ایک دل جلے کی آہ

سلہٹ (بنگال) کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مولانا اطہر علی نور اللہ مرقدہ دار العلوم دیوبند کے فاضل اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ قیامِ پاکستان کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا، یہاں تک کہ سلہٹ کے ریفرنڈم میں آپ ہی کی کاوشوں سے قیامِ پاکستان کے حق میں نتیجہ برآمد ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے مسلسل قرآن وسنت کے قوانین کے نفاذ کی جدوجہد کرتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے واقعے کا آپ پر کیا اثر ہوا ہوگا، ذیل کی شکستہ تحریر اس کی عکاس ہے، جس میں نتیجے کو عمل سے جوڑ کر عبرت دلائی گئی ہے۔ (ادارہ)


حکومت مقصود بالذات نہیں ہے۔ عنداللہ حکومت سے غرض اقامتِ دین ہے۔ ارشاد ہے: ﴿اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ﴾

استخلاف کا وعدہ مؤمنینِ متقین کے لیے ہے، ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ ﴾ اور غرضِ استخلاف تمکین دین ہی ہے۔ ﴿وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ ﴾ اور دوسری غرض تبدیلِ خوف بالامن ہے ﴿وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ﴾۔

زندگی کے حقیقی لطف کا مدار دوہی چیزوں پر ہے؛ عدمِ خوف و امن، اور اطمینان و عافیت۔ چنانچہ اگر کسی بادشاہِ عظیم کو پھانسی کا حکم ہوجائے تو بڑی سے بڑی حکومت اور کل سامان تعیش وتنعم کے باوجود زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔ اور حکومت کا زوال و ہلاکت فسق و فجور ہی سے ہوتا ہے، ﴿وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً ﴾ اور ﴿وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا ﴾ ان امتوں کے مصداق اممِ ماضیہ قومِ ثمود، عاد و سبا اور شداد و نمرود پر ایک نظر کرنی چاہیے۔

عادۃ اللّٰہ ہے کہ إن اللّٰہ لیملي الظالم فإذا أخذه لم يفلته. ان بطش ربك لشديد.

حلم حق باتو مو اساہا کند
چوں تو از حد بگذری رسوا کند

﴿ۭذٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيْمُ﴾

اللّٰہ نے پاکستان پر اپنے حتمی وعدے سے زائد فضل فرمایا، جبکہ بانیٔ پاکستان اور اربابِ لیگ نے باوجود کامل مسلمان و متقی نہ ہونے کے صرف یہ وعدہ کیا کہ قرآن و سنت کے قوانینِ جامعہ ہمارے پاکستان کا قانون ہوگا۔ اس وعدے پر اللہ نے رحمت و فضل کا خزانہ کھول دیا۔ اور پاکستان بن گیا۔ نیۃ المؤمن خیر من عملہ۔ مگر چوبیس سالوں تک قران و حدیث کے قوانین جامعہ کو نہیں نافذ کیا گیا، اور مغربی مہلکہ مغضوبہ قوانین تہذیب و تمدن اور معاشرت کو پسند کرتے رہے۔ اور ﴿ وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ﴾ کے بموجب اب وہ منظر ہے کہ إذ أخذہ لم یفلتہ کا وبال بھگتنا پڑ رہا ہے۔ قریبی دوست جانی و مالی دشمن ہوگیا، گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ جب بندہ اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کی تعریف کرنے والا اس کی ہجو کرنے لگتا ہے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version