹوں کو آرمڈ بریگیڈ کے زیرِ کمان کردیا، اور تمام کارروائی کی ذمہ داری اسے سونپ دی۔ اگر دو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہوتے تو ڈویژن ہیڈ کوارٹر کو کمانڈ سنبھالنی پڑتی۔ آرمڈ بریگیڈ نے دونوں یونٹیں ایک ایک ٹینک رجمنٹ میں بانٹ دیں، تاکہ اس کی ذمہ داری ختم ہو۔ سب اثاثے نچلی سطح تک تقسیم کردیے۔ اپنی جان چھڑائی۔ سب نے اپنی اپنی ذمہ داری ماتحت کو دے دی اور چین پایا۔ سب خاموش تماشائی۔ جنگ کے بعد بھی اس موضوع پر سناٹا ہی رہا۔

اگر کامیابی ہوئی تو اعزاز لینے کے لیے بالا کمانڈر کھڑا ہوجائے گا۔ کہے گا، ’’دیکھا میرے ڈویژن کو!‘‘، ’’دیکھا میرے بریگیڈ کو!‘‘۔ اور اگر ناکامی ہوئی تو الزام لینے کے لیے ماتحت کی گردن حاضر ہے۔ حملے کا ایک تماشا بنا دیا۔ کوئی پوچھنے والا جو نہیں تھا۔ نہ ہی مشن پورا کرنے کی کوئی پروا تھی اور نہ ہی یہ فکر کہ کتنے سپاہی اس کوتاہی کی بھینٹ چڑھیں گے۔ کہا، ’’خیر ہے، تمغے لگا دیں گے۔ ان کے لیے ترانے گائیں گے، چوک پر نام لکھ دیں گے۔ چھ ستمبر کو قبروں پر سلامی دیں گے‘‘۔ صرف اپنی بقا لازم سمجھی۔

ایسے حملے خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں اور بہت سے اہم پہلوؤں کو منظم و مربوط کرنا پڑتا ہے، خاصی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں نہ تو دونوں پیادہ فوج کی یونٹوں میں کوئی ربط تھا، نہ ہی حملے کی کارروائی کو کنٹرول کرنے والا کوئی ہیڈ کوارٹر دریا کے کنارے زمین پر موجود تھا۔‘‘

جب حملہ شروع ہوا تو ناقص منصوبہ بندی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے، اس بارے میں لکھتے ہیں:

’’انہوں نے، حملے کی امداد میں ہتھیار ایسے لگائے کہ حملہ آور سپاہ پر ہی فائر کرتے رہے۔ جب حملے کے دوران بھاری ریکوئیلیس رائفل (106mm recoilless rifle) کے گولے ہمارے درمیان گرتے تو میں سوچتا کہ یہ گولے کہاں سے آرہے ہیں کہ جب زمین پر لگ کر پھٹتے ہیں تو شعلہ صرف آگے کی ہی جانب جاتا ہے۔ مجھے وہیں احساس ہوگیا تھا کہ یہ ہمارا فائری مستقر ہے۔ … پھر فائر ختم کرکے کمپنی کمانڈر صاحب اپنی کمپنی سمیت وہیں بیٹھے رہے، آگے نہ آئے کہ کہیں زک نہ پہنچے۔ نہ فائری امداد دینے کے وقت اپنے ساتھیوں کی پرواہ کی اور نہ ہی اس کے بعد۔ مگر انہیں کسی نے پوچھا نہیں۔ جھوٹ اور پردہ پوشی کی فضا میں کون کسے پوچھتا۔ حملہ ختم کرنے کے فوراً بعد ہی حملہ آور کو امونیشن پہنچانا لازم ہے تاکہ دشمن کی جوابی کارروائی سے پہلے ان کو مل جائے۔ ان کا زیادہ امونیشن تو حملے میں صرف ہوچکا ہوتا ہے۔ نہ ان کے ہتھیار ہی پہنچے، نہ ہمارے اور نہ ہی ہمیں امونیشن ملا۔‘‘

لکھتے ہیں کہ رات دو بجے دریا پار سے کامیابی کا اشارہ دے دینے کے باوجود صبح دس بجے تک نہ ہی ہماری بھاری ہتھیاروں کی کمپنی پیچھے آئی اور نہ ٹینک اور نہ ہی وائرلیس پر کوئی خبر۔ پھر کمک نہ ملنے، افسرانِ بالا کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی تفصیل اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اس نقصان کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:

’’جو پلٹن ہمارے ساتھ حملے میں گئی تھی، وہ دریا کے دوسرے کنارے پر ہی ٹھہر گئی، اور پھر چونکہ ٹینک نہیں آئے، ہم سے پہلے ہی واپس آچکی تھی۔ جو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر تھا، دریا سے میلوں پیچھے ہی رہا۔ دونوں ٹینک رجمنٹیں بہت دیر سے چلیں۔ پہلی رجمنٹ جب دریا پر پہنچی تو صبح پھوٹ چکی تھی۔ جب ان کا ٹینک دریا کے پار چڑھنے لگا تو اس پر فائر آیا اور وہ اس وجہ سے پیچھے نکل آئے کہ پار کا کنارہ محفوظ نہیں کیا گیا۔ نجانے انہوں نے دریا کہاں سے پار کرنے کی کوشش کی؟ دوسری رجمنٹ کو اتنی دیر ہوگئی کہ وہ دریا پر آئی ہی نہیں۔ پیچھے ہی رک گئی۔ جو بھاری ہتھیاروں کی کمپنی تھی اس کے کمانڈر نے کہا کہ پانی زیادہ تھا، میری جیپیں اسے پار نہ کرسکیں۔ حالانکہ ان سب نے مل کر دریا پار کرنے کی جگہ کا چناؤ کیا تھا۔ انجنیئر کمپنی کا افسر بھی اس میں شامل تھا۔ آپس میں ارتباط کی تفصیلات بھی یقیناً طے کی ہوں گی۔ پھر بھی سب تتر بتر ہی رہے۔

جب ڈویژن ہیڈ کوارٹر ہی حملے کا ذمہ نہ لے اور حملے کا بریگیڈ کمانڈر جگہ پر موجود ہی نہ ہو تو اتنا پیچیدہ حملہ کیسے کامیاب ہو؟ مگر کسی کو کچھ کہا نہ گیا، کسی سے سوال نہ ہوا۔ سب نے بہتری اسی میں دیکھی کہ معاملہ ڈھانپ دیا جائے۔ بتایا گیا کہ چونکہ GHQ کے احکام تھے کہ آگے آپریشن نہ کیے جائیں، اس لیے حملہ روک دیا گیا۔ دوسری پلٹن تو واپس بلالی تھی، ہمارے ساتھ وائرلیس کا ملاپ نہیں تھا اس لیے ہمیں یہ بتا نہ سکے۔ اور ہم بھاری ہتھیاروں اور توپ خانے کی امداد کے بغیر اور گنتی کے امونیشن کے ساتھ دشمن کے گھیراؤ میں بیٹھے ان ٹینکو ں کا انتظار کرتے رہے جو چلے ہی نہیں۔

اللہ ہی جانتا ہے کہ سچ کیا تھا۔ جنگ کے دن جھوٹ سے بھرے تھے۔ میدانِ جنگ میں کئی جگہ یہ بھی ہوا کہ سپاہ اپنی جگہ پر ہی رہیں اور کمانڈر وائرلیس پر اپنی کامیابیاں بتاتے رہے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانا اور اپنی ذمہ داری سے منہ موڑنا عام تھا۔ وائرلیس تو کمزور تھے ہی، مگر ان کو بند کرکے خرابی کا بہانہ یا احکام نہ سمجھ آنے کی کئی مثالیں تھیں … تربیت کی کمی ہر طرف دیکھنے میں آئی۔ پھر سب نے اپنی اپنی کارکردگی سنہری الفاظ میں لکھی اور تاریخِ جنگ کی کتاب بند کردی۔

سترہ دسمبر کی شام جنرل یحییٰ نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا اور ہمیں بتایا کہ مشرقی پاکستان میں اس پاک فوج نے ناپاک دشمن کے آگے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ جان بچا لی ہے۔ مسلمانوں کی فوج ، جو اللہ اکبر کہتی تھی، کفر کے آگے جھک گئی۔ سر کا کام ہے جھکنا۔ جو اللہ کے آگے نہ جھکا، وہ کفر کے آگے ہی جھکے گا۔ جو سر اللہ کے آگے جھکتے ہیں وہ کٹ جاتے ہیں، کہیں اور نہیں جھکتے۔ جو غرور سے اٹھے رہتے ہیں، جن کی گردنوں میں اللہ نے طوق ڈال رکھے ہیں، وہ بادشاہ کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں یا کسی بھی ایسی دنیاوی طاقت کے سامنے جو ان کو ڈرا سکے یا فائدہ پہنچا سکے۔ جنہوں نے بادشاہ کے حکم پر اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل کیا، اور سمجھا کہ بادشاہ کا حکم اللہ کے حکم پر حاوی ہے، جو چپ رہے، جنہوں نے اللہ کی راہ چھوڑ کر اپنے آقا کا ساتھ دینا اپنے مفاد میں سمجھا، جنہوں نے اپنے گروہ کو اپنا کارساز مانا، وہ ذلیل کیے گئے۔ ہم نے ملک کا آدھا جسم آقا کی بقا کے لیے بیچ دیا تھا۔ پھر اپنی شرمندگی چھپانے اور نئے آقاؤں کا بھرم رکھنے کی خاطر سب پر پردہ ڈال دیا۔ ہمارا ملک ٹوٹ چکا تھا۔ ہماری عزتِ نفس بھی، غیرت بھی اور ہماری شرم بھی مٹی میں مل چکی تھی۔ ہم سب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔‘‘

پھر اتنا سب کچھ کھو کر بھی کسی کو کچھ افسوس نہ تھا۔ پھر بھی خیانتوں سے باز نہ آئے حالانکہ اسی غیر ذمہ دارانہ رویے کا بھیانک نتیجہ بھگت چکے تھے۔ چنانچہ جنگ کے بعد جب آڈٹ (حساب کتاب) شروع ہوا تو:

’’جنگ میں جو کچھ سامان اور ہتھیار وغیرہ کھو گئے تھے، ان کا حساب کتاب چل رہا تھا… کسی کا کوئی حساب نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی خاصا سامان جنگ کی نظر ہوگیا تھا۔ پھر ایک ترکیب کی۔ ایک گاڑی دشمن کے ہوائی جہاز کا نشانہ بنی تھی۔ بس جس جس چیز کا کوئی حساب نہ بنا، گاڑی میں ڈال دی۔آسان تھا۔ کہہ دیا کہ گاڑی کے ساتھ جل گئی۔ لسٹ اتنی لمبی ہوگئی کہ کسی نے کہا کہ یہ تو ایک کانوائے کا سامان ہے، ایک گاڑی میں کیسے آیا؟ مگر سب ہی کاغذی کارروائی پر آمادہ تھے۔ لکھ دیا گیا اور حساب ختم کیا۔‘‘

تعارفِ مصنف

لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز پاکستان کی ملٹری ایلیٹ میں ایک نمایاں نام ہیں۔ چیف آف جنرل سٹاف اور کور کمانڈر لاہور جیسے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل نیب (قومی احتساب بیورو) رہے۔ فوج کو آپ نے قریب سے دیکھا اور اس کو باطل جانا۔ بعد از ریٹائرمنٹ آپ نے اپنے ضمیر کی آواز پر اپنی خود نوشت ’یہ خاموشی کہاں تک‘ لکھی اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کو القاعدہ برِّ صغیر کے سرکردہ ذمہ دار اور مجلّہ ’نوائے افغان جہاد‘ (’نوائے غزوۂ ہند‘ کا سابقہ نام)کے بانی مدیر حافظ طیب نوازؒ صاحب کے ذریعےبراہ راست حق کی دعوت ملی۔ آپ نے حق کی دعوت کو سمجھا اور اس پر لبیک کہتے ہوئے جہاد سے وابستہ ہو گئے۔لیکن اس سے پہلے کہ آپ میدانِ جہاد میں پہنچتے پاکستان کے خفیہ اداروں نے آپ کو گرفتار کر کے پسِ زنداں ڈالا اور یوں امریکی ’وار آن ٹیرر‘ میں فرنٹ لائن اتحادی اور امریکی وفاداری میں دین تو دین، اپنے ’ادارے کی وفاداری ‘ (Military Comradeship) کو بھی پامال کیا۔ سال ۲۰۱۸ء کے وسط میں آپ کی شہادت کی خبریں منظرِ عام پر آئیں۔ بعض ذرائع نے شہادت کی اطلاعات کی تردید کی، لیکن مجاہدینِ القاعدہ برِّ صغیر کو اپنے ذرائع سے جو خبریں ملیں، ان کے مطابق مجاہد فی سبیل اللہ شاہد عزیز صاحب، شہید ہو چکے ہیں، اللہ پاک آپ سے راضی ہو جائیں اور آپ کو انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کی معیتِ حسنہ عطا فرمائیں، آمین۔ لیکن (گو کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے) اگر آپ بحالتِ گرفتاری حیات بھی ہیں تو ہم دعا گو ہیں کہ اللہ پاک آپ کو ایمان پر استقامت کے ساتھ رہائی عطا فرمائیں۔ (ادارہ)

٭٭٭٭٭


1 پاکستان ملٹری اکیڈمی

Exit mobile version