برِّ صغیر كے حكمرانوں كے خلاف لڑنا مسلمانوں پر كيوں واجب ہے؟ | حصۂ ثانی

مولانا فضل الرحمٰن قاسمی کا تعلق شہید سراج الدولہ، سید تیتومیر اور حاجی شریعت اللہ ﷭ کی سرزمین سے ہے جس کے بیشتر حصے کو آج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے اور آپ نے یہ تحریر بنگلہ دیش میں ہی قلم بند کی ہے۔(ادارہ)


الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذین اصطفى، اما بعد

اس موقع پر ہم تین امور ذرا تفصیل سے پیش كرنا چاہتے ہیں، پہلا امر تو یہ ہے كہ یہ خطۂ زمین دو سو برس پہلے كیوں دار الحرب بنا اور اب بھی كیوں دار الحرب ہے؟ دوسرا امر اس كہانی كی مختصر تصویر ہے جو دوسو برس سے ہم پر گزری، تیسراا مر ہے کہ ایک دار الاسلام کے دار الحرب بننے كے بعد اس كو دار الاسلام بنانے كی جو ’فرض‘ ذمہ داری ہم پر عائد ہوئی تھی اور وه اب تک ادا نہ ہو سكی، تو اب دو سو برس گزر جانے كے بعد اس ذمہ داری کو ادا كرنے كے لیے ہم كیا كر سكتے ہیں؟ اور شریعت كی طرف سے ہم پر كیا كیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ الله توفیق عطا فرمائے۔

بر صغیر كیوں دار الحرب بنا اور اب بھی كیوں دار الحرب ہے؟

بر صغیر (ہندوستان) كیوں اور كیسے دار الحرب بنا ؟ ایک زمانہ تک یہ بات مسلمانوں كو معلوم تھی، عرصۂ دراز تک وه جانتے تھے كہ، ان کی یہ اسلامی سلطنت كیسے اور كیوں دار الحرب بن گئی؟ رفتہ رفتہ زمانہ گزرتا گیا اور مسلمان اپنے ماضی كو بھولتا گیا، مسلمانوں كی آنكھوں اور دلوں سے دار الحرب اور دار الاسلام كا فرق اوجھل ہوتا چلا گیا، دار الاسلام كی حقیقت سمجھنا مسلمانوں كے لیے مشكل ہو گیا۔ حتیٰ کہ اس بات كو اور اس داستان كو از سر نو ابھارنا وقت كی ضرورت بن گیا، لہٰذا ہم اس کو كچھ عرض كر رہے ہیں۔

یہاں دو باتیں عرض كرنی ہیں، ایک بات ہے اس بارے میں كتاب كا مسئلہ، اور دوسری بات ہے ہندوستان كی حالت جو مسئلہ كا مصداق ہے۔

كتاب كا مسئلہ

كتاب وسنت كی رو سے ہمارے ائمۂ مجتہدین نے دار الحرب كی جو تعریف كی اور كسی دار الاسلام کے دار الحرب میں بدل جانے كے جو اسباب بتائے ہیں ان میں دو باتیں خاص طور پر ملحوظ ہیں، ایک ہے اہل كفر كا غلبہ اور دوسری ہے كفار كے احكام كا رواج۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں جو اگر اسلام اور مسلمانوں كے حق میں ہوں تو دار الحرب دار الاسلام بن جائے گا، مطلب یہ كہ، اگر كسی ملک میں مسلمانوں كا غلبہ ہو جائے اور اسلامی شریعت كے قوانین نافذ ہو جائیں تو وه دار الحرب دار الاسلام بن جائے گا۔

امام جصاص رحمۃ الله علیہ (متوفی ۳۷۰ھ) لكھتے ہیں:

’’ووجه هذا القول: أنَّ حكم الدار إنما یتعلق بالظهور والغلبة، وإجراء حكم الدین بها، والدلیل على صحة ذلك: أنا متى غلبنا على دار الحرب، وأجرینا أحكامنا فیها: صارت دار إسلام، سواء كانت متاخمة لدار الإسلام أو لم تكن، فكذلك البلد من دار الإسلام، إذا غلب علیه أهل الكفر، وجرى فیه حكمهم: وجب أن یكون من دار الحرب.‘‘

شرح مختصر الطحاوی للجصاص (المتوفی ۳۷۰ه)، كتاب السیر والجهاد ۷/۲۱۶۲۱۷، دار البشائر الإسلامیة بیروت، لبنان، الطبعة الأولى۱۴۳۱ھ

ترجمہ:’’اس مسئلہ كی تفصیل یہ ہے كہ، دار كا حكم غلبے اور ظہور سے متعلق ہے، اسی طرح وہاں دین كے احكام جاری كرنے كے ساتھ ہے، اس بات كی صحت كی دلیل یہ ہے كہ، ہم جب دار الحرب پر غلبہ حاصل كرتے ہیں اور وہاں ہمارے احكام جاری ہوتے ہیں تو وه دار الاسلام بن جاتا ہے، چاہے وه دار الاسلام سے ملا ہوا ہو یا ملا ہوا نہ ہو، تو ایساہی اگر دار الاسلام كے كسی شہر یا خطے پر كفار كا غلبہ ہو جائے اور اس میں ان كا حكم جاری ہو جائے تو وه ضرور دار الحرب میں سے ہو جائے گا۔‘‘

امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لكھتے ہیں:

’’وعن أبی یوسف ومحمد رحمہ ما الله تعالى: إذا أظهروا أحكام الشرك فیها فقد صارت دارهم دار حرب؛ لأن البقعة إنما تنسب إلینا أو إلیهم باعتبار القوة والغلبة، فكل موضع ظهر فیه حكم الشرك فالقوة فی ذلك الموضع للمشركین، فكانت دار حرب، وكل موضع كان الظاهر فیه حكم الإسلام فالقوة فیه للمسلمین. ‘‘

المبسوط للسرخسی (المتوفی ۴۸۳ه)، كتاب السیر، باب المرتدین، ۱۰/۱۱۴، دار المعرفة، بیروت، لبنان

ترجمہ:’’اور ابو یوسف ومحمد رحمہما الله تعالىٰ لكھتے ہیں كہ، جب وه شرک كے احكام كو رواج دیں گے تو ان کا یہ دار، دار الحرب بن جائے گا؛ كیوں كہ زمین كا كوئی حصہ قوت اور غلبہ كے اعتبار سے ہماری یا ان كی طرف منسوب ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر وه علاقہ جہاں شرک كے احكام كا غلبہ اور رواج ہے وہاں قوت مشركین كے لیے ثابت ہے، لہٰذا وه دار الحرب ہو جائے گا، اور ہروه علاقہ جہاں اسلام كے احكام كا غلبہ اور رواج ہے، وہاں قوت مسلمانوں كے لیے ثابت ہے۔‘‘

علامہ كاسانی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی ۵۸۷ھ) لكھتے ہیں:

’’فصل: فی اختلاف الأحكام باختلاف الدارین وأما بیان الأحكام التی تختلف باختلاف الدارین؛ فنقول: لا بد أولا من معرفة معنى الدارین؛ دار الإسلام ودار الكفر؛ لتعرف الأحكام التی تختلف باختلافهما، ومعرفة ذلك مبنیة على معرفة ما به، تصیر الدار دار إسلام أو دار كفر؛ فنقول: لا خلاف بین أصحابنا فی أن دار الكفر تصیر دار إسلام بظهور أحكام الإسلام فیها.‘‘

بدائع الصنائع لعلاء الدین الكاسانی (المتوفی ۵۸۷ه)، كتاب السیر، فصل فی اختلاف الأحكام باختلاف الدارین، ۹/۵۱۸۵۱۹، دار الكتب العلمیة، بیروت، لبنان، الطبعة الثانیة ۱۴۲۴ه

ترجمہ: ’’فصل: دارین كے اختلاف سے احكام كے اختلاف كے بیان میں
ان احكام كابیان جو دارین كے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں، پس ہم كہتے ہیں كہ: سب سے پہلے دارین یعنی دار الاسلام اور دار الكفر كا معنیٰ جاننا چاہیے؛ تاكہ ان دو دار كے اختلاف سے احكام میں جو اختلافات ہوتے ہیں وه معلوم ہو جائیں، اور یہ جاننا اس بات کے جاننے پر موقوف ہے كہ، دار الاسلام اور دار الكفر كس وجہ سے بنتا ہے؟ تو ہم كہتے ہیں كہ: اس بات میں ہمارے ائمۂ كرام كے درمیان كوئی اختلاف نہیں كہ، دار الكفر میں اسلامی احكام جاری ہونے سے دار الاسلام بن جاتا ہے۔‘‘

ان تینوں حوالوں سے یہ بات واضح ہو چكی ہے كہ، ملک پر مسلمانوں كا غلبہ اور اسلامی آئین كے نفاذ كے بغیر كوئی بھی ملک دار الاسلام نہیں بن سكتا، جب تک كفار كا غلبہ ہے اور قوانین غیر اسلامی ہیں تب تک وه دار دار الحرب ہی رہے گا۔ ساتھ ساتھ امام سرخسی كی عبارت سے یہ بات بھی ثابت ہو چكی ہے كہ، غلبہ اور قوت بھی احكام كے نفاذ سے ثابت ہوتا ہے، ان كی اس عبارت كو دوباره ملحوظ فرمائیں:

’’فكل موضع ظهر فیه حكم الشرك فالقوة فی ذلك الموضع للمشركین، فكانت دار حرب، وكل موضع كان الظاهر فیه حكم الإسلام فالقوة فیه للمسلمین.‘‘

ترجمہ :’’لہٰذا ہر وه علاقہ جہاں شرک كے احكام كا غلبہ اور رواج ہے تو وہاں قوت مشركین كے لیے ثابت ہے، لہٰذا وه دار الحرب ہو جائے گا، اور ہروه علاقہ جہاں اسلام كے احكام كا غلبہ اور رواج ہے، تو وہاں قوت مسلمانوں كے لیے ثابت ہے)۔‘‘

اسی وجہ سے ہندوستان میں جب كفار كا غلبہ ہو گیا، اور قوانین غیر شرعی چلنے لگے، قرآن و سنت كے بتلائے ہوئے حلال حرام ہونے لگے اور حرام حلال ہونے لگے، اسی طرح فرائض محظورات سے بدلنے لگے اور محظورات واجبات كے مقام پر فائز ہونے لگے، تو وقت كے ذمہ داران، علمائے حقانی وربانی نے اس ملک كو دار الحرب قرار دے كر فتوىٰ دیا، حالانکہ اس ملک كو جب دار الحرب قرار دے كر فتوىٰ دیا جارہا تھا تو اس وقت اس ملك كے سلطان اور بادشاه مسلمان تھے، حكمرانی كے تخت پر مسلمان بادشاه رونق افروز تھے، نمازیں بھی پڑھی جاتی تھیں، روزے بھی ركھے جاتے تھے، حج كا سفر ہوتا تھا، مسلمان زكوٰۃ بھی ادا كرتے تھے، اذانیں ہوتی تھیں، محفلیں بھی چلتی تھیں، دعوت وتبلیغ كا كام بھی چلتا تھا، مدارس میں پڑھنا پڑھانا بھی جاری تھا، غرض ایسے سینكڑوں اسلامی امور اپنے حال پر بحال تھے، لیكن پھر بھی یہ ملک دار الاسلام كی حیثیت كو كھو كر دار الحرب بن گیا، اس كا سبب یہ ہے كہ، غلبہ اہل كفر كا ہے اور قوانین غیر شرعی قوانین ہیں، قوت وشوکت كفر وشرک كی ہے۔

اور انہی مركزی دو باتوں كی بنا پر برصغیر ہندوستان كو دار الحرب قرار دیا گیا، اور اسی فتویٰ كی بناء پر كفری غلبہ اور كفری آئین كے خلاف علمائے اسلام كی قیادت میں مسلمانانِ ہند میدان جہاد میں لڑتے رہے۔

البتہ کسی دار الاسلام کے دار الحرب بننے كے لیے امام ابو حنیفہ رحمۃ الله علیہ نے مزید اور دو باتیں بتائیں، ایک یہ كہ، كسی ملک میں دار الاسلام ہونے كی وجہ سے اور دار الاسلام ہونے كی حیثیت سے جو امن و امان تھا وه بحال رہے اور وه ملک كسی دار الكفرسے ملا ہوا نہ ہو۔
یاد رہے، ہندوستان جب دار الحرب بن گیا اس وقت جنہوں نے كفار كے كفری قوانین مان لیے، كفار كے تسلط كو اپنے لیے كوئی مصیبت نہیں سمجھا؛ بلكہ كفار كی ماتحتی كو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگے،ان کے امن اور راحت میں ذره برابر فرق نہیں آیا، پھر بھی ہندوستان دار الحرب بن گیا تھا، لہٰذا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جس امن وامان كی بات كر رہے ہیں وه اس قسم كے لوگوں كی راحت اور امن نہیں، كیوں كہ اگر ان جیسے لوگوں كی راحت مراد ہوتی تو اس وقت بھی ہندوستان دار الحرب نہیں بنتا، بلكہ آپ كہہ سكتے ہیں كہ، دنیا میں كوئی دار الحرب كبھی دار الحرب نہیں بن سكتا، كیوں كہ ہر دار الحرب میں آپ كو ایسے مسلمان مل جائیں گے جو كفار كے كفری قوانین اور كفار كے تسلط كو سر آنكھوں پر رکھتے ہیں اور كفار كے طرزِ حكمرانی كو تسلیم کرتے ہیں، ان كے امن و راحت میں كبھی كوئی خلل نہیں آیا، تو یہ امن وراحت امام ابو حنیفہ كا مقصدنہیں۔
اس مسئلہ كی مزید تفصیل كے لیے بدائع كی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

’’واختلفوا فی دار الإسلام أنها بماذا تصیر دار الكفر؟ قال أبو حنیفة: إنها لا تصیر دار الكفر إلا بثلاث شرائط:

أحدها: ظهور أحكام الكفر فیها، والثانی: أن تكون متاخمة لدار الكفر، والثالث: أن لا یبقى فیها مسلم ولا ذمی آمنا بالأمان الأول، وهو أمان المسلمین.

وقال أبو یوسف، ومحمد رحمہ ما الله: إنها تصیر دار الكفر بظهور أحكام الكفر فیها.

وجه قولهما أن قولنا دار الإسلام، ودار الكفر إضافة دار إلى الإسلام وإلى الكفر، وإنما تضاف الدار إلى الإسلام أو إلى الكفر لظهور الإسلام أو الكفر فیها، كما تسمى الجنة دار السلام، والنار دار البوار؛ لوجود السلامة فی الجنة، والبوار فی النار. وظهور الإسلام والكفر بظهور أحكامهما، فإذا ظهرت أحكام الكفر فی دار، فقد صارت دار كفر فصحت الإضافة، ولہٰذا صارت الدار دار الإسلام بظهور أحكام الإسلام فیها من غیر شریطة أخرى، فكذا تصیر دار الكفر بظهور أحكام الكفر فیها، والله أعلم.

وجه قول أبی حنیفة رحمہ الله أن المقصود من إضافة الدار إلى الإسلام والكفر لیس هو عین الإسلام والكفر، وإنما المقصود هو الأمن والخوف، ومعناه أن الأمان إن كان للمسلمین فیها على الإطلاق، والخوف للكفرة على الإطلاق، فهی دار الإسلام، وإن كان الأمان فیها للكفرة على الإطلاق، والخوف للمسلمین على الإطلاق، فهی دار الكفر.‘‘

بدائع الصنائع لعلاء الدین الكاسانی (المتوفی ۵۸۷ه)، كتاب السیر، فصل فی اختلاف الأحكام باختلاف الدارین، ۹/۵۱۹، دار الكتب العلمیة، بیروت، لبنان، الطبعة الثانیة ۱۴۲۴ه

ترجمہ: ’’البتہ دار الاسلام كس وجہ سے دار الكفر بنے گا ،اس بارے میں انہوں نے اختلاف كیا۔ امام ابو حنیفہ نے كہا: تین شرائط پائے جانے كے بغیر دار الاسلام دار الحرب نہیں بنے گا۔

ایک ہے اس میں كفر كے احكام كا نافذ ہونا، دوسرا ہے دار الحرب كے سائے میں ہونا، تیسرا ہے کسی مسلمان یا کسی ذمی کا سابقہ امن كی بدولت مامون نہ رہنا یعنی مسلمان كی طرف سے دیا ہوا امن۔

اور امام ابو یوسف وامام محمد رحمہما الله كہتے ہیں: کہ دار الاسلام میں كفری احكام كے نفاذ سے وه دار الكفر بن جائے گا۔

امام ابو یوسف اور امام محمد كے قول كی دلیل یہ ہےكہ ہمارا کسی دار کو دار الاسلام یا دار الكفر کہنا، اس کو اسلام اور كفر كی طرف نسبت كی وجہ سے ہے، دار كو اسلام كی طرف یا كفر كی طرف منسوب كیا جاتا ہے اس دار میں اسلام یا كفر كے غلبے كے اعتبار سے،جیسے جنت كو دار السلام (سلامتی كی جگہ) اور جہنم كو دار البوار (بربادی كی جگہ) كہا جاتاہے؛ جنت میں سلامتی اور جہنم میں بربادی پائے جانے كی وجہ سے، اور اسلام یا كفر كاغلبہ ان دونوں كے احكام كے غلبے اور نفاذ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر كسی دار میں كفر كے احكام كا غلبہ ورواج ہو جائے تو وه دار دار الكفر بن جائے گا، اور كفر كی طرف دار كی اضافت صحیح ہوگی، اسی طرح كسی دار میں احكامِ اسلام كے نفاذ اورغلبہ سے وه دار دار الاسلام بن جائے گا، اور كسی شرط كی ضرورت نہ ہو گی، اسی طرح كفر كے احكام كے نفاذ اور غلبہ سے دار الكفر بن جائے گا،والله اعلم۔

امام ابو حنیفہ رحمہ الله كے قول كی دلیل یہ ہے كہ، دار كو اسلام اور كفر كی طرف نسبت كرنے سے عین اسلام اور عین كفر مقصد نہیں، بلكہ مقصد ہے امن اور خوف، جس كا مطلب یہ ہے كہ، اگر بلا كسی قیدوبند کے امن مسلمانوں كے لیے ہے اور خوف كفار كے لیے ہے تو وه دار الاسلام ہے، اوراگر بلا کسی قیدوبند کے امن كفار كے لیے ہے اور خوف مسلمانوں كے لیے ہے تو وه دار الكفر ہے۔‘‘

ہندوستان كی حالت

قرآن وحدیث کی رو سے دار الحرب اور دا ر الاسلام كا جو مصداق نكلتا ہے اسی كی روشنی میں علمائے وقت اپنے ملكوں كے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں اور ملک كے باشندوں كو ان كی ذمہ داری كی طرف متوجہ كراتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں كی عظیم سلطنت پر غیرمسلموں كا تسلط جوں جوں بڑھتا گیا تو وه اس حد تک پہنچ گئے كہ تخت سلطانی پر مسلمان سلطان رونق افروز ہونے كے باوجود ملک كی اپنی اصلی حیثیت مفقود ہو گئی۔ اذان،جمعہ، عیدین كےجاری وساری رہنے كے باوجود اس ملک كی شرعی پہچان اور تعریف بدل گئی۔

شاه عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لكھتے ہیں:

’’جب كافر كسی اسلامی ملک پر قابض ہو جائیں اور اس ملک اور ملحقہ اضلاع كے لیے یہ نا ممكن ہو كہ وه ان كو اس سے باہر نكال سكیں یا ان كو باہر نكالنے كی كوئی امید باقی نہ رہے، اور كافروں كی طاقت میں یہاں تک اضافہ ہو جائے كہ وه اپنی مرضی سے اسلامی قوانین كو جائز یا نا جائز قرار دیں، اور كوئی انسان اتنا طاقتور نہ ہو جو كافروں كی مرضی كے بغیر ملک كی مال گزاری پر قبضہ كر سكے، اور مسلمان باشندے اس امن و امان سے زندگی بسر نہ كر سكیں جیسا كہ وه پہلے كرتے تھے، تو یہ ملک سیاسی اعتبار سے دار الحرب ہو جائے گا۔‘‘

نقش حیات: خود نوشتہ سوانح، حسین أحمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، مطبوعة دار الاشاعت، كراچی پاكستان ۲/۴۱۰۴۱۱، حاشیه نمبر۱

دوسرے ایک اور فتویٰ میں شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ لكھتے ہیں:

’’اور دار الحرب اسی وقت دار الاسلام ہو جاتا ہے كہ اہل اسلام كے احكام اس میں جاری ہو جائیں، اور كافی میں ہے:

إن المراد بدار الإسلام بلاد یجری فیها حكم إمام المسلمین ویكون تحت قهره، وبدار الحرب بلاد یجری فیها أمر عظیمها وتكون تحت قهره.‘ اھ

یعنی ’دار الاسلام سے مراد وه علاقہ ہے جس میں مسلمانوں كے امام كا حكم جاری ہو اور وه شہر اس كے زیر حكومت ہو، اور دار الحرب سے وه علاقہ مراد ہے جس میں ان شہروں كے سردار كا حكم چلتا ہو اور اس كے زیر حكومت ہو۔
اس شہر میں مسلمانوں كے امام كا حكم ہرگز جاری نہیں، نصارٰى كے حكّام كا حكم اور دبدبہ جاری ہے، اور احكام كفر كے جاری ہونے سے یہ مراد ہے كہ مقدمات، انتظامِ سلطنت اور بندوبستِ رعایا، تحصیلِ خراج و باج وعشر واموالِ تجارت میں حكّام بطور خود حاكم ہوں، اور ڈاكوؤں اور چوروں كی سزا ، اور رعایا كے باہمی معاملات اور جرائم كی سزا كے مقدمات میں كفار كا حكم جاری ہو، اگر چہ بعض احكامِ اسلام مثلاً جمعہ، عیدین اور اذان اور گائے کے ذبیحے میں كفار تعرض نہ كریں۔‘‘

فتاوی عزیزی، ایچ ایم سعید كمپنی، پاكستان، طبع جدید سنه۱۴۰۴ھ، ص: ۴۴۵۴۵۵

شاه عبد العزیز دہلوی رحمۃ الله علیہ كی ان عبارتوں پر ذرا غور كیجیے:

1. ’’اس شہر میں مسلمانوں كے امام كا حكم ہرگز جاری نہیں، نصارٰى كے حكام كا حكم و دبدبہ جاری ہے‘‘۔

شاه صاحب رحمۃ الله علیہ كہہ رہے ہیں كہ حكم نصارٰى كا چل رہا ہے، اور تاریخ بتاتی ہے كہ اس وقت سلطنتِ دہلی پر مغل بادشاه شاه عالم رونق افروز تھے جن كی حكومت ۱۸۰۶ عیسوی تک تھی، یا اكبر شاه ثانی تخت سلطنت پر تشریف فرما تھے جن كی حكومت ۱۸۰۶ سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے كہ مورتی كی طرح غیر ذی روح مسلمان بادشاه (کے ہونے )سے كوئی ملک دار الاسلام نہیں بن سكتا، اور اگر وہی مورتی جیسا بادشاه نصارٰی كی طرف داری كرنے لگے، اپنے تختِ بادشاہی كو گلے سے لگائے ركھنے كے لیے مسلمانوں كے خلاف كفار كی كار روائیوں میں شریک بھی ہو جائے، تو وه ملک غیر مسلم كے ہاتھ میں تو ہے ہی، مزید فكر كی بات یہ ہے كہ اس بادشاه كا ایمان بھی اب باقی رہا یا نہیں۔ معاملہ اگر یہاں تک پہ نچ گیا تو بادشاه صورتاً جو مسلمان تھا، وه بھی شاید نہ رہے گا۔
غرض اس طرح كے مسلمان بادشاه سے دار دار الاسلام نہیں رہے گا، یہ دار دار الحرب بن جائے گا، محدث دہلوی كا كہنا یہی ہے۔

2. ’’….. اور جرائم كی سزا كے مقدمات میں كفار كا حكم جاری ہو، اگر چہ بعض احكامِ اسلام مثلا جمعہ وعیدین اور اذان اور گائے کے ذبیحہ میں کفار تعرض نہ كریں‘‘۔

ان كی اس دوسری بات پر بھی ذرا غور كر كے دیكھیں: اگر كسی ملک میں جرائم كی سزا كے مقدمات غیر شرعی قوانین سے چلتے ہوں، غرض یہ كہ ملک كے آئینی ادارے اگر كفار كے قوانین كے ماتحت ہیں اور شرعی قوانین كے ماتحت نہیں ہیں تو وه دار دار الحرب ہے، اگر چہ اس ملک میں نماز ادا كرنے میں كوئی ركاوٹ نہ ہو، جمعہ وعیدین میں كوئی پریشانی نہ ہو یا اذان جیسا كھلا اسلامی شعار بھی بحال رہے، پھر بھی وه دار دار الحرب ہے؛ كیوں كہ غلبہ كفر كا ہے، كفری آئین كی ماتحتی ہے، كفر اور اہل كفر كی اجازت سےبعض اسلامی امور ادا تو ہو جائیں گے، لیكن اس سے كوئی ملک دار الاسلام نہیں بنے گا، دلیل كا یہی فیصلہ ہے۔

اس بارے میں ہندوستان كے اور ایک روشن ضمیر عالم كا فتویٰ بھی دیكھ لیجیئے جنہوں نے اپنی آنكھوں سے وه منظر دیكھا جب ہندوستان رفتہ رفتہ دار الاسلام كی حیثیت كو كھو كر دار الحرب بنتا چلا جارہا تھا، وه ہیں مولانا عبد الحی بڈھانوی۔

مولانا عبد الحی بڈھانوی رحمۃ اللہ علیہ لكھتے ہیں:

’’عیسائیوں كی پوری سلطنت كلكتہ سے لے كر دہلی اور ہندوستان خاص کر ملحقہ ممالک (یعنی شمالی مغربی سرحدی صوبے)تک سب كی سب دار الحرب ہے؛ كیوں كہ كفر اور شرک ہر جگہ رواج پاچكا ہے، اور ہمارے شرعی قوانین كی كوئی پرواه نہیں كی جاتی۔ اور جس ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں وه دار الحرب ہے۔ یہاں ان تمام شرائط كا بیان كرنا طوالت كا باعث ہو گا جن كے ماتحت جملہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں كہ كلكتہ اور اس كے ملحقات دار الحرب ہیں‘‘۔
نقش حیات: خود نوشتہ سوانح، حسین أحمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، مطبوع دار الاشاعت، كراچی پاكستان ۲/۴۱۰۴۱۱، حاشیه نمبر۱

مولانابڈھانو ی رحمۃ اللہ علیہ كی اس عبارت پر پھر سے ذرا غور كیجئے جس میں گویا کہ شاه عبد العزیز دہلوی رحمۃ الله علیہ كی بات ہی كو دہرایا گیاہے، وه فرماتے ہیں کہ ’’اور ہمارے شرعی قوانین كی كوئی پرواه نہیں كی جاتی۔ اور جس ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں وه دار الحرب ہے‘‘۔ اس میں بھی بات وہی ہے جو ہم پہلے عرض كر رہے تھے، مولانا عبد الحی بڈھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان كو دار الحرب قرار دینے كے لیے جس سبب اور علت پر خاص طور پر روشنی ڈالی، وه یہ ہے كہ ہمارے شرعی قوانین كی كوئی پرواه نہیں كی جاتی۔

محترم قارئین سے ہماری درخواست ہے، آپ حضرات اس بات كو ذرا ذہن نشین كر لیجئے كہ ہمارے قوانین یعنی شریعتِ اسلامیہ كے قوانین كی جہاں كوئی پرواه نہیں، اسلامی قوانین كی جہاں كوئی حیثیت نہیں وه ملک كبھی دار الاسلام نہیں ہو سكتا، وه ضرور دار الحرب ہے۔ مجتہدینِ كرام نے یہی بات كہی، ہندوستان كے حالات كا مشاہده كرنے والے علمائے كرام نے بھی یہی بات كہی، اور اسی بناء پر اس برصغیر ہندوستان كو دار الحرب قرار دیا۔

بس اس متفق علیہ اصول وفتاوى كی بناء پر یہ ملک دار الحرب بنا اور دار الكفر قرار پایا، اسی بناء پر علمائے اسلام كی قیادت میں كفار كے خلاف مسلمان لڑتے رہے، اسی بناء پر علماء اور عام مسلمان الله كے راستے میں شہید اور غازی كا بابركت مرتبہ حاصل كرتے رہے، اسی بناء پرہجرت كا عمل چلتا رہا اور یہ سنت زنده ہوئی، اسی بناء پر جہاد كی ہر قسم كی تیاریاں چلتی رہیں، اسی بناء پر ہمارے مشائخ واكابر كی ہر خانقاه ایک ایک قلعہ كی حیثیت ركھتی تھی، اسی بناء پر قادیانی جیسے زندیقوں اور دوسرے بدعتی فرقوں كے ساتھ ہمارا اختلاف چلتا رہا، اور اسی بناء پر ہمارے اكابر ومشائخ ہم كو جہاد فی سبیل الله كی تعلیم دیتے رہے اور تلقین كرتے رہے۔

برصغیر ہندوستان اب بھی كیوں دار الحرب ہے؟

جن دو بنیادی باتوں كی بناء پر اور جن دو مركزی سبب وعلت كی وجہ سے برصغیر ہندوستان تقریباً دو سو برس پہلے دار الحرب اور دار الكفر بنا تھا، اب بھی اُسی سبب وعلت كی وجہ سے برصغیر ہندوستان دار الحرب اور دار الكفر ہے۔ برصغیر ہندوستان پر آج بھی كفار كا تسلط سو فیصد ہے، قانونی ادارے سو فیصد غیر شرعی اور كفری آئین كے ماتحت ہیں، شرعی قوانین كی كہیں كوئی پرواه نہیں کی جاتی؛ برصغیر كے اس ملک كا نام چاہے بھارت ہو، بنگلہ دیش ہو، اور چاہے اس ملك كا نام پاكستان ہو۔

بھارت:

اگر اس ملك كا نام بھارت ہے تو كتاب كی ہر بات اس ملک كے بارے میں واضح ہے، دار الحرب كا ہر وصف اس پر صادق آتا ہے۔ اس كے حكمران كافر ملعون ہیں، جس كے بارے میں كسی كا كوئی اختلاف نہیں، اس ملک كے آئینی ادارے سو فیصد غیر شرعی قوانین اور كفری آئین كے ماتحت ہیں، اس ملك میں شرعی قوانین كی كہیں بھی كوئی پرواه نہیں کی جاتی ۔ لہٰذا یہ ملک كتاب وسنت كی رو سے دار الحرب اور دار الكفر ہے، جو كسی بھی مسلمان سے مخفی نہیں، اور مخفی ہونے كی كوئی گنجائش بھی نہیں۔

بنگلہ دیش:

اور اگر اس ملک كا نام بنگلہ دیش ہے تو دار الحرب كے دو بنیادی اوصاف اس میں بالكل واضح طور پہ موجود ہیں۔ اس ملك پر كفار كا تسلط سو فیصد ہے، اس ملک كے قانونی ادارے سو فی صد غیرشرعی اور كفری قوانین كے ما تحت ہیں، اس ملک میں شرعی قوانین كی كہیں كوئی پرواه نہیں، لہٰذا یہ ملک كتاب وسنت كی رو سے دار الحرب اور دار الكفر ہے۔

بھارت اور بنگلہ دیش میں ایک لحاظ سے ذرا سا فرق ہے، وه فرق یہ ہےكہ بھارت كے حكمران خودكو غیر مسلم كہتے ہیں، مگر بنگلہ دیش كے حكمران اپنے آپ كو مسلمان ظاہر كرتے ہیں، بنگلہ دیش كے حكمرانوں كا دعوى ہےكہ وه مسلمان ہیں، عوام كو یہ باور كرانا چاہتے ہیں كہ وه صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلكہ وه اسلام كے خیرخواه ومخلص خادم ہیں۔ اس بارے میں مجھے دو باتیں عرض كرنی ہیں۔

پہلی بات یہ ہے كہ جب كوئی حكمران اپنے آپ كو مسلمان ظاہر كرے، لیكن ملک میں وه كفری آئین اور غیر شرعی قوانین کو نافذ کرے اور رواج دے، شرعی قوانین كے مقابلہ میں غیر شرعی قوانین كو ترجیح دے تو ایسا حكمران دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہی حکم بنگلہ دیش كے حكمران کا ہے، كیوں كہ وه غیرشرعی قوانین كو شرعی قوانین كے مقابلہ میں ترجیح دیتے ہیں، غیر شرعی قوانین پر چلنا ہر مسلمان پر واجب كرتے ہیں، شرعی قوانین پر چلنے كو قابلِ سزا جرم قرار دیتے ہیں، اور شرعی قوانین كو نافذ كرنے كے لیے احتجاج كرنے كو دستور كے خلاف شمار كرتے ہیں اور قابلِ سزا جرم قرار دیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے كہ، بالفرض اگر مان لیا جائے كہ بنگلہ دیش كے حكمران مسلمان ہیں، پھر بھی یہ ملک دار الحرب ہی ہے؛ كیوں كہ یہ حكمران یاتو مجبورِ محض ہیں، جس وجہ سے وه خود بھی غیر شرعی قوانین پر چلتے ہیں اوركروڑوں مسلمانوں كو غیر شرعی قوانین پر چلنے كے لیے مجبور كرتےہیں، اور جس حكمران كی یہ حالت ہو وه كالعدم ہے، جس كا نتیجہ یہ نكلتا ہے كہ اس ملک پر كفر كا تسلط سو فیصد ہے، تو كفر كا تسلط سو فیصد اور قوانین سو فیصد غیر شرعی ہونے كے بعد ملک کے دار الحرب نہ ہونے كی كوئی وجہ نہیں، اور دار الاسلام ہونے كی كوئی گنجائش نہیں۔
اور یا یہ حكمران مجبورِ محض نہیں، سو اگر مجبورِ محض نہیں تو وه خود مختار ہیں، اور خود مختار ہونے كی صورت میں خود مختار ہونے كی حیثیت سے جو خود غیر شرعی قوانین كو اپنے لیے قانون بناتا ہے، اور كروڑوں مسلمانوں كو اس غیر شرعی قوانین پر چلنے كے لیے مجبور كرتا ہے، وه علمائے اسلام کے اتفاق سے دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اور جب حاكم بھی دائرہ اسلام سےخارج ہوجائے اور قوانین بھی غیر شرعی ہوں، تو یہ دار اور یہ ملک دارالحرب نہ ہو ایسی كوئی صورت نہیں ہے۔
دار الحرب ہونے كی یہ اصولی باتیں ہوتے ہوئے ہزاروں صورتیں نكل سكتی ہیں، لیكن وه دار دار الحرب کے حکم سے خارج نہیں ہو سكتا۔ لہٰذا ملکِ بنگلہ دیش کے دار الحرب ہونے میں ہمیں كوئی شک نہیں۔

پاكستان:

اور اگر اس ملک كا نام پاكستان ہے تو دار الحرب کے مرکزی(اصولی) دو اوصاف اس میں بھی بالكل واضح طور پہ پائے جاتے ہیں۔ در حقیقت پاكستان اور بنگلہ دیش میں طرزِ حكمرانی اور اصولِ قانون سازی میں كوئی فرق نہیں۔ جتنا فرق ہے وه ہم ان شاء الله آگے بتائیں گے۔ پاكستان كے حكمرانوں كی ایمانی حالت كیا ہے؟ اسے سمجھنے كے لیے آپ بنگلہ دیش كے حكمرانوں کے حالات پر دوباره نظر ڈالیے۔ آپ پاكستان كے حكمرانوں کے حالات كا مطالعہ كریں گے تو آپ كے سامنے یہ حقیقت واضح طور پر اجاگر ہو جائے گی كہ ابتدائی حکمرانوں سے لے كر آج كل كے پرویز ، نواز، عمران تك…… کوئی حكمران، كوئی صدر اور كوئی وزیر اعظم ملك كے قوانین کے لیے شرعی قوانین كو ضروری نہیں سمجھتا، اور نہ پاكستان كا كوئی حكمران شرعی قوانین كو كفری قوانین پر ترجیح دیتا ہے۔

آپ اگر صفحاتِ تاریخ كو الٹنے كی ذرا ہمت کریں تو دیكھیں گے کہ قیامِ پاكستان سے لے كر آج تک كے ہر حكمران نے قرآن و حدیث كے شرعی قوانین كے مقابلہ میں قانونِ وضعی اور برٹش كے كفری قوانین ہی كو ترجیح دی، اوركروڑوں مسلمانانِ پاكستان كے لیے شرعی قوانین كے مقابلہ میں غیر شرعی قوانین كو (ہی) زیاده مفید اور مناسب سمجھا۔

آج كا یہ ملکِ پاكستان جب وجود میں آیا اس وقت سے لے كر آج تک وہاں شرعی قانون نافذ نہیں ہوا، آج بھی وضعی اور كفری قانون ہی، اپنی پوری آن بان اورشان کے ساتھ یہاں نافذ ہے۔ اپنی پوری طاقت اور جوش كے ساتھ وہاں كارگر ہے۔ یہ كیوں ہوا؟ اور كیسے ہوا؟
یا تو آپ یہ کہیں گے کہ پاكستان كے حكمران مجبورِ محض تھے اور اب بھی مجبورِ محض ہیں، یا یہ كہیں گے كہ وه خود مختار ہیں، جو بھی كہیں گے نتیجہ وہی نكلے گا جو آپ بنگلہ دیش كے حق میں ابھی دیكھ چكے ہیں۔

اس موقع پر آپ حضرات كو میں دوباره یاد كرانا (دلانا) چاہتا ہوں کہ برصغیر ہندوستان كو جب دار الحرب قرار دے كر (یہاں فرضیتِ جہاد وقتال کا) فتو ی دیا جا رہا تھا……اس وقت اس ملك كے تختِ حكمرانی پر مسلمان سلطان تشریف فرما تھے، پھر بھی دار الحرب ہونے كا فیصلہ ہو گیا تھا، وجہ یہی تھی كہ تسلط كفر كا تھا اور قوانین كفری اور غیرشرعی تھے۔

لہٰذا پاكستان كے موجودہ حكمران اگر بالفرض مجبورِ محض ہیں تو وه ان کے كالعدم ہونے اور سوفیصد کفر کے تسلط کی وجہ سے پاكستان دار الحرب ہے، اور اگر وه ان امور (شرعی اور غیرشرعی قوانین کے نفاذ) میں مختار ہیں تو وه دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ سو جب پاكستان كے حكمران بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوئے اور قوانین بھی غیر شرعی ہیں، تو لا محالہ یہ دار، دار الحرب ہے، اس میں تیسری كوئی صورت نہیں۔

دار الحرب ہونے کے اعتبار سے پاكستان اور بنگلہ دیش كے درمیان فرق

فقہائے مجتہدین نے کسی بھی ملک کے دارالحرب ہونے کے لیے، كتاب وسنت سے جو دو مركزی اور بنیادی شرطیں مستنبط کی ہے، وه دونوں شرطیں بنگلہ دیش اور پاكستان میں برابر پائی جاتی ہیں۔ فر ق صرف اتنا ہے كہ دستورِ پاكستان كے دیباچہ اور مقدمہ میں كچھ ایسی باتیں ہیں جو دستورِ بنگلہ دیش كے مقدمہ میں نہیں ہیں۔

ان باتوں كی تفصیل میں جانا ہمارا مقصد نہیں، البتہ بقدرِ ضرورت كچھ عرض كردیں گے ان شاء الله؛ تاکہ یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ دستورِپاکستان کے دیباچہ اورمقدمہ میں دستورِبنگلہ دیش سے زائد جو باتیں ہیں ان كی وجہ سے كوئی ملك، دار الاسلام نہیں بن سكتا، اور نہ ہی ان باتوں سے پاكستان كو دار الاسلام بنانا، اس كے حكمرانوں كا مقصد ہے۔

یہاں او پر كی اس عبارت میں ہم نے چھوٹے سے دو دعوے كیے؛

پہلا دعوی یہ ہے کہ دستورِپاکستان کے دیباچہ اورمقدمہ میں دستورِ بنگلہ دیش سے جو زائد باتیں ہیں، ان باتوں سے پاكستان دار الاسلام نہیں بن سكتا ۔

اور دوسرا دعوى یہ ہے کہ ان باتوں سے پاكستان كو دار الاسلام بنانا، پاكستان كے حكمرانوں كا مقصد بھی نہیں۔ ہمارے ان دونوں دعووں كے بارے میں تفصیلی باتیں كرنا اس مضمون میں ذرا مشكل ہے۔ بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ اس لیے مختصر طور پر غیر مرتب دو چار باتیں عرض كرتے ہیں :

  1. دستورِ پاكستان كےدیباچہ کی ان باتوں میں اس بات كا اعلان نہیں ہے کہ پاكستان كے آئینی ادارے قرآن و حدیث كے ماتحت چلیں گے۔

  2. ان باتوں میں اس بات كا اعلان نہیں ہے کہ پاكستان کی عدالت، شرعی قوانین كے ماتحت چلے گی ۔

  3. قیامِ پاكستان سے لے كر آج تک پاكستان میں ایک دن كے لیے بھی شرعی قانون نافذ نہیں ہوا۔

  4. قیامِ پاكستان سے لے كر آج تک مسلمانوں کی طرف سے شرعی قوانین كے نفاذ كے لیےاحتجاج جاری ہے، جس سے یہ حقیقت بار بار منظر عام پر آ چكی ہے کہ پاكستان كی عدالت اور پاكستان كے قوانین شرعی قوانین نہیں ہیں، وہاں كی عدالتوں میں قرآن وحدیث كی ماتحتی نہیں ہے۔

  5. پاكستان كے ابتدائی حکمرانوں نے شرعی قانون كو ملك كا قانون نہیں بنایا، پاكستان كے اكابر میں سے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے لے كر تمام اكابر پاكستان میں شرعی قوانین كو ملک میں قانونی حیثیت دینے كے لیے مسلسل احتجاج كرتے رہے، اور حكمرانوں کی طرف سے اس كا قولی اور عملی طور پر انكار بھی مسلسل ہوتا رہا۔

یہ امور اس بات كی كھلی دلیل ہیں كہ بنگلہ دیش اور پاكستان میں حكم كے اعتبار سے كوئی فرق نہیں، کسی ملک کے دار الحرب ہونے كے لیے جن اوصاف كا پایا جانا ضروری ہے، وه سب پاكستان میں موجود ہیں۔

سو دلیل کے اعتبارسے یہ بات بالكل واضح ہے کہ جن وجوه سے دو سو برس پہلے برّ صغیرہندوستان دار الحرب بنا تھا، انہی وجوه کی بنا ءپر یہ ملک آج بھی دار الحرب ہے، چاہے اس كا نام بھارت ہو، یا بنگلہ دیش ہو یا پھر پاكستان۔ اس ملک یعنی بر صغیر ہندوستان( یعنی بھارت، بنگلہ دیش اور پاكستان) کے دار الحرب بننے كے بعددار الاسلام بننے كا كوئی مرحلہ اس پر سے نہیں گزرا۔ كسی بھی دار الحرب کے دار الاسلام میں تبدیل ہونے كے لیے جو باتیں ضروری تھیں، وه اس خطہ ارض كو نصیب نہ ہوئیں۔

اب ہم ان مراحل كی مختصر كہانی آپ كے سامنے پیش کرتے ہیں جن سے یہ بر صغیر گذشتہ دوسو برس میں گزرا ہے؛ لیكن دار الاسلام بننے كا كوئی مرحلہ اس دوران نہیں آیا۔ ہزاروں تبدیلیاں ہوئیں؛ لیكن دار الاسلام ہونے كے لیے جو تبدیلی ضروری تھی، وه اس خطے کو نصیب نہ ہوئی۔ اگلے صفحات میں اسی كہانی کو ہم مختصرًا پیش كرتے ہیں۔ ا لله توفیق عطا فرمائے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Exit mobile version