غدّار کون؟

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب کی طرف اہلِ دین اور علماء ومشائخ کی توجہ مبذول کراتی ہوئی اچھوتی تحریر۔ قارئینِ کرام سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو خاص توجہ کے ساتھ دل و نظر سے پڑھیں کہ پچاس سال قبل سقوطِ ڈھاکہ کے وقت ہمارے ملک و ملت کے جو حالات تھے، آج وہ حالات کہیں بدتر ہو چکے ہیں اور ایسے میں اہلِ دین اور علماءو مشائخ پر ذمہ داری کا بار ماضی سے کہیں زیادہ ہو گیا ہے۔
یہ تحریر ماہنامہ ’الحق‘ کے جنوری فروری ۱۹۷۲ء کے شمارے میں نشر ہوئی تھی ۔ (ادارہ)


کلیجہ خون اور دل نا صبور ہے، دیکھنے کی طاقت کہاں سے لاؤں، ہزیمت فلسطین کا زخم ابھی ہرا تھا کہ دوسری ذلت آمیز شکست کا منحوس اور بھیانک چہرہ دیکھنا پڑا۔ مومن کا کام صبر، اس کے ساتھ عبرت و نصیحت حاصل کرنا ہے۔ اس لیےاسبابِ شکست پر روشنی ڈالنا بھی ایک فریضہ ہے جسے اس عالمِ دل شکستگی میں بھی کسی نہ کسی طرح ادا کرنا ضروری ہے۔

یہ بات تو بالکل کھلی ہوئی ہے، اور غالباً پاکستان کا ہر فرد اس سے واقف ہو گیا ہوگاکہ ہماری شکست غداری کی وجہ سے ہوئی، ورنہ ہماری پوزیشن ایسی نہ تھی کہ ہمیں اتنی ذلت کے ساتھ ہتھیار ڈالنا پڑتے اور اپنے لاکھوں بھائیوں کو دشمنوں کی درندگی اور اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ دینا پڑتا۔ یہ بھی معلوم ہے کہ غدّاری ان گروہوں نے کی ہے جو اسلام کے مدعی ہیں، لیکن درحقیقت اسلام کے دشمن ہیں۔ وہ جو اپنے کو مسلمان کہتے ہیں تو اسلام کی ایک مخصوص اصطلاحی تعریف پیشِ نظر رکھتے ہیں جو انہی پر منطبق ہوتی ہے۔ ہم سُنّی جس دین کو اسلام کہتے ہیں اس سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ہے، بلکہ عداوت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں اس غداری کی جرأت کیوں ہوئی جبکہ ہماری یعنی اہل سنت کی اکثریت ہے۔ اور ہم میں سے بعض افراد ان کے اس ناپاک مقصد کو پورا کرنے کے لیے ان کے معاون کیوں بن گئے؟ یہ اتفاقی طور پر ہوگیایا اس بارے میں ہم میں سے ہی کوئی قصور وار ہوا ہے؟ اس چیز کا دیکھنا اس وقت زیادہ مفید ہے۔ کیونکہ مغربی پاکستان بھی اس وقت خطرے میں ہے۔ ہم اگر اپنی غلطیوں کی تلافی کر لیں تو ان شاء اللہ اسے نقصان نہ پہنچے گا، ورنہ اندیشے تو ایسے ہیں جن کا تصور بھی لرزہ براندام کر دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہوا خلاف توقع نہیں ہوا۔ اصحابِ بصیرت اور با خبر افراد بہت دن سے اس اندوہناک انجام کو دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ ہماری مسلسل غلطیوں کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا چاہیے تھا۔اور سنت اللہ بھی ہے کہ جب اس قسم کی غلطیاں کی جاتی ہیں تو عذاب الٰہی اسی صورت سے آتا ہے۔ جس سازش کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے اس کے بارے میں بعض باخبر افراد نے، جو عوام میں غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے خود کچھ نہ کرسکتے تھے اور جن کی آواز سننے کے لیے پبلک تیار نہ ہوتی، بعض ذمہ دار مقبولِ عام اور مؤثر آواز رکھنے والے سیاسی قائدین کو ایک سال پہلے مطلع کر دیا تھا۔بلکہ بعض کو تو سازش کے ابتدائی مدارج سے دو ڈھائی سال پہلے مطلع کر دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کو بھارت کی گود میں ڈال دینے کی سازش کا اس وقت تک انہیں علم نہ تھا، لیکن اس کی تمہید کا علم ہو گیا تھا، جس کی اطلاع انہوں نے بعض ذمہ دار سیاسی قائدین کو دے دی تھی، لیکن یہ قائدین جرأت و ہمت سے محروم ہیں، ان میں وہ جذبۂ قربانی نہیں ہے جو ایک سیاسی قائد کا جوہر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ساکت و صامت رہے اور سازش کی کھلی ہوئی علامتیں دیکھنے کے بعد بھی اس سے بے خبر بنے رہے۔ مارشل لاء کا خوف، جیل جانے کا خطرہ، اور آرام دہ زندگی چھوٹنے کااندیشہ افضل الجہاد سے مانع رہا۔ حالانکہ اگر وہ دوسری مؤثر شخصیتوں کو مطلع کر کے اجتماعی طور پر اس راز کو فاش کر دینے اور غداروں کے چہرے پبلک کو دکھا کر انہیں نکالنے کا مطالبہ کرتےتو حکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور اس حادثہ جانکاہ تک نوبت نہ پہنچتی۔

ان غلطیوں کی تفصیل تو بہت طویل ہے، ان کا اس وقت تذکرہ مقصود نہیں ہے۔ میں تو اس بنیادی بات کا تذکرہ کر کے دعوتِ فکر و عمل دینا چاہتا ہوں جو ہماری سب غلطیوں کا اصل سبب ہے۔ یہ بات تو بالکل کھلی ہوئی ہے کہ جس المیے سے ہمیں دوچار ہونا پڑا وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے، جو ہماری غیر اسلامی زندگی، ہمارے معاشرے کے گناہوں اور اس میں انابت الی اللہ کے فقدان کی سزا اور اس کا وبال ہے۔ ہمارے معاشرے کی معصیت کوشی عمل کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ زہر عقائد تک پہنچ گیا۔ اور ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہو گیا جو کھلم کھلا لادینیت کی دعوت دیتا ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد کا مذاق اڑاتا ہے۔ ان ملحدین سے قطع نظر کثیر تعداد ایسے افراد کی پائی جاتی ہے، جن کے بنیادی عقائد تو صحیح ہیں لیکن عملاً انہوں نے ان عقائد کو زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ یہ عقائد ان کے ذہن کے ایک گوشے میں تو ضرور پڑے ہوئے ہیں، لیکن ان کی عملی زندگی ان سے بالکل بے نیاز ہے۔ اور وہ فسق و فجور میں اس قدر بے باک ہیں جس قدر ایک غیر مسلم۔ کیا یہ حالات اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والے نہیں ہیں؟

اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی سامنے رکھیے کہ پورا پاکستان فاسقوں سے بھرا ہوا نہیں ہے۔ الحمد للہ کہ ہمارے ہاں دیندار طبقہ بھی خاصی تعداد میں ہے۔ اس میں علماء و مشائخ بھی ہیں، اور عوام بھی۔ جن کے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو متوجہ کرنے والے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دیندار طبقہ کا ہمارے معاشرے پر کیا اثر ہوا؟ اور ان صالحین کے ہوتے ہوئے ہمارے معاشرے میں اس قدر شدید اور اس قدر وسیع پیمانے پر فساد کیسے پیدا ہو گیا جو اللہ تعالیٰ کے اس عذابِ شدید کا موجب بنا؟ بلا شبہ اس زمانے میں جبکہ دنیا فساد سے بھر گئی ایسے معاشرے کا وجود جس میں گناہ و معصیت کا شمار اتفاقی حادثات میں شمار کیا جائے بہت مشکل ہے۔ لیکن ایسے معاشرے کا وجود بالکل ممکن ہےجس میں توبہ کرنے والوں اور گناہوں پر نادم ہونے والوں کی تعداد بھی عاصیوں اور گنہگاروں کے مساوی یا اس کے قریب قریب ہو، اگر ایک گروہ معصیت کے گندے نالے میں غوطہ لگاتا ہوا دکھائی دے تو دوسرا نادم و خجل ہو کر اس میں سے نکلتا ہوا بھی نظر آئے، گناہگاروں کی زندگی کا ایک پہلو تاریک ہو تو دوسرا اعمالِ صالحہ سے روشن بھی دکھائی دے، گویا ہمارا معاشرہ قرآنی زبان میں ﴿خلطوا عـملا صـالحـا وآخـر سیئـا﴾ ترجمہ: اعمالِ صالحہ اور اعمالِ سیئہ دونوں کو ملا دیا ہے (یعنی دونوں قسم کے اعمال کیے ہیں) کا مصداق ہو۔

یہ تو ممکن بھی ہے اور اس کے نمونے بھی موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ صالحین کی موجودگی میں اس درجہ پر کیوں نہیں رکا اور اس قدر پستی میں کیوں جا پڑا؟ جو شخص پاکستان کی ٢٥سالہ تاریخ سے واقف ہے، وہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ بیرونی طاقتیں اور اندرونی منافق یا مسلم نما دشمنانِ اسلام نے، جو ہمارے لیے مارِ آستین کی حیثیت رکھتے ہیں، فسق و فجور اور الحاد پھیلانے کی کتنی کوشش کی ہے اور ہمارے سنّی نوجوانوں کو برباد کرنے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہیں۔ انہوں نے ہمیں برباد اور گمراہ کرنے کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔ اور جب وہ اقتدار پر قابض ہوئے تو اپنے مناصب کی پوری طاقت ہماری قوم کو گمراہ کرنے پر صرف کردی۔ یہی وہ مارِ آستین ہیں جنہوں نے غدّاری کر کے ہمیں اتنا شدید نقصان پہنچایا اور لاکھوں اہل سنت کا خون بہا کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ یہاں پہ پہنچ کر ہمارے سامنے چند سوالات آتے ہیں ۔

پہلا سوال یہ ہے کہ منافقوں کے ان گروہوں کو اس قدر استطاعت کیسے حاصل ہو گئی کہ وہ ہماری قوم کو اس قدر پستی میں پہنچا دیں اور اس کے اخلاق و اطوار اس قدر بگاڑ دیں؟ یہ لوگ ایسے مناصب تک کیسے پہنچ گئے کہ ان کی غداری ہمارے لیے اس قدر تباہ کن ثابت ہوئی؟ ان میں اتنی بڑی غداری کی جرأت کیوں ہوئی، جبکہ اغلب اکثریت ہماری ہے؟ یہی وہ سوالات ہیں جن پر غور کرنے سے ہماری اس تباہی کا اصل سبب روشن ہوجاتا ہے۔ اور یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ خود ہم نے اس بارے میں کیا غلطی کی ہے۔ اس پر بحث کرنا میرا اصل مقصود ہے کیونکہ غدر تو دوسروں نے کیا، فسق و فجور کی ترویج دوسروں نے کی، دوسرے کا فعل تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہمارے اختیار میں جو کچھ ہے وہ ہمیں کرنا چاہیے۔ دیکھنا یہی ہے کہ خود ہم سے کیا غلطی ہوئی، تاکہ اگر ممکن ہو تو اس کی کسی درجہ میں تلافی کر سکیں۔

کسی قوم کا آزاد مستقل وجود اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ اس کا ایک قومی و اجتماعی ذہن نہ ہو۔ اس کا قومی ذہن ہی اس کی بقا اور اس کی آزادی کا ضامن ہوتا ہے اورقوم کے افراد اجتماعی امور میں بھی اس ذہن سے سوچتے ہیں۔ اگر قوم میں مختلف فرقے ہوں اور اکثریت کا یہ ذہن بن جائے تو عموماً ذہنیتیں بھی اسی ذہن سے سوچنے پر مجبور ہوتی ہیں ورنہ کم از کم انہیں اس کی رعایت کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً انگلستان کا ایک قومی ذہن ہے جو نسل و وطن کے تصورات پر مبنی ہے، وہ اپنے اجتماعی مسائل کو اسی ذہن سے سوچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا شیرازہ بکھرنے نہیں پاتا، وہاں آپ کو کوئی غدار نہیں ملے گا۔ اس میں سیاسی پارٹیاں بھی ہیں اور ان کے درمیان کشمکش بھی، لیکن کوئی پارٹی اپنے ملک کے ساتھ غداری نہیں کرے گی۔ کیونکہ اول تو وہ اپنے قومی ذہن سے بے نیاز ہو کر سوچ ہی نہیں سکتی اور وہ بھی غدر کی اجازت نہ دے گا۔ دوسرے اگر بالفرض وہ سوچے بھی تو ملک کا قومی ذہن فوراً اس کا احساس کرے گا اور اس کا خوف اسے کبھی غدر کی جرأت نہ کرنے دیگا۔

تقسیمِ برصغیر سے پہلے ہی بھارت نے اپنا ایک قومی ذہن بنا لیا جو ہندو قومیت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی، لسانی، نظریاتی ہر قسم کے کثیر اختلافات کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں پوری ہندو قوم متحد ہے۔دورانِ جنگ ان کے یہاں کوئی بھی ایسی تحریک نہیں پیدا ہوئی جو انہیں کمزور کر سکتی۔ نہ وہاں ’’بنگلہ دیش‘‘کا نعرہ سنائی دیا۔ حالانکہ مغربی بنگال انہی کے پاس ہے۔ اور نہ ’’سکھستان ‘‘کی صدا بلند ہوئی، حالانکہ یہ موقع تھا کہ پاکستان کی امداد سے سکھوں کے اس خواب کی تعبیر نکل آتی۔

ہماری قومیت ہمارے دین پر مبنی ہے، اگر دین کو درمیان سے نکال دیجیے تو کوئی عنصر ایسا نہیں باقی رہتا جو پاکستان کے مختلف اجزاء اور صوبوں کو متحد رکھ سکے۔ اس لیے ہماری بقاء اور آزادی کے قیام کے لیے لازم ہے کہ ہمارا ذہن دینی ہو۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ۲۵سال کی طویل مدت میں ہماری قوم کا دینی ذہن وجود میں نہ آسکا، بلکہ اس کے جو آثار تحریکِ پاکستان کے وقت موجود تھے وہ بھی برباد ہو گئے۔ مناسب یہ ہے کہ میں پہلے اس ’دینی ذہن‘ کی تشریح کردوں۔

’دینی ذہن‘ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ہر مسئلے کو دینی نقطۂ نظر سے دیکھےاور اس کے دینی مصالح اور مفاسد کو پیش نظر رکھ کر دنیاوی مصالح و مفاسد کوقانونی حیثیت دے۔ یہ طرزِ فکر انفرادی حیثیت میں بھی پایا جاسکتا ہے اور اجتماعی حیثیت میں بھی۔ جہاں تک انفرادی حیثیت کا تعلق ہے، ہماری قوم میں ایسے افراد کی معتد بہ تعداد پائی جاتی ہے جو اپنی انفرادی زندگی میں یہی طرزِ فکر اور ذہن رکھتے ہیں اور اپنے ذاتی مسائل پر دین ہی کے نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں۔ لیکن جو چیز ہم میں مفقود ہوگئی ہےوہ یہ ہے کہ ہمارا قومی و اجتماعی ذہن دینی نہیں رہا، یعنی ہماری قوم جب اپنے اجتماعی مسائل پر غور کرتی ہے تو وہ خالص دنیاوی نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ اختیار کرتی ہے اور دنیاوی مصالح و مفاسد کو پیش نظر رکھ کر دینی مصالح و مفاسد کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ قوم کے ’دینی ذہن‘ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ قوم کے افراد خواہ اپنی انفرادی و شخصی زندگی میں بے راہ روی کے مرتکب ہوتے ہوں اور دنیاوی زاویۂ نظر سے غور و فکر کرنے کے عادی ہوں لیکن ایسے اجتماعی مسائل پر خواہ وہ سیاسی ہو یا معاشی یا تعلیمی یا اور قسم کے، دینی زاویۂ نظر سے دیکھنے کے عادی ہوں اور ہر اجتماعی معاملے کے بارے میں سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ اس کا اثر ہمارے دین پر کیا پڑتا ہے؟

یہاں یہ نکتہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ’قومی ذہن‘ کو ’دینی‘ بنانے کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ قوم کا ہر فرد دیندار اور متقی ہوجائے۔ قوم میں فساق و فجار کی اکثریت کے باوجود قوم کا اجتماعی و قومی ذہن دینی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ان فاسقوں کا انفرادی ذہن دنیاوی ہوگا، مگر ان کا اجتماعی ذہن دینی ہی ہوگا اور اجتماعی مسائل پر وہ اسی سے نظر کریں گے۔

یہ صرف امکان نہیں ہے بلکہ واقعہ بھی ہے۔ شواہد تو بہت ہیں، لیکن اسی برصغیر کی قریبی تاریخ کا مطالعہ تصدیق و تائید کے لیے کافی ہے۔ تحریکِ خلافت کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں، اسے دیکھنے والے بھی ابھی موجود ہیں۔ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے خلافت عثمانی کی حفاظت و بقاء کے لیے جان کی بازی لگا دی تھی، صرف اس لیے کہ اس کے زوال کو دینی نقصان سمجھتے تھے۔ دنیا کے اعتبار سے انہیں اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ قوم میں اس وقت بھی اکثریت فساق ہی کی تھی، لیکن بحیثیت مجموع قوم کا ذہن دینی تھا، اس لیے اس نے اس اجتماعی مسئلہ کو اسی ذہن سے سوچا۔ اس سوچنے میں وہ لوگ بھی شریک تھے جن کا انفرادی ذہن بالکل دنیاوی تھا۔ تحریکِ پاکستان کے وقت بھی اس ’دینی ذہن‘ کی کارفرمائی ظاہر ہوئی۔ اسی وجہ سے تحریک میں ان مسلمانوں نے بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا جو آج بھی بھارت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، اور ہندوؤں کے ماتحت رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ اپنا انجام جانتے تھے، مگر صرف دین کے فروغ کی لالچ میں انہوں نے تحریک میں پوری سر گرمی کے ساتھ حصہ لیا۔

جس خطے پر پاکستان بنا ہےاس پر برطانوی اثرات بہت زیادہ تھے۔ یہ قومیں مسلمانوں کے ’دینی ذہن‘ کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں، تاہم تحریکِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کے اس ذہن میں ایک حرکت پیدا ہوئی، اور زندگی کے آثار اس سے ظاہر ہوئے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ تحریک پاکستان دین کے نام پر شروع کی گئی تھی۔ مگر قیامِ پاکستان کے بعد مسلم نما اسلام دشمن مارہائےآستین اور بیرونی طاقتوں کی طرف سے اس ذہن کو ختم کردینے کی کوشش شروع ہو گئی جو بہت ہوشیاری اور تسلسل کے ساتھ جاری رہی اور آج تک جاری ہے۔ چند ہی سال کے بعد یہ بات روشن ہوگئی کہ تحریکِ پاکستان کے وقت ’دینی ذہن‘ کی انگڑائی در حقیقت افاقۃالموت کے مترادف تھی۔ ایک سنبھالا لینے کے بعد مریض اس عالم سے رخصت ہو چکا ہے۔

ہمارے دیندار طبقے کا فرض تھا کہ وہ اپنی پوری قوت و طاقت اس دینی ذہن کی بازیافت اور تقویت کے لیے صرف کرتے۔ اس طبقہ سے میری مراد علماء ومشائخ کے علاوہ عام حضرات بھی ہیں، جو دینی شعور رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کو دین کے راستہ پر چلانے کی کسی درجہ میں کوشش کرتے ہیں۔ ذمہ داری ہر اس شخص پر عائد ہوتی ہے جو دین کا شعور اور دوسرے تک اسے پہنچانے کا کچھ سلیقہ رکھتا ہے۔ لیکن حیف صد حیف کہ اس طبقے نے اپنی ذمہ داری مطلقاً محسوس نہ کی، بلکہ اجتماعی مسائل کو خود بھی غیر دینی اور خالص دنیاوی ذہن سے سوچنے لگا۔ صوبائی، قبائلی، طبقاتی، نسلی وغیرہ جاہلی عصبیتوں کا زہر اس کے دل و دماغ میں بھی سرایت کر گیا۔

قومی ذہن کا سب سے نمایاں اور قوی اثر سیاسیات میں ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان کی پچیس سالہ سیاسی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈال جائیے۔ آپ محسوس کریں گے کہ ہمارے سیاسی قائدین نے کسی سیاسی اقدام یا حادثہ پردینی زاویۂ نظر سے غور نہیں کیا، بلکہ ان کی سیاست خالصۃً دنیاوی رہی۔ صرف دنیادارلیڈروں کا اگر یہ حال ہوتا تو کچھ صبر بھی آجاتا، مگر یہ افسوسناک خبر کس طرح بھلا دی جائے کہ یہی کیفیت ان سیاسی قائدین کی بھی ہے جو اپنی انفرادی زندگی میں بہت دیندار اور متقی ہیں۔ گھٹیا درجہ کے دنیاوی مقاصد ان کے پیش نظر رہے۔ دین کے تحفظ اور اس کی ترویج کی انہیں کوئی فکر نہ ہوئی نہ کبھی انہیں اس کا خیال آیا کہ ہمارے فلاں سیاسی اقدام کا عام مسلمانوں کے دین پر کیا اثر پڑے گا؟ یا فلاں سیاسی حادثے سے ہمارا دین کیا اثر لے گا؟ اس حالت کو اخلاص و للہیت سے نسبتِ تضاد حاصل ہے۔ اگر ہمارے سیاسی قائدین مخلص ہوتے اور اپنی سرگرمیوں کا محور رضائے الٰہی اور دین حق کے فروغ کو بناتے تو اس ادبار کا منحوس چہرہ ہمیں نہ دیکھنا پڑتا۔

علمائےکرام امت کے دینی نگران ہیں۔ یہ منصب انہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتا ہے۔ اس سے نہ انہیں کوئی معزول کرسکتا ہے نہ وہ خود اس سے مستعفی ہوسکتے ہیں۔ ان کی نظر ہر وقت امت کے دینی مصالح و مفاسد پر رہنی چاہیے اور انہیں اس بارے میں سب سے زیادہ حساس ہونا چاہیے۔ مگر ہماری محرومی دیکھیے کہ یہ جماعت بھی اس معاملہ میں غفلت کا شکار ہو گئی اور انہوں نے بھی اجتماعی تغیرات کا مطالعہ دینی ذہن سے نہیں کیا اور نہ امت کے ذہن کو دینی بنانے کی کوشش کی۔ ان کی کیفیت یہ رہی کہ انہیں بریلویت، دیوبندیت، حنفیت اور غيرمقلدیت کی حفاظت کی تو فکر ہوئی، لیکن خود ’سنّیت‘ کی حفاظت کی کوئی فکر نہیں ہوئی۔ حالانکہ بریلوی و دیوبندی اختلاف کا درجہ ایسا ہی ہے جیسے دو بھائیوں میں اس بات پر اختلاف ہو کہ باپ سے کون زیادہ محبت کرتا ہے۔ دونوں مکتب فکر کے حضرات ’سنّی‘ ہونے کے مدعی ہیں اور زمرۂ اہلسنت سے نکلنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ لیکن باوجود اس کے خود مسلک اہلسنت و الجماعت کی حفاظت کی ان میں سے کسی نے بھی کوشش نہ کی۔ حالانکہ اس کے لیے خطرات شروع ہی سے موجود تھے اور اسے ختم کرنے کی کوششیں کھلم کھلا ہو رہی تھیں۔ حنفیت و غیر مقلدیت کا اختلاف تو اس سے بھی ادنیٰ درجے کی چیز ہے، لیکن یہ بھی حدود سے تجاوز کر گیا، یہی اختلافات کیا کم تھے کہ علماء کے درمیان سیاسی اختلافات بھی پیدا ہو گئے اور انہوں نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ اخلاقی و شرعی حدود کو پار کر لیا۔ اس چیز نے رہے سہے اتحاد کو بھی ختم کر دیا۔ یہ اختلاف بھی درحقیقت ’دینی ذہن‘ کے فقدان اور خالص’دنیاوی ذہن‘ سے سیاسی مسائل کو سوچنے کا نتیجہ تھا۔ اگر ’دینی ذہن‘ موجود ہو اور ہم اپنے مسائل اسی ’اجتماعی و قومی ذہن‘ کے سامنے پیش کرتے تو یہ اختلافات پیدا ہی نہ ہوتےاور اگر ہوتے تو حدود سے متجاوز ہو کر مضرت رساں نہ بنتے۔

ظاہر ہے کہ جب اجتماعی مسائل کے بارے میں ہمارے علماء و صلحاء کا ذہن بھی’دینی‘ نہیں تھا تو عوام کا ذہن دینی کس طرح بن سکتا تھا؟ اور ہمارے قومی ذہن کی تعمیر کیسے ہو سکتی تھی ؟

ہمارے دیندار طبقے کی داستانِ غفلت اسی پر ختم نہیں ہوجاتی ہے بلکہ دوسری شدید غلطی اس طبقہ سے یہ ہوئی کہ اس نے عوام الناس سے ربط پیدا کرنے اور ان میں دین کے اعتبار سے اپنے اثر میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ذمہ داری نہ ہر دینی شعور رکھنے والے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے ربط پیدا کر کے ان میں ہی دینی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن علماء و مشائخ پر یہ ذمہ داری سب سے زائد ہے۔ مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔

پچیس سال کی مدت خاصی ہوتی ہے۔ اس میں ایک نئی نسل وجود میں آجاتی ہے۔ اس نئی نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت پرانی نسل کے ذمہ ہوتی ہے۔ مگر ہم نے اس کی طرف سے غفلت برتی ہے اور ان سے ربط پیدا کر کےان کے ذہن کو دینی بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نئی تعلیم پانے والا طبقہ ہی عوام کی قیادت کرتا ہے۔ وہی حکومت و اقتدار کے مناصب پر پہنچتا ہے۔ اگر ان سے ہمارے علماء و مشائخ ربط رکھتے تو نتائج بہت اچھے ہوتے اور ہمیں یہ روزِ سیاہ نہ دیکھنا پڑتا۔ ہمارے ہاں تعلیم کا تناسب بہت کم ہے، اور اندازاً ٩٥ فیصد عوام جاہل ہیں۔ انہیں بہکالینا بہت آسان ہے۔ دیندار طبقہ خصوصاً علماء ومشائخ کو اس حقیقت سے باخبر ہونا چاہیے تھا۔ علی ہذا ملازمینِ حکومت اور حکام و افسران میں سب کے سب فاسد العقیدہ اور گمراہ تو نہ تھے۔ اکثر ہمارے ہم مذہب صحیح العقیدہ افراد کی تھی۔ ان میں تعلیم یافتہ بھی تھے اور جاہل بھی۔ اگر ہمارے علماء مشائخ ان سےخالصۃً لوجہ اللہ کسی دنیاوی غرض کے بغیر ربط پیدا کرتے تو ضرور اثر ہوتا اور کم از کم ان کااجتماعی ذہن دینی ہوجاتا۔ حضرت مجدد الف ثانی ﷫نے اسی تدبیر سے ایک زبردست قومی ملحدانہ نظام و اقتدار میں بغیر کسی ہنگامے کےانقلاب عظیم پیدا کردیا تھا۔ اگر علماء ومشائخ ان کے نمونہ پر شروع سے عمل کرتے تو حالات بالکل مختلف ہوتے۔ مگر ان حضرات نے ان طبقات میں سے کسی سے بھی خالص دینی ربط نہیں قائم کیا۔ نہ انہیں دوست نما دشمنوں کے نفاق اور ان علامات سے آگاہ کیا جنہیں دیکھ کر عوام ان منافقوں کو پہچان لیتے اور ان کے فریب سے محفوظ رہتے۔ اس کے بجائے بعض علماء ومشائخ تو انہیں دوست نما دشمنوں اور منافقوں سے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے۔ اور ان کی مدح سرائی کر کے عوام کو ان کے جال میں پھنسنے کی عملاً ترغیب دیتے رہے۔

دوسری طرف ہمارے دشمن ہماری تباہی اور اپنے غلبے کی تدبیریں بہت ہوشیاری کے ساتھ کرتے رہے۔ ان تدابیر کی تفصیل طویل ہے۔ اور سب کا تذکرہ یہاں مقصود نہیں ہے۔ ان میں سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے ہماری قومی ذہن کی تعمیر کو بہت قوت اور ہوشیاری کے ساتھ روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی پوری طاقت اس مقصد کے لیے صرف کردی کہ ہمارا ذہن دینی نہ بننے پائے۔ غیر ملکی امداد و اعانت انہیں حاصل تھی۔ پروپیگنڈے کا طریقہ وہ جانتے تھے اور ان کے ذرائع انہیں وافر مقدار میں حاصل تھے۔ اُدھر ان کی یہ کوشش اور اِدھر ہماری غفلت دونوں نے مل کر انہیں کامیاب کردیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں یہ کامیابی بھی حاصل ہوئی کہ ہماری قوم میں صوبائی، وطنی وغیرہ جاہلی عصبیتوں کو ابھار ابھار کر ہمیں آپس میں لڑاتے رہے۔

یہ ٹیکنیک بہت پرانی ہے۔ اور ہماری پوری تاریخ میں سینکڑوں بار اس کا تجربہ ہو چکا ہے، مگر ہمارے زعماء نہ تو تاریخ کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں نہ اس سے کوئی سبق لیتے ہیں، بلکہ اس سے نسیاً منسیاً کر کے فریب کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ان دوگونہ اسباب کا اثر یہ ہوا کہ ہماری قوم کا اجتماعی ذہن دینی نہ بن سکا۔ بلکہ در حقیقت اس کا قومی ذہن ہی وجود میں نہیں آیا۔ ہر شخص اجتماعی مسائل کو دنیاوی اور انفرادی ذہن سے سوچتا ہے۔ جس قوم کا کوئی اجتماعی و قومی ذہن نہ ہو، وہ اسی قسم کے حادثوں کا شکار ہوئی ہے۔

اگر ہمارے ’قومی ذہن‘ کا وجود ہوتا اور دین پر مبنی ہونے کی وجہ سے یہ ’دینی ذہن‘ ہوتا تو وہ لوگ ہماری نگاہ میں رہتے جن سے غدر کا خطرہ ہوتا۔ ہماری بیدار مغزی اور ہمارے ’دینی قومی ذہن‘ کی ذکی الحسی کی وجہ سے انہیں غداری کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔ اور اگر ہوتی تو احترام سے پہلے ہم اتنے خاکے کو خاک میں ملا دیتے۔ قومی پیمانے پر ’دینی ذہن‘ کا فقدان در حقیقت ہماری اصل کمزوری اور اس المیے کے وقوع کا بنیادی سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عوام کا حال یہ ہے کہ وہ ’دنیاوی ذہن‘ سے سوچتے ہیں۔ اس لیے جو ہوشیار شخص انہیں دنیاوی منافع کا سبز باغ دکھا تا ہے اس کے پیچھے چلنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اس بات پر ان کی نظر ہی نہیں جاتی کہ اس شخص کا مذہب کیا ہے؟ اس کے دینی عقیدے کیا ہیں؟ اور اس کی عملی زندگی شریعت اسلامیہ کے مطابق ہے یا نہیں؟ نیز یہ کہ جو کچھ یہ کہہ رہا ہے دینی اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟

مصیبت بالائے مصیبت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین نے پچیس سال کی مدت میں عوام الناس میں سیاسی فہم بھی پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے بجائے وہ ان کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ اور انہیں ابھار ابھار کر اپنا کام نکالتے رہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ ہر اس شخص کے پیچھے چلنے لگے ہیں جو دل خوش کن وعدے کرسکے اور خطابت و نعرہ بازی میں ممتاز ہو۔ ان کا ذہن اس قابل ہی نہیں ہے کہ جھوٹے اور سچے وعدوں کے درمیان امتیاز کر سکے۔ اور اپنے مصالح و مفاسد کو بھی سمجھانے پر بھی سمجھ سکے۔ انہیں فریب دینا اور غلط راستوں پر ڈال دینا آسان ہے۔ ہمارے دوست نما دشمنوں اور منافقوں کے جو گروہ موجود ہیں وہ ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر انہیں کے ہاتھ سے انہیں تباہ کر دیتے ہیں۔ اور ان کی سمجھ میں کسی طرح نہیں آتا کہ ہمارے تباہ کرنے والے کون ہیں؟ دوست و دشمن میں امتیاز کرنے کی صلاحیت سے وہ محروم ہیں۔ یہ صرف جاہلوں کا حال نہیں ہے بلکہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اسی سادہ لوحی میں مبتلا ہے اور بہت آسانی کے ساتھ بد مذہب منافقوں کے فریب کا شکار ہو کر خود اپنی تباہی و بربادی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

یہ ہے ہمارے علماءو مشائخ اور سیاسی قائدین کی داستانِ غفلت جو مختصراً پیش کی گئی ہے۔ لیکن ناسپاسی ہوگی اگر ان علماء و مشائخ کی ستائش نہ کی جائے جو اس دور غفلت میں بھی ’دینی ذہن‘ بنانے اور قوم کی غفلت کو دور کر کے منافق گروہوں کی نقاب کشائی کرنے میں مصروف رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اس گراں قدر عمل صالح کا اجر جزیل عطاء فرمائے۔ مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ انہیں اپنی بات کی اشاعت اور اسے مؤثر بنانے کے ذرائع اور وسائل بھی حاصل نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ ان سے دوسرے علماء و مشائخ نے کوئی تعاون نہیں کیا بلکہ بعض نے ان کی مخالفت کی، اس لیے ان کی بات مؤثر نہ ہو سکی۔ اور پوری قوم تو کجا اس کا عشر عشیر حصہ بھی اس سے متاثر نہ ہوا۔

یہ عرض کردوں کہ اس مضمون کا مقصد کسی پر طعن و طنز نہیں ہے، اس مصیبت کے موقع پر طعن و ملامت کسی طرح مناسب بھی نہیں ہے، جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ الدین النصیحۃ کی تعمیل اور اسی جذبہ کا اثر ہے۔ علماءو مشائخ کی جماعت امت کی بہترین جماعت ہے۔ اخلاص و خیر خواہی کی بنا پر چند سطریں اس جماعت کے متعلق بھی لکھنا چاہتا ہوں، جس نے پاکستان بننے سے کچھ دن پہلے ہی سے ’اسلامی نظام‘ اور ’خلافت الہیہ‘ کی دعوت دینا شروع کر دی تھی۔ ان حضرات سے میں عرض کروں گا کہ ٢٥ سال کی مدت میں ان کی منزل مقصود کچھ قریب ہوئی ہے یا اور دور ہو گئی؟ اگر وہ چشمِ انصاف سے دیکھیں تو نظر آئیگا کہ منزل روز بروز دور ہوتی جارہی ہے، یہ حقیقت ان کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی کہ اسلامی نظام کا تصور صرف ’دینی ذہن‘ کرسکتا ہے۔ دنیاوی ذہن یہ الفاظ تو دہرا سکتا ہے مگر اس کے صحیح مفہوم کو نہ پورے طور پر سمجھ سکتا ہے نہ اسے عملی شکل دینے کے لیے آمادہ ہو سکتا ہے۔ انہیں پہلے قوم کے ذہن کودینی بنانا چاہیے تھا اس کے بعد اسلامی نظام کے قیام میں کوئی دشواری نہ پیش آتی۔ موٹی سی بات ہے کہ جو ذہن اجتماعی مسائل کو دینی زاویۂ نظر سے دیکھتا ہی نہ ہو وہ اسلامی نظام کو کس طرح پسند کر سکتا ہے؟ اور اس کا صحیح تصور کیسے کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نعرے کا یہ اثر تو نہ ہوا کہ قوم اجتماعی و سیاسی مسائل کو دینی زاویے سے دیکھنے لگتی البتہ اس کے برعکس کثیر تعداد اس بیماری میں مبتلا ہو گئی کہ وہ دین کو سیاسی زاویے سے دیکھنے لگی۔

نعرہ لگانے والوں کا اجتماعی دین بھی دنیاوی رہا۔ اس زاویۂ معکوس نے اس میں جگہ پا کر اور قیامت ڈھائی اور وہ شدید غلطیوں کا شکار ہو گئے۔ ان میں قابلِ ذکر وہ غلطی ہے جو اس زاویۂ معکوس کے ساتھ تاریخ کے سطحی مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔ اور جس نے ان کی دعوت میں تضاد پیدا کر کے اسے خود کشی پر مجبور کر دیا۔ میرا اشارہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید اور ان کی تنقیص کی طرف ہے جو اس جماعت کی طرف سے ہوتی رہتی ہے، جس سے اس کا یہ مزعومہ نظریۂ پیدا ہوا کہ اسلامی نظام تیرہ سو برس کی مدت میں صرف تیس سال قائم رہا۔ اس نظریہ اور اسلامی نظام کی دعوت میں کھلا ہوا تضاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو نظام بانیٔ نظام نبی کریم ﷺ کے صحابی بھی قائم نہ رکھ سکے، اور جو صرف تیس سال رہ کر ناپید ہو گیا، وہ نظری طور پر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، مگر اسے عملاً ممکن کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اور جب اس کا قیام عملاً ممکن نہیں ہے تو اس کے لیے جدوجہد کرناہر عاقل کے نزدیک فضول، اضاعتِ وقت و قوت ہے۔ صحابہ کرام ؓپر تنقید کرنے کے بعد اس اعتراض کا کوئی جواب ممکن نہیں ہے۔ عرض کر چکا ہوں کہ طعن و طنز مقصود نہیں ہے۔ بلکہ دعوتِ فکر و عمل پیش نظر ہے۔ ان حضرات سے میری گزارش ہے کہ اس مسئلہ پر غور کریں۔ اور اگر بات سمجھ میں آجائے تو اپنے پچھلے طرزِ عمل پر نظر ثانی کر کے غلطیوں کی تلافی کی کوشش کریں۔

اب کیا کرنا چاہیے؟ وقت بہت گزرچکا ہے اور ہماری غفلت نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے۔ تاہم ہمت نہ ہارنا چاہیے۔ اگر ہم اخلاص و للہیت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت کے ساتھ غفلت سے باز آجائیں اور اصلاح حال کی پوری کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ امید ہے کہ وہ ہماری نصرت فرمائیں گے۔ اور ہم مزید سزا سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے انعام سے بھی سرفراز ہوں گے۔ اس کے لیے اصولی طور پر جو لائحہ عمل سمجھ میں آتا ہے وہ درج ذیل ہے۔ اس کے مطابق عمل ہوجائے تو انشاءاللہ ہم بہت کامیاب ہوں گے اور غیبی امداد ہوا کا رخ یکسر بدل دے گی۔

  1. حضرات علماء و مشائخ خصوصاً اور ان کی نگرانی میں عام دیندار مسلمان عموماً اہل سنت میں دین داری کی ترویج میں اپنی امکانی استطاعت و قوت صرف کردیں اور اس کوشش میں مسلسل لگے رہیں۔ سب سے زیادہ توجہ نماز کی پابندی اور گناہوں خصوصاً فواحش سے باز آنے پر دیں۔

  2. بریلویت، دیوبندیت، مقلدیت، وغیر مقلدیت کے اختلافات کو کم از کم کچھ مدت کے لیے بالائےطاق رکھ دیں۔ اور ہر مکتب فکر کے علماء و مشائخِ اہلسنت ہر قسم کے ملکی و سیاسی اختلافات کو فراموش کر کے متحد ہوجائیں اور قوم کے ذہن کو دینی بنانے کی جدوجہد میں ایک دوسرےکے دوش بدوش کام کریں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ علماء کے درمیان ملکی و سیاسی اختلافات نے جو حدود کو پار کر لیا ہے، اس کا ایک اثر یہ ہے کہ عوام خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ کے ایک معتد بہ گروہ میں علماء بیزاری پیدا ہو گئی ہے۔ اس بیماری کا مہلک اور خطرناک ہونا محتاج تصریح نہیں ہے۔ علماء کا فرض ہے کہ وہ اپنے اختلافات مٹا کر یا کم از کم انہیں حدود کے اندر لا کر اس جماعت کو اس بیماری سے نجات دلوائیں۔

  3. دینی ذہن بنانے میں دو چیزوں کو سب سے زیادہ دخل ہے۔

    أ۔

    اول آخرت کا استحضار؛ آخرت ہی کا یقین وہ چیز ہے جس پر شیطان کے وار روکے جاسکتے ہیں اور یہی مومن کو ہر حالت میں دین پر قائم رکھ سکتا ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی کا جس قدر استحضار ہوگا، اسی قدر انسان دینی زاویے سے دیکھنے کا خوگر ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں میں آخرت کا یقین بڑھانے اور اس کا استحضار پیدا کرنے کی بھی کوشش کرنا چاہیے۔

     

    ب۔

    دوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عقیدت و محبت؛ کیونکہ وہی ہمارے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطۂ کبریٰ ہیں اور کتاب و سنت کا عملی نمونہ ہیں۔ ان کے اوپر بھی ایسے احوال گزرے جو ہم پر گزرتے ہیں مگر باوجودیکہ وہ معصوم نہ تھے، کسی حالت میں بھی انہوں نے حدود شرعیہ کو پار نہیں کیا۔ اور ہر مسئلے کو صرف’دینی ذہن‘ سے سوچا اور دین ہی کی رہنمائی میں ہر مشکل کا حل نکالا۔ ان سے عقیدت و محبت مومن میں ’دینی ذہن‘ پیدا کرنے کی ضامن ہے۔ ان کے ساتھ عقلی و جذباتی تعلق ہمارے اندر ’نسبت‘ کی حمیت پیدا کر سکتا ہے۔ جو بعض اوقات چند لمحات میں دینی ذہن کی تعمیر کردیتی ہے۔ اور جس کا فقدان ہماری تباہی و بربادی کا ایک بنیادی سبب ہے۔ ہمیں پوری کوشش کرنا چاہیے کہ ہمارے سنی بھائیوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے وہی عقیدت و محبت حاصل ہو جائے جس کے یہ نفوسِ قدسیہ مستحق ہیں۔

     

  1. علماء ومشائخ اور ان کے مشورے سے دینی شعور رکھنے والے مسلمان خصوصاً اونچے درجے کے جدید تعلیم یافتہ دیندار حضرات عوام سے دینی ربط جلد از جلد اور بقدرِ امکان زیادہ سے زیادہ پیدا کریں۔ یہ ربط عام مسلمانوں کے ہر طبقہ کے ساتھ قائم کیا جائے۔ تعلیم یافتہ طبقہ سے بھی، اور جاہل عوام سے بھی۔ طلبہ، مزدوروں، کاشتکاروں، زمیندار، ملازمین حکومت، امراء، رؤساء، تجار وغیرہ کسی طبقہ اور گروہ کو فراموش نہ کیا جائے۔ سب سے خالصۃً لوجہ اللہ ربط پیدا کر کے ان کے ذہن کو دینی بنانے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کی سعی بلیغ کی جائے۔ جب قوم کا اجتماعی ذہن دینی ہوجاتا ہے تو ایک دینی فضا بن جاتی ہے۔ جس کا اثر انفرادی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ اور افراد بھی بقدرِ صلاحیت دینی ترقی کرتے ہیں اور صالحین کی تعداد بڑھتی ہے۔ گنہگار بھی گناہ کو گناہ سمجھ کر اس کا ارتکاب کرتے ہیں، اور اس پر نادم بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ ہمارے ملک کےاکثرو بیشتر باشندے علم سے محروم ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کا تناسب غالباً ٥ فیصد بھی نہیں ہے۔ اس لیے محض مضامین لکھنا اور قلمی خدمت کرنا کسی طرح کافی نہ ہوگا بلکہ وعظ و تقریر، جلسے، چھوٹی مجلسیں، شخصی ملاقاتیں وغیرہ جملہ ذرائع استعمال کرنا لازم ہیں۔ مساجد میں تقریریں بھی کافی نہیں ہیں۔ شدید ضرورت ان لوگوں تک پہنچنے کی ہے جو مساجد کا رخ ہی نہیں کرتے۔ ان کے گھروں اور مجلسوں تک ہمیں پہنچنا چاہیے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ صرف شہروں تک کام کو محدود کر دینا مناسب نہیں ہے بلکہ دیہاتوں میں بھی پہنچنا اور وہاں کی آبادی کے ساتھ ربط پیدا کرنا بھی بہت اہم اور ضروری ہے۔

  2. ان سب چیزوں کے ساتھ نہایت الحاح و زاری کے ساتھ بارگاہِ ارحم الراحمين میں پاکستان اور ملت اہلسنت والجماعۃ کی سلامتی و حفاظت اور غلبہ کے لیے دعاء کا التزام ہونا چاہیے۔ ختم آیۃکریمہ یا ختم خواجگاں اور اس قسم کے دیگر اذکار و ادعیہ کا سلسلہ جاری رکھنا ان شاء اللہ مفید و نافع ہوگا ’یا سلام‘ کا ورد بھی مفید ہے۔ بہر کیف الحاح کے ساتھ دعاء لازم ہے۔

حالات دیکھتے ہوئے ایک فیصد بھی اس کی توقع کرنا مشکل ہے کہ حضرات علماء ومشائخ میری اس عرضداشت کی طرف توجہ فرمائیں گے۔ عمل کرنا تو بڑی چیز ہے، مجھے تو اس کی توقع بھی بہت کم حضرات سے ہےکہ وہ اس مضمون کو غور سے پڑھیں گے۔ تاہم میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔

إن أرید إلا الإصلاح مااستطعت وما توفيقي إلا باللہ علیہ توکلت.

٭٭٭٭٭

Exit mobile version