ریا اور حُبِّ دنیا اور ان کا علاج

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ، اَمَّا بَعْدُ

ریا (دکھاوا) کیا ہے؟

ریاکہتے ہیں کسی عبادت اور نیکی کو کسی شخص کو دکھانے کے لیے کیا جاوے اور اس سے کوئی دُنیوی غرض اور اس سے مال یا جاہ حاصل کرنے کی نیت ہو۔

لیکن اگر اپنے استاد یا مرشد یاکسی بزرگ کو اس نیت سے اچھی آواز بناکر قرآنِ پاک سنائے کہ اُن کا دل خوش ہوگا تو یہ ریا نہیں، جیسا کہ روایت حدیث کی موجود ہے کہ ایک صحابی کا قرآن رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا اور دن میں اُس کو مطلع فرما کر اظہارِ مسرت فرمایا تو اُن صحابی نے عرض کیا کہ اگر ہم کو علم ہوتا کہ آپ سُن رہے ہیں تو میں اور عمدہ تلاوت کرتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر سُکوت فرمانا اور نکیر نہ فرمانا مدلولِ مذکور کے لیے دلیل ہے۔

مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص اعمالِ خیر (رضائے حق کے لیے ) کرتا ہے اور لوگ اُس کی تعریف کرتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ لوگ اُس سے محبت کرتے ہیں (تو آپ کی کیا رائے ہے)؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ‘، یہ مومن کی جلد ملنے والی بشارت ہے۔

یعنی یہ دُنیا کا انعام ہے، آخرت کا انعام اِس سے الگ ہے۔اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ لوگوں کے دیکھ لینے کے خوف سے اپنا نیک عمل ہی چھوڑ دیتے ہیں، یہ صحیح نہیں بلکہ محققین مشائخ نے فرمایا کہ نیک عمل جس طرح مخلوق کے لیے کرناریا ہے اِسی طرح مخلوق کے خوف سے یعنی ریا کے خوف سے کسی عملِ خیر کا ترک کرنا بھی ریا ہے۔ پس جس معمول کا جو وقت ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے اُسی وقت کرلے، کسی کے دیکھنے نہ دیکھنے کی ہرگز پروا نہ کرے۔ ریا ایسی بلا نہیں جو بدون نیت اور ارادہ خودبخود کسی کو چمٹ جائے ۔جب تک دکھاوے کی نیت نہ ہو،اور نیت بھی غرضِ دُنیا کی ہو تب ریا ہوتی ہے،اور اگر نیت تو رضائے حق کی ہے مگر پھر دل میں وسوسہ آتا ہے کہ شاید اِس عبادت سے ریا کاری کررہا ہوں تو یہ وسوسۂ ریا ہے، جس کی ہرگز پروا نہ کرے اور نہ پریشان ہو ورنہ شیطان وسوسہ ڈال کر اِس عملِ خیر سے محروم کردے گا یعنی خوفِ ریا پیدا کرکے آپ کو اِس عمل ہی سے روک دے گا۔

حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے اِس کی عجیب مثال دی ہے کہ آئینہ کے اُوپر جب مکھی بیٹھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکھی آئینہ کے اندر بھی موجود ہے حالاں کہ وہ باہر بیٹھی ہوتی ہے۔ اِسی طرح سالک کے قلب کے باہرشیطان ریا کا وسوسہ ڈالتا ہے اور سالک سمجھتا ہے ہائے یہ تومیرے قلب کے اندر ہے۔پس اِس کو ریا نہ سمجھے بلکہ وسوسۂ ریا سمجھے اور بے فکری سے کام میں لگا رہے۔

ترمذی شریف میں روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ !میں اپنے گھر میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرے پاس آدمی آگیا اور مجھے یہ حالت پسند آئی کہ اُس نے مجھے اِس حالت میں دیکھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ہریرہ! اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے ،تیرے لیے دو اجر ہیں،ایک اجر پوشیدہ کا، ایک اجر علانیہ کا۔

اِس حدیث سے کس قدر عابدین کے لیے بشارت ہے۔کبھی اپنی عبادت کا اظہار جاہ کے لیے ہوتا ہے،یہ بھی بدترین ریا ہے مثلاً احباب کے حلقے میں یہ کہنا کہ آج تہجد میں بہت لطف آیا اور خوب رونا آیا۔ اور بہت سویرے آنکھ کھل گئی ۔یہ باتیں سوائے اپنے مرشد کے کسی کے روبرو نہ کہنا چاہیے۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک صاحب نے دو حج کیے تھے اور ایک جملے سے دونوں حج کا ثواب ضائع کردیا اور وہ اِس طرح کہ ایک مہمان کے لیے کہا کہ اے ملازم! تو اُس صراحی سے اِس کو پانی پلا جو میں نے دوسری بار حج میں مکہ شریف سے خریدی تھی۔

علاجِ ريا

ریا کا علاج حصولِ اخلاص ہے اور حدیثِ پاک میں اخلاص کی حقیقت یوں ارشاد ہے کہ عبادت اِس دھیان سے کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں کیوں کہ اگر ہم اُن کو نہیں دیکھتے تو وہ تو ہمیں دیکھ ہی رہے ہیں۔ جب حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا دھیان ہوگا مخلوق کا خیال نہ آئے گا۔اور یہ مراقبہ یعنی دھیان مشق کرنے سے دل میں قائم ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر خلوت میں بیٹھ کر یہ تصورجمایا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو دیکھ رہے ہیں۔ کچھ مدت تک اِس طرح مشق سے استحضارِ حق آسان ہوجاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اخلاص کا حصول اور ریا سے طہارت اہل اللہ کی صحبت اور اُن سے اصلاحی تعلق قائم کیے بغیر عادتاً ناممکن ہے۔ اِس لیے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اصلاحِ نفس کے لیے مشائخ کاملین میں سے جس سے مناسبت ہو تعلق قائم کرنا فرضِ عین ہے کیوں کہ مقدمہ فرض کا فرض ہوتا ہے۔

حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جس نیک کام میں لگا ہے ریا کے خوف سے ترک نہ کرے اور اپنی نیت درست کرے اور زبان سے بھی کہہ لیا کرے کہ یا اللہ !یہ نیک عمل آپ کی خوشنودی کے لیے کرتا ہوں۔ پھر اگر خدانخواستہ نفس کی شرارت سے یہ ریا بھی ہوگی تو چند دن میں یہ عادت بن جائے گی۔

اِس مضمون کو حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اِس شعر میں بیان فرمایا ہے

وہ ریا جس پر تھے زاہد طعنہ زن
پہلے عادت پھر عبادت بن گئی

دُنیا کی محبت کی بُرائی میں

یوں تو دُنیا دیکھنے میں کس قدر خوش رنگ تھی
قبر میں جاتے ہی دُنیا کی حقیقت کھل گئی

(اختر)

دُنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔ آخرت سے غفلت کا سبب یہی دھوکے کا گھر ہے جو قبرستان میں سلا کر ایک دن بے گھر کردیتا ہے اور موت کا گہری فکر سے مراقبہ کرنے سے دُنیا کی محبت دل سے نکل جاتی ہے۔ قبرستان بھی گاہ گاہ جاکر خوب غور سے سوچے کہ یہاں بوڑھے ، جوان ، بچے، عورت، مرد، امیر، غریب حتیٰ کے وزرا اور سلاطین بھی آج کیڑوں کی خوراک بن کر بے نام و نشان ہوگئے ۔

کئی بار ہم نے یہ دیکھا کہ جن کامعطر کفن تھا مُشیَّن بدن تھا
جو قبر کہن اُن کی اُکھڑی تو دیکھانہ عضوِ بدن تھا نہ تارِ کفن تھا

(نذیر اکبر آبادی)

آکر قضا باہوش کو بے ہوش کر گئی
ہنگامۂ حیات کو خاموش کر گئی

(اختر)

دُنیا اور آخرت کا امتزاج اور ارتباط کا فلسفہ حضرت عارف رومی رحمۃاللہ علیہ متکلم اُمت نے یوں حل فرمایا ہے:

آب اندر زیر کشتی پُشتی است
آب در کشتی ہلاک کشتی است

دُنیاکی مثال پانی سے اور آخرت کی مثال کشتی سے دی ہے کہ جس طرح پانی کے بغیر کشتی چل نہیں سکتی مگر شرط یہ ہے کہ یہ پانی نیچے رہے کشتی میں داخل نہ ہو، اگر پانی اندر داخل ہوا تو یہی کشتی کی ہلاکت کا بھی سبب ہوگا جو نیچے روانی کا سبب تھا۔

ٹھیک اِسی طرح دُنیا اگر دل کے باہر ہو اور دل میں حق تعالیٰ کی محبت غالب ہو یعنی نعمت کی محبت سے نعمت دینے والے کی محبت غالب ہو تو آخرت کی کشتی ٹھیک چلتی ہے اور اِسی دُنیا سے دین کی خوب تیاری ہوتی ہے، اور اگر دُنیا کی محبت کا پانی دل کے اندر گھس گیا یعنی آخرت کی کشتی میں دُنیا کا پانی داخل ہوگیا تو پھر دونوں جہاں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ دُنیا کا نفع اور سکون بھی چھن جاوے گا جس طرح کشتی کے غرق ہوتے وقت پھر وہ پانی کشتی کے لیے باعثِ سکون ہونے کے بجائے باعثِ ہراس و تباہی ہوجاتا ہے، پس نافرمان انسان کے پاس یہ دُنیا سببِ نافرمانی بن جاتی ہے اور اللہ والوں کے پاس یہ دُنیا فرماں برداری میں صرف ہوتی ہے اور باعثِ سکون و چین ہوتی ہے۔

تعجب ہے کہ دُنیا کا پیدا کرنے والا تو دُنیا کو قرآن میں دَارُ الغرور (دھوکےکا گھر) فرمائے اور ہم مخلوق ہوکر اِس دھوکے کے گھر سے دل لگائے بیٹھے ہیں۔ حق تعالیٰ نے دُنیا کی محبت اور حیاتِ دُنیا سے اطمینان اور خوشی کا سبب آخرت پر عدمِ یقین ارشاد فرمایا ہے ورنہ آخرت کی فکر کے ساتھ تو ذکر ِالٰہی کے سوا کوئی چیز باعثِ اطمینان نہیں ہوسکتی۔ چوبِ بوسیدہ پر سہارا لگا کر کھڑا ہونا جس طرح حماقت ہے اسی طرح موت کے یقینی آنے کے باوجود دُنیا کی لذّتوں کو سہارۂ اطمینان بنانا بھی حماقت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی پیاری دُعا مانگی کہ اے اللہ ! جب اہلِ دُنیا کی آنکھیں تو اُن کی (فانی) دُنیا سے ٹھنڈی کرے تو ہماری آنکھیں اپنی عبادت سے ٹھنڈی فرما (جس کی لذّت غیر فانی ہے) ۔

رنگِ تقویٰ رنگِ طاعت رنگ ِ دیں
تا اَبد باقی بود بر عابدیں

(رومی)

تقویٰ اور عبادت کا رنگ عابدین کی ارواح پر ہمیشہ قائم رہتا ہے کیوں کہ وہ معبود بھی تو حیّ و قیوم ہے۔

حُبِّ دُنیا کا علاج

  1. موت کو بار بار سوچنا اور قبر کی تنہائی اور دُنیا سے جدائی کا مراقبہ کرنا۔

  2. ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں دُنیا کی حقیقت‘‘ احقر کی اِس کتاب کا مطالعہ ہرروز چند منٹ کرلیا جاوے جس میں اُن احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کردیا گیا ہے جن کو پڑھ کر دل نرم ہوجاتا ہے اور آخرت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ کتاب ایک سو پچاس حدیثوں کا مجموعہ ہے۔

  3. اللہ والوں کی مجالس میں بار بار حاضری۔ بلکہ کسی اللہ والے سے جس کسی سے مناسبت ہو باضابطہ اصلاحی تعلق قائم کرلینا شفائے روح کے لیے اکسیر ہے۔

  4. دُنیا کے عاشقوں سے دور رہنا کہ اس کے جراثیم بھی متعدی ہوتے ہیں۔

  5. گاہ گاہ قبرستان میں یادِ آخرت کی نیت سے حاضری دینا۔

  6. ذکر کا اہتمام و التزام کسی دینی مربی کے مشورے سے کرنا۔

  7. آسمان اور زمین، چاند و سورج اور ستاروں میں اور رات دن کے آنے جانے میں غور کرنا اور اپنے خالق اور مالک کو پہچاننا اور اُن کو حساب دینے کی فکر کرنا۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین!

(ماخوذ از: روح کی بیماریاں اور ان کا علاج)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version