مسجد تو بنا دی شب بھر میں……
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں پر کیا لذت اس رونے میں
جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
شب بھر میں جس مسجد کو بنانے کی بات ہے تو ایک تو لاہور میں قائم ’شب بھر مسجد‘ ہے اور دوسری مسجد سے مراد ’پاکستان‘ ۔ اس پاکستان کو جذبے اور جنونِ صادق سے بہت کم وقت میں بنا لیا گیا، لاکھوں سر کٹے، لاکھوں عزتیں لٹیں، قربانیاں لگیں وطن بن گیا، حدود اربعہ متعین ہوا۔ لیکن ’من اپنا پرانی پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا‘۔ نمازی، نمازی بھی ہے اور غازی بھی۔ انہی غازیوں اور نمازیوں نے اب اس عمارتِ مسجد کو حقیقتاً ’مسجد‘، جہاں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوتی ہو بنانا تھا، وہ مسجد جہاں نظامِ شریعت حاکم ہوتا ہے کسی طاغوت کا ورلڈ آرڈر نہیں۔ مسجد اقامتِ اسلام کی بہترین مثال ہے، اسلام کے سارے نظام کا مرکز ہے۔ نظامِ مسجد وقتِ فرض پر کسی کو گنجائش نہیں دیتا، کوئی امیر ہو یا بادشاہ۔ بلکہ نظامِ مسجد میں اگر اس نظام کو چلانے والا ’امام‘ اگر موجود نہ ہو تو نظامِ مسجد اس امام کے بعد بہترین شخص کو وقتی امام بھی بنا دیتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر امام کسی کجی کا شکار ہو رہے تو یہاں امام بدلا جا سکتا ہے لیکن نظامِ خدا اور پکارِ فرض پر عملِ لبیک نہیں۔ یہی حال کچھ ہمارا بھی ہے، برسوں کے پاپی من نے ہمیں نہ نمازی بنایا اور نہ وہ غازی جو یہاں اقامتِ نماز اور حفاظتِ اقامتِ نماز کرتا۔
ایک طرف نام و نسب کا حجازی فیصل ابنِ شریفِ مکہ ہے اور ان باپ بیٹا بلکہ ان کی اولاد کی آج تک کی تاریخ اسلام سے غداری کی ہے اور اسی طرح نام و نسب کے خادمینِ حرمین شریفین کا خاندان آلِ سعود بھی ہے۔ ہمیں ان خاندانوں سے کوئی بغض و عناد نہیں سوائے اس بات کے، کہ انہوں نے پرچمِ اسلام کو حجاز و نجد اور شام و عراق میں سرنگوں کر دیا اور طواغیتِ زمانہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کر کے نظامِ کفر کے جھنڈے سر بلند کر دیے۔ ایسوں ہی کے لیے لیبیا کی سنوسی تحریک کے ایک بلند قامت قائد عمر المختار کا قول و عمل سے مزین پیغام ہے ، جب انہیں پرچمِ اسلام گرا کر کفر کے سامنے تسلیم ہو جانے کو کہا گیا تو انہوں نے جواباً کہا’’نحن قوم لا نستسلم ، ننتصر أو نموت‘‘، ’’ہمارا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے جو تسلیم ہو جانا نہیں جانتی، ہم یا ظفرمند ٹھہرتے ہیں یا جامِ شہادت پی لیتے ہیں‘‘۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے جس کے متعلق ماہر القادری مرحوم نے کہا تھا:
سلام اسؐ پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
اسی سرفروشی کے فسانے میں آج ملا عمر نے ایک ٹکڑا بڑھایا اور کفر کے سامنے تسلیم ہونے سے انکار کر دیا اور عشق و مستی میں کہا ’’ایک طرف بش کا وعدہ ہے جو ہمیں شکست و ریخت کا شکار کردینے کا کہتا ہے اور دوسری جانب اللہ کا وعدہ ہے، دیکھتے ہیں کس کا وعدہ سچا ہوتا ہے‘‘، اور اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا۔ نام و نسب کا حجازی ہونا نہیں قلب و روح کا حجازی ہونامطلوب ہے۔ محض خانہ پری کر کے رحمۃ للعالمین اتھارٹیاں بنانا نہیں، رحمۃ للعالمین کی شریعت کو قانون بنانا مطلوب ہے۔
خطبوں اور شعر و نثر سن پڑھ کر کسی کیفیتِ خاص میں آنسو تو ہماری آنکھوں سے چھلک جاتے ہیں مگر یہ آنسو دل کے اقرار سے نہیں نکلتے، ایک محفل میں آنسو اور اگلی میں وہی قلب و ذہن کا دنیا کے رقص و سرود میں مشغول ہو جانا، عصیاں کی بستی میں وہی نافرمانیاں…… گھاٹے کا سودا ہے۔
پھر اپنے پچھلے سبھی اشعار میں بیان کردہ افکار کو اس آخری شعر میں سمو کر اقبالؒ بے عملوں کو کہہ رہے ہیں کہ ہم سب اچھی اچھی باتیں تو خوب کرلیتے ہیں لیکن مطلوب تو کردار و عمل ہے۔ دین کا اہم ترین ستون نماز پکارے تو نماز اور وقتِ جہاد ہو تو یہی نمازی غازی نظر آئیں!
٭٭٭٭٭