الامام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتوی کی بابرکت تحریک میں یقیناً اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والی تمام تحریکات کے لیے اسباق ہیں، تاہم بالخصوص وہ تحریکات جو مسلح جدوجہد میں بظاہر وقتی ناکامی سے دوچار ہوں تو ان کے لیے اس تحریک کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اس تحریر میں اختصار سے الامام الکبیر کی تحریک کے مراحل کا ذکر اور ہر مرحلے میں ان کی اختیار کردہ حکمتِ عملی کا بیان ہے اور ساتھ تجزیہ بھی ہے۔ (محمد مثنیٰ حسان)
پوری امت کی سطح پر نہ بھی کہیں تو بالخصوص برصغیر کی سطح پر ماضی قریب کی دینی تحریکات میں سے نمایاں ترین تحریک الامام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتوی1 کی تحریک ہے۔ برصغیر کا ہر دینی مکتبِ فکر یقیناً اس تحریک سے واقف ہے، وگرنہ ان کے ہاتھ سے لگائے ہوئے دار العلوم دیوبند کے شجر کی شاخیں تو چہار دانگِ عالم میں اپنے ثمرات دے رہی ہیں، اور پورا عالمِ اسلام ہی ان کی علمی خدمات سے واقف ہے۔ یہاں ہم بطورِ اقامتِ دین کی تحریک…… آپ کی تحریک کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور آج کے دور میں اقامتِ دین کی ہر تحریک سے وابستہ افراد کے سامنے اس کا مثال پیش کرنا چاہتے ہیں۔
اقامتِ دین کی تحریک…… کامیابی وناکامی کے عوامل
دینِ اسلام کا نام لیوا ہر فرد، اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کا ہر قاری، پیارے حبیب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے واقف ہر مسلمان …… اگر ہوائے نفسانی اور شبہات سے بالاتر ہو…… تو یہ بات جانتا ہے کہ اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ یہ دین اپنی نہاد میں تو ہر حال میں ہی غالب ہے۔ دلیل وحجت اور حقانیت کے میدان میں سب ادیان اور سب افکار پر غالب ہے۔ البتہ اپنے ماننے والوں سے اس کے سیاسی غلبے کی جدوجہد کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ بدقسمتی کہیے یا شامتِ اعمال…… ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ یہ دین خود ان خطوں میں بھی قائم نہیں جہاں کی اکثریت مسلمان ہے اور جہاں یہ دین تیرہ صدیوں تک غالب تھا۔ اور اسی وجہ سے ہر خطے میں اقامتِ دین کی تحریکات برسرِ عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یقیناً اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کی مدد ونصرت فرمائے گا [إِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ]، اور دین کو غالب کرے گا [وَلِیُمَکِّنَ لَھُمْ دِیْنَھُم]۔ تاہم اقامتِ دین کے سارے عمل کی کامیابی وناکامی کو بعض دنیوی عوامل سے بھی جوڑ رکھا ہے۔ دین برحق، اس کی دلیل وحجت بھی برحق، اس کی جدوجہد کرنے والا بھی برحق، مگر دنیا میں اس کی جدوجہد کی کامیابی وناکامی کا مدار ……تقویٰ وللہیت کے بعد…… اس کے فہم، اس کی صلاحیت اور اس کی تدبیر سے وابستہ ہے۔ الٰہی پیمانوں میں اس کی ہر تدبیر کو پرکھا جاتا ہے اور اس کے وہی عواقب منصہ شہود پر آتے ہیں جو اس کی تدبیر کا خاصہ ہوتے ہیں۔ یہی تو [لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا] والی آزمائش ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے کہ جس سے کوئی بھی اقامتِ دین کی تحریک مستغنی ہے اور نہ مستثنیٰ ہے۔ لہٰذا ہر اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والے فرد کو یقیناً [وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْن] کے وعدے پر یقین رکھنا چاہیے، تاہم اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ
-
رب تعالیٰ سے طلبِ توفیق واعانت کے بعد
-
شرعی وعقلی پیمانوں پر مصالح ومفاسد کا درست تجزیہ کرکے تدبیر کرے،
-
پھر خود احتسابی کے ساتھ اپنی تدابیر کا جائزہ لیتا رہے اور اس کے مطابق تدبیر کی درستی کا عمل جاری رکھے۔
-
اور ہر تدبیر سے قبل توکل اللہ ہی پر کرے۔
یہی وہ عوامل ہیں جو کسی بھی دینی تحریک کو اس کے اہداف میں کامیابی سے ہمکنار کراتے ہیں، اور اللہ کا وعدہ اس کے حق میں سچا ثابت ہوتا ہے۔
آئیے اب ہم الامام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتوی کی تحریک پر بات کرتے ہیں۔
تحریکِ قاسمی کے مبادی
کسی بھی اقامتِ دین کی تحریک کا پہلا قدم اپنے سیاسی حالات [فقہ الواقع] کا جائزہ اور اس کے مطابق شرعی فرائض [فقہ الواجب] کا تعین ہوتا ہے۔ اس کے مطابق آئندہ کی حکمتِ عملی طے ہوتی ہے۔ اس باب میں الامام الکبیر کے سامنے مقصد اور منزل اول روز سے واضح تھے۔ ہندوستان میں اب اسلامی حاکمیت نہیں تھی، انگریز کے تسلط کے بعد یہ دار الحرب بن چکا تھا، اور یہاں دوبارہ اسلامی حاکمیت کی بحالی کے لیے جہاد فرض ہوچکا تھا۔ تحریکِ قاسمی میں آخری مرحلے تک ان مبادی میں فرق نہیں آیا، آپ کی زندگی میں بھی یہی رہے اور آپ کے بعد آپ کے شاگردوں کے یہاں بھی یہی رہے۔ حالات کے پیچ وتاب نے مبادی پر گرد نہ پڑنے دی، اور یہ کسی بھی دینی تحریک کے لیے سب سے بنیادی نکتہ ہے کہ وہ جن مبادی پر اپنی سیاسی تحریک کو کھڑا کر رہی ہے، حالات کی سازگاری وناسازی ان مبادی پر اثر انداز نہ ہو۔ یہ ضروری ہے کہ حالات کو دیکھ کر حکمتِ عملی میں ردو بدل کیا جائے، کیونکہ یہ تو خود عقل ودانش اور تجربے کا تقاضا ہے کہ جہاں کسی تدبیر سے فائدہ نہ ہو، بلکہ نقصان ہو تو وہاں تدبیر بدل لی جائے۔ حتیٰ کہ جنگ کے اندر بھی اگر مجاہد ایک ہی روش پر اڑا رہے تو شکست کا منہ دیکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی کو اقبال مرحوم نے طرزِ کہن پر اڑنے سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن مبادی کا معاملہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ذرا سی ناکامی یا حالات کی ناسازی ہوئی ،تو اپنے مبادی ہی سے رجوع کر لیا اور جو پہلے باطل تھا، یا اس سے مفاہمت کرلی یا اسی کو حق ٹھہرالیا۔ تحریکِ قاسمی کے تمام مراحل میں…… جیسا کہ آگے بیان ہوگا…… مبادی پر اہلِ عزیمت ڈٹے رہے، اور وہ تھے ہند سے انگریز کی بے دخلی اور اسلامی حاکمیت کے قیام کے لیے جہاد وجدوجہد۔
تحریکِ قاسمی کے مراحل
پہلا مرحلہ: ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے موقع پر مسلح تصادم
کسی بھی تحریک کے لیے مسلح تصادم اسی وقت موزوں ہوتا ہے جبکہ زمینی حالات اس کے لیے سازگار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر کسی بھی تحریک کو آغاز میں جبکہ حالات ہنگامی نہ ہوں تو مسلح تصادم کے مرحلے میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو کسی بھی دینی تحریک کے لیے آخری مرحلہ ہونا چاہیے کہ جب حالات اس کے حق میں سازگار ہوجائیں اور دشمن کی طرف سے بھی اب مزاحمت کی آخری تدبیر شروع ہوجائے تو وہ مسلح تصادم کا بہترین وقت ہوتا ہے، اور اس میں کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہنگامی حالات کی بات نہیں ہو رہی جبکہ دشمن کی طرف سے آپ کو خود جنگ کی طرف دھکیل دیا جائے، ایسے میں جب آپ کے مبادی میں ہی دشمن کےساتھ مسلح تصادم کی بنیاد موجود ہو تو لامحالہ دفاعی جہاد کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی الامام الکبیر مولانا قاسم نانوتوی کے ساتھ ہوا۔ جس وقت وہ اپنی جوانی کے عروج پر تھے اور تعلّمِ علومِ دینیہ سے فارغ ہوچکے تھے، تو سامنے ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کو پایا۔ حالات ہی ایسے تھے کہ انگریز کے خلاف وسائل اور عدد کی قلت کے باوجود جہاد وقتال کی کوشش شروع تھی، اور خود اس وقت کے کبار علمائے ہند کی رائے میں بھی جہاد او وہ بھی قتال فرض تھا، جن میں صدر الصدور مفتی صدر الدین خان آزردہ، علامہ فضلِ حق خیر آبادی وغیرہ شامل تھے۔ الامام الکبیر کی حیثیت اگرچہ اس وقت طالبِ علم کی سی تھی کہ آپ کی عمر کی تیسری دہائی تھی، مگر آپ بھی بالجزم اس فرضِ جہاد کے قائل تھے۔
-
جب شرعی دلیل کا بھی یہی تقاضا تھا،
-
اور دشمن کی طرف سے بھی جنگ مسلط تھی، اور
-
مسلمانوں میں بھی جوش وولولہ بھرپور تھا۔
یہ اسباب کافی تھے کہ مسلح تصادم اور جنگ کی طرف بڑھا جاتا، اور یہی ہوا۔ سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نور اللہ مرقدہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی، اور انگریز کے خلاف جنگ شروع کردی گئی جس میں شاملی کا معرکہ بہت مشہور ہے۔ تاہم مجاہدین کا یہ واحد طلیعہ نہیں تھا جس کی ہر تدبیر پر جنگ منحصر تھی، بلکہ مسلمانوں میں کوئی وحدت ہی نہ تھی اور مختلف گروہ اور طلائع بے ہنگم جنگ کر رہے تھے۔ ایسی کسی بھی جنگ میں اللہ کی سننِ کونیہ کے مطابق یہی فیصلہ ہونا تھا کہ مسلمان بشمول طلیعہ الامام الکبیر شکست سے دوچار ہوئے۔ انگریز غالب آگئے، مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر سزائیں دی گئیں۔ اور ہمارے مذکورہ طلیعہ میں سے امیرِ طائفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ، الاما م الکبیر مولانا قاسم نانوتوی اور قطب الارشاد حضرت رشید احمد گنگوہی انگریز حکومت کی نظر میں آگئے اور ان کے وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔
اس مرحلے سے حضرات علماء اور بالخصوص الامام الکبیر کو یہ معلوم ہوچلا کہ جو ہدف رکھا گیا ہے، اس میں جنگ کوئی وقتی نہیں ہے کہ جسے چند دنوں میں پار کرنا ناگزیر ہے، بلکہ مطلوبہ ہدف کے حصول کے لیے ابھی بہت ’وقت‘ اور بہت ’تیاری‘ درکار ہے۔ دشمن سے بچ کر ’وقت‘ حاصل بھی کرنا ہے، اور دشمن کے خلاف ’تیاری‘ بھی کرنی ہے۔ بقول مولانا مناظر احسن گیلانی:
’’یہ ہنگامہ اگر اس وقت کی زمین ہند پر ختم ہوگیا تھا تو ان بزرگوں کے دل ودماغ سے ختم نہ ہوا تھا جو برابر مستعد رہے اور آگے بڑھتے چلے گئے‘‘۔2
دوسرا مرحلہ: در بدری وروپوشی
جنگ کا مرحلہ ختم ہوا اور انگریز غالب آگیا اور اس کی حکومت قائم ہوگئی۔ تاجِ برطانیہ اب پورے ہندوستان پر قابض ہوچکا تھا۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ یہی عقل کا تقاضا تھا کہ جنگ کے تمام ’مجرمین‘ کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، اور حکومت کی طرف سے اسی کی کوشش شروع ہوگئی۔ کتنوں کو ہی گرفتار کیا گیا اور مختلف جزیروں میں جا قید کیا گیا، جیسا کہ علامہ فضلِ حق خیر آبادی کے ساتھ ہوا، کتنوں کو ہی پھانسیاں دی گئیں اور کتنوں کی تلاش شروع ہوگئی۔ امیرِ طائفہ حضرت حاجی صاحب، الامام الکبیر اور رفیقِ خاص قطب الارشاد کے بھی وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے گئے، اور انھیں پکڑنے کے لیے حکومت کے عسکری ادارے فعال ہو گئے۔
ایسے وقت میں کسی بھی دینی تحریک سے وابستہ فرد کے سامنے دو ہی آپشن ہوتے ہیں؛
-
یا وہ دشمن کے سامنے ہتھیار رکھ کر تسلیم ہوجائے،
-
یا پھر وہ روپوش ہوجائے، خود کو دشمن سے آخری حد تک چھپائے اور بہتر وقت کا انتظار کرے۔
پہلا آپشن رخصت کا آپشن ہے، اور اس کی گنجائش بھی ہے، جیسا کہ دورِ نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام میں سیدنا عاصم بن ثابت کے سریے میں تین صحابہ کرام کا معاملہ تھا۔ تاہم تسلیم ہونے میں اس بات کا قوی اندیشہ ہوتا ہے کہ غالب باطل قوت تسلیم ہونے والے فرد کو دھوکہ دہی سے قتل کردے، جیسا کہ سریہ عاصم بن ثابت کے تینوں اصحاب کے ساتھ ہوا، اور یا پھر اسے حق سے رجوع کرنے پر مجبور کر دے۔ مسئلہ پہلی صورت کا اتنا نہیں کہ اس میں تو اخروی کامیابی ہے، گو دنیوی اعتبار سے ناکامی ہے۔ تاہم دوسری صورت انتہائی خطرناک ہے کہ ایسے میں اپنے ایمان ومبادی کا سودا ہے، جو دنیوی واخروی دونوں ہی ناکامیوں کا باعث ہے۔ تحریکوں کی زندگی میں سیادت پر فائز افراد اگر دوسری صورت کا شکار ہو جائیں تو یہ نہ صرف ان کے حق میں خسران الدنیا والآخرۃ ہوتا ہے، بلکہ ان کے پیروکار بھی ان کے ساتھ ہی پستی کی طرف رواں ہوجاتے ہیں، جبکہ باہر سے دیکھنے والے بھی آئندہ تن آسانی اور عافیت پسندی کو ہی اپنا شعار بنالیتےہیں۔
دوسرا آپشن کہ باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہونا، بلکہ اس سے روپوش ہوجانا اور اپنے مبادی پر من وعن کھڑا رہنا۔ یہ اہلِ عزیمت کا راستہ ہے۔ یہی راستہ چودہ قر ن میں اہلِ عزیمت اپناتے رہے۔ اس راستے میں اس بات کا امکان تو موجود ہے کہ وقت کا انتظار کرنے سے دوبارہ کبھی مناسب موقع ہاتھ آجائے گا کہ جس میں تیاری بھی کرلی جائے اور دوبارہ سے تحریک کو منظم کرلیا جائے۔
الامام الکبیر اور آپ کے رفقاء نے یہی دوسرا آپشن اپنایا اور دشمن کے سامنے تسلیم نہ ہوئے، بلکہ روپوش ہوگئے۔ تلاش جاری رہی، حضرت قطب الارشاد گنگوہی3 تو دھر لیے گئے اورچھ ماہ قید رہے، مگر باذن اللہ امیرِ طائفہ نور اللہ مرقدہ اور الامام الکبیر دشمن کے ہاتھ نہ آئے۔ روایات میں تو آتا ہے کہ الامام الکبیر کی مکمل روپوشی بھی محض تین دن رہی کہ انھوں نے فرمایا کہ روپوشی کی سنتِ نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام غارِ ثور میں تین دن کی ہے۔4 تین دن بعد وہ چھپ بیٹھنے کو ترک کرکے باہر آگئے، تاہم اب بھی دشمنوں کی نظر سے بچتے رہے۔ ہم اسے بھی ’روپوشی‘ سے ہی تعبیر کرتے ہیں اور یہ صورتِ حال ۵۷ء سے ۶۱ء تک پانچ سال رہی جیسا کہ مولانا مناظر احسن صاحب نے بیان کیا ہے۔ امیرِ طائفہ حضرت حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ کی تلاش میں بہت چھاپے مارے گئے، مگر آپ مشیتِ ایزدی سے محفوظ رہے اور بالآخر ہندوستان سے ہجرت کرکے بلادِ حرمین منتقل ہوگئے۔ یوں ایک کمان [انگریزی کی کمانڈ] بلادِ حرمین میں جا بیٹھی اور میدانی کمان یہیں ہندوستان میں موجود رہی، گو حکومت سے نظر بچا کر رہی۔ اس کے بعد اس تحریک کی عملی کمان الامام الکبیر کے ہاتھ میں ہی رہی، حضرت حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ کا کردار سرپرستی کا رہا۔
یہ بھی ایک اچھی حکمتِ عملی ہوئی کہ ہائی کمان تو ہجرت کرکے محفوظ ہوگئی اور لوئر کمان میدانِ عمل میں ہی موجود رہی۔5
اس مرحلے میں بھی دو اہم باتوں کی طرف الامام الکبیر کی سیرت سے ہمیں توجہ ملتی ہے۔ اول یہ کہ اس روپوشی کے مرحلے میں کامل روپوشی تو محض تین دن رہی، باقی سارے وقت میں اگرچہ دشمن سے نظریں بچائی گئیں، مگر مشاورت اور روابط کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ جب تک امیرِ طائفہ حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ یہاں رہے، تو یہاں بھی خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا6، اور جب آپ حجاز ہجرت کر گئے، تو الامام الکبیر بھی آپ کےپاس حجاز گئے اور یقیناً آئندہ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مشاورت ہوئی ہوگی7۔ یعنی اگرکسی اقامتِ دین کی تحریک سے وابستہ افراد ایسی صورت سے دوچار ہوں تو بھی خفیہ طور پر روابط کی بحالی پر توجہ رکھیں اور مشاورت کی کوششیں جاری رکھیں۔ اگر ہر کوئی فرد بند ہو کر بیٹھ جائے گا تو اکیلا ہی سوچے گا اور اکیلا ہی اقدام کرے گا، جو کسی بھی اجتماعیت کے لیے سود مند نہیں ہوسکتا۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ خفیہ سرگرمیوں سے کوئی بھی اقامتِ دین کی تحریک مستغنی نہیں ہوسکتی، کہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے، مگر کسی بھی اقامتِ دین کی تحریک کے لیے یہ وقتی مرحلہ ہونا چاہیے۔ وہ زمین پر اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ معاشرے میں اپنے وجود کو ظاہر نہ کردے اور اس کی قیادت معاشرے کی زندہ قیادت نہ بن جائے۔ پسِ پردہ کام کرنے والی تنظیموں (سیکرٹ آرگنائزیشنز) کا منتہیٰ محدود اور وقتی اہداف ہی ہوسکتے ہیں، غلبہ دین اور اقامتِ دین کا ہدف وہ صرف اسی صورت میں حاصل کرسکتی ہیں جب وہ خفیہ کے مرحلے سے نکل کر معاشرے میں اپنے وجود کو ظاہر کرنے کی منصوبہ بندی کریں، جیسا کہ الامام الکبیر کی تحریک کے اگلے مرحلے میں معلوم ہوگا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ الامام الکبیر کی زندگی میں یہی وہ تنہائی اور یکسوئی کا مرحلہ تھا، جب انھیں سماجی سرگرمیوں میں محدودیت اور عمل میں تیزی کا سامنا نہیں تھا، کہ روپوشی تو ہوتی ہی ایسی ہے۔ اس یکسوئی کے مرحلے میں آپ نے دو سال سے کچھ کم میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ اس سے قبل کی زندگی میں یہ موقع نہ مل سکا تھا تو یہاں موقع سے فائدہ اٹھایا، اور اس سعادت سے بہرہ ور ہوئے، بحمد اللہ۔ پھر اس عرصہ میں جن احباب نے الامام الکبیر کو دیکھا تو وہ بتاتے تھے کہ کثرت سے قرآنِ مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ سفرِ حجاز میں ایک ایک قرآن ایک رات میں ختم کرنے کا معمول تھا۔ اقامتِ دین کی تحریک کی بنیاد قرآنِ مجید سے لگاؤ اور اس سے تعلق پر ہی کھڑی ہوسکتی ہے، اور قیادت کے لیے تو اس سے چارہ ہی نہیں کہ قرآنِ مجید اس کا اوڑھنا بچھونا ہو۔ اقامتِ دین کی تحریک کا کوئی قائد، داعی یا کارکن …… جب حالات کی ناسازی کے سبب…… عملی جدوجہد سے گریزاں ہو تو یہی وہ بہترین موقع ہوتا ہے کہ وہ قرآنِ مجید کے ساتھ اپنے تعلق کو دوچند کرلے۔ جہاں بھی قرآنِ مجید کے ساتھ تعلق میں میں کمی ہوتی ہے، وہیں روحانی ومادی خسائر کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ تحریکِ قاسمی کے دوسرے قائد حضرت شیخ الہند نے اپنی ساری زندگی کی جدوجہد کا جو نچوڑ ہمیں بتایا تھا تو اس میں مسلمانوں کی ناکامی کے دو بنیادی اسباب گنوائے، جس میں سے پہلا سبب اسی قرآنِ مجید سے دوری کو بتلایا۔ اسی احساس کے ساتھ آپ نے پیرانہ سالی میں مالٹا کے قید خانے میں بیٹھ کر قرآنِ مجید کا ترجمہ لکھا اور اس کے حواشی لکھنے کی ابتداء کی تھی۔
تیسرا مرحلہ: معاشرتی جدوجہد اور تیاری کا مرحلہ
الامام الکبیر کی تحریک کا سب سے اہم مرحلہ یہی ہے ، اور یہ انتہائی قابلِ توجہ ہے۔ مشیتِ ایزدی سے مناسب موقع آپ کےہاتھ آگیا کہ جب حکومتِ برطانیہ نے بغاوت کچل دی اور اسے اطمینان ہوگیا کہ اس کے اصل ’مجرمین‘ یا کیفرِ کردار تک پہنچ گئے ہیں یا پھر ترکِ وطن کرچکے ہیں، تو اس نے عام معافی کا اعلان کردیا، اور یوں جن کے وارنٹِ گرفتاری جاری ہوئے تھے، وہ واپس لے لیے گئے۔ گو بعض مجرمین پھر بھی مستثنی تھے کہ جن کی گرفتاری کا حکم پھر بھی موجود تھا، اور انھی میں امیرِ طائفہ نور اللہ مرقدہ اور الامام الکبیر بھی تھے، مگر مرورِ زمن سے دشمن کی نظر میں کمی آگئی اور پانچ سال بعد سفرِ حجاز سے واپسی کے بعد اتنی تعقیب بھی نہ رہی کہ آپ اپنے گھر بھی تشریف لے گئے۔
اب الامام الکبیر کے سامنے میدانِ عمل کھلا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ جو ہدف لے کر چلے تھے، وہ ہدف تو غالب قوتِ انگریز سے تصادم اور اس سے قوم کو نجات دلا کر دوبارہ برصغیر میں اسلامی حاکمیت کی بحالی اور اسے دار الاسلام بنانا تھا8، وہ فوری حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ کیونکہ ایک بار تحریک مکمل طور پر کچلی جا چکی تھی۔ اب انگریز سے لڑوانے کےلیے نہ فوج تھی، نہ وسائل تھے، نہ عوامی حمایت تھی اور نہ حالات۔ بلکہ ان چاروں عناصر کو اب اول سر سے فراہم کرنا تھا۔ اس کے لیے آپ نے کیا اقدامات اٹھائے۔ تو آپ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس عرصے میں درج ذیل امور انجام دیے:
-
دینی مدارس کا قیام
-
فکری میدان میں باطل افکار اور قوتوں کا مقابلہ اور ان کی سرکوبی
-
مرکزِ خلافت کی تائید اور جہادِ خلافت کی زبانی اور مالی امداد کی کوشش
-
عملاً بیرونِ ہند جہاد وقتال میں شرکت کی کوشش
-
شرعی قضاء کا اجراء
الامام الکبیر کواپنی سابقہ تحریک کے تجربے سے اس قدر تو معلوم ہوگیا تھا کہ وہ جس عالی مقصد کے لیے برسرِ عمل ہیں، اس کے لیے ماہ وسال کی قید نہیں لگائی جاسکتی۔ بلکہ اس کے حصول کے لیے تیاری چاہیے اور تیاری کے لیے وقت اور زمانہ درکار ہے۔ لہٰذا آپ نے پہلا قدم یہ اختیار کیا کہ دشمن کے خلاف طریقِ جنگ کو بدلا جائے۔ دشمن جس عمل کو مزاحمت کا نام دے کر فوری کچل سکتا ہے، اس عمل کی بجائے ایسے اعمال کیے جائیں جو دشمن کی نظر میں براہِ راست مزاحمت کے ذیل میں نہ آتے ہوں، لیکن مقصد ان سے مزاحمت کی استعداد پیدا کرنا ہو۔
دینی مدارس کا قیام
اس کے ذیل میں سب سے پہلا کام الامام الکبیر نے یہ کیا کہ مدارس کے قیام کی کوشش شروع کی۔ دیوبند، میرٹھ، مراد آباد وغیرہ میں آپ نےمدارس کی بنا رکھی۔ ان سب میں سب سے زیادہ مقبول دیوبند کا مدرسہ ہوا، جس کی سرپرستی کے لیے بعد ازاں خود الامام الکبیر دیوبند منتقل ہوگئے۔ اس مدرسے کو منجانب اللہ ایسی مقبولیت ملی کہ آج دنیائے اسلام کی سطح پر اہل السنۃ والجماعۃ کے دائرے میں برصغیر کا سب سے بڑا مکتبہ فکر بن گیا، جبکہ اس سےباہر کی مسلم دنیا میں بھی اپنی بڑی تعداد رکھتا ہے۔ دار العلوم دیوبند نے جو تعلیمی وعلمی خدمات انجام دیں، اس کا ذکر ہماری اس تحریر کا مقصود نہیں ہے۔ یہاں الامام الکبیر کے اس قدم کی بابت دو باتیں کرکے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں:
اول: اقامتِ دین کی کوئی بھی تحریک جس کا مقصود ومنشور دینِ اسلام کو دنیا میں قائم ورائج کرنا ہو، وہ ایسی نہیں ہوسکتی کہ علومِ دینیہ سے اس کا تعلق بنیاد اور اصول کا سا نہ ہو۔ دین کا تو مفہوم ہی اس وقت سمجھ میں آتا ہےکہ جب دین وشرع کا علم حاصل ہوتا ہے۔ پھر یہ علم روایتی طریق پر ہی حاصل ہوسکتا ہے، ہر کس وناکس کو اپنی عقل اور دانش سے حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں اقامتِ دین کی وہ تحریکیں جن کا تعلق علمِ دینیہ کے ساتھ روایتی نہیں ہے، وہ اگرچہ اخلاص سے دین کی خدمت اور قائم کرنے کی محنت کرنا چاہیں بھی تو اس کمی کی وجہ سے اقامتِ دین کی خدمت کماحقہ نہیں کر پاتیں۔ کیونکہ روایتی علم سے محرومی کے سبب ان کے یہاں وہ پیمان اور معیار ہی نہیں بن پاتا کہ جس کی بنیاد پر مواقف اور آراء کے صواب اور درستی کا فیصلہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تحریکات کی ابتداء تو اقامتِ دین کے نعرے پر ہوتی ہے، مگر رفتہ رفتہ یہ سیاست کی بھول بھلیوں میں اپنی منزل سے دور نکل جاتی ہیں۔ اقامتِ دین کی کوئی بھی تحریک اس وقت ہی درست نہج پر چل سکتی ہے جب اس کی قیادت …… حقیقی یا حکمی9…… علمائے حق کے ہاتھ میں ہو۔ تحریکِ قاسمی تو اس لحاظ سے ایسی خوش قسمت تحریک تھی کہ اس کے اولین وآخرین سبھی علمائے حق تھے اور اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی علم وتعلم تھا۔ الامام الکبیر خود بھی چوٹی کے عالم تھے، آپ کے اساتذہ بھی چوٹی کے علماء تھے اور آپ کے رفقاء وتلامذہ بھی چوٹی کے علماء تھے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست، تا نہ بخشد خدائے بخشندہ!
ہاں! یہ ضروری ہے کہ اقامتِ دین کی کسی بھی تحریک کے علماء بھی حق گو اور راست باز ہوں، شریعت کے نہ صرف رموز شناس ہوں، بلکہ عمل کی معراج ہوں، نفسانی خواہشات اور ذاتی حظوظ سے بالا تر ہوں۔ اگر معاملہ اس کے برخلاف ہو تو محض عالم کا لفظ کسی تحریک میں خیر کو پھیلانے اور شر کو روکنے کا باعث نہیں ہوتا، نہ اس تحریک کی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے، الٹا غلط روی کا باعث ضرور بن سکتا ہے۔
دوم: تحریکِ قاسمی کے ذیل میں مدارس کا قیام ایک اعلیٰ مقصد کے تحت تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی دینی مدرسے کے قیام کا بنیادی مقصد نشر واحیائے علمِ دین ہوتا ہے۔ تاہم یہاں اس سے ماوراء ایک بڑا مقصد تھا اور وہ مقصد تھا کہ اقامتِ دین کی تحریک کے لیے افراد پیدا کیے جائیں، اور اقامتِ دین کی تحریک کے لیے مراکز قائم کیے جائیں10۔ بلاشبہ الامام الکبیر کی اسکیم انتہائی کامیاب اور انتہائی موثر اسکیم تھی۔ یہی وہ بنیادی حکمتِ عملی تھی جس نے بعد میں تحریکِ شیخ الہند کی صورت دھاری۔ اسی مدرسے کے قیام سے ایک طرف مسلمانوں کو اپنی اجتماعی جدوجہد کی نظم بندی کے لیے ایک مرکز ہاتھ آیا تو دوسری طرف یہیں سے رجالِ کار پیدا ہوئے جنھوں نے آئندہ چل کر تحریک کو آگے بڑھایا۔ اور اسی مدرسے کے سب سے پہلے طالبِ علم حضر ت شیخ الہند نے الامام الکبیر کی جانشینی کی۔
یہ اسکیم آج بھی ہر اقامتِ دین کی تحریک کے لیے ایک اہم اسکیم ہے۔ اقامتِ دین کے نعرے کو معاشرے کے اندر مراکز فراہم کرنے اور اس نعرے سے چمٹنے والے رجالِ کار پیدا کرنے کے لیے دینی مدارس کا احیاء ایک اہم حکمتِ عملی ہے۔ بالخصوص ایسی تحریک جو مسلح تصادم کے بعد مغلوب ہوچکی ہو اور معاشرے میں مسلح جدوجہد کے حوالے سے کام کے مواقع دستیاب نہ ہوں، تو آئندہ کام کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اور دشمنوں کی نظر سے محفوظ رہنے کے لیے اس اسکیم کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ ہم اسے محض مدرسہ کے قیام تک محدود نہیں دیکھتے، بلکہ کسی بھی وقتی شکست سے دوچار تحریک کے لیے اپنے آپ کو از سرِ نو منظم کرنے کے لیے دین کے عمومی مراکز کا قیام ناگزیر ہوتا ہے، جن میں مدارس کے ساتھ ساتھ مساجد، خانقاہیں اور رفاہِ عامہ کے ادارے سبھی شامل ہیں۔
فکری میدان میں باطل افکار کا تعاقب
اقامتِ دین کی تحریک کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ دین کی فکر کو اپنی جامع شکل میں پیش کرے، جس میں افراط وتفریط نہ ہو۔ وہ دین کے تمام شعبوں اور تمام کاموں کی بابت ویسی ہی مبنی بر توازن فکر رکھتی ہو، جیسا کہ حقیقت میں دین ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دین کے مقابلے میں باطل افکار کی بیخ کنی بھی کرتی ہو، اور ایسے افکار کا بطلان لوگوں کے سامنے ثابت کرتی ہو۔ مقصد ان دونوں سے مسلمانوں کے درمیان احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہے۔ جب تک حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا لوگوں کے سامنے واضح نہ ہو تو لوگ کیسے حق کی اتباع اور باطل سے منافرت پر آمادہ ہوں ،اور خود حق کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو؟ ہر غالب دشمنِ اسلام کے یہاں مسلمانوں کو سیاسی سطح پر مغلوب رکھنے کے لیے ایک موثر ہتھیار باطل افکار کی ترویج اور تشہیر ہوتا ہے، اور وہ اسی کے استعمال سے حق کو لوگوں کی نگاہ میں مشکوک ومشتبہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سارا کام کسی ہنگامے اور قتال کے وقت میں نہیں ہوسکتا، اس کے لیے سکون اور اطمینان کا ماحول درکار ہے۔ پھر اسی کام کے نتیجے میں تحریکوں سے وابستہ افراد معاشرے میں معروف ہوتے ہیں، ان کی شناخت پیدا ہوتی ہے، اور ان افراد کے سوشل دائرے میں تیزی سے وسعت پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر اس ساری محنت کو پابندِ تحریر بھی کیا جا رہا ہو تو یہ خود تحریک کے لیے لٹریچر کی فراہمی کا کام بھی دیتی ہے، اور اس لٹریچر کی تیاری سے تحریک کی فکر کی توزیع دوچند ہوجاتی ہے۔11
۱۸۵۷ء کی ناکامی اور برصغیر پر برطانیہ کے مکمل قبضے کے بعد اب دین دشمن قوتوں نے فکری میدان میں ابھرنا شروع کردیا، اور مسلمانوں میں شبہات اور فکری کجی پیدا کرنے کا کام شروع کیا۔ عیسائی برطانوی حکومت کے تحت عیسائیت پھیلانے کی کوششیں بھی شروع ہوگئیں، عیسائی پادریوں کو کھلی چھٹی مل چکی تھی کہ وہ بازاروں اور میلوں ٹھیلوں میں دوسروں کے عقائد پر نکتہ چینی کریں۔ ساتھ ساتھ ہندو پنڈتو ں کی بھی پذیرائی ہو رہی تھی کہ ہندو مت تو ہر ’ازم‘ کے ساتھ مصالحت کی صورت پیدا کرلیتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی اسلام کے خلاف بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور اسلام پر چوٹیں کر رہے تھے، جیسا کہ پنڈت دیانند سرسوتی کی ’ستیارتھ پرکاش‘ کی نشر وتوزیع کا واقعہ تھا۔ ایسے وقت میں ناگزیر ہوگیا تھا کہ اسلامی عقائد کی حقانیت دوسروں سے پہلے خود مسلمانوں میں واضح کی جائے، اور دوسری طرف باطل افکار کو دلائل کے میدان میں شکست دی جائے۔ یہی وہ خدمت تھی جس کی انجام دہی کے لیے الامام الکبیر نے وقت نکالا، آگے بڑھے اور دینِ اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا، اور یہی افکار پابندِ تحریر بھی ہوئے۔ یہ باطل قوتوں کے باطل افکار کے ساتھ مخالفانہ، مخاصمانہ اور مناظرانہ طریقِ اقدام تھا۔
دوسری طرف جب مسلمانوں کے مابین بعض فروعی مسائل پر اختلاف کو ایک طبقے کی طرف سے ہوا دی گئی تو اس میں بھی الامام الکبیر نے ایک طرف دلائل کے ساتھ یہ بیان کیا کہ ان مسائل کا شریعت میں اصلی محل کیا ہے اور دوسری طرف اپنے کردار سے یہ بھی بتلایا کہ ان مسائل میں مسلمانوں کے لیے باہم نزاع کی گنجائش نہیں۔ اس باب میں الامام الکبیر کا طریق مصالحانہ تھا۔12
یہ دونوں ہی باتیں کسی بھی اقامتِ دین کی تحریک کے سامنے رہنی چاہییں۔ باطل اور خطا کا فرق واضح رہنا بھی چاہیے اور واضح رکھنا بھی چاہیے، کیونکہ اسی فکر کی بنیاد پر افراد میں معاشرتی رویے فروغ پاتے ہیں۔ افراد اسی فکر کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ کون دشمن ہے اور کون دوست ہے مگر خطاکار۔
مرکزِ خلافت کی تائید اور جہادِ خلافت کی زبانی اور مالی امداد کی کوشش
الامام الکبیر کی زندگی کے اسی مرحلے میں جب ۱۸۷۴ء میں روس نے خلافتِ عثمانیہ کےزیرِ نگیں بالقانی ریاستوں پر حملہ کیا، تو روس اور خلافتِ عثمانیہ کی افواج کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ روس تو ایک زمانے سے یہ خواہش رکھتا کہ مشرقی یورپ کی ان ریاستوں کو خلافت سے چھین کر اپنے زیرِ نگیں کرلے۔ الامام الکبیر اور آپ کے رفقاء اس صورت سے شدید متاثر ہوئے۔ الامام الکبیر کی دینی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ یورپ کا مسلمان بھی اگر ظلم کا شکار ہو تو وہ اس کی مدد کی کوشش نہ کریں۔ پھر مسئلہ تو مرکزِ خلافت کے دفاع اور حرمینِ شریفین کے دفاع کا تھا کہ مرکزِخلافت ہی حرمین شریفین کا محافظ تھا۔
یہاں ایک قدم ٹھہر کر سوچیے کہ کیا کسی بھی خطے میں جاری اقامتِ دین کی تحریک ایسی ہوسکتی ہے کہ اس کی فکر ونظر اور عمل بس اپنے خطے کے اندر بند ہو جائے؟ جب اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے تو یہ دین تو سبھی مسلمانوں کا ساجھا ہے اور جہاں بھی اسلام مغلوب ہو تو وہاں اس کے غلبے کی کوشش تمام مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے۔ پھر بالخصوص جب مرکزِ خلافت کا مسئلہ ہو یا مسلمانوں کے مقدسات کے دفاع کا معاملہ ہو، تو مسلمانوں پر یہ فرض مزید تاکیدی ہوجاتا ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں۔
یہ معاملہ الامام الکبیر کے سامنے بالکل واضح تھا۔ اسی وجہ سے انھوں نے فوراً مرکزِ خلافت کی تائید اور حرمین شریفین کے دفاع کے لیے امدادی مہم شروع کر دی۔13 اگرچہ آپ طبعاً انکساری وتواضع کے سبب خود فتویٰ نہیں لکھا کرتے تھے، مگر اس باب میں فتویٰ بھی تحریر کیا اور خلافتِ عثمانیہ کی جان ومال سے مدد ونصرت کی فرضیت بیان کی۔ چنانچہ الامام الکبیر نے
-
مسلمانوں کے مرکز خلافتِ عثمانیہ کے دفاع کی فرضیت برصغیر کے مسلمانوں پر واضح کی،
-
مسلمانوں کے مقدسات کے دفاع کی فرضیت مسلمانوں کو بتلائی،
-
برصغیر میں روس وعثمانیوں کی جنگ کے دوران پوری قوم کو ان کی مالی امداد کرنے کی مہم میں شریک کیا۔14
عملاً بیرونِ ہند جہاد وقتال میں شرکت کی کوشش
اسی جنگ کے موقع پر الامام الکبیر کی جہادی روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ وہ تو اسلام کے ایک سپاہی تھے۔ انھوں نے یہاں بھی جو تحریک شروع کر رکھی تھی، اس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور کفر واہلِ کفر کی شوکت کا خاتمہ تھا۔ مگر یہاں ابھی عملی جہاد اور قتال کا وقت نہیں تھا اور نہ اس کی کامیابی کے امکانات تھے۔ ایسے میں جب ۱۸۷۴ء میں خلافتِ عثمانیہ اور روس کے درمیان جنگ چھڑی جس میں خلافت کی حالت کمزوری کی تھی، تو الامام الکبیر کے سینے میں جو جہاد کی چنگاری تھی، وہ بھڑک اٹھی۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ آپ اپنے قریبی رفقاء اور تلامذہ کے ساتھ خلافتِ عثمانیہ کے دفاع میں لڑیں گے۔ یہی ارادہ لیے برصغیر کے علمائے حق کا قیمتی گروہ حجاز کی طرف روانہ ہوا۔ اس گروہ میں الامام الکبیر کے ہمراہ حضرت شیخ الہند بھی تھے کہ جنھیں آئندہ چل کر اس تحریک کی زمام سنبھالنی تھی۔۷ شوال ۱۲۹۴ھ بمطابق ۱۵ اکتوبر ۱۸۷۷ء کو یہ قافلہ روانہ ہوا، حجاز پہنچا اور پھر وہاں سے آگے جہاد کے میدانوں میں جانے کا ارادہ تھا۔15
مگر حالات ایسے نہ بنے کہ یہ قافلہ آگے میدانِ قتال تک پہنچ سکتا، اور پھر ہائی کمان [حضرت حاجی صاحب نور اللہ مرقدہ] کا بھی یہی مشورہ تھا کہ ان حالات میں یہ طبقہ علماء قتال کے میدان میں کچھ خاص خدمت نہ کرسکے گا، بلکہ انھیں واپس اپنےخطے میں اقامتِ دین کی جدوجہد کو دوام دینا چاہیے۔
یہاں الامام الکبیر کے اس اقدام پر ایک مرتبہ پھر ٹھہر کر سوچیے۔ ہمیں یہاں اس اقدام سے متعلق کچھ نصیحتیں اخذ کرنی ہیں:
اول: کسی بھی اقامتِ دین کی تحریک کے نزدیک بنیادی مقصد دینِ اسلام کی خدمت ہوتا ہے،اب یہ خدمت دنیا کے جس کونے میں بھی مسلمانوں سے متقاضی ہو، اس کی ’بساط بھر‘ کوشش کرنا ایسی تحریک کو اپنے منشور میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔ وگرنہ وہ جس مقصد کو بیان کر رہے ہیں، اس میں ناقص ہیں۔
دوم: کسی بھی اقامتِ دین کی تحریک کے سامنے ہر حال میں اپنی فکر کو اپنے ہی خطے اور اپنے ہی دائرے میں بند رکھنا، یہ درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ اسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ خاص اپنے مصالح کی رعایت کو مدِ نظر نہ رکھا جائے۔ ہم تو یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ترجیحات متعین ہونی چاہییں۔ اور امت کی مصالح کو …… جبکہ عمل کی دنیا میں امکان ہو…… اپنی مصالح پر غالب رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ یہاں الامام الکبیر نے مرکزِ خلافت اور مقدسات کے دفاع کو اپنی جدوجہد پر مقدم رکھا۔ ہاں! لیکن چونکہ عمل کی دنیا میں ان کے اقدام سے مرکزِ خلافت کی مصلحت پوری ہوتی نظر نہ آئی، الٹا اپنی مصلحت کے بھی فوت ہونے کا غالب گمان ہوا، تو ایسے میں عملی قتال کی شرکت سے رک گئے، اور واپس لوٹ آئے۔ اور یہاں جس قدر ممکن ہوسکا، مرکزِ مسلمانان کی مصلحت کو مقدم رکھ کر یہاں ان کے دفاع کی کوشش کی۔ چنانچہ ہر اقامتِ دین کی تحریک …… جو کسی بھی خطے میں برسرِ عمل ہو…… اسے دیگر خطوں کے مسلمانوں اور ان کےکاموں میں تائید وحمایت کا نہ صرف رویہ رکھنا چاہیے، بلکہ جہاں تک ممکن ہوسکے، اس کی مدد ونصرت کرنی چاہیے16،جیسا کہ الامام الکبیر نے مالی امداد کےسلسلے میں کیا۔ اور معاملہ جب مسلمانوں کے مقدسات کا ہو تو یہ ذمہ داری تاکیدی ہوجاتی ہے۔
سوم اور اہم تر بات: کسی بھی اقامتِ دین کی تحریک کے لیے جہاد وقتال کا عنصر لازمی اور لا بدّی ہے۔ جہاد وقتال کو منفی کرکے اگر کوئی بھی اقامتِ دین کی تحریک اپنی فکر کو پروان چڑھائے اور اس کے بعد عمل بھی اسی نہج پر ہو، تو ایسی تحریک کی کامیابی کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ کیونکہ نہ یہ شرع کا تقاضا ہے اور نہ ہی عقل کا۔ جب ایسی تحریک کے سامنے اپنے میدان میں قتال کی فعالیت کا امکان بوجوہِ حالات وعدمِ اعداد نہ ہو، تب بھی اسے اپنے افراد کو دوسرے خطے میں سہی، بقدرِ امکان، جہاد وقتال کی عملی جدوجہد میں شامل کروانا چاہیے۔ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جہاد وقتال کی روح تحریک میں زندہ رہتی ہے، اور دوسرا جہاد وقتال کا عملی تجربہ ہاتھ آتا ہے، جو اقامتِ دین کی ہر تحریک کی انتہائی ناگزیر ضرورت ہے۔ یہاں بھی الامام الکبیر نے جب دیکھا کہ وہ اپنے خطے میں تو جہاد سے معذور ہیں، کہ نہ حالات ہیں اور نہ تیاری ووسائل ، اور اہم تر جہادی محاذ کی ضرورت بھی ہے تو آپ نے بنفسِ نفیس جانے سے بھی گریز نہ کیا۔ اور پھر اسی جہاد کی نیت سے کیے گئے سفر کا یہ فائدہ تو آئندہ کی تحریکِ قاسمی میں واضح طور پر سامنے آیا کہ تحریکِ قاسمی کے دوسرے قائد حضرت شیخ الہند کے سامنے جب حالات بنتے گئے، خود الامام الکبیر کے خطوط پر کی گئی ان کی محنت سے بھی اور دشمن کی حالت سے بھی، تو انھوں نےاسی جہاد کو یہاں کی تحریک میں بروئے کار لایا۔ اس پر ہم اگلے مرحلے میں بات کرتے ہیں۔
شرعی قضاء کا اجراء
الامام الکبیر نے اسی زمانے میں مدرسہ دیوبند میں محکمہ قضاء بھی شرو ع کیا تھا، اور مولانا یعقوب نانوتوی کو قاضی مقرر کیا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب عملاً اسلامی حاکمیت معطل ہے، اور حکومتی سرپرستی میں کفری قوانین نافذ ہیں، تو مسلمان اپنے باہمی معاملات میں کفری قوانین کی ماتحتی پر مجبور ہوتے ہیں۔ اصل تو یہی ہے کہ جہاد وجدوجہد کرکے کفری حاکمیت ختم کی جائے اور اسلامی حاکمیت قائم کی جائے، مگر جب اس کا فوری امکان نہ رہا، اور اس کے لیے تیاری شروع کر دی گئی، تو ساتھ ہی اتنا امکان پیدا کیا گیا کہ مسلمانوں میں اجتماعی شرعی قانون زندہ رہے اور انھیں اپنے معاملات کے لیے شریعت سے باہر نہ جانا پڑے۔ یہی محکمہ قضاء کے قیام کا سبب بنا۔ حکومت کی طرف اس میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش ہوئی17، مگر الامام الکبیر استقامت سے ڈٹے رہے۔ البتہ آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔
اس واقعے سے اتنا نتیجہ اخذ کرنا ضروری ہے کہ ایسے وقت میں بھی جب عملاً حکومت اور قانون کفر کے ہاتھ میں ہو، جہاں تک ممکن ہو مسلمانوں میں قانونِ شرع کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ یہ ابتدائی درجے میں حکومتِ کافرہ غالبہ سے مزاحمت نہیں ہے، گو ریاست در ریاست ضرور ہے۔ مگر پھر بھی موجودہ سخت گرفت والے سیکولر نظام میں بھی اس کی گنجائش نکل آتی ہے، بشرطیکہ حکمت ومصلحت سے یہ کام کیا جائے۔ اس کے دو فوائد تو ظاہر وباہر ہیں:
اول: مسلمانوں کو اپنے معاملات کے اندر شریعت کی طرف رجوع کا موقع ملتا ہے، اور ان کا دین معاملات میں بھی محفوظ رہتا ہے۔
دوم: اس سے زیادہ اہم تر یہ کہ مسلمانوں میں کفر اور کفری قانون کے غلبے کی وجہ سے جو شرعی قوانین سے بُعد پیدا ہو جانے اور شریعت کی حاکمیت کے تصور کے دھندلا جانے کا قوی امکان ہوتا ہے [جیسا کہ ہمارےزمانے کا حال ہوچکا ہے]، اس کی روک تھام ہوتی ہے، اور مسلمانوں میں یہ تصور زندہ ہوتاہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنی شریعت کے قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ یہ فکر عوامِ مسلمین میں عام ہونے سے اقامتِ دین کی تحریک کو بہت تقویت ملتی ہے، اور اس کے نظریے کا پرچار ہوتا ہے۔
الامام الکبیر کی سفرِ حجاز سے واپسی سال یا اس سے کم میں ہوئی، یعنی ۱۸۷۸ء میں، اور پھر الامام الکبیر انھی کوششوں میں مصروف تھے کہ ۴ جمادی اولیٰ ۱۲۹۷ بمطابق ۱۵ اپریل ۱۸۸۰ء کو ۴۹ سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا اور یوں اپنی تحریک کو …… مذکورہ بالا خطوط پر استوار کرکے اپنے بعد والوں کے ہاتھ میں چھوڑ گئے، جس کے اگلے مراحل ابھی آنے تھے۔
[جاری ہے، ان شاء اللہ]
٭٭٭٭٭
1 مولانا محمد قاسم نانوتوی کے لیے ’الامام الکبیر‘کا لقب مولانا مناظر احسن گیلانی نے آپ کی سوانح کی ترتیب میں استعمال کیا ہے۔ ہمیں یہ لقب بہت برمحل معلوم ہوتا ہے، اسی لیے ہم نے یہاں یہی لقب لکھا ہے۔ گو حجۃ الاسلام اور قاسم العلوم جیسے القاب بھی حضرت مولانا کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بزرگانِ دین کو القاب سے پکارنا یہ اہلِ اسلام کی پرانی رسم ہے اور اس کا مبنیٰ محبت اور عقیدت ہوتی ہے یاان کی خدمتِ اسلام کا صلہ ہوتا ہے۔ ہاں، اس میں غلو سے بچنا لازمی ہے، جس طرح افراط سے بچنا بھی لازمی ہے کہ بزرگانِ دین کی محبت وعقیدت ہی دلوں میں نہ ہو اور ان کی خدمتِ اسلام کے اعتراف سے دل خالی ہوں۔ والعیاذ باللہ من الغلو والتفریط۔
2 سوانح قاسمی؛ ج ۲، ص ۹۴
3 یہاں اس مرحلے کے واقعات سے متعلق ایک حوالہ ذکر کر دینا فائدے سے خالی معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت قطب الارشاد گنگوہی تو گرفتار ہوگئے، جبکہ الامام الکبیر محفوظ رہے۔ حالانکہ ان کا باہم تعلق رفاقت کے ساتھ ساتھ قائد ومقتدی کا بھی تھا۔ اس حفاظت کے انتظام کے حوالے سے مولانا مناظر احسن گیلانی نے سوانحِ قاسمی میں خاصی بحث کی ہے،اور آخر میں نتیجہ خود حضرت قطب الارشاد کی زبانی یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت قطب الارشاد نے قید سے رہائی کے بعد فرمایا کہ ’جہادِ شاملی کے مسئلہ میں مجھے ابتداءً کچھ تأمل تھا۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ مجھے چھ ماہ جیل میں رہنا پڑا۔ اور مولانا محمد قاسم صاحب کو کسی وقت بھی کوئی تأمل نہیں ہوا تو وہ اس ابتلاء سے نہیں گزارے گئے‘۔ [سوانح قاسمی؛ ج ۲، ص ۲۰۶] سبحان اللہ! ایک طرف تو حضرت قطب الارشاد کی حق پرستی دیکھیے تو دوسری طرف ہمیں یہاں اس واقعے سے صرف یہ واضح کرنا تھا کہ جہاد وقتال کے حوالے سے الامام الکبیر پہلے بھی واضح تھے اور بعد میں بھی۔ یہی روح تھی جو آپ کے شاگردِ رشید حضرت شیخ الہند میں منتقل ہوئی۔
4 علمائے ہند کا شاندار ماضی؛حصہ چہارم، ص ۸۴۷
5 مولانا محمد میاں صاحب ’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘ میں لکھتے ہیں: ’’ظاہری نظر میں یہ جماعت منتشر ہوگئی،اس کے کچھ افراد ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے اور کچھ نے ہندوستان ہی میں رہ کر زندگی گزاری، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ انتشار بھی ایک خاص نظم کے ماتحت خاص نصب العین کے مطابق تھا‘‘۔ [حصہ چہارم، ص ۸۴۲]
6 مولانامحمد میاں صاحب لکھتے ہیں: ’’اس کے علاوہ آپ کے لیے دلچسپ مشغلہ ایک اور تھا، یعنی اپنے شیخِ طریقت اور امیرِ جہاد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب کی خدمت میں حاضری، ان کے حالات کی خبرگیری،مستقبل کے متعلق ان سے ہدایات حاصل کرنا، مشورہ سے راہِ عمل طے کرنا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں دن کو چھپتے چھپاتے اور رات کو سفر کرتے ہوئے گنگوہ، انبیٹھہ، بوڑیہ گمتھلہ، تگری، لاوڈہ، پنجلاسہ وغیرہ ضلع سہارنپور اور ضلع انبالہ کے مواضعات میں تشریف لے گئے جہاں حضرت حاجی صاحب پہنچتے رہے تھے‘‘۔ [علمائے ہند کا شاندار ماضی، حصہ چہارم، ص ۸۴۷]
7 مولانا محمد میاں صاحب اس مقام پرلکھتے ہیں: ’’اب ضرورت تھی کہ جن کواس مرکز کے تحت ہندوستان میں مرکزی کردار انجام دینا ہے، پھر ایک مرتبہ مل کر بیٹھیں، اور اب تازہ حالات میں مستقبل کا تفصیلی لائحہ عمل طے کریں‘‘۔ [حوالہ بالا، ص ۸۴۸]
8 بعض حضرات شاید ہماری اس بات سے اتفاق نہ کریں، اور یہ سمجھتے ہوں کہ الامام الکبیر کی زندگی میں مسلح جدوجہد کی ناکامی کے بعد بس یہی ایک مشن تھا کہ اب اس مقبوضہ ہندوستان میں حکومتِ وقت سے تصادم کی فکر چھوڑ کر بس عام مسلمانوں کے ایمان ودین کو بچانے کی فکر کی جائے، اور اپنی محنت کا ہدف بس یہی رکھ لیا جائے کہ اس سے زیادہ بساط نہیں۔ عام طور پر یہی بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم ہم آگے کے واقعات کے ذیل میں حاشیوں میں اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے معتد بہ دلائل ذکر کریں گے، تاکہ صورتِ واقعہ واضح ہوسکے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اپنی محدود زندگی کے باقی ایام میں ان کے سامنے یہ ہدف نہ ہو کہ وہ خود دوبارہ ہند میں مسلح جدوجہد کرکے تحریک برپا کریں۔ ہمیں اس کا دعوی نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ الامام الکبیر کے یہاں ہدفِ اصلی واضح تھا، اور وہ اپنی استطاعت بھر کوشش اسی کی طرف لے جانے کی کر رہے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد شیخ الہند نے اس تحریک کی زمام سنبھال لی اور تحریک کو عملی شکل دینے کی کوشش کی۔ ہم شیخ الہند کی ساری تحریک کو تحریکِ قاسمی ہی کا ایک مرحلہ باور کرتے ہیں، جیسا کہ خود شیخ الہند کہا کرتے تھے۔
9 حکمی سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ خود قائد عالم نہ بھی ہو تو وہ علمائے دین کی آراء اور مشوروں سے اقدام کرنے کا خود کو پابند سمجھے۔
10 اس کے ثبوت کی سب سے پہلی دلیل تو خود دار العلوم دیوبند کے اصولِ ہشتگانہ ہیں جنھیں خود الامام الکبیر نے لکھا ہے۔ اور آپ کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی بابرکت تحریر آج بھی دار العلوم میں موجود ہے۔ اس میں ایک اصول خود الامام الکبیر نے درج کیا ہے:
’’اس کا (یعنی دار العلوم) کا تعلق عام مسلمانوں سے زائد سے زائد ہو، تاکہ یہ تعلق خود مسلمانوں میں ایک نظم پیدا کرے، جو ان کو اسلام اور مسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو‘‘۔[سوانح قاسمی، ج ۲، ص ۲۲۱]
درج بالا اصول کو گہرائی سے دیکھیں اور خط کشیدہ لفظوں پر غور کریں۔ پھر الامام الکبیر کے تلمیذِ رشید حضرت شیخ الہند کی گواہی اس باب میں سب سے معتبر ہے۔ اور آپ کی گواہی خود مولانا مناظر احسن گیلانی نے ذکر کی ہے اور و ہ خود اس گواہی کے واحد اور براہِ راست سامع ہیں۔ حضرت شیخ الہند کے الفاظ تھے:
’’حضرت الاستاذ (حضرت نانوتوی) نے اس مدرسہ کو کیا درس وتدریس، تعلیم وتعلم کے لیے قائم کیا تھا؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، ۵۷ء کے ہنگامہ کی ناکامی کے بعد یہ ادارہ قائم کیا گیا کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے، جس کے زیرِ اثر لوگوں کو تیار کیا جائے، تاکہ ۵۷ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے۔ تعلیم وتعلم، درس وتدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے، میں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں۔ لیکن اپنے لیے تو اسی راہ کا میں نے انتخاب کیا ہے جس کے لیے دار العلوم کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھا‘‘۔ [سوانح قاسمی؛ ج ۲، ص ۲۲۶]
یہ بات بعد میں اتنی عام تھی کہ سید سلیمان ندوی نے بھی یادِ رفتگاں میں دار العلوم کا ذکر کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھا:
’’اس حلقہ کی ایک جماعت پر مدرسہ کے مصالح مقدم تھے اور ایک جماعت پر اسلام کے مصالح۔ مولانا محمود حسن صاحب دل سے دوسری جماعت میں شریک تھے، میں نے سنا کہ انھوں نے ایک دفعہ فرمایا کہ ہمارے بزرگوں نے تو مدرسہ اپنے اصلی مقصد (جہاد) پر پردہ ڈالنے کے لیے بنایا تھا‘‘۔ [یاد رفتگاں؛ ص ۳۸۷] واضح رہے کہ یہاں بین القوسین لفظِ جہاد بھی خود حضرت علامہ ندوی کا تحریر کردہ ہے۔ اس سب سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرسے کے قیام کے پیچھے الامام الکبیر کے پیشِ نظر برصغیر پر قابض انگریز کے خلاف جہاد اور اس کے ذریعے برصغیر میں اقامتِ دین تھا۔
11 مولانا مناظر احسن صاحب نے بھی الامام الکبیر کی مذکورہ کاوشوں کا یہ فائدہ لکھا ہے: ’’[دیگر اہلِ مذاہب سے مکالمہ کے] میلے [یعنی میلہ خداشناسی] کے بہانے سے ’قاسمی معارف‘ کا ایک قیمتی حصہ اور صدیوں کام آنے والا سرمایہ جو تیار ہوگیا تھا، اس نے تو تحریر کا قالب اختیار کرلیا۔ حضرت شیخ الہند نے اسی سلسلہ میں یہ خبر بھی دی ہے کہ ’مولانا مولوی فخر الحسن رحمہ اللہ نے اس کے (یعنی قلم بند شدہ تحریر کے) مضامین کے لحاظ سے اس کا نام ’حجۃ الاسلام‘ تجویز فرما کر اول بار شائع فرمایا تھا‘۔‘‘ [سوانحِ قاسمی؛ ج۲، ص ۴۸۳] عبارت میں بین القوسین [] اضافہ راقم کی طرف سے ہے۔
12 مولانا مناظر احسن صاحب لکھتے ہیں: ’’الغرض نئے نئے عنوانات سے معمولی معمولی جزئی باتوں کا مسلمانوں میں چرچا کرکے افتراق وشقاق پیدا کرنے کی عام مولویانہ عادت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا الامام الکبیر فطرۃً کارہ تھے، اور اس کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ اسی طرح فرعیات میں ایسے اختلافی مسائل جن میں سلفا عن خلف نقاطِ نظر کا اختلاف علماء میں رہا ہے، ان کے متعلق آپ کا خیال تھا، اور کتنا پاکیزہ خیال تھا، اس قسم کے ایک مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے کہ ’’طرفین میں بڑے بڑے اکابر ہیں‘‘۔ اور اپنے اسی خیال کو ان الفاظ میں پیش کرتے ہوئے کہ ’’اگر ایک طرف ہو رہیے تو کسی نہ کسی طرف والوں کو برا سمجھنا پڑے گا‘‘۔ آگے ارقام فرماتے ہیں: ’’اس لیے اہلِ اسلام کویہ ضروری ہے کہ ایسے مسائل میں خواہ مخواہ ایسے پکے نہ ہو بیٹھیں کہ دوسری طرف کوبالکل باطل سمجھ لیں‘‘۔‘‘ [سوانح قاسمی، ج ۲، ص ۳۹]
13 مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی لکھتے ہیں: ’’بزرگوں اور علماء نے مولانا محمد قاسم کی سربراہی اور سرپرستی میں، مولانا کے شوق اور توجہ دلانے سے یہ اہم اور تاریخی فیصلہ فرمایا کہ ہم سب خلافتِ اسلامیہ اور مشرقی یورپ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جو کچھ بھی کرسکتے ہیں، اس کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔‘‘ [مجلہ صحیفہ نور، قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، احوال وآثار، ص ۹۹]
14 مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی لکھتے ہیں: ’’اس کے لیے مولانا محمد قاسم نے عام مسلمانوں سے بڑی رقم اکھٹی کرکے بابِ عالی (مرکزِ حکومت، ترکی استنبول) بھجوانے کی کوششیں شروع کیں۔ حضرت مولانا نانوتوی نے سب سے پہلے مدرسہ دیوبند کے سب ذمہ داروں، مدرسین، طلبہ اور اہل قصبہ دیوبند سے تعاون کی درخواست وگذارش فرمائی۔اس کے علاوہ اپنے شاگردوں، متوسلین، نیاز مندوں اور خود قائم کیے ہوئے مدرسہ کے ذمہ داروں کو ادھر متوجہ فرمایا۔ اور حسبِ توقع دیوبند، نانوتہ، گنگوہ، تھانہ بھون، کاندھلہ اور اطراف کے قصبات اور شہروں کے علاوہ دور دراز شہروں میں بھی اس درخواست کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی۔‘‘ [حوالہ بالا]
یہاں تک کہ خلافتِ عثمانیہ کے وزیر اعظم ابراہیم ادھم کی طرف سے شکریہ کا خط الامام الکبیر کے نام آیا۔
15 مسلمانانِ ہند ان علمائے کرام کےسفر کی بابت عام رائے یہی تھی کہ یہ جہاد کی نیت سے نکلے ہیں۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس کی نفی کرنے کی کوشش کی ہے، مگر بہت سے علماء حضرات اس کی تائید کرتے ہیں، جیسا کہ مولانا پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی نے لکھا ہے، اور اسی رائے کی تائید مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی صاحب نے بھی کی ہے۔ پھرجب خود الامام الکبیر نے فتویٰ میں عملی جہاد کی فرضیت بھی بیان کی، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ خود اسے اپنے پر فرض نہ سمجھتے، اور آپ جیسے غیور اور باحمیت عالم وقائد کے لیے کیسے ممکن تھا کہ وہ اس فرض سے خود کو مستثنیٰ سمجھے۔ الامام الکبیر اپنے فتویٰ میں لکھتے ہیں:
’’الغرض اس لڑائی میں امداد حضرتِ سلطانِ روم خلد اللہ ملکہ وسلطانہ تین وجہ سے فرض ہے؛ اول تو بوجہ یورشِ کفار جس پر آیتِ اول [البقرۃ:۱۹۰] دلالت کرتی ہے، دوسرے بوجہ طلبِ مدد جس پر آیت ثانی [التوبۃ:۳۸] اور ثالث [الأنفال:۷۲] دلالت کرتی ہے، تیسری بوجہ اندیشہ بے حرمتیٔ حرمین جس پر آیت رابع [التوبۃ:۲۸] دلالت کرتی ہے‘‘۔ یہاں امداد سے مراد جانی امداد ہے، مالی امداد کا ذکر الامام الکبیر نے الگ کیا ہے۔ دیکھیے متعلقہ فتویٰ۔ [مجلہ صحیفہ نور، قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، احوال وآثار، ص ۱۵۰]
16 یہاں الامام الکبیر کا ہی ایک جملہ ذکر کردینا فائدے سے خالی نہیں کہ آپ نے اپنے فتویٰ میں جہاں سورہ انفال کی آیت [وَإِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِي الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرَ] کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ جو لوگ دار الحرب سے باوجود ضرورتِ جہاد ہجرت نہ کریں، وہ لوگ ایک وجہ سے کفار کے حکم میں ہیں۔ کیونکہ سورہ برأۃ میں ارشاد ہے: والمؤمنون والمؤمنات الخ اور سورہ انفال میں یہ ارشاد ہے: والذین آمنوا ولم یھاجروا ما لکم من ولایتھم من شيء۔ جب وہ لوگ اولیاء کے زمرے ہی میں نہ ہوئے تو یوں کہو کہ مومنوں کے زمرہ ہی سے خارج رہے۔ پھر باوجود اس کے درصورتِ طلبِ نصر ان کی مدد اور نصرت فرض ہوئی، اور اس نام کے ایمان کا لحاظ کرنا پڑا اور اس دوستی کو نبھانا ضروری ہوا۔ تو مجاہدین کی امداد درصورتِ استمداد کیونکر فرض نہ ہوگی‘‘۔ [حوالہ سابقہ؛ ص ۱۴۹]
17 مولانا حکیم محمد اپنی کتاب ’ملتِ اسلام کی محسن شخصیات‘ میں اس موقع پر لکھتے ہیں: ’’(انگریزوں نے) دیوبند میں ایک تھانیدار کو بھیجا جو بڑا سخت قسم کا آدمی تھا۔ چنانچہ وہ آیا، رمضان شریف کا آخری عشرہ تھا۔ اس نے آکر حضرت نانوتوی سے مصافحہ کیا اور بہت جرات سے کہا کہ کیا آپ ہندوستان میں شرعِ محمدی کا جھنڈا گاڑنا چاہتے ہیں؟ یہ کیا آپ نے محکمہ قائم کیا۔ حضرت نے بڑی نرمی سے فرمایا: یہ تو ہم آپ لوگ گورنمنٹ کی مدد کر رہے ہیں جو لاکھوں روپے خرچ کرکے مقدمات فیصل کرتی ہے، ہم نے منٹوں میں فیصل کر دیے۔ مگر اس نے کہا کہ نہیں، آپ پورا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، میں رپورٹ کروں گا۔ اس پر حضرت کو غصہ آیا اور کہا کہ ’کان پکڑ کر اسے نکال دو‘۔ طالب علموں نےدھکے دے کر اسے نکالا اور حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ ’ جا ہم تیری رپورٹ کریں گے، نکال دو اس شیطان کو یہاں سے‘۔ بہرحال عید کا دن آیا، تھانیدار کے یہاں دودھ کے بالٹے بھرے تھے، کپڑے تیار، خوشیاں منائی جا رہی تھیں کہ اچانک گورنمنٹ کا حکم پہونچا کہ اس کی رشوتوں کی انتہا ہوگئی ہے، اسے فوری برخاست کیا جائے۔ اور بازار میں دکان دکان پر جہاں اس نے رشوت لی ہے، پیروں میں رسی ڈال کر اسے پھرایا جائے۔ تو اس حالت میں گھمایا گیا کہ یہ روتے ہوئے کہتا جا رہا تھا کہ ’افسوس میں نے رپورٹ نہیں کی، مگر مولوی جی نےمیری رپورٹ کر دی‘۔‘‘ [ص ۱۵۸]اس تھانیدار کا نام مولانا مناظر احسن صاحب نے ’خدا بخش‘ لکھا ہے، یعنی یہ نام کا مسلمان ہی تھا۔ یہاں اس واقعے کے ذکر سے یہ بتلانا ہے کہ الامام الکبیر کا رویہ آج بھی مشعلِ راہ ہے ایسے تمام حکومتی کارندوں کے حق میں جن کے نام تو مسلمانوں کے سے ہیں، لیکن شرعِ محمد ی کا نفاذ ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، یہ سبھی شیاطین ہیں۔